Wednesday 29 June 2022

آذر حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا والد نہیں چچا تھا حصّہ دوم

0 comments
آذر حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا والد نہیں چچا تھا حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : اس سے قبل حصّہ اوّل میں ہم تفصیل کے ساتھ مستند دلائل سے ثابت کر چکے ہیں کہ آذر حضرت سیّدنا ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا والد نہیں چچا تھا آئیے اب اس موضوع پر حصّہ دوم میں مزید دلائل پڑھتے ہیں : اس سلسلہ میں اس حدیث سے بھی اعتراض کیا جاتا ہے : امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اپنے (عرفی) باپ آزر سے قیامت کے دن ملاقات ہوگی اور آزر کے چہرے پر دھواں اور گرد و غبار ہوگا ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس سے فرمائیں گے کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میری نافرمانی نہ کرنا ؟ ان کے (عرفی) باپ کہیں گے ‘ آج میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرمائیں گے ‘ اے میرے رب تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ تو قیامت کے دن مجھ کو شرمندہ نہیں کرے گا اور اس سے بڑی اور کیا شرمندگی ہوگی کہ میرا (عرفی) باپ رحمت سے دور ہو، اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے جنت کافروں پر حرام کردی ہے ‘ پھر کہا جائے گا اے ابراہیم ! تمہارے پیروں کے نیچے کیا ہے ؟ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دیکھیں گے تو وہ گندگی میں لتھڑا ہوا ایک بجو ہوگا۔ اور اس کو ٹانگوں سے پکڑ کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا ۔ (صحیح البخاری ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٣٣٥٠‘ سنن کبری للنسائی ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ١١٣٧٥‘ المستدرک ‘ ج ٢‘ ص ٣٣٨‘ کنزالعمال ‘ ج ١١‘ رقم الحدیث :‘ ٣٢٢٩٢‘ مشکوۃ المصابیح ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٥٥٣٨،چشتی)

حافظ عماد الدین ابن کثیر شافعی متوفی ٧٧٤ ھ لکھتے ہیں : یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باپ کا نام آزر ہے اور جمہور اہل نسب ‘ بہ شمول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سب اس پر متفق ہیں کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باپ کا نام تارخ ہے اور اہل کتاب تارح کہتے ہیں ۔ (البدایہ والنہایہ ‘ ج ١‘ ص ١٤٢‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٩٧٤ ء)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی متوفی ١٠٥٢ ھ رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : بعض علماء رحمہم اللہ اس بات کے قائل ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام آباء کرام شرک اور کفر کی آلودگی سے پاک اور منزہ ہیں ۔ ان کے نزدیک آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا ہیں ‘ ان کو مجازا باپ کہا گیا ہے اور ان کے باپ کا نام تارخ ہے اسی وجہ سے مطلقا نہیں فرمایا کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اپنے باپ سے ملاقات ہوگی ‘ تاکہ ان کے حقیقی والد کی طرف ذہن متوجہ نہ ہو ‘ اور ان کے والد کے ساتھ آزر کا ذکر کیا ‘ تاکہ معلوم ہو کہ یہاں مجازی باپ مراد ہے۔ (اشعۃ اللمعات ‘ ج ٤‘ ص ٣٦٨‘ مطبوعہ مطبع تیج کمار ‘ لکھنؤ)

شیخ محمد ادریس کا ندھلوی متوفی ١٣٩٤ ھ دیوبندی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : تحقیق یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا چچا تھا ‘ اس کو مجاز متعارف کے طور پر باپ کہا گیا ہے اور آپ کے باپ کا نام تارخ ہے۔ بعض محققین علماء جنہوں نے آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام آباء سے کفر کی نفی کی ہے ان کی یہی تحقیق ہے ۔ اس بناء پر اس حدیث میں آزر کا ذکر اس لیے ہے کہ اگر یوں کہا جاتا کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اپنے باپ سے ملاقات ہوگی ‘ تو اس سے ان کے حقیقی والد کی طرف ذہن چلا جاتا ‘ اور جب آزر کی قید لگائی تو ان کے حقیقی والد کی طرف ذہن نہیں جائے گا ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس چچا پر باپ کا اطلاق اس لیے کیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اختلاط اور ان کی الفت اپنے اس چچا کے ساتھ بہت زیادہ تھی اور مشرکین کا رئیس تھا اور اسی کے ساتھ ان کا مناظرہ ہوا تھا ۔ (التعلیق الصبیح ‘ ج ٦‘ ص ٣٠١‘ مطبوعہ مکتبہ نعمانیہ ‘ لاہور،چشتی)

اس حدیث پر دوسرا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام زندگی میں آزر کے دشمن خدا ہونے کی وجہ سے اس سے بیزار ہوگئے تھے ‘ تو پھر قیامت کے دن اس کی سفارش کیوں کی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آزر کے لیے نجات کی دعا کرنے سے بیزار ہوگئے تھے اور قیامت کے دن انہوں نے اس کی نجات کےلیے سفارش نہیں کی ‘ بلکہ اس کے عذاب میں تخفیف کے لیے سفارش کی تھی اور بعض خصوصیات کی بنا پر کفار کے عذاب میں تخفیف کردی جاتی ہے ۔

ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلہ نسب میں تمام آباء کرام مومن تھے اس پر دلیل یہ ہے کہ احادیث صحیحہ اس پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کر حضرت عبداللہ تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام آباء کرام اپنے اپنے زمانوں میں سب سے خیر (بہتر) اور سب سے افضل تھے ‘ اور قرآن مجید میں یہ تصریح ہے : (آیت) ” ولعبد مومن خیرمن مشرک ولو اعجبکم “۔ (البقرہ : ٢٢١)
ترجمہ : اور بیشک مومن غلام ‘ مشرک (آزاد) سے بہتر ہے خواہ وہ تمہیں اچھا لگے۔
اور جب مومن مشرک سے بہتر اور افضل ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء کرام اپنے اپنے زمانہ میں سب سے بہتر اور افضل تھے تو ضروری ہوا ک کہ وہ مومن ہوں۔ نیز احادیث اور آثار اس پر دلالت کرتے ہیں کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام یا حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد سے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت تک ‘ بلکہ قیامت تک روئے زمین پر کچھ ایسے لوگ رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی توحید پر قائم رہے اور اس کی عبادت کرتے رہے اور ان ہی کی وجہ سے زمین محفوظ رہی ‘ ورنہ زمین اور زمین والے ہلاک ہوجاتے ‘ اور ان مقدمات سے قطعی طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء میں کوئی مشرک نہیں تھا۔ کیونکہ زمین کبھی مومنین اور مشرکین سے خالی نہیں رہی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء اپنے اپنے دور میں سب سے بہتر اور افضل تھے اور مومن مشرک سے بہتر اور افضل ہوتا ہے ۔ لہذاثابت ہوگیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام آباء کرام مومن تھے ‘ پہلے ہم اس امر پر دلائل پیش کریں گے کہ زمین کبھی مومنین اور موحدین سے خالی نہیں رہی اور پھر اس امر پر دلائل پیش کریں گے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کر حضرت عبد اللہ تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام آباء کرام اپنے اپنے زمانوں میں سب لوگوں سے بہتر اور افضل تھے ۔

خاتم الحفاظ حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : امام عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں از معمر ‘ از ابن جریج ‘ از ابن المسیب روایت کیا ہے ‘ روئے زمین پر ہمیشہ قیامت تک کم از کم سات مسلمان رہے ہیں اور اگر وہ نہ ہوتے تو زمین اور زمین والے ہلاک ہوجاتے ۔
امام بخاری اور مسلم کی شرط کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے اور ہرچند کہ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے ‘ لیکن اس قسم کی بات رائے سے نہیں کہی جاسکتی پس یہ حدیث حکما مرفوع ہے ۔ امام ابن المنذر نے اس حدیث کو امام عبدالرزاق کی سند سے اپنی تفسیر میں درج کیا ہے۔ امام ابن جریر نے اپنی تفسیر میں شہر بن حوشب سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے زمین میں ہمیشہ چودہ ایسے نفوس رہے جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ زمین والوں سے عذاب دور کرتا تھا اور ان کی برکت زمین میں پہنچاتا تھا ‘ ماسوا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ کے ‘ کیونکہ وہ اپنے زمانہ میں صرف ایک تھے۔
امام ابن المنذر نے قتادہ سے اپنی تفسیر میں روایت کیا ہے کہ ہمیشہ زمین میں اللہ کے اولیاء رہے ہیں ‘ جب سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زمین پر اتارا ہے ‘ کبھی زمین ابلیس کے لیے خالی نہیں رہی ‘ اس میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء رہے ہیں ‘ جو اس کی اطاعت کرتے رہے ہیں ۔
حافظ ابو عمرو ابن عبدالبر از قاسم ‘ از امام مالک روایت کرتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنما نے فرمایا جب تک زمین میں شیطان کا ولی ہے ‘ تو زمین میں اللہ کا ولی بھی ہے ۔
امام احمد بن حنبل نے کتاب الزھد میں بخاری اور مسلم کی شرط کے مطابق سند صحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد زمین کبھی ایسے نفوس سے خالی نہیں رہی جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ زمین والوں سے عذاب دور کرتا ہے۔ یہ حدیث بھی حکما مرفوع ہے ۔
امام ازرقی نے تاریخ مکہ میں زہیر بن محمد سے روایت کیا ہے کہ ہمیشہ زمین پر کم از کم سات ایسے رہے ہیں کہ اگر وہ نہ ہوتے تو زمین اور زمین والے ہلاک ہوجاتے ۔
امام ابن المنذر نے اپنی تفسیر میں سند صحیح کے ساتھ ابن جریج سے روایت کیا ہے ‘ انہوں نے کہا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے کچھ لوگ ہمیشہ فطرت پر رہے ‘ اللہ کی عبادت کرتے رہے ۔
امام بزار نے اپنی مسند میں اور امام ابن جریر ‘ امام ابن المنذر اور امام ابن ابی حاتم نے اپنی اپنی تفاسیر میں اور امام حاکم نے المستدرک میں تصحیح سند کے ساتھ اس آیت ” کان الناس امۃ واحدۃ “ کی تفسیر میں روایت کیا ہے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے درمیان دس قرن ہیں اور ان میں سے ہر ایک شریعت حق پر ہے ۔ پھر ان کے بعد لوگوں میں اختلاف ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو بھیجا اور زمین والوں پر اللہ تعالیٰ نے جو سب سے پہلا رسول بھیجا ‘ وہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تھے ۔ اور امام محمد بن سعد نے طبقات میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک دس آباء ہیں اور وہ سب اسلام پر تھے۔ (الحاوی للفتاوی ‘ ج ٢‘ ص ٢١٣۔ ٢١٢‘ مطبوعہ فیصل آباد،چشتی)

امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قیامت قائم نہیں ہوگی حتی کہ زمین اللہ اللہ نہ کہا جائے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ دوسری روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تک ایک شخص بھی اللہ اللہ کہتا رہے گا اس پر قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ (صحیح مسلم ‘ ایمان ٢٣٤‘ (١٤٨) ٣٦٩‘ ٣٦٨‘ سنن الترمذی ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٢٢١٤‘ صحیح ابن حبان ‘ ج ١٥‘ رقم الحدیث :‘ ٦٨٤٩‘ مسند احمد ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ١٣٨٣٤‘ طبع جدید ‘ مسند احمد ‘ ج ٣‘ ص ٢٦٨‘ ٢٠١‘ ١٠٧‘ طبع قدیم ‘ مسند ابو یعلی ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ٣٥٢٦‘ مصنف عبدالرزاق ‘ ج ١١‘ رقم الحدیث :‘ ٢٠٨٤٧‘چشتی،مسند ابو عوانہ ‘ ج ١‘ ص ١٠١‘ المستدرک ‘ ج ٤‘ ص ٤٩٤‘ شرح السنہ ‘ ج ٧‘ ص ٤١٧٨‘ کنز العمال ‘ ج ١٤‘ رقم الحدیث :‘ ٣٨٥٨٥‘ مسند البزار ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٣٤١٨‘ مجمع الزوائد ‘ ج ٧‘ ص ٣٣١‘ ج ٨‘ ص ١٢‘ مشکوۃ المصابیح ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٥٥١٦)
اس صحیح حدیث سے یہ واضح ہوگیا کہ ہر دور میں اللہ اللہ کہنے والے مسلمان بندے روئے زمین پر رہے ہیں اور کسی دور میں بھی اللہ اللہ کہنے والوں سے زمین خالی نہیں رہی ‘ ورنہ قیامت آچکی ہوتی ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام آباء کرام کا اپنے اپنے زمانہ میں سب سے افضل اور بہتر ہونا

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے بنو آدم کے ہر قرن اور ہر طبقہ میں سب سے بہتر قرن اور طبقہ سے مطعوث کیا جاتا رہا حتی کہ جس قرن میں میں ہوں ۔ (صحیح البخاری ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث :‘ ٣٥٥٧‘ مسند احمد ‘ ج ٩‘ رقم الحدیث :‘ ٩٣٦٠‘ ٨٨٤٣‘ طبع دارالحدیث قاہرہ ‘ مسند احمد ‘ ج ٢‘ ص ٤١٧‘ طبع قدیم ‘ مشکوۃ المصابیح ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث :‘ ٥٧٣٩‘ کنزالعمال ‘ ج ١١‘ رقم الحدیث :‘ ٣٣٠٠٥‘ دلائل النبوۃ للبیقہی ‘ ج ١‘ ص ١٧٥)

امام ابوبکراحمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨‘ ھ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا میں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار ہوں۔ جب بھی لوگوں کے دو گروہ ہوئے اللہ تعالیٰ نے مجھے ان میں سے بہتر گروہ میں رکھا ‘ میں (جائز) ماں باپ سے پیدا کیا گیا ہوں ‘ مجھے زمانہ جاہلیت کی بدکاری سے کوئی چیز نہیں پہنچی۔ میں نکاح سے پیدا کیا گیا ہوں ‘ بدکاری سے پیدا نہیں کیا گیا ‘ حضرت آدم (علیہ السلام) کے زمانہ سے لے کر پاکیزگی کا یہ سلسلہ میرے باپ اور میری ماں تک پہنچا ہے ‘ میں بطور شخصیت کے تم سب سے بہتر ہوں اور بہ طور باپ کے تم سب سے بہتر ہوں۔ (دلائل النبوۃ ‘ ج ١‘ ص ١٧٥‘ ١٧٤)

امام ابو نعیم اصبہانی متوفی ٤٣٠ ھ رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے ماں باپ کبھی بھی بدکاری پر جمع نہیں ہوئے ۔ اللہ عزوجل ہمیشہ مجھے پاک پشتوں سے پاک رحموں کی طرف منتقل فرماتا رہا ‘ جو صاف اور مہذب تھیں۔ جب بھی دو شاخیں پھوٹیں ‘ میں ان میں سے بہتر شاخ میں تھا۔ (دلائل النبوۃ ج ١‘ رقم الحدیث : ١٥)

امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قریش آپس میں بیٹھے ہوئے اپنے حسب ونسب کا ذکر رہے تھے ۔ انہوں نے آپ کی مثال اس طرح دی جیسے زمین کے گھورے (گندگی ڈالنے کی جگہ) میں کھجور کا درخت پیدا ہوگیا ہو ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور مجھے ان میں سب سے بہتر لوگوں میں اور سب سے بہتر گروہوں میں اور سب سے بہتر فرقوں میں رکھا ‘ پھر قبیلوں کا انتخاب کیا اور مجھے سب سے بہتر قبیلہ میں رکھا ‘ پھر گھروں کا انتخاب کیا اور مجھے سب سے بہتر گھر میں رکھا۔ پس میں بطور شخص سب سے بہتر ہوں اور بہ طور گھر سب سے بہتر ہوں۔ امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن ہے ۔ (سنن الترمذی ‘ ج ٥‘ رقم الحدیث :‘ ٣٦٢٧‘ دلائل النبوۃ للبیہقی ‘ ج ١‘ ص ١٦٩‘ دلائل النبوۃ لابی نعیم ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ١٦،چشتی)

مطلب بن ابی وداعہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کوئی ناگوار بات سنی تھی ۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا میں کون ہوں ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔ علیک السلام ‘ آپ نے فرمایا میں محمد بن عبد اللہ بن عبدالمطلب ہوں ‘ بیشک اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا اور مجھے سب سے بہتر مخلوق میں رکھا ۔ پھر اللہ نے ان کے دو گروہ کیے ‘ تو مجھے سب سے بہتر گروہ میں رکھا۔ پھر اللہ نے ان کو قبائل میں منقسم کیا تو مجھے سب سے بہتر قبیلہ میں رکھا ‘ پھر اللہ نے ان کو گھروں میں منقسم کیا تو مجھے سب سے بہتر گھر میں رکھا اور سب سے بہتر شخص میں رکھا ۔ امام ترمذیرحمۃ اللہ علیہ نے کہا یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ۔ (سنن الترمذی ‘ ج ٥‘ رقم الحدیث :‘ ٣٦٢٨‘ دلائل النبوۃ للبیہقی ‘ ج ١‘ ص ٢٧٠‘ المعجم الکبیر ‘ ج ٢٠‘ رقم الحدیث : ٦٧٦۔ ٦٧٥‘ مسند احمد ‘ ج ٤‘ ص ١٦٦۔ ١٦٥)

امام ابو نعیم اصبہانی متوفی ٤٣٠ ھ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنما ” وتقلبک فی الساجدین “ کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ انبیاء علیہم السلام کی پشتوں میں منقلب ہوتے رہے ‘ حتی کہ آپ اپنی والدہ (رضی اللہ عنہا) سے پیدا ہوئے ۔ ‘ (دلائل النبوۃ ج ١‘ رقم الحدیث : ١٧) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Tuesday 28 June 2022

آذر حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا والد نہیں چچا تھا حصّہ اوّل

0 comments
آذر حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا والد نہیں چچا تھا حصّہ اوّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اِذْ قَالَ لِاَبِیۡہِ یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیۡ عَنۡکَ شَیْـًٔا ۔ ﴿سورہ مریم آیت نمبر 42﴾
ترجمہ : جب اپنے باپ سے فرمایا اے میرے باپ تم کیوں ایسے کی عبادت کر رہے ہو جو نہ سنتا ہے اور نہ دیکھتا ہے اور نہ تجھے کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے ۔

اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اپنے بت پرست (عُرفی) باپ آزَر سے فرمایا ’’ عبادت معبود کی انتہائی تعظیم ہے اور اس کا وہی مستحق ہو سکتا ہے جو اوصاف وکمال والا اور نعمتیں دینے والا ہو اور وہ صرف اللہ تعالیٰ ہے جس کا کوئی شریک نہیں ، اس لیے عبادت کا مستحق بھی صرف وہی ہے ، جبکہ تم جن بتوں کی عبادت کر رہے ہو ان کا حال یہ ہے کہ یہ نہ توسنتے ہیں ، نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی تمہارے کسی کام آسکتے ہیں بلکہ یہ خود تمہارے محتاج ہیں کہ اپنی جگہ سے دوسری جگہ بھی نہیں جاسکتے اور تم نے خود انہیں اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے تو ایسی ناکارہ اور لاچار مخلوق کی عبادت کرنا اور اس کے سامنے اپنا سرجھکانا اور اس سے کسی بھی قسم کے نفع نقصان کی امید رکھنا انتہائی حماقت کے سوا کچھ نہیں ہے ۔

آزر حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا باپ تھا یا چچا ؟

حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا نام ‘ نسب اور تاریخ پیدائش : ⬇

امام ابوالقاسم علی بن الحسن ابن العساکر متوفی ٥٧١ ھ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نسب اس طرح لکھا ہے : ابراہیم بن تارخ ہیں بن ناحور بن شاروغ بن ارغوبن فالع بن عابرشالخ بن ارفخشذبن سام بن نوبن لمک بن متوشلح بن خنوخ اور وہ ادریس ہیں ‘ بن یاردبن مھلائیل بن قینان بن انوش بن شیث بن آدم ۔
حضرت ابراہیم خلیل الرحمن ہیں ‘ اور آپ کی کنیت ابو الضیفان ہے ۔ صحیح یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام عراق کے شہر بابل کے موضع کو ثی میں پیدا ہوئے ۔ مجاہد نے کہا ہے کہ آزر حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے باپ نہیں تھے ۔ (مختصر تاریخ دمشق ج ٣ صفحہ ٣٤٤ مطبوعہ دارالفکر دمشق‘١٤٠٤ ھ،چشتی)

قرآنِ پاک میں کئی مقامات پر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اپنے والد کو توحید کی دعوت دی اور بت پرستی سے منع کیا اور سورۂ اَنعام کی آیت نمبر 74 میں اس کا نام آزر بھی مذکور ہے ، اب حل طلب معاملہ یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا حقیقی باپ تھا یا نہیں ، چنانچہ اس کے بارے مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ، بعض مفسرین کے نزدیک آزر حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا حقیقی باپ تھا ، بعض کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے والد کا نام تارح ہے اور اس کا لقب آزر ہے ، بعض کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی قومی زبان میں ان کے باپ کا نام تارخ تھا اور دوسری زبانوں میں تارخ کو آزر بولا جاتا تھا ، بعض کہتے ہیں کہ آزر حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے باپ کا نام نہیں بلکہ قوم کے بڑے بت کا نام آزر تھا اور بعض کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے والد کا نام تارخ تھا جبکہ آزر آپ علیہ السّلام کے چچا کا نام تھا اور بڑوں کی یہ عادت معروف تھی کہ وہ چچا کو باپ کہہ کر پکارتے تھے ۔ اور یہ آخری بات ہی درست ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا حقیقی باپ نہیں بلکہ چچا تھا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث پاک سے ثابت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نور پاک لوگوں کی پشتوں سے پاک عورتوں کے رحموں کی طرف مُنْتقل ہوا اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چونکہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آباؤ اَجداد سے ہیں اس لئے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حقیقی والد کفرو شرک کی نجاست سے آلودہ کیسے ہو سکتے ہیں ، چنانچہ علامہ شہاب الدین محمود آلوسی بغدادی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ علمائے اہلسنّت میں سے ایک جَمِّ غفیر کی رائے یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا والد نہ تھا کیوں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آباؤ اجداد میں کوئی کافر نہ تھا ، جیسا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان ہے کہ’’ میں ابتداہی سے آخر تک پاک لوگوں کی پشتوں سے پاک خواتین کے رحموں میں مُنْتقل ہوتا چلا آیا ہوں جبکہ مشرک تونَجَس ہیں ۔ اورامام رازی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ کایہ کہنا کہ یہ شیعہ کا مذہب ہے درست نہیں ۔ امام رازی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ نے اچھی طرح چھان بین نہیں کی اس لیے ان سے یہ غلطی ہوگئی ۔ علمائے اہلسنّت کی اکثریت کا قول یہ ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا کا نام ہے اور ’’اَبْ‘‘ کا لفظ چچا کے معنی میں عام استعمال ہوتا ہے ۔ (روح المعانی، الانعام الآیۃ: ۷۴، ۴/۲۵۳،چشتی)

علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَلَیْہ فرماتے ہیں : قاموس میں ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا کا نام ہے ۔ امام علامہ جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ نے ’’مَسَالِکُ الْحُنَفَاءُ‘‘ میں بھی ایسا ہی لکھا ہے ۔ چچا کو باپ کہنا تمام ممالک میں معمول ہے بالخصوص عرب میں ، قرآنِ کریم میں ہے (جیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے) ’’نَعْبُدُ اِلٰہَکَ وَ اِلٰـہَ اٰبَآئِکَ اِبْرٰہٖمَ وَ اِسْمٰعِیۡلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰـہًا وَّاحِدًا‘‘ اس میں حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوحضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آباء میں ذکر کیا گیا ہے باوجودیکہ آپ عَم (یعنی چچا) ہیں ۔ حدیث شریف میں بھی حضرت سیّدِ عالَم صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہ وَسَلَّمَ نے حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کواَبْ (یعنی باپ) فرمایا ، چنانچہ ارشاد کیا ’’رُدُّوْاعَلَیَّ اَبِیْ ‘‘ اور یہاں اَبِیْ سے حضرت عباس (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ) مراد ہیں ۔ (تفسیر خزائن العرفان الانعام الآیۃ: ۷۴، صفحہ ۲۶۱)

حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد محترم کا نام حضرت تارخ علیہ السلام تھا ۔ (البداية والنهاية، جلد اول، ص 141)،(السيرة النبوية، ص 9)

لہٰذا ثابت ہوا کہ آیت میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باپ (آزر) سے ان کا چچا مراد ہے حقیقی والد مراد نہیں ہیں ۔

حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد کا مسلمان ہونا

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ربنا اغفرلی ولوالدی واللمؤمنین یوم یقوم الحساب ۔
ترجمہ : (حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی) اے میرے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور سب مسلمانوں کو جس دن حساب ہوگا ۔ (سورہ ابراہیم ،پارہ ۴،آیت نمبر ۱۳)

اہلسنّت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد تارخ مومن ، مؤحد اور جنّتی تھے آزر بُت پرست آپ کا چچا تھا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اپنے والد کی مغفرت کے لئے دعا کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ مسلمان تھے کیونکہ کافر کے لئے مغفرت کی دعا نہیں کی جاتی ۔

وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰہِیۡمُ لِاَبِیۡہِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِہَۃً ۚ اِنِّیۡۤ اَرٰىکَ وَقَوْمَکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۔
ترجمہ : اور یاد کرو جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کیا تم بتوں کو خدا بناتے ہو بیشک میں تمہیں اور تمہاری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں ۔

یہاں آیت میں آزر کیلئے ’’اَبْ‘‘ کا لفظ ذکر کیا گیا ہے ۔ اس کا ایک معنی ہے ’’باپ‘‘ اور دوسرا معنی ہے ’’چچا‘‘ اور یہاں اس سے مراد چچا ہے ، جیسا کہ قاموس میں ہے : آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا کا نام ہے ۔ (القاموس المحیط، باب الرائ، فصل الہمزۃ، ۱/۴۹۱، تحت اللفظ: الازر،چشتی)

امام جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ نے ’’مَسَالِکُ الْحُنَفَاء ‘‘ میں بھی ایسا ہی لکھا ہے ۔ نیزچچا کو باپ کہنا تمام ممالک میں معمول ہے بالخصوص عرب میں اور قرآن و حدیث میں بھی چچا کو باپ کہنے کی مثالیں موجود ہیں ، جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے نَعْبُدُ اِلٰہَکَ وَ اِلٰـہَ اٰبَآئِکَ اِبْرٰہٖمَ وَ اِسْمٰعِیۡلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰـہًا وّٰحِدًا‘‘ ۔ (سورہ بقرہ آیت نمبر 133)
ترجمہ : ہم آپ کے معبود اور آپ کے آباؤ و اجداد ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے جو ایک معبود ہے ۔

اس میں حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آباء میں ذکر کیا گیا ہے حالانکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا ہیں ۔ اور حدیث شریف میں ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ رُدُّوْاعَلَیَّ اَبِیْ‘‘ میرے باپ کو میرے پاس لوٹا دو ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب المغازی، حدیث فتح مکۃ، ۸/۵۳۰، الحدیث:۳،چشتی) ۔ یہاں ’’اَبِی ْ‘‘ سے حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مراد ہیں جو کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے چچا ہیں ۔

علامہ نیشاپوری ‘ علامہ سیوطی اور علامہ آلوسی علیہم الرّحمہ کی تحقیق یہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے آباء کرام مومن تھے اور ہمارے نبی کریم سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلہ نسب میں تمام آباء اور امہات مومن تھے ۔

اب ہم وہ روایات ذکر کرتے ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد کا نام تارخ تھا اور آزر آپ کا چچا تھا ‘ اور عرب محاورات میں چچا پر باپ کا اطلاق ہوتا رہتا ہے ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا باپ تارخ تھا نہ کہ آزر ۔

امام ابو اسحاق زجاج متوفی ٣١١ ھ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : نسب بیان کرنے والوں کے درمیان اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد کا نام تارخ تھا ۔ (معانی القرآن واعرابہ للزجاج جلد ٢‘ صفحہ ٢٦٥)

امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ مجاہد نے کہا کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باپ کا نام نہیں ہے ‘ وہ بت کا نام ہے ۔ (جامع البیان ‘ جز ٧ ص ٣١٦‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ١٤١٥ ھ)

امام ابو عبدالرحمن بن ادریس رازی بن حاتم متوفی ٣٢٧ ھ رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : ضحاک حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کرتے ہیں ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باپ کا نام آزر نہیں تھا ‘ ان کے باپ کا نام تارخ تھا ۔ مجاہد بیان کرتے ہیں کہ آزر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ نہیں تھا ۔ ضحاک بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آزر سے کہا کیا تم اللہ کو چھوڑ کر بتوں سے مدد مانگتے ہو ایسا نہ کرو اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے تھے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد کا نام آزر نہیں تھا ‘ ان کے باپ کا نام تارخ تھا ۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم ‘ ج ٤‘ ص ١٣٢٥‘ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٧ ھ)

خاتم الحفاظ حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : امام ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو الشیخ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ آزر بت ہے اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا باپ نہیں ہے ‘ وہ ابراہیم بن تارخ بن ناحور بن شاروغ بن عابر بن فالع ہیں۔
قرآن مجید میں آزر کے اوپر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اب (باپ) کا اطلاق کیا گیا ہے ۔ اس کی یہ توجیہ کی گئی ہے کہ عرب میں ” اب “ کا اطلاق عم پر بہ کثرت کیا جاتا ہے ‘ اگرچہ یہ مجاز ہے ۔ قرآن مجید میں ہے ؛ (آیت) ” ام کنتم شھدآء اذ حضر یعقوب الموت اذ قال لبینہ ماتعبدون من بعدی قالوا نعبد الھک والہ ابائک ابرھیم واسمعیل واسحق “۔ (سورۃُ البقرہ : ١٣٣)
ترجمہ : کیا تم (اس وقت) حاضر تھے جب یعقوب کو موت آئی جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے فرمایا تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے ‘ انہوں نے کہا ہم آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیم ‘ اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے ۔
اس آیت میں حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر باپ کا اطلاق کیا گیا ہے ‘ حالانکہ وہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باپ نہیں ‘ بلکہ چچا ہیں اور امام ابو العالیہ نے اس آیت کی تفسیر میں کہا کہ اس آیت میں چچا پر باپ کا اطلاق کیا گیا ہے اور انہوں نے محمد بن کعب قرظی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ ماموں والد ہے اور چچا والد ہے اور اس آیت کی تلاوت کی ۔ (الحاوی للفتاوی ‘ ج ٢‘ ص ٢١٤‘ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ لائل پور ‘ پاکستان،چشتی)

حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے والد کے مومن ہونے پر دلیل

امام ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں سند صحیح کے ساتھ حضرت سلیمان بن صرد سے روایت کیا ہے کہ جب کفار نے حضرت ابرہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آگ میں ڈالنے کا ارادہ کیا وہ لکڑیاں جمع کرنے لگے ‘ حتی کہ ایک بوڑھی عورت بھی لکڑیاں جمع کرنے لگی ۔ جب وہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آگ میں ڈالنے لگے تو آپ نے کہا (آیت) ”۔ حسبی اللہ ونعم الوکیل “۔ اور جب انہوں نے آپ کو آگ میں ڈال دیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ (آیت) ” ینار کونی برداوسلاما علی ابراھیم “۔ (سورۃُ الانبیاء : ٦٩)
ترجمہ : اے آگ تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چچا نے کہا میری وجہ سے ان سے عذاب دور کیا گیا ہے ‘ تب اللہ تعالیٰ نے آگ کی ایک چنگاری بھیجی جو اس کے پیر پر لگی اور اس کو جلا دیا ۔ اس اثر میں یہ تصریح کی گئی ہے کہ آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا چچا تھا اور اس اثر سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آزر اس وقت میں ہلاک کیا گیا تھا جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آگ میں ڈالا گیا تھا اور اللہ سبحانہ نے قرآن مجید میں یہ خبر دی ہے کہ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ معلوم ہوگیا کہ آزر اللہ کا دشمن ہے تو انہوں نے اس کے لیے استغفار کرنا ترک کر گیا ‘ اور احادیث میں آیا ہے کہ جب وہ حالت شرک میں مرگیا تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دشمن خدا ہونا معلوم ہوگیا اور انہوں نے پھر اس کے لیے استغفار نہیں کیا ۔

امام ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے (عرفی) باپ کے لیے مسلسل استغفار کرتے رہے اور جب وہ مرگیا تو ان کو معلوم ہوگیا کہ یہ اللہ کا دشمن ہے۔ پھر انہوں نے اسکے لیے استغفار نہیں کیا اور انہوں نے محمد بن کعب ‘ قتادہ ‘ مجاہد اور حسن وغیرہم سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس کی حیات میں اس کے ایمان کی امید رکھتے تھے اور جب وہ شرک پر مرگیا تو وہ اس سے بیزار ہوگئے۔ پھر آگ میں ڈالے جانے کے واقعہ کے بعدحضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے شام کی طرف ہجرت کی ‘ جیسا کہ قرآن مجید نے اس کی تصریح کی ہے ‘ پھر ہجرت کے کافی عرصہ بعد وہ مصر میں داخل ہوئے اور وہاں حضرت سارہ کے سبب سے ظالم بادشاہ کے ساتھ ان کا واقعہ پیش آیا اور انجام کار حضرت ہاجرہ آپ کی باندی بنادی گئیں اس کے بعد پھر شام کی طرف لوٹ گئے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا اور اس کے بیٹے حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مکہ میں منتقل کردیں اور وہاں آپ نے یہ دعا کی : (آیت) ” ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم ربنا لیقیموا الصلوۃ فاجعل افئدۃ من الناس تھوی الیھم وارزقھم من الثمرات لعلھم یشکرون، ربنا انک تعلم مانخفی وما نعلن وما یخفی علی اللہ من شیء فی الارض ولا فی السماء، الحمد للہ الذی وھب لی علی الکبر اسمعیل واسحق ان ربی لسمیع الدعآء، رب اجعلنی مقیم الصلوۃ ومن ذریتی ربنا وتقبل دعاء، ربنا اغفرلی ولوالدی وللمؤمنین یوم یقوم الحساب ، (سورہ ابراہیم : ٤١۔ ٣٧)
ترجمہ : اے ہمارے رب ‘ بیشک میں نے اپنی بعض اولاد کو بےآب وگیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس ٹھہرایا ہے ‘ اے ہمارے رب ! تاکہ وہ نماز قائم کریں ‘ سو تم کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور ان کو بعض پھل عطا فرماتا کہ وہ شکر ادا کریں ‘ اے ہمارے رب ! بیشک تو جانتا ہے جس کو ہم چھپاتے ہیں اور جس کو ہم ظاہر کرتے ہیں اور آسمان اور زمین میں سے کوئی چیز اللہ پر مخفی نہیں ہے سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں ‘ جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق عطا فرمائے ‘ بیشک میرا رب ضرور میری دعا سننے والا ہے ‘ اے میرے رب ! مجھے نماز قائم کرنے والا رکھ اور میری اولاد (سے) بھی ‘ اے ہمارے رب ! مجھے اور میرے والدین کو بخش دے اور سب ایمان والوں کو جس دن حساب قائم ہوگا ۔
اس آیت میں یہ تصریح ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے چچا آزر کے فوت ہونے کے طویل عرصہ بعد اپنے والدین کی مغفرت کے لیے دعا کی ۔ اس سے یہ واضح ہوگیا کہ قرآن مجید میں جس شخص کے کفر اور اس سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیزار ہونے کا ذکر ہے وہ ان کے چچا تھے نہ کہ ان کے حقیقی والد ۔
امام محمد بن سعد رحمۃ اللہ علیہ نے الطبقات میں کلبی سے روایت کیا ہے کہ جس وقت حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بابل سے شام کی طرف ہجرت کی تو ان کی عمر سینتیس (37) سال تھی ‘ پھر انہوں نے کچھ عرصہ حران میں قیام کیا ‘ پھر کچھ عرصہ اردن میں قیام کیا پھر وہاں سے مصر چلے گئے اور کچھ عرصہ وہاں قیام کیا ‘ پھر وہاں سے شام کی طرف لوٹ گئے اور ایلیا اور فلسطین کے درمیان قیام کیا ۔ پھر وہاں کے لوگوں نے آپ کو ستایا تو آپ رملہ اور ایلیا کے درمیان چلے گئے اور امام ابن سعد رحمۃ اللہ علیہ نے واقدی سے روایت کیا ہے کہ نوے سال کی عمر میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ہاں حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پیدا ہوئے اور ان دونوں اثروں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آگ میں ڈالے جانے والے واقعہ کے بعد جب آپ نے بابل سے ہجرت کی تھی اور مکہ مکرمہ میں جو آپ نے دعا کی تھی انکے درمیان پچاس اور کچھ سال کا عرصہ ہے ۔ (الحاوی للفتاوی ‘ ج ١‘ ص ٢١٥۔ ٢١٤‘ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد،چشتی)

خلاصہ یہ ہے کہ آزر کے مرنے کے پچاس سے زیادہ سال کے بعد حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے والدین کی مغفرت کے لیے دعا کی ہے اور جب کہ آزر سے وہ بیزار ہوچکے تھے اور اس کے لیے دعا کو ترک کرچکے تھے تو اس سے یہ ظاہر ہوا کہ آزر اور شخص تھا اور ان کے والد اور شخص تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے ان کے چچا آزر کو اب (عرفی باپ) کے لفظ سے تعبیر کیا ہے اور ان کے حقیقی باپ کو والد کے لفظ سے تعبیر کیا ہے ‘ تاکہ تغییر عنوان تغییر معنون پر دلالت کرے ۔ ہم نے علامہ سیوطی کے جس استدلال کو تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے ‘ علامہ آلوسی نے بھی اس کا خلاصہ ذکر کیا ہے ۔ (تفسیر روح المعانی ‘ جز ٧‘ ص ١٩٥‘ طبع بیروت) ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

فلسفۂ قربانی اور بے دینوں کے اعتراضات کا جواب

0 comments
فلسفۂ قربانی اور بے دینوں کے اعتراضات کا جواب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : قربانی بڑا ہی مقدس اور با برکت لفظ ہے ۔ اس میں بڑی وسعت اور گہرائی ہے ۔ اس کا رشتہ انسانی زندگی سے اتنا مضبوط اور گہرا ہے کہ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے ،جتنی کہ انسانی وجود کی تاریخ ۔ اس سے بخوبی یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ ہماری زندگی میں اس کی کتنی بڑی اہمیت ہے ۔ قربانی ہر زمانے میں دنیا کی تمام قوموں کا شعار رہا ، لوگ مختلف زمانوں میں مختلف طریقے اور ڈھنگ سے اس مقدس عبادت پر عمل پیرا رہیں ، اور اسے اپنا وظیفہ زندگی بنایا ۔

حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر قربانی کا جو سلسلہ شروع ہوا تو کبھی منقطع نہیں ہوا، بلکہ یہ سلسلہ صدیوں سے جاری و ساری رہا۔ کتنی تہذیبیں اسی کے دم سے وجود میں آئیں۔ کتنے اہل وفا اس راہ کی خاک چھانتے رہے۔کتنوں نے اس پر اپنی عمریں کاٹ دیں۔ساری عبادتیں ہوتی رہیں، سارے طریقے انجام پاتے رہے، صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اس مقدس عمل کا عالمی ابدی اور ہمہ گیر پیغام دنیا کے سامنے آنا ابھی باقی تھا۔اس کے اسرار اور حقائق سے پردے اب بھی نہ اٹھ سکے۔وقت اس بات کا متقاضی تھا۔رحمت الہی کے جوش میں آنے کا وقت قریب آچکا تھا۔قوموں کی قسمت چمکنے والی تھی۔اتنے عظیم کام کو سرانجام دینے کے لئے ایسے عاشق کی ضرورت تھی جو اس بلند مقصد کو پانے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے آمادہ ہو۔اس کی راہ میں عشق مجازی کے پردے اگر حائل ہوں تو عشق حقیقی کی تپش کے سامنے پگھل جائیں، اور وہ شمع الہی میں اپنی ہستی فنا کر دینے کے لئے بیقرار ہو۔اس عظیم الشان کام کو انجام دینے کے لئے اللہ نے ایسی ہستی کا انتخاب فرمایا جو سب کے نزدیک مسلم بلکہ قابل تقلید تھی جس سے قربانی کا لاثانی پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قربانی کو پانے تکمیل تک پہنچانے کےلیے ایسا انوکھا حیرت انگیز طریقہ اپنایا، جہاں عقل و خرد کی رسائی ممکن نہیں۔ اور دنیا کی تاریخ میں اس کی کوئی سند پیش کرنے سے قاصر تھی۔غور کیجۓ اتنے عظیم نازک جان گسل کام کے لئے محض ایک خواب کا سہارا لیا گیا۔اس میں کمال اظہار بندگی اطاعت و تابعداری تسلیم و رضا عشق حقیقی اور فنائیت کا امتحان تھا۔یہ خلیل الرحمٰن ہی کا دل تھا جس نے ایک اشارہ پاتے ہی اپنی زندگی کے بیش قیمت سرمایہ کو قربان کرنے کے لئے دل و جان سے تیار ہو گۓ۔اور اپنے مالک کے حضور اپنا سر تسلیم خم کر دیا۔آپ نے بندگی کی ایسی مثال قائم کردی اور محبت کی ایسی ڈگر کھول دی جہاں تک رسائی کے بغیر عبودیت مکمل نہیں ہو سکتی۔ عبودیت کی یہی معراج ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس عمل کو رہتی دنیا تک کے لیے جاری فرمادیاارشاد ہوتا ہے۔"فلما اسلما و تلہ للجبین نادینہ ان یا ابراھیم قد صدقت الرءیا اناکذالک نجزی المحسنین ان ھذا لھو البلو المبین و فدینہ بذبح عظیم وترکنا علیہ فی الآخرین سلام علی ابراھیم۔"دوسرے موقع پر ارشاد باری تعالیٰ ہے"قد کان لکم اسوۃ حسنۃ فی ابراھیم والذین معہ"۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی تمہارے لیے سب سے اچھا اسوہ ہے ۔ (چشتی)

اللہ کا کرم اور نوازشات دیکھیے ، اس عمل کو ہمارے لئے کس قدر آسان بنا دیا کہ اس کی جگہ جانور کو قربان کرنے کا حکم دیا۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ کوئی عمل اللہ کو پسند نہیں۔قربانی کا یہ عمل قیامت کے دن اپنی سینگوں بالوں اور گھروں کے ساتھ سامنے آۓ گا۔قربانی کا خون زمین پر گر نے سے پہلے ہی اللہ کی بارگاہ میں قبولیت پا لیتا ہے ۔قربانی ہی ایک ایسا عمل جو پورا کا پورا جیتی جاگتی تصویر کی شکل میں پیش کیا گیا ، کوئی بھی چیز پردے کے پیچھے نہیں چھوڑی ۔ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ ساری عبادات کی روح اور اس کا فلسفہ قربانی ہے ۔

قربانی دراصل اس تجدیدِ عہد کا نام ہے جس کی طرف قرآن مجید نے یوں ارشاد فرمایا کہ ایک بندہ مومن اللہ رب العزت کی بارگاہ میں یوں ملتمس ہوتا ہے: ’’بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی سمیت سب بندگی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔ (سورہ الانعام 162) ۔ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو تسلیم و رضا ، ایثار اور قربانی کا وہ راستہ دکھایا ہے جوایمانی ، روحانی ، معاشی ، معاشرتی سماجی اور اخروی حوالے سے نفع آفرین ہے۔ عید الاضحی آتی ہے تو دنیا بھر میں اہل اِسلام حضرت ابراہیم علیہ السلام ،ان کے نور نظر حضرت اسماعیل علیہ السلام اور سیدہ ہاجرہ سلام اللہ علیہا کے عظیم جذبہ ایثار وقربانی کی یاد مناتے ہیں۔ اس گھرانے کے ہر فرد نے عملی طور پر ایثار کے پیکر میں ڈھل کرحکم ربانی کے سامنے سر جھکایا ۔ اپنے انسانی جذبات کو اللہ کے حکم کی تعمیل میں رکاوٹ نہیں بننے دیا اور قیامت تک آنے والے مسلمانوں کےلیے ایک مینارہ نور قائم کیا جو ہر سال مسلمانوں کو جھنجوڑ کر یہ کہتا ہے : دیکھو کہیں فانی دنیا کی فانی راحتوں میں گم نہ ہو جانا بلکہ اپنے رب کی رضا پر سب کچھ لٹا دینا ، اسی صورت دونوں جہاں کی رحمتوں کو حاصل کرلو گے ۔ یہ بات شعوری طور پر سمجھنے اور سمجھانے کی ہے کہ قربانی کا مقصد فقط ایک رسم ادا کرنا نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک سہ روزہ تربیتی ورکشاپ ہے جو ہمیں ہر سال تسلیم و رضا ، ایثار اور قربانی کے ان جذبات سے آشنا کرواتی ہے جو ایمان کی معراج ہیں ۔ آدابِ فرزندی سے سرشار عظیم باپ کے عظیم بیٹے نے اپنی گردن کسی تردد کے بغیر اللہ تعالی کے حکم کی تنفیذ کےلیے پیش کر دی ۔ ایک ماں نے برسوں کی دعاٶں ، التجاٶں اور مناجاتوں کے بعد حاصل ہونے والے اپنے نور ِ نظر کو بلند حوصلے کے ساتھ اللہ تعالی کی بارگاہ میں پیش کر دیا ۔ ایک عظیم باپ نے کسی تردد کے بغیر پدری جذبات کو اللہ تعالی کے حکم پر قربان کرتے ہوئے تسلیم و رضا کی بلند ترین حدوں کو چھو لیا اور عملی طور پر اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی کوشش فرمائی ۔ اللہ تعالی نے اپنے خلیل کو اپنے خاص لطف و کرم سے نوازنے کےلیے جس امتحان میں ڈالا تھا اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی نہیں ان کا پورا گھرانا ہی اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہو گیا ۔ قیامت تک حج کی سعادت پانے والے دنیا بھر کے مسلمان منی میں قربانی پیش کرتے ہوئے اس قربانی کی یاد مناتے رہیں گے ۔ عید الاضحی دلوں میں ایثار اور تسلیم و رضا کے چراغ جلاتی رہے گی ۔ جس رب نے ہمیں قربانی کا حکم دیا ہے وہ جانوروں کی نسل کی بقا کا علم بھی رکھتا ہے اور اپنے بندوں کی فلاح و بہبود کو بھی خوب جانتا ہے ۔ کسی کلمہ گو کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ قربانی کے حوالے سے اپنے محدود اور تاریک ذہن کے خیالات کو خدمتِ خلق کے تناظر میں زیادہ نفع آفرین گمان کرے ۔ ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم یاد تو اس عظیم قربانی کی منائیں مگر عملی طور ایثار کے راستے پر نہ چلیں ۔ ہمارا یہ طرز عمل نہیں ہونا چاہیے کہ فقط جانور ذبح کر دیں بلکہ قربانی کو وسیع تناظر میں دیکھتے ہوئے ہمیں قربانی کا درس سارا سال پیش نظر رکھنا چاہیے تاکہ ہم اللہ تعالی کی رضا حاصل کر سکیں ۔ اگر اللہ تعالی نے ہمیں اعلیٰ منصب عطا فرمایا ہے تو وہ منصب اقربا پروری اور ناجائز منفعت حاصل کرنے پر صرف نہ کریں بلکہ اللہ تعالی کی مخلوق کو راحت پہچانے میں صرف کریں ۔ نیز خلقِ خدا کی راحت کو اپنی خواہشات پر ترجیح دیں ۔ اپنی زبان یا قلم سے کسی ضرورت مند کو نفع دے نہیں سکتے ہیں تو اس ضرورت مند کی حسرتوں کا خون نہ نچوڑیں بلکہ اپنے اختیارات اور منصب کے ذریعے اس کے تن بدن میں خوشیاں دوڑا دیں ۔ عید الاضحیٰ اور انسانی خواہشات کی قربانی کے حوالے سے ذہن میں رکھنے والی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم قربانی کے جانور کا گلا توکاٹ دیتے ہیں مگر ہم اپنی خواہشات کے گلے پر چھری پھیرنا تو دور کی بات ہے چھری رکھنا بھی گوارا نہیں کرتے ۔ عید الاضحیٰ آکر چلی جاتی ہے مگر ہمارے قلوب و اذہان قربانی کے جذبوں سے خالی کے خالی ہوتے ہیں ۔ ہم قربانی کے عمدہ جانور خریدتے ہیں تو دکھاوے کی دلدل میں الجھ جاتے ہیں یا ان ناداروں کی دل آزاری کا سبب بن جاتے ہیں جو نہ توقربانی کےلیے کوئی سستا سا جانور خرید سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی صاحب ثروت انسان انہیں قربانی کے گوشت میں سے ان کا اچھا حصہ دیتا ہے ۔ اس پوری تفصیل سے اس امرکی نشاندہی ہوتی ہے کہ عیدالاضحیٰ پر جانوروں کی قربانی پیش کیے جانے کے پس منظرمیں ایک مکمل فلسفہ ہے اوراسی فلسفے کے تحت یہ ایک مستقل واجب ، عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے ۔عیدالاضحیٰ یا عید قربان کے تین دنوں میں جانور وں کی قربانی کر دینے سے بہتر کوئی عمل ایسا نہیں جو ابنِ آدم اللہ کی بارگاہ میں پیش کرسکے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ منورہ کے 10سالہ قیام میں ہر سال قربانی فرمائی ۔ اس ساری بحث کا لب لباب یہ ہے کہ ہر عمل کے اپنے مخصوص ثمرات اور فیوض و برکات ہوتے ہیں جو قرب الہی کا ذریعہ بنتے ہیں مگر عید قربان میں قربانی کے عمل کو کیوں اللہ کے انتہائی قرب کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے ؟ قربانی کا یہ عمل صرف جانور کو ذبح کرنے تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ گہرے اور دور رس اثرات (Implications) رکھتا ہے ۔ جانور کے ذبح کرنے کے عمل کو قربانی سے اس لیے موسوم کیا گیا ہے کہ یہ عمل بندے کو اللہ کے انتہائی قریب کر دیتا ہے ۔ لیکن اس میں قربانی کرنے والے بندے کا اخلاص ایک سوالیہ نشان کے طور پر سامنے آتا ہے ۔ کیا وہ قربانی جو بندہ پیش کر رہا ہے اس سے اللہ کی بارگاہ سے مطلوبہ نتائج حاصل ہوئے ہیں ؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو اس کا عمل ’’قربانی‘‘ اس کے لیے اللہ سے انتہائی قرب کا سبب قرار دیا جائے گا ۔ گویا قربانی کی روح حقیقت میں اس قربانی کے پیچھے کار فرما ’’اخلاص‘‘ ہے ۔

اسلام کا فارسی میں ترجمہ ہے ، گردن نہادن ، اردو میں گردن جھکانا ، خم کرنا ، جب گردن جھکانے کا محرک اطاعت و فرمانبرداری کے جذبات ہوں تو اُسے اردو میں تسلیم خم بھی کہا جاتا ہے ۔ اطاعت و فرمانبرداری کے جذبہ سے گردن جھکانے والے کو مسلم کہتے ہیں ، اسی سے مسلم یا مسلمان اصطلاح سمجھ میں آتی ہے کہ مسلمان یا مسلم احکام الٰہی کے سامنے تسلیم خم کرنے یا گردن جھکانے والے کو کہتے ہیں ۔ مسلمان کا جذبۂ ایمانی ہمیشہ اُسے تیار رکھتا ہے کہ جو بھی حکم الٰہی جب اور جیسے اس کی طرف متوجہ ہو ، اُسے بجا لایا جائے ، وہ اُسے بلاچوں و چرا قبول کرلیتے ہیں ، لیکن بعض کج رو ، کج فہم اور کوتاہ نظر اپنے مقامِ حقارت سے اوپر اچھل اچھل کر اللہ تعالیٰ کے بعض احکام کو اپنی ناقص عقل کی گھسی پٹی کسوٹی پر پرکھ کر قبول یا رد کرنے کی ناروا جسارت کرنے لگتے ہیں اور ایسے لوگ جب ابلاغی ذرائع کا حصہ ہوں یا ذرائع ابلاغ تک ان کی رسائی میں کوئی مشکل نہ ہو تو وہ اسلامی احکام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے اور اپنی کج فہمی کے مسموم جراثیم مسلمانوں کے درمیان عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، ایسے ہی اسلامی احکام میں اہم پُرحکمت حکم ‘ قربانی کا حکم بھی ہے جو امت مسلمہ ‘ سالانہ بجالاتی ہے اور بھرپور جذبۂ ایمانی سے ادائیگی کا اہتمام کرتی ہے ، مگر ایک عرصہ سے بعض نادان اس سنت ابراہیمی سے متعلق اپنے فاسد خیالات کو عام کرنے کی کوشش کررہے ہیں ، اس لیے ماہ ذوالحجہ کی مناسبت سے مناسب معلوم ہوا کہ قربانی سے متعلق ایسے بے دینوں کے سطحی شکوک و شبہات کا علمی جائزہ لیا جائے ، آئندہ سطور میں یہی کوشش کی جارہی ہے ۔ ہر جدید تہذیب و تمدن کا دلدادہ اور مغربیت سے متأثر ذہنیت رکھنے والا اس ماہِ مبارک کے شروع ہوتے ہی سادہ لوح اور مذہب پسند مسلمانوں کا ذہن خراب کرنا شروع کر دیتا ہے کہ قربانی کی وجہ سے جانوروں کی نسل کشی ہوتی ہے ، لاکھوں لوگوں کی یہ رقمیں بلا وجہ ضائع ہوتی ہیں ، اس کے بجائے اگر اتنا مال رفاہِ عامہ کے مفید کاموں ، ہسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح و بہبود کےلیے خرچ کیا جائے ، تو معاشرے کے بہت بڑے غریب اور مفلس طبقے کا بھلا ہو جائے گا ، یہ افراد بھی زندگی کی ضروری سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکیں گے ، وغیرہ وغیرہ ، اس طرح منکرینِ قربانی اپنی عقلِ نارسا سے کام لیتے ہوئے بزعمِ خود قربانی کے نقصانات اور ترکِ قربانی کے فوائد بیان کرتے نظر آتے ہیں اور اس کی وجہ سے عام مسلمان ان نام نہاد دانشوروں کے زہریلے پروپیگنڈے اور بہکاوے میں آ کر اسلام کے اس عظیم الشان حکم کو ترک کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ان دنوں (دس ذو الحجہ) میں دائمی عمل اس صورتِ حال میں سب سے پہلے تو غور کرنے کی یہ بات ہے کہ عید الاضحیٰ کے اس خاص موقع پر اگر قربانی کرنے کی بنسبت انسانیت کی فلاح و بہبود میں مال خرچ کرنا اتنا ہی افضل ، موزوں و مناسب یا ضروری ہوتا توجناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں اہلِ ثروت اور صاحبِ نصاب مسلمانوں پر قربانی کے حکم کے بجائے غریب ، سسکتی اور بد حال انسانیت پر مال خرچ کرنا ضروری قرار دیا جاتا، جب کہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہر دور میں غریب اور نادار طبقہ موجود رہا ہے ، تو یقیناً آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مبارک دور میں بھی یہ طبقہ موجود تھا ، بلکہ ایسے افراد تو بکثرت موجود تھے ، لیکن رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (جو اپنی امت کےلیے بہت ہی زیادہ شفیق اور مہربان تھے) نے اپنے زمانہ کے اہلِ ثروت اور صاحبِ نصاب مسلمانوں کو اس (عید الاضحی کے ) موقع پر یہ حکم نہیں دیا کہ وہ اپنا مال رفاہِ عامہ کے مفید کاموں ، ہسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح و بہبود کےلیے خرچ کریں ، بلکہ یہ حکم فرمایا کہ اس موقع پر اللہ کے حضور جانور کی قربانی پیش کریں ۔ اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دائمی عمل ان دنوں میں قربانی کرنے کا ہی تھا ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ میں دس سال قیام فرمایا (اس قیام کے دوران) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قربانی کرتے رہے : عن ابن عمر قال : أقام رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بالمدینۃ عشر سنین یضحی ۔ (سنن الترمذی، الأضاحی، باب الدلیل علی أن الأضحیۃ سنۃ، رقم الحدیث: ۱۵۰۷،چشتی)

اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس عظیم حکم کو ہمیشہ قائم و دائم رکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی کرنا ہی افضل ، اولیٰ اور ضروری ہے ۔ ایامِ قربانی میں قربانی افضل ہے یا نقد صدقہ ؟ امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : قربانی کے ایام میں بنسبت صدقہ کرنے کے قربانی کرنا افضل ہے ۔ امام ابو داؤد ، امام ربیعہ اور ابو الزناد رحمہم اللہ علیہم وغیرہ کا یہی مسلک ہے ۔ (المغنی لابن قدامہ: ۱۱/۶۹،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا یہی عمل تھا ۔ اگر ان حضرات کے نزدیک اس سے بہتر کوئی عمل ہوتا تو وہ یقیناً قربانی کی بجائے اسی کو اختیار کرتے ، دوسری بات یہ کہ ایسا ہو بھی کیسے سکتا تھا ، جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا صریح فرمان مبارک موجود ہے کہ : اس دن میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک (قربانی کے جانور کا) خون بہانے سے بڑھ کر بنی آدم کا کوئی عمل پسندیدہ نہیں ہے ۔ عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ’’ما عمل آدمی من عمل یوم النحر أحب إلی اللّٰہ من إھراق الدم ۔ (سنن الترمذی، فضل الأضحیۃ، رقم الحدیث: ۱۴۹۳،چشتی)

اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کسی کام میں مال خرچ کیا جائے تو وہ عید الاضحیٰ کے دن قربانی میں خرچ کیے جانے والے مال سے افضل نہیں ۔ عن ابن عباس قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : ماأنفقت الورق فی شییٔ أفضل من نحیرۃ فی یوم العید ۔(سنن الدارقطنی، کتاب الأشربۃ، باب الصید والذبائح والأطعمۃ، رقم الحدیث: ۴۳،چشتی)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی طرح ذکر کرتے ہیں کہ صحیح احادیثِ مشہورہ کی بنا پر شوافع کے نزدیک ان دنوں میں قربانی کرنا ہی افضل ہے ، نہ کہ صدقہ کرنا، اس لیے کہ اس دن قربانی کرنا شعارِ اسلام ہے ، یہی مسلک سلف صالحین کا ہے۔ (المجموع شرح المہذب: ۸/۴۲۵)

البتہ ! وہ افراد جن پر قربانی کرنا واجب نہیں ہے ، اُن کےلیے یا اُن کی طرف سے قربانی کرنے کی بجائے صدقہ کرنا افضل شمار ہو گا ۔ (البحر الرائق: ۸/۲۰۲)

صاحب مرعاۃ المفاتیح شارح مشکاۃ المصابیح لکھتے ہیں کہ : بعض فقہاء کے نزدیک قربانی واجب ہے اور بعض کے نزدیک سنت مؤکدہ، لیکن بہرصورت اس دن میں قربانی کرنا یعنی: خون بہانا متعین ہے، اس عمل کو چھوڑ کر جانور کی قیمت صدقہ کر دینا کافی نہیں ہو گا، اس لیے کہ صدقہ کرنے میں شعائر اسلام میں سے ایک بہت بڑے شعار کا ترک لازم آتا ہے، چنانچہ! اہل ثروت پر قربانی کرنا ہی لازم ہے۔ ‘‘(مرعاۃ المفاتیح: ۵/۷۳) کیا قربانی سے جانوروں کی نسل کُشی ہوتی ہے؟      ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کا یہ نظام چلا آ رہا ہے کہ انسانوں یا جانوروں کو جس چیز کی ضرورت جتنی زیادہ ہوتی ہے، حق تعالیٰ شانہ اس کی پیدائش اور پیداوار بڑھا دیتے ہیں اور جس چیز کی جتنی ضرورت کم ہوتی ہے تو اس کی پیداوار بھی اتنی ہی کم ہو جاتی ہے، آپ پوری دنیا کا سروے کریں، اچھی طرح جائزہ لیں کہ جن ممالک میں قربانی کے اس عظیم الشان حکم پر عمل کیا جاتا ہے، کیا ان ممالک میں قربانی والے جانور ناپید ہو چکے ہیں یا پہلے سے بھی زیادہ موجود ہیں ؟آپ کبھی اور کہیں سے بھی یہ نہیں سنیں گے کہ دنیا سے حلال جانور ختم ہو گئے ہیں یا اتنے کم ہوگئے ہیں کہ لوگوں کو قربانی کرنے کےلیے جانور ہی میسر نہیں آئے، جبکہ اس کے برخلاف کتے اور بلیوں کو دیکھ لیں، ان کی نسل ممالک میں کتنی ہے؟! حالاںکہ تعجب والی بات یہ ہے کہ کتے اور بلیاں ایک ایک حمل سے چار چار پانچ پانچ بچے جنتے ہیں، لیکن ان کی تعداد حلال جانوروں کے مقابلہ میں بہت کم نظر آتی ہے ۔

قرآن پاک کی آیت : ’’وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْیٍٔ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ‘‘ ۔
اس آیت کے لفظی معنی یہ ہیں کہ تم جو چیز بھی خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اپنے خزانۂ غیب سے تمہیں اس کا بدل دے دیتا ہے ، کبھی دنیا میں اور کبھی آخرت میں اور کبھی دونوں میں ۔ کائناتِ عالَم کی تمام چیزوں میں اس کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ آسمان سے پانی نازل ہوتا ہے ، انسان اور جانور اس کو بے دھڑک خرچ کرتے ہیں ، کھیتوں اور درختوں کو سیراب کرتے ہیں، وہ پانی ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا اس کی جگہ اور نازل ہو جاتا ہے ، اسی طرح زمین سے کنواں کھود کر جو پانی نکالا جاتا ہے ، اس کو جتنا نکال کر خرچ کرتے ہیں اس کی جگہ دوسرا پانی قدرت کی طرف سے جمع ہو جاتا ہے ۔ انسان غذا کھا کر بظاہر ختم کر لیتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسری غذا مہیا کر دیتا ہے ۔ بدن کی نقل و حرکت اور محنت سے جو اجزاء تحلیل ہو جاتے ہیں ، ان کی جگہ دوسرے اجزاء بدل بن جاتے ہیں ۔ غرض انسان دنیا میں جو چیز خرچ کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ کی عام عادت یہ ہے کہ اس کے قائم مقام اس جیسی دوسری چیز دے دیتا ہے ۔ کبھی سزا دینے کےلیے یا کسی دوسری تکوینی مصلحت سے اس کے خلاف ہو جانا اس ضابطۂ الٰہیہ کے منافی نہیں ۔ اس آیت کے اشارہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جو اشیا صرف انسان اور حیوانات کےلیے پیدا فرمائی ہیں ، جب تک وہ خرچ ہوتی رہتی ہیں، ان کا بدل منجانب اللہ پیدا ہوتا رہتا ہے ۔ جس چیز کا خرچ زیادہ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی پیداوار بھی بڑھا دیتا ہے ۔ جانوروں میں بکرے اور گائے کا سب سے زیادہ خرچ ہوتا ہے کہ ان کو ذبح کر کے گوشت کھایا جاتا ہے اور شرعی قربانیوں اور کفارات و جنایات میں ان کو ذبح کیا جاتا ہے ، وہ جتنے زیادہ کام آتے ہیں ، اللہ تعالیٰ اتنی ہی زیادہ اس کی پیداوار بڑھا دیتے ہیں ، جس کا ہر جگہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ بکروں کی تعداد ہر وقت چھری کے نیچے رہنے کے باوجود دنیا میں زیادہ ہے ، کتے بلی کی تعداد اتنی نہیں ، حالانکہ کتے بلی کی نسل بظاہر زیادہ ہونی چاہیے کہ وہ ایک ہی پیٹ سے چار پانچ بچے تک پیدا کرتے ہیں ، گائے بکری زیادہ سے زیادہ دو بچے دیتی ہے ، گائے بکری ہر وقت ذبح ہوتی ہے ، کتے بلی کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا ، مگر پھر بھی یہ مشاہدہ ناقابلِ انکار ہے کہ دنیا میں گائے اور بکروں کی تعداد بنسبت کتے بلی کے زیادہ ہے ۔ جب سے ہندوستان میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگی ہے ، اس وقت سے وہاں گائے کی پیداوارگھٹ گئی ہے ، ورنہ ہر بستی اور ہر گھر گایوں سے بھرا ہوتا جو ذبح نہ ہونے کے سبب بچی رہیں ۔ عرب نے جب سے سواری اور باربرداری میں اونٹوں سے کام لینا کم کر دیا ، وہاں اونٹوں کی پیداوار بھی گھٹ گئی ، اس سے اس ملحدانہ شبہ کا ازالہ ہو گیا ، جو احکامِ قربانی کے مقابلہ میں اقتصادی اور معاشی تنگی کا اندیشہ پیش کر کے کیا جاتا ہے ۔ (ماخوذ تفسیر تبیانُ القرآن سورۃ السبأ) 

رفاہی کاموں کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے ہماری اس بحث کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ رفاہِ عامہ کے مفید کاموں ، ہسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح و بہبود کےلیے غریب و مساکین اور ناداروں پر خرچ نہیں کرنا چاہیے ، بلکہ ہمارا مقصود محض یہ ہے کہ دس ذوالحجہ سے لے کر بارہ ذوالحجہ کی شام تک جس شخص پر قربانی کرنا واجب ہے ، اس کےلیے قربانی چھوڑ کر اس رقم کا صدقہ کرنا جائز نہیں ہے ، ہاں ! جس شخص پر قربانی کرنا واجب نہیں ہے ، اس کےلیے ان دنوں میں یا صاحبِ نصاب لوگوں کے ان دنوں میں قربانی کرنے کے ساتھ ساتھ یا سال کے دیگر ایام میں مالی صدقہ کرنا یقیناً بہت زیادہ ثواب کی چیز ہے ۔ رفاہِ عامہ کے مفید کاموں ، ہسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح و بہبود کےلیے خرچ کرنے کےلیے اسلام نے زکاۃ ، صدقۃ الفطر ، عشر ، کفارات ، نذور ، میراث ، دیگر وجوبی صدقات اور ہدایا وغیرہ کا نظام وضع کیا ہوا ہے ، ان احکامات کو پوری طرح عملی جامہ پہنا کر مطلوبہ نتائج ومقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں ، نہ یہ کہ اسلام کے ایک عظیم الشان حکم کو مسخ کر کے تلبیس سے کام لیا جائے ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ معاشرے میں ہونے والی خرافات پر تفصیلی نظر ڈالی جائے ، طرح طرح کی مروج رسومات میں ضائع ہونے والے اربوں وکھربوں کی مالیت کے روپے کو کنٹرول کیا جائے ، نہ کہ ایک فریضے میں صرف کرنے والوں لوگوں کو بھی بہکا کر اس سے روک دیا جائے ۔

منکرینِ قربانی نے اپنی عقلِ نارسا سے کام لیتے ہوئے بزعمِ خود قربانی کے مضرات اور نقصانات اور ترکِ قربانی کے فوائد بیان کیے ہیں، مثلاً : یہ کہا ہے کہ قربانی کی وجہ سے جانوروں کی نسل کُشی ہوتی ہے اور لوگوں کی رقمیں بلاوجہ ضائع ہوتی ہیں ، اگر یہ رقوم رفاہِ عامہ کے کسی مفید کام میں صَرف کی جائیں تو کیا ہی اچھا ہو ، وغیرہ وغیرہ ، مگر یہ نادان یہ نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو (جو حکیم علی الاطلاق ہے اور اس کا کوئی حکم عقل کے خلاف اور خالی از حکمت نہیں ہوتا) محض ان طفل تسلیوں سے کیوں کر رد کیا جا سکتا ہے ؟ کیا اس کو قربانی کا حکم دیتے وقت یہ معلوم نہ تھا کہ قربانی سے جانوروں کی نسل کشی ہوتی ہے اور اس کے یہ نقصانات ہیں ؟ رب تعالیٰ کے صریح احکام میں معاذ اللہ کیڑے نکالنا کون سا ایمان ہے ؟ اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحیح اور صریح قولی فعل اور اُمتِ مسلمہ کے عمل کو جو تواتر سے ثابت ہوا ہے ، خلاف ِ عقل یا مضر بتانا کون سا دین ہے ؟ 

بعض لوگ روحانیت سے غافل ہو کر یہ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ قوم کا اتنا روپیہ جو تین دن میں جانوروں کے ذبح پر ہر سال خرچ ہو جاتا ہے اور اس کا خاطر خواہ مفاد نظر نہیں آتا ، اگر یہی پیسہ رفاہی اور قومی مفادات پر لگایا جائے تو بہت فائدہ ہو ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ قربانی کرنا اللہ تعالیٰ کا حکم اور اہم عبادت ہے ، جیسے : حج کرنا ، زکواۃ دینا ، اور دوسری عبادات ۔ تو کیا ان عبادات کے بارے میں بھی یہی کہا جائے گا کہ یہ فضول خرچی اور مال کو بے جا خرچ کرنا ہے ؟ اس طرح تو دین کا بہت بڑاحصہ اور بہت سے دینی احکام ہی کا اسلام سے تعلق ختم ہو جاتا ہے ۔ پس جب شریعت میں قربانی کا حکم ہے تو اسے عقلی اعتراضوں اور ذہنی ڈھکوسلوں کا شکار بنانا کسی طرح درست نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ دنیا میں ہونے والی دوسری اور اصل فضول خرچیاں (جن کا شریعت نے حکم بھی نہیں دیا) ان لوگوں کو نظر نہیں آتیں ، جبکہ اصل میں تو ان کے ختم کرنے اور مٹانے کی ضرورت ہے ، ملک کی کتنی بڑی تعداد ایسی ہے جو سگریٹ نوشی ، منشیات ، کرکٹ ، ہاکی اور دوسرے کھیل ، جوئے بازی ، گھوڑ دوڑ ، ناچ گانا ، فحش پروگرام ، انٹرنیٹ ، ٹی وی ، کیبل ، وی سی آر ، سینما ، فضول تصویر سازی اور مووی بازی اور دوسرے فحش میڈیائی پروگرام ، فحش اخبار و رسائل اور دیگر ناول اور ڈائجسٹ ، بسنت ، عید کارڈ ، شادی کارڈ ، گانوں اور دیگر غلط پروگراموں کی آڈیو و ویڈیو کیسٹیں اور سی ڈیز ، ویڈیو گیمز ، آتش بازی ، شادی بیاہ ، مرگ و موت اور غمی خوشی کی رسومات ، مختلف فیشن ، غیر شرعی بیوٹی پارلر وغیرہ کی زد میں ہے ، جن کو چھوڑے اور توبہ کیے بغیر دنیا وآخرت کی فلاح اور کامیابی ملنا مشکل ہے اور یہی پیسہ اگر قومی اور رفاہی مفادات پر خرچ کیا جائے تو بہت جلد ترقی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ 

منکرین اور ملحدین کی طرف سے ایک اعتراض یہ بھی سامنے آتا ہے کہ زندہ جانوروں کے گلے پر چھری پھیر دینا بھی عقلِ سلیم کے خلاف ہے ، یہ فعل مسلمانوں کی بے رحمی پر دلالت کرتا ہے ، ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ شریعتِ اسلامیہ سے زیادہ رحم کسی مذہب میں بھی نہیں ہے ، اور ذبحِ حیوان رحم کے خلاف نہیں ، بلکہ ان کے حق میں اپنی موت مرنے سے مذبوح ہو کر مرنا بہتر ہے ، کیوں کہ خود مرنے میں قتل و ذبح کی موت سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے ۔ رہا یہ سوال کہ پھر انسان کو ذبح کر دیا جایا کرے ، تا کہ آسانی سے مر جایا کرے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حالتِ یأس سے پہلے ذبح کرنا تو دیدہ دانستہ قتل کرنا ہے اور حالتِ یأس پتہ نہیں چل سکتی ، کیونکہ بعض لوگ ایسی بھی دیکھے گئے ہیں کہ مرنے کے قریب ہو گئے تھے ، پھر اچھے ہو گئے ۔ اور شبہ حیوانات میں کیا جائے کہ ان کی تو یأس کا بھی انتظار نہیں کیا جاتا ۔ جواب یہ ہے کہ بہائم اور انسان میں فرق ہے ، وہ یہ کہ انسان کا تو اِبقاء (باقی رکھنا) مقصود ہے ، کیونکہ خلقِ عالم سے وہی مقصود ہے ، اس لیے ملائکہ کے موجود ہوتے ہوئے اس کو پیدا کیا گیا ، بلکہ تمام مخلوق کے موجود ہونے کے بعد اس کو پیدا کیا گیا ، کیونکہ نتیجہ اور مقصود تمام مقدمات کے بعد موجود ہوا کرتا ہے ، اس لیے انسان کے قتل اور ذبح کی اجازت نہیں دی گئی ، ورنہ بہت سے لوگ ایسی حالت میں ذبح کر دیے جائیں گے ، جس کے بعد ان کے تندرست ہونے کی امید تھی اور ذبح کرنے والوں کے نزدیک وہ یأس کی حالت میں تھا ۔ اور جانور کا اِبقاء مقصود نہیں ، اس لیے اس کے ذبح کی جازت اس بنا پر دے دی گئی کہ ذبح ہو جانے میں ان کو راحت ہے اور ذبح ہو جانے کے بعدان کا گوشت وغیرہ بقائے انسانی میں مفید ہے ، جس کا اِبقاء مقصود ہے ، اس کو اگر ذبح نہ کیا جائے اور یونہی مرنے کےلیے چھوڑ دیا جائے تو وہ مردہ ہو کر اس کے گوشت میں سمّیت کا اثر پھیل جائے گا اور اس کا استعمال انسان کی صحت کےلیے مضر ہو گا ، تو اِبقاءِ انسان کا وسیلہ نہ بنے گا اور قصاص ، جہاد میں چونکہ افناءِ بعض افراد بغرضِ اِبقاء جمیع الناس متیقن ہے ، اس لیے وہاں قتل انسانی کی اجازت دی گئی ، مگر ساتھ ہی اس کی رعایت کی گئی کہ حتیٰ الامکان سہولت کی صورت سے مارا جائے ، یعنی : قصاص میں جو کہ قتلِ اختیاری ہے ، تلوار سے ۔اور جہاد میں مثلہ وغیرہ کی ممانعت ہے ۔

اگر قربانی کی حقیقت پر نظر ہو تو بھی یہ وسوسہ پیدا نہیں ہو سکتا ، قربانی تو یادگار ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اپنا بیٹا ذبح کرو ، حالانکہ ! دوسری طرف خود قرآن کا اعلان ہے کہ قتل کی سزا ہمیشہ کےلیے جہنم میں رہنا ہے ، نیز ! بچوں کو تو جہاد کی حالت میں بھی قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے ، الغرض عقل کبھی بچے اور بالخصوص اپنے معصوم بچے کے قتل کو تسلیم نہیں کر سکتی ، لیکن قربان جائیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر کہ انہوں نے اللہ سے یہ نہیں پوچھا کہ اے اللہ ! جو بچہ مجھے برسہا برس دعائیں مانگنے کے بعد ملا ، آخر اس کا قصور کیا ہے ؟ ! اور اگر قصور ہے بھی تو اس کو مارنے سے کیا حاصل ہو گا ؟ ! نہیں ، اس لیے کہ جہاں اور جس کام میں اللہ کا حکم آ جاتا ہے وہاں چوں چرا کی گنجائش نہیں رہتی ، چاہے نفع نظر آئے یا نقصان ۔

دوسری طرف قربانی کے جانور پر آنے والے اخراجات کا جائزہ لیجیے آج کے اس مہنگائی کے دور میں بڑے جانور میں حصہ لینے کےلیے پندرہ یا بیس ہزار روپے کافی ہیں اور اگر چھوٹا جانور لینا چاہیں تو تیس سے چالیس ہزار روپے میں کام چل جاتا ہے ۔ اس جائزے کے بعد سوچیے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں حکم ہو کہ تمہیں اختیار ہے کہ تم اپنا بیٹا قربانی کےلیے ذبح کرو ، یا اس کی بجائے (پندرہ سے بیس ہزار روپے کا) جانور ذبح کرو ، تو بتلائیے کہ کون کس کو ترجیح دے گا ؟ یقیناً بیٹے کے ذبح کے مقابلہ میں ہر عقل مند جانور ذبح کرنے کو ترجیح دے گا ۔ اب ایک نظر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی طرف بھی ڈالیے کہ جب ان کو بیٹا ذبح کرنے کا حکم ملا (اور حکم بھی صراحۃً نہیں ملا ، بلکہ خواب میں اشارۃً بتلایا گیا) تو انہوں نے ایک لمحے کےلیے بھی رُک کر یہ نہ پوچھا کہ یا باری عز وجل ! اس میں میرے لیے کیا نفع ہے اور کیا نقصان ؟ ! اور ایک ہم ہیں کہ معمولی سا جانور ذبح کرنے کا حکم دیا گیا اور ہم پوچھتے پھرتے ہیں کہ اس میں میرا کیا نفع ہے ؟ ! اس کے بجائے یہ ہو جائے، وہ ہو جائے، وغیرہ ، تویہ قربانی کی روح کے خلاف ہے ، یہ سوال کرنے والا درحقیقت قربانی کی حقیقت سے ہی ناواقف ہے ، قربانی کے ذریعے تو یہ جذبہ پیدا کرنا مقصود ہے کہ جب اللہ رب العزت کی طرف سے کوئی حکم آ جائے توہم اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے کی بجائے اللہ کے حکم کی پیروی کریں ، اس کے حکم کے سامنے اپنا سرِ تسلیم خم کریں ، اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عمل میں اشارہ کیا ہے کہ ’’فَلَمَّا أَسْلَمَا‘‘ جب انہوں نے سر تسلیم خم کر دیا ۔۔۔۔ إلخ ۔ تو اچھی طرح سمجھ لیناچاہیے کہ قربانی محض رسم یا دل لگی نہیں ہے ، بلکہ اس کے ذریعے ایک ذہنیت دینا مقصود ہے ، جسے فلسفۂِ قربانی کا نام دیا جاتا ہے ، وہ یہی ہے کہ جب اللہ رب العزت کی طرف سے کوئی حکم آ جائے تو ہم اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے کی بجائے اللہ کے حکم کی پیروی کریں ، اس کے حکم کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کریں ۔ سو ضرورت ہے کہ منکرینِ قربانی ، ملحدین اور مستشرقین و کفار کے اس زہریلے پروپیگنڈے کے مقابلے میں اہلِ اسلام پُرزور طریقے سے اس حکم پر عمل پیرا ہوں ، اسی میں اہلِ اسلام کی خیر و بقا کا راز اور دینِ اسلام کی حفاظت مضمر ہے ۔ اللہ عزوجل ہر قسم کے فتنوں سے بچاۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Monday 27 June 2022

ماہِ ذو الحجہ کے فضائل و مسائل حصّہ دوم

0 comments
ماہِ ذو الحجہ کے فضائل و مسائل حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں نیک اعمال کی فضیلت صحیح احادیث مبارکہ سے ثابت ہے ، ان نیک اعمال میں روزہ رکھنا بھی شامل ہے ، چنانچہ بالعموم ان دنوں کے روزوں کی فضیلت حدیث شریف میں وارد ہوئی ہے اور خاص طور پر عرفہ (نو ذی الحجہ) کے دن روزہ رکھنے کی فضیلت الگ سے بیان فرمائی گئی ہے، ذیل میں ان روایات کو ذکر کیا جاتا ہے : ⬇

صحیح بخاری کی روایت ہے : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کوئی دن ایسا نہیں ہے کہ جس میں نیک عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں اِن (ذی الحجہ کے) دس دنوں کے نیک عمل سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہو ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا یہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر ہے ، مگر وہ شخص جو جان اور مال لے کراللہ کے راستے میں نکلے ، پھر ان میں سے کوئی چیز بھی واپس لے کر نہ آئے۔ (سب اللہ کے راستے میں قربان کردے ، اور شہید ہو جائے یہ ان دنوں کے نیک عمل سے بھی بڑھ کر ہے) ۔ (صحيح البخاري ٢/ ٢٠ (٩٦٩)كتاب العيدين/ باب فضل العمل في أيام التشريق،چشتی)

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں : اس حدیث کو عشرہ ذی الحجہ میں روزے رکھنے کی فضیلت کے ثبوت کے لیے بطور دلیل پیش کیا گیا ہے ، کیونکہ نیک اعمال میں روزہ بھی شامل ہے ۔ (فتح الباري لابن حجر: ٢/ ٤٦٠)

صحيح مسلم کی روایت ہے : حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مجھے اللہ تعالی کی ذات سے امید ہے کہ وہ یوم عرفہ کے روزے رکھنے کی صورت میں گزشتہ سال اور اگلے سال کے گناہ بخش دے گا ۔ (صحیح مسلم: رقم الحدیث 1162،چشتی)

شعب الایمان کی روایت ہے : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کوئی دن ایسا نہیں ہے کہ جس میں نیک عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں اِن (ذی الحجہ کے) دس دنوں کے نیک عمل سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہو ، لہذا تم ان ایام میں کثرت سے تہلیل اور تکبیر (لا الہ الااللہ اور اللہ اکبر) پڑھا کرو ، بے شک یہ تہلیل اور تکبیر کے ایام ہیں اور ان دنوں میں ایک دن کے روزے کا ثواب ایک سال روزہ رکھنے کے ثواب برابر ہے اور ان ایام میں نیک عمل کا ثواب سات سو گنا بڑھا دیا جاتا ہے ۔ (شعب الإيمان: 5/ 311) (3481) تخصيص أيام العشر من ذي الحجة بالاجتهاد بالعمل فيهن)

ابن عدی کی "الکامل" میں روایت ہے : حضرت جابر بن عبد الله رضی الله عنه فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے ان دس ایام میں روزہ رکھا ، تو اس کے ہر روزے کے بدلے میں ایک سال کے روزوں کا ثواب لکھا جائے گا ، سوائے عرفہ کے دن کے ، کیوں کہ جس نے عرفہ کے دن کا روزہ رکھا تو اس کےلیے دو سال روزہ رکھنے کا ثواب لکھا جائے گا ۔ (الكامل لابن عدي: ٦/ ١٥٧)

شعب الإيمان کی روایت ہے : امام اوزاعى کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچى ہے کہ عشرہ ذى الحجہ میں نیک عمل کا ثواب اللہ تعالى کے راستے میں جہاد کے اجر کى طرح ہے، جس کے دن میں روزہ اور رات میں پہرہ دیا جائے، مگر اس شخص کا اجر زیادہ ہوگا، جو جہاد میں جائے اور شہادت کے مرتبہ پر فائز ہو جائے ۔

امام اوزاعى کہتے ہیں : مجھے یہ حدیث بنو مخزوم کے ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب کرکے سنائی ہے ۔ (شعب الایمان للبيهقي:٥ /٣٠٩ (٣٤٧٧) باب في الصيام/ تخصيص أيام العشر من ذي الحجة بالاجتهاد بالعمل فيهن،چشتی)

سنن الترمذی کی روایت ہے :
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ذی الحجہ کے (ابتدائی) دس دنوں سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں ، جس کی عبادت اللہ کو زیادہ محبوب ہو ، ان ایام میں سے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور ان کی ہر رات کا قیام لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے ۔
(سنن الترمذي: ٢/ ١٢٢ (٧٥٨) أبواب الصوم عن رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم/ باب ما جاء في العمل في أيام العشر)

واضح رہے کہ نفل روزے کی الگ حیثیت ہے اور فرض روزے کی قضا کی الگ اور مستقل حیثیت ہے ، لہذا نفل اور قضا روزوں کو الگ الگ رکھا جائے گا ، ایک روزہ میں نفل اور قضا دونوں کی نیت نہیں کر سکتے ۔

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’کوئی ایسے دن نہیں جن میں نیک اعمال اللہ جل شانہ کو عشرۂ ذی الحجہ (میں نیک اعمال) سے زیادہ محبوب ہوں ، پوچھا گیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا اللہ کے راستے میں جہاد سے بھی (ان دنوں کی عبادت افضل ہے ؟) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ (جی ہاں) اللہ کے راستے میں جہاد بھی برابر نہیں ہو سکتا مگر وہ شخص جو اللہ کے راستے میں جان و مال سمیت نکلے اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ واپس نہ لوٹے ۔ (رواہ البخاری مشکوٰۃ المصابیح، رقم الحدیث:1460 باب فی الأضحیۃ،چشتی)

حضرت عبداللہ ابن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ جل شانہ کے نزدیک عشرۂ ذی الحجہ کے برابر زیادہ عظمت والے دن کوئی نہیں اور نہ کسی دنوں میں نیک عمل اتنا پسند ہے (جتنا ان دنوں میں) پس تم ان دنوں میں کثرت سے تسبیح (سبحان اللہ) ، تکبیر (اللہ اکبر) اور تہلیل (لاالہ الااللہ) کیا کرو ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث: 11116)

عید رات کی فضیلت

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص دونوں عیدوں  کی رات (یعنی چاند رات) کو اللہ تعالیٰ سے ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے عبادت کرے ، اس کا دل اس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن لوگوں کے دل مردہ ہوں گے ۔ (سنن ابن ماجۃ،رقم الحدیث: 1712،چشتی)

عشرۂ ذی الحجہ میں دن کو روزہ اور رات میں عبادت کی فضیلت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ’’ ایسا کوئی دن نہیں ہے جس میں عبادت کرنا اللہ تعالیٰ کو عشرۂ ذی الحجہ میں عبادت کرنے سے زیادہ محبوب ہو ، اس کے ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر ہے ۔ اور اس میں ہر رات کی عبادت شب قدر کی عبادت کے برابر ہے ۔ (جامع الترمذی رقم الحدیث: 758)

یومِ عرفہ ( نوذی الحجہ) کے روزے کی خاص فضیلت

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’میں اللہ سے امید کرتا ہوں کہ یومِ عرفہ کا روزہ گزشتہ ایک سال اور آیندہ ایک سال کے گناہوں کے لیے کفارہ بن جائے گا ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث:749)

یوم عرفہ کا روزہ دو سال کے گناہوں کی معافی کا  ذریعہ ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ”یوم عرفہ یعنی 9 ذوالحجہ کا روزہ ایک سال گزشتہ او رایک سال آئندہ کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔
صيام يوم عرفة ، أحتسب على أن يكفر السنة التي قبله، والسنة التي بعده ۔ (صحيح مسلم رقم الحديث 1162 باب استحباب صيام ثلاثة أيام من كل شهر)

فضائل پر گناہوں کی معافی  سے مراد صغیرہ گناہ ہیں

احادیث فضائل میں جہاں بھی کسی نیک عمل سے گناہوں کے معاف ہونے کا ذکر ہے ان سے صغیرہ گناہ مراد ہیں او رجہاں تک کبیرہ گناہوں کا تعلق ہے وہ بغیر توبہ وندامت کے کسی عمل سے معاف نہیں ہوتے او رپھر توبہ سے بھی وہ گناہ کبیرہ معاف ہوتے ہیں جن کا تعلق حقوق الله سے ہو نہ کہ حقوق العباد سے ۔

عرفہ کا روزہ غیر حاجی کےلیے ہے

عرفہ کے دن ، جو دراصل حج کا اہم ترین دن ہے ، روزہ کی یہ فضیلت غیر حاجیوں کےلیے ہے کہ اس طرح حجاج کرام پر نازل ہونے والی رحمتوں اور برکتوں میں شامل ہو سکتے ہیں ۔ جب کہ حجاج کےلیے مقبول ترین عمل اس دن وقوف عرفات ہے ، اگر حجاج اس دن روزہ رکھیں گے تو انہیں وقوف عرفہ کے بعد مزدلفہ جانے میں مشکل پیش آئے گی ، لہٰذا حجاج کرام کےلیے اس دن روزہ رکھنے کی ممانعت بھی ہے ۔

حضرت ام فضل رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عرفہ کے دن کے روزہ کے متعلق اختلاف کیا  بعضوں نے کہا کہ : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم روزہ سے ہیں ، بعضوں نے کہا کہ : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم روزہ سے نہیں ہیں ، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس دودھ کا ایک پیالہ بھیجا اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اونٹ پر تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کو پی لیا ۔
عَنْ أُمِّ الفَضْلِ بِنْتِ الحَارِثِرضي الله عنها، أَنَّ نَاسًا اخْتَلَفُوا عِنْدَهَا يَوْمَ عَرَفَةَ فِي صَوْمِ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: هُوَ صَائِمٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَيْسَ بِصَائِمٍ، «فَأَرْسَلْتُ إِلَيْهِ بِقَدَحِ لَبَنٍ وَهُوَ وَاقِفٌ عَلَى بَعِيرِهِ، فَشَرِبَهُ ۔ (صحيح البخاري 2/ 162 رقم الحدیث 1661)

 تکبیراتِ تشریق

وَاذْكُرُوا فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ ۔ اور یاد کرتے رہو اللہ کو گنتی کے چند دنوں میں ، ایام معدودات سے ایام تشریق مراد ہیں ۔ (تفسیر مظہری)

تکبیر تشریق کی اصلیت یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو لٹایا تو ﷲ تبارک و تعالیٰ نے حضرت جبرئیل  علیہ السلام کو حکم دیا کہ فدیہ لے کر جاؤ ۔ لیکن یہ فدیہ لے کر آئے تو اس ڈر سے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسمعیل  علیہ السلام کو ذبح کر ڈالیں  گے ، ﷲ اکبر ﷲ اکبر پکارنے لگے ۔ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام  نے جب یہ آواز سنی تو بشارت سمجھ کر پکار اٹھتے ’’ لا الہ الا ﷲ وﷲ اکبر‘‘ حضرت اسمعیل علیہ السلام  سمجھے کہ فدیہ آگیا تو ﷲ اکبر وﷲ الحمد کہتے ہوئے ﷲ تعالیٰ کی حمد اور اس کا شکر ادا کرنے لگے ۔ (شامی ج۱ ص ۵۸۵)

تکبیرِ تشریق کب سے کب تک ہے ؟

 تکبیرِ تشریق نویں ذی الحجہ کی نماز فجر سے تیرہویں ذی الحجہ کی نماز عصر تک ہر فرض نماز کے فوراً بعد مردوں کےلیے بآواز بلند اور عورتوں کےلیے ایک مرتبہ آہستہ کہنا واجب ہے ۔
اجْتَمَعَ عُمَرُ وعَلِىٌّ وابْنُ مَسْعُودٍ عَلَى التَّكْبِيرِ فِى دُبُرِ صَلَاةِ الْغَدَاةِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ، فَأمَّا ابْنُ مَسْعُودٍ قَالَ: صَلَاةُ الْعَصْرِ مِنْ يَوْمِ النَّحْرِ، وَأَمَّا عُمَرُ وَعَلِىٌّ قَالَا: صَلَاةُ الْعَصْرِ مِنْ آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ۔ (الجامع الكبير15/ 290)
عن عبيدةَ قالَ : قَدِمَ عَلينَا علىُّ بنُ أبِى طالبٍ فَكَبَّر يَومَ عرفةَ من صلاةِ الغداةِ إلى صلاةِ العصرِ من آخرِ أيَّامِ التشريقِ يقولُ : أكبرُ، أكبرُ، لاَ إِلَهَ إلاَّ الله، و أَكْبَرُ أكبرُ وِلله الحمدُ ۔ (الجامع الكبير 17/ 631)
 أوله من فجر عرفة إلی عصر الیوم الخامس آخر أیام التشریق وعليه الاعتماد ۔ (شامی زکریا ۳؍۶۴، ایضاح المسائل ۳۷)

 تکبیر تشریق کے الفاظ یہ ہیں :

أکبر أکبر لا إله إلا و أکبر أکبر ولله الحمد ۔

تکبیرِ تشریق کتنی مرتبہ پڑھی جائے ؟

تکبیرِ تشریق اصلا ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے، تاہم کوئی شخص ایک سے زیادہ مرتبہ پڑھ لے تو بھی حرج نہیں ۔ ویجب تکبیر التشریق فی الأصح للأمر به مرة وإن زاد عليها یکون فضلاً ۔ (درمختار 2/177)

تکبیرِ تشریق کن لوگوں پر واجب ہے؟

تکبیرِ تشریق مقیم ، مسافر ، منفرد ، جماعت ، عورت ، اہلِ شہر اور دیہات کے رہنے والوں پر واجب ہے ۔ ووجوبه علی إمام مقیم بمصر و علی مقتد مسافر أو قروی أو امرأة لکن المرأة تخافت ویجب علی مقیم اقتدی بمسافر ، وقالا بوجوبه فور کل فرض مطلقاً ولو منفرداً أو مسافراً أو امرأة لأنه تبع للمکتوبة ۔ (رد المحتار ، زکریا ۳؍۶۴)

 تکبیرِ تشریق بھول جانا

تکبیرِ تشریق کہنا واجب ہے اگر کوئی مانع فعل صادر ہوجائے مثلاً مسجد سے باہر نکل گیا یا کوئی بات چیت کرلی یا عمداً وضو توڑ دیا، تو ان تمام صورتوں میں تکبیرِ تشریق ساقط ہوجائے گی لیکن سہواً وضو ٹوٹ جائے تو تکبیر کہہ لے اور اگر قبلہ سے سینہ پھر گیا تو اس میں دو روایتیں ہیں؛ لہٰذا احتیاطاً تکبیر کہہ لی جائے ۔ عقب کل فرض عینی بلا فصل یمنع البناء فلو خرج من المسجد أو تکلم عامداً أو ساهیاً أو أحدث عامداً سقط عنه التکبیر وفی استدبار القبلة روایتان ولو أحدث ناسیاً بعد السلام الأصح أنه یکبر ولایخرج للطهارة ۔ (فتاویٰ شامی زکریا ۳؍۶۳،چشتی)

مسبوق پر تکبیرِ تشریق

مسبوق پر بھی تکبیرِ تشریق واجب ہے وہ اپنی بقیہ رکعات پوری کرنے کے بعد پڑھے گا ۔ والمسبوق یکبر وجوباً کاللاحق ۔ (فتاویٰ شامی زکریا ۳؍۶۵، ہندیہ ۱؍۱۵۲)

عورتوں پر تکبیرِ تشریق

 عورتوں پر بھی تکبیرِ تشریق واجب ہے ، لیکن وہ بالکل آہستہ آہستہ پڑھیں گی ۔ یجب علی المرأة والمسافر، والمرأة تخافت بالتکبیر ۔ (ہندیہ ۱؍۱۵۲، شامی زکریا ۳؍۶۴)

اگر حاجی کو اس روزے کی وجہ سے یومِ عرفہ کے قیمتی دن کی عبادات اور دعا مانگنے میں خلل پیدا ہونے کا اندیشہ ہو، تو ایسی صورت میں حاجی کے لیے یہ روزہ رکھنا مکروہ ہے ۔ (فتاویٰ شامی)

واضح رہے کہ یکم ذوالحجہ سے نو ذوالحجہ تک روزہ رکھنا مستحب ہے لیکن عید کے دن روزہ رکھنا شرعاً ممنوع ہے کیوں کہ حدیث میں اس دن روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے ، اسی طرح عید الاضحیٰ کے دوسرے اور تیسرے دن بھی روزہ رکھنا جائز نہیں ۔ البتہ عیدالاضحیٰ کے دن اگر کوئی شخص اپنے کھانے اگر کوئی شخص اپنے کھانے کی ابتداء قربانی کے گوشت سے کرے اور اس سے پہلے کچھ نہ کھائے تو اس کو فقہاء کرام نے مستحب لکھا ہے اور یہ عمل سنت سے ثابت ہے ۔ (بدائع الصنائع ہندیہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

ماہِ ذو الحجہ کے فضائل و مسائل حصّہ اوّل

0 comments
ماہِ ذو الحجہ کے فضائل و مسائل حصّہ اوّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : ماہِ ذو الحجہ قمری سال کا آخری مہینہ ہونے کے اعتبار سے مسلمانوں کے لیے درس عبرت ہے کہ الله نے زندگی کی صورت میں جو نعمت تمہیں عطا فرمائی تھی اس میں ایک سال اور کم ہو گیا اور یہ نعمت عظمی جس مقصد کے لیے عطا کی گئی تھی وہ کہاں تک پورا ہوا ؟ ۔ اس اعتبار سے ماہ ذوالحجہ انسان کو اس کی غفلت سے بیدار کرنے والا بھی ہے ۔ رب ذوالجلال نے جس طرح سال کے بارہ مہینوں میں سے رمضان المبارک کو اور پھر رمضان المبارک کے تین عشروں میں سے آخری عشرہ کو جو فضیلت بخشی ہے بعینہ ماہ ذوالحجہ کے تین عشروں میں سے پہلے عشرہ کو بھی خاص فضیلت سے نوازا گیا ہے اور اس عشرہ میں اعمال پر خاص اجروثواب رکھا گیا ہے ۔

ماہ ذوالحجہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس قدر برکتیں اور سعادتیں عطا کر رکھی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرمایا : پہلی رات کے چاند کے ساتھ ذوالحجہ کا آغاز ہوتا ہے تو اس کی پہلی دس راتوں میں سے ہر رات اپنی عظمت میں لیلۃ القدر کے برابر ہے ۔

لیلۃ القدر کی مناسبت سے جہاں ماہ رمضان المبارک کو منفرد شان والی ایک رات لیلۃ القدر نصیب ہوئی ہے جس کے اندر چند ساعتیں اللہ کے بندوں کی مغفرت و بخشش کا سامان لئے ہوئے وارد ہوتی ہیں اور جن میں اخلاص کے ساتھ بندہ اپنے رب سے جو بھی بھلی شے طلب کرتا ہے وہ اسے عطا کر دی جاتی ہے ۔ ادھر ماہ ذوالحجہ کی پہلی دس راتوں کو عظمت و فضیلت کا وہ خزانہ عطا کیا گیا ہے کہ ہر ایک رات رمضان المبارک کی لیلۃ القدر کے برابر ہے ۔ جس طرح رمضان المبارک کی برکتوں کو سمیٹ کر عید الفطر میں رکھ دیا گیا اور اس دن کو خوشی کے دن کے طور پر مقرر کر دیا گیا ۔ ان دس راتوں کے اختتام پر اللہ رب العزت نے عیدالاضحٰی کے دن کو مسرت و شادمانی کے دن کی صورت میں یادگار حیثیت کر دی۔ اس دن کو عرف عام میں قربانی کی عید کہتے ہیں ۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مامن ايام العمل الصالح فيهن احب الی الله من هذه الايام العشرة قالوا يارسول الله ولا الجهاد في سبيل الله، قال ولا الجهاد في سبيل الله الا رجل خرج بنفسه وماله فلم يرجع من ذلک بشئی ۔
ترجمہ : ان دس دنوں (عشرہ ذی الحجہ) میں اللہ تعالیٰ کے حضور نیک عمل جتنا پسندیدہ و محبوب ہے کسی اور دن میں اتنا پسندیدہ و محبوب تر نہیں ۔ صحابہ کرام نے عرض کی یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اللہ کے راستہ میں جہاد بھی نہیں، فرمایا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ۔ ہاں وہ شخص جو اپنی جان اور مال کے ساتھ نکلا اور کچھ لے کر گھر نہ لوٹا ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:ما من ايام احب الی الله ان يتعبدله فيها من عشر ذی الحجة، يعدل صيام کل يوم منها بصيام سنة وقيام کل ليلة منها بقيام ليلة القدر ۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ کو اپنی عبادت بجائے دوسرے اوقات و ایام میں کرنے کے عشرہ ذوالحجہ میں کرنی محبوب تر ہے۔ اس کے ایک دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ایک ایک رات کا قیام، لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے ۔ (ترمذی، ابن ماجه،چشتی)

قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں عشرۂ ذی الحجہ میں جن اعمال کے کرنے کی فضیلت آئی ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں : ⬇

ذکر الٰہی کا اہتمام کرنا

اللہ عزوجل نے قرآن پاک میں ان دس دنوں میں اپنا ذکر کرنے کا خصوصی طور پر تذکرہ فرمایا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ ۔
ترجمہ : اور مقررہ دنوں کے اندر ﷲ کے نام کا ذکر کرو ۔ (سورہ الْحَجّ 22: 28)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور محدثین و مفسرین کے نزدیک ان ایام معلومات سے مراد عشرۂ ذی الحجہ کے دس دن ہیں ۔

کثرت سے تہلیل ، تکبیر اور تحمید کہنا

امام احمد نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کوئی دن بارگاہ الٰہی میں ان دس دنوں سے زیادہ عظمت والا نہیں ، اور نہ ہی کسی دن کا (اچھا) عمل اللہ کو ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب ہے پس تم ان دس دنوں میں کثرت سے لا الہ الا اللہ ، اللہ اکبر اور الحمد للہ کہو ۔

سلف صالحین علیہم الرحمہ اس عمل کا بہت اہتمام کیاکرتے تھے ۔ امام بخاری علیہ الرحمہ نے بیان کیا ہے کہ ’’ان دس دنوں میں حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہما تکبیر کہتے ہوئے بازار نکلتے اور لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیر کہنا شروع کردیتے ۔

عشرہ ذو الحجہ کے اعمال فضیلتـ میں جہاد فی سبیل اللہ سے بھی بڑھ کر ہیں ۔ حضرت عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :  الله تعالیٰ کی بارگاہ میں دوسرے ایام کا کوئی عمل عشرہ ذوالحجہ (یکم ذوالحجہ سے دس ذوالحجہ تک) کے دوران نیک عمل سے بڑھ کر پسندیدہ نہیں ، صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا : یا رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا یہ جہاد فی سبیل الله سے بھی بڑھ کر ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جہاد فی سبیل الله سے بھی بڑھ کر ہے ، ہاں ! جو شخص جان اور مال لے کر الله کی راہ میں نکلا ، پھر ان میں سے کوئی چیز بھی واپس لے کر نہ آیا ، سب کچھ الله کے راستے میں قربان کر دیا، بے شک یہ سب سے بڑھ کر ہے ۔

عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال: قال رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : «ما من أيام العمل الصالح فيها أحب إلى من هذه الأيام» يعني أيام العشر، قالوا: يا رسول الله، ولا الجهاد في سبيل الله؟ قال : ولا الجهاد في سبيل الله، إلا رجل خرج بنفسه وماله، فلم يرجع من ذلك بشيء ۔ (سنن أبي داود 2/ 325 رقم الحديث 2438 باب  في صوم العشر)
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو عمل اس دن میں کیا جائے اس سے کوئی عمل افضل نہیں ہے ، لوگوں نے سوال کیا کیا جہاد بھی نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جہاد بھی نہیں ، بجز اس شخص کے جس نے اپنی جان ومال کو خطرے میں ڈالا اور کوئی چیز واپس لے کر نہ لوٹا ۔
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما ، عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَنَّهُ قَالَ : مَا العَمَلُ فِي أَيَّامٍ أَفْضَلَ مِنْهَا فِي هَذِهِ ؟ قَالُوا : وَلاَ الجِهَادُ ؟ قَالَ : وَلاَ الجِهَادُ ، إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ يُخَاطِرُ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، فَلَمْ يَرْجِعْ بِشَيْءٍ ۔ (صحيح البخاري رقم الحديث 969 باب  فضل العمل في أيام التشريق،چشتی)

عشرہ ذوالحجہ سال کے بارہ مہینوں میں بڑ ی ممتاز حیثیت رکھتا ہے، پارہ عم میں سورہ فجر کی آیات  والفجر ولیال عشرمیں الله رب العزت نے دس راتوں کی قسم کھائی اور کسی چیز پر الله تعالیٰ کا قسم کھانا اس چیز کی عزت اور حرمت پر دلالت کرتا ہے تو الله تعالیٰ نے سورہ فجر میں جن دس راتوں کی قسم کھائی ہے اس بارے میں مفسرین کی ایک بڑی جماعت کا قول یہ ہے کہ اس سے مراد ماہ ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں، لہٰذا اس سے ان دس راتوں کی عزت،عظمت او رحرمت کی نشان دہی ہوتی ہے ۔

ایک دن کی روزے کا ثواب ایک سال کے برابر اور رات کی عبادت شب قدر کے برابر : ایک  روایت میں ان دس ایام کی فضیلت واہمیت بیان فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ : ان دنوں میں سے کسی دن میں بھی بندے کا عبادت کرنا الله کو اتنا محبوب نہیں جتنا عشرہ ذوالحجہ میں محبوب ہے ۔ اس عشرہ کے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزں کے برابر ہے اور اس کی ہر رات کے نوافل شب قدر کے نوافل کے برابر ہیں ۔
عن أبي هريرة رضی اللہ عنہ ، عن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال : ما من أيام أحب إلى أن يتعبد له فيها من عشر ذي الحجة، يعدل صيام كل يوم منها بصيام سنة، وقيام كل ليلة منها بقيام ليلة القدر ۔ (سنن الترمذي ت بشار  رقم الحديث 758 باب ما جاء في العمل في أيام العشر،چشتی)

یعنی ایک روزہ کا ثواب بڑھا کر ایک سال کے روزوں کے ثواب کے برابر کر دیا اور ان راتوں میں سے ایک رات میں بھی اگر عبادت کی توفیق ہو گئی تو وہ اس طرح ہے جیسے لیلۃ القدر میں عبادت کر لی ہو ۔

عشرہ ذو الحجہ کے محبوبـ اعمال

ایک اور روایت میں ان دس ایام کی فضیلت واہمیت بیان فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ” دنوں میں سے کسی دن میں بھی بندے کا عبادت کرنا الله کو اتنا محبوب نہیں جتنا عشرہ ذوالحجہ میں محبوب ہے ۔ پس اس میں  تہلیل ، تکبیر اور اللہ کا ذکر کثرت سے کریں ، اس عشرہ کے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزں کے برابر ہے اور اس کی ہر رات کے نوافل شب قدر کے نوافل کے برابر ہیں  اور اعمال ان دنوں میں سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے ۔

یعنی سبحان اللہ ، الحمد للہ ، لا الہ الا اللہ واللہ اکبر ، کثرت سے پڑھا کریں ۔

عَن ابْن عَبَّاس رضی اللہ عنہما قَالَ قَالَ رَسُول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  مَا من أَيَّام أفضل عِنْد وَلَا الْعَمَل فِيهِنَّ أحب إِلَى عز وَجل من هَذِه الْأَيَّام يَعْنِي من الْعشْر فَأَكْثرُوا فِيهِنَّ من التهليل وَالتَّكْبِير وَذكر وَإِن صِيَام يَوْم مِنْهَا يعدل بصيام سنة وَالْعَمَل فِيهِنَّ يُضَاعف بسبعمائة ضعف ۔ (الترغيب والترهيب للمنذري 2/ 128 رقم الحديث 1787 كتاب الْحَج)

عشرہ ذو الحجہ کے اعمال اجر و ثواب میں بڑھ کر ہیں

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:نیکی کا کوئی بھی عمل عشرہ ذو الحجہ میں کیے جانے والے کام سے اللہ تعالی کے نزدیک زیادہ پاکیزہ ہے نہ اجرو ثواب میں بڑھ کر ہے ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَنَّهُ قَالَ : مَا مِنْ عَمَلٍ أَزْكَى عِنْدَ عَزَّ وَجَلَّ وَلَا أَعْظَمَ مَنْزِلَةً مِنْ خَيْرِ عَمَلٍ فِي الْعَشْرِ مِنَ الْأَضْحَى ۔ (شرح مشكل الآثار  رقم الحديث 2970)

عشرہ ذو الحجہ کا ایک دن فضیلت میں دس ہزار دنوں کے  برابر ہے ۔ حضرت انس بن مالك رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عشرہ ذو الحجہ کے متعلق یہ فرماتے تھے کہ :ایک دن ہزار دن کے برابر ہے اور عرفہ کا دن دس ہزار دنوں کے برابر ہے یعنی فضیلت میں ۔
وَعَن أنس بن مَالك رضی اللہ عنہ قَالَ كَانَ يُقَال فِي أَيَّام الْعشْر بِكُل يَوْم ألف يَوْم وَيَوْم عَرَفَة عشرَة آلَاف يَوْم قَالَ يَعْنِي فِي الْفضل، رَوَاهُ الْبَيْهَقِيّ والأصبهاني وَإسْنَاد الْبَيْهَقِيّ لَا بَأْس بِهِ ۔ (الترغيب والترهيب للمنذري 2/  128 رقم الحديث 1788 كتاب الحج)

عشرہ ذوالحجہ میں بال اور ناخن نہ کاٹنا کی تحقیق و شرعی حکم

عشرہ ذوالحجہ کا خاص الخاص عمل حج ہے اور یہ اہل استطاعت مسلمان پر زندگی میں صرف ایک ہی دفعہ فرض کیا گیا ہے، لہٰذا اس کی خاص برکات صرف وہی لوگ حاصل کرسکتے ہیں جو بیت الله میں حاضر ہو کر حج کریں ، لیکن الله نے اپنے فضل وکرم اور بے پایہ رحمت سے تمام اہل ایمان کو اس بات کا موقع عنایت فرما دیا کہ وہ اپنے مقام پر رہ کر بھی حجاج کرام سے ایک طرح کی نسبت پیدا کر لیں اور ان کے کچھ اعمال میں شریک ہو جائیں، لہٰذا ذوالحجہ کا چاند دیکھتے ہی جو حکم مسلمانوں کو سب سے پہلے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ام المؤمنین حضرت سلمہ  رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ : جب ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہو جائے تو تم میں سے جو آدمی قربانی کرنے کا ارادہ کرے وہ ( اس وقت تک کہ قربانی نہ کرے) اپنے بال اور ناخن بالکل نہ کتروائے" ایک روایت میں یوں ہے کہ " نہ بال کٹوائے اور نہ ناخن کتروائے ۔" ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ " جو آدمی بقر عید کا چاند دیکھے اور وہ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ (قربانی کے لینے تک) اپنے بال اور ناخن نہ کٹوائے ۔
وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : «إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَأَرَادَ بَعْضُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ فَلَا يَمَسَّ مِنْ شَعْرِهِ وَبَشَرِهِ شَيْئًا» وَفِي رِوَايَةٍ «فَلَا يَأْخُذَنَّ شَعْرًا وَلَا يَقْلِمَنَّ ظُفْرًا» وَفِي رِوَايَةٍ «مَنْ رَأَى هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ وَأَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ فَلَا يَأْخُذْ مِنْ شَعْرِهِ وَلَا مِنْ أَظْفَارِهِ ۔ (رَوَاهُ مُسلم مشكاة المصابيح 1/ 458 رقم الحديث 1459 باب في الأضحية،چشتی)

حضرت عبدالله بن عمرو بن العاص  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے ، قربانی کے روز عید منانے کا، جو الله تعالیٰ نے اس امت کےلیے مقرر فرمائی ہے۔ ایک شخص عرض گزار ہوا کہ اگر مجھے کچھ میسر نہ آئے سوائے اس اونٹی یا بکری وغیرہ کے، جو دودھ دوہنے کے لیے عاریتاً یا کرائے پر ملی ہو تو کیا اس کی قربانی پیش کر دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں ! بلکہ تم اپنے بال کتراؤ ، ناخن کاٹو ، مونچھیں پست کرو اور موئے زیر ناف صاف کرو، الله تعالیٰ کے نزدیک بس یہی تمہاری قربانی ہے ۔
عَنْ عَبْدِ  بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: «أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ  عَزَّ وَجَلَّ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ». قَالَ الرَّجُلُ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلَّا أُضْحِيَّةً أُنْثَى أَفَأُضَحِّي بِهَا؟ قَالَ: «لَا، وَلَكِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِكَ وَأَظْفَارِكَ وَتَقُصُّ شَارِبَكَ وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ، فَتِلْكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ عَزَّ وَجَلَّ ۔ (سنن أبي داود رقم الحديث 2789 بَابُ مَا جَاءَ فِي إِيجَابِ الْأَضَاحِيِّ،چشتی)

ام المؤمنین حضرت سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَعِنْدَهُ أُضْحِيَّةٌ يُرِيدُ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلَا يَأْخُذَنَّ شَعْرًا، وَلَا يَقْلِمَنَّ ظُفُرًا
جب عشرہ (ذوالحجہ) شروع ہوجائے تو جس شخص کے پاس قر بانی ہو اور وہ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتاہو،وہ اپنے بال اتارے نہ ناخن تراشے ۔
    
إِذَا دَخَلَتِ الْعَشْرُ، وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلَا يَمَسَّ مِنْ شَعَرِهِ وَبَشَرِهِ شَيْئًا ۔
جب عشرہ ذوالحج شروع ہو جائے اور تم میں کوئی شخص قربانی کا ارادہ کرے تووہ اپنے بالوں اور ناخنوں کو نہ کاٹے ۔

إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَعِنْدَهُ أُضْحِيَّةٌ يُرِيدُ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلَا يَأْخُذَنَّ شَعْرًا، وَلَا يَقْلِمَنَّ ظُفُرًا ۔
جب عشرہ (ذوالحجہ) شروع ہوجائے تو جس شخص کے پاس قر بانی ہو اور وہ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتاہو،وہ اپنے بال اتارے نہ ناخن تراشے ۔

إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِهِ ۔
جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کاا رادہ رکھتا ہو،وہ اپنے بالوں اور ناخنوں کو(نہ کاٹے) اپنے حال پر رہنے دے ۔

مَنْ كَانَ لَهُ ذِبْحٌ يَذْبَحُهُ فَإِذَا أُهِلَّ هِلَالُ ذِي الْحِجَّةِ، فَلَا يَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِهِ، وَلَا مِنْ أَظْفَارِهِ شَيْئًا حَتَّى يُضَحِّيَ ۔
جس شخص کے پاس ذ بح کرنے کے لئے کوئی ذبیحہ ہوتو جب ذوالحجہ کا چاند نظر آجائے،وہ ہرگز اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے،یہاں تک کہ قربانی کرلے ۔ (صحیح مسلم :  بَابُ نَهْيِ مَنْ دَخَلَ عَلَيْهِ عَشْرُ ذِي الْحِجَّةِ وَهُوَ مُرِيدُ التَّضْحِيَةِ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ شَعْرِهِ، أَوْ أَظْفَارِهِ شَيْئًا ؛ 3/1565،چشتی)

اب وہ روایات جن سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم خود ایسا نہیں کرتے تھے یعنی ناخن اور بال نہ کٹوانے پر آپ کا اپنا مبارک نہیں تھا اور ایسی کوئی پابندی آپ ان دنوں نہیں فرماتے تھے ملاحظہ کریں : ⬇

ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں : رُبَّمَا فَتَلْتُ الْقَلَائِدَ لِهَدْيِ رَسُولِ اللهِ  صلی اللہ علیہ والہ وسلم  فَيُقَلِّدُ هَدْيَهُ، ثُمَّ يَبْعَثُ بِهِ، ثُمَّ يُقِيمُ لَا يَجْتَنِبُ شَيْئًا مِمَّا يَجْتَنِبُ الْمُحْرِمُ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قربانیوں کے ہار اکثر میں بناتی تھی پھر ان کے گلے میں ہار ڈال کر روانہ کر دیتے پھر آپ ٹھہرے رہتے اور کسی ایسی  چیز سے پرہیز نہیں فرماتے تھے جن سے محرم پرہیز کرتا ہے (احرام میں جو امور منع ہیں ان میں ناخن اور بال کاٹنا بھی شامل ہے ۔

كَانَ رَسُولُ اللهِصلی اللہ علیہ والہ وسلم  يُهْدِي مِنَ الْمَدِينَةِ فَأَفْتِلُ قَلَائِدَ هَدْيِهِ، ثُمَّ لَا يَجْتَنِبُ شَيْئًا مِمَّا يَجْتَنِبُ الْمُحْرِمُ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مدینہ منورہ سے قربانی کے جانور روانہ کر دیا کرتے تھے اور میں جانوروں کے ہار خود بناتی تھی (پھر) آپ ان چیزوں سے پرہیز نہیں کیا کرتے تھے جن سے محرم (احرام باندھنے والا) پرہیز کرتا ہے ۔

كُنْتُ أَفْتِلُ قَلَائِدَ هَدْيِ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  بِيَدَيَّ هَاتَيْنِ، ثُمَّ لَا يَعْتَزِلُ شَيْئًا وَلَا يَتْرُكُهُ ۔
ترجمہ : میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قربانی کے اونٹوں کے ہار بناتی تھی پھر آپ کسی چیز سے پرہیز کرتے تھے نہ کسی چیز کو چھوڑتے تھے ۔
 
كَانَ رَسُولُ اللهِ  صلی اللہ علیہ والہ وسلميَبْعَثُ بِالْهَدْيِ أَفْتِلُ قَلَائِدَهَا بِيَدَيَّ، ثُمَّ لَا يُمْسِكُ عَنْ شَيْءٍ لَا يُمْسِكُ عَنْهُ الْحَلَالُ ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم قربانی کے اونٹ روانہ فرما دیا کرتے تھے میں ان کے ہار اپنے ہاتھوں سے بناتی تھی پھر آپ کسی ایسی چیز کو نہیں چھوڑتے تھے جس کو حلال نہیں چھوڑتا ۔   
   
كُنَّا نُقَلِّدُ الشَّاءَ ، فَنُرْسِلُ بِهَا وَرَسُولُ اللهِصلی اللہ علیہ والہ وسلم حَلَالٌ ، لَمْ يَحْرُمْ عَلَيْهِ مِنْهُ شَيْءٌ ۔
ترجمہ : ہم بکریوں کی گردنوں میں ہار ڈال کر ان کو مکہ مکرمہ روانہ کر دیا کرتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم حلال ہی رہتے کسی چیز کو اپنے اوپر حرام نہیں کرتے تھے ۔ (صحیح مسلم : بَابُ اسْتِحْبَابِ بَعْثِ الْهَدْيِ إِلَى الْحَرَمِ لِمَنْ لَا يُرِيدُ الذَّهَابَ بِنَفْسِهِ ، 2/959،چشتی)

زیاد بن ابی سفیان نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو لکھا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہے کہ جس نے یعنی قربانی کا جانور بھیج دیا اس پر وہ تمام چیزیں حرام ہو جاتی ہیں جو ایک حاجی پر حرام ہوتی ہیں تا آنکہ اس کی ہدی کی قربانی کر دی جائے، عمرہ نے کہا کہ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے جو کچھ کہا مسئلہ اس طرح نہیں ہے، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کے قلادے اپنے ہاتھوں سے خود بٹے ہیں، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے ان جانوروں کو قلادہ پہنایا اور میرے والد محترم (ابوبکر رضی اللہ عنہ) کے ساتھ انہیں بھیج دیا لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی ایسی چیز کو اپنے اوپر حرام نہیں کیا جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ والہ  وسلم کے لیے حلال کی تھی، اور ہدی کی قربانی بھی کر دی گئی ۔ (صحیح البخاری باب من قلد القلائد بیدہ :2/ 169، حدیث نمبر1700)۔[(مؤطا امام مالک ؛ باب ما لا يوجب الإحرام من تقليد الهدي  :1/433 حدیث نمبر 1096،چشتی)۔(السنن الکبری للبیہقی : حدیث نمبر 10190)

دو طرح کے مضمون کی روایات کتب احادیث میں آتی ہیں ایک میں قربانی کرنے والے کیےلیے ذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں قربانی کرنے سے پہلے بالوں اور ناخنوں کا کاٹنا منع ہے جبکہ دیگر احادیث کہتی ہیں ایسا کو ئی امر نہیں ۔ اب ان دونوں کا معنی مختلف ہے احادیث اپنی درجے میںدرجے اور قوت میں برابر ہیں ایسی صورت میں کیا حکم ہو گا تو اس کیلئے علم اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ جب دومقبول احادیث بظاہر متعارض اور معنیً مخالف ہوں تو سب سے پہلے ان میں تطبیق کی کوشش کی جائے گی دونوں کو اس طرح جمع کیا جائے گاکہ اختلاف ختم ہواور دونوں طرح کی روایات پر عمل ہو سکے اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر دوسرے اصولوںپر عمل کیا جائے گا یہاں دونوں طرح کی احادیث پر یوں عمل ممکن ہو گا کہ منع والی احادیث جن میں ناخن اور بال کاٹنے کی ممانعت ہے کو استحباب پر اور دوسری احادیث کو رخصت پر محمول کیا جائےگا مسئلہ یوں ہو گا کہ قربانی کا ارادہ رکھنے والے کو عشرہ ذوالحجہ میں قربانی کا جانور ذبح کرنے سے پہلے ناخن اور بال نہ کاٹنا مستحب ہوگا اور اگر کوئی کاٹنا چاہے تو اس کیےلیے اباحت اور جواز ہے ۔

فقہائے اسلام کی آراء

قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : قال الإمام : مذهبنا أن هذا الحديث لا يلزم العمل به، واحتج أصحابنا بقول عائشة - رضى الله عنها : " أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ والہ وَسَلَّمَ «يُهْدِي مِنَ المَدِينَةِ، فَأَفْتِلُ قَلاَئِدَ هَدْيِهِ، ثُمَّ لاَ يَجْتَنِبُ شَيْئًا مِمَّا يَجْتَنِبُهُ المُحْرِمُ ۔
ترجمہ : امام فرماتے ہیں ہمارا مذہب یہ ہے اس حدیث پر عمل واجب نہیں اور اس پر ہماری دلیل حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ کی روایت کردہ حدیث ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مدینہ سے ہدی (اونٹ کی قربانی ) بھیجتے تھے اور آپ کی قربانی کےلئیے ہار میں بناتی تھی پھر آپ ان امور سے اجتناب نہیں کرتے تھے جن سے محرم (احرام والا) اجتناب کرتا ہے ۔ (اکمال العلم بفوائد مسلم : 6/431]')

غیرمقلد عالن عبد الرحمٰن مبارکپوری لکھتے ہیں : وَقَالَ الشَّافِعِيُّ وَأَصْحَابُهُ هُوَ مَكْرُوهٌ كَرَاهَةَ تَنْزِيهٍ وَلَيْسَ بِحَرَامٍ
شافعیہ کا مذہب ہے قربانی کرنے والے کےلیے عشرہ ذو الحجہ میں بال اور ناخن کاٹنا مکروہ تنزیہہ ہے حرام نہیں ۔
وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ لَا يُكْرَهُ
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی علیہ کہتے ہیں مکروہ ( بھی ) نہیں ۔
وَقَالَ مَالِكٌ فِي رِوَايَةٍ لَا يُكْرَهُ وَفِي رِوَايَةٍ يُكْرَهُ وَفِي رِوَايَةٍ يَحْرُمُ فِي التَّطَوُّعِ دُونَ الْوَاجِبِ ۔
امام مالک رحمہ اللہ تعالی علیہ کی ایک روایت میں کراہت نہیں جبکہ ایک روایت کے مطابق کراہت ہےایک روایت میںہے یہ عمل نفل قربانی میں حرام ہے واجب میں نہیں ۔ (تحفۃ الاحوذی : 5/99)

محمَّدُ بنُ عزِّ الدِّينِ عبدِ اللطيف  الكَرمانيّ، الحنفيُّ لکھتے ہیں : ذهب قومٌ إلى ظاهر الحديث، فمنع من أخذ الشعر والظفر ما لم يذبح، وكان مالكٌ والشافعي يَريان ذلك على الاستحباب، ورخَّص فيه أبو حنيفة وأصحابه ۔
تعجمہ : ایک قوم اس حدیث کے ظاہر معنی پر گئی ہے کہ قربانی کرنے والے کو اپنی ناخن اور بال کاٹنا منع ہیں جب تک وہ ذبح نہ کر لے مالکیہ اور شافعیہ کی رائے استحباب کی ہے جبکہ حنفیہ رخصت کے قائل ہیں ۔ (شرح مصابيح السنة للإمام البغوي:2/263)

علامہ ابن عابدین شامی حنفی لکھتے ہیں : مَحْمُولٌ عَلَى النَّدْبِ دُونَ الْوُجُوبِ بِالْإِجْمَاعِ ۔
تجمہ : یہ حکم بالاجماع مندوب اور مستحب پر محمول ہے واجب پر نہیں ۔ (حاشیہ ابن عابدین : 2/181) ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

فضائل و زیارت مدینہ منورہ حصّہ چہارم

0 comments

فضائل و زیارت مدینہ منورہ حصّہ چہارم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اہل مدینہ سے برائی کرنا تو درکنار برائی کا ارادہ کرنے والے کو بھی جہنم کی وعید سنائی گئی ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اس شہر والوں (یعنی اہل مدینہ) کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے گا اللہ تعالیٰ اسے (دوزخ میں) اس طرح پگھلائے گا جیسا کہ نمک پانی میں گھل جاتا ہے ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب من أراد أهل المدينة بسوء أذا به اللہ، 2 : 1007، رقم : 1386)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر دلنواز مدینہ منورہ کے رہنے والوں کا ادب و احترام بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت و تعلق کی وجہ سے لازم ہے جو ایسا نہیں کرے گا وہ جہنم کا ایندھن بنے گا ۔

حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایمان سمٹ کر مدینہ طیبه میں اس طرح داخل ہو جائے گا جس طرح سانپ اپنے بل میں داخل ہوتا ہے ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب فضل المدينة، 3 : 524، رقم : 3111،چشتی)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص تم میں سے مدینہ میں مرنے کی طاقت رکھتا ہو وہ ایسا کرے کیونکہ جو مدینہ میں مرے گا میں اللہ کے سامنے اس کی شہادت دوں گا ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب فضل المدينة، 3 : 524، رقم : 3112)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِينَةِ ضِعْفَيْ مَا جَعَلْتَ بِمَكَّةَ مِنَ البَرَكَةِ اے اللہ!جتنی تونےمکہ میں برکت عطا فرمائی ہے ، مدینہ میں اُس سے دو گُنا برکت عطافرما ۔ (بخاری ، 1 / 620 ، حدیث : 1885،چشتی)

مذکورہ  حدیث ِ پاک میں اللہ کے   آخری  نبی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے  برکت کی دعا فرمائی ہے ۔ بہت ساری خیر کا نام برکت ہے ۔ (عمدۃ القاری ، 7 / 594)

چونکہ مدینۂ منورہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےشر فِ قیام بخشا ، سرزمینِ مدینہ کو اپنے  قدموں کے بوسے لینےکی سعادت عطا فرمائی ان سعادتوں سے فیضیاب ہو کر شہرِمدینہ نے عظمت و رفعت پائی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا سے اِس مبارک شہر کو اتنی برکت میسر آئی کہ مدینے میں رہنا عافیت کی علامت اور مدینے میں مرنا شَفَاعتِ مصطفےٰ کی ضمانت قرارپایا ، یوں یہ شہربہت فضیلت اور دُگنی خیرو برکت کا ایسا مرکز بنا کہ جسے دیکھنے کےلیے ہر عاشقِ رسول تڑپتا ہے ۔ بخاری  شریف کی اس حدیث  میں برکاتِ مدینہ سے متعلق دعائے مصطفٰےکا ذکر ہے ، اس دعا کا ظہور وہاں کی آب و ہوا اور اشیاء میں واضح طور پرنظر آتا ہے : ⬇

(1) جب کوئی مسلمان زیارت کی نیّت سےمدینۂ منورہ آتا ہےتو فِرِشتے رَحْمت کے تحفوں سے اُس کا استِقبال کرتے ہیں ۔ (جذب القلوب ، ص211)

ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں دعا فرمائی : اے اللہ ہمارے لیے ہمارے مدینہ میں برکت دے ، ہمارے مُد اور صاع میں برکت دے ۔ (ترمذی ، 5 / 282 ،  حدیث : 3465)

(2) مسجدِ نبوی میں ایک نمازپڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے ۔ (ابن ماجہ ، 2 / 176 ، حدیث : 1413)

(3) ایمان کی پناہ گاہ مدینۂ منورہ ہے ۔ (بخاری ، 1 / 618 ، حدیث : 1876)

(4) مدینے کی حفاظت پر فرشتے معمور ہیں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اُس ذات کی قسم جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے!مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ مگر اُس پر دو فِرشتے ہیں جو اِس کی حفاظت کر رہے ہیں ۔ (مسلم ، ص548 ، حدیث : 1374،چشتی)

امام نَوَوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں : اس روایت میں مدینۂ منورہ کی فضیلت کا بیان ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے زمانے میں اس کی حفاظت کی جاتی تھی ، کثرت سے فِرِشتے حفاظت کرتے اور انہوں نے تمام گھاٹیوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی عِزَّت افزائی کے لئے گھیرا ہوا ہے ۔ (شرح  مسلم للنووی ، 5 / 148)

(5) خاکِ مدینہ کو شفا قرار دیا ہے چنانچہ جب غزوۂ تَبوک سے واپس تشریف لارہے تھے تو تبوک میں شامل ہونے سے رہ جانے والے کچھ صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان   ملے انہوں نے گرد اُڑائی ، ایک شخص نے اپنی ناک ڈھانپ لی آپ نے اس کی ناک سے کپڑا ہٹایا اور ارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قُدرَت میں میری جان ہے!مدینے کی خاک میں ہربیماری سےشفاہے ۔ (جامع الاصول جلد 9 صفحہ 297 ، حدیث : 6962،چشتی)

(6) مدینے کے پھل بھی  بابرکت  ہیں کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی ہے ۔ (ترمذی ، 5 / 282 ، حدیث : 3465)

(7) مدینہ میں جیناحصولِ برکت اورمَرنا شفاعت پانےکاذریعہ ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد  ہے : جو مدینے میں مَرسکے وہ وَ ہیں مَرے کیونکہ میں مدینے میں مَرنے والوں کی شَفاعت کروں گا ۔ (ترمذی ، 5 / 483 ، حدیث : 3943)

یہی وجہ ہے کہ حضرت عمرفاروق   رضی اللہ عنہ یوں دعا مانگا کرتے تھے : اےاللہ مجھے اپنی راہ میں شہادت دے اور مجھے اپنے رسول کےشہرمیں موت عطا فرما ۔ (بخاری ، 1 / 622 ، حدیث : 1890) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

فضائل و زیارت مدینہ منورہ حصّہ سوم

0 comments
فضائل و زیارت مدینہ منورہ حصّہ سوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاریخ اور فضیلت : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ میں قیام فرمانے کے بعد سب سے پہلا کام جو فرمایا وہ اس مقدس مسجد نبوی کی تعمیر ہے ۔ زمین کا یہ قطعہ جہاں اب یہ مسجد موجود ہے دو یتیم بچوں حضرت سہل اور حضرت سہیل کی ملکیت تھا ۔ یہ دونوں بچے سیدنا اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے زیر کفالت تھے ۔ اس جگہ کھجوریں خشک کی جاتی تھیں ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچوں سے فرمایا یہ زمین مسجد کی تعمیر کے لئے ہمیں فروخت کر دو۔ بچوں نے بصد ادب و نیاز عرض کی : آقا یہ اراضی ہماری طرف سے بطور نذرانہ قبول فرمائیے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اس پیش کش کو بلا معاوضہ قبول نہ فرمایا۔ بالآخر قیمت ادا کرکے یہ زمین خرید لی گئی جس کے لئے دس ہزار دینار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ادا کیے۔

ربیع الاول یکم ہجری بمطابق اکتوبر 622ء مسجد نبوی کا سنگ بنیاد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دستِ اقدس سے رکھا۔ مسجدکی تعمیر شروع کر دی گئی تو اس تعمیر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مل کر کام کیا خود انٹیں اٹھا اٹھا کر لاتے اور اپنی زبان فیض ترجمان سے یہ بھی فرماتے : اَللَّهمَّ إِنَّ الْاَجْرَ اَجْرُ الْاٰخِرَة، فَارْحَمِ الْاَنْصَارَ وَالْمُهاجِرَةِ ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب هجرة النبی صلی الله عليه وآله وسلم واصحابه إلی المدينة، 3 : 1422-1423، رقم : 3694)
اے اللہ! آخرت کا بدلہ ہی بہتر ہے تو انصار اور مہاجرین پر رحم فرما۔

یہ مسجد انتہائی سادگی سے تعمیر کی گئی۔ تعمیر میں کچی اینٹیں، کھجور کی شاخیں اور تنے استعمال کیے گئے۔ جب کبھی بارش ہوتی تو چھت ٹپکنے لگتی مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابہ رضی اللہ عنہم اسی گیلی زمین پر اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود ہو جاتے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دس سال تک اس مسجد میں نمازیں ادا فرمائیں۔ یہ مسجد اسلام کا مرکز قرار پائی۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : صَلَاةٌ فِی مَسْجِدِی هٰذَا خَيْرٌ مِنْ اَلْفِ صَلَاةٍ فِيْمَا سِوَاهُ، إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب التطوع، باب فضل الصلاة فی مسجد مکة والمدينة، 1 : 398، رقم : 21133)(مسلم الصحيح، کتاب الحج، باب فضل الصلاة بمسجد مکة والمدينة، 2 : 1012، رقم : 1394،چشتی)
’’میری اس مسجد میں ایک نماز دوسری مساجد کی ہزار نمازوں سے بہتر ہے سوائے مسجد حرام کے۔‘‘

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : صَلَاتُهُ فِيْ مَسْجِدِی بِخَمْسِيْنَ أَلْفِ صَلَاةً ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ماجاء فی الصلاة فی المسجد الجامع، 2 : 191، رقم : 1413،چشتی)
’’جس نے میری مسجد (مسجد نبوی) میں ایک نماز پڑھی اسے پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔‘‘

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فَإِنِّی آخِرُ الْاَنْبِيَاءِ وَإِنَّ مَسْجِدِی آخِرُ الْمَسَاجِدِ ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب فضل الصلاة بمسجدی مکة والمدينة، 2 : 1012، رقم : 1394)
’’بیشک میں آخر الانبیاء ہوں اور میری مسجد آخر المساجد۔‘‘

حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اَنَا خَاتِمُ الْاَنْبِياءِ وَمَسْجِدِي خَاتِمُ مَسَاجِدِ الْاَنْبِيَاءِ ۔ (ديلمی، الفردوس بماثور الخطاب، 1 : 45، رقم : 112)
’’میں خاتم الانبیاء ہوں اور میری مسجد انبیاء کرام کی مساجد کی خاتم ہے۔‘‘

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ صَلَّی فِی مَسْجِدِی أَرْبَعِيْنَ صَلٰوةً، لَا يَفُوْتُهُ صَلٰوةٌ کُتِبَتْ لَه بَرَاءَ ةٌ مِنَ النَّارِ، وَنَجَاةٌ مِنَ الْعَذَابِ وَبَرِيئَ مِنَ الْنَفَاقِ ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 3 : 12590
سمهودی، وفاء الوفا، 1 : 77)
’’جس نے مسجد نبوی میں چالیس نمازیں متواتر ادا کیں اس کے لئے جہنم، عذاب اور نفاق سے نجات لکھ دی جاتی ہے۔‘‘

مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح خیبر سن 7 ہجری کے بعد مسجد نبوی کی از سر نو تعمیر فرمائی اور اسے مزید کشادہ کیا۔ اس کے بعد مسجد نبوی کی توسیع کی تواریخ درج ذیل ہیں : ⬇

حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کے عہد میں، 17 ہجری۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان کے عہد میں، 29۔30 ہجری۔
ولید بن عبد الملک کے عہد میں، 88۔91 ہجری۔
مہدی العباسی کے عہد میں، 161۔165 ہجری۔
سلطان اشرف قائتبائی کے عہد میں، 888 ہجری۔
سلطان عبد المجید عثمانی کے عہد میں، 1265۔1277 ہجری۔
الملک سعود کے عہد میں، 1372 ہجری۔
اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودہ توسیع خادم الحرمین شریفین شاہ فہد بن عبد العزیز کے عہد (1405۔1412ھ) میں مکمل ہوئی۔

مسجد کا موجودہ توسیع شدہ رقبہ 98 ہزار 500 مربع میٹر ہے۔ اس کے علاوہ چھت پر بھی نماز پڑھنے کے لئے 67 ہزار مربع میٹر کی جگہ موجود ہے۔

اس وقت مسجد میں عام دنوں میں 6 لاکھ 50 ہزار نمازی نماز ادا کرسکتے ہیں البتہ حج کے زمانے میں اور رمضان المبارک کے دنوں میں یہ تعداد 10 لاکھ تک بھی ہو سکتی ہے۔

مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشہور دروازوں کے نام 

جنوبی سمت چھوڑ کر مسجد نبوی کے تین اطراف میں پر شکوہ، دیدہ زیب دروازے موجود ہیں۔ چند تاریخی دروازے جن سے متعارف ہونا ضروری ہے وہ یہ ہیں۔ مشرقی جانب باب جبریل ں، باب النساء اور باب البقیع، باب جنازہ، مغربی جانب باب السلام، باب ابوبکر ص، باب الرحمۃ اور باب سعود، شمالی جانب باب عثمان ص، باب مجیدی اور باب عمر رضی اللہ عنہ ۔

مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں داخل ہونے کی دعا کیا

مسجد نبوی میں داخل ہوتے وقت درود شریف کا ورد جاری رکھیں اور یہ دعا پڑھیں : اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ. اَللّٰهمَّ اغْفِرْلِيْ ذُنُوْبِيْ وَافْتَحْ لِيْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ. اَللّٰهمَّ اجْعَلْنِيْ اَلْيَوْمَ مِنْ اَوْجَهِ مَنْ تَوَجَّهَ اِلَيْکَ وَاَقْرَبِ مَنْ تَقَرَّبَ اِلَيْکَ وَاَنْجَحِ مَنْ دَعَاکَ وَابْتَغٰی مَرْضَاتِکَ ۔
’’اے اللہ! ہمارے آقا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور آپ کی آل پر درود بھیج اور برکتیں اور سلامتی نازل فرما۔ اے اللہ! میرے گناہوں کو بخش دے اور میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔ اے اللہ! آج کے دن مجھے اپنی طرف متوجہ ہونے والوں میں سب سے زیادہ قریب بنالے اور زیادہ نواز ان میں سے جنہوں نے تجھ سے دعا کی اور اپنی مرادیں مانگیں۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری کی فضیلت 

بیت اللہ شریف کی زیارت اور حج کے مقدس فریضہ کی بجاآوری کے بعد عشاق اپنے اگلے سفر یعنی مدینہ منورہ کی زیارت کےلیے روانہ ہو جاتے ہیں، اور اس دربار کی حاضری کےلیے مچلتے جذبات، دھڑکتے دلوں اور برستی آنکھوں کے ساتھ کشاں کشاں اپنے آقا و مولا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں بصد ادب و احترام حاضر ہوتے ہیں ۔ یہی عشاق کے دلوں کا حج ہوتا ہے ۔

حاجیو آؤ شہنشاہ کا روضہ دیکھو
کعبہ تو دیکھ چکے کعبے کا کعبہ دیکھو

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کی فضیلت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث مبارکہ کی روشنی میں درج ذیل ہے : ⬇

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ زَارَ قَبْرِی، وَجَبَتْ لَه شَفَاعَتِيْ ۔ (دار قطنی، السنن، 2 : 447، رقم : 2669،چشتی)
’’جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی۔‘‘

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے خلوصِ نیت سے مدینہ منورہ حاضر ہو کر میری زیارت کا شرف حاصل کیا میں قیامت کے دن اس کا گواہ ہوں گا اور اس کی شفاعت کروں گا ۔‘‘ (بيهقی، شعب الايمان، 3 : 490، رقم : 4157)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جس نے میری قبر (یا راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری زیارت کی میں اس کا شفیع یا گواہ ہوں گا، اور کوئی دو حرموں میں سے کسی ایک میں فوت ہوا اللہ تعالیٰ اسے روزِ قیامت ایمان والوں کے ساتھ اٹھائے گا ۔ (طیالسی، المسند، 12 : 13، رقم : 65،چشتی)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے حج کیا پھر میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی ۔ (دارقطنی، السنن، 447، رقم : 2667)

اس حدیثِ پاک میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے روضَۂ اطہر کی زیارت کےلیے حاضر ہونے والوں کو شفاعت کی بشارت عطا فرمائی ہے ۔

جلیلُ القدر  محدّث امام تقیُّ الدّین سُبْکی شافعی علیہ رحمۃ اللہ القَوی (وفات:756ھ) حدیثِ پاک کے لفظ  ”وَجَبَتْ“ کے تحت فرماتے ہیں: اس کا معنیٰ یہ ہے کہ جو حضورِاکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قبرِ انور کی زیارت کرے  اُس کیلئے شفاعت ثابت اور لازم ہے۔آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ حدیث شريف  کے لفظ ”لَهٗ“ کے فوائد ذکر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں1) :)زائرینِ روضۂ انور کو ایسی شفاعت کے ساتھ خاص کیا جائےگا جو دوسروں کو نہ عمومی طور پر نصیب ہوگی  نہ ہی خصوصی طور پر۔ (2)زائر کو اس شفاعت کے ذریعےدوسروں کوحاصل ہونے والی شفاعت سے ممتاز کردیا جائےگا۔ (3)زیارتِ قبرِ انور کرنے والے شفاعتِ مصطفےٰ کےحقدار قرار پانے والوں میں لازمی طور پر شامل ہوں گے ۔(4)زائر کا خاتمہ ایمان پرہوگا۔

امام تقیُّ الدّین سبکی علیہ رحمۃ اللہ القَوی ”شَفَاعَتِي ۔ یعنی میری شفاعت“کے تحت فرماتے ہیں:شفاعت کی نسبت اپنی جانب فرمانے میں یہ شرف ہے کہ” فرشتے،انبیا اور مؤمنین “بھی شفاعت کریں گے مگر روضَۂ انور کی زیارت کرنے والے کی شفاعت میں خود کروں گا۔ شافع (شفاعت کرنے والے) کی عظمت کی وجہ سے اس کی شفاعت بھی ویسی ہی عظیم ہوتی ہے جیسے ہمارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام انبیائے کرام علیہمُ السَّلام سے افضل ہیں اسی طرح آپ کی شفاعت بھی دوسروں سے افضل ہے۔(شفاء السقام،ص103)

حاشیہ ابنِ حجر ہیتمی میں ہے: یہ حدیث حیاتِ مبارک میں  نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اور بعد ِوصال قبرِانور کی زیارت کو شامل ہے نیزیہ حکم دور و نزدیک کے ہر مردو عورت کے لئے ہے۔ پس اس حدیثِ پاک سے روضَۂ انور کی طرف سامان باندھنے کی فضیلت اور زیارت کے لئے سفر کے مستحب ہونے پر استدلال کیا گیا ہے۔(حاشیۃ ابن حجر الہیتمی على شرح الایضاح صفحہ 481،چشتی)

پہلے حج یا زیارتِ مدینہ

صدرُالشریعہ حضرت مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں:حج اگر فرض ہے تو حج کرکے مدینہ طیبہ حاضر ہو۔ ہاں اگر مدینہ طیبہ راستہ میں ہو تو بغیر زیارت حج کو جانا سخت محرومی و قساوتِ قلبی ہے اور اس حاضری کو قبولِ حج و سعادتِ دینی و دنیوی کے لیے ذریعہ و وسیلہ قرار دے اور حج نفل ہو تو اختیار ہے کہ پہلے حج سے پاک صاف ہو کر محبوب کے دربار میں حاضر ہو یا سرکار میں پہلے حاضری دے کر حج کی مقبولیت و نورانیت کے لیے وسیلہ کرے۔ غرض جو پہلے اختیار کرے اسے اختیار ہے مگر نیت خیر درکار ہے کہ : اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَلِکُلِّ امْرِئٍ مَّانَویٰ(بخاری،ج،ص5،حدیث:1) اعمال کامدار نیّت پر ہے اور ہر ایک کے لیے وہ ہے، جو اُس نے نیّت کی ۔ (بہارِ شریعت،ج1،ص1222) مزید فرماتے ہیں : زیارتِ اقدس قریب بواجب ہے ۔ (بہارِ شریعت جلد 1 صفحہ 1221،چشتی)

حدیث من زارا قبری وجبت لہ شفاعتی کی تحقیق

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا : من زارا قبری وجبت لہ شفاعتی ، جس نے میری زیارت میری وفات کے بعد کی اس نے میری زندگی میں زیارت کی ، زیارت روضہ اقدس کے منکر کو حدیث سے جواب ۔ (شرح احادیث خیر الانام صفحہ 17 ، 18 حکیم الامت دیوبند جناب اشرف علی تھانوی)

محترم قارئینِ کرام : بعض لوگوں کی طرف سے اس حدیث مبارکہ پر ضعیف ہونے کا اعراض کیا جاتا ہے آئیے اس کا جواب پڑھتے ہیں :

من زارا قبری وجبت لہ شفاعتی

کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا تے ہیں : ان کا رد کرنا مناسب سمجھا اور اس حدیث کو ضعیف ثابت کرنے کے چکر میں یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے مزار مبارک کی حاضری سے روکنا چاہتے ہیں دوستوں اس حدیث کو کبار آئمہ نے متعدد طرق اور مختلف الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے ۔

امام ابوبکر احمد بن عبدالخالق رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے روایت کرتے ہیں فرمایا جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کےلیے میری شفاعت واجب ہوگئ ۔

حافظ ابو القاسم بن احمد طبرانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی پوری سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت یے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا, جو شخص میری زیارت کے ارادے میرے پاس آۓ اور اسکو میری زیارت کے سوا کوی حاجت نہیں ہو مجھ یہ حق یے .میں قیامت کے دن اس کا شفیع ہوگا ۔ (المعجم الکبیر جلد نمبر 12 صفحہ نمبر 235،چشتی)

امام علی بن عمر الدارقطنی رحمۃ اللہ علیہ اپنی پوری سند کے ساتھ امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا , جس نے حج کیا پس میرے وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی گویا اس نے میری حیاتی میں میری زیارت کی ۔ (سنن بہیقی ج 5 ص 246)

حافظ ابو احمد عبداللہ بن عدی الجرجانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی پوری سند کے ساتھ ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت کرتے ہیں : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا جس نے بیت اللہ کا حج کیا اور میری زیارت نہیں کی تحقیق اس نے مجھ سے جفا کی ۔ (الضعفاءالکامل لابن عدی ج 7 ص 2480،چشتی)

امام سلیمان بن داود الجارود رحمۃ اللہ علیہ اپنی پوری سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں آل عمر سے وہ عمر رضی اللہ عنہ سے رویت کرتے ہیں فرماتے ہیں میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو فرمارہے تھے جس نے میری قبر کی زیارت کی یا میری زیارت کی میں اس کا شفارشی یا گواہ ہوگا اور جو دو حرمین میں سے کسی ایک میں مرجاے اللہ تعالی اسکو قیامت والے دن امن والوں میں اٹھاے گا ۔ (مسند ابوداود الطیالسی جلد اول صفحہ نمبر 49)

امام ابو جعفر بن عمر العقیلی رحمۃ اللہ علیہ اپنی پوری سند کے ساتھ آل خطاب سے روایت کرتے ییں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا جس نے قصدا میرک زیارت کی وہ بروز قیامت اللہ کی پناہ میں ہوگا ۔ (الترغیب والترہیب جلد 2 صفحہ 182)

امام علی بن عمر دار القطنی رحمۃ اللہ علیہ اپنی پوری سند کے ساتھ حضرت حاطب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں فرمایا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی گویا کے اس نے میری ظاہری حیات میں زیارت کی ۔ (سنن دارقطنی جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 531،چشتی)

امام ابوبکر احمد بن حسین بہیقی رحمۃ اللہ علیہ اپنی پوری سند کے ساتھ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فرمایا جو دونوں حرمین میں سے کسی ایک میں انتقال کرجاے اللہ تعالی اسکو بروز قیامت امن والوں میں اٹھاے گا اور جس نے اخلاص کے ساتھ مدینہ میں میری زیارت کی وہ شخص بروز قیامت میری پناہ میں ہوگا ۔ (شعب الایمان جلد 3 صفحہ 490،چشتی)

کڑوڑوں حنفیوں کے عظیم پیشوا سیدی امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ اپنی پوری سند کے ساتھ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ابن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں سنت سے یہ ہیں ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس قبلہ کی جانب سے آے اور اپنی پیٹھ کو قبلہ کی جانب کر اور اپنے چہرہ کے ساتھ قبر مبارک کی طرف رخ کر پھر تو کہہ السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ آپ پر سلام ہو یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ کے رحمت اور برکت ہو آپ پر ۔ (مسند امام اعظم صفحہ 126)

امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ اپنی پوری سند کے ساتھ عبداللہ بن دینار رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں : فرمایا میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کو دیکھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس آپ درود پڑھ رہے تھے اور ابو بکر صدیق اور عمر رضی اللہ عنھما کی قبر مبارک کے پاس ۔ (مسند امام مالک)

ان تمام دلائل اور احادیث کی روشنی میں زیارت قبر نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم والی حدیث کی صحت ثابت ہوگئ اور وہابی دیابنہ کے فاسد عقیدہ پاش پاش ہوگیا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضری کے آداب : ⬇

جب شہرِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں داخلہ کا وقت آئے تو زائر مدینہ غسل اور وضو کرے، اچھی سے اچھی پوشاک پہنے، نوافل ادا کرے، توبہ کی تجدید کرے اور پیدل چلتا ہوا اندر داخل ہو کر تصویر عجز بن جائے کہ وہ شہنشاہ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دربار اقدس میں حاضری کی سعادت حاصل کر رہا ہے ۔

علامہ ابن قیم الجوزیہ نے اپنے شہرہ آفاق ’القصیدۃ النونیۃ‘ میں زیارت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آداب بیان کیے ہیں، وہ کہتے ہیں : جب ہم مسجد نبوی میں حاضر ہوں تو سب سے پہلے دو رکعت نماز تحیۃ المسجد ادا کریں۔

پھر باطناً و ظاہراً انتہائی عاجزی و انکساری کے ساتھ حضوری کی تمام تر کیفیتوں میں ڈوب کر قبر انور کے پاس کھڑے ہوں۔

یہ احساس دل میں جاگزیں رہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قبرانور میں زندہ ہیں سماعت بھی فرماتے ہیں اور کلام بھی فرماتے ہیں، پس وہاں کھڑے ہونے والوں کا سر ادباً و تعظیماً جھکا رہے۔

بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یوں کھڑے ہوں کہ رعبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پاؤں تھر تھر کانپ رہے ہوں اورآنکھیں بارگاہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گریہ مسلسل کا نذرانہ پیش کرتی رہیں اور وہ طویل زمانوں کی مسافت طے کرکے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں کھو جائیں۔

پھر مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں وقار و ادب کے ساتھ ہدیہ سلام پیش کرتے ہوئے آئے جیسا کہ صاحبانِ ایمان و صاحبان علم کا شیوہ ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کے قریب آواز بھی بلند نہ کرے، خبردار! اور نہ ہی سجدہ ریز ہو۔

یہی زیارت افضل اعمال میں سے ہے اور روزِ حشر اسے میزانِ حسنات میں رکھا جائے گا۔(ابن قيم، القصيدة النونيه : 181)

اس کے بعد زائر یہ دعا کرے : اَللّٰهُمَّ قَدْ سَمِعْنَا قَوْلَکَ وَأَطَعْنَا أَمْرَکَ وَقَصَدْنَا نَبِيَّکَ مُسْتَشْفِعِيْنَ به إِلَيْکَ مِنْ ذُنُوْبِنَا، اَللّٰهُمَّ! فَتُبْ عَلَيْنَا وَاسْعَدْنَا بِزِيَارِتِه وَادْخِلْنَا فِي شَفَاعَتِه، وَقَدْ جِئْنَاکَ يَا رَسُوْلَ الله ظَالِمِيْنَ أَنْفُسَنَا مُسْتَغْفِرِيْنَ لِذُنُوْبِنَا، وَقَدْ سَمَّاکَ اللهُ تَعَالٰی بِالرُّءُوْفِ الرَّحِيْمِ، فَاشْفَعْ لِمَنْ جَاءَکَ ظَالِمًا لِنَفْسِه مُعْتَرِفًا بِذَنْبه تَائِبًا إِلٰی رَبه ۔
’’اے اللہ ہم نے تیرا فرمان سنا اور تیرے احکام کی تعمیل میں تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہیں، جو تیری بارگاہ میں ہمارے گناہوں کی شفاعت کریں گے، اے اللہ ہم پر رحم و کرم فرما اور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی برکت سے ہمیں خوش بخت بنا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت ہمیں نصیب فرما۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وآلک وسلم! ہم آپ کی بارگاہ میں اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہوئے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے حاضر ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’روف و رحیم‘ بنایا ہے۔ پس وہ جو اپنی جانوں پر ظلم کرکے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنا گناہوں کا اقرار کرکے اس سے معافی مانگتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور حاضر ہوا اس کی شفاعت فرمائیے۔‘‘

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے لیے ، اپنے ماں باپ، شیخ، اساتذہ، اولاد، اعزا و اقرباء، دوستوں اور سب مسلمانوں کے لئے شفاعت مانگیں، اور بار بار عرض کریں : اَسْئَلُ الشَّفَاعَةَ يَا رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليک و آلک وسلم ۔

پھر اگر کسی نے بارگاہ رسالت مآب میں سلام عرض کرنے کے لئے کہا ہو تو شرعاً اس کی طرف سے سلام پہنچانا لازم ہے اور یوں عرض کرے : السلام علیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن فلاں بن / بنت فلاں (نام و ولدیت) ۔ (مزید حصّہ چہارم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)