Saturday, 18 June 2022

فضائل و مسائل قربانی حصّہ سوم

فضائل و مسائل قربانی حصّہ سوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عشرہ ذوالحجہ کی دس راتوں کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : دس دن ذوالحج کے ایسے ہیں ان کے مقابلے میں کسی دن کی عبادت زیادہ مقبول نہیں کیونکہ ان دنوں میں روزہ کا ثواب ایک سال کے روزوں کے برابر اور ایک رات کی عبادت کا ثواب شب قدر کی عبادت کے برابر ملتا ہے ۔ (سنن ترمذی،کتاب الصوم)

یہ تو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ذوالحجہ کے ابتدائی دنوں کی فضیلت بیان فرمائی ہے ۔ اسی طرح ذو الحجہ قربانی کے عمل کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : قربانی کے دن اللہ رب العزت کو ﴿ذبیحہ کا﴾ خون بہانے سے زیادہ بندے کا کوئی عمل محبوب نہیں ہے اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں کھروں اور بالوں سمیت آئے گا- خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک درجہ حاصل کر لیتا ہے - تمہیں اپنی قربانی سے مسرور ہونا چاہیے ۔ (سنن ابن ماجہ ، کتاب الاضاحی)

 ایک اور جگہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اصحاب رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عرض کیا کہ : یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یہ قربانی کیا چیز ہے ؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : یہ تمہارے باپ ابراھیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کی کہ اس قربانی سے ہمیں کیا ثواب ملے گا ؟ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ہر بال کے عوض ایک نیکی ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اگر اون ہو ؟ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : اون کے ہر بال کے عوض بھی ایک نیکی ملے گی ۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الاضاحی)

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یا سید ہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ارشاد فرمایا : تم اپنی قربانی پر حاضر رہو کیونکہ جب تمہاری قربانی کا پہلا قطرہ ﴿خون﴾ نکلے گا تو تمہاری مغفرت کر دی جائے گی ۔ (مصنف عبد الرزاق، ۸۶۱۶)

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قربانی

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا بیان ہے کہ : نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دو مینڈھوں کی قربانی کرتے جو کالے ،سفید سینگ دار ہوتے ۔ میں نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیکھا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے پہلوٶں پر قدم رکھ کر ’’بسم اللہ‘‘ پڑھتے تکبیر کہتے اور انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح فرماتے ۔ (سنن ابن ماجہ ، کتاب الاضاحی،چشتی)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ : نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو مینڈھے خریدتے جو موٹے تازے سینگوں والے اور سیاہ رنگ کے ہوتے ایک اپنی امت کی جانب سے ذبح فرماتے جو بھی اللہ پاک کو ایک جانتا ہو اور آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کا قائل ہو دوسرا محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آل محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جانب سے ذبح فرماتے ۔ (ابن ماجہ ، کتاب الاضاحی)

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا میں عید الاضحی کے روز عید گاہ میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں موجود تھا جب آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خطبہ مکمل فرمایا تو منبر سے اترے اور ایک مینڈھا لایا گیا تو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے اپنے دست اقدس سے ذبح فرمایا اور ارشاد فرمایا : اللہ پاک کے نام سے شروع ، اللہ اکبر ﴿اللہ بڑا ہے﴾ یہ میری طرف سے ہے اور میرے اس امتی کی طرف سے جو قربانی نہ کرسکے ۔ (سنن ابن داؤد کتاب الضحایا)

سبحان اللہ ! جو فخر موجودات ہے ، جن کے نام کی قسمیں اللہ پاک اٹھاتا ہے وہ اپنی اُمّت کے کتنے غم خوار ہیں ۔ اِس پہ بعض فقہا نے باعتبارِ تقویٰ فرمایا ہے کہ اہلِ ثروت لوگ بھی اِس سُنّت کو اپنائیں کہ وہ لوگ جو قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے اُن کی دلجوئی کےلیے اُن کی مدد کریں اِس کا دوہرا اجر ملے گا ، ایک قربانی میں حصہ شامل کرنے کا اور دوسرا نادار کی مدد اور دلجوئی کرنے کا ۔

قربانی کا وجوب

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جس شخص میں طاقت ہو اور پھر وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے ۔ (مسند احمد،ج:۲، ص:۱۲۳)

قربانی واجب ہونے کی شرائط

مسلمان ہونا ، یعنی غیر مسلم پر قربانی واجب نہیں ۔

اقامت ، یعنی مقیم ہونا ﴿مسافر پر قربانی واجب نہیں اگر مسافر کرے تو بہتر ہے﴾ 

صاحبِ استطاعت ، مالکِ نصاب ہونا - یہاں مالداری سے مراد وہی ہے جس سے صدقہ فطر واجب ہوتا ہے وہ مراد نہیں جس سے زکوٰۃ واجب ہوتی ہے ۔

حریت ، آزاد ہونا یعنی غلام پر قربانی واجب نہیں ۔

مرد ہونا اس کےلیے شرط نہیں ۔ عورتوں پر اسی طرح قربانی واجب ہے جس طرح مردوں پر واجب ہوتی ہے ۔ (نعم الباری فی شرح البخاری ، کتا ب الاضاحی)

یہاں ایک دو ضروری باتوں کی وضاحت کرتا چلوں جو کہ عموماً عوام النّاس کے ذہن میں الجھی رہتی ہیں کہ ’’صاحبِ استطاعت‘‘ سے کیا مُراد ہے کہ کس قدر مال کا مالک ہو تو اُس پہ قربانی لازم ہو گی ؟
تو یہ بات نوٹ کر لیں کہ : جو شخص ۲۰۰ درہم یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی یا بیس دینار یعنی ساڑھے سات تولہ سونا کا مالک ہو یا حاجت و ضرورت کے سوا کسی ایسی چیز کا مالک ہو جس کی قیمت ۲۰۰ درہم یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی ہو تو وہ غنی اور مالدار ہے اس پر قربانی واجب ہے ۔ ﴿حاجت سے مراد رہنے کا مکان اور خانہ داری کا سامان جو ضروریات زندگی میں شامل ہیں، سواری کا جانور اور پہننے کے کپڑے ۔ ان کے علاوہ جو چیزیں ہیں وہ حاجت سے زائد ہیں﴾ ۔
دوسری بات یہ ہے کہ کافر کے مسلمان ہونے اور مسافرت کے یا غربت کے ختم ہو جانے پہ کیا حکم لاگو ہو گا ؟ یعنی ایک شخص کافر تھا مسلمان ہوگیا ، اسی طرح ایک آدمی سفر میں تھا اور وقتِ قربانی تک مقیم ہو گیا تو اُس پہ کیا حکم ہو گا ؟ یا ایک آدمی مفلوک الحال تھا اچانک انعام کی وجہ سے یا لاٹری وغیرہ نکل آنے کی وجہ سے وہ وقتِ قربانی پہ وہ حاجتمند سے نکل کر صاحبِ استطاعت ہو گیا تو اُس پہ کیا حکم ہے ؟ اس کے بارے میں در مختار کتاب الاضحیہ میں وضاحت کی گئی ہے کہ : قربانی کا آخری وقت معتبر ہے یعنی ایک شخص اوّل وقت میں کافر تھا مسلمان ہوگیا یا مسافر تھا اب قربانی کے وقت کے دوران مقیم ہو گیا یا پھر غریب تھا اور وقت کے اندر مالدار ہو گیاان تمام پر قربانی واجب ہوگی ۔ (در مختار، کتاب الاضحیہ،چشتی)

 قربانی کرنے کے ایّام

قربانی تین دن ہے یعنی دسویں ، گیارہویں اور بارہویں تاریخ ذی لحج کی اورافضل دن قربانی کا پہلا دن ہے ۔ (در مختار، کتاب الاضحیہ)

قربانی کا وقت

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بقر عید کے دن کھڑے ہوئے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جو شخص ہمارے قبلہ کی طرف منہ کر کے ہماری نماز کی طرح نماز پڑھتا ہے ، ہماری قربانی کی طرح قربانی کرتا ہے تو جب تک وہ نمازِ عید نہ پڑھ لے قربانی نہ کرے ۔ یہ سن کر میرے ماموں ابو بردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کی یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں نے تو عجلت سے قربانی کرلی تاکہ میں اپنے اہل خانہ اور پڑوسیوں کو کھلاٶں ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ ’’دوبارہ قربانی کرو ۔ میرے پاس بکری کا ایک دوسرا بچہ ہے جو ابھی ایک سال کا نہیں ہوا اور میرے نزدیک وہ بکریوں کے گوشت سے بہتر ہے ۔  تم اسے ذبح کرو یہ تمہاری دو قربانیوں سے بہتر ہے اور تمہارے سوا کسی کےلیے بکری کا بچہ ﴿جذعہ﴾ قربانی میں دینا جائز نہیں ۔ (سنن النسائی، کتاب الضحایا،چشتی)

علامہ جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں قربانی میں کسی اور شخص کےلیے بکری کا بچہ ﴿جزعہ﴾ دینا درست نہیں البتہ پہلے اوپر والی حدیث میں گزرا بھیڑ کا ﴿جزعہ﴾ درست ہے ۔

اب رہا یہ سوال کہ حضرت ابو بردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایسا کرنے کا حکم کیوں فرمایا تو یہ حکم صرف ابو بردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مخصوص ہے جیسے گواہی میں حضرت خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صرف ایک شہادت کو دو کے برابر قرار دیا گیا اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے لئے اکثر ایسا حکم نہیں فرمایا گیا اس سے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اختیارات ثابت ہوتے ہیں ۔ یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے شارع ہیں بلکہ شریعت گر ہیں ۔ شریعت نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اداٶں کا نام ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے احکام رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سپرد فرما دیے کہ جیسے چاہیں احکامِ شریعت سے خاص فرمائیں اور جو چاہیں جس کےلیے چاہیں حلال و حرام فرمائیں ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حلال بھی فرماتے ہیں اور حرام بھی فرماتے ہیں اور فرض بھی فرماتے ہیں ۔ (مواہب اللدنیہ للقسطلانی زرقانی جلد ۲صفحہ ۲۲۳،چشتی)

قربانی کے جانوروں کے عیوب

اللہ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ : چار قسم کے جانور وں کی قربانی درست نہیں ۔ ایک کانا جانور جس کا کانا پن صاف معلوم ہو ۔ دوسرا بیمار جانور جس کی بیماری عیاں ہو- تیسرا لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن صاف معلوم ہو ۔ چوتھا ناتواں اور کمزور جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو ۔ ﴿راوی فرماتے ہیں﴾ مَیں نے عرض کی قربانی کےلیے مجھے تو وہ جانور بھی اچھا معلوم نہیں ہوتا جس کے سینگ ٹوٹے ہوئے ہوں یا دانت ٹوٹے ہوئے ہوں ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ تجھے وہ جانور جو برا معلوم ہو اسے چھوڑ دو مگر کسی دوسرے کو اس کی قربانی سے منع نہ کرو ۔ (سنن نسائی کتاب الضحایا)

حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں قربانی کے جانور کے کان اور آنکھ دیکھنے کا حکم فرمایا - (سنن نسائی کتاب الضحایا)

حضرت جری بن کلیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ : میں نے حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس جانور کی قربانی سے منع فرمایا جس کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو -پھر اس نے اس کا تذکرہ حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کیا تو انہوں نے فرمایا ہاں جب سینگ آدھا یا آدھے سے زیادہ ٹوٹا ہوا ہو تو اس کی قربانی درست نہیں اگر اس سے کم ہو تو درست اور جائز ہے ۔ (سنن نسائی کتاب الضحایا)

حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں مقابلہ ، مدابرہ ، شرقا ، خرقا ، اور جدعا کی قربانی دینے سے منع فرمایا ۔ (سنن نسائی کتاب الضحایا،چشتی)

درج بالا حدیث پاک کی مخصوص اصلاحات کی مختصر تشریح یہ ہے : مقابلہ وہ جانور ہے جس کا کان سامنے سے کٹ گیا ہو ۔ مدابرہ وہ جانور ہے جس کا کان پیچھے سے کٹا ہوا ہو ۔ شرقا جس کے کان چرے ہوئے ہوں ۔ خرقا جس جانور کے کان میں گول گول سوراخ ہوں ۔ جدعا جس جانور کے کان کٹے ہوئے ہوں ۔

ایک ضروری وضاحت یہ بھی نوٹ کر لی جائے کہ فقہائے کرام نے جانوروں کے عیوب کا احادیثِ رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی روشنی میں جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ یہ ہے کہ جانور کا جو نقص اس کی قیمت میں کمی کا باعث ہو وہ عموماً عیب میں شمار ہوتی ہے ۔

قربانی کا طریقہ

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ : نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دو گندمی رنگ کے سینگ والے مینڈھے کی اپنے ہاتھ مبارک سے قربانی فرمائی ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بسم اللہ پڑھی اور اللہ اکبر کہا اور اپنا قدم مبارک ان کے پہلو پر رکھا ۔  (صحیح مسلم ، کتاب الضحایا،چشتی)

چھری تیز کرنے کا حکم مبارک

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :- اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا چھری لاٶ پھر فرمایا اس کو پتھر سے تیز کرو ۔ آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مَیں نے اس کو تیز کیا ۔ پھر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے چھری لی ، مینڈھے کو پکڑا ، اس کو لٹایا اور ذبح کرنے لگے ۔ پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا اللہ کے نام سے شروع اے اللہ محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ و آل محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور امت محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف سے قبول فرما ۔ پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کی قربانی فرمائی ۔ (سنن ابی دائود ، کتاب الضحایا،چشتی)

اِسی طرح حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پاک ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جب تم ذبح کرو تو احسن طریقہ سے ذبح کرو ، تم میں سے کسی شخص کو چاہیے کہ وہ چھری کو ﴿اچھی طرح﴾ تیز کر لے اور ذبیحہ کو آرام پہنچائے ۔ (صحیح مسلم ، کتاب الصید الذبائح)

قربانی کرنے اور نہ کرنے والوں کو احکامات

حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کا بیان ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جو شخص قربانی کرنا چاہتا ہو وہ دس ذوالحجہ تک اپنے بال اور ناخن نہ کٹوائے اور پھر دسویں تاریخ کو قربانی کے بعد حجامت بنوائے ۔ (سنن نسائی ، کتاب الضحایا)

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک شخص کو فرمایا کہ : مجھے ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو عید کرنے کا حکم ہوا اللہ تعالیٰ نے اس دن کو میری امت کے لئے عید بنایا ۔ اس شخص نے عرض کی اگر میرے پاس کچھ نہ ہو اور صرف ایک ہی اونٹنی یا بکری ہو تو کیا میں اس کی قربانی کروں ؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا نہیں بلکہ تم اپنے بال کٹواٶ ، ناخن تراشو ، مونچھوں کے بال چھوٹے کرو اور زیرِ ناف بالوں کو صاف کرو پس اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہاری پوری قربانی یہی ہے ۔ (سنن نسائی ، کتاب الضحایا)

حضرت حنش رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے : میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دو دنبے قربانی کرتے دیکھا تو عرض گزار ہوا کہ یہ کیا بات ہے ؟ انہوں نے ارشاد فرمایا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے وصیت فرمائی تھی کہ میں آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف سے قربانی کروں ۔ چنانچہ ﴿ارشاد عالی کے تحت﴾ ایک قربانی نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف سے پیش کر رہا ہوں ۔ (سنن ابی داؤد ،کتاب الضحایا،چشتی)

علمائے کرام اس سے ثابت فرماتے ہیں کہ جن کے والدین یا عزیز و اقارب فوت ہو گئے ہوں ان کی طرف سے قربانی کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں ۔ یعنی ایک شخص دوسرے شخص کی جگہ قربانی کر سکتا ہے ۔

پوری جماعت کی طرف سے ایک قربانی

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ میں عید الاضحی کے روز عید گاہ میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں موجود تھا ۔ جب آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خطبہ مکمل فرمایا تو منبر سے نیچے تشریف لائے اور ایک مینڈھا لایا گیا ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے اپنے دست مبارک سے ذبح فرمایا اور ارشاد فرمایا : بسم اللہ ، اللہ اکبر ، یہ میری طرف سے اور میرے ہر اس امتی کی طرف سے جو قربانی نہ کر سکے ۔ (سنن ابی داؤد کتاب الضحایا)

اگر جانور میں خریدنے کے بعد عیب پیدا ہو جائے تو اس کے بارے میں بھی ارشادات نبوی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں تذکرہ موجود ہے : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ : ہم نے قربانی کےلیے ایک مینڈھا خریدا ۔ اتفاق سے بھیڑیا اس کی سرین کاٹ کر لے گیا ۔ ہم نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ﴿اس کے متعلق﴾ دریافت کیا ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں اسے قربان کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الاضاحی)

علماۓ کرام ایک مسئلہ بیان کرتے ہیں کہ اگر جانور خریدنے کے بعد اس میں کوئی عیب پیدا ہو جائے تو مالدار کےلیے دوسرا جانور ذبح کرنا ضروری ہے اور فقیر کےلیے وہی جانور کافی ہوگا ہاں البتہ ذبح کے وقت اضطرار کی بنا پر اس میں کوئی عیب پیدا ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ۔

جانوروں کی عمریں

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشار فرمایا : صرف مسنہ ﴿ایک سال کی بکری ، دو سال کی گائے اور پانچ سال اونٹ﴾ کی قربانی کرو ، ہاں اگر تم کودشوار ہو تو چھ سات ماہ کا مینڈھا ذبح کرو ﴿جو سال کا معلوم ہوتا ہو﴾ ۔ (صحیح مسلم ،کتاب الاضاحی،چشتی)

دودھ والے جانور کا ذبح کرنا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ : نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک انصاری کے پاس تشریف لے گئے ۔ اس نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خاطر بکری ذبح کرنے کےلیے چھری اٹھائی ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا دودھ والی کو ذبح نہ کرنا ۔ (ابن ماجہ کتاب الذبائح)

کیا عورت جانور ذبح کر سکتی ہے ؟

حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ایک عورت نے بکری کو تیر سے ذبح کیا ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ اِس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا ۔ (ابن ماجہ کتاب الذبائح)

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بیٹیوں کو حکم فرمایا کرتے تھے کہ وہ اپنی قربانیوں کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کریں ۔ (نعم الباری فی شرح البخاری،چشتی)

جمہور فقہا کا قول ہے جو عورت اچھی طرح سے ذبح کر سکتی ہے ، اسی طرح جو بچہ اچھے طریقے سے ذبح کر سکتا ہو اس کا ذبح کرنا بھی جائز ہے ۔ (نعم الباری فی شرح صیح البخاری جلد ۱۱ صفحہ ۳۷۵،چشتی)

جلالہ ﴿آوارہ جانوروں﴾ کے گوشت کی ممانعت

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ : نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فتح خیبر کے دن بستی کے گدھوں کا گوشت اور جلالہ ﴿آ وارہ پھرنے والے جانوروں﴾ سے اور اس پر سوار ہونے اور ان کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ۔ (سنن نسائی ، کتاب البیوع)

جلالہ وہ جانور ہے جو صرف نجاست او ر غلاظت کھاتا ہو ۔ چاہے گائے، بکری، مرغی یا کوئی اور جانور ہو ۔ ایسے جانور کا گوشت بعض علما کے نزدیک درست نہیں اور بعض کے نزدیک جب اسے کئی دنوں تک باندھ کر پاکیزہ چارہ کھلایا جائے تو درست ہے ۔ (سنن نسائی ، کتاب البیوع)

قربانی کے گوشت اور کھال کا حکم

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ : نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پہلے تو قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ رکھنے سے منع فرمایا پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کھاوٶ ، سفر کےلیے جمع کرو اور تم ذخیرہ بھی کر سکتے ہو  (سنن نسائی کتاب االضحایا)

اسی طرح قربانی کی کھالوں کے بارے میں حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے قربانی کی ہر چیز تقسیم کرنے کا حکم فرمایا خواہ گوشت ہو یا جھول ۔ سب غریبوں میں تقسیم کر دی جائے ان مذکورہ احادیث مبارکہ سے فقہاۓ کرام نے جو احکام مستنبط فرمائے ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں : ⬇

قربانی کا گوشت خود بھی کھا سکتا ہے اور دوسرے شخص کو غنی یا فقیر کو بھی دے سکتا ہے ﴿جس طرح حج کے دوران کرتے ہیں﴾ بلکہ اس میں سے کچھ کھا لینا قربانی کرنے والے کےلیے مستحب ہے- بہتر یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کر لے ایک حصہ فقرا کےلیے ایک حصہ دوست احباب کےلیے اور ایک اپنے گھر والوں کےلیے ، ایک تہائی سے کم صدقہ نہ کرے ۔ کل کاصدقہ کر دینا بھی جائز ہے اور کل کا گھر میں رکھ لینا بھی جائز ہے ۔ تین دن سے زائد اپنے اور گھر والوں کےلیے لینا بھی جائز ہے ۔ (در مختار ،کتاب الاضحیہ،چشتی)

قربانی کا چمڑا اور اس کی جھول اور رسی اور اس کے گلے کا ہار ان سب چیزوں کا صدقہ کردے ۔ قربانی کے چمڑے سے جائے نماز ، چھینی ، رتھیلی ، مشکیزہ ، دستر خوان ، ڈول وغیرہ بنائے جا سکتے ہیں ۔ (در مختار، کتاب الاضحیہ)

اگر قربانی کا چمڑا بیچا تو رقم صدقہ کرنا ضروری ہے ۔ (در مختار، کتاب الاضحیہ)

قربانی کاچمڑا یا گوشت یا اس کی کوئی چیز قصاب یا ذبح کرنے والے کو دیت میں نہیں دے سکتا ۔ (ہدایہ، کتاب الاضحیہ)

قربانی کا روحانی تصور

مذکورہ بالا ظاہری مسائل شرعیہ ہیں جن کو ملحوظ خاطر رکھنا نہایت ضروری ہے اور ان پر عمل پیرا ہوئے بغیر انسان قربانی کی فریضہ سے صحیح معنوں میں عہدہ برا نہیں ہوسکتا لیکن نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل ہونے والی یہ آیات جن میں آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قربانی کا بھی تذکرہ ہے کہ : قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ ِﷲِ رَبِّ الْعٰ لَمِیْنَ ۔ لَا شَرِیْکَ لَہ ، وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ ۔ ﴿سورہ الانعام،۲۶۱،۳۶۱﴾ ’’ فرما دیجیے کہ بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی ﴿سمیت سب بندگی﴾ اور میری زندگی اور میری موت ﷲ کےلیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں ﴿جمیع مخلوقات میں﴾ سب سے پہلا مسلمان ہوں ۔

اس کی صوفیانہ تفسیر لکھتے ہوئے الشیخ احمد بن عمر بن محمد نجم الدین الکبریٰ اپنی تفسیر ’’ التاویلات النجمیّہ‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ ’’ ﴿اِنَّ صَلَاتِیْ﴾ یعنی منہاج الصلوٰۃ کی طرف میری سیر ۔ اس سے معراج الی اللہ مراد ہے اور ﴿ نُسُکِیْ﴾ سے اپنے نفس کو ذبح کرنا مقصود ہے اور ﴿وَمَحْیَایَ﴾ قلب و روح کی حیاتی مراد ہے اور ﴿مَمَاتِیْ﴾ یعنی اپنے نفس کی موت مطلوب ہے اور ﴿ِﷲِ رَبِّ الْعٰ لَمِیْنَ﴾ یعنی یہ سب طلبِ حق اور اللہ تعالیٰ کی ذات تک پہنچنے کےلیے ہے ، ﴿لَا شَرِیْکَ لَہ﴾ اس کی طلب میں کوئی شریک نہیں اس لئے کہ اس کے سوا ہمارا اور کوئی مطلوب نہیں‘‘ ۔

آج ہم ان احکامات شریعت پر عمل پیرا ہونے کے باوجود روحانی فیوض و برکات سے کیوں محروم ہیں ؟ اس کی فقط وجہ یہ ہے کہ ظاہر پرست معاشروں کی صحبت کی وجہ سے ہم نے بھی فقط اسلام کے ظاہر پر اکتفا کر لیا ہے اور اس کے باطن یعنی روحانیت کو ترک کر دیا ہے ۔ اسی چیز کو علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے کلام میں یوں بیان فرمایا کہ : ⬇

رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل ، وہ آرزو باقی نہیں ہے

نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں ، تُو باقی نہیں ہے

ان تمام عبادات و ریاضات کا مطمع نظر اللہ پاک کی ذات تک رسائی ہے اگر نماز ،روزہ ،حج ، زکوٰۃ ، قربانی وغیرہ سے اللہ تعالیٰ کی طلب و رضا نکال دی جائے تو اس کے کماحقہ فوائد حاصل نہیں ہو سکتے- اسی لیے جب ہم قربانی کی ابتدائ کی طرف دیکھتے ہیں کہ کس طرح حضرت ابراھیم علیہ السلام نہایت خلوص کے ساتھ اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اپنے مالک کی راہ میں ذبح کرنے کےلیے تیار ہو گئے ۔ اسی طرح آپ علیہ السلام نے اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنی جان و مال اولاد الغرض سب کچھ قربان کر دیا تو اس قربانی کے انعام میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ۔ ﴿البقرہ: ۴۲۱﴾ ’’ اے ابراھیم﴿ں﴾ !ہم نے آ پ کو تمام انسانوں کا امام بنا دیا ۔ آج بھی ضرورت اسی ابراہیمی خلوص کی ہے جیسا کہ حضرت الشیخ ابو عبداللہ بن الفضل رحمة اللہ علیہ نے فرمایا : مجھے تعجب ہے اس سالک سے جو بڑی پر خار وادیوں اور ویرانے جنگلوں اور سنگستان مقامات کو طے کرتا ہوا اَللہ تعالیٰ کے گھر یعنی کعبہ معظمہ میں پہنچتا ہے اس لئے کہ یہیں پر انبیائ کرام علیہم السلام کو زیارت کا موقعہ نصیب ہوتا ہے اس ﴿مشقت﴾ کے باوجود وہ اپنے نفس کو نہیں چھوڑتا اور خواہشات کو پورا کرنے میں لگا رہتا ہے پھر وہ کیسے اپنے مالک سے ملاقات کر سکتا ہے ۔ جبکہ ان خواہشات کو مٹانے کے بعد ہی مولاکریم ﴿قلب میں﴾ جاگزیں ہوگا کیونکہ وہ صرف پاک قلب والوں کو ہی ملتا ہے ۔ (تفسیر روح البیان جلد ۳ص۷۳۱،۸۳۱)

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں حضرت ابراھیم علیہ السلام کی سنت مبارکہ کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (مزید حصّہ چہارم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...