امیرِ اہلسنّت مولانا محمد الیاس قادری کی شخصیت و تعارف حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ علم کی اقسام بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : علم دین کی دو اقسام ہیں ایک وہ کہ جس پر قرآن و حدیث کے سمجھنے کا دارو مدار ہے جیسے لغت ، نحو اور صرف وغیرہ کا علم ، دوسرے وہ جو عقیدے ،عمل اور اخلاق سے تعلق رکھتا ہے ان کے علاوہ ایک علم وہ ہے جو نور ہے اِس سے خدائے تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے اِس کو علمِ حقیقت کہتے ہیں قرآن و حدیث میں جس علم کی فضیلت بیان کی گئی ہے وہ حسب درجہ علم کی ان تمام قسموں کو شامل ہے ۔ (اشعۃ اللمعات)
اعلحٰضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : ہاں آیات و احادیث دیگر کہ فضیلت ِعلماء و ترغیب علم میں وارد ، وہاں ان کے سوا اور علومِ کثیرہ بھی مراد ہیں جن کا تعلم فرض کفایہ یاواجب یا مسنون یامستحب ، اس کے آگے کوئی درجہ فضیلت و تر غیب اور جوان سے خارج ہو ہر گز آیات و احادیث میں مراد نہیں ہو سکتا اوران کاضابطہ یہ ہے کہ وہ علوم جو آدمی کو اس کے دین میں نافع ہوں خواہ اصالۃًجیسے فقہ وحدیث وتصوف بے تخلیط و تفسیر قرآن بے افراط وتفریط خواہ وساطۃً مثلا ً نحو و صرف و معانی و بیان کہ فی حد ذاتہاامر دینی نہیں مگر فہم قرآن وحدیث کے لئے وسیلہ ہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید ٢٣/٦٢٦،چشتی)
خلاصہ بحث یہ ہے کہ وہ علوم جن سے قرآن وحدیث سمجھ میں آجائے اور اس سے مسائلِ فقہیہ واضح ہو جائیں وہ تمام علوم علمِ دین کی اقسام سے ہیں ۔
علم کی تعریف میں علماء کا اختلاف
علم ایک ایسی چیز ہے کہ اس میں علماء ِاسلاف کا قدیم اختلاف پایا جاتارہا ہے اسی اختلاف کی طرف شارح بخاری بھی گئے ہیں ۔ شارح بخاری علامہ مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : صحیح یہ ہے کہ علم اجلیٰ بدیہات سے ہے ہر خاص و عام جانتا ہے کہ علم کیا چیز ہے اسلئے یہ اصطلاحی تعریف سے مستغنی ہے نیز اسکی تعریف بہت زیادہ مشکل ہے ہزار ہاسال غور و خوض بحث و تمحیص کے بعد بھی آج تک منقح نہ ہو سکی ہمارے حضرات ماتریدیہ نے علم کی تعریف یہ کی ہے ،علم ایک ایسا نور ہے جو اللہل نے انسان کے قلب میں پیدا فرمایا ہے کہ اس سے جس چیز کا تعلق ہوتا ہے وہ منکشف ہو جاتی ہے جیسے آنکھ میں دیکھنے کی قوت ہے ۔ (نزھۃ القاری شرح البخاری ١/٣٤٨)
عالِم چونکہ علم کی صفت سے موصو ف ہوتاہے اس لیے یاد رکھناچاہیے کہ علم دین کی بھی کچھ اقسام ہیں جیسے صرف ، نحو ، بلاغت ، ادب ، فقہ ، اصو لِ فقہ ، تفسیر ، اصولِ تفسیر ، حدیث اصولِ حدیث ، فلسفہ ، منطق ، وغیر فنون کاعلم ۔ اب علماءِ اسلاف میں اس چیز کا اختلاف پایا جاتا تھا کہ کن فنون کا ماہر عالم کہلاتا ہے آئیے ہم کچھ علماء کرام کی تصریحات بیان کرتے ہیں ۔
اعلٰحضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : علمِ دین فقہ و حدیث ہے منطق و فلسفہ کے جاننے والے علماء نہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید ١٠ /٤٥٥)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں : بس ہر علم میں اسی قدر دیکھ لینا کافی کہ آیا یہ وہی عظیم دولت نفیس مال ہے جو انبیاء علیھم الصلاۃ والسلام نے اپنے ترکہ میں چھوڑا جب تک تو بیشک محمود اور فضائل جلیلہ موعودہ کا مصداق ، اور اس کے جاننے و الے کو لقب عالم و مولوی کااستحقاق ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید ٢٣/ ٦٢٧،چشتی)
یہ علم کا اختلاف وہی ہے جس کو آ ج تک کوئی نہیں سلجھا سکا جس کی رائے میں جو تعریف اچھی ہوتی ہے وہ اس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عالم کی بھی تعریف کرتاہے کیونکہ عالم کی تعریف معلق ہے علم کی تعریف پر جب علم کی تعریف میں ہی اختلاف ہوگا تو عالم کی تعریف کرنے میں دشواری ہوگی ۔
معیارِ علم
علم کی تعریف و قیودات جاننے کے بعد اب دیکھتے ہیں کہ شریعت نے کس علم کو علم کہا ہے اور کس کی نفی کی ہے ۔
علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں نقل کیا : عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ انہ قال لیس العلم عن کثرۃالحدیث ولکن العلم من کثرۃالخشیۃ ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ علم کثیر مباحثہ کانام نہیں بلکہ علم اللہ سے بہت زیادہ ڈرنے کا نام ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر ٣/٥٥٥)
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ علم کی تعریف کے بارے رقم طراز ہیں : قال احمد بن صالح المصری عن ابن وھب عن مالک قال ان العلم لیس بکثرۃ الروایۃ وانماالعلم نور یجعلہ اللہ فی القلب ، احمد بن صالح مصری ، ابن وھب کی روایت سے بیان کرتے ہیں کہ امام مالک فرماتے ہیں علم کثیر روایات کرنے کا نام نہیں اور بیشک علم توایک ایسا نور ہے جس کو اللہ دل میںنقش کرتا ہے ۔ (تفسیر قرطبی ١٤/ ٣٤٣،چشتی)
حقیقت تو یہ ہے کہ علم چاہے جتنا بھی ہو بے فائدہ و وبالِ جان ہے جب تک یہ کہ علم کے ساتھ عمل ، خشیت الٰہی ، عجز و انکساری وغیرہ امور لازمہ کا ارتکاب نہ کیا جائے ۔
فضائلِ علم
فضائل علم پر علماء نے بہت کچھ لکھاہے حصول برکت اور مناسبتِ مو ضوع کے تحت میں بھی چند نصوص سے فضائل علم بیان کرتاہوں ۔
اللہ عزّوجلّ کا ارشاد ہے : وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْماً ، اے میرے رب مجھے علم زیادہ دے ۔ (القرآن ،طہٰ١١٤)
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کہ اس آیت کریمہ سے علم کی فضیلت واضح ہوتی ہے اسلئے کہ اللہ مجدہ الکریم نے اپنے پیارے حبیب ِلطیف کو علم کے علاوہ کسی دوسری چیز کی زیادتی کے طلب کرنے کا حکم نہیں فرمایا ۔ (فتح الباری شرح البخاری ١/١٣٠،چشتی)
مذکورہ بالا روایت سے علم کی فضیلت باخوبی عیاں ہوتی ہے کہ وہ چیز جس کے طلب زیادتی پر خالقِ کل مصر ہوااورگر علم کے علاوہ کسی اور چیز میں فضیلت ہوتی تو اللہ تعالیٰ آپ ا کو اس چیز میںزیادتی کے حصول کی تعلیم فرماتا بہر حال ہم کو بھی چاہیے کہ حصولِ علم کے لیے ہر دم کوشاں رہیں ۔
اِنَّمَایَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاء ، اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں ۔ (القرآن ، فاطر ٢٨)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے : العلم حیاۃ الاسلام و عماد الدین''علم اسلام کی زندگی اور دین کا ستون ہے ۔ (کنز العمال ١٠/٧٦)
زندگی ایک ایسی چیز ہے جس پر کسی امر مطلوب کی اساسِ بقا ہو ، جس طرح کہا جاتا ہے کہ 'معاشرہ کی زندگی اور بقابھائی چارگی سے ہے ' اسی طرح اسلام کے بارے بھی کہا گیا کہ اس کی زندگی اور اس کے باقی رہنے کا دار و مدار علم سے ہی ہے ۔ اسی طرح ستون بھی اس کو کہتے ہیں جس پر عمارت کی چھتوں کا بوجھ ہوتا ہے اور وہ اس کو مضبوط و قائم کیے رکھتا ہے ۔ لہٰذا علم کو بھی ستون سے اس لیے تعبیر کیا گیا کہ علم بھی عمارت اسلام کو ستون کی طرح قائم کیے رکھتا ہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے : تدارس العلم ساعۃ من اللیل خیر من احیائھا ، رات میں ایک گھڑی علم کاپڑھنا پوری رات جاگنے سے بہتر ہے ۔ (مشکوٰ ۃ ص٣٦مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)
خوش قسمت ہیں وہ طالب علم جن کی راتوں کی نیند کتب بینی ، سبق یاد کرنے اور سبق کے تکرار کرنے میں گزرتی ہیں وہ اس حدیث پاک کے مصداق ہیں ۔ طلباء کو اس حدیث سے درس حاصل کرنا چاہے کہ بغیر نوافل و اذکار سے صرف علم دین کے لیے تھوڑی دیر جاگنا پوری رات عبادت کرنے کا درجہ رکھتا ہے مزید اس حدیث پاک کے بارے پڑھیے ۔
حضرت امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : اس حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ ایک گھنٹہ آپس میں علم کی تکرار کرنا ، استاد سے پڑھنا ، شاگرد کو پڑھانا ، کتاب تصنیف کرنا یا ان کا مطالعہ کرنا رات بھر کی عبادت سے بہتر ہے ۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ١/٢٥١)
حضرت ام ہا نی رضی اللہ عنہا سے رو ایت ہے کہ سرکار اقدس انے ارشاد فرمایا : العلم میراثی و میراث الانبیاء قبلی ، علم میری میراث ہے اور جو مجھ سے پہلے انبیاء گزرے ہیں ان کی میراث ہے ۔ (کنزالعمال ١/٧٧)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلّم کون ساعمل سب سے افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلّم نے فرمایا اللہ کا علم ، اس نے دوبارہ آکر وہی سوال کیا ، آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلّم نے اس کو وہی جواب دیا ، اس نے کہایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلّم میں نے تو آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلّم سے صرف عمل کے متعلق سوال کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلّم نے فرمایا عمل کم ہو یازیادہ اس کے ساتھ تمہیں علم نفع دے گا اور جہل تم کو نفع نہیں دے گا خواہ اس کے ساتھ عمل کم ہو یازیادہ ۔ (نوادر الاصول ٤ / ١٠١ مطبوعہ دار الجیل بیروت،الجامع الصغیر رقم الحدیث:١٢٤،چشتی)(جمع الجوامع رقم الحدیث ٣٦٥٩ ، کنزالعمال رقم الحدیث:٢٨٧٣١)
علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے متعلق نقل کرتے ہیں کہ اس حدیث کی سند ضعیف ہے لیکن فضائل اعمال میں اس سے استدلال صحیح ہے ۔ (تبیان القرآن ٨/٦١١)
ابو جعفر نے کہا عالم کی موت ابلیس کے نزدیک ستر عابدوں کی موت سے زیادہ محبوب ہے ۔ (شعب الایمان ٢/٢٦٧مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
مذکورہ بالا تمام بحث سے واضح ہو ا کہ علم حاصل کرنا بہت درجہ واہمیت رکھتاہے ۔
عالم کی تعریف
اعلٰحضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ضابطہ یہ ہے کہ وہ علوم جو آدمی کو اوس کے دین میں نافع ہوں خواہ اصالۃ ًجیسے فقہ و حدیث و تصوف بے تخلیط و تفسیر قرآن بے افراط وتفریط خواہ وساطۃ ً مثلاً نحو و صرف و معانی وبیان کہ فی حد ذاتہا امر دینی نہیں مگر فہیم قرآن وحدیث کے لیے وسیلہ ہیں اور فقیر غفر اللہ تعالیٰ اس کے لئے عمدہ معیارعرض کرتاہے مراد متکلم جیسے خود اوس کے کلام سے ظاہر ہوتی ہے دوسرے کے بیان سے نہیں ہو سکتی مصطفی ا جنھوں نے علم و علماء کے فضائل عالیہ وجلائل غالیہ ارشاد فرمائے اونھیں کی حدیث میں وارد ہے کہ علماء وارث انبیاء کے ہیں انبیاء نے درم و دینار ترکہ میں نہ چھوڑے علم اپنا ورثہ چھوڑا ہے جس نے علم پایا اوس نے بڑاحصہ پایااخرج ابو داؤدوالترمذی وابن ماجہ وبن حصان والبیھقی عن ابی درداء رضی اللہ تعالی عنہ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یقول فذکر الحدیث فی فضل العلم وفی آخر ان العلماء ورثۃ الانبیاء وان الانبیاء لم یورثوادیناراولادرھماوانما ورثوا العلم فمن اخذبحفظ واقربس ہر علم میں اسی قدر دیکھ لینا کافی کہ آیا یہ وہی عظیم دولت نفیس مال ہے جو انبیاء علیھم الصلاۃ والسلام نے اپنے ترکہ میں چھوڑا جب تو بیشک محموداورفضائل جلیلہ موعودہ کا مصداق اوراس کے جاننے والے کو لقب عالم و مولوی کا استحقاق ورنہ مذموم و بد ہے جیسے فلسفہ و نجوم یا لغو و فضول جیسے قافیہ و عروض یا کوئی دنیا کا کام جیسے نقشہ و مساحت بہر حال اون فضائل کا موردنہیں نہ اوس کے صاحب کو عالم کہہ سکیں ائمہ دین فرماتے ہیں جو علم کلام میں مشغول رہے اوس کا نام دفترعلماء سے محو ہو جائے ۔ (فتاویٰ رضویہ قدیم ١٠/١٦،١٧)
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ عالم کی تعریف و علامات کے بارے ارشاد فرماتے ہیں : ان الفقیہ حق الفقیہ من لم یقنط الناس من رحمۃ اللہ و لم یرخص لھم فی معاصی اللہ تعالیٰ ولم یومنھم من عذاب اللہ ولم یدع القرآن رغبۃ عنہ الی غیر ہ انہ لا خیر فی عبادۃ لا علم فیھا ولاعلم لافقہ ولاقراۃ ولا تدبر فیھا ، سچا فقیہ وہ ہے جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ کرے اللہ تعالیٰ کی معصیت میں لوگوں کو رخصت نہ دے اور نہ ہی لوگوں کو مکمل طور پر اللہ کے عذاب سے امان دے اور قرآن کے (اصولوں)سے اعراض کرتے ہوئے کسی شخص کیلئے قرآن کو نہ چھوڑے کیونکہ ایسی عبادت میں کوئی بھلائی نہیں ہے جس میں علم نہ ہو اورنہ ایسے علم میں بھلائی ہے جس میں فقاہت نہ ہو اور نہ ہی ایسی قراء ۃ ِ قرآن میں بھلائی ہے جس میں غور و فکر نہ ہو ۔ (تفسیر قرطبی ١٤ / ٣٤٤)
عالم کی فضیلت
عالم ہو ناایک ایسا متاعِ دنیوی واخروی ہے کہ جس کو یہ حاصل ہو تاہے وہ مخلوق عالَم سے ممتاز ہو تا ہے چند فضائل ملاحظہ فرمائیں ۔
دارمی نے مکحول سے روایت کیا وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : ان فضل العالم علی العابد کفضلی علی ادناھم تلا ھذا الایۃ انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء ان اللہ وملائکتہ واھل سماواتہ واھل ارضیہ والنون فی البحر یصلون علی الذین یعلمون الناس الخیر ، عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میر ی فضیلت تم میں سے ادنا پرپھر آپ انے یہ آیت تلاوت کی 'بے شک اللہ سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب ِعلم ہیں'بےشک اللہ اور اس کے فرشتے اور آسمانوں والے اور زمین والے اور سمند ر کی مچھلیاں اس پررحمت بیجھتے ہیں جس کو وہ لوگوں میں سے بہتر عالم تصو ر کرتے ہیں ۔ (تفسیر قرطبی ١٤/٣٤٤،چشتی)
''ان العلماء ورثۃ الانبیاء '' بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں علیھم الصلاۃ والسلام ۔
(سنن ابی داود ، ٢/١٥٧)
اعلٰحضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اولیائے کرام فرماتے ہیں : صوفی جاہل شیطان کا مسخرہ ہے اس لئے حدیث میں آیا حضو رسید عالم صلی اللہ علیہ و الہ وسلّم نے فرمایا : فقیہ واحد اشد علی الشیطان من ا لف عابد رواہ الترمذی وابن ماجۃ عن ابن عباس رضی اللہ عنھما (ایک فقیہ شیطان پر ہزاروں عابدوں سے زیادہ بھاری ہے ۔ اسے ترمذی اور ابن ماجہ نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کیا) بے علم مجاہدہ والوں کو شیطان انگلیوں پر نچاتاہے ،منہ میں لگام ناک میں نکیل ڈال کر جد ھر چاہے کھینچے پھر تاہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید ٢١/٥٢٨)
کیا عالم کے لیے سند یافتہ ہونا ضروری ہے ؟
یہ نکتہ قابلِ غور ہے کہ کیا عالمِ دین وہی ہے جس کے پاس ایک کاغذ کا ٹکرا جس کو عام مفہوم میں سند سے تعبیر کرتے ہیں موجود ہو ؟ اگر ایسا ہی ہے تو آج کے جدید دور میں پرنٹنگ پریس کی سہولت موجود ہے جس کو عالم بننے کا جذبہ جاںگزیں ہو وہ پریس سے رابطہ کر کے ایک کیا سینکڑوں اسناد ترتیب دے لے ۔ یہ امر اہلِ نظر پر خوب عیاں ہے کہ میدانِ علم میں سند کی کوئی حیثیت نہیں ہے علم وہ ہے جو دل و دماغ میں ہو اور اس کا احساس اس صاحب کے قول و فعل سے ہوتا ہے ۔
اعلٰحضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ سے جب اس قسم کا سوال ہوا تو آپ نے اس کا جواب ارشاد فرمایا : مسئلہ کیا فرماتے ہیں علماء دین اس باب میں کہ اگر کوئی شخص جس نے سوائے کتب فارسی اور اردو کے جو کہ معمولی درس میں پڑھی ہوں اور اوس نے کس مدرسہ اسلامیہ یا علماء گرامی سے کوئی سند تحصیل علم نہ حاصل کی ہو اگروہ شخص مفتی بنے یا بننے کا دعویٰ کرے اور آیات قرآنی اور احادیث کو پڑھکر اوس کا ترجمہ بیان کرے اور لوگوں کو باورکراوے کہ وہ مولوی ہے تو ایسے شحص کا حکم یافتوی اور اقوال قابل تعمیل ہیں یا نہیں اور ایسے شخص کا کوئی دوسرا شخص حکم نہ مانے تو اسکے لئے شریعت میں کیا حکم ہے ۔
الجواب : سند کوئی چیز نہیں بہتیرے سند یافتہ محض بے بہرہ ہوتے ہیں اور جنہوں نے سند نہ لی اون کی شاگردی کی لیاقت بھی ان سند یافتو ں میں نہیں ہوتی ۔ علم ہونا چاہیے اور علم الفتویٰ پڑھنے سے نہیں آتا جب تک مدتہا کسی طبیب حاذق کا مطب نہ کیا ہو ۔ مفتیان کامل کے بعض صحبت یافتہ کہ ظاہری درس تدریس میں پورے نہ تھے مگر خدمت علماء کرام میں اکثر حاضر رہتے اور تحقیق مسائل کاشغل اون کا وظیفہ تھا فقیر نے دیکھا ہے کہ وہ مسائل میں آجکل کے صد ہا فارغ التحصیلوں بلکہ مدرسوں بلکہ نام کے مفتیوں سے بدرجہا زائد تھے پس اگر شخص مذکورفی السوال خواہ بذات خود خواہ بفیض صحبت علماء کاملین علم کافی رکھتاہے جو بیان کرتاہے غالباً صحیح ہوتا ہے اس کی خطا سے اس کا صواب زیادہ ہے تو حرج نہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ قدیم١٠/٢٣١)
مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : علم حاصل کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ طالب علم بن کر کسی مدرسہ میں اپنا نام لکھائے اور پڑھے جیسا کہ رائج ہے بلکہ اس کا مطلب یہ کہ علمائے اہلسنت سے ملاقات کرکے شریعت کا حکم ان سے معلوم کرے یا معتبر اور مستند کتابوں کے ذریعہ حلال وحرام اور جائز وناجائز کی جانکاری حاصل کرے ۔ (علم اور علماء از مفتی جلال الدین امجدی ص٢٤،چشتی)
علماء ِسو ء کی مذمت
جہاں پر علم و علماء کے فضائل و برکات ہیں وہاں بے عمل علماء کے لیے شریعت نے بہت سختی اختیار کی ہے ۔
حضرت داتا بخش رحمۃ اللہ علیہ غافل علماء کے بارے فرماتے ہیں : غافل علماء وہ ہیں جنہوں نے اپنے دل کاقبلہ دنیا کو بنارکھا ہے شریعت میں رخصتوں اور آسانیوں کی تلاش میں رہتے ہیں بادشاہوں کے حواری و پجاری ہیں اور ان کی سرکار دربار کے طواف کو وظیفہ حیات سمجھتے ہیں مخلوق میں جاہ ومرتبہ ان کے نزدیک معراج ہے فخر و غرور کی بدولت اپنی چالاکی اور عیاری پر فخر کرتے ہیں زبان وبیان میں تکلف و بناوٹ سے کام لیتے ہیں ، اساتذہ اور ائمہ پر طعن وتشنیع کرتے ہیں بزرگان دین کے بارے میں نہایت ہلکے پن کا اظہار کرتے ہیں اگر دونوں جہاں بھی ان کے ترازو کے پلڑے میں رکھ دیئے جائیں تو کچھ بار نہ پاسکیں حسد اور عناد ان کی فطرت اور خمیر بن چکاہے ، الغرض یہ ساری باتیں علم کے دائرے سے باہر ہیں علم تو ایسی نعمت ہے جس سے اس قسم کی تمام جاہلانہ باتیں خود بخود ختم ہو جاتی ہیں ۔ (کشف المحجوب ص١٠٠)
علماء کی تذلیل و تحقیرکرنا کیساہے ؟
علماء سوء کی مذمت پڑھنے کے بعد ہم بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے بارے جوبات بات پر علماء کو تعن و تشنیع کرتے نہیں چوکتے اور معاذ اللہ کچھ تو ایسے ہیں جو علماء ِحق کو گالیاں بھی دیتے ہیں ان لوگوں کے لیے شریعت نے حکم ِکفر لگایا ہے اس موضوع پر ہم علماء ِ کرام کی کچھ تصریحات بیان کرتے ہی ۔
اعلٰحضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کا ایک فتویٰ حاضرِخدمت ہے جو ان شاء اللہ اس عنوان کو کفایت کرے گا ۔
مسئلہ : کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی عالم و فقیہ کو گالی دے یا حقارت کرے تو اس کے اوپر حکم کفر جاری ہو گا یا نہیں اور اکثر عوام الناس اس زمانے میں عالموں کو گالی دیتے اور حقارت اور غیبت کرتے ہیں ۔ بینو ا توجروا ۔
الجواب : غیبت تو جاہل کی بھی سوا صور مخصوصہ کے حرام قطعی و گنا ہ کبیرہ ہے قرآن عظیم میں اسے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا فرمایا اور حدیث میں آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلّم فرماتے ہیں ایا کم و الغیبۃ فان الغیبۃ اشد من الزنا ان الرجل قدیزنی ویتوب فیتوب اللہ علیہ و ان صاحب ا لغیبۃ لایغفر لہ حتی یغفر لہ صاحبہ غیبت سے بچو کہ غیبت زنا سے بھی زیادہ سخت ہے کبھی ایسا ہوتاہے کہ زانی توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اوس کی توبہ قبول فرمالیتاہے اور غیبت کرنے والے کی بخشش ہی نہ ہو گی ، جب تک وہ نہ بخشے جس کی غیبت کی تھی ،رواہ ابن ابی الدنیافی ذم الغیبۃ و ابو الشیخ فی التوبیخ عن جابر بن عبداللہ و ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہم یوہیں بلاوجہ شرعی کسی مسلمان جاہل کی بھی تحقیر حرام قطعی ہے ۔رسو ل اللہ افرماتے ہیںبحسب امری من الشران یحقر اخاہ المسلم کل المسلم علی المسلم حرام دمہ و عرضہ و مالہ آدمی کے بد ہونے کو یہ بہت ہے کہ اپنے بھائی مسلمان کی تحقیر کرے مسلمان کی ہر چیز مسلمان پر حرام ہے خون آبرومال رواہ مسلم عن ابی ھریرۃرضی اللہ عنہ اسی طرح کسی مسلمان جاہل کوبھی بے اذن شرع گالی دینا حرام قطعی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلّم فرماتے ہیں سباب المسلم فسوق مسلمان کو گالی دینا گنا ہ کبیرہ ہے رواہ البخاری و مسلم والترمذی وا لنسائی وابن ماجہ وا لحاکم عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور فرماتے ہیں اسباب المسلم کا لمشرف علی الہلکۃ مسلمان کو گالی دینے والا اوس کی مانند ہے جو عنقریب ہلاکت میں پڑا چاہتاہے رواہ الامام احمد و البزاز عن عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ تعالیٰ عنہما بسند جید اور فرماتے ہیں ا من آذی مسلما فقد آذانی و من آذانی فقد آذی اللہ جس نے کسی مسلمان کو ایذادی اوس نے مجھے ایذادی او رجس نے مجھے ایذادی اس نے اللہ کو ایذادی رواہ الطبرانی فی الاوسط عن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بسند حسن جب عام مسلمانوں کے باب میں یہ احکام ہیںتو علماء کرام کی شان تو ارفع وا علی ہے ۔حدیث میں ہے رسول اللہافرماتے ہیں لایستخف بحقہم الا منافق علماء کے حق کو ہلکا نہ جانے گامگر منافق رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابی امامۃرضی اللہ تعالیٰ عنہ دوسری حدیث میں ہے فرماتے ہیں الا یستخف بحقہم الا منافق بین النفاق اون کے حق کو ہلکا نہ سمجھے گا مگر کھلا منافق رواہ ابو الشیخ فی التوبیخ عن جابر بن عبد اللہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہمااورفرماتے ہیں الیس من امتی من لم یعرف لعالمنا حقہ جو ہمارے عالم کا حق نہ پہچانے وہ میری امت سے نہیںرواہ احمد وا لحاکم وا لطبرانی فی الکبیر عن عبادۃ بن الصامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر اگر عالم کو اس لئے براکہتا ہے کہ وہ عالم ہے جب تو صریح کافر ہے اور اگر بوجہ علم اوسکی تعظیم فرض جانتا ہے مگر اپنی کسی دنیوی خصومت کے باعث برا کہتا ہے گالی دیتا تحقیر کرتا ہے تو سخت فاسق وفاجر ہے اور اگر بے سبب رنج رکھتا ہے تو مریض القلب خبیث الباطن ہے اور اوس کے کفر کا اندیشہ ہے ۔ خلاصہ میں ہے من ابغض عالما من غیر سبب ظاہر خیف علیہ الکفر منح الروض الازہر میں ہے الظاہر انہ یکفر الخ واللہ تعالیٰ اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم ۔ (فتاویٰ رضویہ قدیم ١٠/١٤٠،چشتی)
مذکورہ بالا تمام تفصیل سے معلوم ہوا کہ عالم کی تحقیر و تذلیل کتنا بڑا گناہ ہے او ربسا اوقات یہ گناہ قصداً کرنے سے حد کفر تک پہنچ جاتاہے ، لہٰذا ہمیں بھی غور کر لینا چاہیے کہ کہیں ہم بھی اس کبیرہ گنا ہ میں ملوث تو نہیں ،کبھی ایسابھی ہو تا ہے کہ جب ہم دوستوں میں بیٹھے ہوتے ہیں تو اگر کوئی ہمارا دوست کسی عالم دین کی توہین کر تا ہے تو ہم بھی اس کی ہا ں میں ہا ں ملاتے چلے جاتے ہیں یاد رکھیے کفر یہ کلام پر ہاں کرنا کافر کرد یتا ہے ۔
عالم دین سے قطع تعلقی کرنا
ہمارے بعض بد نصیب مسلمان بھائی ایسے بھی ہیں جو شیطان کے بہکاوے میں آ کر علماء سے لا تعلقی کا اظہار کر بیٹھتے ہیں کیونکہ شیطان تو پہلے ہی سے اولاد آدم کا دشمن ہے اور اسے معلوم ہے کہ اگر عوامی طبقہ علماء کے قریب آگیا تو یہ بے راہ روی سے کنارہ کش ہو جائیں گے اور مجھے اپنے مذموم مقصدمیں کامیابی نصیب نہیں ہوگی ۔ یاد رکھیئے عالم دین سے محض اپنے ذاتی ونفسانی بغض کی وجہ سے لاتعلق ہونا بہت بڑے گناہوں کاباب کھولنے والا ہے ۔
اسی مسئلہ کے بارے اعلٰحضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا : مسئلہ ٥١:ایک عالم نے اپنے متعدد وعظوں میں سود خوری ،شراب فروشی ، شراب نوشی ، بیع لحم خنزیر ، اکل غیر مذبوح مرغ ،زناکاری ،لواطت واغلام کی حرمت قرآن و حدیث سے بیان کی اور میراث کے مسئلے میں محمد ن لاء (شریعت محمدی) کو چھوڑ کر ہندو لاء (ہندو دھرم)قبول کرنے کو کفر ِ صریح بتلایا جس جماعت میں یہ باتیں تھیں بجائے اس کے کہ ان باتوں کو ترک کردیتے اور توبہ واستغفار کرتے اور خدا ل و رسول ا کے حکم کے آگے سر جھکادیتے خلاف اس کے ضد اور نفسانیت میں آن کر اپنی جماعت کواکٹھا کر کے اتفاق کر لیا کہ جماعت کا کوئی فرد اپنے ہاں اس عالم کے وعظ کی مجلس منعقدنہ کر ے اور اگرکیا تو جماعت سے خارج کر دیا جائیگا ،آیا اس صورت میں شرعاًاس جماعت کا کیا حکم ہے اور دوسرے مسلمانوں کو شرعاً اس جماعت سے قطع تعلق کرناچاہیے یانہیں ؟بدلائل شرعیہ جواب لکھ کر عند اللہ ماجورہوں ۔
الجواب : اس صورت میں جماعت سخت ظالم اور عذاب شدید کی اور اس آیت کریمہ کی مصداق ہے ،واذا قیل لہ اتق اللہ اخذتہ العزۃ بالاثم فحسبہ جھنم اورجب اس سے کہاجائے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرئیے تو اسے گناہ،مزید ضد (اورطیش)پر آمادہ کرے اورابھارے ،پس (بد نصیب)کے لئے دوزخ ہی کافی ہے ۔ (القرآن٢،٢٠٦) اگروہ لوگ توبہ نہ کریں تو مسلمانوں کو ان سے قطع تعلق چاہیے ورنہ بحکم احادیث کثیرہ وہ بھی ان کے ساتھ شریک عذاب ہونگے اوشک ان یعمھم اللہ بعقاب منہ (قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اس کے عذاب میں شامل اورشریک فرمائے)واللہ تعالیٰ اعلم'' ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید، ٢٤/١٧٣،١٧٤)
عالمِ دین کو ہلکا جاننا
عالمِ دین کو ہلکا جاننے والے کے بارے میں سرکارِدوعالم اکی چند احادیث ملاحظہ فرمائیں المعجم الکبیر میں ہے : لایستخف بحقھم الامنافق''عالم کو ہلکا نہ جانے گا مگر منافق ۔ (المعجم الکبیر،حدیث٧٨١٩،٨/٢٣٨)
کنزالعمال میں ہے : لایستخف بحقھم الامنافق بین النفاق رواہ ابو الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہما'' ان کے حق کو ہلکا نہ سمجھے گا مگر کھلا منافق اسے ابو الشیخ نے التوبیخ میں حضرت جابر بن عبداللہ انصاری صسے روایت کیا ۔ (کنزالعمال بحوالہ ابی الشیخ رقم الحدیث٤٣٨١١،١٦/٣٢)
مسند احمد بن حنبل میں ہے : لیس من امتی من لم یعرف لعالمنا حقہ رواہ احمد و الحاکم والطبرانی فی الکبیر عن عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ''ان کے حق کو ہلکا نہ سمجھے گامگر کھلا منافق اسے ابو الشیخ نے التوبیخ میں حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ص سے روایت کیا ۔ (مسند امام احمد بن حنبل حدیث عبادہ ابن صامت ٥/٣٢٣،چشتی)
خلاصۃ الفتاویٰ میں ہے : من ابغض عالما من غیر سبب ظاھر خیف علیہ الکفر''جو کسی عالم سے بغیر سبب ظاہری کے عداوت رکھتا ہے اس کے کفر کا اندیشہ ہے ۔ (خلاصۃ الفتاویٰ،کتاب الفاظ الکفر الفصل الثانی ٤/٣٨٨)
منح الروض میں ہے : ''الظاھر انہ یکفر'' ظاہر یہ ہے کہ وہ کافر ہو جائے گا ۔
(منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر فصل فی العلم والعلماء صفحہ١٧٣)
اپنے آپ کو عالم یا مولوی کہنا
اعلٰحضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : اپنے آپ کو بے ضرورت شرعی مولوی صاحب لکھنابھی گناہ و مخالف حکم قرآن عظیم ہے قال اللہ تعالیٰ ھو اعلم بکم اذانشاکم من الارض واذانتم اجنۃ فی بطون امھٰتکم فلاتزکوا انفسکم ھواعلم بمن اتقیٰ ، اللہ تمھیں خوب جانتا ہے جب اوس نے تمھیں زمین سے اوٹھان دی اورجب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں چھپے تھے تو اپنی جانوں کو آپ اچھا نہ کہو خداخوب جانتاہے جو پرہیز گار ہے اورفرماتا ہے الم ترالی الذین یزکون انفسھم بل اللہ یزکی من یشاء کیا تونے نہ دیکھا اون لوگوں کو جوآپ اپنی جان کو ستھرابتاتے ہیں بلکہ خدا ستھرا کرتا ہے جسے چاہے ۔حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلّم فرماتے ہیں من قال انا عالم فھوجاھل جو اپنے آپ کو عالم کہے وہ جاہل ہے رواہ الطبرانی فی الاوسط عن ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنھما بسند حسن ہاں اگرکوئی شخص حقیقت میں عالم دین ہو اور لوگ اوس کے فضل سے ناواقف اور یہ اس سچی نیت سے کہ وہ آگاہ ہو کر فیض لیں ہدایت پائیں اپنا عالم ہونا ظاہر کرے تومضائقہ نہیں جیسے سیدنا یوسف علیٰ نبینا الکریم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے فرمایا تھا انی حفیظ علیم ۔ (فتاویٰ رضویہ قدیم ١٠/٩٥،٩٦،چشتی)
مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کو نائبِ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں ۔ کسی نے ان کو حامی سنت ، ماحی بدعت ،مونسِ اہل لغت ، نمونہ اسلاف ، معجمہ فیضِ غوث و رضا ، عالم باعمل ، عاشقِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و الہ وسلّم کہا تو کسی نے سر شارِ عشق و محبت کہا کسی نے فدائے غوث الوریٰ رحمۃ اللہ علیہ وفدائے مدینہ ، فدائے سیدنا امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کہاتو کسی نے ناشر و مبلغ و پاسبان و ترجمانِ رضا کہا تو کسی نے مبلغِ اسلام و سنتِ خیر الانام کہا اور کسی نے مخدومِ اہل سنت ، محسنِ ملت ، پیر طریقت کہا تو کسی نے عالِم باعمل ، پیکرِسنت ، نائبِ اعلٰحضرت ، نائبِ غوثِ اعظم ، مبلغِ عصر ، عالِم نبیل ، فاضلِ جلیل کہا ، کسی نے محسنِ دین و ملت کہا ، تو کسی نے شیخِ وقت ، صاحبِ عشق و محبت کہا ، کسی نے مردِ قلندر ، پیکرِ صدق و صفا ، مجسمہ خلوص و وفا کہا ۔ یہ القاب کہکشانِ فلک کے ان مہکتے ستاروں کے عطا کردہ ہیں ، جو خود وقت کا کوئی مفتی ہے تو کوئی عالِم دین ، کوئی مدرسِ بے مثل ہے تو کوئی مصنف ِ کتب کثیرہ ہے کوئی خلیفہ اعلٰحضرت ہے تو کوئی جگر گوشہ شارح بخاری ہے ، ان کے اسما بالترتیب ملاحظہ فرمائیں ، علامہ شریف الحق امجدی ، علامہ فیض احمد اویسی ، علامہ مفتی عبدالقیوم ہزاروی ، علامہ مفتی محمد اشفاق ، علامہ مفتی محمد اشرف سیالوی ، علامہ محمد حسن رضا ، علامہ ابوداؤد محمد صادق ، علامہ گل احمد عتیقی ، علامہ مفتی ابراہیم ، علامہ عبدالستارسعیدی ، علامہ مفتی محمد خان ، علامہ محمد یا ر ، علامہ صدیق ہزاروی،علامہ محمد محب الحق ،علامہ حلیم احمد اشرفی،علامہ رضا المصطفیٰ ،علامہ عظمت علی ، فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی ، علامہ حافظ محمد رمضان ، علامہ عارف سعیدی ، علامہ صاحبزادہ عبدا لمالک ، علامہ خاد م حسین ، علامہ محمد ناصر ، علامہ سید نظام علی شاہ ،علامہ مقبو ل احمد،علامہ مفتی شوکت سیالوی ، علامہ شفیق احمد قادری ،علامہ ضیاء الحسن ، علامہ محمد امین ،علامہ گوہرعلی ، علامہ احمد یار ، علامہ عبدالحمید چشتی ، علامہ شیرمحمد رحمھم اللہ و دامت برکاتھم العالیہ (بہت سے علماء و مشائخ کے نام رہ گئے اللہ عزّوجلّ ان سب کو جزائے خیر عطاء فرمائے آمین) ، ان علم کے ماہتابوں کا امیر اہلسنت کوان القاب سے نوازنا کوئی اچنبے کی بات نہیں ہے بلکہ آئندہ آنے والے مضمون سے یہ عیاں ہو جائے گا کہ امیرِ اہلسنت کی عظیم ہستی ایک ایسا گوہرِ نایاب ہے کہ جن کے لیے القاب خود محتاج بیان ہوتے ہیں ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment