Thursday, 18 July 2019

میں تمہاری مثل ہرگز نہیں ہوں اور آیت قل انّما انا بشر مّثلکم کی تشریح

میں تمہاری مثل ہرگز نہیں ہوں اور آیت قل انّما انا بشر مّثلکم کی تشریح

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما قَالَ: نَهَی رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم عَنِ الْوِصَالِ، قَالُوا: إِنَّکَ تُوَاصِلُ، قَالَ: إِنِّي لَسْتُ مِثْلَکُمْ إِنِّي أُطْعَمُ وَأُسْقَی.مُتَّفَقٌٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيُِّ.

ترجمہ : حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صومِ وِصال (سحری و اِفطاری کے بغیر مسلسل روزے رکھنے) سے منع فرمایا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ تو وصال کے روزے رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں ہرگز تمہاری مثل نہیں ہوں، مجھے تو (اپنے رب کے ہاں) کھلایا اور پلایا جاتا ہے۔

أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب: الصوم، باب: الوصال ومن قال: ليس فی اللّيلِ صيامٌ، 2/ 693، الرقم: 1861، ومسلم فی الصحيح، کتاب: الصيام، باب: النهی عن الوصال فی الصوم، 2/ 774، الرقم: 1102، وأبوداود فی السنن، کتاب: الصوم، باب: فی الوصال، 2/ 306، الرقم: 2360، والنسائی فی السنن الکبری، 2/ 241، الرقم: 3263، ومالک فی الموطأ، 1/ 300، الرقم: 667، وأحمد بن حنبل فی المسند، 2/ 102، الرقم: 5795، وابن حبان فی الصحيح، 8/ 341، الرقم: 3575، وابن أبی شيبة فی المصنف، 2/ 330، الرقم: 9587، وعبد الرزاق فی المصنف، 4/ 268، الرقم: 7755، والبيهقی فی السنن الکبری، 4/ 282، الرقم: 8157 ۔

قل انّما انا بشر مّثلکم کی تشریح

ترجمہ ، تفسیر ، تشریحاتِ سلف سورۃ الانبیاء آیت 3 تا 4 و سورت الکہف آیتان 109/110
سورۃ الانبیاء آیت ۴
اکثر اس آیت جو آپ ابھی ملاحظہ فرمائیں گے، کو لے کر غیرمقلدین خصوصاً اور دیوبندی جماعت عموماً یہ دعوے فرماتی رہتی ہیں کہ اس آیت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری طرح عام بشر فرمایا گیا ہے۔ لہٰذا صوفی حضرات اس پر اعتراض کیوں کرتے ہیں۔

جواب:سب سے پہلے تو یہ ذہن میں ڈال لیجئے کہ ہم اہلسنت وجماعت صوفیاء ہرگز یہ نہیں کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر نہیں ہیں۔ ہم کو اعتراض عام بشر کے مفہوم پر اور آپ کی خودساختہ دورِ جدید کی تاویلات پر ہے جو کہ سراسر قرآنی و صحابی تعلیمات کے بالکل الٹ اور متضاد ہیں۔ جبکہ ہم احناف و سنیوں کا عقیدہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف یہ کہ افضل البشر ہیں بلکہ آپ اصلیت کے لباس میں نورِ الٰہی ہیں جوکہ ہماری طرف بہ جسم انسانی یعنی بشر کی صورت میں مبعوث فرمائے گئے۔ کیونکہ آپ تو تب بھی موجود تھے جب آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام بلکہ کسی بھی مخلوق کی تخلیق نہیں ہوئی تھی۔ لہٰذا سب سے پہلے تو اسکو دل و دماغ میں واضح کرلیں کہ ہمارا عقیدہء سلف الصالحین کیا ہے۔ ہم کو اعتراض کی جگہ، انہیں خوارج کو تکلیف ہے کہ وہ بشر بھی مانتے ہیں لیکن گمراہی میں اپنے جیسا عام بشر سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے توہینِ رسالت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ذیل میں ہم تفصیلاً اس آیت پر اقوال صحابہ و سلف پیش کریں گے جس سے حقانیت بالکل واضح ہوجائے گی۔

آج ہم لفظ (بشر) پر تحقیق پیش کریں گے کہ شرعی طور پر اس لفظ کے کیا معنی ہیں اور لغات الاسلام کی کتب میں و اقوالِ محدثین و مفسرین کیا ہیں اس آیت کے بارے میں۔

آیت نمبر 4 سورہ الانبیاء قرآن حمید : هَلْ ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ

ترجمہ: کہ یہ کون ہیں ایک تم ہی جیسے آدمی تو ہیں (ف٦) ۔ترجمہ کنزالایمان شریف

ترجمہ وہابی عبدالرحمٰن کیلانی : کیا یہ تمہارے جیسا بشر [٤] ہی نہیں،

ترجمہ ضیاء القرآن ، پیرکرم شاہ الازھری دامت برکاتہم

(وہ کہتے ہیں ) کیا ہے یہ مگر ایک بشر تمھاری مانند

دیوبندی ترجمہ بیان القرآن، از اشرف علی تھانوی

(اور) ان کے دل متوجہ نہیں ہوتے اور یہ (لوگ یعنی ظالم اور کافر) (آپس میں) چپکے چپکے سرگوشی کرتے ہیں یہ (یعنی حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم ) محض تم جیسے ایک (معمولی) آدمی ہیں۔

اہلحدیث ترجمہ: حافظ عبدالسلام بھٹوی : اور ان لوگوں نے خفیہ سرگوشی کی جنھوں نے ظلم کیا تھا، یہ تم جیسے ایک بشر کے سوا ہے کیا ؟ تو کیا تم جادو کے پاس آتے ہو

ترجمہ ؛ دیوبندی مولوی عاشق الٰہی میرٹھی : اور جن لوگوں نے ظلم کیا انہوں نے چپکے چپکے سر گوشی کی کہ یہ شخص ا س کے سوا کچھ نہیں کہ تمہارے جیسا انسان ہے۔

ترجمہ، شیعہ ، علامہ جوادی : اور یہ ظالم اس طرح آپس میں راز و نیاز کی باتیں کیا کرتے ہیں کہ یہ بھی تو تمہارے ہی طرح کے ایک انسان ہیں

ترجمہ ، شاہ عبدالقادر (دیوبندی)۔اور چپکے مصلحت کی بے انصافوں نے، یہ شخص کون ہے؟ ایک آدمی ہے تم ہی سا

سلفی عبدالکریم اثری ترجمہ : اور ظلم کرنے والوں نے چپکے چپکے سرگوشیاں کیں، یہ ہماری ہی طرح کا ایک آدمی ہے؟

ترجمہ جمیعت : میاں محمد جمیل فہم القرآن : اور ظالم آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ یہ شخص تو تم جیسا ایک بشر ہے پھر کیا تم آنکھوں دیکھے جادو میں پھنس جاؤ گے

ترجمہ درمنثور دیوبندی / وہابی : جن لوگوں نے ظلم کیا انہوں نے چپکے چپکے سرگوشی کی کہ یہ شخص اس کے سوا کچھ نہیں کہ تمہارا جیسا انسان ہے۔

ترجمہ نیچری، احمد علی ندوی : اور ظالم پوشیدہ سرگوشیاں کرتے ہیں کہ یہ تمہاری طرح ایک انسان ہی تو ہے

ترجمہ ، وحید الدین خاں (وہابی)۔اور ظالموں نے آپس میں یہ سرگوشی کی کہ یہ شخص تو تمھارے ہی جیسا ایک آدمی ہے۔

وہابی ترجمہ دعوت القرآن از شمس پیرزادہ : اور یہ ظالم چپکے چپکے سرگوشی کرتے ہیں کہ یہ تم جیسا ہی تو ایک بشر ہے

ترجمہ دیوبندی، مفتی محمد شفیع از معارف القرآن : مصلحت کی بے انصافوں نے یہ شخص کون ہے ایک آدمی ہے تم ہی جیسا

تفسیرات
تفسیر خزائن العرفان از شیخ الحدیث نعیم الدین مراد آبادی

(ف4) اللہ کی یاد سے غافل ہیں ۔

(ف5) اور اس کے اخفاء میں بہت مبالغہ کیا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کا راز فاش کر دیا اور بیان فرما دیا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم کی نسبت یہ کہتے ہیں ۔

(ف6) یہ کفر کا ایک اصول تھا کہ جب یہ بات لوگوں کے ذہن نشین کر دی جائے گی کہ وہ تم جیسے بشر ہیں تو پھر کوئی ان پر ایمان نہ لائے گا ، حضور کے زمانہ کے کفار نے یہ بات کہی اور اس کو چھپایا لیکن آج کل کے بعض بےباک یہ کلمہ اعلان کے ساتھ کہتے ہیں اور نہیں شرماتے ، کفار یہ مقولہ کہتے وقت جانتے تھے کہ ان کی بات کسی کے دل میں جمے گی نہیں کیونکہ لوگ رات دن معجزات دیکھتے ہیں وہ کس طرح باور کر سکیں گے کہ حضور ہماری طرح بشر ہیں اس لئے انہوں نے معجزات کو جادو بتا دیا اور کہا ۔

تفسیر ضیاء القرآن ، پیر کرم شاہ الازھری

٤ف ہدایت کا آفتاب طلوع ہو چکا ہے۔ اس کی روشنی آہستہ آہستہ پھیلتی جا رہی ہے۔ وہ بڑی کوشش کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو اس فریب میں مبتلا رکھیں کہ ابھی سویرا نہیں ہوا۔ ابھی اندھیری رات ہے لیکن کہاں تک آئے دن کوئی نہ کوئی سعادت مند روح دعوت حق کو سن کر لبیک کہہ دیتی ہے۔ اسلام کے خلاف ان کے متحدہ محاذ میں جگہ جگہ خطرناک قسم کے رخنے اور شگاف نمودار ہو رہے ہیں۔ اس خطرہ کا تدارک کرنے کے لیے وہ ایک دوسرے سے خفیہ مشورے کرنے لگے ہیں۔ لوگوں کو اسلام سے بدظن کرنے کے لیے حیلے تراشے جاتے ہیں اور اعتراض گھڑے جاتے ہیں۔ ان کے نزدیک سنگین قسم کا اعتراض یہ ہے کہ یہ دین سچادین نہیں کیو نکہ اس کا داعی بالکل ہماری طرح بشر ہے۔ کھاتا ہے، پیتا ہے، سوتا ہے، جاگتا ہے۔ معاً ذہن میں یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی نے پوچھ لیا کہ یہ نبی نہیں تو اس سے معجزات کیوں صادر ہوتے ہیں اور اس کا کلام جسے وہ خدا کا کلام کہتا ہے اسے سن کر روح پر جذب و کیف کا عالم کیوں طاری ہو جاتا ہے اور اس کے جلال سے دل کیوں کانپ اٹھتے ہیں۔ اس خلش کا ازالہ وہ یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ یہ جادو ہے ۔کھلا جادو یہ سب معجزے جادو کا کرشمہ ہیں اور اس کلام کی تاثیر بھی سحر کی مرہوں منت ہے اس لیے ہمیں جان بوجھ کر اس جادو کا اتباع نہیں کرنا چاہیے۔ افتأتون السحرای تتبعونہ۔

یہاں ذرا ایک نحوی پیچیدگی ہے اس پر بھی غور فرما لیجئے۔ واسر والنجوی الذین ظلموا کے فقرہ میں اسروا فعل ہے نجوی مفعول اور الذین فاعل اور نحو کا قاعدہ یہ ہے کہ فاعل اگر اسم ظاہر ہوتو فعل واحد ہوتا ہے۔ اس قاعدے کے مطابق اسر النجویٰ ہونا چاہیے تھا۔ فاعل ظاہر ہونے کے باوجود اسروا جمع کا صیغہ کیوں استعمال کیا گیا اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اسروا میں واؤ ضمیر جمع نہیں بلکہ علامت جمع ہے تاکہ اسروا کا لفظ سنتے ہی سننے والے کو پتہ چل جائے کہ اس کا ایک فاعل نہیں بلکہ متعدد ہیں۔ دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ واؤ ضمیر جمع فاعل ہے اور الذین فاعل نہیں بلکہ واؤ کا بدل ہے ۔ اور واؤ مبدل منہ ہے جیسے ثم عموا وصموا کثیرھم میں گزر چکا ہے۔

تفسیر وہابی، تفسیرِ مکہ از صلاح الدین یوسف

یعنی نبی کا بشر ہونا ان کے لئے ناقابل قبول ہے پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ تم دیکھ نہیں رہے کہ یہ تو جادوگر ہے، تم اس کے جادو میں دیکھتے بھالتے کیوں پھنستے ہو ۔

تفسیر و ترجمہ مودودی تفہیم القرآن

دل ان کے ﴿ دوسری ہی فکروں میں﴾ منہمک ہیں ۔ اور ظالم آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ ” یہ شخص آخر تم جیسا ایک بشر ہی تو ہے، پھر کیا تم آنکھوں دیکھتے جادو کے پھندے میں پھنس جاؤ گے؟ ”

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :5

" پھنسے جاتے ہو " بھی ترجمہ ہو سکتا ہے ، اور دونوں ہی مطلب صحیح ہیں ۔ سرگوشیاں کفار مکہ کے وہ بڑے بڑے سردار آپس میں بیٹھ بیٹھ کر کیا کرتے تھے جن کو نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم کی دعوت کا مقابلہ کرنے کی بڑی فکر لاحق تھی وہ کہتے تھے یہ شخص بہرحال نبی تو ہو نہیں سکتا ، کیونکہ ہم ہی جیسا انسان ہے ، کھاتا ہے ، پیتا ہے ، بازاروں میں چلتا پھرتا ہے، بیوی بچے رکھتا ہے ۔ آخر اس میں وہ نرالی بات کیا ہے جو اس کو ہم سے ممتاز کرتی ہو اور ہماری بہ نسبت اس کو خدا سے ایک غیر معمولی تعلق کا مستحق بناتی ہو ؟ البتہ اس شخص کی باتوں میں اور اس کی شخصیت میں ایک جادو ہے کہ جو اس کی بات کان لگا کر سنتا ہے اور اس کے قریب جاتا ہے وہ اس کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔ اس لئے اگر اپنی خیر چاہتے ہو تو اس کی سنو اور نہ اس سے میل جول رکھو، کیونکہ اس کی باتیں سننا اور اس کے قریب جانا گویا آنکھوں دیکھتے جادو کے پھندے میں پھنسنا ہے ۔

جس چیز کی وجہ سے وہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم پر " سحر " کا الزام چسپاں کرتے تھے اس کی چند مثالیں آپ کے قدیم ترین سیرت نگار محمد بن اسحاق (متوفی 152 ھ) نے بیان کی ہیں ۔ وہ لکھتا ہے کہ ایک دفعہ عُتْبَہ بن رَبیعہ (ابو سفیان کے خسر، ہند جگر خور کے باپ) نے سرداران قریش سے کہا، اگر آپ لوگ پسند کریں تو میں جا کر محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم سے ملوں اور اسے سمجھانے کی کوشش کروں ۔ یہ حضرت حمزہ کے اسلام لانے کے بعد کا واقعہ ہے جب کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم کے صحابہ کی تعداد روز بروز بڑھتی دیکھ کر اکابر قریش سخت پریشان ہو رہے تھے ۔ لوگوں نے کہا ابو الولید، تم پر پورا اطمینان ہے، ضرور جا کر اس سے بات کرو ۔ وہ حضور ﷺ کے پاس پہنچا اور کہنے لگا، " بھتیجے، ہمارے ہاں تم کو جو عزت حاصل تھی، تم خود جانتے ہو، ور نسب میں بھی تم ایک شریف ترین گھرانے کے فرد ہو ۔ تم اپنی قوم پر یہ کیا مصیبت لے آئے ہو ؟ تم نے جماعت میں تفرقہ ڈال دیا۔ ساری قوم کو بے وقوف ٹھہرایا ۔ اس کے دین اور اس کے معبودوں کی برائی کی۔ باپ دادا جو مر چکے ہیں ان سب کو تم نے گمراہ اور کافر بنایا ۔ بھتیجے ، اگر ان باتوں سے تمہارا مقصد دنیا میں اپنی بڑائی قائم کرنا ہے تو آؤ ہم سب مل کر تم کو اتنا روپیہ دے دیتے ہیں کہ تم سب سے زیادہ مال دار ہو جاؤ ۔ سرداری چاہتے ہو تو ہم تمہیں سردار مانے لیتے ہیں ۔ بادشاہی چاہتے ہو تو بادشاہ بنا دیتے ہیں ۔ اور اگر تمہیں کوئی بیماری ہو گئی ہے جس کی وجہ سے تم کو واقعی سوتے یا جاگتے میں کچھ نظر آنے لگا ہے تو ہم سب مل کر بہترین طبیبوں سے تمہارا علاج کرائے دیتے ہیں ۔ " یہ باتیں وہ کرتا رہا اور نبی ﷺ خاموش سنتے رہے ۔ جب وہ خوب بول چکا تو آپ نے فرمایا " ابوالولید ، جو کچھ آپ کہنا چاہتے تھے کہہ چکے ہیں، یا اور کچھ کہنا ہے " ۔ اس نے کہا بس مجھے جو کچھ کہنا تھا میں نے کہہ دیا۔ آپ نے فرمایا اچھا اب میری سنو ۔ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْمِ ، حٰمٓ ، تَنْزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اس کے بعد کچھ دیر تک مسلسل آپ سورہ حٰم السجدہ کی تلاوت فرماتے رہے اور عتبہ پیچھے زمین پر ہاتھ ٹیکے غور سے سنتا رہا ۔ اڑتیسویں آیت پر پہنچ کر آپ نے سجدہ کیا، اور پھر سر اٹھا کر عتبہ سے فرمایا ، " ابو الولید ، جو کچھ مجھے کہنا تھا وہ آپ نے سن لیا ، اب آپ جانیں اور آپ کا کام۔ " عتبہ یہاں سے اٹھ کر سرداران قریش کی طرف پلٹا تو لوگوں نے دور سے ہی اس کو آتے دیکھ کر کہا " خدا کی قسم ، ابوالولید کا چہرا بدلا ہوا ہے ۔ یہ وہ صورت نہیں ہے جسے لے کر وہ گیا تھا۔ " اس کے پہنچتے ہی لوگوں نے سوال کیا، " کہو ابوالولید ، کیا کر آئے ہو " ؟ اس نے کہا " خدا کی قسم ، آج میں نے ایسا کلام سنا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہ سنا تھا۔ واللہ یہ شعر نہیں ہے، نہ سحر ہے اور نہ کہانت ۔ اے معشر قریش، میری بات مانو اور اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو ۔ اس کی باتیں جو میں نے سنی ہیں رنگ لا کر رہیں گی۔ اگر عرب اس پر غالب آ گئے تو اپنے بھائی کا خون تمہاری گردن پر نہ ہو گا، دوسروں پر ہو گا۔ اور اگر یہ عرب پر غالب آگیا تو اس کی حکومت تمہاری حکومت ہو گی۔ اور اس کی عزت تمہاری عزت " ۔ لوگوں نے کہا " واللہ، ابوالولید تم پر بھی اس کا جادو چل گیا۔ " اس نے کہا " یہ میری رائے ہے، اب تم جانو اور تمہارا کام " ۔ (ابن ہشام، جلد اول ، ص 313 ۔ 314)۔ بیہقی نے اس واقعہ کے متعلق جو روایات جمع کی ہیں ان میں سے ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ جب حضور ﷺ سورہ حٰم سجدہ کی تلاوت کرتے ہوئے اس آیت پر پہنچے کہ : فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُکُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صَاعِقَۃ عَادٍ وَّ ثَمُوْدٍ ، تو عتبہ نے بے اختیار آگے بڑھ کر آپ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہنے لگا کہ خدا کے لیے اپنی قوم پر رحم کرو ۔

دوسرا واقعہ ابن اسحاق نے یہ بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ قبیلہ اَرَاش کا ایک شخص کچھ اونٹ لے کر مکہ آیا ۔ ابو جہل نے اس کے اونٹ خرید لیے اور جب اس نے قیمت طلب کی تو ٹال مٹول کرنے لگا۔ اَرَشی نے تنگ آ کر ایک روز حرم کعبہ میں قریش کے سرداروں کو جا پکڑا اور مجمع عام میں فریاد شروع کر دی۔ دوسری طرف حرم کے ایک گوشے میں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تشریف فرما تھے ۔ سرداران قریش نے اس شخص سے کہا کہ " ہم کچھ نہیں کر سکتے ، دیکھو، وہ صاحب جو اس کونے میں بیٹھے ہیں، ان سے جا کر کہو، وہ تم کو تمہارا روپیہ دلوا دیں گے ۔ " اَرَشی نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم کی طرف چلا، اور قریش کے سرداروں نے آپس میں کہا " آج لطف آئے گا " ۔ اراشی نے جا کر حضور سے اپنی شکایت بیان کی ۔ آپ اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے ساتھ لے کر ابو جہل کے مکان کی طرف روانہ ہو گئے ۔ سرداروں نے پیچھے ایک آدمی لگا دیا کہ جو کچھ گزرے اس کی خبر لا کر دے ۔ ۔ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم سیدھے ابو جہل کے دروازے پر پہنچے اور کنڈی کھٹکھٹائی ۔ اس نے پوچھا " کون " ؟ آپ نے جواب دیا " محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم " وہ حیران ہو کر باہر نکل آیا۔ آپ نے اس سے کہا " اس شخص کا حق ادا کر دو ۔ " اس نے جواب میں کوئی چوں و چرا نہ کی، اندر گیا اور اس کے اونٹوں کی قیمت لا کر اس کے ہاتھ میں دے دی۔ قریش کا مخبر یہ حال دیکھ کر حرم کی طرف دوڑا اور سرداروں کو سارا ماجرا سنا دیا اور کہنے لگا کہ واللہ آج وہ عجیب معاملہ دیکھا ہے جو کبھی نہ دیکھا تھا، حَکَم بن ہشام (ابو جہل) جب نکلا ہے تو محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم کو دیکھتے ہی اس کا رنگ فق ہو گیا اور جب محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم نے اس سے کہا کہ اس کا حق ادا کر دو تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے حکم بن ہشام کے جسم میں جان نہیں ہے ۔ (ابن ہشام، جلد 2 ، ص 29 ۔30 ) ۔

یہ تھا شخصیت اور سیرت و کردار کا اثر اور وہ تھا کلام کا اثر ، جس کو وہ لوگ جادو قرار دیتے تھے اور ناواقف لوگوں کو یہ کہہ کہہ کر ڈراتے تھے کہ اس شخص کے پاس نہ جانا ورنہ جادو کر دے گا۔

ایک اور مشہور سلفی مولانا ڈاکڑ اسرار احمد نے ترجمہ وتفسیر میں لکھا ہےکہ :۔

ان کے دل کھیل کے خوگر ہو چکے ہیں اور یہ ظالم خفیہ طور پر سرگوشیاں کرتے ہیں کہ نہیں ہیں یہ (محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم) مگر تمہاری ہی طرح کے ایک انسان تو کیا تم جانتے بوجھتے جادو میں پڑنے جا رہے ہو

رسول اللہ سے کلام اللہ سن کر اگر ان کا کوئی ساتھی متاثر ہوتا تو اسے الگ لے جا کر بڑے ناصحانہ انداز میں سمجھاتے کہ ارے تم خواہ مخواہ اپنے جیسے ایک انسان کو اللہ کا رسول اور اس کی باتوں کو اللہ کا کلام سمجھ رہے ہو۔ اس کی باتوں پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

دیوبندی مولانا محمد شفیع اپنی تفسیر معارف القرآن میں لکھتے ہیں:۔

یعنی یہ لوگ آپس میں آہستہ آہستہ سرگوشی کر کے یہ کہتے ہیں کہ یہ جو اپنے کو نبی اور رسول کہتے ہیں یہ تو ہم جیسے ہی انسان ہیں کوئی فرشتہ تو ہیں نہیں کہ ہم ان کی بات مان لیں اور پھر اس کلام الٰہی کو جو ان کے سامنے پڑھا جاتا تھا اور اس کی حلاوت و بلاغت اور دلوں میں تاثیر کا کوئی کافر بھی انکار نہ کر سکتا تھا، اس سے لوگوں کو ہٹانے کی صورت یہ نکالی کہ اس کو سحر اور جادو قرار دیں اور پھر لوگوں کو اسلام سے روکنے کے لئے یہ کہیں کہ جب تم سمجھ گئے کہ یہ جادو ہے تو پھر ان کے پاس جانا اور یہ کلام سننا دانشمندی کے خلاف ہے شاید یہ گفتگو آپس میں آہستہ اس لئے کرتے تھے کہ مسلمان سن لیں گے تو ان کی احمقانہ تلبیس کا پول کھول دیں گے۔

سلفیوں کے ہی مولانا حافظ عبدالسلام بھٹوی لکھتے ہیں:۔

هَلْ ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ۔۔ : یعنی یہ کوئی فرشتہ نہیں ہے، بلکہ تمھاری طرح کا ایک انسان ہے، اب جو یہ معجزات دکھاتا ہے اور اس کلام کو سن کر لوگ گرویدہ ہو رہے ہیں تو یہ سب جادو ہے۔ کفار نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم کی نبوت پر دو طرح سے طعن کیا، ایک یہ کہ آپ بشر ہیں اور بشر نبی نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات کئی جگہ بیان فرمائی ہے، مثلاً دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۹٤)، تغابن (٦)، قمر (۲٤)، مومنون (۳۳، ۳٤)، فرقان (۷) اور ابراہیم (۱۰) پہلے کفار و مشرکین کہتے تھے کہ بشر نبی نہیں ہو سکتا، آج کل کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نبی بشر نہیں ہو سکتا، بات ایک ہی ہے، (بَلْ قَالُوْا مِثْلَ مَا قَالَ الْاَوَّلُوْن) [ المؤمنون : ۸۱ ] ’’بلکہ انھوں نے کہا جیسے پہلوں نے کہا تھا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے آگے اس کا رد فرمایا۔ دوسرا طعن یہ تھا کہ قرآن اللہ کا کلام نہیں بلکہ جادو ہے۔ کفار کا یہ طعن بھی اللہ تعالیٰ نے کئی جگہ ذکر فرمایا ہے، مثلاً دیکھیے سورۂ مدثر (۲٤) اور ذاریات (۵۲)۔

ایک اور سلفی مولانا سیف اللہ خالد اپنی تفسیر دعوۃ القرآن میں لکھ رہےہیں؛۔

کفار مکہ کا خیال تھا کہ اللہ کا رسول کوئی فرشتہ ہی ہو سکتا ہے، اس لیے اگر کوئی آدمی نبوت کا دعویٰ کرے گا اور اپنی صداقت کی دلیل پر کوئی معجزہ پیش کرے گا، تو وہ جادوگر ہو گا اور اس کا معجزہ دراصل جادو ہو گا۔ اسی لیے انھوں نے لوگوں کو اسلام سے دور رکھنے کے لیے آپس میں سرگوشی کی اور پھر لوگوں سے کہا کہ محمد ﷺ تمھارے ہی جیسا انسان ہے اور اس کی باتیں جادو کے قبیل سے ہیں، پھر تم لوگ کیوں اس کی پیروی کرتے ہو؟

میاں محمد جمیل جماعتی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں؛۔

اسی بناء پر انھوں نے اپنی خفیہ مجالس میں پوری راز داری کے ساتھ ایک منظم پراپیگنڈہ کا فیصلہ کیا جس کے پیش نظر وہ لوگوں کو کہتے کہ محمد یوں ہی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے ۔ حالانکہ ہمارے جیسا انسان ہے اس میں کوئی خاص خوبی نہیں ہے ۔ وہ یہ کہہ کر بھی لوگوں کو متنفرکرتے کہ لوگو! کیا تم جیتے جاگتے اور اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے اس کے جادو میں مبتلا ہو جاؤ گے ۔ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ جادو کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ جادوگر پیٹ کے دھندے کی خاطر نہ صرف الٹے سیدھے کرتب دکھاتا ہے بلکہ اسے جادو کرنے کے لیے دانستہ طور پر گندا اور ناپاک رہنا پڑتا ہے

الغرض آپ کسی بھی صحیح تفسیر کو اٹھا کر دیکھ لیں اس میں یہی ثابت ہوگا کہ یہ کفار کا طریقہ تھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طرح ایک عام بشر کہتے اور سمجھتے تھے اسی پر وعید بھی آئی۔ اور آج انہیں مشرکینِ مکہ کے پیروکار (وہابی، سلفی، اہلحدیث، دیوبندی) کا بھی یہی عقیدہ اور ایمان ہے۔ اب ہم ذیل میں مفصل تفسیرات اور معانی اصل علمائے اہلسنت وجماعت اور اکابرین سے پیش کرتے ہیں۔

تفسیر آیت سورہ الکہف 110۔ پارہ 16

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: آپ کہیئے کہ میں (خدا نہ ہونے میں) تمہاری ہی مثل بشر ہوں میری طرف یہی وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا ایک خدا ہے، سو جو شخص اپنے رب سے ملاقات کی توقع رکھتا ہے اس کو چاہیئے کہ وہ نیک عمل کرتا رہے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔ (الکہف آیت 110)۔ پارہ 16

قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّمَآ اِلٰـــهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ

تراجم

ترجمہ و تفسیر از دیوبندی مولانا شفیع در معارف القرآن

تو کہہ میں بھی ایک آدمی ہوں جیسے تم

اس آیت کی شان نزول کچھ یوں لکھی ہے؛۔

قولہ تعالی : فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّهٖ)

ترجمہ۔ تو جو شخص اپنے پرودگار سے ملنے کی امید رکھے چاہیے کہ عمل نیک کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ آیت جندب بن زہیر غامدی کے بارے میں نازل ہوئی انہوں نے کہا کہ میں خالص اللہ کے لیے عمل کرتا ہوں لیکن کوئی میرے عمل پر مطلع ہو جائے تو مجھے اس سے خوشی ہوتی ہے رسول اللہ نے فرمایا بے شک اللہ پاک ہے اور پاکیزہ عمل ہی کو قبول کرتا ہے جس عمل میں ریا ہو اسے قبول نہیں کرتا اس موقع پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (قرطبی11۔69)

طاؤس کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا اے نبی اللہ میں اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ناپسند کرتا ہوں اور مجھے یہ بھی پسند ہے کہ (لوگوں) کو میرا درجہ معلوم ہو؟ تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی (طبری16۔32)

مجاہد کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی کی خدمت میں آیا اور کہا میں صدقہ کرتا ہوں اور صلہ رحمی کرتا ہوں اور میں یہ کام صرف اللہ کی رضا کے لیے کرتا ہوں لیکن جب میرا اس حوالے سے تذکرہ کیا جاتا ہے اور میری تعریف کی جاتی ہے تو اس سے مجھے خوشی ہوتی ہے اور میں اسے پسند بھی کرتا ہوں رسول اللہ خاموش رہے اور کوئی تعریفی کلمہ نہ کہا اس موقع پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّهٖ) (نیسابوری251، سیوطی178، ابن کثیر3۔108)

سنی ترجمہ و تفسیر از کنز الایمان شریف و تفسیر نعیم الدین مرادآبادی

تو فرماؤ ظاہر صورت بشری میں تو میں تم جیسا ہوں (ف۲۲۲) مجھے وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے

تفسیر

کہ مجھ پر بشری اعراض و امراض طاری ہوتے ہیں اور صورت خاصّہ میں کوئی بھی آپ کا مثل نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حسن و صورت میں بھی سب سے اعلٰی و بالا کیا اور حقیقت و روح و باطن کے اعتبار سے تو تمام انبیاء اوصاف بشر سے اعلٰی ہیں جیسا کہ شفاءِ قاضی عیاض میں ہے اور شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مشکوٰۃ میں فرمایا کہ انبیاء علیہم السلام کے اجسام و ظواہر تو حدِّ بشریت پر چھوڑے گئے اور ان کے ارواح و بواطن بشریت سے بالا اور ملاءِ اعلٰی سے متعلق ہیں ۔ شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سورہ والضحٰی کی تفسیر میں فرمایا کہ آپ کی بشریت کا وجود اصلاً نہ رہے اور غلبہ انوارِحق آپ پر علی الدوام حاصل ہو بہرحال آپ کی ذات و کمالات میں آپ کا کوئی بھی مثل نہیں ۔ اس آیت کریمہ میں آپ کو اپنی ظاہری صورت بشریّہ کے بیان کا اظہار تواضع کے لئے حکم فرمایا گیا ، یہی فرمایا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے ۔ (خازن)

مسئلہ : کسی کو جائز نہیں کہ حضورکو اپنے مثل بشر کہے کیونکہ جو کلمات اصحاب عزت و عظمت بہ طریق تواضع فرماتے ہیں ان کا کہنا دوسروں کے لئے روا نہیں ہوتا ، دوئم یہ کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے فضائلِ جلیلہ و مراتبِ رفیعہ عطا فرمائے ہوں اس کے ان فضائل و مراتب کا ذکر چھوڑ کر ایسے وصف عام سے ذکر کرنا جو ہر کہ و مِہ میں پایا جائے ان کمالات کے نہ ماننے کا مُشعِر ہے ، سویم یہ کہ قرآن کریم میں جا بجا کفار کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ وہ انبیاء کو اپنے مثل بشرکہتے تھے اور اسی سے گمراہی میں مبتلا ہوئے پھر اس کے بعد آیت یُوْحٰۤی اِلَیَّ میں حضور سید عالم ﷺ کے مخصوص بالعلم اور مکرّم عنداللہ ہونے کا بیان ہے ۔ اس کا کوئی شریک نہیں ۔

وہابی ترجمہ درمنثور

آپ فرمایا دیجئے کہ میں تو بشرہی ہوں تمہارے جیسا میری طرف یہ وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود

۱:۔ ابن منذر ، ابن ابی حاتم ، ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب میں ابن عباس ؓ سے (آیت )’’ فمن کان یرجوا لقآء ربہ ‘‘کے بارے میں روایت کیا کہ یہ مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسرے معبودوں کی بھی عبادت کرتے تھے اور یہ ایمان والوں کے بارے میں نہیں ہے ۔

اللہ تعالیٰ سے اچھی امید رکھنا چاہئے :

۲:۔ عبدالرزاق ، ابن ابی دنیا نے اخلاص میں طبرانی اور حاکم نے طاؤس رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے نبی میں موقف حج میں ٹھہرتا ہوں اور اللہ کی رضا مندی کو چاہتا ہوں اور میں یہ بھی پسند کرتا ہوں کہ میرے یہاں ٹھہرنے کو دیکھا جائے (یعنی لوگ مجھے دیکھ لیں ) آپ نے اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی (آیت )’’ فمن کان یرجوا لقآء ربہ فلیعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا‘‘۔

حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے اور بیہقی نے طاؤس سے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے موصولا روایت کیا ہے۔

۳:۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ مسلمانوں میں سے جو (کافروں سے ) لڑتا تھا اور وہ یہ بات پسند کرتا تھا کہ اس کے جہاد کو دیکھا جائے (یعنی لوگ دیکھ کر خوش ہوں ) تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری (آیت )’’ فمن کان یرجوا لقآء ربہ ‘‘ ۔

سنی تفسیر ضیاء القرآن

اللہ تعالیٰ کی ذات بے ہمتا کا ادراک انسان کے بس کا روگ نہیں نہ اس کے ظاہری حواس میں یہ تاب ہے اور نہ اس کے باطنی حواس میں یہ قوت ہے کہ اس کی حقیقت کو پہچان سکیں۔ عقل انسانی اپنی ترکتازیوں اور بلند پروازیوں کے باوجود اس کی عظمتوں کے سامنے سرنگوں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت کا بجز اس کے اور کوئی طریقہ نہیں کہ ان آیات بینات میں غور وفکر کیا جائے جہاں اس کی قدرت ، عظمت، حکمت و کبریائی کے جلوے چمک رہے ہیں۔ ان آیات میں کہاں پانی کا قطرہ، ریت کا ذرہ، درخت کا پتہ، زمین کی رنگین وسعتیں، آسمانوں کی ہوش ربا رفعتیں ، مہروماہ کی خیرہ کن ضیاپاشیاں ہیں وہاں نبی کی ذات بھی ایک ایسا آئینہ ہوتی ہے جہاں دیدہ بینا کو قدرت الٰہی کے ایسے جلوے نظر آتے ہیں جو اور کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ خصوصاً وہ ذات اقدس و اطہر جو تجلیات احسانیہ اور انوار رحمانیہ کی ایسی تجلی گاہ ہے کہ عرش عظیم کو بھی اس سے کوئی نسبت نہیں۔ جس کسی کے نیاز آگیں دل اور محبت بھری آنکھوں نے حسن مصطفویٰ کو جتنا جانا، جس قدر پہچانا اور جس قدر چاہا اتنا ہی عرفان خداوندی نصیب ہوا۔

لیکن ہر انسان کا مزاج یکساں نہیں ہوتا۔ بعض لوگ اتنا اکھڑ اور بددماغ ہوتے ہیں کہ وہ حسن و جمال کے ان پیکروں کے لیے اپنے دل میں قطعاً کوئی کشش محسوس نہیں کرتے بلکہ ان سے نفرت کرتے ہیں ۔ اور انہیں حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ان کے برعکس بعض طبیعتیں اتنی غلط اندیش اور ان کی عقلیں اتنی اوندھی ہوتی ہیں کہ جہاں کہیں کمال کی ذرا سی جھلک دیکھی۔ اسے اپنا معبود اور خدا بنا لیا اور اس کے سامنے سربسجود ہوگئے۔ یہودیوں نے حضرت عزیر کو فقط اس لیے خدا کا بیٹا کہنا شروع کر دیا کہ انہیں توراۃ نوک بر زبان تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے چند معجزات دکھائے تو لوگوں نے انہیں کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا۔ اس غلط فہمی کا سدباب کرنے کے لیے ہر نبی نے جہاں اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دی اور اس کی صداقت ثابت کرنے کے لیے اپنے خدادا و کمال کا اظہار فرمایا وہاں کھلے اور واضح انداز میں یہ تصریح بھی کر دی کہ وہ بایں ہمہ کمال و خوبی خدا نہیں بلکہ خدا کے بندے ہیں۔ خالق نہیں بلکہ مخلوق ہیں ۔ معبود نہیں بلکہ عابد ہیں۔ جب جزوی کمالات سے ایسی غلط فہمیاں پیدا ہوں جن کی گرفت میں آج بھی بے شمار لوگ پھڑک رہے ہیں تو وہ ذات اقدس جو جمال و کمال کا مظہر اتم بنائی گئی اس کے متعلق طرح طرح کی غلط فہمیوں کا پیدا ہونا بعید ازقیاس نہ تھا۔ اس لیے ضروری ہوا کہ اس غلط فہمی کے سارے امکانات ختم کر دئیے جائیں ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو تما م کمالات سے علی وجہ الاتم متصف کرنے کے باوجود اس آیت میں یہ اعلان کرنے کا حکم دیا قل انما انا بشر مثلکم یوحی الی انما الہکم الہ واحد۔

علمائے سلف نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اظہار تواضع کے لیے یہ اعلان کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ اس فتنے کو روز اول سے ہی ختم کر دیا جائے۔ علامہ ثناء اللہ پانی پتی حضرت ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں۔ قال ابن عباس علم اللہ تعالیٰ عزوجل رسولہ التواضع لئلا یزہی علی خلقہ ...... قلت فیہ سد لباب الفتنۃ افتتن بھا النصاری حین رأوا عیسیٰ یبری الاکمہ والابرص ویحی الموتیٰ وقد اعطی اللہ تعالیٰ لنبینا من المعجزات اضعاف ما اعطی عیسیٰ علیہ السلام فامرہ باقرار العبودیۃ وتوحید الباری لاشریک لہ۔

صاحب کمال کا اظہار تواضع بھی اس کا کمال ہوتا ہے لیکن بعض کج فہم اور حقیقت ناشناس لوگ اس آیت کو کمالات نبوت کے انکار کی دلیل بناتے ہیں۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں نبی مکرم رسول معظم ﷺ کی شان رفیع کے متعلق کچھ بتایا جائے۔

ایک روز صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ متی وجبت لک النبوۃ حضو رآپ کو خلعت نبو ۃ سے کب سرفرا زفرمایا گیا؟ حضور نے جواب میں ارشاد فرمایادآدم بین الروح والجسد مجھے اس وقت شرف نبو ۃ سے مشرف کیا گیا جب کہ آدم علیہ السلام کی نہ ابھی روح بنی تھی اور نہ جسم (دواہ التر مذی وصححہ وقال انہ حسن غریب )بنوت صفت ہے اور موصوف کا صفت پایا جانا ضروری ہے۔ اب خودہی فیصلہ فرمایئے جو موصوف اپنی صفت نبوت سے متصف ہوکر آدم علیہ السلا م سے پہلے موجود تھا اس کی حقیقت کیا تھی ۔ابن تیمیہ وغیرہ نے یہ کہا ہے کہ کنت نبیا وآدم بین الماء والطین اور کنت نبیا ولا آدم ولاماء ولا طین لا اصل لھما۔کہ ان دو حد ثیوں کا کوئی اصل نہیں ہے۔ علامہ خفاجی ابن تیمیہ کارد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان حدثیوں کو موضوع یابے اصل کہنا درست نہیں کیونکہ امام تر مذی کی روایت کردہ حدیث بلا شبہ صحیح ہے ۔اور یہ دونوں روائتیں اس کی ہم معنی ہیں۔ اس لیے ان کو موضوع کہنا کیونکر درست ہو سکتا ہے جبکہ روایت بالمعنی محدثین کے نزدیک جائز ہے۔ اس حدیث کا یہ مطلب بھی نہیں کہ میں تخلیق آدم سے پہلے علم الٰہی میں نبی تھا۔ کیونکہ اس میں پھر حضور ﷺ کی کوئی خصوصیت نہ ہوگی بلکہ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام ارواح سے پہلے اپنے حبیب کی روح کو پیدا فرمایا۔ اور اسی وقت خلعت نبوہ سے سرفراز کیا اور ملأ اعلیٰ کو اس حقیقت پر آگاہ کر دیا بل ان اللہ خلق روحۃ قبل سائر الارواح دخلع علیہا خلعۃ التشریف بالنبوۃ اعلاما للملأ الاعلیٰ بہ چنانچہ ایک دوسری روایت میں ہے یسبح ذلک النور وتسبح الملائخۃ بتسبیحہ کہ نور محمدی ﷺ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کہتا اور سارے فرشتے حضور ﷺ کی تسبیح سن کر اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتے ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:۔

گر نہ خورشید جمال یارگشتے راہ نماں ازشب تاریک غفلت کس نبردے راہ بروں

ابن قطان نے اپنی کتاب ’الاحکام‘ میں حضرت امام علی زین العابدین سے انہوں نے اپنے پدر بزرگوار حضرت سیدنا امام حسین سے انہوں نے ان کے جدامجد حضرت سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجوہہم سے حضور سرور عالم ﷺ کا ارشاد گرامی نقل کیاہے قال کنت نوراً بین یدی ربی قبل خلق آدم باربعۃ عشر الف عام یعنی میں نور تھا اور آدم علیہ السلام کی آفرینش سے چودہ ہزار سال پہلے اپنے رب کریم کے حریم ناز میں باریاب تھا۔

اس حدیث کے آخری تین راوی ائمہ اہل بیت سے ہیں۔ ان کا علم و فہم اور تقویٰ کسی کی توثیق کا محتاج نہیں۔ البتہ ابن قطان کے متعلق علماء جرح و تعدیل کی رائے بیان کرنا ضروری ہے تاکہ حدیث کی صحت کے متعلق کسی کو شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے۔ علامہ زرقانی ان کے متعلق لکھتے ہیں الحافظ الناقد ابو الحسن علی بن محمد ابن عبد الملک االحمیری۔ کان من ابصر الناس بصناعۃ الحدیث واحفظہم الاسماء دجالہ واشدھم عنایۃ فی الروایۃ معروفا بالحفظ والاتقان (زرقانی علی المواہب اللدنیہ جلد اول ص ٤۸)

یہ حافظ اور نقاد حدیث تھے۔ ان کا نام ابو الحسن علی بن محمد ہے۔ فن حدیث میں ان کی بصیرت اپنے ہمعصر لوگوں سے زیادہ تھی۔ وہ اسماء الرجال کے حافظہ تھے۔ روایت میں وہ انتہا درجہ کی احتیاط برتا کرتے ۔ وہ اپنے حفظ اور اتقان کے باعث مشہور و معروف تھے۔

حضرت جابر نے حضور فخر موجودات علیہ افضل الصلوٰۃ واطیب التحیات سے پوچھا یا رسول اللہ بابی انت وامی اخبرنی عن اول شیء خلقہ اللہ تعالیٰ قبل الاشیاء قال یا جابر ان اللہ تعالیٰ قدخلق قبل الاشیاء نور نبیک۔(رواہ عبد الرزاق بسندہ) یعنی حضرت جابر نے عرض کی یا رسول اللہ میرے ماں باپ حضور پر قربان ہوں۔ مجھے یہ بتائیے کہ اللہ تعالیٰ نے سب چیزوں سے پہلے کونسی چیز پیدا کی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم نے فرمایا اے جابر اللہ تعالیٰ نے سب چیزوں سے پہلے تیرے نبی کا نور پیدا کیا۔ ان صحیح احادیث (جن کی تصحیح اور توثیق مولانا تھانوی نے نشر الطیب میں کی ہے) سے ثابت ہوتا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم کی ذات ولا صفات عالم امکان میں سب سے مقدم ہے۔ آدم و ابراہیم بلکہ عرش و کرسی سے بھی بہت پہلے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم کی دیگر صفات کی طرح نبوت و بشریت حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم کی صفتیں ہیں۔ اہل معرفت کی اصلاح میں اسی نور کی حقیقت محمدیہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم کہا جاتا ہے۔ اور حقیقت محمدیہ حقیقۃ الحقائق ہے۔ وبھذا الاعتبار سمی المصطفیٰ بنور الانوار وباب الارواح (زرقانی) یعنی اسی وجہ سے حضور کو نور الانوار اور تمام ارواح کا باپ کہا جاتا ہے۔ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم

یہ مسئلہ بڑا نازک ہے۔ مجھ جیسے کم علم کو یہ زیبا نہیں کہ میں اس میں اپنی خیال آرائی کو دخل دوں۔ بہتر یہی ہے کہ ان نفوس قدسیہ کی تحقیقات ہدیہ ناظرین کرنے پر اکتفا کروں جن کا علم و تقویٰ اہل شریعت و اہل طریقت دونوں کے نزدیک مسلم ہے اور جن کا قول ساری امت کے نزدیک حجت ہے۔ اس لیے میں حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات کا ایک اقتباس نقل کر رہا ہوں۔ شاید جلوہ حسن محمدی کی جھلک دیکھ کر کوئی چشم اشکبار مسکرا دے۔ کسی کے دل بے قرار کو قرار آجائے۔ آپ لکھتے ہیں:۔

’’جاننا چاہیے کہ پیدائش محمدی تمام افراد انسان کی یدائش کی طرح نہیں بلکہ افراد عالم میں سے کسی فرد کی پیدائش کے ساتھ نسبت نہیں رکھتی۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم باوجود عنصری پیدائش کے حق تعالیٰ کے نور سے پیدا ہوئے ہیں۔ جیسے کہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم نے فرمایا ہے خلقت من نور اللہ کشف صریح سے معلوم ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم کی پیدائش اس امکان سے پیدا ہوئی ہے جو صفات اضافیہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور نہ کہ اس امکان سے جو تمام ممکنات عالم میں ثابت ہے۔ ممکنات عالم کے صحیفہ کو خواہ کتنا ہی باریک نظر سے مطالعہ کیا جائے لیکن آنحضرت کا وجود مشہود نہیں ہوتا۔ بلکہ ان کی خلقت و امکان کا منشأ عالم ممکنات میں ہے ہی نہیں۔ کیونکہ اس عا لم سے برتر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا سایہ نہ تھا نیز عالم شہادت میں ہر ایک شخص کا سایہ اس کے وجود کی نسبت زیادہ لطیف ہوتا ہے اور جب جہان میں ان سے لطیف کوئی نہیں تو پھر ان کا سایہ کیسے متصور ہو سکتا ہے‘‘۔ (دفتر سوم ترجمہ مکتوب نمبر ۱۰۰ ص ٦٦٦)

اس میں کوئی شک نہیں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم صفت بشریت سے متصف ہیں اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم کی بشریت کا مطلقاً انکار غلط، سرتاپا غلط ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم کو بشر کہنا درست ہے یا نہیں۔ جملہ اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم پرنور کی تعظیم و تکریم فرض عین ہے اور ادنیٰ سی بے ادبی سے ایمان سلب ہو جاتا ہے اور اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔ ارشاد الٰہی ہے وتعزروہ وتوقروہ اب دیکھنا یہ ہے کہ بشر کہنے میں تعظیم ہے یا تنقیص ،ادب واحترام ہے یا سوء ادبی ۔پہلی صورت میں بشر کہنا جائز ہوگا ۔اور دوسری میں ناجائز۔ مہر سپہر علم وعرفان حضرت پیر مہر عالی شاہ صاحب نور اللہ مرقدہ نے اس عقدہ کا جو حل پیش کیا ہے اس کے مطالعہ ے بعد کوئی اشتباہ نہیں رہتا۔ آپ کے ارشاد کا خلاصہ یہ ہے کہ لفظ بشر مفہوماً اور مصداقاً متضمن بکمال ہے کیونکہ آدم علیہ السلام کو بشر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے دست قدرت سے پیداا فرمایا۔ ارشاد باری ہے: مامنعک ان لا تسجد لما خلقت بیدی (اے ابلیس جس کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا اس کو سجدہ کرنے سے تجھے کس نے روکا) کیونکہ اس پیکر خاکی کو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ لگنے کی عزت نصب ہوئی۔ اس لیے اسے بشر کہا گیا ہے۔ اس خاک کے پتلے کی اس سے بڑھ کر عزت افزائی کیا ہوسکتی ہے نیز یہی بشر ہے جو آپ کے الفاظ میں کمال استجلاء کے لیے مظہر بنایا گیا ہے اور ملائکہ بوجہ نقص مظہریت کمال سے محروم ٹھہرے۔ یہ دونوں چیزیں اگر ذہن نشین ہوں تو بشر کہنا عین تعظیم و تکریم ہے (مگر چونکہ اس کمال تک ہر کس و ناکس سوائے اہل تحقیق و اہل عرفان رسائی نہیں رکھتا لہٰذا اطلاق لفظ بشر میں خواص بلکہ اخص الخواص کا حکم عوام سے علیحدہ ہے ۔ خواص کے لیے جائز اور عوام کے لیے بغیر زیادت لفظ دال بر تعظیم ناجائز ہے‘‘۔ (فتاوی مہر یہ ص ۱۰ مطبعہ ۱۹٦۲ء)

۱۲۵ غور طلب بات یہ ہے کہ یہ مماثلت کس چیز میں ہے۔ مراتب و درجات وہبی ہوں یا کسبی، کمالات علمی ہوں یا عملی، عادات و خصائل روح پر نور بلکہ جسم عنصری تک میں کسی کو مماثلت تو کہا ادنیٰ مناسبت بھی نہیں۔ پھر یہ مماثلت جس کا ذکر اس آیت میں ہے کونسی ہے اور کہاں پائی جاتی ہے۔ یقیناًصرف ایک بات میں مماثلت ہے وہ یہ ہے کہ انہ لا الہ الا ھو وہ بھی ایک خدائے وحدہ لاشریک کا بندہ ہے جس کے تم بندے ہو اس کا بھی وہی خالق و مالک ہے جو تمہارا خالق و مالک ہے۔

۱۲٦ عمل کی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ وہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا جائے۔ جہاں ریا آگئی وہ عمل ضائع ہوگیا۔ حضرت شداد بن اوس سے مروی ہے۔ فانی سمعت رسول اللہ یقول من صلی براء ی فقد اشرک ومن سام یراء ی فقد اشرک ومن تصدق یراء ی فقد اشرک۔

یعنی جس نے ریاکاری سے نماز پڑھی اس نے شرک کیا۔ جس نے ریا کاری سے روزہ رکھا اس نے شرک کیا۔ جس نے ریاکاری سے صدقہ دیا اس نے شرک کیا۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں انہیں شداد سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ ایک دفعہ حضرت شداد رونے لگے۔ رونے کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے جواب دیا کہ میں نے حضور سرور عالم ﷺ سے ایک بات سنی تھی جس نے مجھے رلا دیا۔ میں نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے سنا اتخوف علی امتی الشرک والشھوۃ الخفیۃ۔ کہ مجھے اندیشہ ہے کہ میری امت شرک اور شہوت خفیہ میں مبتلا ہو جائے۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ اتشرک امتک من بعدک۔ کیا حضور کی امت حضور کے بعد شرک کرنے لگے گی؟ قال نعم اما انھم لایعبدون شمسا ولا قمر اولا حجر اولاوثنا۔ ولکن یراء ون باعمالہم حضور نے فرمایا ہاں۔ لیکن وہ سورج چاند کی پوجا نہیں کریں گے ۔ اور نہ کسی پتھر اور بت کی عبادت کریں گے ، بلکہ وہ لوگوں کو دکھانے کے لیے عمل کریں گے۔ ان احادیث سے واضح ہوا کہ کوئی کام خواہ کتنا نیک اور عمدہ ہو اگر اس میں ریا اور نمود آجائے گی تو بارگاہ رب العالمین میں وہ قطعاً منظور نہیں ہوگا۔ وہاں تو وہی عمل مقبول ہوتا ہے جس سے فقط اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی مطلوب ہو۔ ریا سے بچنا بڑی مشکل بات ہے۔ نفس کی انگیختہ اور شیطان کی وسوسہ اندازی سے محفوظ رہنا بڑی ہمت اور حوصلہ کا کام ہے۔ ہر کس و ناکس میں یہ ہمت و عزم کہاں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے رسول کریم نے ہماری کمزوریوں پر رحم فرماتے ہوئے ہمیں ایسا طریقہ بھی تعلیم کر دیا جس کے ذریعے ہم شیطان کی شر انگیزی سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ حضرت صدیقی اکبر رضی اللہ تعالیٰ سے مروی ہے کہ حضور کریم نے شرک کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:۔

ھوفیکم اخفی من دبیب النمل وسادلک علی شیء اذا فعلتہ اذھب عنک صغار الشرک وکبارہ تقول اللہم انی اعوذبک ان اشرک بک وانا اعلم واستغفرک لما لا اعلم تقولہا ثلاث مرات۔ (قرطبی)

یعنی شرک چیونٹی کے رینگنے سے بھی زیادہ تم میں مخفی ہوتا ہے۔ میں تمہیں ایک دعا سکھاتا ہوں ۔ اگر تم یہ مانگو گے تو اس کی برکت سے چھوٹا اور بڑا ہر قسم کا شرک تم سے دور ہو جائے گا۔ الفاظ یہ ہیں انہیں تین بار کہے:۔

اللہم انی اعوذبک ان اشرک بک وانا اعلم واستغفرک لما لا اعلم۔

اے اللہ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں تیرے ساتھ دانستہ شرک کروں اور میں تجھ سے مغفرت طلب کرتا ہوں اس شرک سے جو نادانستہ مجھ سے سرزد ہو۔

دیوبندی ترجمہ شدہ تفسیر مظہری

قل انما ان ابشر مثلکم یوحی الی انما الہکم الہ واحد آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہاری

طرح انسان ہی ہوں (فرق یہ ہے کہ) میرے پاس وحی آتی کہ تمہارا معبود اکیلا معبود ہے (کوئی اس کا شریک نہیں) حضرت ابن عباس نے فرمایا‘ اللہ نے اپنے رسول: کو تواضع کی تعلیم دی تا کہ آپ مغرور نہ ہو جائیں اور حکم دیا کہ اپنے آدمی ہونے کا اقرار کریں لیکن اقرارِ بشریت کے ساتھ یہ بھی ظاہر کر دیں کہ میرے اندر صاحب وحی ہونے کی خصوصیت بھی ہے میرے پاس وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود اکیلا معبود ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔

میں کہتا ہوں اس حکم سے ایک بہت بڑے فتنہ کا دروازہ بند ہو گیا جس میں نصاریٰ مبتلا ہو گئے تھے۔ حضرت عیسیٰ کے معجزاتِ امت عیسیٰ نے دیکھے اندھوں کو بینا ہوتے لاعلاج بیماروں کو تندرست ہوتے اور مردوں کو زندہ ہوتے دیکھا اللہ نے یہ معجزات حضرت عیسیٰ کے ہاتھ سے ظاہر فرمائے تو عیسائی چکر میں پھنس گئے (کسی نے عیسیٰ کو خدا کا بیٹا اور کسی نے جزءِ الوہیت قرار دیا) رسول اللہ : کو تواللہ نے حضرت عیسیٰ کے معجزات سے زیادہ معجزات عطا فرمائے تھے لوگوں کا فتنہ میں پڑ جانا غالب تھا‘ اس لئے حکم دیا کہ اپنی عبودیت اور اللہ کی توحید کا اعلان کر دیں۔

فمن کان یرجو لقآء ربہ فلیعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا

پس جو شخص اپنے رب کی ملاقا ت کا امیدوار ہو اس کو چاہئے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔

دیوبندی تفسیر انوارالبیان میں مولانا عاشق الٰہی میرٹھی لکھتے ہیں:۔

بشریت رسالت و نبوت کے منافی نہیں

پھر فرمایا (قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ) آپ فرما دیجیے کہ میں تمہارے ہی جیسا بشر ہوں (کوئی فرشتہ نہیں ہوں تم ہی میں رہتا سہتا ہوں کوئی ایسی بات نہیں کہتا جس سے تمہیں وحشت ہو) البتہ یہ بات ضرور کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ پاک کی طرف سے وحی آتی ہے۔ جس میں مجھے یہ بتایا گیا ہے اور تمہیں بھی بتاتا ہوں کہ تمہارا معبود برحق ایک ہی معبود ہے۔ یہ بات کوئی ناراض ہونے کی اور متنفر ہونے کی نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے رسالت سے سرفراز فرما دیا اور میرے ذریعہ تمہیں بھی بتا دیا کہ صرف معبود حقیقی کی عبادت کرو (اس میں توحید و رسالت دونوں کا اثبات ہے۔)

اب جیسے کہ آپ نے ان دو پیش کردہ آیتوں اور انکی تفاسیر کو ملاحظہ فرمایا، یہاں پر اس کا کہیں یہ مطلب نہیں نکلتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرح (عام بشر) ہوگئے، بلکہ یہاں بوجہ انکساری ایسا فرمایا ہے، نیز اس سے کہیں بھی اُن کی نورانیت کا انکار نہیں ہوتا۔

صحابہ اور سلف وخلف کے بیان کیئے گئیے معنی اور تشریح ہی افضل ہیں۔

بشر کا شرعی اور لغات میں معنی۔

امام خلیل بن احمد فراہیدی متوفی 176 ھ لکھتے ہیں:۔

بشر کا معنی انسان ہے خواہ ایک مرد ہو یا ایک عورت ہو ، اور چہرے، سر اور جسم کی اوپری کھال کو بشرۃ کہتے ہیں۔

حوالہ؛ کتاب العین جلد ۱ ص ۱۴۱/۱۴۲ دارالکتب العلميه بيروت

علامه ابوالحسن علي بن اسماعيل بن سيده المرسي ۱۷۵ هجري لکھتے ہیں؛۔

بشر کا مادہ ہے: ب ، ش ، ر۔ اس سے ایک لفظ بنتا ہے الشرب جس کا معنی ہے پینا، اس کا مقلوب ہے الشبر، اس کا معنی ہے بالشت، اور اس کا ایک مقلوب الاربش ہے، اس کا معنی ہے مختلف رنگوں والا، اور اسکا ایک مقلوب ہے البرش، اس کا معنی ہے سرخ اور سیاہ مخلوط رنگ۔ اور البشر کا معنی ہے انسان اس میں واحد، جمع اور مذکر مؤنث مساوی ہیں۔ اور انسان کے چہرے ، سر اور جسم کی اوپر والی کھال کو البشرۃ کہتے ہیں۔ جس چیز کی خوشخبری دی جائے اس کو بشارت کہتے ہیں۔ اور جماع کو مباشرت کہتے ہیں، مسکراہٹ اور خوشی کے اظہار کو البشیر کہتےہیں۔

حوالہ ؛ المحکم والمحیط الاعظم جلد ۸ صفحات ۵۲ تا ۶۱ دارالکتب العلميه بيروت

مشہور مفسر اور لغات کے استاذ علامہ حسین محمد بن راغب اصفہانی متوفی 502 ھ لکھتے ہیں؛۔

انسان کے جسم کی کھال کے ظاہر کو البشرۃ کہتےہیں اور اس کھال کے باطن کو الادمۃ کہتےہیں، انسان کو بشر اسلیئے کہتے ہیں کہ اس کی کھال ظاہر ہوتی ہے اسکے برخلاف دیگر حیوانوں کی کھال کے اوپر بال ظاہر ہوتے ہیں اور عموماً کھال بالوں کے نیچے چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ اس لفظ میں واحد، جمع، مذکر اور مؤنث برابر ہیں۔ قرآن مجید میں ہرجگہ انسان کے جثہ اور اسکے ظاہر کو بشر کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے۔ وھو الذی خلق من المآءِ بشرًا (الفرقان ۵۴ ) وہی ہے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا۔

کفار انبیاء علیہم السلام کے مرتبہ کو کم اور پست کرنے کے لیئے انہیں بشر کہتے تھے:

اِنْ هٰذَآ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ 25 سورۃ المدثر ۔ ترجمہ ۔ یہ صرف بشر کا قول ہے۔

اَبَشَرًا مِّنَّا وَاحِدًا نَّتَّبِعُه ۔ سورہ القمر آیت 24 ۔ ترجمہ۔ کیا ہم اپنوں میں سے ایک بشر کی پیروی کریں۔

مَآ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ۔ سورہ یٰسین آیت 15۔ ترجمہ ۔ تم محض ہماری طرح بشر ہو۔

اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا ۔ سورہ المؤمنون آیت 47 ۔ ترجمہ ۔ کیا ہم اپنی طرح دو بشروں پر ایمان لے آئیں۔

فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌ يَّهْدُوْنَنَا ۔ سورہ التغابن آیت 6 ۔ ترجمہ ۔ کافروں نے کہا کیا بشر ہم کو ہدایت دے گا۔

چونکہ لوگ بشریت میں ایک دوسرے کو مساوی سمجھتے تھے اور علوم ومعارف اور غیرمعمولی صلاحیتوں اور قابل تحسین کاموں کی وجہ سے ایک دوسرے پر فضیلت سمجھتے تھے اسلیئے پہلے فرمایا: قل انما انا بشر مثلکم۔ پھر فرمایا۔ یوحیٰ الی (الکہف 110، حٰم السجدۃ 6)۔ یعنی پہلے فرمایا میں بشر ہونے میں تمہارے مساوی ہوں اور میری فضیلت اور تخصیص یہ ہے کہ مجھ کو وحی کی جاتی ہے اور میں وحیء الٰہی کی وجہ سے تم سے ممیز اور ممتاز ہوں۔

مصر کی عورتوں نے حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق کہا:۔
حاشا للہ! یہ بشر نہیں ہے، یہ معزز فرشتہ کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ (سورۃ یوسف آیت 31)۔

ان عورتوں نے حضرت یوسف کی عظمت وجلال کو ظاہر کرتے ہوئے کہا یہ اس سے بلند اور برتر ہیں کہ یہ کوئی انسان ہوں انکی حقیقت اور جو ہرذات بشر ہونے سے منزہ ہے۔ جب کسی شخص کو کوئی خوشخبری سنائی جاتی ہے تو اسکے چہرے پر خون کی سرخی پھیل جاتی ہے اور اسکے چہرے کی کھال سرخ ہوجاتی ہے اسی لیئے خوشخبری سنانے کو تبشیر اور خوشخبری سن کر خوش ہونے کو استبشار کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے؛۔

قَالُوْا لَا تَوْجَلْ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمٍ عَلِيْمٍ ۔ سورہ الحجر آیت ۵۳

ترجمہ: (فرشتوں نے) کہا آپ ڈریں نہیں ہم آپ کو علم والے لڑکے کی بشارت دیتے ہیں۔

اور يَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَفَضْلٍ ۔ سورہ آل عمران آیت ۱۷۱

ترجمہ: ۔ وہ اللہ کی نعمت اور فضل سے خوش ہوتے ہیں۔

اختتام۔ حوالہ المفردات جلد ۱ صفحات ۴۷ تا ۴۹ عربي دارالمعرفته بيروت،و،مفردات القرآن اردو جلد ۱ صفحات ۱۱۲ تا ۱۱۶ اسلامی اکادمی پاکستان

کفار ، انبیاء علیہم السلام کو کیوں بشر کہتے تھے اور انکا رد؛۔

کفار انبیائے کرام علیہم السلام کو بشر اسلئے کہتے تھے کہ وہ بشریت کو نبوت کے منافی سمجھتے تھے وہ کہتے تھے کہ نبی کے لیئے فرشتہ ہونا ضروری ہے ۔ قرآن مجید نے کفار کا قول نقل فرمایا؛۔

وَاَسَرُّوا النَّجْوَي ڰ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ڰ هَلْ ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ۚ اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ ۔ سورہ الانبیاء آیت 3

امام فخرالدین الرازی رحمتہ اللہ علیہ متوفی ۶۰۶ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں؛۔

ان کافروں نے دو وجہوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت میں طعن کیا تھا، ایک یہ کہ آپ انکی مثل بشر ہیں۔ دوسری یہ کہ آپ نے جو دلیل پیش کی ہے وہ جادو ہے اور یہ دونوں وجہیں باطل ہیں۔ پہلی وجہ اسلیئے باطل ہے کہ نبوت کا ثبوت دلائل اور معجزات پر موقوف ہے صورتوں پر موقوف نہیں۔ بالفرض اگر انکے پاس فرشتے کو نبی بنا کر بھیجا جاتا تو محض اسکی صورت دیکھ کر تو اسکے نبی ہونے پریقین نہیں ہوسکتا تھا۔ جب تک کہ اسکی نبوت پر دلائل نہ قائم ہوجاتے، اور جب یہ واضح ہوگیا تو اگر بشر اپنی نبوت پر معجزات اور دلائل قائم کردے تو اسکا نبی ہونا بھی جائز ہے بلکہ واجب ہے، اور اولیٰ یہ ہے کہ بشر کی طرف بشر کو نبی بنا کرمبعوث کیا جائے کیونکہ انسان کے لیئے اپنے ہمجنس اور ہم شکل کو نبی ماننا زیادہ قریب ہے کیونکہ ہرشخص اپنی جنس سے مانوس ہوتا ہے۔

اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کوجو جادو کہتے تھے یہ بھی باطل ہے کیونکہ آپ کا معجزہ قرآن ہے کیونکہ آپ اس میں کوئی تلبیس اور ملمع کاری نہیں کرتے تھے۔ آپ نے ان سب کو قرآن کریم کی ایک سورت کی مثل لانے کا چیلنج دیا اور وہ عرصہ دراز گزرنے کے بعد بھی اسکی مثل نہیں لاسکے اور اب تک نہیں لاسکے پس اس معجزہ کو جادو کہنا باطل ہے۔

حوالہ ؛ تفسیر الکبیر جلد ۲۲ صفحات ۱۴۱ / ۱۴۲ الطبعته الاول ، جامع الازهر مصر

قاضی عبداللہ بن عمر بیضاوی متوفی ۶۸۵ هجري لکھتے ہیں؛۔

سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر کہہ کر وہ آپ کے دعویٰ رسالت کی تکذیب کا قصد کرتے تھے کیونکہ انکا قصد یہ تھا کہ رسول صرف فرشتہ ہی ہوسکتا ہے اور قرآن کریم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر معجزات کو وہ جادو کہتے تھے۔

حوالہ؛ تفسیر البیضاوی، انوارالتنزیل ۔ بیروت ص ۴۵

غور کریں ایک لمحہ کہ آجکی جدید دنیا میں بھی ایسے لوگ ہیں جو یہی سب بکواس کہتے ہیں ، لیکن خود کو زبردستی اسلام کا ٹھیکیدار اور دیگر لوگوں کو کافر مشرک بدعتی کہتے ہیں جنکا یہ ایمان و دھرم ہے کہ نبی سے زیادہ شیطان کے پاس علم ہے، اور یہ کہ نبی کو اپنی طرح عام بشر سمجھو۔ (معاذ اللہ)۔ حوالہ اسماعیل دہلوی وہابی سلفی دیوبندی۔کی تفویۃ الایمان

کفار بشر کے رسول ہونے کو جو مستبعد سمجھتے تھے اور اسکا انکار کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے اسکا رد فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں ہے؛۔

وَلَوْ جَعَلْنٰهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنٰهُ رَجُلًا وَّلَـلَبَسْنَا عَلَيْهِمْ مَّا يَلْبِسُوْنَ ۔ سورہ الانعام آیت 9۔ ترجمہ۔۔۔اور اگر ہم رسول کو فرشتہ بناتے تو اسے مرد ہی (کی صورت میں ) بناتے اور ہم ان پر وہی شبہ ڈال دیتے جو شبہ وہ (اب) کررہے ہیں۔

انبیاء کا بشر ہونا ہمارے لیئے وجہ احسان ہے؛۔

بلکہ انسانوں کے لیئے انسان کو رسول بنا کر بھیجنا انکے لیئے زیادہ مفید ہے اور اس سے استفادہ کے لیئے زیادہ سہل اور آسان ہے کیونکہ اگر فرشتہ، جن یا کسی اور جنس سے انکے لیئے رسول بھیجا جاتا تووہ اسکو دیکھ سکتے نہ اسکی بات سن سکتے۔ نہ اسکے اعمال کی اتباع اور اقتداء کرسکتے، یہ تو اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا امتنان واحسان ہے کہ اسنے انسانوں کےلئے انکی جنس سے انسان کو رسول بنا کر بھیجا اس لیئے فرمایا۔

لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ ۔ سورہ آل عمران آیت ۱۶۴۔ ترجمہ۔۔۔۔بے شک اللہ نے مؤمنین پر بہت بڑا احسان فرمایا کہ اس نے ان میں ان ہی میں سے ایک عظیم رسول بھیجا۔

اور سورۃ الجمعہ آیت 2 کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ ۔ ۔۔۔۔ وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک عظیم رسول بھیجا۔

اور سورۃ التوبہ کی آیت 128 کہتی ہے۔۔۔ترجمہ۔۔۔۔۔بے شک تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک عظیم رسول آگئے

اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کی تھی کہ اہل مکہ میں ان ہی میں سے ایک عظیم رسول بھیج دے۔ سورۃ البقرہ آیت 129۔

نیز رب کریم فرماتا ہے؛۔

اور ہم نے آپ سے پہلے صرف مردوں کو رسول بنا کر بھیجا ہے جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے۔ (یوسف 109، النحل 43، الانبیاء 21)۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خود پر بشر کا اطلاق فرمانا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی ذات مبارکہ پر بشر کا اطلاق فرمایا ہے؛۔

انما انا بشر مثلکم انسی کما تنسون فاذا نسیت فذکرونی۔

میں صرف تمہاری مثل بشر ہوں (خدا نہیں ہوں) میں اسطرح بھول جاتا ہوں جس طرح تم بھول جاتے ہو۔ پس جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلایا کرو۔

حوالہ جات؛

صحیح البخاری شریف ، رقم الحدیث ۴۰۱

صحيح مسلم ، رقم الحديث ۵۷۳

سنن ابوداؤد ، رقم الحديث ۱۰۲۰

سنن النسائي رقم الحديث ۱۲۴۳

ابن ماجه رقم الحديث . ۱۲۱۱

ایک اورجگہ فرمایا؛

ترجمہ ؛ میں محض بشر ہوں (خدا نہیں ہوں) میرے پاس متخالف فریق آتے ہیں۔ ہوسکتا ہے تم میں سے بعض دوسروں سے زیادہ چرب زبان ہو اور میں (بظاہر) یہ گمان کرلوں کہ وہ سچا ہے اور میں اسکے حق میں فیصلہ کردوں پس (بالفرض) اگر میں کسی مسلمان کا حق اسکو (ظاہری حجت کی بنا پر) دے دوں تو وہ آگ کا ٹکڑا ہے، خواہ وہ اسکو لے لے یا ترک کردے۔

حوالہ جات؛۔

صحیح بخاری رقم الحدیث ۶۹۶۷، صحيح مسلم رقم الحديث ۱۷۱۱، سنن ابوداؤد ۳۵۸۳، سنن الترمذي ۱۳۳۹، سنن النسائي ۵۴۰۱، سنن ابن ماجه ۲۳۱۷

نبي اور رسول کا بشر هونا

متکلمين نے نبي اور رسول کي حسب ذيل تعريفات کی ہیں؛۔

علامہ سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی متوفی 793 ھ لکھتے ہیں؛۔

النبی انسان بعثہ اللہ لتبلیغ ما اوحی الیہ وکذا الرسول
ترجمہ؛ نبی وہ انسان ہے جسکو اللہ تعالیٰ اس چیز کی تبلیغ کے لیئے بھیجتا ہہے جسکی اسکی طرف وحی کی جاتی ہے۔ اسی طرح رسول ہے۔
حوالہ؛۔ شرح المقاصد جلد ۵ ، صفحه ۵، عالم الکتب بيروت

میر سید شریف علی بن محمد جرجانی الامام متوفی 816ھ لکھتے ہیں؛۔

الرسول انسان بعثہ اللہ الی الخلق لتبلیغ الاحکام۔ ترجمہ۔ رسول وہ انسان ہے جسے اللہ احکام کی تبلیغ کےلیئے مخلوق کی طرف بھیجتا ہے۔
حوالہ ؛ کتاب التعریفات ص 110 مطبوعہ دارالفکر بیروت

غور کیجئے کہ یہاں موجودہ خوارج اور باطل فرقوں کے ایک اور عقیدے کا بھی رد ہوتا ہے کہ جن کا دھرم کا حصہ ہے کہ تمام مخلوقات اللہ کی شان کے آگے چمار سے زیادہ ذلیل ہیں۔ معاذ اللہ امید ہے پڑھنے والے سمجھ گئے ہوں گے کہ کسی دہلوی کی دل دہلا دینے والی یہ بکواسات ہیں۔

اسی طرح علامہ کمال الدین ابن ھمام متوفی 861 ھ لکھتے ہیں؛۔

النبی انسسان بعثہ لتبلیغ ما اوحی الیہ وکذا الرسول۔ ترجمہ۔ نبی وہ انسان ہے جس کو اللہ نے اس کی طرف کی ہوئی وحی کی تبلیغ کے لیئے بھیجا ہو، رسول کی بھی یہی تعریف ہے۔

حوالہ؛ کتاب المسامرۃ فی شرح المسایرۃ فی علم الکلام، للکمال بن ابی شریف بن ھمام، وبشرح السامرۃ فی شرح المسایرۃ لل شیخ قاسم بن قطلوبغا الحنفی متوفی 878ھ۔ الجز الاول، المکتبہ الازھریہ للتراث، الازھر شریف۔مصر ص 83

مولانا عبدالعزیز پرہاروی نے علامہ تفتازانی سے یہ تعریف نقل کی ہے؛۔

والرسول انسان بعثہ اللہ تعالیٰ الی الخلق لتبلیغ الاحکام الشرعیۃ۔ ترجمہ۔۔۔رسول وہ انسان ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی طرف احکام شرعیہ پہنچانے کے لیئے بھیجا ہے۔
حوالہ ؛ النبراس ص 52 عربیک

اسی طرح علامہ محمد السفارینی الحنبلی متوفی 1188 ھ لکھتے ہیں؛۔

وھو انسان اوحی الیہ بشرع وان لم یؤمنو بتبلیغہ فان امر بتبلیغہ فھو رسول ایضا علی المشہور۔
یعنی۔ نبی وہ انسان ہے جس پر شریعت کی وحی کی جائے خواہ اسکو شریعت کی تبلیغ کا حکم نہ دیا جائے، اور اگر اسکو شریعت کی تبلیغ کا حکم بھی دیا ہو تو وہ مشہور مذہب کے مطابق رسول بھی ہے۔

حوالہ؛۔ لوامع الانوار البھیہ، المکتب الاسلامی و دار الخانجی ص 49 دمشق وبیروت

ایسے ہی صدرالشریعت علامہ امجد علی متوفی 1372ھ لکھتے ہیں؛۔

عقیدہ: نبی اس بشر کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لیئے وحی بھیجی ہو، اور رسول بشر کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ ملائکہ بھی رسول ہیں۔

عقیدہ۔ انبیاء سب بشر تھے اور مرد، نہ کوئی جن ، نبی ہوا نہ عورت۔ حوالہ۔ بہارشریعت جلد 1 ص 9 مطبوعہ شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور۔

صدرالافاضل علامہ سید محمد نعیم الدین مرادآبادی متوفی 1367ھ لکھتے ہیں؛۔

انبیاء وہ بشر ہیں جن کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی ہے یہ وحی کبھی فرشتہ کی معرفت سے آتی ہے کبھی بے واسطہ۔
کتاب العقائد ص 8 مطبوعہ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی پاکستان۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بشر ہونے کے متعلق مجدداسلام اعلیٰ حضرت احمد رضا خان الحنفی القادری الہندی البریلوی کا نظریہ؛۔مجدد وشیخ الاسلام امام احمد رضا خان متوفی 1340 ھ سے سوال کیا گیا:۔

زید کا قول یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہماری مثل ایک بشر تھے کیونکہ قرآن عظیم میں ارشاد ہے کہ قل انما انا بشر مثلکم اور خصائص بشریت بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں بلاشبہ موجود تھے۔ کیا کھانا پینا، جماع کرنا، بیٹا ہونا، باپ ہونا، کفو ہونا، سونا وغیرہ امور خواصِ بشریت سے نہیں ہیں؟ جو حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم میں بلاشبہ موجود تھے، اگر کوئی بشریت کی بنا پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مساوات کا دعویٰ کرنے لگے تو یہ نالائق حرکت ہے جیسا کہ عارف بسطامی سے منقول ہے کہ لوائی ارفع من لواء محمد صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم ۔ یعنی میرا جھنڈا سیدنا محمد علیہ السلام کے جھنڈے سے بلند ہے)۔ اعلیٰ حضرت شاہ احمد رضا قدس سرہ اس سوال کے جواب میں لکھتےہیں:۔

الجواب:۔ مستفتی کو تعجیل اور فقیر بتیس روز سے علیل اور مسئلہ ظاہروبین غیرمحتاج دلیل، لہٰذا صرف ان اجمالی کلمات پر اقتصار ہوتا ہے ۔ عمرو کا قول مسلمانوں کا قول ہے اور زید نے وہی کہا جو کافر کہاکرتے تھے قالوا ما انتم الا بشر مثلنا، کافر بولے! تم تو نہیں مگر ہمارے جیسے آدمی بلکہ زید مدعی اسلام کا قول ان کافروں کے قول سے بعید تر ہے، وہ جو انبیاء علیہم السلام کو اپنے جیسا بشر مانتے تھے اسلیئے کہ انکی رسالت کے منکر تھے کہ ما انتم الا بشر مثلنا وما انزل الرحمٰن من شئ ان انتم الا تکذبون،تم تو نہیں مگر ہماری مثل بشر اور رحمٰن نے کچھ نہیں اتارا تم نرا جھوٹ کہتے ہو، واقعی جب ان خبثا کے نزدیک وحی نبوت باطل تھی تو انہیں اپنی سی بشریت کے سوا کیا نظر آتا، لیکن ان سے زیادہ دل کے اندھے وہ کہ وحی ونبوت کا اقرار کریں اور پھر انہیں اپنا ہی جیسا بشر جانیں،زید کو قل انما انا بشر مثلکم سوجھا اور (یوحی الی) نہ سوجھا جو غیرمتناہی فرق ظاہر کرتا ہے، زید نے اتنا ہی ٹکڑا لیا جو کافر لیتے تھے، انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی بشریت جبریل علیہ السلام کی ملکیت سے اعلیٰ ہے وہ ظاہری صورت میں ظاہر بینوں کی آنکھوں میں بشریت رکھتے ہیں جس سے مقصود خلق کا ان سے انس حاصل کرنا اور ان سے فیض پانا ، لہٰذا ارشاد فرمایا؛ ولو جعلنا ملکا لجعلنہ وجلا وللبسنا علیہم ما یلبسون۔۔۔یعنی۔۔۔۔اور اگر ہم فرشتے کو رسول کرکے بھیجتے تو ضرور اسے مرد ہی کی شکل میں بھیجتے اور ضرور انہیں اسی شبہ میں رکھتے جس دھوکے میں اب ہیں، ظاہر ہوا کہ انبیاء علیہم السلام کی ظاہری صورت دیکھ کر انہیں اوروں کی مثل سمجھنا انکی بشریت کو اپنے جیسا جاننا ظاہربینوں کو رباطنوں کا دھوکہ ہے، شیطان کے دھوکے میں پڑے ہیں۔


ہمسری بااولیا برداشتند ۔ انبیاء راہمچو خود پنداشتند

ان کا کھانا پینا سونا یہ افعال بشری اسلیئے نہیں کہ وہ ان کے محتاج ہیں حاشا لست کاحدکم انی ابیت عند ربی یطعمنی ویسقینی۔ انکے یہ افعال بھی اقامت سنت وتعلیم امت کےلئے تھے کہ ہربات میں طریقہ محمودہ لوگوں کو عملی طور سے دکھائیں سکھائیں جیسے ان کا سہو ونسیان، حدیث میں ہے انی لاانسی ولکن انسی لیستن بی۔ میں بھولتا نہیں بھلایا جاتا ہوں تاکہ حالت سہو میں امت کو طریقہ سنت معلوم ہو، امام اجل محمد عبدری بن الحاج مکی قدس سرہ مدخل میں فرماتے ہیں؛۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احوال بشری کھانا پینا، سونا جماع اپنے نفس کریم کے لیئے نہ فرماتے تھے بلکہ بشر کو انس دلانے کے لیےکہ ان افعال میں حضور کی پیروی کریں، کیا نہیں دیکھتا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں اور مجھے ان کی کچھ حاجت نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تمہاری دنیا میں سے خوشبو اور عورتوں کی محبت دلائی گئی ہے۔ یہ نہ فرمایا کہ میں نے انہیں دوست رکھا اور فرمایا تمہاری دنیا میں سے تو اوروں کی طرف اضافت فرمایا نہ اپنے نفس کریم کی طرف ، معلوم ہوا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اپنے مولیٰ عزوجل کے ساتھ خاص ہے۔جس پر یہ ارشاد کریم دلالت کرتا ہے کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری صورت بشری اور باطن مَلَکی ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ افعال بشری محض اپنی امت کو انس دلانے اور انکے لیے شریعت قائم فرمانے کے واسطے کرتے تھے نہ یہ کہ حضور کو ان میں سے کسی شئے کی کچھ حاجت ہو جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے، انہیں اوصاف جلیلہ وفضائل حمیدہ سے جہل کے باعث بے چارے جاہل کافر نے کہا اس رسول کو کیا ہوا، کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے ، عمرو نے سچ کہا کہ یہ قول حضور اقدس نے اپنی طرف سے نہ فرمایا بلکہ اس کے فرمانے پر مامور ہوئے،جس کی حکمت تعلیم تواضع وتانیس امت وسد غلو نصرانیت ہے۔ اول، دوم ظاہر اور سوم یہ کہ مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کو انکی امت نے ان کے فضائل پر خدا اور خدا کا بیٹا کہا پھر فضائل محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتحیۃ کی عظمت شان کا اندازہ کون کرسکتا ہے۔ یہاں اس غلو کے سدباب کے لیئے تعلیم فرمائی گئی کہ کہو کہ میں تم جیسا بشر ہوں خدا یا خدا کا بیٹا نہیں، ہاں (یوحی الی) رسول ہوں، دفع افراط نصرانیت کے لیئے پہلا کلمہ تھا اور دفع تفریط ابلیسیت کے لیئے دوسرا کلمہ ، اسی کی نظیر ہے جو دوسری جگہ ارشاد ہوا ۔ قل سبحٰن ربی ھل کنت الابشرارسولا۔ تم فرمادو پاکی ہے میرے رب کو میں خدا نہیں میں تو انسان رسول ہوں، انہیں دونوں کے دفع کو کلمہ شہادت میں لفظ کریم جمع فرمائے گئے اشھد ان محمداعبدہ ورسولہ، بندے ہیں خدا نہیں ، رسول ہیں خدا سے جدا نہیں، شیطنت اسکی کہ دوسرا کلمہ امتیازِ اعلیٰ چھوڑ کر پہلے کلمہ تواضع پر اقتصار کرے۔ اسی ضلالت کا اثر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دعویٰ مساوات کو صرف نالائق حرکت کہا، نالائق حرکت تو یہ بھی ہے کہ کوئی بلاوجہ زید کو طپانچہ ماردے یعنی اس زید کو جس نے کفر وضلال نہ بکے ہوں پھر کہاں یہ اور کہاں وہ دعویٰ مساوات کہ کفر خالص ہے، اور اس کا اولیاء رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی طرف معاذ اللہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے ارفیعت کا ادعا نسبت کرنا محض افترا اور کج فہمی ہے۔ حاشا کوئی ولی کیسے ہی مرتبہ عظیمہ پر ہو سرکار کے دائرہ غلامی سے باہر قدم نہیں رکھ سکتا۔ اکابر انبیاء تو دعویٰ مساوات کرنہیں سکتے۔ شیخ الانبیاء کبریا علیہ الصلوٰۃ والثناء نے شب معراج حضور اقدس کا خطبہ فضائل سن کر تمام انبیاء ومرسلین سے فرمایا (بھٰذا فضلکم محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ان وجوہ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم سب سے افضل ہوئے۔ ولی کس منہ سے دعویٰ ارفیعت کرے گا، جو کرے حاشا ولی نہ ہوگا، شیطان ہوگا۔ حضرت سیدنا بایزید بسطامی اور ان کے امثال ونظائر رضی اللہ عنہ وقت ورود تجلی خاص شجرہء موسیٰ ہوتے ہیں۔ سیدنا موسیٰ کلیم اللہ کو درخت میں سنائی دیا (یٰموسیٰ انی انا اللہ رب العالمین) اے موسیٰ! بے شک میں اللہ ہوں رب سارے جہان کا، کیا یہ پیغمبر نے کہا تھا حاشا للہ بلکہ واحد قہار نے جس نے درخت پر تجلی فرمائی اور وہ بات درخت سے سننے میں آئی۔ کیا رب العزت ایک درخت پر تجلی فرماسکتا ہے اور اپنے محبوب بایزید پر نہیں؟۔ نہیں نہیں وہ ضرور تجلی ء ربانی تھی کلام بایزید کی زبان سے سنا جاتا تھا جیسے درخت سے سنا گیا اور متکلم اللہ عزوجل تھا، اسی نے وہاں فرمایا(یموسی انی انا اللہ رب العٰلمین)۔ اسی نے یہاں بھی فرمایا (سبحانی ما اعظم شانی) اور ثابت ہو تو یہ بھی کہ لوائی ارفع من لواء محمد صلی اللہ علیہ وسلم بے شک لواء الٰہی ، لواء محمدی سے ارفع واعلیٰ ہے۔

آسان الفاظ میں ۔ اعلیٰ حضرت کا مطلب یہ ہے کہ جب حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ نے یہ بظاہر الفاظ کہے تو حقیقت میں یہ اللہ کا کلام تھا، اور اللہ فرما رہا تھا، میرا جھنڈا محمد کے جھنڈے سے بلند ہے۔ جیسے شجر موسیٰ سے اللہ کا کلام سنا گیا تھا اسی طرح یہاں بایزید سے اللہ کا کلام سنا گیا)۔ از فتاوی رضویہ جلد 6 ص 143/145 مطبوعہ دارالعلوم امجدیہ کراچی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بشر ہونے کے متعلق علماء دیوبند کا نظریہ؛
مولانا خلیل احمد سہارنپوری متوفی 1346 ھ لکھتے ہیں؛۔

کوئی ادنیٰ مسلمان بھی فخر عالم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تقرب وشرف کمالات میں کسی کو مماثل آپ کا نہیں جانتا البتہ نفس بشریت میں مماثل آپ کے جملہ بنی آدم ہیں کہ خود حق تعالیٰ فرماتا ہے قل انما انا بشر مثلکم اور بعد اسکے یوحی الی کی قید سے پھر وہی شرف تقرب بعد اثبات مماثلت بشریت فرمایا پس اگر کسی نے بوجہ بنی آدم ہونے کے آپ کو بھائی کہا تو کیا خلاف نص کے کہہ دیا وہ تو خود نص کے موافق ہی کہتا ہے۔

نیز لکھتے ہیں:۔
لاریب اخوت نفس بشریت میں اور اولادِ آدم ہونے میں ہے اور اس میں مساوات بنص قرآن ثابت ہے اور کمالات تقریب میں کوئی بھائی کہے نہ مثل جانے۔
حوالہ؛ براہین قاطعہ ص 3 مطبوعہ بلالی ڈھوک ہند

علماء دیوبند کے نظریہ پر اصلی اہلسنت یعنی ہمارا مؤقف؛۔

شیخ سہارنپوری کے اس کلام کا حاصل یہ ہے کہ نفس بشریت میں تمام انسان آپ کے مماثل اور مساوی ہیں ہمارے نزدیک یہ کہنا صحیح نہیں ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام میں عام انسانوں کی بہ نسبت ایک وصف زائد ہوتا ہے جو نبوت ہے وہ حامل وحی ہوتے ہیں، فرشتوں کو دیکھتے ہیں اور انکے کلام سنتے ہیں اس لیئے نبی کی بشریت اور عام انسانوں کی بشریت مماثل اور مساوی نہیں ہے، اور اگر یہ کہا جائے کہ نبوت سے قطع نظر تو نفسِ بشریت میں مساوات ہے تو ہم کہیں گے کہ اس طرح تو نفسِ حیوانیت میں نطق سے قطع نظر انسان، گدھوں ، کتوں اور خنزیروں کے مماثل اور مساوی ہے اور ایسا کہنا انسان کی توہین ہے ۔ اسی طرح نفسِ بشریت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انسانوں کے مماثل اور مساوی کہنا رسول اللہ علیہ التحیۃ والثناء کی توہین ہے، اگر یہ کہا جائے کہ قرآن مجید میں ہے (یعنی وہی الکہف 110) تو اسکے دوجواب ہیں ۔ ایک جواب یہ کہ قرآن مجید میں ہے۔

وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ سورۃ الانعام آیت 38۔
ترجمہ:۔
ہر وہ جاندار جو زمین پر چلتا ہے اور ہروہ پرندہ جو اپنے پروں کے ساتھ اڑتا ہے وہ تمہاری ہی مثل گروہ ہیں۔

اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ زمین اور فضا کے تمام جاندار اور تمام پرندے انسانوں کی مثل ہیں تو اس طریقہ سے کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ انسان ، گدھ ، چیل، بندر اور خنزیر کی مثل ہے تو کیا یہ انسان کی توہین ہیں ہے؟ لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں کے مساوی اور انکی مثل ہیں تو یہ بھی آپ کی توہین ہے۔

دوسرا جواب

یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس چیز میں عام انسانوں کی مثل ہیں؟ کسی وجودی وصف میں کوئی انسان آپ کی مثل نہیں ہے بلکہ آپ کے ساتھ مماثلت عدمی وصف میں ہے نہ ہم خدا ہیں نہ آپ خدا ہیں نہ ہم واجب اور قدیم ہیں نہ آپ واجب اور قدیم ہیں ، نہ ہم مستحق عبادت ہیں، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مستحق عبادت ہیں۔ اور یہ آیت اسی معنی پر دلالت کرتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص کے ذکر کے بغیر آپ کو صرف بشر کہنا جائز نہیں:۔
جس کسی معزز اور اہم شخص کا ذکر کیا جاتا ہے تو اسکے عام اوصاف کا ذکر نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے ان خصوصی اوصاف کا ذکر کیا جاتا ہے جنکی وجہ سے وہ دوسروں سے ممیز اور ممتاز ہوتا ہے۔مثلاً آپ ملک کے صدر اور وزیراعظم کا ذکر کریں تو یوں نہیں کہں گے کہ یہ انسان اور بشر ہیں یا مرد ہیں۔ آپ یوں نہیں کہیں گے کہ یہ ایک پاکستانی ہیں بلکہ آپ کہیں گے کہ یہ ملک کے صدر ہیں یا ملک کے وزیر اعظم ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہنا کسطرح درست ہوگا کہ آپ انسان اور بشر ہیں یا مرد ہیں کیونکہ ان الفاظ میں آپکی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ انسان اور بشر ہونے میں مسلمانوں کی بھی کوئی تخصیص نہیں ہیں یہ اوصاف تو مؤمن، کافر، مرتد سب میں مشترک ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان گئے، آپ نے فرمایا: السلام علیم دارقم مومنین! بے شک ہم تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ ہم اپنے بھائیوں کو دیکھیں! صحابہ نے کہا یا رسول اللہ! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں؟۔ آپ نے فرمایا : انتم اصحابی، تم میرے اصحاب ہو اور ہمارے بھائی وہ ہیں جو ابھی تک نہیں آئے۔ (الحدیث۔ صحیح مسلم رقم الحدیث 249، سنن ابن ماجہ 4306، ابوداؤد 4718، مسند احمدجلد 3 ص 119)۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا ہمارے بھائی وہ ہیں جو ابھی تک نہیں آئے، اس سے آپ کی مراد دینی بھائی تھے اور دینی بھائی تو صحابہ بھی تھے پھر کیا وجہ ہے کہ جب صحابہ نے کہا کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں تو آپ نے فرمایا : تم میرے اصحاب ہو ۔۔۔۔۔۔اسکی وجہ یہی ہے کہ دینی بھائی ہونے میں صحابہ کا جو امتیاز اور ان کی کوئی خصوصیت نہیں تھی کیونکہ قیامت تک تمام مسلمان آپ کے دینی بھائی ہیں، صحابہ کا امتیاز اور انکی خصوصیت یہ تھی کہ وہ آپ کے اصحاب ہیں۔ اس وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کا اس وصف کے ساتھ ذکر پسند نہیں کیا جو ان میں اور دوسرے مسلمانوں میں بھی مشترک تھا جس وصف میں صحابہ کی کوئی خصوصیت نہیں تھی۔

قاضی عیاض مالکی متوفی 544ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں؛۔
علامہ بآجی نےکہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے دینی بھائی ہونے کی نفی نہیں کی بلکہ انکا وہ مرتبہ ذکر کیا جو اس پر زائد ہے اور جو ان کے ساتھ مختص ہے اور جو بعد میں آنے والے مسلمانوں کو حاصل نہیں ہے۔ اسلیئے ان کا ذکر دینی اخوت کے ساتھ کیا۔ علامہ ابن عبدالبر نے کہا تمام اہل ایمان آپ کے دینی بھائی ہیں اور آپ کے صحابہ وہ ہیں جو آپکی صحبت میں رہے ہوں۔

اکمال المعلم بفوائد مسلم جلد 2 ص 48 مطبوعہ دارالوفاء بیروت۔
علامہ یحییٰ بن شرف نووی متوفی ۶۷۶ ھ اور علامہ ابی مالکی متوفی ۸۲۸ هجري و علامه السنوسي مالکي متوفي ۸۹۵ نے بهي یہی تقریر ذکر کی ہے۔

حوالہ جات؛
شرح مسلم للنووی ، جلد 2 ، ص 1194، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ ، اکمال اکمال المعلم جلد 2، ص 49 ، معلم اکمال الاکمال جلد 2 ص 49 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1415 ھ

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ پڑھو تو نہایت عمدہ طریقہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر صلوٰۃ پڑھو کیونکہ تم کو پتا نہیں ہے ہوسکتا ہے کہ یہ صلوٰۃ آپ پر پیش کی جائے ، تم یوں صلوٰۃ پڑھو۔

اللھم اجعل صلوتک ورحمتک وبرکاتک علی سید المرسلین وامام المتقین وخاتم النبیین محمد عبدک ورسولک امام الخیر وقائد الخیر ورسول الرحمۃ اللھم ابعثہ مقاما محمودا یغطبہ الاولون والاخرون۔

اے اللہ ! اپنی صلوٰۃ اپنی رحمتیں اور برکتیں ان پر نازل فرما جو رسولوں کے سردار ہیں اور متقین کے امام ہیں، تمام نبیوں کے آخر ہیں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو تیرے بندے اور رسول ہیں ، خیر کے امام اور قائد ہیں، رسولِ رحمت ہیں اے اللہ! ان کو ایسے مقام محمود پر فائز فرما جس پر تمام اولین و آخرین رشک کریں۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث 906

ان احادیث سے واضح ہوگیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ان اوصاف کے ساتھ کرنا چاہیئے جو آپ کے ساتھ مخصوص ہوں اور جنکی وجہ سے آپ دوسروں سے ممتاز اور ممیز ہوں۔ کیونہ نبی علیہ السلام نے تو اپنے اصحاب کا ذکر ان اوصاف کے ساتھ بھی نہیں کیا (یعنی دینی بھائی) جن میں دوسرے مسلمان ان کے ساتھ شریک ہیں تو پھر آپ کو صرف بشر کہنا کسطرح صحیح ہوگا جبکہ لفظ بشر میں تو مسلمانوں کی بھی تخصیص نہیں ، کیونکہ کافر، مومن اور منافق سب بشر ہیں، اور لفظ بشر میں کوئی تخصیص نہیں اس لفظ میں دینی بھائی سے بھی زیادہ عموم ہے، اسلیئے اگر آپ خوامخواہ بشر کہنا ہی چاہتے ہیں تو بھی آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے افضل البشر یا سید البشر کہہ کر کہا کریں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہلوانے کی توجیہ کہ میں تمہاری طرح بشر ہوں۔
قرآن مجید میں کہیں یہ مذکور نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بشر کہا ہو نہ کسی حدیث میں یہ ہے کہ کسی صحابی نے آپ کو (صرف بشر) کہا ہو اور سورہ کہف کی اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے خود آپ کو بشر نہیں کہا بلکہ یہ فرمایا ہے آپ کہیئے کہ میں محض تمہاری طرح بشر ہوں (یعنی خدا نہیں ہوں) اسکی وجہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے علم اور قدرت کے چند معجزات دکھائے مثلاً یہ بتایا کہ تم کیا کھا کرآئے ہو اور گھر میں کیا رکھ کر آئے ہو، اور چند مردے زندہ کئے اور مٹی سے پرندے بنا کر اڑا دیئے تو لوگوں نے ان کو خدا اور خدا کا بیٹا کہہ دیا۔ اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ماکان و مایکون کی خبریں دی تھیں اور آپ کی توجہ سے درخت میں جان پڑگئی اور اس نے آپ کے پاس آکر آپکی رسالت کی گواہی دی، اور کھجور کا ستون آپ کے فراق میں رویا اور مکہ کے ایک پتھر نے کہا (السلام علیک یا رسول اللہ) اور گوہ و ہرنی نے آپ کا کلمہ پڑھا، اونٹ نے آپ سے کلام کیا اسطرح کے بےحد وحساب معجزات ہیں۔ اسلیئے یہ خطرہ تھا کہ فرطِ عقیدت میں آپکی امت بھی آپ کو خدا ، یا خدا کا بیٹا نہ کہہ دے اسلیئے اللہ تعالیٰ نے کہا تم اپنی زبان سے خود کہہ دو کہ میں توصرف تمہاری طرح بشر ہوں (یعنی دوبارہ اس سے مراد کہ خدا نہیں ہوں)۔اور اسکے بعد فرمایا: یوحی الی میری طرف وحی کی جاتی ہے، یعنی نفسِ بشریت میں عموم اور اشتراک ہے لیکن آپ پر اللہ کی وحی کی جاتی ہے۔ آپ کے اس وصف کے لحاظ سے عالم بشریت میں ممتاز اور ممّیز ہیں ، جس طرح چوپائے، درندے اور پرندے حیوان ہونے میں انسان کے شریک ہیں اور انسان ، نطق، ادراک اور دریابندہء معقولات ہونے کی وجہ سے ان سے ممتاز ہے اسی طرح دیگر انسان بشر ہونے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مثل ہیں اور آپ پر جو وحی الٰہی کی جاتی ہے اسوجہ سے آپ دیگر انسانوں سے ممتاز اور ارفع ہیں۔ انسان اپنی عقل کی وجہ سے دوسرے حیوانوں سے ممیز ہے اور نطق اس کے لیے فصل ممیز ہے ۔ جس طرح انسان اپنی آنکھوں سے حیوانات کو دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ فلاں جانور ہے اور یہ فلاں حیوان ہے اور اپنی عقل سے معقولات اور کلیات کا ادراک کرتے ہیں اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم خداداد قوت سے عالم غیب کا ادراک کرتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ یہ جن ہے، یہ فرشتہ ہے، یہ جبریل ہیں، یہ میکائیل ہیں اور فرشتہ سے وحی حاصل کرتے ہیں، سو جس طرح نطق ہمارے لیئے حیوانوں سے فصل ممیز ہے اسی طرح نبی کے لیے حامل وحی ہونا عام انسانوں اور بشر سے بہ منزلہ فصل ممیز ہے، اور جس طرح عام کے بعد خاص کو ذکر کیا جاتا ہے اور انسان کو حیوانِ ناطق کہا جاتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے پہلے آپ کے بشر ہونے کا ذکر فرمایا پھر آپ کے حامل ِ وحی ہونے کا ذکر فرمایا، اور جس طرح انسان کو صرف حیوان کہنا درست نہیں ہے ویسے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف بشر کہنا اور سمجھنا بھی صحیح نہیں ہے۔ 

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...