دارالعلوم دیوبند کو ہندو مستقل طور پر چندہ دیتے تھے ۔ دیوبندی انگریز کے وفادار
دویبندیوں کے رئیس القلم جناب مناظر احسن گیلانی مہتتم دارالعلوم دیوبند جناب قاری طیّب صاحب کی ہدایت پر لکھتے ہیں : دارالعلوم دیوبند کو ہندو مستقل طور پر چندہ دیتے تھے چند نام :منشی تلسی رام ‘ رام سہائے ‘ منشی ہر دواری لال‘ لالہ بجناتھ ‘ پنڈت سری رام ‘ منشی موتی لال ‘ رام لال‘ سیو رام سوار ۔ (سوانح قاسمی جلد دوم صفحہ نمبر 317 شائع کردہ دارالعلوم دیوبند)
دویبندیوں کےرئیس القلم جناب مناظر احسن گیلانی مہتتم دارالعلوم دیوبند جناب قاری طیّب صاحب کی ہدایت پر لکھتے ہیں : دارالعلوم دیوبند کو ہندوؤں کی طرف سے مستقل بنیادوں پر چندہ ملتا رہا اور دیوبند والے ہندوؤں کےلیئے دعا کرتے رہے کہ : خدا اُن کی قوت و آزادی کو قائم رکھے یہ اعلان مسلسل ہوتا رہا ۔ (سوانح قاسمی جلد دوم صفحہ نمبر 332 شائع کردہ دارالعلوم دیوبند)
مہتمم دارالعلوم دیوبند جناب قاری طیّب صاحب لکھتے ہیں : مدرسہ دیوبند کے اکثر بزرگ انگریز کے ملازم تھے ہم پر بغاوت کے الزام لگے مگر ہم (یعنی دیوبند والے) انہیں بزرگوں کے ذریعے صفائی دینے میں کامیاب ہوگئے کہ ہم انگریز سرکار کے باغی نہیں ہیں ۔ ( سوانح قاسمی حصّہ دوم صفحہ نمبر 247 شائع کردہ دارالعلوم دیوبند ، چشتی)
جی جناب عالی مہتمم دارالعلوم دیوبند جناب قاری محمد طیب صاحب تو فرماتے ہیں ہم انگریز سرکار کے باغی نہیں ہم نے یہ باور کرادیا انگریز سرکار کو تو جناب والا مہتمم دیوبند سچے کہ آپ سچے ذرا سوچ کر کمنٹ کیجیئے گا ؟ مزید تفصیل کتاب کے اصل صفحہ پر پڑھیں اسکن پیش خدمت ہے ۔
ہم کچھ عرض کرینگے تو شکایت ہوگی : صرف اتنی عرض ہے یہ چندہ ہندوؤں سے کس بنیاد پر لیا جاتا رہا ؟
کیا ہندو کے چندے سے دین کا کام کرنا جائز و درست ہے ؟
اور کیا ہندوؤں سے چندہ لے کر ان کی قوت و آزادی قائم رہے کی دعائیں کرنا اسلام سے غدّاری اور ہندو سے وفاداری نہیں ؟
محترم قارئینِ کرام : دارالعلوم دیوبند کو مسلسل اور مستقل بنیادوں پر ہندو چندہ دیتے رہے اور دیوبندی علماء ان کے لیئے دعائیں کرتے رہے ؟ ہندو اور دیوبندی ایک ہیں جناب من سچ سچ ہوتا ہے سچ کو جھوٹ کے پردوں میں چھپایا نہیں جا سکتا ہندوؤں سے چندے کون لیتا رہا ؟ ہندوؤں کےلیے دعا کون کرتا رہا ؟ آنکھیں کھول کر پڑھیں اور جواب دیں ۔
مختصر تاریخ فرقہ دیوبند
دیوبندیت ایک جدید فرقہ ہے جو دیوبندی کتب کے مطابق 30 مئی 1867 میں ہندوؤں اور انگریزوں کے تعاون سے بننے والے مدرسہ دیوبند کی تعمیر کیساتھ ہی معرض وجود میں آیا اس کا مختصر احوال ملاحظہ کیجیے :
دارالعلوم دیو بند کے موسسین میں پہلا نام مولانا ذوالفقار علی ولد فتح علی کاہے جو مولانا محمو د الحسن کے والد بزرگوار تھے ۔یہ دہلی کالج میں پڑھتے رہے، بریلی کالج میں پروفیسر رہے پھر شعبہ تعلیم میں ڈپٹی انسپکٹر مدارس بنے پھر پنشن کے بعد دیو بند تشریف لے آئے اور حکومت برطانیہ سے وفاداری کے اعزا ز میں آنریری مجسٹریٹ بنا دیئے گئے۔انہوں نے 30مئی 1867ءمیں دارالعلوم دیو بند کی بنیاد رکھی ۔ دوسرے مولانا فضل الرحمن تھے جو مولانا شبیر احمد عثمانی کے والد بزرگوار تھے۔انہوں نے دارالعلوم دیو بند کی بنیاد رکھنے میں حصہ لیا ۔مولانا یعقوب علی نانوتوی دارالعلوم دیو بند کے پہلے مدرس تھے ۔مولانا قاسم نانوتوی دہلی کالج سے فارغ ہوئے تو پہلے مطبع احمدی پھر مطبع مجتبائی میرٹھ میں اور اس کے بعد مطبع مجتبائی دہلی میں پروف ریڈر رہے اس کے بعد مستقل طور پر مدرسہ دیو بند میں پڑھاتے رہے ۔ (احسن نانوتوی ص691,195,47,45 ،چشتی)
مدرسہ دیو بند کی تعمیر کے لئے جن ہندوؤں نے چندہ دیا ان میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں ۔منشی تلسی رام ، رام سہائے ، منشی ہر دواری لال، لالہ بجناتھ ، پنڈت سری رام ، منشی موتی لال ، رام لال، سیو رام سوار ۔ (سوانح قاسمی 2/317)
قاری طیب دیو بندی مہتمم دارالعلوم دیو بند فرماتے ہیں : چنانچہ دارالعلوم دیو بند کی ابتدائی روداد میں بہت ہندوؤں کے چندے بھی لکھے ہوئے ہیں ۔ (خطبات حکیم الاسلام9/149)
13جنوری 1875ءبروز یک شنبہ لیفٹننٹ گورنر کے ایک خفیہ معتمد انگریز مسمی پامر نے اس مدرسہ کا دورہ کیا تو اس نے اس کے متعلق بہت ہی اچھے خیالات کا اظہار کیا۔اس معائنے کی رپورٹ کی چند سطور ملاحظہ فرمائیں : یہ مدرسہ سرکار کے خلاف نہیں بلکہ موافق سرکار ممد و معاون سرکار ہے ۔ یہاں کے تعلیم یافتہ لوگ ایسے آزاد اور نیک چلن ہیں کہ ایک دوسرے سے کچھ واسطہ نہیں ۔ (احسن نانوتوی ص217‘تصنیف محمد ایوب قادری دیوبندی۔ خر العلماء ص 60 ،چشتی)
مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کو انگریزی حکومت کی طرف سے چھ سو روپیہ ماہوار ملتا تھا ۔ (مکالمہ الصدرین ص 9‘ تقریر شبیر احمد عثمانی دیوبندی)
اس بات کا تذکرہ تھانوی صاحب نے الاضافات الیومیہ 6۔56 ملفوظ نمبر 108میں بھی کیا ہے۔
دارالعلوم دیو بند کا جب صد سالہ جشن منایا گیا تو مہمان خصوصی (صدر مجلس ) بھارت کی وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی اور بھارت کے سابق نائب وزیر اعظم جگ جیون رام تھے ۔ مسز اندرا گاندھی نے علماء دیوبند کو خطاب فرمایا نیز مسٹر جگ جیون رام نے بھی علماء دیوبند کو بالخصوص اور عوام الناس کو بالعموم وعظ و نصیحت سے مستفید فرمایا ۔ اس صد سالہ جشن دیو بند کی روئداد بھی چھپی جس میں مہمانان گرامی کی تصاویر نمایاں طور ملاحظہ کی جا سکتی ہیں ۔
کیا آپ جانتے ہیں لفظ دیوبند کا مفہوم کیا ہے ؟ ماہنامہ تجلی دیوبند کے ایڈیٹر عامر عثمانی دیوبندی کی زبانی پڑھیئے :
جناب عامر عثمانی دیوبندی اشعار کے ذریعہ سے سمجھاتے ہوئے لکھتے ہیں :
د ، ی ، و ، ب ، ن ، د
دغا کی دال ہے یاجوج کی ہے ی اس میں
وطن فروشی کی واؤ بدی کی ب اس میں
جو اس کے نون میں نارجحیم غلطاں ہے
تو اس کی دال سے دہقانیت نمایاں ہے
ملے یہ حرف تو بیچارہ دیوبند بنا
برے خمیر سے یہ شہر ناپسند بنا
(ماہنامہ تجلی دیوبند فروی 1957ء)
No comments:
Post a Comment