فلسفۂ قربانی اور بے دینوں کے اعتراضات کا جواب
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : قربانی بڑا ہی مقدس اور با برکت لفظ ہے ۔ اس میں بڑی وسعت اور گہرائی ہے ۔ اس کا رشتہ انسانی زندگی سے اتنا مضبوط اور گہرا ہے کہ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے ،جتنی کہ انسانی وجود کی تاریخ ۔ اس سے بخوبی یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ ہماری زندگی میں اس کی کتنی بڑی اہمیت ہے ۔ قربانی ہر زمانے میں دنیا کی تمام قوموں کا شعار رہا ، لوگ مختلف زمانوں میں مختلف طریقے اور ڈھنگ سے اس مقدس عبادت پر عمل پیرا رہیں ، اور اسے اپنا وظیفہ زندگی بنایا ۔
حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر قربانی کا جو سلسلہ شروع ہوا تو کبھی منقطع نہیں ہوا، بلکہ یہ سلسلہ صدیوں سے جاری و ساری رہا۔ کتنی تہذیبیں اسی کے دم سے وجود میں آئیں۔ کتنے اہل وفا اس راہ کی خاک چھانتے رہے۔کتنوں نے اس پر اپنی عمریں کاٹ دیں۔ساری عبادتیں ہوتی رہیں، سارے طریقے انجام پاتے رہے، صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اس مقدس عمل کا عالمی ابدی اور ہمہ گیر پیغام دنیا کے سامنے آنا ابھی باقی تھا۔اس کے اسرار اور حقائق سے پردے اب بھی نہ اٹھ سکے۔وقت اس بات کا متقاضی تھا۔رحمت الہی کے جوش میں آنے کا وقت قریب آچکا تھا۔قوموں کی قسمت چمکنے والی تھی۔اتنے عظیم کام کو سرانجام دینے کے لئے ایسے عاشق کی ضرورت تھی جو اس بلند مقصد کو پانے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے آمادہ ہو۔اس کی راہ میں عشق مجازی کے پردے اگر حائل ہوں تو عشق حقیقی کی تپش کے سامنے پگھل جائیں، اور وہ شمع الہی میں اپنی ہستی فنا کر دینے کے لئے بیقرار ہو۔اس عظیم الشان کام کو انجام دینے کے لئے اللہ نے ایسی ہستی کا انتخاب فرمایا جو سب کے نزدیک مسلم بلکہ قابل تقلید تھی جس سے قربانی کا لاثانی پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قربانی کو پانے تکمیل تک پہنچانے کےلیے ایسا انوکھا حیرت انگیز طریقہ اپنایا، جہاں عقل و خرد کی رسائی ممکن نہیں۔ اور دنیا کی تاریخ میں اس کی کوئی سند پیش کرنے سے قاصر تھی۔غور کیجۓ اتنے عظیم نازک جان گسل کام کے لئے محض ایک خواب کا سہارا لیا گیا۔اس میں کمال اظہار بندگی اطاعت و تابعداری تسلیم و رضا عشق حقیقی اور فنائیت کا امتحان تھا۔یہ خلیل الرحمٰن ہی کا دل تھا جس نے ایک اشارہ پاتے ہی اپنی زندگی کے بیش قیمت سرمایہ کو قربان کرنے کے لئے دل و جان سے تیار ہو گۓ۔اور اپنے مالک کے حضور اپنا سر تسلیم خم کر دیا۔آپ نے بندگی کی ایسی مثال قائم کردی اور محبت کی ایسی ڈگر کھول دی جہاں تک رسائی کے بغیر عبودیت مکمل نہیں ہو سکتی۔ عبودیت کی یہی معراج ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس عمل کو رہتی دنیا تک کے لیے جاری فرمادیاارشاد ہوتا ہے۔"فلما اسلما و تلہ للجبین نادینہ ان یا ابراھیم قد صدقت الرءیا اناکذالک نجزی المحسنین ان ھذا لھو البلو المبین و فدینہ بذبح عظیم وترکنا علیہ فی الآخرین سلام علی ابراھیم۔"دوسرے موقع پر ارشاد باری تعالیٰ ہے"قد کان لکم اسوۃ حسنۃ فی ابراھیم والذین معہ"۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی تمہارے لیے سب سے اچھا اسوہ ہے ۔ (چشتی)
اللہ کا کرم اور نوازشات دیکھیے ، اس عمل کو ہمارے لئے کس قدر آسان بنا دیا کہ اس کی جگہ جانور کو قربان کرنے کا حکم دیا۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ کوئی عمل اللہ کو پسند نہیں۔قربانی کا یہ عمل قیامت کے دن اپنی سینگوں بالوں اور گھروں کے ساتھ سامنے آۓ گا۔قربانی کا خون زمین پر گر نے سے پہلے ہی اللہ کی بارگاہ میں قبولیت پا لیتا ہے ۔قربانی ہی ایک ایسا عمل جو پورا کا پورا جیتی جاگتی تصویر کی شکل میں پیش کیا گیا ، کوئی بھی چیز پردے کے پیچھے نہیں چھوڑی ۔ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ ساری عبادات کی روح اور اس کا فلسفہ قربانی ہے ۔
قربانی دراصل اس تجدیدِ عہد کا نام ہے جس کی طرف قرآن مجید نے یوں ارشاد فرمایا کہ ایک بندہ مومن اللہ رب العزت کی بارگاہ میں یوں ملتمس ہوتا ہے: ’’بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی سمیت سب بندگی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔ (سورہ الانعام 162) ۔ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو تسلیم و رضا ، ایثار اور قربانی کا وہ راستہ دکھایا ہے جوایمانی ، روحانی ، معاشی ، معاشرتی سماجی اور اخروی حوالے سے نفع آفرین ہے۔ عید الاضحی آتی ہے تو دنیا بھر میں اہل اِسلام حضرت ابراہیم علیہ السلام ،ان کے نور نظر حضرت اسماعیل علیہ السلام اور سیدہ ہاجرہ سلام اللہ علیہا کے عظیم جذبہ ایثار وقربانی کی یاد مناتے ہیں۔ اس گھرانے کے ہر فرد نے عملی طور پر ایثار کے پیکر میں ڈھل کرحکم ربانی کے سامنے سر جھکایا ۔ اپنے انسانی جذبات کو اللہ کے حکم کی تعمیل میں رکاوٹ نہیں بننے دیا اور قیامت تک آنے والے مسلمانوں کےلیے ایک مینارہ نور قائم کیا جو ہر سال مسلمانوں کو جھنجوڑ کر یہ کہتا ہے : دیکھو کہیں فانی دنیا کی فانی راحتوں میں گم نہ ہو جانا بلکہ اپنے رب کی رضا پر سب کچھ لٹا دینا ، اسی صورت دونوں جہاں کی رحمتوں کو حاصل کرلو گے ۔ یہ بات شعوری طور پر سمجھنے اور سمجھانے کی ہے کہ قربانی کا مقصد فقط ایک رسم ادا کرنا نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک سہ روزہ تربیتی ورکشاپ ہے جو ہمیں ہر سال تسلیم و رضا ، ایثار اور قربانی کے ان جذبات سے آشنا کرواتی ہے جو ایمان کی معراج ہیں ۔ آدابِ فرزندی سے سرشار عظیم باپ کے عظیم بیٹے نے اپنی گردن کسی تردد کے بغیر اللہ تعالی کے حکم کی تنفیذ کےلیے پیش کر دی ۔ ایک ماں نے برسوں کی دعاٶں ، التجاٶں اور مناجاتوں کے بعد حاصل ہونے والے اپنے نور ِ نظر کو بلند حوصلے کے ساتھ اللہ تعالی کی بارگاہ میں پیش کر دیا ۔ ایک عظیم باپ نے کسی تردد کے بغیر پدری جذبات کو اللہ تعالی کے حکم پر قربان کرتے ہوئے تسلیم و رضا کی بلند ترین حدوں کو چھو لیا اور عملی طور پر اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی کوشش فرمائی ۔ اللہ تعالی نے اپنے خلیل کو اپنے خاص لطف و کرم سے نوازنے کےلیے جس امتحان میں ڈالا تھا اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی نہیں ان کا پورا گھرانا ہی اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہو گیا ۔ قیامت تک حج کی سعادت پانے والے دنیا بھر کے مسلمان منی میں قربانی پیش کرتے ہوئے اس قربانی کی یاد مناتے رہیں گے ۔ عید الاضحی دلوں میں ایثار اور تسلیم و رضا کے چراغ جلاتی رہے گی ۔ جس رب نے ہمیں قربانی کا حکم دیا ہے وہ جانوروں کی نسل کی بقا کا علم بھی رکھتا ہے اور اپنے بندوں کی فلاح و بہبود کو بھی خوب جانتا ہے ۔ کسی کلمہ گو کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ قربانی کے حوالے سے اپنے محدود اور تاریک ذہن کے خیالات کو خدمتِ خلق کے تناظر میں زیادہ نفع آفرین گمان کرے ۔ ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم یاد تو اس عظیم قربانی کی منائیں مگر عملی طور ایثار کے راستے پر نہ چلیں ۔ ہمارا یہ طرز عمل نہیں ہونا چاہیے کہ فقط جانور ذبح کر دیں بلکہ قربانی کو وسیع تناظر میں دیکھتے ہوئے ہمیں قربانی کا درس سارا سال پیش نظر رکھنا چاہیے تاکہ ہم اللہ تعالی کی رضا حاصل کر سکیں ۔ اگر اللہ تعالی نے ہمیں اعلیٰ منصب عطا فرمایا ہے تو وہ منصب اقربا پروری اور ناجائز منفعت حاصل کرنے پر صرف نہ کریں بلکہ اللہ تعالی کی مخلوق کو راحت پہچانے میں صرف کریں ۔ نیز خلقِ خدا کی راحت کو اپنی خواہشات پر ترجیح دیں ۔ اپنی زبان یا قلم سے کسی ضرورت مند کو نفع دے نہیں سکتے ہیں تو اس ضرورت مند کی حسرتوں کا خون نہ نچوڑیں بلکہ اپنے اختیارات اور منصب کے ذریعے اس کے تن بدن میں خوشیاں دوڑا دیں ۔ عید الاضحیٰ اور انسانی خواہشات کی قربانی کے حوالے سے ذہن میں رکھنے والی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم قربانی کے جانور کا گلا توکاٹ دیتے ہیں مگر ہم اپنی خواہشات کے گلے پر چھری پھیرنا تو دور کی بات ہے چھری رکھنا بھی گوارا نہیں کرتے ۔ عید الاضحیٰ آکر چلی جاتی ہے مگر ہمارے قلوب و اذہان قربانی کے جذبوں سے خالی کے خالی ہوتے ہیں ۔ ہم قربانی کے عمدہ جانور خریدتے ہیں تو دکھاوے کی دلدل میں الجھ جاتے ہیں یا ان ناداروں کی دل آزاری کا سبب بن جاتے ہیں جو نہ توقربانی کےلیے کوئی سستا سا جانور خرید سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی صاحب ثروت انسان انہیں قربانی کے گوشت میں سے ان کا اچھا حصہ دیتا ہے ۔ اس پوری تفصیل سے اس امرکی نشاندہی ہوتی ہے کہ عیدالاضحیٰ پر جانوروں کی قربانی پیش کیے جانے کے پس منظرمیں ایک مکمل فلسفہ ہے اوراسی فلسفے کے تحت یہ ایک مستقل واجب ، عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے ۔عیدالاضحیٰ یا عید قربان کے تین دنوں میں جانور وں کی قربانی کر دینے سے بہتر کوئی عمل ایسا نہیں جو ابنِ آدم اللہ کی بارگاہ میں پیش کرسکے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ منورہ کے 10سالہ قیام میں ہر سال قربانی فرمائی ۔ اس ساری بحث کا لب لباب یہ ہے کہ ہر عمل کے اپنے مخصوص ثمرات اور فیوض و برکات ہوتے ہیں جو قرب الہی کا ذریعہ بنتے ہیں مگر عید قربان میں قربانی کے عمل کو کیوں اللہ کے انتہائی قرب کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے ؟ قربانی کا یہ عمل صرف جانور کو ذبح کرنے تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ گہرے اور دور رس اثرات (Implications) رکھتا ہے ۔ جانور کے ذبح کرنے کے عمل کو قربانی سے اس لیے موسوم کیا گیا ہے کہ یہ عمل بندے کو اللہ کے انتہائی قریب کر دیتا ہے ۔ لیکن اس میں قربانی کرنے والے بندے کا اخلاص ایک سوالیہ نشان کے طور پر سامنے آتا ہے ۔ کیا وہ قربانی جو بندہ پیش کر رہا ہے اس سے اللہ کی بارگاہ سے مطلوبہ نتائج حاصل ہوئے ہیں ؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو اس کا عمل ’’قربانی‘‘ اس کے لیے اللہ سے انتہائی قرب کا سبب قرار دیا جائے گا ۔ گویا قربانی کی روح حقیقت میں اس قربانی کے پیچھے کار فرما ’’اخلاص‘‘ ہے ۔
اسلام کا فارسی میں ترجمہ ہے ، گردن نہادن ، اردو میں گردن جھکانا ، خم کرنا ، جب گردن جھکانے کا محرک اطاعت و فرمانبرداری کے جذبات ہوں تو اُسے اردو میں تسلیم خم بھی کہا جاتا ہے ۔ اطاعت و فرمانبرداری کے جذبہ سے گردن جھکانے والے کو مسلم کہتے ہیں ، اسی سے مسلم یا مسلمان اصطلاح سمجھ میں آتی ہے کہ مسلمان یا مسلم احکام الٰہی کے سامنے تسلیم خم کرنے یا گردن جھکانے والے کو کہتے ہیں ۔ مسلمان کا جذبۂ ایمانی ہمیشہ اُسے تیار رکھتا ہے کہ جو بھی حکم الٰہی جب اور جیسے اس کی طرف متوجہ ہو ، اُسے بجا لایا جائے ، وہ اُسے بلاچوں و چرا قبول کرلیتے ہیں ، لیکن بعض کج رو ، کج فہم اور کوتاہ نظر اپنے مقامِ حقارت سے اوپر اچھل اچھل کر اللہ تعالیٰ کے بعض احکام کو اپنی ناقص عقل کی گھسی پٹی کسوٹی پر پرکھ کر قبول یا رد کرنے کی ناروا جسارت کرنے لگتے ہیں اور ایسے لوگ جب ابلاغی ذرائع کا حصہ ہوں یا ذرائع ابلاغ تک ان کی رسائی میں کوئی مشکل نہ ہو تو وہ اسلامی احکام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے اور اپنی کج فہمی کے مسموم جراثیم مسلمانوں کے درمیان عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، ایسے ہی اسلامی احکام میں اہم پُرحکمت حکم ‘ قربانی کا حکم بھی ہے جو امت مسلمہ ‘ سالانہ بجالاتی ہے اور بھرپور جذبۂ ایمانی سے ادائیگی کا اہتمام کرتی ہے ، مگر ایک عرصہ سے بعض نادان اس سنت ابراہیمی سے متعلق اپنے فاسد خیالات کو عام کرنے کی کوشش کررہے ہیں ، اس لیے ماہ ذوالحجہ کی مناسبت سے مناسب معلوم ہوا کہ قربانی سے متعلق ایسے بے دینوں کے سطحی شکوک و شبہات کا علمی جائزہ لیا جائے ، آئندہ سطور میں یہی کوشش کی جارہی ہے ۔ ہر جدید تہذیب و تمدن کا دلدادہ اور مغربیت سے متأثر ذہنیت رکھنے والا اس ماہِ مبارک کے شروع ہوتے ہی سادہ لوح اور مذہب پسند مسلمانوں کا ذہن خراب کرنا شروع کر دیتا ہے کہ قربانی کی وجہ سے جانوروں کی نسل کشی ہوتی ہے ، لاکھوں لوگوں کی یہ رقمیں بلا وجہ ضائع ہوتی ہیں ، اس کے بجائے اگر اتنا مال رفاہِ عامہ کے مفید کاموں ، ہسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح و بہبود کےلیے خرچ کیا جائے ، تو معاشرے کے بہت بڑے غریب اور مفلس طبقے کا بھلا ہو جائے گا ، یہ افراد بھی زندگی کی ضروری سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکیں گے ، وغیرہ وغیرہ ، اس طرح منکرینِ قربانی اپنی عقلِ نارسا سے کام لیتے ہوئے بزعمِ خود قربانی کے نقصانات اور ترکِ قربانی کے فوائد بیان کرتے نظر آتے ہیں اور اس کی وجہ سے عام مسلمان ان نام نہاد دانشوروں کے زہریلے پروپیگنڈے اور بہکاوے میں آ کر اسلام کے اس عظیم الشان حکم کو ترک کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ان دنوں (دس ذو الحجہ) میں دائمی عمل اس صورتِ حال میں سب سے پہلے تو غور کرنے کی یہ بات ہے کہ عید الاضحیٰ کے اس خاص موقع پر اگر قربانی کرنے کی بنسبت انسانیت کی فلاح و بہبود میں مال خرچ کرنا اتنا ہی افضل ، موزوں و مناسب یا ضروری ہوتا توجناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں اہلِ ثروت اور صاحبِ نصاب مسلمانوں پر قربانی کے حکم کے بجائے غریب ، سسکتی اور بد حال انسانیت پر مال خرچ کرنا ضروری قرار دیا جاتا، جب کہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہر دور میں غریب اور نادار طبقہ موجود رہا ہے ، تو یقیناً آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مبارک دور میں بھی یہ طبقہ موجود تھا ، بلکہ ایسے افراد تو بکثرت موجود تھے ، لیکن رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (جو اپنی امت کےلیے بہت ہی زیادہ شفیق اور مہربان تھے) نے اپنے زمانہ کے اہلِ ثروت اور صاحبِ نصاب مسلمانوں کو اس (عید الاضحی کے ) موقع پر یہ حکم نہیں دیا کہ وہ اپنا مال رفاہِ عامہ کے مفید کاموں ، ہسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح و بہبود کےلیے خرچ کریں ، بلکہ یہ حکم فرمایا کہ اس موقع پر اللہ کے حضور جانور کی قربانی پیش کریں ۔ اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دائمی عمل ان دنوں میں قربانی کرنے کا ہی تھا ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ میں دس سال قیام فرمایا (اس قیام کے دوران) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قربانی کرتے رہے : عن ابن عمر قال : أقام رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بالمدینۃ عشر سنین یضحی ۔ (سنن الترمذی، الأضاحی، باب الدلیل علی أن الأضحیۃ سنۃ، رقم الحدیث: ۱۵۰۷،چشتی)
اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس عظیم حکم کو ہمیشہ قائم و دائم رکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی کرنا ہی افضل ، اولیٰ اور ضروری ہے ۔ ایامِ قربانی میں قربانی افضل ہے یا نقد صدقہ ؟ امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : قربانی کے ایام میں بنسبت صدقہ کرنے کے قربانی کرنا افضل ہے ۔ امام ابو داؤد ، امام ربیعہ اور ابو الزناد رحمہم اللہ علیہم وغیرہ کا یہی مسلک ہے ۔ (المغنی لابن قدامہ: ۱۱/۶۹،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا یہی عمل تھا ۔ اگر ان حضرات کے نزدیک اس سے بہتر کوئی عمل ہوتا تو وہ یقیناً قربانی کی بجائے اسی کو اختیار کرتے ، دوسری بات یہ کہ ایسا ہو بھی کیسے سکتا تھا ، جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا صریح فرمان مبارک موجود ہے کہ : اس دن میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک (قربانی کے جانور کا) خون بہانے سے بڑھ کر بنی آدم کا کوئی عمل پسندیدہ نہیں ہے ۔ عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ’’ما عمل آدمی من عمل یوم النحر أحب إلی اللّٰہ من إھراق الدم ۔ (سنن الترمذی، فضل الأضحیۃ، رقم الحدیث: ۱۴۹۳،چشتی)
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کسی کام میں مال خرچ کیا جائے تو وہ عید الاضحیٰ کے دن قربانی میں خرچ کیے جانے والے مال سے افضل نہیں ۔ عن ابن عباس قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : ماأنفقت الورق فی شییٔ أفضل من نحیرۃ فی یوم العید ۔(سنن الدارقطنی، کتاب الأشربۃ، باب الصید والذبائح والأطعمۃ، رقم الحدیث: ۴۳،چشتی)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی طرح ذکر کرتے ہیں کہ صحیح احادیثِ مشہورہ کی بنا پر شوافع کے نزدیک ان دنوں میں قربانی کرنا ہی افضل ہے ، نہ کہ صدقہ کرنا، اس لیے کہ اس دن قربانی کرنا شعارِ اسلام ہے ، یہی مسلک سلف صالحین کا ہے۔ (المجموع شرح المہذب: ۸/۴۲۵)
البتہ ! وہ افراد جن پر قربانی کرنا واجب نہیں ہے ، اُن کےلیے یا اُن کی طرف سے قربانی کرنے کی بجائے صدقہ کرنا افضل شمار ہو گا ۔ (البحر الرائق: ۸/۲۰۲)
صاحب مرعاۃ المفاتیح شارح مشکاۃ المصابیح لکھتے ہیں کہ : بعض فقہاء کے نزدیک قربانی واجب ہے اور بعض کے نزدیک سنت مؤکدہ، لیکن بہرصورت اس دن میں قربانی کرنا یعنی: خون بہانا متعین ہے، اس عمل کو چھوڑ کر جانور کی قیمت صدقہ کر دینا کافی نہیں ہو گا، اس لیے کہ صدقہ کرنے میں شعائر اسلام میں سے ایک بہت بڑے شعار کا ترک لازم آتا ہے، چنانچہ! اہل ثروت پر قربانی کرنا ہی لازم ہے۔ ‘‘(مرعاۃ المفاتیح: ۵/۷۳) کیا قربانی سے جانوروں کی نسل کُشی ہوتی ہے؟ ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کا یہ نظام چلا آ رہا ہے کہ انسانوں یا جانوروں کو جس چیز کی ضرورت جتنی زیادہ ہوتی ہے، حق تعالیٰ شانہ اس کی پیدائش اور پیداوار بڑھا دیتے ہیں اور جس چیز کی جتنی ضرورت کم ہوتی ہے تو اس کی پیداوار بھی اتنی ہی کم ہو جاتی ہے، آپ پوری دنیا کا سروے کریں، اچھی طرح جائزہ لیں کہ جن ممالک میں قربانی کے اس عظیم الشان حکم پر عمل کیا جاتا ہے، کیا ان ممالک میں قربانی والے جانور ناپید ہو چکے ہیں یا پہلے سے بھی زیادہ موجود ہیں ؟آپ کبھی اور کہیں سے بھی یہ نہیں سنیں گے کہ دنیا سے حلال جانور ختم ہو گئے ہیں یا اتنے کم ہوگئے ہیں کہ لوگوں کو قربانی کرنے کےلیے جانور ہی میسر نہیں آئے، جبکہ اس کے برخلاف کتے اور بلیوں کو دیکھ لیں، ان کی نسل ممالک میں کتنی ہے؟! حالاںکہ تعجب والی بات یہ ہے کہ کتے اور بلیاں ایک ایک حمل سے چار چار پانچ پانچ بچے جنتے ہیں، لیکن ان کی تعداد حلال جانوروں کے مقابلہ میں بہت کم نظر آتی ہے ۔
قرآن پاک کی آیت : ’’وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْیٍٔ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ‘‘ ۔
اس آیت کے لفظی معنی یہ ہیں کہ تم جو چیز بھی خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اپنے خزانۂ غیب سے تمہیں اس کا بدل دے دیتا ہے ، کبھی دنیا میں اور کبھی آخرت میں اور کبھی دونوں میں ۔ کائناتِ عالَم کی تمام چیزوں میں اس کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ آسمان سے پانی نازل ہوتا ہے ، انسان اور جانور اس کو بے دھڑک خرچ کرتے ہیں ، کھیتوں اور درختوں کو سیراب کرتے ہیں، وہ پانی ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا اس کی جگہ اور نازل ہو جاتا ہے ، اسی طرح زمین سے کنواں کھود کر جو پانی نکالا جاتا ہے ، اس کو جتنا نکال کر خرچ کرتے ہیں اس کی جگہ دوسرا پانی قدرت کی طرف سے جمع ہو جاتا ہے ۔ انسان غذا کھا کر بظاہر ختم کر لیتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسری غذا مہیا کر دیتا ہے ۔ بدن کی نقل و حرکت اور محنت سے جو اجزاء تحلیل ہو جاتے ہیں ، ان کی جگہ دوسرے اجزاء بدل بن جاتے ہیں ۔ غرض انسان دنیا میں جو چیز خرچ کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ کی عام عادت یہ ہے کہ اس کے قائم مقام اس جیسی دوسری چیز دے دیتا ہے ۔ کبھی سزا دینے کےلیے یا کسی دوسری تکوینی مصلحت سے اس کے خلاف ہو جانا اس ضابطۂ الٰہیہ کے منافی نہیں ۔ اس آیت کے اشارہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جو اشیا صرف انسان اور حیوانات کےلیے پیدا فرمائی ہیں ، جب تک وہ خرچ ہوتی رہتی ہیں، ان کا بدل منجانب اللہ پیدا ہوتا رہتا ہے ۔ جس چیز کا خرچ زیادہ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی پیداوار بھی بڑھا دیتا ہے ۔ جانوروں میں بکرے اور گائے کا سب سے زیادہ خرچ ہوتا ہے کہ ان کو ذبح کر کے گوشت کھایا جاتا ہے اور شرعی قربانیوں اور کفارات و جنایات میں ان کو ذبح کیا جاتا ہے ، وہ جتنے زیادہ کام آتے ہیں ، اللہ تعالیٰ اتنی ہی زیادہ اس کی پیداوار بڑھا دیتے ہیں ، جس کا ہر جگہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ بکروں کی تعداد ہر وقت چھری کے نیچے رہنے کے باوجود دنیا میں زیادہ ہے ، کتے بلی کی تعداد اتنی نہیں ، حالانکہ کتے بلی کی نسل بظاہر زیادہ ہونی چاہیے کہ وہ ایک ہی پیٹ سے چار پانچ بچے تک پیدا کرتے ہیں ، گائے بکری زیادہ سے زیادہ دو بچے دیتی ہے ، گائے بکری ہر وقت ذبح ہوتی ہے ، کتے بلی کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا ، مگر پھر بھی یہ مشاہدہ ناقابلِ انکار ہے کہ دنیا میں گائے اور بکروں کی تعداد بنسبت کتے بلی کے زیادہ ہے ۔ جب سے ہندوستان میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگی ہے ، اس وقت سے وہاں گائے کی پیداوارگھٹ گئی ہے ، ورنہ ہر بستی اور ہر گھر گایوں سے بھرا ہوتا جو ذبح نہ ہونے کے سبب بچی رہیں ۔ عرب نے جب سے سواری اور باربرداری میں اونٹوں سے کام لینا کم کر دیا ، وہاں اونٹوں کی پیداوار بھی گھٹ گئی ، اس سے اس ملحدانہ شبہ کا ازالہ ہو گیا ، جو احکامِ قربانی کے مقابلہ میں اقتصادی اور معاشی تنگی کا اندیشہ پیش کر کے کیا جاتا ہے ۔ (ماخوذ تفسیر تبیانُ القرآن سورۃ السبأ)
رفاہی کاموں کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے ہماری اس بحث کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ رفاہِ عامہ کے مفید کاموں ، ہسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح و بہبود کےلیے غریب و مساکین اور ناداروں پر خرچ نہیں کرنا چاہیے ، بلکہ ہمارا مقصود محض یہ ہے کہ دس ذوالحجہ سے لے کر بارہ ذوالحجہ کی شام تک جس شخص پر قربانی کرنا واجب ہے ، اس کےلیے قربانی چھوڑ کر اس رقم کا صدقہ کرنا جائز نہیں ہے ، ہاں ! جس شخص پر قربانی کرنا واجب نہیں ہے ، اس کےلیے ان دنوں میں یا صاحبِ نصاب لوگوں کے ان دنوں میں قربانی کرنے کے ساتھ ساتھ یا سال کے دیگر ایام میں مالی صدقہ کرنا یقیناً بہت زیادہ ثواب کی چیز ہے ۔ رفاہِ عامہ کے مفید کاموں ، ہسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح و بہبود کےلیے خرچ کرنے کےلیے اسلام نے زکاۃ ، صدقۃ الفطر ، عشر ، کفارات ، نذور ، میراث ، دیگر وجوبی صدقات اور ہدایا وغیرہ کا نظام وضع کیا ہوا ہے ، ان احکامات کو پوری طرح عملی جامہ پہنا کر مطلوبہ نتائج ومقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں ، نہ یہ کہ اسلام کے ایک عظیم الشان حکم کو مسخ کر کے تلبیس سے کام لیا جائے ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ معاشرے میں ہونے والی خرافات پر تفصیلی نظر ڈالی جائے ، طرح طرح کی مروج رسومات میں ضائع ہونے والے اربوں وکھربوں کی مالیت کے روپے کو کنٹرول کیا جائے ، نہ کہ ایک فریضے میں صرف کرنے والوں لوگوں کو بھی بہکا کر اس سے روک دیا جائے ۔
منکرینِ قربانی نے اپنی عقلِ نارسا سے کام لیتے ہوئے بزعمِ خود قربانی کے مضرات اور نقصانات اور ترکِ قربانی کے فوائد بیان کیے ہیں، مثلاً : یہ کہا ہے کہ قربانی کی وجہ سے جانوروں کی نسل کُشی ہوتی ہے اور لوگوں کی رقمیں بلاوجہ ضائع ہوتی ہیں ، اگر یہ رقوم رفاہِ عامہ کے کسی مفید کام میں صَرف کی جائیں تو کیا ہی اچھا ہو ، وغیرہ وغیرہ ، مگر یہ نادان یہ نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو (جو حکیم علی الاطلاق ہے اور اس کا کوئی حکم عقل کے خلاف اور خالی از حکمت نہیں ہوتا) محض ان طفل تسلیوں سے کیوں کر رد کیا جا سکتا ہے ؟ کیا اس کو قربانی کا حکم دیتے وقت یہ معلوم نہ تھا کہ قربانی سے جانوروں کی نسل کشی ہوتی ہے اور اس کے یہ نقصانات ہیں ؟ رب تعالیٰ کے صریح احکام میں معاذ اللہ کیڑے نکالنا کون سا ایمان ہے ؟ اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحیح اور صریح قولی فعل اور اُمتِ مسلمہ کے عمل کو جو تواتر سے ثابت ہوا ہے ، خلاف ِ عقل یا مضر بتانا کون سا دین ہے ؟
بعض لوگ روحانیت سے غافل ہو کر یہ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ قوم کا اتنا روپیہ جو تین دن میں جانوروں کے ذبح پر ہر سال خرچ ہو جاتا ہے اور اس کا خاطر خواہ مفاد نظر نہیں آتا ، اگر یہی پیسہ رفاہی اور قومی مفادات پر لگایا جائے تو بہت فائدہ ہو ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ قربانی کرنا اللہ تعالیٰ کا حکم اور اہم عبادت ہے ، جیسے : حج کرنا ، زکواۃ دینا ، اور دوسری عبادات ۔ تو کیا ان عبادات کے بارے میں بھی یہی کہا جائے گا کہ یہ فضول خرچی اور مال کو بے جا خرچ کرنا ہے ؟ اس طرح تو دین کا بہت بڑاحصہ اور بہت سے دینی احکام ہی کا اسلام سے تعلق ختم ہو جاتا ہے ۔ پس جب شریعت میں قربانی کا حکم ہے تو اسے عقلی اعتراضوں اور ذہنی ڈھکوسلوں کا شکار بنانا کسی طرح درست نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ دنیا میں ہونے والی دوسری اور اصل فضول خرچیاں (جن کا شریعت نے حکم بھی نہیں دیا) ان لوگوں کو نظر نہیں آتیں ، جبکہ اصل میں تو ان کے ختم کرنے اور مٹانے کی ضرورت ہے ، ملک کی کتنی بڑی تعداد ایسی ہے جو سگریٹ نوشی ، منشیات ، کرکٹ ، ہاکی اور دوسرے کھیل ، جوئے بازی ، گھوڑ دوڑ ، ناچ گانا ، فحش پروگرام ، انٹرنیٹ ، ٹی وی ، کیبل ، وی سی آر ، سینما ، فضول تصویر سازی اور مووی بازی اور دوسرے فحش میڈیائی پروگرام ، فحش اخبار و رسائل اور دیگر ناول اور ڈائجسٹ ، بسنت ، عید کارڈ ، شادی کارڈ ، گانوں اور دیگر غلط پروگراموں کی آڈیو و ویڈیو کیسٹیں اور سی ڈیز ، ویڈیو گیمز ، آتش بازی ، شادی بیاہ ، مرگ و موت اور غمی خوشی کی رسومات ، مختلف فیشن ، غیر شرعی بیوٹی پارلر وغیرہ کی زد میں ہے ، جن کو چھوڑے اور توبہ کیے بغیر دنیا وآخرت کی فلاح اور کامیابی ملنا مشکل ہے اور یہی پیسہ اگر قومی اور رفاہی مفادات پر خرچ کیا جائے تو بہت جلد ترقی حاصل کی جا سکتی ہے ۔
منکرین اور ملحدین کی طرف سے ایک اعتراض یہ بھی سامنے آتا ہے کہ زندہ جانوروں کے گلے پر چھری پھیر دینا بھی عقلِ سلیم کے خلاف ہے ، یہ فعل مسلمانوں کی بے رحمی پر دلالت کرتا ہے ، ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ شریعتِ اسلامیہ سے زیادہ رحم کسی مذہب میں بھی نہیں ہے ، اور ذبحِ حیوان رحم کے خلاف نہیں ، بلکہ ان کے حق میں اپنی موت مرنے سے مذبوح ہو کر مرنا بہتر ہے ، کیوں کہ خود مرنے میں قتل و ذبح کی موت سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے ۔ رہا یہ سوال کہ پھر انسان کو ذبح کر دیا جایا کرے ، تا کہ آسانی سے مر جایا کرے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حالتِ یأس سے پہلے ذبح کرنا تو دیدہ دانستہ قتل کرنا ہے اور حالتِ یأس پتہ نہیں چل سکتی ، کیونکہ بعض لوگ ایسی بھی دیکھے گئے ہیں کہ مرنے کے قریب ہو گئے تھے ، پھر اچھے ہو گئے ۔ اور شبہ حیوانات میں کیا جائے کہ ان کی تو یأس کا بھی انتظار نہیں کیا جاتا ۔ جواب یہ ہے کہ بہائم اور انسان میں فرق ہے ، وہ یہ کہ انسان کا تو اِبقاء (باقی رکھنا) مقصود ہے ، کیونکہ خلقِ عالم سے وہی مقصود ہے ، اس لیے ملائکہ کے موجود ہوتے ہوئے اس کو پیدا کیا گیا ، بلکہ تمام مخلوق کے موجود ہونے کے بعد اس کو پیدا کیا گیا ، کیونکہ نتیجہ اور مقصود تمام مقدمات کے بعد موجود ہوا کرتا ہے ، اس لیے انسان کے قتل اور ذبح کی اجازت نہیں دی گئی ، ورنہ بہت سے لوگ ایسی حالت میں ذبح کر دیے جائیں گے ، جس کے بعد ان کے تندرست ہونے کی امید تھی اور ذبح کرنے والوں کے نزدیک وہ یأس کی حالت میں تھا ۔ اور جانور کا اِبقاء مقصود نہیں ، اس لیے اس کے ذبح کی جازت اس بنا پر دے دی گئی کہ ذبح ہو جانے میں ان کو راحت ہے اور ذبح ہو جانے کے بعدان کا گوشت وغیرہ بقائے انسانی میں مفید ہے ، جس کا اِبقاء مقصود ہے ، اس کو اگر ذبح نہ کیا جائے اور یونہی مرنے کےلیے چھوڑ دیا جائے تو وہ مردہ ہو کر اس کے گوشت میں سمّیت کا اثر پھیل جائے گا اور اس کا استعمال انسان کی صحت کےلیے مضر ہو گا ، تو اِبقاءِ انسان کا وسیلہ نہ بنے گا اور قصاص ، جہاد میں چونکہ افناءِ بعض افراد بغرضِ اِبقاء جمیع الناس متیقن ہے ، اس لیے وہاں قتل انسانی کی اجازت دی گئی ، مگر ساتھ ہی اس کی رعایت کی گئی کہ حتیٰ الامکان سہولت کی صورت سے مارا جائے ، یعنی : قصاص میں جو کہ قتلِ اختیاری ہے ، تلوار سے ۔اور جہاد میں مثلہ وغیرہ کی ممانعت ہے ۔
اگر قربانی کی حقیقت پر نظر ہو تو بھی یہ وسوسہ پیدا نہیں ہو سکتا ، قربانی تو یادگار ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اپنا بیٹا ذبح کرو ، حالانکہ ! دوسری طرف خود قرآن کا اعلان ہے کہ قتل کی سزا ہمیشہ کےلیے جہنم میں رہنا ہے ، نیز ! بچوں کو تو جہاد کی حالت میں بھی قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے ، الغرض عقل کبھی بچے اور بالخصوص اپنے معصوم بچے کے قتل کو تسلیم نہیں کر سکتی ، لیکن قربان جائیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر کہ انہوں نے اللہ سے یہ نہیں پوچھا کہ اے اللہ ! جو بچہ مجھے برسہا برس دعائیں مانگنے کے بعد ملا ، آخر اس کا قصور کیا ہے ؟ ! اور اگر قصور ہے بھی تو اس کو مارنے سے کیا حاصل ہو گا ؟ ! نہیں ، اس لیے کہ جہاں اور جس کام میں اللہ کا حکم آ جاتا ہے وہاں چوں چرا کی گنجائش نہیں رہتی ، چاہے نفع نظر آئے یا نقصان ۔
دوسری طرف قربانی کے جانور پر آنے والے اخراجات کا جائزہ لیجیے آج کے اس مہنگائی کے دور میں بڑے جانور میں حصہ لینے کےلیے پندرہ یا بیس ہزار روپے کافی ہیں اور اگر چھوٹا جانور لینا چاہیں تو تیس سے چالیس ہزار روپے میں کام چل جاتا ہے ۔ اس جائزے کے بعد سوچیے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں حکم ہو کہ تمہیں اختیار ہے کہ تم اپنا بیٹا قربانی کےلیے ذبح کرو ، یا اس کی بجائے (پندرہ سے بیس ہزار روپے کا) جانور ذبح کرو ، تو بتلائیے کہ کون کس کو ترجیح دے گا ؟ یقیناً بیٹے کے ذبح کے مقابلہ میں ہر عقل مند جانور ذبح کرنے کو ترجیح دے گا ۔ اب ایک نظر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی طرف بھی ڈالیے کہ جب ان کو بیٹا ذبح کرنے کا حکم ملا (اور حکم بھی صراحۃً نہیں ملا ، بلکہ خواب میں اشارۃً بتلایا گیا) تو انہوں نے ایک لمحے کےلیے بھی رُک کر یہ نہ پوچھا کہ یا باری عز وجل ! اس میں میرے لیے کیا نفع ہے اور کیا نقصان ؟ ! اور ایک ہم ہیں کہ معمولی سا جانور ذبح کرنے کا حکم دیا گیا اور ہم پوچھتے پھرتے ہیں کہ اس میں میرا کیا نفع ہے ؟ ! اس کے بجائے یہ ہو جائے، وہ ہو جائے، وغیرہ ، تویہ قربانی کی روح کے خلاف ہے ، یہ سوال کرنے والا درحقیقت قربانی کی حقیقت سے ہی ناواقف ہے ، قربانی کے ذریعے تو یہ جذبہ پیدا کرنا مقصود ہے کہ جب اللہ رب العزت کی طرف سے کوئی حکم آ جائے توہم اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے کی بجائے اللہ کے حکم کی پیروی کریں ، اس کے حکم کے سامنے اپنا سرِ تسلیم خم کریں ، اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عمل میں اشارہ کیا ہے کہ ’’فَلَمَّا أَسْلَمَا‘‘ جب انہوں نے سر تسلیم خم کر دیا ۔۔۔۔ إلخ ۔ تو اچھی طرح سمجھ لیناچاہیے کہ قربانی محض رسم یا دل لگی نہیں ہے ، بلکہ اس کے ذریعے ایک ذہنیت دینا مقصود ہے ، جسے فلسفۂِ قربانی کا نام دیا جاتا ہے ، وہ یہی ہے کہ جب اللہ رب العزت کی طرف سے کوئی حکم آ جائے تو ہم اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے کی بجائے اللہ کے حکم کی پیروی کریں ، اس کے حکم کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کریں ۔ سو ضرورت ہے کہ منکرینِ قربانی ، ملحدین اور مستشرقین و کفار کے اس زہریلے پروپیگنڈے کے مقابلے میں اہلِ اسلام پُرزور طریقے سے اس حکم پر عمل پیرا ہوں ، اسی میں اہلِ اسلام کی خیر و بقا کا راز اور دینِ اسلام کی حفاظت مضمر ہے ۔ اللہ عزوجل ہر قسم کے فتنوں سے بچاۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment