امیرِ اہلسنّت مولانا محمد الیاس قادری کی شخصیت و تعارف حصّہ اوّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ چھبیس (26) رمضان 1369ھ / 12 جولائی 1950ء کو بمبئی بازارکھارا در کراچی کے ایک میمن گھرانے میں پیدا ہوئے ، جب آپ کی عمر ایک سال اور چند ماہ تھی تو آپ کے والد حاجی عبدالرحمٰن قادری رحمۃ اللہ علیہ حج کے لئے روانہ ہوئے ، بعدِ حج ان کا مکۂ مکرمہ میں 14 ذوالحجہ 1370ھ کو انتقال ہوگیا ، آپ نے مڈل تک تعلیم ایک گجراتی اسکول میں حاصل کی اور ابتدائی اسلامی علوم مثلاً تجوید و قرأت ، ابتدائی عربی گرامر ، عقائد و مسائل اپنے علاقے کھارادر کے علما سے حاصل کیے ، گھریلو مسائل و غربت کی وجہ سے آپ بچپن سے ہی مختلف کام کاج اور تجارت میں مصروف ہوگئے مگر علمِ دین حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ۔ مطالعۂ کُتب اور صحبتِ علما آپ کے روزانہ کے معمولات کا حصہ رہا ۔ آپ نے سب سے زیادہ اِستفادہ مفتیِ اعظم پاکستان حضرت علّامہ مفتی محمد وقارالدین قادِری رضوی رحمۃ اللہ علیہ سے کیا اور مسلسل 22 سال آپ مفتیِ اعظم پاکستان کی صحبتِ بابرکت سے مستفیض ہوتے رہے (فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی ان میں سے کثیر صحبتوں میں شامل رہا الحمد للہ) ۔ (وقارالفتاویٰ ، 2 / 202) حتّٰی کہ مفتی محمد وقارالدین قادِری رحمۃ اللہ علیہ نے رَجَب 1404ھ مطابق اپریل 1984ء کو آپ کو اپنے گھر سمن آباد گلبرگ ٹاؤن کراچی (اس گھر میں بھی فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی حضرت قبلہ استاذی المکرّم مفتی محمد وقارالدین قادِری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوتا رہا دورانِ تعلیم دارالعلوم امجدیہ سے الحمد للہ) میں اپنی خلافت و اجازت سے بھی نوازا ۔
مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کا نام محمد ہے ۔ مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کا عرفی نام الیاس ہے ۔ حضرت سیدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت ہونے کی نسبت سے مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ قادِری ، امام اہلسنّت مجدّدِ دین وملت اِمام احمدرضاخان قادری رحمۃ اللہ علیہ جو مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کے دادا پیر بھی ہیں کی تحقیقاتِ انیقہ پر مکمل کاربند ہونے اور والہانہ عقیدت و محبت کی بنا پر رضوی ، اورخلیفۂ اعلیٰ حضرت ، قطبِ مدینہ ، حضرت مولانا ضیاء الدِّین مدنی عَلَیْہِ رحمۃ اللہ علیہ کے مُرید ہونے کی نسبت سے ضیائی کہلاتے ہیں ۔ اعتقاد کے اعتبار سے سچے پکے سُنّی اورفقہ میں مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ ائمہ اربعہ (یعنی امامِ اعظم ابوحنیفہ ، امام شافعی ، امام مالک ، امام احمد بن حنبل علیہم الرّحمہ) میں سے امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے پیروکار ہیں اس نسبت سےحنفی ہیں ۔
مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کی کنیت ابو بلال اور تخلص عطار ہے ۔
مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ نے ایک مَدَنی مذاکرے میں جو کچھ ارشاد فرمایا اُس کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے : میں عطّاؔر کیسے بنا ؟ یہ بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے ۔ میں اُن دنوں میں نُور مسجد کاغذی بازار باب المدینہ کراچی میں اِمامت کرتا تھا ۔ دعوت اسلامی کا سلسلہ ابھی شروع نہیں ہوا تھا ۔ مجھے شاعری کا شوق اس وقت بھی تھا میں نے غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں ایک سلام لکھا تھا :
سلطان اولیاء کو ہمارا سلام ہو
جیلاں کے پیشوا کو ہمارا سلام ہو
پھرکسی طرح میں نے غالباً 30 روپے میں ایک ہزار پرچے خوبصورت (فریم میں لگائے جانے والے) چھپوائے تاکہ انہیں مفت بانٹ سکوں ۔ ایک بار میرے پاس ایک شیوڈ نوجوان مجھے ڈھونڈتا ہوا نور مسجد آیا اور مجھ سے یہ پرچہ مانگا ۔ میں نے اسے اپنے مختصر سے حجرے میں بٹھایا اور اس پر انفرادی کوشش بھی کی ۔ اس دوران پتا چلا کہ اُس کا عطر کا ہول سیل کا کاروبار ہے ۔ مجھے عطر لگانے کا بہت شوق تھا میں نے اُسے اپنے اِس شوق کے بارے میں بتایا تو اُس نے مجھے اپنی دکان کا پتا سمجھایا ۔ میں اُس کی دکان پر عطر خریدنے گیا تو مجھے بہت سستا محسوس ہوا ۔ میں نے کچھ خالی شیشیاں خریدیں اور ہول سیل میں عطر خرید کروہ شیشیاں بھریں اور عطر بیچنا شروع کردیا ۔ عطر کے کام کی نسبت سے میں نے اپنا تخلص عطّاؔررکھا ، یوں میں عطّاؔر بن گیا ۔ اس میں ایک بہت بڑے بزر گ جو’’تذکرۃ الاولیاء‘‘کے مؤلف بھی ہیں حضرت سیدنا شیخ فرید الدین عطّار رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت بھی ہے ۔ یہ تخلص اتنا مشہور ہوا کہ لوگ مجھے الیاس کم اور عطّاؔر زیادہ کہتے ہیں ۔ (مدنی مذاکرہ، نمبر 26)
فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی اُن دنوں دارالعلوم امجدیہ میں پڑھ رہا تھا دورانِ تعلیم دو مساجد جامع مسجد معصوم شاہ بخاری کھارا در اور جامع مسجد فیضانِ اولیاء (یہ نام فقیر نے ہی رکھا اور رجسٹرڈ کروایا تھا) اے بی سینیا لائن صدر کراچی میں بطور خطیب خدمات سر انجام دیا کرتا تھا الحمد للہ اس دوران مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ سے بھی ملاقاتیں وقتاََ فوقتاََ ہوتی رہتی مذکورہ عطر کا کاروبار کے ذکر پر فقیر کو یاد آیا کہ شہید مسجد کھارا در کے قریب ہی سے مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ نے یہ کاروبار شروع کیا تھا ۔ اس چھوٹی سی مسجد میں فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی گھنٹوں مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کے ساتھ بیٹھا کرتا تھا اب شاید انہیں یہ ملاقتیں اور ساتھ ملنا بیٹھنا یاد ہو کیونکہ طویل عرصہ ہو گیا فقیر کا اُن سے رابطہ نہ رہا اُن میں سے ایک وجہ فقیر کا لاہور شفٹ ہو جانا بھی ہے دیگر وجوہات میں سے ۔ دعا ہے اللہ عزّوجلّ مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کا سایہ تادیر اہلسنّت پر قائم رکھے آمین ۔
فقیر ذاتی طور پر شاھد ہے کہ مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کو مطالعہ کا بہت شوق تھا اسی شوق کا نتیجہ ہے کہ حضرت صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ علیہ کی شہرۂ آفاق تالیف ’’بہارِ شریعت‘‘ اور امام احمد رضاخان قادری رحمۃ اللہ علیہ کے فتاویٰ کا عظیم الشان مجموعہ ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ عموماً آپ کے زیرِ مطالعہ رہتے تھے اور رہتے ہیں ۔
حجۃُ الاسلام امام محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتب بالخصوص ’’احیاء العلوم‘‘ کی بہت تحسین فرماتے ہیں اور اپنے مُتَوَسِّلین کو بھی پڑھنے کی تلقین فرماتے رہتے ہیں ، ان کے علاوہ دیگر اکابرین دامت فیوضہم کی کتب کا چیدہ چیدہ مطالعہ بھی آپ کے معمولات میں شامل ہے ۔
مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ عُلَمائے اہلسنّت دامت فیوضہم سے بے حد عقیدت و محبت رکھتے ہیں اس بات کا فقیر خود چشم دید گواہ ہے اور نہ صرف خود ان کی تعظیم کرتے ہیں بلکہ اگر کوئی مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کے سامنے عُلَمائے اَہلسنّت دامت فیوضہم کے بارے میں کوئی نازیبا کلِمہ کہہ دے تو اس پَرسخت ناراض ہوتے ہیں ۔ ایک جگہ تَحریرفرماتے ہیں کہ’’ اسلام میں عُلَمائے حق کی بَہُت زیادہ اَہمِیَّت ہے اور وہ علْمِ دین کے باعِث عوام سے افضل ہوتے ہیں ۔ غیر عالم کے مقابلے میں ان کو عبادت کا ثواب بھی زیادہ ملتا ہے ۔‘‘ چُنانچِہ حضرتِ محمد بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مَروی ہے : ’’عالم کی دو رَکْعَت غیرِ عالم کی ستّر رَکْعَتْ سے افضل ہے ۔ (کنزالعُمّال،ج ۱۰ ص ۶۷ ،دارالکتب العلمیۃ بیروت،چشتی) ۔ لہٰذا دعوتِ اسلامی کے تمام وابَستگان (خصواصاََ آج کل بعض دعوتِ اسلامی سے وابسطہ حضرات جو علماء کے بارے میں اچھا رویہ نہیں رکھتے وہ) بلکہ ہر مسلمان کےلئے ضَروری ہے کہ وہ عُلَمائے اہلسنّت سے ہر گز نہ ٹکرائیں ، ان کے ادب و احِترام میں کوتاہی نہ کریں ، عُلَمائے اہلسنّت کی تَحقیر سے قَطْعاً گُرَیز کریں ، بِلا اجازتِ شرعی ان کے کردار اور عمل پر تنقید کرکے غیبت کا گناہِ کبیرہ ، حرام اور جھنَّم میں لے جانے والاکام نہ کریں ، حضرتِ سیِّدُنا ابوالحَفص الکبیر علیہ رحمۃُ القدیر فرماتے ہیں : جس نے کسی عالِم کی غیبت کی تو قِیامت کے روز اُس کے چہرے پر لکھا ہوگا ، یہ اللہ کی رَحْمت سے مایوس ہے ۔ (مُکاشَفَۃُ الْقُلُوْب ،ص ۷۱،دارالکتب العلمیۃ بیروت) ۔
ایک مکتوب میں مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ لکھتے ہیں : علماء کو ہماری نہیں ، ہمیں علماء دامت فیوضھم کی ضرورت ہے ، یہ مَدَنی پھول ہر دعوتِ اسلامی والے کی نس نس میں رچ بس جائے ۔ ایک مرتبہ فرمایا : علماء کے قدموں سے ہٹے تو بھٹک جاؤ گے ۔
مجھ کو اے عطّار سُنّی عالموں سے پیار ہے
ان شآء اللہ عَزَّوَجَلَّ دوجہاں میں اپنا بیڑا پار ہے
مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ شاعری بھی بہت اچھی فرماتے ہیں مگر اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرح مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کا سرمایہ شاعری بھی صرف نعت و منقبت اور مناجات وغیرہ پر مشتمل ہے ۔ جو اسلامی بھائی امیرِاَہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی شب و روز کی مصروفیات سے واقف ہیں وہ حیرت زدہ ہیں کہ آپ دامت برکاتہم العالیہ کو شعر کہنے کا موقع کیسے مل جاتا ہے ؟ پھر مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ دیگر ارباب سخن کی طرح ہر وقت شاعری کیلئے مصروف بھی نہیں رہتے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ جب پیارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی یاد تڑپاتی اور سوزِ عشق آپ کو بے تاب کرتا ہے تو آپ نعتیہ اشعار و مناجات لکھتے ہیں ۔ مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ نے حمد ونعت کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین اور بزرگان دین رحمھم اللہ کی شان میں متعدد منقبتیں اور مدحیہ قصائد بھی قلم بند فرمائے ہیں ، تادم تحریر مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کے 226 کلام شمار میں آئے ہیں ۔ مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کی شاعری میں ایک انفرادی خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ کی شاعری میں نیکی کی دعوت کی تڑپ اور مسلمانوں کی خیر خواہی کا جذبہ نمایاں طور پر پایا جاتا ہے ۔ چنانچہ مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ ہیں :
شہا ایساجذبہ پاؤں کہ میں خوب سیکھ جاؤں
تری سنتیں سکھانا مدنی مدینے والےﷺ
ملے سنتوں کاجذبہ مرے بھائی چھوڑیں مولیٰ
سبھی داڑھیاں منڈانا مدنی مدینے والےﷺ
مِری جس قدرہیں بہنیں سبھی کاش برقع پہنیں
ہوکرم شہِ زمانہ مدنی مدینے والےﷺ
اللہ تعالیٰ ہمیں امیرِ اہلِسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے سنّتوں کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔
عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ عالم نہیں ہیں آیئے اس کے متعلق کچھ پڑھتے ہیں :
محترم قارئینِ کرام : علم ایک ایسا بحرِ بے کنار ہے کہ جس کے غواص کو وہ نایا ب گوہر نصیب ہو تے ہیں جن کی قیمت خود گوہر بار کو بھی معلوم نہیں ہوتی بازارِ خرد کے گوہر شناس پر اس کی قیمت خوب عیاں ہے اور کیوں نہ ہو کہ خالق ِکل خود صفتِ علم سے موصوف ہے بقول شاعر :
علم کے حیرت کدے میں ہے کہاں اس کی نمود
گل کی پتی میں نظر آتا ہے راز ِہست و بود
اللہ د علم والوں کی شان میں فرماتا ہے : ''اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاء'' اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں ۔ (القرآن ، فاطر ٢٨)
حقیقت تو یہی ہے کہ مالک نے عالمِ رنگ و بو کی تزیین ہی اپنے اپنی صفات کو آشکار کرنے کے لیے کی تو بتقاضائے بشریت ومخلوق ہم پر یہ حق ہے کہ اس خالق کی ہمہ وقت خشیت و بندگی کی جائے اور یہ کارِ بندگی باحسن صرف صاحبِ علم ہی سر انجام دے سکتے ہیں ، یقینا ہر ذی شعور اس امر کا متمنی ہے کہ خالق حقیقی کی ہر دم خشیت کی جائے اور پھر خشیت کا پیمانہ ہمیں خود مخشی الیہ نے دے دیا کہ علم ہی ایک ایسی کلید ہے جس سے قفلِ خشیٰ وورا کھلے گا ۔ اب علم کس کو حاصل کرنا چاہیے ، کیا اس کی کوئی قیودات و پابندیاں ہیں ؟ اس کے لیے شارع علیہ التحیہ والثناء اہماری رہنمائی فر ماتے ہیں ۔ سرورِلالہ رخاں اارشاد فرماتے ہیں : ''من یرد اللہ بہ خیراً یفقھہ فی الدین''اللہ تعالیٰ جس کے لیے خیر کا ارادہ فرماتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطافرماتاہے ۔ (صحیح بخاری ١/١٦ مطبوعہ نور محمد کراچی،چشتی)
آپ انے دوسری جگہ ارشادفرمایا : ''لا حسد الا فی اثنتین رجل اتاہ اللہ مالافسلطہ علی ھلکتہ فی الحق ورجل اتاہ اللہ الحکمۃ فھو یقضی بھا ویعلمھا'' صرف دو چیزوں پر رشک کرنا مستحسن ہے ، ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہواور وہ اس کو نیکی کے راستہ میں خرچ کرتا ہو ، اور ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے حکمت دی ہو وہ اس کے مطابق فیصلے کرے اور اس کی تعلیم دے ۔ (صحیح بخاری ١/١٧ مطبوعہ نور محمد کراچی)
مذکورہ بالا سطور سے معلوم ہوا کہ علم کا حصو ل ہر کس وناقص کو ضروری ہے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ علم وہی ضروری ہے جس کے لیے جزاء و خیر کی نوید سنائی گئی ہے نہ کہ وہ جو وبال ِ جاں ہو لہٰذا علم کے قبل از حصول اس کا تعین ضروری ہے کہ کہیں بے فائدہ کی تگ ودو میں گمراہی کے راستہ کا مسافر نہ بن جائے ۔حجۃ الکاملین امام الواصلین حضرت ابوالحسن سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش لاہوری صفرماتے ہیں : ''واضح رہے کہ انسان کی عمر مختصر ہے اور علم کی کوئی اتھاہ نہیں ، اس لیے تمام علوم کا حاصل کرنا فرض نہیں ہے ، مثلاً علمِ نجوم ، طب ، حساب ، اور عجائبات عالَم کا علم ،البتہ اتنا علم ضروری ہے جتنا شریعت سے متعلق ہو ، مثلاً اتنا علم نجوم جس سے رات کے اوقات کی تعیین کی جاسکے، علم طب اس قدر کہ صحت کی حفاظت کی جاسکے ، اسی طرح علم حساب اتنا جس سے وراثت ،ضروری لین دین ، یا عِدت وغیرہ کے مسائل حل ہو سکیں ، الغرض اتنا اور اسی قدر فرض ہے جس سے عمل درست ہو اللہ تعالی نے ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو بے فائدہ علم حاصل کرتے ہیں ۔ (کشف المحجوب صفحہ ٨٨،چشتی)
علم کی تعریف
علم کی تعریف دواعتبار سے کی گئی ہے : (1) متکلمین وحکماء کے اعتبار سے ۔ (2) شریعت ِ محمدیہ کی جانکاری کے اعتبار سے ۔
متکلمین وحکماء کے نزدیک علم کی تعریف
علامہ سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ''ا لعلم صفۃ یتجلی بھا المذکور لمن قامت ھی بہ ۔۔۔۔۔۔۔ الخ'' ــ علم ایک ایسی صفت ہے جس کے سبب وہ چیز منکشف اور واضح ہو جاتی ہے جس انسان کے ساتھ وہ صفت قائم ہو۔یعنی وہ چیز ایسی ہو جس کاذکر کیا جاسکے اور اس کو تعبیر کیاجاسکے خواہ وہ چیز موجود ہو یامعدوم ہو،یہ تعریف حواس کے ادراک اور عقل کے ادراک کوشامل ہے ۔خواہ عقل کے ادراکات ،تصورات ہوں یاتصدیقات ، اور تصدیقات خواہ یقینیہ ہوںیاغیریقینیہ ، لیکن اس تعریف میں انکشاف کو مکمل انکشاف پر محمول کرناچاہیے جو ظن کو شامل نہیں ہے ،کیوںکہ علم ان کے نزدیک ظن کامقابل ہے ، اور جب اس تعریف میں انکشاف کو انکشاف تام پر محمول کریں گے تو پھر علم کی تعریف سے تصورات اور ظن خارج ہوجائیں گے اورصر ف جزم باقی رہے گا ۔ (شرح عقائد النسفی ص١١مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی،چشتی)
شریعتِ محمدیہ کی جانکاری کے اعتبار سے علم کی تعریف
حضرت داتا گنج بخش ھجویری رحمۃ اللہ علیہ علم کی تعریف یوں فرماتے ہیں : علم اوصافِ حمیدہ میں سے ہے اس کی تعریف معلوم چیزوں کااحاطہ اور ان کی وضاحت ہے اس کی بہتر تعریف یہ ہے کہ علم ایک ایسی صفت ہے جس کے ذریعے انسان عالم ہو جاتاہے ۔ (کشف المحجوب ص٩١مطبوعہ فرید بکسٹال لاہور،چشتی)
المفرد فی غریب القرآن میں علم کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے : ا لعلم : ادراک الشئی بحقیقتہ وذلک ضربان احدھما ادراک ذات الشئی والثانی الحکم علی الشئی بوجود شئی ھو موجود لہ او نفی شئی ھو منفی عنہ فالاول ھو المتعدی الی مفعول واحد نحو لا تعلمونھم اللہ یعلمھم وا لثانی المتعدی الی مفعولین نحو قولہ :فان علمتموھن مومنات وقولہ :یوم یجمع اللہ الرسل الی قولہ :لاعلم لنافاشارۃ الی ان عقولھم طاشت والعلم من وجہ ضربان :نظری وعملی فالنظری مااذاعلم فقد کمل نحو العلم بموجودات العالم والعملی مالایتم الابان یعمل کالعلم بالعبادات ومن وجہ آخر ضربان : عقلی وسمعی واعلمتہ وعلمتہ فی الاصل واحد الاان الاعلام اختص بماکان باخبار سریع والتعلیم اختص بمایکون بتکریر وتکثیر حتی یحصل منہ اثرفی نفس''کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا علم ہے اور علم کی دو اقسام (1) کسی چیز کی ذات کا ادراک کرنا ۔ (2) کسی چیز پر وجود ِ شئ کا اسطرح حکم لگانا کہ فلاں چیز موجود ہے یا اسطرح حکم لگانا کہ فلاں چیز موجودنہیں ہے ۔ پہلی قسم متعدی بیک مفعول ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے 'تم ان کو نہیں جانتے اور اللہ جانتا ہے 'اور دوسری قسم متعدی بدو مفعول ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے'تم ان عورتوں کو مومن جانو 'اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے 'جس دن اللہ رسولوں کو جمع کرے گا ' اللہ کے اس قول تک کہ 'ہمیں کسی چیز کا علم نہیں ہے'اور علم کی ایک دوسری تقسیم بھی ہے جسکی دو انواع ہیں (1) نظری (2) عملی : نظری یہ کہ جب کسی چیز کا علم ہو گیا تو وہ علم مکمل ہو گیا جیسے موجودات کا علم۔عملی یہ ہے کہ جب تک عمل نہ ہو علم مکمل نہ ہو گا جیسا کہ عبادات کا علم ۔ اور دوسری نوع عملی کی بھی دو قسمیں ہیں : (1) عقلی (2) سمعی : اعلام (کسی کو علم دینا) اور تعلیم حقیقت میں ایک ہی چیز ہیںفرق صرف یہ ہے کہ اعلام اخبارِ سریعہ کے ساتھ خاص ہے اور تعلیم تکرار و کثرتِ مباحثہ کے ساتھ خاص ہے یہاں تک کہ اس تکرار و کثرت ِ مباحثہ سے نفس میں اثرپیدا ہو جائے ۔ (المفرد فی غریب القرآن ١/ ٣٤٣)۔(مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment