Wednesday, 17 July 2019

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کب سے نبی ہیں ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کب سے نبی ہیں ؟

محترم قارئین کرام : بعض لوگ ایسے بھی تھے اور ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو وحی کے نزول سے پہلے نبی ماننے سے انکاری تھے اور ہیں مگر اب اس نظریے کو بزعم خویش ختمِ نبوت کا رنگ دی کر عوام میں لایا جا رہا ہے ۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس وقت بھی نبی تھے جب آدم علیہ السلام مٹی اور پانی کے درمیان تھے ۔

حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے : قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَتٰی وَجَبَتْ لَکَ النُّبُوَّةُ ؟ قَالَ: وَآدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ ۔
ترجمہ : لوگوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ کے لیے نبوت کب واجب ہوئی تھی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (میں اُس وقت بھی نبی تھا) جب آدم علیہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی (یعنی روح اور جسم کاباہمی تعلق بھی ابھی قائم نہ ہوا تھا) ۔ (جامع ترمذی،کتاب المناقب ،باب ماجاء فی فضل النبی صلی اللہ علیہ وسلم ح 3609)(دلائل النبوہ للبیہقی 2/130 )(وابونعیم فی الدلائل ص 8ح8)(المستدرک للحاکم 2/609 اخبار الصبہان لابی نعیم 2/226 )(کتاب القدر للفریابی ح14)(تاریخ بغداد للخطیب 1/146) (أحمد بن حنبل، المسند، 4: 66، رقم: 16676، مصر: مؤسسة قرطبة)(ترمذي، السنن، 5: 585، رقم: 3609، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي)(حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 2: 665، رقم: 4209-4210، بیروت: دار الکتب العلمیة)(ابن أبي شیبة، المصنف، 7: 369، رقم: 36553، الریاض: مکتبة الرشد) ۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا : ھذا حدیث حسن صحیح غریب من حدیث ابی ہریرۃ لانعرفہ الا من ھذا الوجہ) ۔ یہ روایت صحیح ہے ۔ ولید بن مسلم نے دلائل النبوۃ میں سماع کی تصریح کردی ہے اور اس روایت کے کئی شواہد ہیں ۔

سیدنا میسرۃ الفجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا : قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَتَى كُتِبَتْ نَبِيًّا ؟
ترجمہ : اےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کب نبی لکھے گئے ؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وَ آدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ ۔ اور آدم علیہ السلام روح اور جسد کے درمیان تھے ۔ (مسند احمد 5/59 ح20872)(کتاب السنۃ لعبداللہ بن احمد 2/398 ح 864 واللفظ لہ)(التاریخ الکبیر للبخاری 7/374 کتاب السنۃ لابن ابی عاصم ح410)(کتاب القدر لجعفر بن محمد الفریابی ص 29 ح 17)(طبقات ابن سعد 7/60)(المعجم الکبیر للطبرانی 20/353 ح 822،834 )(ابو یعلیٰ الموصلی اتحاف الخیرۃ المھرۃ للبوصیری 9/8 ح 488)(حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصبھانی 9/53)(الحاکم فی المستدرک 2/608،609 وصححہ ووافقہ الذہبی معجم الصحابہ لعبد الباقی بن قانع ج14 ص 5043 ح 1992ء 1993)

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ بُدَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ الْفَجْرِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَتَى كُتِبْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: " وآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ ۔
ترجمہ : اور نبوت اس وقت واجب ہوئی جب آدم علیہ السلام روح اور جسد کے درمیان تھے ۔ (مسند الإمام أحمد بن حنبل - ج 34 ص 202 ح 20596
تعليق شعيب الأرنؤوط وھابی : إسناده صحيح رجاله ثقات رجال الصحيح،چشتی) ۔ ناصر البانی جو سلفیہ فرقہ کا بانی ہے نے اس کو "إسناده صحيح رجاله ثقات رجال الصحيح" کہا ہے ۔ كتاب السنة ومعه ظلال الجنة في تخريج السنة ح 410 صفحہ 189
نیز اس کو سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها - ج4 ح 1856 صفحہ 471 پر درج کیا ہے ۔
قال حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا سريج بن النعمان قال ثنا حماد عن خالد الحذاء عن عبد الله بن شقيق عن رجل قال قلت : يا رسول الله متى جعلت نبيا قال وآدم بين الروح والجسد ۔ ناصر البانی نے اس کوإسناده صحيح کہا ہے ۔ (كتاب السنة ومعه ظلال الجنة في تخريج السنة ح 411 صفحہ 189)

امام احمد بن محمد قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ المواہب اللدنیہ میں نقل کرتے ہیں : وروى عبد الرزاق بسنده عن جابر بن عبد الله الأنصارى قال: قلت: يا رسول اﷲ! بأبی أنت و أمی! أخبرنی عن أوّل شئ خلقه اﷲ تعالی قبل الأشياء، قال: يا جابر! إن اﷲ تعالی قد خلق قبل الأشياء نور نبيک من نوره، فجعل ذلک النور يدور بالقدرة حيث شاء اﷲ تعالی، ولم يکن فی ذلک الوقت لوح ولا قلم، ولا جنة ولا نار، ولا ملک، ولا سماء ولا أرض، ولا شمس ولا قمر، ولا جني ولا انسي، فلما أراد اﷲ تعالی أن يخلق الخلق، قسم ذالک النور أربعة أجزاء: فخلق من الجزء الأوّل القلم، و من الثانی اللوح، ومن الثالث العرش، ثم قسم الجزء الرابع أربعة أجزاء، فخلق من الأوّل حملة العرش، و من الثانی الکرسی، و من الثالث باقی الملائکة، ثم قسم الجزء الرابع أربعة أجزاء، فخلق من الأوّل السموت، ومن الثانی الأرضين، و من الثالث الجنة والنار …
ترجمہ : ابو بکر عبد الرزاق رحمہ اللہ نے اپنی سند سے حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا: میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے بتائیں کہ اللہ تعالی نے سب سے پہلے کیا چیز پیدا فرمائی؟ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے جابر! بیشک اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے (نہ بایں معنی کہ نور الٰہی اس کا مادہ تھا بلکہ اس نے نور کے فیض سے) پیدا فرمایا، پھر وہ نور مشیتِ ایزدی کے مطابق جہاں چاہتا سیر کرتا رہا۔ اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم، نہ جنت تھی نہ دوزخ، نہ فرشتہ تھا، نہ آسمان تھا نہ زمین، نہ سورج تھا نہ چاند، نہ جن تھا اور نہ انسان۔ جب اللہ تعالی نے ارادہ فرمایا کہ مخلوقات کو پیدا کرے تو اس نور کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا: پہلے حصے سے قلم بنایا، دوسرے سے لوح اور تیسرے سے عرش۔ پھر چوتھے حصے کو چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے حصے سے عرش اٹھانے والے فرشتے بنائے اور دوسرے سے کرسی اور تیسرے سے باقی فرشتے۔ پھر چوتھے کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے سے آسمان بنائے، دوسرے سے زمین اور تیسرے سے جنت اور دوزخ ۔۔۔۔(قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1: 71، بيروت: المكتب الاسلامي)

ان روایات سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نورِ محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے پہلے تخلیق کیا ۔ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نورِ نبوت کی تخلیق سب سے پہلے ہوئی مگر آپ کا جسمانی ظہور اور بعثت و اعلانِ نبوت تمام انبیاء کے اخیر میں ہوا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سر پر ختمِ نبوت کا تاج سجایا ہے آپ کے ذریعے شریعتِ خداوندی کا کامل و مکمل صورت میں اظہار ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تخلیق میں اول اور بعثت میں انبیاء میں سے آخری ہیں ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : كُنْتُ أَوَّلَ النَّبِيِّينَ فِي الْخَلْقِ وَآخِرَهُمْ فِي الْبَعْثِ ۔
ترجمہ : میں سب نبیوں سے پہلے پیداہوا اور سب سے آخر میں بھیجا گیا ۔
(هندي، كنزالعمال، 11: 205، رقم: 32126، بيروت: دار الكتب العلمية)(تمام بن محمد الرازي، الفوئد، 2: 15، رقم: 1003، الرياض: مكتبة الرشد،چشتی)(السيوطي، الدر المنثور، 6: 570، بيروت: دار الفكر)

اسی مفہوم کی ایک روایت حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرسلا روایت ہے ۔ حضرت ابو قلابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : إِنَّمَا بعثت فاتحاً وخاتماً ۔
ترجمہ : میں دریائے رحمت کھولتے اور سلسلہ نبوت و رسالت کو ختم کرتے ہوئے مبعوث ہوا ۔ (عبد الرزاق، المصنف، 6: 112، 113، رقم: 10163- 11: 111، رقم: 20062، بيروت: المكتب الاسلامي)

محترم قارئین کرام : اہل سنت و جماعت کے چند محدود ترین علماء عمومی طور نے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ والی روایت میں جو یہ آیا ہے کہ نبوت کب لکھی گئی اس کے بارے میں اپنی ایک رائے دی ہے اس رائے کو بنیاد بنا کر کے علماء کے اجماع ، اتفاق کو پیٹھ پیچھے پینکھ کر اور تفرد کو لے کر غلو پیدا کر کے نیا مذہب کھڑا کر دیا فقیر کا مزاج نہیں مگر بعض حضرات "اس نظریے " کو نظریہ ختم نبوت سمجھ بیٹھے ہیں ۔

خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

اس نظریے کا پرچار ابن تیمیہ اور خارجیوں کا منھج ہے کہ : اس دنیا میں اپنی مبارک عمر کے چالیسویں سال آپ کو وحی بھیج کر نبوت کے عظیم منصب پر سرفراز کیا گیا ۔ اور جو "ہماری" طرح "یہ" عقیدہ نہ رکھے وہ ابن تیمیہ کے نزدیک معاذ اللہ کافر ہے ۔

ابن تیمیہ لکھتا ہے کہ : ومن قال أن النبى صلى الله عليه و سلم كان نبيا قبل أن يوحى إليه فهو كافر بإتفاق المسلمين ۔
ترجمہ : اور جس نے کہا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم وحی نازل ہونے سے پہلے نبی تھے وہ کافر ہے اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے ۔ (مجموع فتاوى شيخ الإسلام أحمد بن تيمية جلد 8 صفحہ 283 الناشر: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف)

الحمدللہ ہم اہلسنّت و جماعت اس باطل فکر سے بری ہیں ۔

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش
میں زہرِ ہَلاہِل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تنقیص جس چیز سے بھی مترشح ہوتی ہو اس چیز کا پرچار کرنا سراسر گمراہی ہے اور اس پر زور دینا کفر کی طرف لے جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فتنوں سے بچائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...