Wednesday, 24 July 2019

اللہ عزّ و جل نے ساری مخلوق سے پہلے میرے نور کو پیدا فرمایا

اللہ عزّ و جل نے ساری مخلوق سے پہلے میرے نور کو پیدا فرمایا

حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : درحدیث صحیح واردشد کہ اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ ، صحیح حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : اللہ عزّ و جل نے ساری مخلوق سے پہلے میرے نور کو پیدا فرمایا ۔ (مدارج النبوۃ جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 13 مترجم اردو)

علاّمہ رشید احمد گنگوہی دیوبندی لکھتے ہیں : شیخ عبدالحق (محدث دہلوی) رحمۃ ﷲ علیہ نے اول ما خلق ﷲ نوری کو نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس کی کچھ اصل ہے ۔ (فتاویٰ رشیدیہ صفحہ نمبر 110 ،111 مطبوعہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی)

حدیث حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما

حضرت امام عبد الرزاق صاحب مصنف نے اپنی سند کے ساتھ سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کیا ہے کہ حضرت جابر فرماتے ہیں ’’میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ مجھے خبر دیں کہ وہ پہلی چیز کون سی ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے پیدا فرمایا؟ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا، اے جابر! بے شک اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا، پھر یہ نور اللہ تعالیٰ کی مشیت کے موافق جہاں اس نے چاہا سیر کرتا رہا۔ اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم تھا نہ جنت تھی نہ دوزخ نہ فرشتہ تھا نہ آسمان نہ زمین تھی نہ سورج نہ چاند نہ جن نہ انسان جب اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ مخلوقات کو پیدا کرے تو اس نور کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا۔ پہلے حصے سے قلم بنایا، دوسرے حصے سے لوح، تیسرے حصے سے عرش اور پھر چوتھے حصے کو چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے حصے سے عرش اٹھانے والے فرشتے بنائے اور دوسرے سے کرسی اور تیسرے سے باقی فرشتے اور پھر چوتھے حصے کو چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے سے آسمان بنائے اور دوسرے سے زمین اور تیسرے سے جنت اور دوزخ اور پھر چوتھے حصے کو چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے سے مومنین کی آنکھوں کا نور بنایا اور دوسرے سے ان کے دلوں کا نور پیدا کیا جو معرفت الٰہی ہے اور تیسرے سے ان کا نور انس پیدا کیا اور وہ توحید ہے (جس کا خلاصہ ہے ’’لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘) (مواہب اللدنیہ جلد اول صفحہ ۹۔ سیرت حلبیہ جلد ۱ صفحہ ۳۰، زرقانی جلد اول صفحہ ۴۶‘چشتی)

یہ حدیث مصنف عبد الرزاق سے جلیل القدر محدثین جیسے امام قسطلانی شارح بخاری و امام زرقانی اور امام ابن حجر مکی اور علامہ فارسی اور علامہ دیار بکری نے اپنی تصانیف جلیلہ افضل القریٰ، مواہب اللدنیہ مطالع المسرات خمیس اور زرقانی علی المواہب میں نقل فرما کر اس پر اعتماد اور اس سے مسائل کا استنباط کیا۔

امام عبد الرزاق صاحب مصنف جو اس حدیث کے مخرج ہیں وہ امام احمد بن حنبل جیسے اکابر ائمہ دین کے استاد ہیں۔ تہذیب التہذیب میں ان کے متعلق لکھا ہے
وَقَالَ اَحْمَدُ بْنُ صَالِحِ الْمِصْرِیْ قُلْتُ لاَِحْمَدَ بْنِ حَنْبَلَ رَاَیْتَ اَحَدًا اَحْسَنَ حَدِیْثًا مِّنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ قَالَ لَا ……… (تہذیب التہذیب صفحہ ۳۱۱ جلد ۶)

امام احمد بن صالح مصری کہتے ہیں ’’میں نے امام احمد بن حنبل سے پوچھا کہ آپ نے حدیث میں کوئی شخص عبد الرزاق سے بہتر دیکھا؟ انہوں نے فرمایا نہیں‘‘ امام عبد الغنی نابلسی رضی اللہ عنہ حدیقہ ندیہ میں اس حدیث کی تصحیح فرماتے ہوئے ارقام فرماتے ہیں ’’قَدْ خُلِقَ کُلُّ شَیْئٍ مِّنْ نُّوْرِہٖ ا کَمَا وَرَدَ بِہِ الْحَدِیْثُ الصَّحِیْحُ‘‘ اسی حدیث کو امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی دلائل النبوۃ میں تقریباً اسی طرح روایت فرمایا ہے۔ مطالع المسرات شرح دلائل الخیرات میں علامہ فارسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’قَدْ قَالَ الْاَشْعَرِیْ اِنَّہٗ تَعَالٰی نُوْرٌ لَیْسَ کَالْاَنْوَارِ وَالرُّوْحُ النَّبَوِیَّۃُ الْقُدْسِیَّۃُ لُمَّۃٌ مِّنْ نُّوْرِہٖ وَالْمَلٰئِکَۃُ شَرَرٌ تِلْکَ الْاَنْوَارِ وَقَالَ ا اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ وَمِنْ نُوْرِیْ خَلَقَ کُلَّ شَیْئٍ وَّغَیْرَہٗ مِمَّا فِیْ مَعْنَاہُ‘‘ یعنی عقائد میں اہل سنت کے امام سیدنا ابو الحسن اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسا نور ہے کہ کسی نور کی مثل نہیں اور حضور ﷺ کی روح مقدسہ اسی نور کی چمک ہے اور فرشتے انہی انوار سے جھڑے ہوئے پھول ہیں اور رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرا نور پیدا فرمایا اور میرے ہی نور سے ہر چیز پیدا فرمائی۔

اس حدیث کے علاوہ اور بھی حدیثیں اس مضمون میں وارد ہیں۔
حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مدارج النبوۃ میں فرمایا ’’درحدیث صحیح واردشد کہ اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ (مدارج النبوۃ جلد ۲ صفحہ ۲)‘‘ پھر حدیث جابر کا مضمون بیان فرمایا۔ کثیر التعداد جلیل القدر ائمہ کا اس حدیث کو قبول کرنا، اس کی تصحیح فرمانا، اس پر اعتماد کر کے اس سے مسائل کا استنباط کرنا اس کے صحیح ہونے کی روشن دلیل ہے۔ خصوصاً سیدنا عبد الغنی نابلسی رضی اللہ عنہ کا حدیقہ ندیہ کے مبحث ثانی نوع ستین من آفات اللسان فی مسئلۃ ذم الطعام میں اس حدیث کے متعلق ’’اَلْحَدِیْثُ الصَّحِیْحُ‘‘ فرمانا صحت حدیث کو زیادہ واضح کر دیتا ہے۔ ان مختصر جملوں سے ان حضرات کو مطمئن کرنا مقصود ہے جو اس حدیث کی صحت میں متردد رہتے ہیں۔

اس حدیث میں نور کی اضافت بیانیہ ہے اور نور سے مراد ذات ہے (زرقانی جلد اول صفحہ ۴۶) حدیث کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کے نور پاک یعنی ذاتِ مقدسہ کو اپنے نور یعنی اپنی ذاتِ مقدسہ سے پیدا فرمایا، اس کے یہ معنی نہیں کہ معاذ اللہ! اللہ تعالیٰ کی ذات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات کا مادہ ہے یا نعوذ باللہ! حضور کا نور اللہ کے نور کا کوئی حصہ یا ٹکڑا ہے۔ تَعَالَی اللّٰہُ عَنْ ذَالِکَ عُلُوًّا کَبِیْرًا ۔

اگر کسی ناواقف شخص کا یہ اعتقاد ہے تو اسے توبہ کرنا فرض ہے۔ اس لئے کہ ایسا ناپاک عقیدہ خالص کفر و شرک ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔ بلکہ اس حدیث کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی ذاتی تجلی فرمائی جو حسن الوہیت کا ظہور اول تھی۔ بغیر اس کے کہ ذاتِ خداوندی نورِ محمدی کا مادہ یا حصہ اور جزو قرار پائے۔ یہ کیفیت متشابہات میں سے ہے جس کا سمجھنا ہمارے لئے ایسا ہی ہے جیسا قرآن و حدیث کے دیگر متشابہات کا سمجھنا۔ البتہ نکتے اور لطیفے کے طور پر اتنا کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح شیشہ آفتاب کے نور سے روشن ہو جاتا ہے لیکن آفتاب کی ذات یا اس کی نورانیت اور روشنی میں کوئی کمی نہیں واقع ہوتی اور ہمارا یہ کہنا بھی صحیح ہوتا ہے کہ شیشے کا نور آفتاب کے نور سے ہے۔ اسی طرح حضور ﷺ کا نور اللہ تعالیٰ کی ذات سے پیدا ہوا اور آئینہ محمدی نور ذاتِ احدی سے اس طرح منور ہوا کہ نورِ محمدی کو نورِ خداوندی سے قرار دینا صحیح ہوا لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی ذات پاک یا اس کی کسی صفت میں کوئی نقصان اور کمی واقع نہیں ہوئی۔ شیشہ سورج سے روشن ہوا اور اس ایک شیشے سے تمام شیشے منور ہو گئے۔ نہ پہلے شیشے نے آفتاب کے نور کو کم کیا نہ دوسرے شیشوں نے پہلے شیشے کے نور سے کچھ کمی کی۔ حقیقت یہ ہے کہ فیضان وجود اللہ تعالیٰ کی ذات سے حضور ﷺ کو پہنچا اور حضور ﷺ کی ذات سے تمام ممکنات کو وجود کا فیض حاصل ہوا۔

اس کے بعد اس شبہ کو بھی دور کرتے جایئے کہ جب ساری مخلوق حضور ﷺ کے نور سے موجود ہوئی تو ناپاک، خبیث اور قبیح اشیاء کی برائی اور قباحت معاذ اللہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب ہو گی۔ جو حضور ﷺ کی شدید توہین ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضور ﷺ آفتاب وجود ہیں اور کل مخلوقات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آفتاب وجود سے فیضان وجود حاصل کر رہی ہے۔ جس طرح اس ظاہری آفتاب کی شعاعیں تمام کرئہ ارضی میں جمادات و نباتات اور کل معدنیات جملہ موالید اور جواہر اجسام کے حقائق لطیفہ اور خواص و اوصاف مختلفہ کا اضافہ کر رہی ہیں اور کسی کی اچھی بری خاصیت کا اثر شعاعوں پر نہیں پڑتا نہ کسی چیز کے اوصاف و اثرات سورج کے لئے قباحت یا نقصان کا موجب ہو سکتے ہیں۔ دیکھئے زہریلی چیزوں کا زہر اور مہلک اشیاء کی یہ تاثیرات معدنیات و نباتات وغیرہ کے الوان طعوم و روائح کھٹا میٹھا مزا، اچھی بری بو سب کچھ سورج کی شعاعوں سے برآمد ہوتی ہے لیکن ان میں سے کسی چیز کی کوئی صفت سورج کے لئے عار کا موجب نہیں کیونکہ یہ تمام حقائق آفتاب اور اس کی شعاعوں میں انتہائی لطافت کے ساتھ پائے جاتے ہیں اور اس لطافت کے مرتبے میں کوئی اثر برا نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ جب وہ لطیف اثرات اور حقائق سورج اور اس کی شعاعوں سے نکل کر اس عالم اجسام میں پہنچتے اور رفتہ رفتہ ظہور پذیر ہوتے ہیں تو ان میں بعض ایسے اوصاف و خواص پائے جاتے ہیں جن کی بناء پر انہیں قبیح ، ناپاک اور برا کہا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان برائیوں کا کوئی اثر سورج یا اس کی شعاعوں پر نہیں پڑ سکتا۔ اسی طرح عالم اجسام میں کثیف اور نجس چیزوں کا کوئی اثر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات پاک پر نہیں پڑ سکتا۔

اس کے بعد یہ بات بھی سمجھنے کے قابل ہے کہ سورج کی شعاعیں ناپاک گندی چیزوں پر پڑنے سے ناپاک نہیں ہو سکتیں تو انوارِ محمدی کی شعاعیں عالم موجودات کی برائیوں اور نجاستوں سے معاذ اللہ کیونکر متاثر ہو سکتی ہیں۔ نیز یہ کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نور میں حقائق اشیاء پائی جاتی ہیں اور حقیقت کسی چیز کی نجس اور ناپاک نہیں ہوتی۔ نجاستیں مٹی میں دب کر مٹی ہو جانے کے بعد پاک ہو جاتی ہیں۔ نجاستوں کا جو کھاد کھیتوں میں ڈالا جاتا ہے اسی کے نجس اجزاء پودوں کی غذا بن کر غلہ اناج، پھول اور پھل سبزیوں اور ترکاریوں کی صورت میں ہمارے سامنے آ جاتے ہیں اور وہی اجزاء غلیظہ غلہ اور پھل بن کر ہماری غذا بن جاتے ہیں۔ جنہیں پاک سمجھ کر ہم کھاتے ہیں اور کسی قسم کا تردد دل میں نہیں لاتے۔ ثابت ہوا کہ ناپاکی کے اثرات صور و تعینات پر آتے ہیں جو محض امور اعتباریہ ہیں حقیقتیں ناپاک نہیں ہوا کرتیں۔ اس لئے کل مخلوق کا نور محمدی ﷺ سے موجود ہونا کسی اعتراض کا موجب نہیں۔

تقسیم نور

حدیث جابر رضی اللہ عنہ میں جو بار بار تقسیم نور کا ذکر آیا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ معاذ اللہ نور محمدی تقسیم ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ نے جب نورِ محمدی کو پیدا فرمایا تو اس میں شعاع در شعاع بڑھاتا گیا اور وہی مزید شعاعیں تقسیم ہوتی رہیں۔ اس مضمون کی طرف علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اشارہ فرمایا۔ دیکھئے (زرقانی علی المواہب جلد اول ص ۴۶) رہا یہ شبہ کہ نورِ محمدی سے روح محمدی مراد ہے، لہٰذا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نور ہونا ثابت نہ ہوا تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث شریف میں ’’نُوْرُ نَبِیِّکَ مِنْ نُّوْرِہٖ‘‘ وارد ہے۔ جس طرح ’’نُوْرِہٖ‘‘ میں اضافت بیانیہ اور لفظ نور سے اللہ تعالیٰ مراد ہے، اسی طرح ’’نُوْرُ نَبِیِّکَ‘‘ میں اضافت بیانیہ ہے اور لفظ نور سے ذات پاک حضرت محمد مصطفی ﷺ مراد ہے۔ لہٰذا ذاتِ محمدی کو لفظ نور سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ اس مقام پر یہ کہنا کہ صرف روح پاک نور ہے، جسم اقدس نور نہیں تو یہ بے خبری پر مبنی ہے جسم اقدس کی لطافت اور نورانیت پر انشاء اللہ ہم آئندہ گفتگو کریں گے، سردست اتنا عرض کر دینا کافی سمجھتے ہیں کہ حدیث جابر میں تمام اشیاء سے پہلے جس نورِ محمدی کی خلقت کا بیان ہے وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات پاک کا نور ہے اور وہ اس لطیف حقیقت کو بھی شامل ہے جسے حضور ﷺ کے نورانی اور پاکیزہ اجزائے جسمیہ کا جوہر لطیف کہا جا سکتا ہے، اس لئے کہ وہ نور پاک آدم علیہ السلام کی پشت مبارک میں بطور امانت رکھا گیا ہے۔ علامہ زرقانی فرماتے ہیں ’’وَفِی الْخَبْرِ لَمَّا خَلَقَ اللّٰہُ تَعَالٰی اٰدَمَ وَجَعَلَ اَوْ دَعَ ذٰلِکَ النُّوْرَ نُوْرُ الْمُصْطَفٰی فِیْ ظَہْرِہٖ فَکَانَ شِدَّۃً یَّلْمَعُ فِیْ جَبِیْنِہٖ الخ‘‘ زرقانی علی المواہب جلد اول ۴۹۔ مواہب اللدنیہ جلد اول ۱۰۔
ترجمہ: ’’حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو نورِ مصطفی ﷺ کو ان کی پشت مبارک میں رکھ دیا اور نور پاک ایسا شدید چمک والا تھا کہ باوجود پشت آدم میں ہونے کے پیشانی آدم علیہ السلام سے چمکتا تھا اور آدم علیہ السلام کے باقی انوار پر وہ غالب ہو جاتا تھا۔

یہ حقیقت آفتاب سے زیادہ روشن ہے کہ پشت آدم علیہ السلام میں ان کی تمام اولاد کے وہ لطیف اجزائے جسمیہ تھے جو انسانی پیدائش کے بعد اس کی ریڑھ کی ہڈی کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اور وہی اس کے اجزائے اصلیہ کہلائے جاتے ہیں۔ نہ صرف آدم علیہ السلام بلکہ ہر باپ کے صلب میں اس کی اولاد کے ایسے ہی لطیف اجزائے بدنیہ موجود ہوتے ہیں جو اس سے منتقل ہو کر اس کی نسل کہلاتی ہے اولاد کے ان ہی اجزائے جسمیہ کا آباء کے اصلاب میں پایا جانا باپ بیٹے کے درمیان ولدیت اور ابنیت کے رشتہ کا سنگ بنیاد اور سبب اصلی ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پشت میں قیامت تک پیدا ہونے والی اولاد کے اجزائے اصلیہ رکھ دئیے۔ یہ اجزاء روح کے اجزاء نہیں، نہ روح کا کل ہیں۔ کیونکہ ایک بدن میں ایک روح سما سکتی ہے۔ ایک سے زیادہ ایک بدن میں روح کا پایا جانا بداھتہً باطل ہے۔ لہٰذا آدم علیہ السلام کی پشت میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روح مبارک نہیں رکھی تھی بلکہ جسم اقدس کے جوہر لطیف کی نورانی شعاعیں رکھی گئی تھیں جو نورِ ذاتِ محمدی ﷺ کی شعاعیں تھیں۔

ارواحِ بنی آدم کا ان کے آباء کے اصلاب میں نہ رکھا جانا صحیحین کی اس حدیث سے ثابت ہے کہ استقرار حمل سے چار مہینے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو چار باتیں لکھنے کے لئے بھیجتا ہے اور وہ چار باتیں لکھ دیتا ہے۔ اس کا عمل، عمر، رزق اور دوزخی یا جنتی ہونا، پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ مشکوٰۃ ص ۲۰

معلوم ہوا کہ اولاد کی روحیں باپ کے صلب میں نہیں رکھی جاتیں بلکہ شکم مادر میں پھونکی جاتی ہیں۔

ایک شبہ کا ضروری ازالہ

شاید کوئی شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ عالم ارواح میں اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پشت مبارک سے ان کی قیامت تک پیدا ہونے والی تمام اولاد کو باہر نکال کر ان سے اپنی ربوبیت کا عہد لیا تھا۔ معلوم ہوا کہ تمام بنی آدم کی ارواح آدم علیہ السلام کی پشت میں تھیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ پشت آدم علیہ السلام سے ان کی اولاد کی ارواح نہیں نکالی گئی تھیں بلکہ وہ ان کے اشخاص مثالیہ تھے جو مثالی صورتوں میں ان کی پشت مبارک سے بہ قدرت ایزدی ظاہر کئے گئے تھے کیونکہ ہم ابھی حدیث صحیحین سے ثابت کر چکے ہیں کہ ماؤں کے پیٹ میں نفخ روح کیا جاتا ہے۔ اس تفصیل سے واضح ہو گیا کہ نورِ محمدی اپنی عزت و کرامت کے مقام میں جلوہ گر رہا اور پشت آدم علیہ السلام میں اجزائے جسمانیہ کے جوہر لطیف کے انوار رکھے گئے تھے جو اصلاب طاہرہ اور ارحام طیبہ میں منتقل ہوتے رہے۔

تطبیق

بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ نورِ محمدی ﷺ آدم علیہ السلام کی پشت مبارک میں رکھا گیا اور بعض روایات میں وارد ہے کہ نورِ محمدی ﷺ پیشانی آدم علیہ السلام میں جلوہ گر تھا۔ جیسا رازی کی تفسیر کبیر میں ہے۔ دونوں میں تطبیق یہ ہے کہ وہ نور مبارک پشت آدم ہی میں تھا لیکن اپنے کمال نورانیت اور شدت چمک کی وجہ سے پیشانی آدم علیہ السلام میں چمکتا تھا۔

الحمدللہ! ہمارے اس بیان سے اچھی طرح واضح ہو گیا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بدن مبارک بھی نور تھا۔
صاحب روح المعانی حضور ﷺ کے اول خلق ہونے کے بارے میں ارقام فرماتے ہیں ’’وَلِذَا کَانَ نُوْرُہٗ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَوَّلُ الْمَخْلُوْقَاتِ فَفِی الْخَبَرِ اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ تَعَالٰی نُوْرَ نَبِیِّکَ یَا جَابِرُ‘‘ (تفسیر روح المعانی پ ۱۷ صفحہ ۹۶)
ترجمہ: ’’چونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام وصول قبض میں واسطہ عظمیٰ ہیں اسی لئے حضور ﷺ کا نور اول مخلوقات ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہے، سب سے پہلی وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی وہ تیرے نبی کا نور ہے اے جابر۔‘‘

اس حدیث جابر مذکورہ کو مولوی اشرف علی صاحب تھانوی نے اپنی کتاب نشر الطیب کے ۶ پر تفصیل سے لکھا ہے

(۲) حدیث حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
امام احمد، بیہقی و حاکم نے حدیث عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت فرمائی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’بے شک میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبیین ہو چکا تھا اور آدم علیہ السلام ابھی اپنے خمیر میں تھے یعنی ان کا ابھی پتلا بھی نہ بنا تھا۔ حاکم نے اس حدیث کو صحیح الاسناد کہا۔ مشکوٰۃ شریف میں بھی یہ حدیث بروایت شرح السنہ مذکور ہے۔ مواہب اللدنیہ جلد ۱ ص ۶

ایک شبہ کا ازالہ

اگر یہ شبہ کیا جائے کہ خاتم النبیین کے معنی دنیا میں تمام نبیوں کے آخر میں آنے والا نبی، یہ معنی دنیا میں متحقق ہو سکتے ہیں، عالم ارواح میں اس معنی کا ثابت ہونا ممکن نہیں۔ لہٰذا اس حدیث کے معنی یہ ہوں گے کہ حضور کا خاتم النبیین ہونا علم الٰہی میں مقدر تھا یا یہ کہنا پڑے گا کہ خاتم النبیین کے معنی آخری نبی نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ خاتم النبیین کے معنی قطعاً آخری نبی ہیں … اور حدیث کا مطلب یہی ہے کہ میں فی الواقع خاتم النبیین ہو چکا تھا نہ یہ کہ میرا خاتم النبیین ہونا علم الٰہی میں مقدر تھا کیونکہ علم الٰہی میں تو ہر چیز مقدر تھی۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ آخر النبیین ہونے کا ثبوت اور ظہور دو الگ مرتبے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں ختم نبوت کے منصب پر اپنے حبیب ﷺ کو فائز فرما دیا۔ بایں معنی کہ سب نبیوں کے بعد ان کا سردار بن کر جانے والا نبی یہی محبوب ہے۔ اگرچہ جانے کا موقع ابھی نہ آیا ہو۔ یہ بالکل ایسا ہے کہ بادشاہ کسی کو امیر جہاد مقرر کر دے تو اس امارت کا ظہور جہاد پر جانے کے بعد ہی ہو گا۔ اس کا منصب جلیل پہلے ہی سے ثابت ہو گیا۔ اسی طرح یہاں سمجھ لیں کہ منصب خاتم النبیین کا ثبوت حضور اکرم ﷺ کے لئے پہلے سے ثابت تھا لیکن اس کا ظہور دنیا میں تشریف لانے کے بعد ہوا ۔ اس بیان سے ایک اصول ظاہر ہو گیا کہ ثبوت کمال کے لئے اسی وقت ظہور لازم نہیں۔ اسی لئے اہل سنت کا مسلک ہے کہ حضور سید عالم ﷺ تمام کمالاتِ محمدیت کے ساتھ متصف ہو کر پیدا ہوئے لیکن ان کا ظہور اپنے اپنے اوقات میں حسب حکمت و مصلحت خداوندی ہوا ۔ (مقالات کاظمی استاذی المکرّم سیّد احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...