درسِ قرآن موضوع : تعظیمِ رسول صلیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلّم
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقُوۡلُوۡا رٰعِنَا وَقُوۡلُوا انۡظُرْنَا وَاسْمَعُوۡا ؕ وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ۔ ﴿سورۃُ البقرہ آیت نمبر 104﴾
ترجمہ : اے ایمان والوراعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے ۔
لَا تَقُوۡلُوۡا رٰعِنَا: راعنا نہ کہو ۔
شان نزول : جب نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان میں عرض کیا کرتے ۔ ’’رَاعِنَا یَارَسُوْلَ اللہْ‘‘ اس کے یہ معنی تھے کہ یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ، ہمارے حال کی رعایت فرمائیے یعنی کلامِ اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجئے ۔ یہودیوں کی لغت میں یہ کلمہ بے ادبی کامعنی رکھتا تھا اور انہوں نے اسی بری نیت سے کہنا شروع کردیا ۔ حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ یہودیوں کی اصطلاح سے واقف تھے۔ آپ نے ایک روز یہ کلمہ ان کی زبان سے سن کر فرمایا : اے دشمنانِ خدا !تم پر اللہ کی لعنت، اگر میں نے اب کسی کی زبان سے یہ کلمہ سناتو اس کی گردن اڑا دوں گا۔ یہودیوں نے کہا : ہم پر تو آپ برہم ہوتے ہیں جبکہ مسلمان بھی تو یہی کہتے ہیں ، اس پر آپ رنجیدہ ہو کر سرکار ِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں ’’رٰعِنَا‘‘ کہنے کی ممانعت فرمادی گئی اور اس معنی کا دوسرا لفظ ’’انۡظُرْنَا‘‘ کہنے کا حکم ہوا ۔ (تفسیر قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۱/۴۴-۴۵، الجزء الثانی،چشتی)(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۱/۶۳۴، تفسیر عزیزی(مترجم)۲/۶۶۹)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تعظیم و توقیر اور ان کی جناب میں ادب کا لحاظ کرنا فرض ہے اور جس کلمہ میں ترکِ ادب کا معمولی سا بھی اندیشہ ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے ۔ ایسے الفاظ کے بارے میں حکمِ شرعی یہ ہے کہ جس لفظ کے دو معنی ہوں اچھے اور برے اور لفظ بولنے میں اس برے معنیٰ کی طرف بھی ذہن جاتا ہو تو وہ بھی اللہ تعالیٰ اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے لئے استعمال نہ کئے جائیں ۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ کا ادب ربُّ العالَمین خود سکھاتا ہے اور تعظیم کے متعلق احکام کو خود جاری فرماتا ہے ۔
وَاسْمَعُوۡا : اور غور سے سنو ۔ یعنی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے کلام فرمانے کے وقت ہمہ تن گوش ہو جاؤ تاکہ یہ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ توجہ فرمائیں کیونکہ دربارِ نبوت کا یہی ادب ہے ۔
وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ : اور کافروں کیلئے ۔ یعنی جو یہودی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی توہین کر رہے ہیں اور ان کے بارے میں بے ادبی والے الفاظ استعمال کر رہے ہیں ان یہودیوں کے لئے درد ناک عذاب ہے ۔ (تفسیر روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۱/۹۷)
یاد رہے کہ اس آیت میں ا س بات کی طرف اشارہ ہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جناب میں بے ادبی کفر ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ کے آداب بیان فرمائے اور امت کو تاکید کی کہ حد درجہ احترام و ادب ملحوظ رکھیں ۔ اللہ تعالی فرمایا‘ حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے مت بڑھو ۔ آپ کی خدمت اقدس میں آواز بلند مت کرواور ایک دوسرے سے جس طرح گفتگو کرتے ہو اس انداز سے گفتگو مت کرو‘ ورنہ اس جسارت کی وجہ سے تمہارے اعمال ضائع و اکارت ہوجائیں گے اور تمہیں اس کا شعور بھی نہ ہوگا ۔
کچھ لوگ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارکہ کے باہر آواز دینے لگے تو اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر آواز دینے والوں کے بارے میں فرمایا کہ اگر یہ لوگ صبر کرلیتے ‘آپ کے تشریف لانے تک انتظار کرتے اور کھڑے رہتے تو اُن کے لئے بہتر ہوتا ۔
اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کے سلسلہ میں اللہ تبارک وتعالی نے فرمایاکہ تم ہرحال میں اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وپیروی کرتے رہو ۔
اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہرحال میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع وپیروی کیاکرتے رہے ، ایک مرتبہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے معرکہ کے لئے نکلنے کی ندا دی‘ صحابہ کرام حکم کی تعمیل میں فوراً نکلنے لگے‘ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کی ابھی شادی ہوئی تھی۔ غسل کی حاجت تھی‘جیسے ہی اعلان ہوا‘ انہوں نے غسل کرنے کے وقت تک تاخیر کرنا گوارا نہیں کیا اور اُسی حالت میں میدان میں آپہنچے۔ معرکہ ہوا اور ستر صحابہ کرام شہید ہوئے۔ اُنہتر شہداء میدان جنگ میں پائے گئے ۔
حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ میدان جنگ میں نظر نہیں آرہے تھے‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف نگاہ مبارک اٹھائی اور فرمایا یہ حنظلہ ہیں‘ فرشتے انہیں غسل دینے کے لئے لے گئے تھے۔’ آپ کے بدن سے پانی کے قطرات ٹپک رہے تھے‘۔ جذبۂ اطاعت اور باادب رہ کر حکم کی تعمیل کا یہ نتیجہ ہوا کہ غسیل ملائکہ ہوئے ۔
ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت الفاظ و کلمات‘ اعمال و افعال‘ افکار و نظریات سے تعظیم اور اکرام کا اظہار ہونا چاہئیے۔ مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس کا جتنا زیادہ ادب بجا لائیں اُن کے لئے بہتر ہے‘ یہی منشاء الٰہی اور منظور یزدانی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ کے آداب کے بیان میں آیتیں نازل کرنے کا یہی مقصد ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا۔ لِّتُؤْمِنُوۡا بِاللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُعَزِّرُوۡہُ وَ تُوَقِّرُوۡہُ۔ وَ تُسَبِّحُوۡہُ بُکْرَۃً وَّ اَصِیۡلًا۔
ترجمہ : بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا ۔ تاکہ اے لوگوں تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو ۔(سورت الفتح آیت 09 – 10)
اللہ کریم نے اپنے حبیب لبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت سرائی فرماتے ہوئے آداب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ملحوظ خاطر رکھنے اور توقیر جاری رکھنے کا حکم دیا ۔ دراصل محب و محبوب کا بھی یہ عجیب معاملہ رہتا ہے کہ محب کبھی بھی اپنے محبوب کی توقیر میں کمی و کجی برداشت نہیں کرسکتا مگر توقیر کے ساتھ ساتھ تعظیم کا پہلو بھی نظرانداز نہیں ہونے دیتا۔
تعلیمات اسلام کی رُو سے اسلامی معاشرے میں ہر چھوٹا بڑے کی تعظیم کرتا ہے۔ اپنے بڑوں ، بزرگوں کا زیادہ سے زیادہ ادب و تعظیم کرنا ایک معاشرتی تقاضا سمجھا جاتا ہے لیکن جب بات ہو تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تو لازمی ہے کہ معمول کی تعظیم کے عام طریقے ختم ہوجائیں اور تعظیم کا بلند ترین درجہ اختیار کیا جائے۔ یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم از روئے قرآن واجب ہے۔ ادب و تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ کرنا کفر ہے۔ سورت الاعراف میں اللہ تعالٰی نے اہل ایمان کی باقاعدہ طور پر چار خصوصیات بیان فرمائی ہیں۔ جو تعظیم و توقیرِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مشتمل ہیں اور دنیا و آخرت میں کامیابی کی شرط ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ وَعَزَّرُوۡہُ وَنَصَرُوۡہُ وَاتَّبَعُوا النُّوۡرَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ مَعَہٗۤ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوۡنَ۔
ترجمہ : تو وہ جو اس (برگزیدہ رسول صلہ اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اُترا وہی بامراد ہوئے۔(سورت الاعراف ، آیت 157)
اوپر مذکورہ دونوں آیات مبارکہ میں مجموعی طور پر ایمان بالرسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درج ذیل چار تقاضے بیان ہوئے ہیں۔
تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
توقیر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نصرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور
اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اس واضح ترتیب میں ایمان کے بعد اولیت تعظیم و توقیر کو دی گئی ہے۔ یہ بڑا اہم اور ایمان افروز نکتہ ہے کہ نصرت و اطاعت رسول اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دو تقاضوں کے بعد مذکور ہیں۔ اس اُلوہی ترتیب سے یہ حقیقت بھی سمجھ لینی چاہئے کہ دعوت و تبلیغِ دین کا فریضہ جو فی الحقیقت نصرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ، قرآنی منشاء کے مطابق اس وقت تک موثر ، نتیجہ خیز اور موجب ثمرات نہیں بنتا جب تک پہلے دین لے کر آنے والے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعظیم و توقیر کے دو تعلق استوار نہ ہوجائیں۔ نصرت و اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دونوں کا تعلق عقائد ، نظریات اور جذبات سے زیادہ اعمال و افعال کے ساتھ ہے۔ جبکہ اول الذکر دونوں تقاضے ایمانی کیفیت ، تعلق کی نوعیت اور عقیدے کی طہارت کے معیار کو ظاہر کرتے ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر تعظیم و توقیر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شجر ایمان کی جڑیں اور تنا ہیں جبکہ موخر الذکر دو تقاضے اس شجر کی شاخیں اور پھل ہیں۔ ایمان کی توثیق و تصدیق تبھی ہوتی ہے جب تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایمان کو پرکھا جاتا ہے کیونکہ تعیم ، ایمان پر گواہی کا درجہ رکھتی ہے۔ جب تک کوئی شخص نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب اور تعظیم کو بدرجہ اتم اپنے دل میں جاگزیں نہ کرے اس کا ایمان کامل نہیں ہوتا۔ ایمان کی تکمیل کے بعد ہی اطاعت و نصرت کی کاوشیں مقبول اور باثمر ہوں گی۔ یاد رکھا جائے کہ توقیر بھی تعظیم سے ہے لیکن باعتبار مخلوق یہ ادب و احترام کا وہ بلند درجہ ہے جو شرعاً حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق ہے۔ مفسرین نے بھی توقیر کا معنی بلند درجہ تعظیم و تکریم ہی بیان کیا ہے۔
لہٰذا امام ابن کثیر نے لکھا ہے : وتوقروہ ۔۔۔۔۔ یہ لفظ توقیر سے ماخوذ ہے اور اس سے مراد ادب و احترام ، بلند مرتبہ اور عظمت ہے۔(تفسیر ابن کثیر ، 04:186)
امام بغوی نے لکھا ہے : وتوقروہ ۔۔۔۔۔ کا معنی ہے ان کی تعظیم کرو اور خوب شان و شوکت بیان کرو۔(بغوی ، معالم التنزیل ، 190 : 04)
اسی طرح امام قرطبی لکھتے ہیں : وتوقروہ ۔۔۔۔۔ یعنی ان کی خوب شان و شوکت بیان کرو۔(قرطبی ، الجامع لاحکام القرآن ، 16 : 267،چشتی)
مذکورہ بالا آیات قرآنی سے ثابت ہوا کہ تعظیم حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم توحید باری تعالیٰ عزوجل سے متعارض و متصادم نہیں۔ کیونکہ اس عمل کا حکم تو خود رب کریم نے اپنے پاک کلام میں دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نصوص قرآنیہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو کوئی نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی کرتا ہے تو وہ دراصل اللہ تعالیٰ کی بے ادبی کرتا ہے۔ اور جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت سے منہ موڑتا ہے تو وہ دراصل اللہ عزوجل کی اطاعت سے منہ موڑتا ہے۔ اسی طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینا دراصل اللہ کریم کو اذیت دینا ہے اور اللہ کریم کو اذیت دینے کا مطلب اس کے غضب اور ناراضی کو دعوت دینا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے :
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُؤْذُوۡنَ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَعَنَہُمُ اللہُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا مُّہِیۡنًا۔
ترجمہ : بیشک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے ان کے لئے ذلّت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔(سورت الاحزاب ، آیت 57)
علامہ ابن تیمیہ کے نزدیک اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ لہٰذا اس آیت کے ذیل میں انھوں نے لکھا ۔"اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت و اذیت اور معصیت و نافرمانی کو (قرآن حکیم میں) ایک ہی چیز قرار دیا گیا ہے۔(ابن تیمیہ ، الصارم المسلول علی شاتم الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 40-41)
بعض افراد عبادت و تعظیم کا فرق ملحوظ خاطر نہ رکھنے کے سبب دونوں کو ایک ہی پیرائے میں استعمال کرتے ہوئے تعظیم حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چشم پوشی اختیار کرتے ہیں۔ جبکہ علمائے کرام نے عبادت کی درج ذیل تعریف کی ہے ۔
" یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا خصوصی استحقاق ہے کہ اسی کی عبادت کی جائے ، اس کا کوئی شریک نہیں۔ "(ابن ابی العز دمشقی ، شرح العقیدہ الطحاویۃ ، 125 : 01)
امام خازن لکھتے ہیں " عبادت بندے کی طرف سے عجزو انکساری کی بلند ترین کیفیت اور رب تعالیٰ کے لئے تعظیم کے بلند ترین درجے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ سب سے بلند ہے اور وہی عبادت کا مستحق ہے ۔ اور عبادت کا لفظ فقط اللہ تعالیٰ سے عاجزی کےلئے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ وہ عظیم ترین نعمتوں کا مالک ہے۔ "
(خازن ، لباب التاویل فی معانی التنزیل 17 : 01،چشتی)
جبکہ امام فخرالدین رازی لکھتے ہیں؛" عبادت ، تعظیم کی بلند ترین کیفیت سے عبارت ہے " ۔ (رازی ، التفسیر الکبیر 01 :242)
ان کے علاوہ بھی دیگر آئمہِ تفسیر نے عجز و انکساری کی بلند ترین کیفیت اور تعظیم کی آخری حد کو عبادت قرار دیا ہے۔ پس عبادت کے لئے لازمی ہے کہ اس میں عجزوانکساری کی بلند ترین کیفیت کے ساتھ تعظیم کا انتہائی درجہ شامل ہو اس کے علاوہ ایسےعمل کو جو اس سے کم تر درجے میں ہو اسے عبادت تصور نہیں کیا جاسکتا۔
عبادت و تعظیم کی درج بالا بحث سے ثابت ہوا کہ ادب و احترام اور تعظیم کا اعلیٰ ترین درجہ ہی عبادت کہلائے گا جس کا حق دار و سزاوار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذاتِ بابرکت ہے اس میں حقیقت و مجاز کی تقسیم بھی نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا عبادت کا کسی کے لےا مجازا اثبات بھی شرک ہے ۔ لیکن ہر تعظیم عبادت نہیں کیونکہ کسی بھی عمل کو عبادت قرار دینےکے لئے تین شرائط کا پایا جانا نہایت ضروری ہے ۔
بندہ عاجزی و تذلل اور عجز و انکساری کی آخری حد پر ہو۔
اللہ تعالیٰ کے لئے تعظیم کا آخری درجہ ہو۔
اُس عمل کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے خاص قرار دیا ہو۔
شرعاً تعظیم کے جائز و واجب طریقے
جائز طریقے :
تعظیم بالقیام
تعظیم بالاستقبال
تعظیم بخلع النعال
تعظیم بالتقبیل
تعظیم بالزیارت
تعظیم بالمحبت
تعظیم بالتوجہ
تعظیم بالتبرک
واجب طریقے :
تعظیم الوہیت
تعظیم الوہیت
تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
تعظیم انبیاء علیھم السلام
تعظیم قرآن
تعظیم حدیث
تعظیم اہلبیت
تعظیم صحابہ علیھم الرضوان
تعظیم اولیاء و صالحین
تعظیم اکابر و مشائخ
تعظیم والدین
تعظیم شعائر
تعظیم شہورِ مقدسہ
تعظیم ایام مقدسہ
تعظیم اماکن مقدسہ
صحابہ کرام علیھم الرضوان کی جانب سے تعظیم حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مظاہرے
سن 06 ہجری کو جب کفار مکہ نے حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے روک دیا تو اس وقت مسلمانوں اور کافروں کے درمیان صلح نامہ طے پایا۔ اس موقع پر عروہ بن مسعود بارگاہ رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کفار کا وکیل بن کر آیا۔ اس نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے حد تعظیم کرتے ہوئے دیکھا۔ اور جو اس نے محبت و ادب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حیران کن مناظر دیکھے تو واپس جا کر اپنے ساتھیوں کے سامنے ان کی منظر کشی کی۔ ان تفصیلات کو حضرت مسعود بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مروان نے درج ذیل الفاظ میں روایت کیا ہے ؛ " عروہ بن مسعود صحابہ کرام علیھم الرضوان کو غور سے دیکھتا رہا ۔ راوی کہتے ہیں ۔ اللہ رب العزت کی قسم ! جب بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا لعاب مبارک پھینکتے تو کوئی نہ کوئی صحابی اسے اپنے ہاتھ میں لے لیتا اور اسے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں کسی بات کا حکم دیتے تو وہ فوراً تعمیل میں لگ جاتے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو فرماتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استعمال شدہ پانی کو حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گفتگو فرماتے تو صحابہ کرام علیھم الرضوان ہمہ تن گوش ہو کر اپنی آوازوں کو پست کرلیتے۔ اور تعظیم کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نظر جما کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔ اس کے بعد عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور ان سے کہنے لگا : اے قوم ! خدا کی قسم میں (بڑے بڑے) بادشاہوں کے درباروں میں وفد لے کر گیا ہوں۔ میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں لیکن خدا کی قسم ! میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا جس کے درباری اس کی اس طرح دل سے تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ "(البخاری ، کتاب الشروط ، 2581 ۔۔۔۔۔۔ المسند امام احمد بن حنبل 04:329،چشتی)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علالت کے آخری ایام کے اس واقعہ کا ذکر فرماتے ہیں جس میں صحابہ کرام علیھم الرضوان نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت کے بجائے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتداء میں حالت نماز میں تھے مگر جیسے ہی حجرہ مبارک کا پردہ اٹھا کر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی میں تشریف لائے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ " حضور نبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرض الموت میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔ چناچہ پیر کے روز لوگ صفیں بنائے نماز ادا کر رہے تھے کہ اتنے میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجرہ مبارک کا پردہ اٹھایا اور کھڑے کھڑے ہم کو دیکھنے لگے۔ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ انور قرآن کے اوراق کی طرح روشن معلوم ہوتا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (جماعت کو دیکھ کر) مسکرانے لگے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار پر انوار کی خوشی میں قریب تھا کہ ہم نماز توڑ دیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خیال ہوا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز میں تشریف لارہے ہیں ۔ اس لئے انھوں نے ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹ کر مقتدیوں میں مل جانا چاہا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ سے فرمایا کہ تم لوگ اپنی نماز پوری کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ گرا دیا اور اسی روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا۔"( بخاری کتاب الاذان 648 ، 721 ، کتاب التھجد 1147 ، کتاب المغازی 4183 ۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلم کتاب الصلوۃ 419)
غور کیجئے ۔۔۔۔۔ اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام علیھم الرضوان بحالت نماز دیدار مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لذتوں سے فیضیاب ہورہے تھے۔ یعنی بحالت نماز آمد و مسکراہٹ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر توجہ ، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیچھے کی طرف ہوجانے کا عمل اور شوق دیدار میں نماز توڑنے تک کی کیفیات اگر کسی عام سے منسوب ہوتیں تو لائق جراح بن جاتیں مگر اسے کیا کہئے کہ یہ اعمال خود صحابہ کرام علیھم الرضوان سے منسوب و ثابت ہیں۔ لہٰذا کہنے دیجئے کہ ادب و تعظیم مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیکھنا ہو تو صحابی کی طرف رجوع کرو کسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی کیا اوقات کہ وہ تعظیم حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سمجھ سکے۔ بے شک صحابہ کرام علیھم الرضوان ہی نے سب سے بہتر سمجھا اور ہمارے لئے لائق تقلید اعمال کا ایک خزانہ چھوڑا۔
حضرت موسیٰ بن عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے طویل واقعہ مروی ہے کہ جب صلح حدیبیہ کے موقع پر سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کفار کی طرف سفیر بنا کر روانہ کیا گیا اور کفار نے مذاکرات کے بعد انھیں طواف کعبہ کی دعوت دی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوراً انکار کرتے ہوئے فرمایا ؛ " اللہ کی قسم ! میں اس وقت تک کعبہ کا طواف نہیں کروں گا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا طواف نہیں کرلیتے۔ (بیہیقی ، السنن الکبری 09:221)
حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ " نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہورہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر اقدس حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گود میں تھا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ عصر کی نماز نہ پڑھ سکے ۔ یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی : اے اللہ ! علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا لہٰذا اس پر سورج واپس لوٹا دے۔ حضرت اسماء فرماتی ہیں : میں نے اسے غروب ہوتے ہوئے دیکھا تھا اور اسی کو دیکھا کہ وہ غروب ہونے کے بعد دوبارہ طلوع ہوا۔"(طبرانی ، المعجم الکبیر 390 ۔۔۔۔۔۔۔ ابن کثیر ، البدایۃ والنہایۃ 06:83)
محترم قارئین : دیکھئے کیا واقعہ ہوا یہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غور تو کیجئے ۔۔۔۔۔۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسی ہستی نماز کو جان بوجھ کر قضا فرما رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ بتائیے جان بوجھ کر نماز قضا کرنے والوں پر عذاب کا ہمیں علم نہیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو کہ علم کا دروازہ ہیں ان کو علم نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھا یقیناً تھا بے شک علم تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ایک طرف علم تھا اور دوسری طرف تعظیم مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھی۔ آج کل کے ثواب کو تول تول کر نیک کام کرنے والوں جیسا کوئی ہوتا تو شاید محرومی ہی اس کا مقدر ہوتی مگر سامنے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسی باکردار و باادب شخصیت تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو دوسری طرف یعنی نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے بھی سرزنش نہیں فرمائی گئی کہ اے علی تم نے نماز قضا کردی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک طرف میرا آرام تھا دوسری طرف تمھاری نماز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کلمات ادا فرمائے مگر کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " اے اللہ ! علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا لہٰذا اس پر سورج واپس لوٹا دے۔" ۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ اللہ ۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیسا مقام ہے کہ جان بوجھ کر نماز قضا کی گئی مگر رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس فعل پر گرفت فرمانے کے بجائے رب کی بارگاہ میں اسے اپنی اور اپنے رب کی اطاعت سے تعبیر فرمارہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر ہم کیوں نہ کہیں :
شرک ٹھرے جس مذہب میں تعظیم حبیب
ایسے برے مذہب پر لعنت کیجئے
حضرت عبد الرحمن بن ابو لیلی سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما نے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ " ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہوئے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس پر بوسہ دیا۔"(السنن ابو داود کتاب الادب 5223 ، بیہقی السنن الکبری 13362 ، شعب الایمان 8965)
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ ہم ایک غزوہ میں تھے۔ کہ لوگ بری طرح بکھر کر محاذ سے پیچھے ہٹ گئے۔ تو ہم نے کہا کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا منہ دکھائیں گے۔ ہم لوگ (جنگ سے) بھاگ گئے۔۔۔ اس پر آیت نازل ہوئی " بجز ان کے جو جنگی چال کے طور پر رخ بدل دیں۔" ہم نے کہا اب مدینہ میں چلے جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کی نماز کے لئے باہر تشریف لائے۔ ہم نے عرض کیا "ہم بھاگے ہوئے ہیں" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " نہیں بلکہ تم پلٹ کر حملہ کرنے والے ہو۔" پس ہم قریب ہوئے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دست مبارک چوم لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " میں ہر مسلمان کی پناہ گاہ ہوں۔"(البخاری فی الادب المفرد 972 ، ابو داود السنن کتاب الجھاد 2647 ، ابن ابی شیبۃ فی المنصف 33676 ، المسند احمد بن حنبل ۔ 100۔5384 ، جامع ترمذی 01:205 ، اسنن ابن ماجہ 271 )
حضرت زارع رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو کہ وفد عبد القیس میں شامل تھے بیان کرتے ہیں " جب ہم مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو تیزی سے اپنی سواریوں سے اُتر کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس اور پاؤں مبارک کو چومنے لگے۔ (السنن ابو داود کتاب الادب 5225 ، امام بخاری الادب المفرد 975 ، طبرانی فی المعجم الکبیر 5313 ، شعب الایمان 7729 ، البیہقی السنن الکبری 10267،چشتی)
میرے عزیز ساتھیوں۔۔۔۔ صحابہ کرام علیھم الرضوان نے آقائے نامدار دو جہاں کے سردار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک و مقدس پاؤں شریف کو بوسہ دیتے ہوئے کیا انداز اختیار کیا ہوگا ؟ جلسہ ، قعود یا قیام ۔۔ ؟؟؟ تا کہ ان کا یہ عمل سجدہ سے مشابہ ہوکر شرک کے زمرے میں نہ آئے۔ سنن ابوداود کی اس صحیح روایت کی کیا تعبیر ہوگی ؟؟؟ کیا مذکورہ صحابہ کرام علیھم الرضوان نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ کیا تھا ؟؟؟ نہیں ہرگز نہیں ۔۔۔ ایسا کہنا ان پر بہتان طرازی ہوگا۔ لہٰذا اس حدیث مبارکہ کی درست تعبیر یہی ہے کہ صحابہ کرام علیھم الرضوان نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا و مافیہا سے بڑھ کر محبوب سمجھتے تھے۔ یہ ان کا اظہار عقیدت و محبت تھا کہ ادب و تعظیمِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں وہ ہر جائز طریقہ و انداز اپناتے تھے۔
امام بخاری نے "الادب المفرد" میں ایک باب "تقبیل الرجل" قائم کیا یعنی "پاؤں کو بوسہ دینے کا بیان"۔ اس حدیث کو حضرت وازع بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان الفاظ میں روایت کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں " ہم مدینہ حاضر ہوئے تو (ہمیں) کہا گیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ پس ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھوں اور قدموں سے لپٹ گئے اور انھیں بوسہ دینے لگے ۔ (البخاری فی الادب المفرد 01:339 ۔ 975)
حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا ۔۔۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ میں اسلام لانا چاہتا ہوں مجھے کوئی ایسی چیز دکھائیے جس سے میرا یقین زیادہ ہوجائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا "تو کیا چاہتا ہے" اس نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس درخت کو اپنے پاس بلالیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " تو جا کر اسے بُلا لا"۔ وہ اس (درخت) کے پاس گیا اور کہا کہ رسول اللہ صلہ اللہ علیہ وآلہ وسلم تجھے بلاتے ہیں۔ یہ سن کر وہ (درخت) ایک طرف کو جھکا اور اس کی جڑیں اکھڑیں ۔ پھر دوسری طرف کو جھکا اور جڑیں اکھڑیں۔ اسی طرح وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا السلام علیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ یہ دیکھ کر اعرابی نے کہا مجھے کافی ہے۔ مجھے کافی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس درخت کو اپنی جگہ پر جانے کا حکم دیا تو وہ چلا گیا اور اپنی جڑوں پر قائم ہوگیا۔ اعرابی نے عرض کی ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ کے سر مبارک اور دو پائے مبارک کو بوسہ دوں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دی۔ اور اس نے سر مبارک اور دو پائے مبارک کو چوم لیا۔ پھر اس نے عرض کی مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک شخص دوسرے شخص کو سجدہ نہ کرے۔ اگر میں ایسے سجدے کی اجازت دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے کیوں کہ شوہر کا اس پر بڑا حق ہے۔(زرقانی علی المواھب ۔ وفد عبد القیس ، الادب المفرد للبخاری ۔ باب التودۃ الامور،چشتی)
امام ترمذی نے اس مضمون پر ایک حدیث حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ قوم یہود کے بعض افراد نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سوال کرنے کے بعد اعلانیہ گواہی دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اللہ کے سچےرسول ہیں۔۔ " انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں مبارک کو بوسہ دیا۔ اور کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی ہیں۔"(ترمذی کتاب الاستئذان و الآداب باب فی قبلۃ الید و الرجل 05:77 ۔ 2733 ، ابن ماجہ کتاب الادب باب الرجل یقبل ید الرجل 02:1221 ۔ 3705 ، ابن ابی شیبۃ 6258 ، المسند احمد بن حنبل 04:239 ، المستدرک الحاکم 09:01) ، اما م حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا جبکہ امام ذہبی نے بھی اس کی تائید کی۔
یہاں کوئی معتصب کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک یہودی کا فعل تھا۔ ہم اسے کس طرح لازمی شہادت کا درجہ دے سکتے ہیں۔ اس سوچ پر سوائے افسوس کے اور کیا کیا جاسکتا ہے کہ معترض کو یہودی کا فعل تو نظر آگیا مگر جس کے ساتھ کیا جارہا ہے وہ بابرکت و معظم ہستی نظر نہیں آتی۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو اس فعل سے منع نہیں فرمایا تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت تقریری ہوا۔
اللہ عزوجل کے فضل و کرم سے احادیث کا ایک بیش بہا خزانہ موجود ہے جو ہمیں تعظیم مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام آداب و اصول سکھاتا ہے اور دعوت فکر دیتا ہے کہ جب بھی ہم اس عظیم ہستی کا نام نامی اسم گرامی یا حالات زندگی سنیں یا تصورات و تخیلات کی دنیا میں محو پرواز ہوں تو کسی طور اپنے فہم ناقص کو زور آور نہ بنا بیٹھیں اور نہ تعظیم مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شرک و بدعت کے فلسفے میں پرکھیں کہ جس عمل کا حکم رب کائنات نے دیا ہو اور جس پر عمل صحابہ علیھم الرضوان کی جماعت نے کیا ہو ایسا عمل کیونکر شرک و بدعت ہوسکتا ہے۔ ہاں ہماری عقل ناقص ہے ۔ ہمارا فہم ادھورا ہے۔ لہٰذا تعظیم مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اگر صحابہ کرام علیھم الرضوان نے ہاتھ مبارک اور پاؤں مبارک کو بوسے دیئے تو کیا عجیب کیا ۔ یاد رکھئے چومنے اور پوجنے میں بہت فرق ہے ۔ عشاق غلاف کعبہ و جزوان قرآن و حجر اسود کے چوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پوجتے نہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
سبحان اللہ سبحان اللہ
ReplyDeleteآپ کی پوسٹ بہت عمدہ ہوتی ہے، بہت سے حضرات ہیں جن کو اردو زبان نہیں معلوم اگر آپ. اجازت دیں تو میں اسے ھندی زبان میں لوگوں میں آم کروں