عالمُ الغیب یا عالمِ غیب دیابنہ اور وہابیہ کے فریب کا جواب
محترم قارئین : جب بھی مسلہ علم غیب پر بات ہوتی ہے تو کچھ جہلاء اس بحث کو عالم الغیب میں الجھا کر سادہ لوح اہلِ ایمان کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں آیئے ہم اس فریب سے پردہ اٹھاتے ہیں ، الله عزّ و جل اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علم مبارکہ میں فرق معلوم کرتے ہیں :
ارشاد باری تعالیٰ ہے : وعلمك مالم تکن تعلم، وکان فضل الله علیك عظیما ۔
ترجمہ : اور آپ کو وہ علم سکھا دیا جو تم نہ جانتے تھے اور اے نبی کریم الله کا آپ پر بڑا فضل ہے . (سورۃ النساء، 113)
ہمارا چیلینج
ہاں ہاں تمام منکرین کو ہے سب کو دعوت عام ہے سب اکٹھے ہو کر ایک آیت یا ایک حدیث متواتر یقینی الافادۃ لائیں جس سے صریح ثابت ہو کہ تمام نزولِ قرآن کے بعد بھی ماکان و مایکون سے فلاں امر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر مخفی رہا اگر ایسا نص نہ لاسکو اور ہم کہے دیتے ہیں کہ ہر گز نہ لاسکو گے تو جان لو کہ اللہ راہ نہیں دیتا دغا بازوں کے مکر کو ۔ (فتاوی رضویہ، جلد 29، کتاب الشتی، 408)
مسلمانانِ اہلسنت و جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لئے نزول قرآن مکمل ہونے کے بعد سے علم غیب کلی عطائی مانتے ہیں . نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے عالمِ غیب کلی ہونے سے یہ مراد نہیں کہ الله عزّ و جل اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا علم برابر ہے ۔ (معاذ الله)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علم غیب سے کیا مراد ہے ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو کل علم ماکان وما یکون (جو کچھ ہوچکا اور جو کچھ ہونے والا ہے) ، لوح محفوظ عرش و کرسی ، جنت ونار ، حشر و نشر اور تمام کلیات و جزئیات کا علم غیب ہے . (حبیب الفتاوی ،کتاب العقائد)
الله عزوجل کا علم ذاتی ہے لامحدود ہے لامتناہی ہے جبکہ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا علم محدود ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا علم دیگر مخلوقات کے نظریے سے کل غیب ہے یعنی سکھایا ہوا وہ علم جس میں ممکنات کا دخل نہیں لیکن اللہ عزوجل کو ممکنات کا بھی علم ہے ، الله عزّ و جل اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علم میں کوئی مقابلہ نہیں ، رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا علم بحر علم الہٰی سے عطا کیا ہوا ایک قطرہ ہے .
علم غیب ذاتی صرف الله کو ہے
امام ابن حجر ہیتمی مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ذکرناہ فی الاٰیۃ صرح بہ النووی رحمۃ ﷲ تعالٰی فی فتاواہ فقال معناھا لایعلم ذٰلک استقلا لاً وعلم احاطۃ بکل المعلومات الاّ ﷲ تعالی ۔
ترجمہ : یعنی ہم نے جو آیاتِ کی تفسیر کی امام نووی رحمۃ ﷲ تعالٰی نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تصریح کی ، فرماتے ہیں آیت کے معنٰی یہ ہیں کہ غیب کا ایسا علم صرف خدا کو ہے جو بذاتِ خود ہو اور جمیع معلومات کو محیط ہو ۔ ( فتاوٰی حدیثیہ ابن حجر مکی ،مطلب فی حکم مااذا.. الخ، ص ۲۲۸)
نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا علم غیب الله عزّ و جل کے برابر نہیں
تفسیر کبیر میں ہے : قولہ ولا اعلم الغیب یدل علی اعترافہ بانہ غیر عالم بکل المعلومات ۔
ترجمہ : یعنی آیت میں جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ارشاد ہوا تم فرمادو میں غیب نہیں جانتا ، اس کے یہ معنی ہیں کہ میرا علم جمیع معلومات الہٰیہ کو حاوی نہیں ۔ (مفاتح الغیب تفسیر کبیر)
ہمارا عقیدہ ہے کہ الله عالم الغیب ہے . اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عالمِ غیب ہیں . نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو عالمِ غیب کہہ سکتے ہیں عالمُ الغیب کہنا منع ہے ۔ (حبیب الفتاوی)
علم ما کان و مایکون نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو حاصل ہے
اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا !"خلق الانسان علمہ البیان" اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا ۔ (ترجمہ جونا گڑھی غیر مقلد وہابی)
ان آیات کی تفسیر میں مفسرین نے بہت کچھ لکھا ہے ان میں سے چند اکابرین مفسرین علیہم الرّحمہ کی تفاسیر پیش خدمت ہیں :
مشہور مفسّر امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:خلق الانسان یعنی محمداً صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم علمہ البیان یعنی بیان ماکان ومایکون ۔ ترجمہ:یعنی اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلیﷲ علیہ وسلم ہیں اور بیان سے مراد ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ (تفسیر البغوی (معالم التنزیل) صفحہ ١٢٥٧) ابی محمد حسین بن مسعود البغوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ٥١٦ھ)
اسی طرح قدیم مفسّر امام قرطبی رحمتہ ﷲعلیہ یوں فرماتے ہیں : الانسان ھاھنا یراد بہ محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم والبیان وقیل ماکان ومایکون ۔
ترجمہ:یعنی اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور بیان سے مراد (بعض کہتے ہیں) ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ (الجامع الاحکام القرآن والمبین لما تضمنہ من السنتہ وآی الفرقان الجزءالعشرون صفحہ١١٣) ابی عبدﷲ محمد بن احمد بن ابی بکر القرطبی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ٦٧١ھ)
ایک اور مفسّر امام ابن عادل حنبلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : المراد بالانسان ھنا محمد علیہ السلام علمہ البیان وقیل ماکان ومایکون ۔
ترجمہ:یعنی اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور بیان سے مراد (بعض کہتے ہیں) ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔
( اللباب فی علوم الکتاب المشہور تفسیر ابن عادل الجزء الثامن عشر صفحہ٢٩٣-٢٩٤)ابی حفص عمر بن علی ابن عادل الدمشقی الحنبلی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ٨٨٠ھ)
اسی طرح امام ثعلبی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر میں موجود ہے : خلق الانسان یعنی محمداً صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم علمہ البیان یعنی بیان ماکان ومایکون ۔
ترجمہ:یعنی اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور بیان سے مراد ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ ( الکشف والبیان فی تفسیر القران المشہور تفسیر الثعلبی الجزء السادس صفحہ٤٨، للعلامہ ابی اسحٰق احمد بن محمد بن ابراھیم الثعلبی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ٤٢٧ھ)
الحمد للہ اہلسنت و جماعت کا عقیدہ علم غیب متقدمین مفسرین اکابرین علیہم الرّحمہ کی تفاسیر اور عقائد و نظریات کے مطابق ہے ۔
عقیدۂ علم غیب اور امام قرطبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : " عَالِمُ الغَیبِ فَلَا یُظہِرُ عَلیٰ غَیبِہ اَحَداً اِلَّا مَنِ الرتَضیٰ مِن الرَسُول " (سورہ جنّ آیت ٢٦ ٢٧)
ترجمہ : وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا
سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کرلے ۔ (مولوی محمد جوناگڑھی وھابی)
اس آیت کی تفسیر میں معروف مفسّر "امام قُرطبی" رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کان فیہ دلیل علیٰ انّہ لا یعلم الغیب احد سواہ , ثم استثنیٰ من ارتضاہ من الرسل ۔
ترجمہ : اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ ﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا پھر ان رسولوں (علیہم السّلام) کو اس سے مستثنیٰ کردیا جن پر وہ راضی ہے ۔ (الجامع الاحکام القران صفحہ ٣٠٨الجزء الحادی والعشرون مؤلف ابی عبدﷲ محمد بن احمد بن ابی بکر القرطبی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ٦٧١) مطبوعہ بیروت لبنان )۔(تفسیر قرطبی (اردو) جلد دہم صفحہ ٣٩ مطبوعہ ضیاء القران لاہور )
معلوم ہوا کہ ﷲ پاک اپنے پسندیدہ رسولوں کو "علمِ غیب" عطا فرماتا ہے اور بحمدﷲ قران کی مذکورہ آیت اور اس کی تفسیر اسی بات پر دلالت کرتی ہے!یہ امر بھی واضح ہوگیا کہ "اہلسنت و جماعت" نے قران کو اسی طرح سمجھا ہے جیسے اکابرین و سلف صالحین (رحمھم اﷲ) نے سمجھا تھا ۔ (طالب دعا : ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا علم مَاکَانَ وَمَایَکُوْن احادیث مبارکہ کی روشنی میں
عَنْ عَمْرِو بْنِ اَخْطَبَ الْاَ نْصَارِیِّ قَالَ: صَلَّی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمًا الْفَجْرَ وَصَعِدَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَخَطَبَنَا حَتّٰی حَضَرَتِ الظُّھْرُ فَنَزَلَ فَصَلَّی ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتّٰی حَضَرَتِ الْعَصْرُ ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّی ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ حَتّٰی غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَاَخْبَرَنَا بِمَا ھُوَ کَاءنٌ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ قَالَ: فَاَعْلَمُنَا اَحْفَظُنَا ۔ (مشکاۃ المصابیح،کتاب احوال القیامۃ وبدء الخلق،باب فی المعجزات، الحدیث:۵۹۳۶، ج۲،ص۳۹۷) (مشکوٰۃ،باب المعجزات،ص۵۴۳)
ترجمہ :حضرت عَمْرو بن اَخْطَب اَنصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ایک دن ہم لوگوں کو رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھائی اور منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ظہر کی نماز تک خطبہ پڑھتے رہے پھر اُترے اور نماز پڑھ کر پھرمنبر پر تشریف فرما ہوئے اور خطبہ دیتے رہے یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت آگیا پھر اُترے اور نماز پڑھی پھرمنبر پر تشریف فرما ہوئے اور سورج ڈوبنے تک خطبہ پڑھتے رہے تو (اس دن بھر کے خطبہ میں ) ہم لوگوں کو حضور نے تمام ان چیزوں اور باتوں کی خبر دے دی جو قیامت تک ہونے والی ہیں تو ہم صحابہ میں سب سے بڑا عالم وہی ہے جس نے سب سے زیادہ اس خطبہ کو یاد رکھاہے ۔
حضرت عَمْرو بن اَخْطَب : اِس حدیث کے راوی حضرت عَمْرو بن اَخْطَب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔یہ اَنصاری ہیں اور ان کی کنیت ’’اَبو زید‘‘ہے اور محدثین کے نزدیک ان کی کنیت ان کے نام سے زیادہ مشہور ہے ۔ یہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بہت سے غزوات میں شریک ِجہاد رہے۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ محبت اور پیار سے ان کے سر پر ہاتھ پھیر دیااور ان کی خوبصورتی کے لیے دعا فرمائیی۔جس کا یہ اثر ہوا کہ ان کی سو برس کی عمر ہوگئی تھی مگر سر اور داڑھی کے چند ہی بال سفید ہوئے تھے اور آخری عمر تک چہرے کا حسن و جمال باقی رہا ۔ (اکمال فی اسماء الرجال، حرف العین، فصل فی الصحابۃ، ص۶۰۷، چشتی)
مختصر شرحِ حدیث : یہ حدیث مسلم شریف میں بھی ہے ۔ اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نماز فجر سے غروب آفتاب تک بجز ظہر و عصر پڑھنے کے برابر دن بھر خطبہ ہی میں مشغول رہے اور سامعین سُنتے رہے اور اس خطبہ میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے قیامت تک کے ہونے والے تمام واقعات تمام چیزوں اور تمام باتوں کی سامعین کو خبر دے دی اور صحابہ میں سے جس نے جس قدر زیادہ اس خطبہ کو یاد رکھا اتنا ہی بڑا وہ عالم شمار کیا جاتا تھا ۔ (صحیح مسلم،کتاب الفتن واشراط الساعۃ،باب اخبارالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔الخ، الحدیث:۲۸۹۲،ص۱۵۴۶، چشتی)
یہ حدیث حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں سے ہے کہ قیامت تک کے کروڑوں واقعات کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے صرف دن بھر کے خطبہ میں بیان فرما دیا۔صحیح حدیثوں سے ثابت ہے کہ حضرت داود علیہ السلام کو خداوند ِعالَم نے یہ معجزہ عطا فرمایا تھا کہ آپ گھوڑے پر زِین کسنے کا حکم دیتے تھے اور ساءیس گھوڑے کی زین باندھ کر درست کر تا تھا اتنی دیر میں آپ ایک ختم ’’زبور شریف ‘‘کی تلاوت کرلیتے تھے (صحیح البخاری،کتاب احادیث الانبیائ،باب قول اللّٰہ تعالی۔۔۔الخ، الحدیث:۳۴۱۷، ج۲،ص۴۴۷ ، چشتی)
تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نبی آخرالزمان جو تمام انبیاء علیہم السلام کے معجزات کے جامع ہیں اگر دن بھر میں قیامت تک کے تمام احوال و واقعات کو بیان فرمادیں تو اس میں کونسا تعجب کا مقام ہے ۔
اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل پر روشنی پڑتی ہے
(1) حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو خدا وند ِعالِم ُا لْغَیْب و الشَّہادَۃ نے جس طرح بہت سے معجزانہ کمالات سے نوازااور تمام انبیاء اور رسولوں میں آپ کو ممتاز فرماکر’’سید الانبیاء‘‘ اور’’افضل الرسل‘‘بنایا اسی طرح علمی کمالات کا بھی آپ کو وہ کمال بخشا کہ’’ مَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ ‘‘ یعنی روز ازل سے قیامت تک کے تمام علوم کا خزانہ آپ کے سینہ نبوت میں بھر دیا ۔
مشکوۃ شریف کی حدیث ہے کہ : حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب عزوجل کو بہترین صورت میں دیکھا تو اس نے مجھ سے فرمایا کہ اوپر والی جماعت کس چیز میں بحث کر رہی ہے؟ تو میں نے عرض کیا کہ یااللہ! عزوجل تو ہی اس کو زیادہ جاننے والا ہے پھر خدا وند ِعالَم نے اپنی (قدرت کی)ہتھیلی کو میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھ دیا تو میں نے اس کی ٹھنڈک کو اپنی دونوں چھاتیوں کے درمیان میں پایا اور جو کچھ آسمان و زمین میں ہے سب کو میں نے جان لیا ۔ (مشکاۃ المصابیح،کتاب الصلاۃ،باب المساجد ومواضع الصلاۃ، الحدیث:۷۲۵،ج۱، ص۱۵۲)(چشتی)(مشکوٰۃ،باب المساجد،ص۷۰)
اللہ عزوجل نے میرے لیے دُنیا کو اٹھا کر اسطرح میرے سامنے پیش فرمادیا کہ میں تمام دنیاکو اور اس میں قیامت تک جو کچھ بھی ہونے والا ہے ان سب کو اسطرح دیکھ رہا ہوں جس طرح میں اپنی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں ۔(شرح الزرقانی علی المواہب، المقصد الثامن، الفصل الثالث، ج۱۰، ص۱۲۳، وحلیۃ الاولیاء، حدیر بن کریب، الحدیث۷۹۷۹، ج۶،ص۱۰۷)(چشتی)(زرقانی علی المواہب،جلد۷،ص۲۳۴)
جس طرح حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ’’اَفضل الْخَلق ‘‘ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ’’اَعلم ُالْخَلق ‘‘ بھی ہیں کہ تمام جن و انس اور ملائکہ کے علوم سے بڑھ کر آپکا علم ہے یہاں تک کہ حضرت علامہ بوصیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے قصیدۂ بُردَہ میں فرمایا کہ
فَاِنَّ مِنْ جُوْدِکَ الدُّنْیَا وَضَرَّتَھَا وَمِنْ عُلُوْمِکَ عِلْمَ اللَّوْحِ وَالْقَلَمٖ
(القصیدۃ البردۃ، الفصل العاشر فی المناجات وعرض الحال)
ترجمہ : یارسول اللہ!صلی اللہ تعالیٰ علیک وسلم دنیا اور اسکی سوکن (یعنی آخرت) یہ دونوں آپکی سخاوت کے ثمرات میں سے ہیں اور ’’لوح و قلم کا علم ‘‘آپکے علوم کا ایک جزو ہے ۔
حدیث صحیح جامع ترمذی جس میں نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا :تجلّٰی کل شیئ وعرفتُ ۔
ترجمہ : ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی اور میں نے پہچان لی ۔ (جامع سنن الترمذی ، کتاب التفسیر من سورۃ ص، حدیث ۳۲۴۶، ۵ /۱۶۰)
عَنْ عَمْرِو بْنِ اَخْطَبَ الْاَ نْصَارِیِّ قَالَ: صَلَّی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمًا الْفَجْرَ وَصَعِدَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَخَطَبَنَا حَتّٰی حَضَرَتِ الظُّھْرُ فَنَزَلَ فَصَلَّی ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتّٰی حَضَرَتِ الْعَصْرُ ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّی ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ حَتّٰی غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَاَخْبَرَنَا بِمَا ھُوَ کَاءنٌ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ قَالَ: فَاَعْلَمُنَا اَحْفَظُنَا ۔ (مشکاۃ المصابیح،کتاب احوال القیامۃ وبدء الخلق،باب فی المعجزات، الحدیث:۵۹۳۶، ج۲،ص۳۹۷) (مشکوٰۃ،باب المعجزات،ص۵۴۳)
ترجمہ :حضرت عَمْرو بن اَخْطَب اَنصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ایک دن ہم لوگوں کو رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھائی اور منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ظہر کی نماز تک خطبہ پڑھتے رہے پھر اُترے اور نماز پڑھ کر پھرمنبر پر تشریف فرما ہوئے اور خطبہ دیتے رہے یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت آگیا پھر اُترے اور نماز پڑھی پھرمنبر پر تشریف فرما ہوئے اور سورج ڈوبنے تک خطبہ پڑھتے رہے تو (اس دن بھر کے خطبہ میں ) ہم لوگوں کو حضور نے تمام ان چیزوں اور باتوں کی خبر دے دی جو قیامت تک ہونے والی ہیں تو ہم صحابہ میں سب سے بڑا عالم وہی ہے جس نے سب سے زیادہ اس خطبہ کو یاد رکھاہے ۔
حضرت عَمْرو بن اَخْطَب : اِس حدیث کے راوی حضرت عَمْرو بن اَخْطَب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔یہ اَنصاری ہیں اور ان کی کنیت ’’اَبو زید‘‘ہے اور محدثین کے نزدیک ان کی کنیت ان کے نام سے زیادہ مشہور ہے ۔ یہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بہت سے غزوات میں شریک ِجہاد رہے۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ محبت اور پیار سے ان کے سر پر ہاتھ پھیر دیااور ان کی خوبصورتی کے لیے دعا فرمائیی۔جس کا یہ اثر ہوا کہ ان کی سو برس کی عمر ہوگئی تھی مگر سر اور داڑھی کے چند ہی بال سفید ہوئے تھے اور آخری عمر تک چہرے کا حسن و جمال باقی رہا ۔ (اکمال فی اسماء الرجال، حرف العین، فصل فی الصحابۃ، ص۶۰۷، چشتی)
مختصر شرحِ حدیث : یہ حدیث مسلم شریف میں بھی ہے ۔ اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نماز فجر سے غروب آفتاب تک بجز ظہر و عصر پڑھنے کے برابر دن بھر خطبہ ہی میں مشغول رہے اور سامعین سُنتے رہے اور اس خطبہ میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے قیامت تک کے ہونے والے تمام واقعات تمام چیزوں اور تمام باتوں کی سامعین کو خبر دے دی اور صحابہ میں سے جس نے جس قدر زیادہ اس خطبہ کو یاد رکھا اتنا ہی بڑا وہ عالم شمار کیا جاتا تھا ۔ (صحیح مسلم،کتاب الفتن واشراط الساعۃ،باب اخبارالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔الخ، الحدیث:۲۸۹۲،ص۱۵۴۶، چشتی)
یہ حدیث حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں سے ہے کہ قیامت تک کے کروڑوں واقعات کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے صرف دن بھر کے خطبہ میں بیان فرما دیا۔صحیح حدیثوں سے ثابت ہے کہ حضرت داود علیہ السلام کو خداوند ِعالَم نے یہ معجزہ عطا فرمایا تھا کہ آپ گھوڑے پر زِین کسنے کا حکم دیتے تھے اور ساءیس گھوڑے کی زین باندھ کر درست کر تا تھا اتنی دیر میں آپ ایک ختم ’’زبور شریف ‘‘کی تلاوت کرلیتے تھے (صحیح البخاری،کتاب احادیث الانبیائ،باب قول اللّٰہ تعالی۔۔۔الخ، الحدیث:۳۴۱۷، ج۲،ص۴۴۷ ، چشتی)
تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نبی آخرالزمان جو تمام انبیاء علیہم السلام کے معجزات کے جامع ہیں اگر دن بھر میں قیامت تک کے تمام احوال و واقعات کو بیان فرمادیں تو اس میں کونسا تعجب کا مقام ہے ۔
اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل پر روشنی پڑتی ہے
(1) حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو خدا وند ِعالِم ُا لْغَیْب و الشَّہادَۃ نے جس طرح بہت سے معجزانہ کمالات سے نوازااور تمام انبیاء اور رسولوں میں آپ کو ممتاز فرماکر’’سید الانبیاء‘‘ اور’’افضل الرسل‘‘بنایا اسی طرح علمی کمالات کا بھی آپ کو وہ کمال بخشا کہ’’ مَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ ‘‘ یعنی روز ازل سے قیامت تک کے تمام علوم کا خزانہ آپ کے سینہ نبوت میں بھر دیا ۔
مشکوۃ شریف کی حدیث ہے کہ : حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب عزوجل کو بہترین صورت میں دیکھا تو اس نے مجھ سے فرمایا کہ اوپر والی جماعت کس چیز میں بحث کر رہی ہے؟ تو میں نے عرض کیا کہ یااللہ! عزوجل تو ہی اس کو زیادہ جاننے والا ہے پھر خدا وند ِعالَم نے اپنی (قدرت کی)ہتھیلی کو میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھ دیا تو میں نے اس کی ٹھنڈک کو اپنی دونوں چھاتیوں کے درمیان میں پایا اور جو کچھ آسمان و زمین میں ہے سب کو میں نے جان لیا ۔ (مشکاۃ المصابیح،کتاب الصلاۃ،باب المساجد ومواضع الصلاۃ، الحدیث:۷۲۵،ج۱، ص۱۵۲)(چشتی)(مشکوٰۃ،باب المساجد،ص۷۰)
اللہ عزوجل نے میرے لیے دُنیا کو اٹھا کر اسطرح میرے سامنے پیش فرمادیا کہ میں تمام دنیاکو اور اس میں قیامت تک جو کچھ بھی ہونے والا ہے ان سب کو اسطرح دیکھ رہا ہوں جس طرح میں اپنی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں ۔(شرح الزرقانی علی المواہب، المقصد الثامن، الفصل الثالث، ج۱۰، ص۱۲۳، وحلیۃ الاولیاء، حدیر بن کریب، الحدیث۷۹۷۹، ج۶،ص۱۰۷)(چشتی)(زرقانی علی المواہب،جلد۷،ص۲۳۴)
جس طرح حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ’’اَفضل الْخَلق ‘‘ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ’’اَعلم ُالْخَلق ‘‘ بھی ہیں کہ تمام جن و انس اور ملائکہ کے علوم سے بڑھ کر آپکا علم ہے یہاں تک کہ حضرت علامہ بوصیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے قصیدۂ بُردَہ میں فرمایا کہ
فَاِنَّ مِنْ جُوْدِکَ الدُّنْیَا وَضَرَّتَھَا وَمِنْ عُلُوْمِکَ عِلْمَ اللَّوْحِ وَالْقَلَمٖ
(القصیدۃ البردۃ، الفصل العاشر فی المناجات وعرض الحال)
ترجمہ : یارسول اللہ!صلی اللہ تعالیٰ علیک وسلم دنیا اور اسکی سوکن (یعنی آخرت) یہ دونوں آپکی سخاوت کے ثمرات میں سے ہیں اور ’’لوح و قلم کا علم ‘‘آپکے علوم کا ایک جزو ہے ۔
فان من جودک الدنیا وضرتھا
ومن علومک علم اللوح والقلم
یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دنیا و آخرت دونوں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بخشش سے ایک حصہ ہیں اور لوح و قلم کا علم ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علوم سے ایک ٹکڑا ہے ۔ (مجموع المتون متن قصیدۃ البردۃ الشئون الدینیۃ دولۃ قطر ص ۱۰)
امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں : لان ﷲ تعالٰی اطلعه علی العالم فعلم علم الاولین والاخرین ماکان ومایکون ۔
ترجمہ : اس لیے کہ ﷲ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تمام عالم پر اطلاع دی ، تو سب اولین وآخرین کا علم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ملا جو ہو گزرا اور جو ہونے والا ہے سب جان لیا ۔ ۔ ( افضل القرا لقراء ام القرٰی )
نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سب کچھ بتا دیا
صحیح مسلم شریف میں حضرت عمر و بن اخطب انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے : ایک دن رسول ﷲ صلی الله تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے نمازِ فجر سے غروبِ آفتاب تک خطبہ فرمایا ، بیچ میں ظہر و عصر کی نمازوں کے علاوہ کچھ کام نہ کیا
فاخبرنا بما ھو کائن الی یوم القیمة فاعلمنا احفظه ، اس میں سب کچھ ہم سے بیان فرمادیا جو کچھ قیامت تک ہونے والا تھا ہم میں زیادہ علم والا وہ ہے جسے زیادہ یاد رہا ۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن، ۲ /۳۹۰)
حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سب کچھ جانتے ہیں جو اللہ نے انہیں سکھایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سب کچھ بیان فرما دیا ۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم چھپی ہوئی چیزوں کو جانتے ہیں
جامع ترمذی شریف وغیرہ کتب کثیرئہ آئمہ حدیث میں دس صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سےروایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
فرأیتہ عزّوجل وضع کفّہ بین کتفّی فوجدت برد انا ملہ بین ثدّی فتجلّٰی لی کل شیئ وعرفت ۔
ترجمہ : میں نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا اس نے اپنا دستِ قدرت میری پشت پر رکھا کہ میرے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس ہوئی اسی وقت ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی اور میں نے سب کچھ پہچان لیا ۔ (سنن الترمذی کتاب التفسیر حدیث ۳۲۴۶ ۵ /۱۶۰) ، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ھذا حدیث حسن سألت محمد بن اسمٰعیل عن ھذا الحدیث فقال صحیح ۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے ، میں نے امام بخاری سے اس کا حال پوچھا، فرمایا صحیح ہے ۔ (سنن الترمذی کتاب التفسیر حدیث ۳۲۴۶ ۵ /۱۶۱)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ ﷲ علیہ شرح مشکوۃ میں اس حدیث کے نیچے فرماتے ہیں : پس دانستم ہر چہ در آسمانہا وہرچہ در زمین ہا بود عبارت است از حصولِ تمامہ علوم جزوی و کلّی واحاطہ آں ۔
ترجمہ : چنانچہ میں (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) نے جان لیا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے یہ تعبیر ہے تمام علوم کے حصول اور ان کے احاطہ سے چاہے وہ علوم جزوی ہوں یا کلُی ۔ (اشعۃ اللمعات کتاب الصلوۃ باب المساجد و مواضع الصلوۃ ۱ /۳۳۳)
نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہر چیز کی خبر دے دی یہاں تک کہ ہر پرندے کی بھی ، امام احمد مسند اور ابن سعد طبقات اور طبرانی معجم میں بسند صحیح حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ابویعلٰی وابن منیع و طبرانی حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی : لقد ترکنارسول ﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وما یحّرک طائر جناحیہ فی السمّاء الّا ذکر لنا منہ علما ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہمیں اس حال پر چھوڑا کہ ہوا میں کوئی پرندہ پَر مارنے والا ایسا نہیں جس کا علم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہمارے سامنے بیان نہ فرمادیا ہو ۔ (مسند احمد بن حنبل عن ابی ذر غفار ی رضی اللہ عنہ ۵/۱۵۳)،(مجمع الزوائد عن ابی الدرداء کتاب علامات النبوۃ باب فیما اوقی من العلم، ۸ /۲۶۴)
نسیم الریاض شرح شفاء قاضی عیاض و شرح زرقانی للمواہب میں ہے : ھذا تمثیل لبیان کل شیئ تفصیلاً تارۃً واجمالاً اُخرٰی ۔
ترجمہ : یہ ایک مثال دی ہے اس کی کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ہر چیز بیان فرمادی، کبھی تفصیلاً کبھی اجمالاً ۔ (نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض، فصل و من ذٰلک مااطلع الخ ۳ /۱۵۳،چشتی)،(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصدالثامن الفصل الثالث ۷ /۲۰۶)
امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ولا شک ان ﷲ تعالٰی قد اطلعہ علٰی اَزْیَدَمن ذٰلک والقٰی علیہ علم الاوّلین والاخرین ۔
ترجمہ : اور کچھ شک نہیں کہ ﷲ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اس سے زیادہ علم دیا اور تمام اگلے پچھلوں کا علم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر القاء کیا ۔ (المواہب اللدنیہ المقصدالثامن الفصل مااخبربہ صلی اللہ علیہ وسلم من الغیب ۳ /۵۶۰)
بد مذہبوں کا قرآنی آیات سے استدلال غلط ہے
امام قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ شفا شریف اور علامہ شہاب الدین خفاجی رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح نسیم الریاض میں فرماتے ہیں : (ھذہ المعجزۃ) فی اطلاعہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علی الغیب (المعلومۃ علی القطع) بحیث لایمکن انکارھا اوالتردد فیہا لا حدٍ من العقلاء (لکثرۃ رواتھا واتفاق معانیھا علی الاطلاع علی الغیب) وھذالاینافی الاٰیات الدالۃ علی انہ لایعلم الغیب الا ﷲ وقولہ ولوکنت اعلم الغیب لاستکثرت من الخیر فان المنفی علمہ من غیرواسطۃ وامّا اطلاعہ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم علیہ با علام ﷲ تعالٰی لہ فامرمتحقق بقولہ تعالٰی فلایظھر علٰی غیبہ احداً الّا من ارتضٰی من رسول ۔
ترجمہ : رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا معجزہ علم غیب یقیناً ثابت ہے جس میں کسی عاقل کو انکار یا تردّد کی گنجائش نہیں کہ اس میں احادیث بکثرت آئیں اور ان سب سے بالاتفاق حضور کا علم غیب ثابت ہے اور یہ ان آیتوں کے کچھ منافی نہیں جو بتاتی ہیں کہ ﷲ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا اور یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اس کہنے کا حکم ہوا کہ میں غیب جانتا تو اپنے لیئے بہت خیر جمع کرلیتا ، اس لیئے کہ آیتوں میں نفی اس علم کی ہے جو بغیر خدا کے بتائے ہو اور ﷲ تعالٰی کے بتائے سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو علم غیب ملنا تو قرآن عظیم سے ثابت ہے ، کہ ﷲ اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوا اپنے پسندیدہ رسول کے ۔ (نسیم الریاض شرح الشفا للقاضی عیاض ومن ذٰلک ما اطلع علیہ من الغیوب ۳ /۱۵۰،چشتی)
تفسیر نیشا پوری میں ہے : لا اعلم الغیب فیہ دلالۃ علی ان الغیب بالاستقلال لا یعلمہ الّا ﷲ ۔
ترجمہ : آیت کے یہ معنی ہیں کہ علم غیب جو بذاتِ خود ہو وہ خدا کے ساتھ خاص ہے۔ (غرائب القرآن تحت آیۃ ۶ /۵۰، ۶ /۱۱۰)
تفسیر انموذج جلیل میں ہے : معناہ لایعلم الغیب بلادلیل الا ﷲ اوبلا تعلیم الا ﷲ اوجمیع الغیب الا ﷲ ۔
ترجمہ : آیت کے یہ معنی ہیں کہ غیب کو بلادلیل و بلا تعلیم جاننا یا جمیع غیب کو محیط ہونا یہ ﷲ تعالٰی کے ساتھ خاص ہے ۔
تفسیر غرائب القرآن و رغائب الفرقان میں ہے : لم ینف الاالدرایۃ من قبل نفسہ وما نفی الدرایۃ من جھۃ الوحی ۔
ترجمہ : رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی ذات سے جاننے کی نفی فرمائی ہے خدا کے بتائے سے جاننے کی نفی نہیں فرمائی ۔ (غرائب القرآن تفسیر النیساپوری تحت آیۃ ۴۶ /۹ ، ۸ /۲۶)
تفسیر جمل شرح جلالین و تفسیر خازن میں ہے : المعنی لا اعلم الغیب الا ان یطلعنی ﷲ تعالٰی علیہ ۔
ترجمہ : آیت میں جو ارشاد ہوا کہ میں غیب نہیں جانتا ۔ اس کے معنٰی یہ ہیں کہ میں بے خدا کے بتائے نہیں جانتا ۔ (لباب التاویل (تفسیر الخازن تحت الآیۃ ۷ /۱۸۸ ، ۲ /۲۸۰ والفتوحات (تفسیرالجمل) ۳ /۱۵۸،چشتی)
تفسیر البیضاوی میں ہے : لااعلم الغیب مالم یوح الی ولم ینصب علیہ دلیل ۔
ترجمہ : آیت کے یہ معنی ہیں کہ جب تک کوئی وحی یا کوئی دلیل قائم نہ ہو مجھے بذاتِ خود غیب کا علم نہیں ہوتا ۔ ( انوارالتنزیل (تفسیر البیضاوی تحت آیۃ ۶ /۵۰ ۲ /۴۱۰)
تفسیر عنایۃ القاضی میں ہے : وعندہ مفاتیح الغیب وجہ اختصا صھا بہ تعالٰی انہ لایعلمھا کما ھی ابتداءً الاّ ھو ۔
ترجمہ : یہ جو آیت میں فرمایا کہ غیب کی کنجیاں ﷲ ہی کے پاس ہیں اُس کے سوا انہیں کوئی نہیں جانتا اس خصوصیت کے یہ معنی ہیں کہ ابتداء ً بغیر بتائے ان کی حقیقت دوسرے پر نہیں کھلتی۔ (عنایۃ القاضی علٰی تفسیر البیضاوی ،تحت آیتہ ۶ /۵۸، ۴ /۷۳)
تفسیر علامہ نیشاپوری میں ہے : ( قل لا اقول لکم ) لم یقل لیس عندی خزائن ﷲ لیعلم ان خزائن ﷲ وھی العلم بحقائق الاشیاء وما ھیاتھا عندہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم باستجابۃ دعاء ہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی قولہ ارنا الا شیاء کما ھی ولکنہ یکلم الناس علٰی قدر عقولھم (ولا اعلم الغیب) ای لا اقول لکم ھذا مع انہ قال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علمت ماکان وما سیکون ۔
ترجمہ : یعنی ارشاد ہوا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) فرمادو کہ میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالٰی کے خزانے ہیں، یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کے خزانے میرے پاس نہیں۔ بلکہ یہ فرمایا کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس ہیں، تاکہ معلوم ہوجائے کہ اللہ کے خزانے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس ہیں مگر حضور لوگوں سے انکی سمجھ کے قابل باتیں فرماتے ہیں ، اور وہ خزانے کیا ہیں، تمام اشیاء کی حقیقت و ماہیت کا علم حضور نے اسی کے ملنے کی دعا کی اور اللہ عزوجل نے قبول فرمائی پھر فرمایا : میں نہیں جانتا یعنی تم سے نہیں کہتا کہ مجھے غیب کا علم ہے ، ورنہ حضور تو خود فرماتےہیں مجھے ماکان و مایکون کا علم ملا یعنی جو کچھ ہو گزرا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے ۔ (غرائب القرآن تحت آلایۃ ۶ /۵۰، ۷ /۱۱۲)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment