Tuesday, 7 June 2022

گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سزاء آئمہ اربعہ کی نظر میں

گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سزاء آئمہ اربعہ کی نظر میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارٸینِ کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی توہین کی سزائے قتل پر ائمہ اربعہ اور علماء امت علیہم الرّحمہ کا اجماع ہے ۔

فقہ اسلامی میں ”سب و شتم“ سے کیا مراد ہے ؟

عربی لغت میں”سب“ کا معنی یہ ہے کہ ”کسی چیز کے بارے میں ایسے کلمات کہے جائیں جن سے اس چیز میں عیب و نقص پیدا ہو سکے۔(مرقاة) ابنِ تیمیہ لکھتے ہیں : جو کلامِ عرف میں نقص ، عیب،طعن کےلیے بولی جاتی ہو، وہ ’سب و شتم ‘ ہے“۔ (الصارم المسلول صفحہ نمبر ۵۳۴)

معاملہ جب رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان اور ذاتِ مقدسہ کا ہو تو احتیاط و ادب کا لازم ہونا کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پیغام اور نبوت سے اختلاف بھی اباحتِ دم کے زمرے میں آتا ہے ، چہ جائیکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مخالفت اور مذمت کی جائے ۔

علامہ ابنِ تیمیہ اس سلسلہ میں یوں رقم طراز ہیں : ” اس کی مزید توضیح یہ ہے کہ اس کے محض آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر ایمان لانے سے اعراض کرنے کی وجہ سے (جبکہ وہ معاہد نہ ہو) اس کا خون مباح ہو جاتا ہے اور ان حقوقِ واجبہ سے روگردانی کرنے کی بنا پر اس کو سزا دینا روا ہو جاتا ہے۔ یہ صور تحال محض اسے اس لیے پیش آتی ہے کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اعزاز و احترام سے صرف سکوت اختیار کیا، لیکن جب اس کے عین برعکس وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مذمت کرتا ، گالی دیتا اور توہین کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کی وجہ سے اس کی سزا اباحت سے بھی بڑھ جاتی ہے ۔ اس لیے کہ سزا کا تعین جرم کی نوعیت کے اعتبار سے کیا جاتا ہے ۔ (الصارم المسلول، ص۵۹۳، اردو ترجمہ،چشتی)

علامہ ابنِ تیمیہ مزید صراحت کرتے ہیں کہ : جب ہم کسی مشرک یاکتابی کو سنیں کہ وہ الله اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ایذا دے رہا ہے تو ہمارے اور اس کے مابین کوئی عہد قائم نہیں رہتا بلکہ بقدرِ امکان و استطاعت ان سے جہاد و قتال ہم پر واجب ہے ۔ (الصارم المسلول، ص۲۹۱)

گالی کے معنی و مفہوم معلوم ہو جانے کے بعد دیکھئے گستاخِ رسول کی سزا سے متعلق احکام الفقہ کیا ہیں اور ائمہ اربعہ کے فتاویٰ اور تصریحات کیا ہیں : ⬇

امامِ اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب

علامہ خیرالدین رملی حنفی فتاوٰی بزازیہ میں لکھتے ہیں : شاتمِ رسول اکو بہرطور حداً قتل کرنا ضروری ہے ۔ اس کی توبہ بالکل قبول نہیں کی جائے گی ، خواہ یہ توبہ گرفت کے بعد ہو یا اپنے طور پر تائب ہو جائے کیونکہ ایسا شخص زندیق کی طرح ہوتا ہے ، جس کی توبہ قابلِ توجہ ہی نہیں اور اس میں کسی مسلمان کے اختلاف کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ اس جرم کا تعلق حقوق العباد سے ہے ، یہ صرف توبہ سے ساقط نہیں ہو سکتا ، جس طرح دیگر حقوق (چوری، زنا) توبہ سے ساقط نہیں ہوتے اور جس طرح حد ِ تہمت توبہ سے ساقط نہیں ہوتی ۔ یہی سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، امام اعظم ، اہل ِکوفہ اور امام مالک علیہم الرّحمہ کا مذہب ہے ۔ (تنبیہ الولاة و احکام، صفحہ ۳۲۸،چشتی)

امام ابن عابدین شامی حنفی رحمةُ اللہ علیہ امت کی رائے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : تمام اہلِ علم کا اتفاق ہے کہ گستاخِ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا قتل واجب ہے اور امام مالک ، امام ابولیث ، امام احمدبن حنبل ، امام اسحاق اور امام شافعی علیہم الرّحمہ ، حتیٰ کہ سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان تمام کا مسلک یہی ہے کہ اس کی توبہ قبول نہ کی جائے ۔ (فتاویٰ شامی، ج۳، ص۳۱۸)

فقہ حنفی کے معتبر امام ، اما م ابن ہمام لکھتے ہیں : جو بھی شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بغض رکھے ، وہ مرتد ہو جاتا ہے ۔گالی دینے والا تو بطریقِ اولیٰ مرتد ہو گا ، ہمارے نزدیک ایسے شخص کو بطورِ حد قتل کرنا ضروری ہے اور اس کی توبہ کو قبول کرتے ہوئے قتل معاف نہیں کیا جائے گا ، اہلِ کوفہ، امام مالک ، بلکہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے یہی منقول ہے ۔علماء نے یہاں تک فرمایا کہ گالی دینے والا نشے میں ہو تب بھی قتل کیا جائے گا اور معاف نہیں ہوگا ۔ (فتح القدیر، ج۴، صفحہ ۴۰۷۔چشتی)

علامہ طاہر بخاری اپنی کتاب خلاصہ الفتاویٰ میں لکھتے ہیں کہ : محیط میں ہے کہ جو نبی ا کو گالی دے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اہانت کرے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دینی معاملات یا آپ اکی شخصیت یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اوصاف میں سے کسی وصف کے بارے میں عیب جوئی کرے چاہے گالی دینے والا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی امت میں سے ہو خواہ اہل کتاب وغیرہ میں سے ہو ذمی یا حربی ، خواہ یہ گالی اہانت اور عیب جوئی جان بوجھ کر ہو یا سہواً اور غفلت کی بناء پر نیز سنجیدگی کے ساتھ ہو یا مذاق سے ، ہر صورت میں ہمیشہ کے لئے یہ شخص کافر ہوگا اس طرح کہ اگر توبہ کرے گا تو بھی اس کی توبہ نہ عنداللہ مقبول ہے اور نہ عند الناس اور تمام متقدمین اور تمام متاخرین و مجتہدین کے نزدیک شریعت مطہرہ میں اس کی قطعی سزا قتل ہے ۔حاکم اور اس کے نائب پر لازم ہے کہ وہ ایسے شخص کے قتل کے بارے میں ذرا سی نرمی سے بھی کام نہ لے ۔ (خلاصہ الفتاویٰ ص ۳۸۶، ج۶)

خطابی کا قول ہے کہ میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جس نے بدگو کے قتل کے واجب ہونے میں اختلاف کیا ہو اور اگر یہ بدگوئی اللہ تعالیٰ کی شان میں ہو تو ایسے شخص کی توبہ سے اس کا قتل معاف ہو جائے گا ۔ (فتح القدیر ص ۳۳۲، ج ۵)

بزازی نے اس کی علت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں گستاخی کا تعلق حقوق العباد سے ہے اور حق العبد توبہ سے معاف نہیں ہوتا جیسے تمام حقوق العباد اور جیسا کہ حد قذف (تہمت کی سزا) توبہ سے ختم نہیں ہوتی۔ بزازی نے اس کی بھی تصریح کی ہے کہ انبیاء میں سے کسی ایک کو برا کہنے کا یہی حکم ہے ۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب
ابنِ قاسم فرماتے ہیں کہ امام مالک سے مصر سے ایک فتویٰ طلب کیا گیا ، جس میں میرے فتویٰ کے بارے میں ، جس میں کہ میں نے شاتمِ رسو ل علیہ السلام کے قتل کا حکم دیا تھا، تصدیق چاہی گئی تھی ۔ اس فتویٰ کے جواب میں امام مالک نے مجھ ہی کو اس فتویٰ کا جواب لکھنے کا حکم دیا ۔ چنانچہ میں نے یہ جواب لکھا کہ ایسے شخص کو عبرتناک سزا دی جائے اور اس کی گردن اُڑا دی جائے۔ یہ کلمات کہہ کر میں نے امام مالک سے عرض کی کہ اے ابو عبدالله ! (کنیت اما م مالک) اگر اجازت ہو تویہ بھی لکھ دیا جائے کہ قتل کے بعد اس لاش کو جلا دیا جائے ۔ یہ سن کر امام مالک نے فرمایا ” یقیناً وہ گستاخ اسی بات کا مستحق ہے اور یہ سزا اس کے لیے مناسب ہے ۔ چنانچہ یہ کلمات میں نے امام موصوف کے سامنے ان کی ایماء پر لکھ دیے اور اس سلسلے میں امام صاحب نے کسی مخالفت کا اظہار نہ کیا۔ چنانچہ یہ کلمات لکھ کر میں نے فتویٰ روانہ کر دیا اور اس فتویٰ کی روشنی میں اس گستاخ کو قتل کر کے اس کی لاش کو جلا دیا گیا ۔ (الشفاء، ج۲، ص۴۵۳،چشتی)

ابنِ کنانہ کا حکام کو مشورہ : مسبوط میں ابنِ کنانہ نے لکھا ہے کہ اگر کوئی یہودی یا نصرانی بارگاہِ رسالت میں گستاخی کا مرتکب ہو تو میں حاکمِ وقت کو مشورہ دیتا ہوں اور ہدایت کرتا ہوں کہ ایسے گستاخ کو قتل کر کے اس کی لاش کو پھونک دیا جائے یا براہ راست آگ میں جھونک دیا جائے ۔ (الشفاء، ج۲، ص۴۵۳ ،از قاضی عیاض مالکی۔چشتی)

حکمِ قتل پر علمائے مالکیہ کی دلیل

قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ ہمارے علمائے مالکیہ نے ایسے گستاخ ذمی کے قتل کے حکم پر قرآنِ کریم کی اس آیت سے استدلال کیا ہے : اور اگر وہ اپنی قسموں کو توڑیں اور عہد شکنی کر کے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دین کے بارے میں بدگوئیاں کریں ، تو ان کفر کے سرغنوں سے لڑو ۔ (سورہ التوبہ، ۱۲)

اس آیت ِ قرآنی کے علاوہ علمائے مالکیہ نے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے عمل سے بھی استدلال کیا ہے ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کعب بن اشرف کو اس کی گستاخیوں کی وجہ سے قتل کروایا تھا۔ اس گستاخ کے علاوہ اور دوسرے گستاخ بھی تعمیلِ حکمِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں قتل کیے گئے تھے ۔ (الشفاء، ج۲، ص ۴۴۶۔۴۴۷۔چشتی)

علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جو شخص بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالی دے یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات یا دین یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عادت میں نقص و عیب نکالے یا اسے ایسا شبہ لاحق ہو ، جس سے آپ اکو گالی دینے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تنقیصِ شان، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بغض و عداوت اور نقص و عیب کا پہلو نکلتا ہو، وہ دشنام دہندہ ہے اور اس کا حکم وہی ہے جو گالی دینے والے کا ہے اور وہ یہ کہ اسے قتل کیا جائے ۔ اس مسئلہ کی کسی شاخ کونہ مستثنیٰ کیا جائے اور نہ اس میں شک و شبہ روا رکھا جائے خواہ گالی صراحتاً دی جائے یا اشارةً ۔ وہ شخص بھی اسی طرح ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر لعنت کرے یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو نقصان پہنچانا چاہے یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر بددعا کرے یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان کے لائق نہ ہو یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی کسی چیز کے بارے میں رکیک ، بے ہودہ اور جھوٹی بات کرے یا جن مصائب سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دوچار ہوئے ان کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر عیب لگائے یا بعض بشری عوارض کی وجہ سے ، جن سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دوچار ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تنقیصِ شان کرے، اس بات پر تمام علماء اور ائمہ الفتویٰ کا عہدِ صحابہ سے لے کر اگلے تاریخی ادوار تک اجماع چلا آرہاہے ۔ (الصارم المسلول،ص ۷۴۵،چشتی)

امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور تفسیر میں لکھتے ہیں : مروی ہے کہ ایک آدمی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مجلس میں کہا کہ کعب بن اشرف کو بدعہدی کرکے قتل کیا گیا تھا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ اس کہنے والے کی گردن مار دی جائے ۔ (کیونکہ کعب بن اشرف کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں تھا بلکہ وہ مسلسل بدگوئی اور ایذاء رسانی کی وجہ سے مباح الدم بن گیا تھا) ۔ اسی طرح کا جملہ ایک اور شخص ابن یامین کے منہ سے نکلا تو کعب بن اشرف کو مارنے والے حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا آپ کی مجلس میں یہ بات کہی جا رہی ہے اور آپ خاموش ہیں۔خدا کی قسم! اب آپ کے پاس کسی عمارت کی چھت تلے نہ آؤں گااور اگر مجھے یہ شخص باہر مل گیا تو اسے قتل کر ڈالوں گا۔ علماء نے فرمایا ایسے شخص سے توبہ کے لیے بھی نہ کہا جائے گا بلکہ قتل کردیا جائے گا جو نبی ا کی طرف بدعہدی کو منسوب کرے ۔ یہی وہ بات ہے، جسے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے سمجھا ،اس لیے کہ یہ تو زندقہ ہے ۔ (تفسیر قرطبی،ص ۸۲، جلد ۸)

اسلام (کافر ساب) کے قتل کو ساقط نہ کرے گا ۔ اس لئے کہ یہ قتل نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حق کی وجہ سے واجب ہوچکا ہے، کیونکہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بے عزتی کی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر نقص و عیب لگانے کا ارادہ کیا ہے ، اس لئے اسلام لانے کی وجہ سے بھی اس کا قتل معاف نہ ہوگا اور نہ یہ کافر مسلمان سے بہتر ہوگا ، بلکہ بدگوئی کی وجہ سے باوجود توبہ کے دونوں کو چاہے کافر ہو یا مسلم قتل کر دیا جائے گا ۔ (تفسیر قرطبی،ص ۸۴، ج۸۔چشتی)

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے صراحتاً منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالی دینے سے عہد ٹوٹ جاتا ہے اور ایسے شخص کو قتل کر دینا چاہیے ۔ ابن المنذر ، الخطابی اور دیگر علماء نے ان سے اسی طرح نقل کیا ہے ۔ امام شافعی اپنی کتاب ”الام“ میں فرماتے ہیں : ”جب حاکمِ وقت جزیہ کا عہد نامہ لکھنا چاہے تو اس میں مشروط کا ذکر کرے۔ عہد نامے میں تحریر کیا جائے کہ اگر تم میں سے کو ئی شخص محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یا کتاب الله یا دینِ اسلام کا تذکرہ نازیبا الفاظ میں کرے گا تو اس سے الله تعالیٰ اور تمام مسلمانوں کی ذمہ داری اٹھ جائے گی ، جو امان اس کو دی گئی تھی ، ختم ہو جائے گی اور اس کا خون اور مال امیر المومنین کے لیے اس طرح مباح ہو جائے گا جس طرح حربی کافروں کے اموال اور خون مباح ہیں ۔ (الصارم المسلول، ص ۳۲۔۳۳)

امام محمد رحمۃ اللہ علیہ بن سخنون بھی اجماع نقل کرتے ہیں : اس بات پر علماء کااجماع منعقد ہوا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کوگالی دینے والا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی توہین کرنے والا کافر ہے اور اس کے بارے میں عذابِ خداوندی کی وعید آئی ہے ۔ امت کے نزدیک اس کا حکم یہ ہے کہ اسے قتل کیا جائے اور جو شخص اس کے کفر اور اس کی سزا میں شک کرے وہ بھی کافر ہے ۔ (الدرمختار ، ج۳، ص۳۱۷، نسیم الریاض، شرح الشفاء، ج۴، ص۳۳۸، الصارم المسلول، ص ۲۵۔۲۶ ، اردو ترجمہ،چشتی)

صحیح بخاری کے مشہور شارح جلیل القدر محدث ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب فتح الباری (ص ۲۳۶ج۱۲) میں لکھتے ہیں : ابن المنذر نے اس بات پر علماء کا اتفاق نقل کیا کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالی دے ، اسے قتل کرنا واجب ہے ۔ ائمہ شوافع کے معروف امام ابو بکر الفارسی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الاجماع میں نقل کیا ہے کہ جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تہمت کے ساتھ برا کہے ، اس کے کافر ہونے پر تمام علماء کا اتفاق ہے ، وہ توبہ کرے تو بھی اس کا قتل ختم نہ ہوگا کیونکہ قتل اس کے تہمت لگانے کی سزا ہے اور تہمت کی سزا توبہ سے ساقط نہیں ہوتی ۔

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب

جو شخص رسو لِ پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالی دے یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی توہین کرے ، خواہ وہ مسلم ہو یا کافر ، تو وہ واجب القتل ہے ۔ میری رائے یہ ہے کہ اسے قتل کیا جائے اور اس سے توبہ کا مطالبہ نہ کیا جائے ۔ دوسری جگہ فرماتے ہیں : ہر آدمی جو ایسی بات کرے جس سے الله تعالیٰ کی تنقیصِ شان کا پہلو نکلتا ہو ، وہ واجب القتل ہے ؛ خواہ مسلم ہو یا کافر ، یہ اہلِ مدینہ کا مذہب ہے ۔ہمارے اصحاب کہتے ہیں کہ الله اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف گالی کا اشارہ کرنا ارتداد ہے ، جو موجبِ قتل ہے ۔ یہ اسی طرح جیسے صراحتاً گالی دی جائے ۔

علامہ ابن ِتیمیہ اپنے امام کا عقیدہ ارقام لکھتے ہیں : ابوطالب سے مروی ہے کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالیاں دیتا ہو ۔ فرمایا : اسے قتل کیا جائے ، کیونکہ اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالیاں دے کر اپنا عہد توڑ دیا ۔
حرب کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد سے ایک ذمی کے بارے میں سوال کیاکہ جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالی دی تھی ۔ آپ نے جواب دیاکہ اسے قتل کیا جائے ۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے جملہ اقوال میں ایسے شخص کے واجب القتل ہونے کی تصریح ہے ، اس لیے کہ اس نے عہد شکنی کا ارتکاب کیا ۔ اس مسئلہ میں ان سے کوئی اختلاف منقول نہیں ۔ (الصارم المسلول، ص۲۷۔۲۸، اردو ترجمہ)
خلاصہ یہ ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالی دینے والے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی توہین کرنے والے کے کفر اور اس کے مستحقِ قتل ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔ چاروں ائمہ (امام ابو حنیفہ، امام مالک ،امام شافعی، امام احمد بن حنبل علیہم الرّحمہ) سے یہی منقول ہے۔ (فتاویٰ شامی ، ج۳، ص۳۲۱۔چشتی)

ائمہ اربعہ کی تصریحات کے بعد چاروں مذاہب کے جیّد اور محقق علمائے کرام نے اس خاص مسئلہ پر چار انمول کتب تصنیف فرما کر اتمامِ حجت کر دیا ہے اور ان میں گستاخِ رسول کی سزا اپنے اپنے زاویہ نظر سے ”حداً قتل“ قرار دی گئی ہے ۔ ان کتب کے نام یہ ہیں : (کتاب الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، مرتبہ قاضی عیاض اندلسی مالکی متوفی ۵۵۴ھ،)(الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول ، مولفہ امام حافظ ابنِ تیمیہ حنبلی متوفی ۷۲۸ھ)(السیف المسلول علیٰ شاتم الرسول ، مولفہ امام تقی الدین سبکی شافعی متوفی ۷۵۶ھ،چشتی)(تنبیہ الولاة وا لحکام علیٰ احکام شاتم خیر الانام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)
نبیِ پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنت کی مخالفت بھی کفر ہے
اگر کسی شخص نے بیان کیا کہ ناخنوں کا کاٹنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنت ہے اور سننے والے نے کہا ٹھیک ہے سنت تو ہے مگر میں پھر بھی نہیں کاٹتا، اس سے بھی وہ کافر ہو جائے گا ۔ (خلاصة الفتاوٰی جلد ۴ صفحہ ۳۸۶)

امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ خلیفہ مامون کے سامنے بیان کیا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کدو پسند فرماتے تھے ۔ ایک آدمی فوراً بولا : میں اسے پسند نہیں کرتا ۔ حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے حکم دیا کہ تلوار اور چمڑا لایا جائے (جو قتل کے لئے منگوایا جاتا ہے) اس آدمی نے کہا میں نے جو کچھ ذکر کیا اس سے اور تمام موجبات کفر سے استغفار کرتا ہوں ۔اشہد ان لا الہ اللّٰہ و اشہد ان محمدا عبدہ و رسولہ ۔ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے اسے چھوڑ دیا اور قتل نہیں کیا ۔ اسی قسم کا ایک واقعہ یہ ہے کہ خلیفہ مامون کے زمانے میں ایک شخص سے پوچھا گیا کہ اگر کسی نے جولاہے کو قتل کیا تو کیا حکم ہے ؟ جواب دینے والے نے (قتل کے حکمِ شرعی کا) مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ایک خوبصورت تروتازہ باندی دینی ہوگی ۔ مامون نے یہ جواب سنا تو جواب دینے والے شخص کی گردن اڑانے کا حکم دیا جس پر عمل کیا گیا اور مامون نے کہا کہ یہ شریعت کے احکام کا استہزاء ہے اور شریعت کے کسی بھی حکم کا مذاق اڑانا کفر ہے ۔ (شرح الفقہ الاکبر للقاری صفحہ ۱۳۲ تا ۱۳۴)

امام اہلسنت امام احمد رضا خا ن قادری رحمۃ اللہ علیہ الاشباہ والنظائر کے حوالے سے فرماتے ہیں : نشے کی حالت میں کسی مسلمان کے منہ سے کلمہ کفر نکل گیاتو اسے کافر نہ کہیں گے اور نہ سزائے کفر دیں گے مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں گستاخی وہ کفر ہے کہ نشے کی بے ہوشی سے بھی صادر ہو تو اسے معافی نہ دیں گے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد نمبر ۶ ، صفحہ ۴۰۔چشتی)

اشرف علی تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں : انبیاء علیہم السلام کی شان میں گستاخی اور اہانت کرنا کفر ہے ۔ (امداد الفتاویٰ ، ج۵، ص۳۹۳)

فتاویٰ دارالعلوم دیو بند میں ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی طرف فواحش کی نسبت کرنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا : یہ کفر ہے ، کیونکہ یہ چیز انہیں گالی دینے اور ان کی توہین و تحقیر کے برابر ہے ۔ ( فتاویٰ دارالعلوم دیو بند ، ص ۳۶۲، فتاویٰ عالمگیری مصری، ج۲، ص ۳۶۳)

انور شاہ کشمیری دیوبندی لکھتے ہیں : مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس نے الله یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گالی دی تو وہ کافر ہے ۔ (اکفار الملحدین ،ص۱۱۹ ، فتاویٰ شامی، ج۳، ص ۳۱۷،چشتی)

حسین احمد مدنی دیوبندی لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بارے میں الفاظِ قبیحہ بولنے والا اگرچہ معنی حقیقتاً مراد نہیں لیتا بلکہ معنی مجازاً مراد لیتا ہے ، تاہم ایہام گستاخی و اہانت و اذیت ذاتِ پاک حق تعالیٰ شانہ اور جناب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے خالی نہیں کہ اس میں گستاخی ، اہانت اور اذیت کا وہم پایا جاتا ہے اور یہی سبب ہے کہ حق تعالیٰ شانہ نے لفظ ” راعنا“ بولنے سے منع فرمایا اور ”انظرنا“ کا لفظ عرض کرنا ارشاد فرمایا ۔ پس ان کلماتِ کفر کے بکنے والے کو منع شدید کرنا چاہیے ۔اگر مقدور ہو اور اگر باز نہ آئے تو قتل کر دیا جائے کہ موذی حق تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مجرم ہے ۔ (الشہاب الثاقب، صفحہ ۵۰)(لطائفِ رشیدیہ صفحہ ۲۲)

مذاہبِ اربعہ کی ان بے پایاں تصانیف اور خدمت کے بعد غیر مقلدین کے مشہور و معروف اور معتبر عالم علامہ وحید الزماں بھی اس موقف کی تائید کر تے ہوۓ لکھتے ہیں : کسی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تحقیر یا توہین کفر ہے ۔ مسلمان نہ جناب خاتمِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ بے ادبی کرنے کو گوارہ کریں گے اور نہ جناب عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ، نہ کسی اور نبی کے ساتھ اور جو کوئی جناب عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بے ادبی کرے گا ، اس مردود کو بھی ہم اسی طرح ماریں گے اور قتل کریں گے جیسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ بے ادبی کرنے پر اس کو ماریں گے اور قتل کریں گے ۔ (حاشیہ سنن ابنِ ماجہ ، مترجم علامہ وحید الزماں، حاشیہ بربذکر البعاث، ص۳۹۶، مطبوعہ: الحدیث اکادمی کشمیری بازار لاہور)

گستاخِ رسول کے لیے معافی ایک دھوکہ ہے

بعض اخباروں میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ کارٹونسٹ نے معافی مانگ لی کہ ” اگر“ کسی کو تکلیف پہنچی ہو تو میں اس سے معافی چاہتا ہوں ، حالانکہ معروف ہستیوں کے نام لے لے کر اُن کی توہین کرنا آزادیِ اظہار نہیں ، لیکن پھر بھی معافی ایک دھوکہ ہے ، کیونکہ یہ پہلی مرتبہ ایسا نہیں کیا گیا بلکہ بار بار کیا گیا اور کیا جاتا ہے اور اس پر تمام دنیا کے اہل ایمان سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں ۔ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ ”معافیاں“ مانگی گئی ہیں لیکن محسوس ہوتا ہے کہ گستاخیاں کرنااور پھر اس پر ”معافی“ مانگنا ان کا وتیرہ بن چکا ہے ۔ اللہ عزّ و جل کی محبوب ترین ہستیوں کی شان میں ادنیٰ سی گستاخی کرنا بھی الله کے عذاب کو دعوت دینا ہے ۔ الله اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ایذا پہنچانا ، دنیا اور آخرت میں اپنے اوپر ، اپنے حمایتیوں پر ، اپنے ہمنواٶں پر بلکہ ساتھ میں بہت سے عوام پر بھی عذابوں کا مطالبہ کر لینا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اوّل تو اُن سے معافی طلب نہیں کی گئی جس ہستی کو ایذا پہنچائی گئی ۔ دوسرے شریعت میں معافی کی گنجائش ہی نہیں اور وہاں سے معافی حاصل ہی نہیں ہو سکتی ، تو یہ سارے عالم کو دھوکہ دے کر اندھا بنانا ہے ۔ پھر یہ کہ کارٹونسٹ اور اُس کے سرپرستوں کے بیان میں ”اگر“ کا لفظ بتا رہا ہے کہ اب بھی اُن کے نزدیک کوئی بات اہانت ، تذلیل و تحقیر کی واقعی نہیں ہوئی ، اگر کسی کو خوامخواہ تکلیف ہوئی ہو تو معافی چاہتے ہیں ۔

ذرا غور تو کریں کہ معافی اور وہ بھی صرف اُس وقت کے متنبہ کرنے والوں سے اور پھر اپنی نظر میں غیر واقعی بات کہ ”اگر“ ہو تو ، یہ کیا معافی مانگنا ہوا ، یہ تمام دنیا کو دھوکہ دینے کے سوا اور کیا ہے ؟ یاد رکھئے الله تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا ۔ وہ دلوں کا حال خوب جانتے ہیں ۔

دنیا بھر کے اربوں مسلمانوں کو جو اس وقت سخت اضطراب کی آگ میں بھن رہے ہیں اور تڑپ رہے ہیں ، کیا اس دھوکہ سے ان کو کوئی سکون ہو سکتا ہے ؟ جب مسلمانوں کو شرعی طور پر معاف کرنے کا حق ہی نہیں ہے تو کیا وہ عذاباتِ الٰہی جو ایسے عرش ہلا دینے والے گناہوں پر بے قرار ہو کر برس پڑتے ہیں ، اس سے ان کی کوئی رکاوٹ ہو سکتی ہے ؟

احکامِ الٰہی ، ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، اجماعِ امت ، قیاسِ شرعی ، عقلِ سلیم ، ہتکِ عزّت کا قانون تمام دنیا کی قوموں اور مملکتوں میں دیکھ چکے ہیں تو اس کے سوا کیا چارہ کار ممکن ہے کہ ان توہین کرنے والوں اور ایذا دینے والوں کے وجود سے زمین و آسمان کو پاک کر دیا جائے ، یہی اصل توبہ ہے ، چاہے و ہ بدبخت مسلمان ہو ، ذمی ہو یا حربی کافر ہو ۔

عقلی وجوہات

سب جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم الله تعالیٰ کی منتخب وہ اعلیٰ ہستی ہیں جن کےلیے الله نے اس دنیا کو قائم کیا اور تمام انبیاء پر مقدّم رکھا ، جو ان کی توہین کرے ، برا کہے یا مذاق اڑائے ایسے لوگ یا ان کا ساتھ دینے والے آخر کیسے الله کے عذاب سے بچ سکتے ہیں ، یہ خدائی احترامات کو پامال کرنے کا جرم ہے جو انتہائی خطرناک اور ناقابلِ معافی گناہ ہے ، چاہے ایسا کرنے والا پہلے مسلمان ہو پھر مرتد ہو کر دوبارہ اسلام قبول کر لے ، چاہے ذمی یا حربی کافر ہو اور توہین کرنے کے بعد اسلام قبول کر لے ۔ اسی طرح توہین کرنے والوں کو بے قصور تصور کرنا یا پھر یہ کہہ کر ان کے جرم کو ہلکا کرنا کہ وہ توہین کرتے ہیں تو کسی وجہ سے نہیں بلکہ اُن کو اس بات کی اہمیت ہی معلوم نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہمارے لیے کیا ہیں ۔ یہ کہہ کر ان کو معاف کرنا اتنا ہی بڑا گناہ ہے جتنا کہ توہین کرنے والا شخص گناہگار ہے ۔ کیونکہ برائی کو برُا نہ سمجھنا بھی گناہ ہی ہے ، جس طرح ظلم پر خاموش رہنا بھی ظالم کا ساتھ دینا ہوتا ہے ۔ پھر کافر اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مسلمانوں کے لئے کیا درجہ رکھتے ہیں، جبھی تو وہ اُن کی طرح طرح سے توہین کرتے ہیں ۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : اگر کوئی شخص اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں گستاخی سن کر خاموش رہے ، تو وہ شخص بھی اُس نبی کی امّت سے خارج ہو جاتا ہے ۔ (تحفظ ناموسِ رسالت اور گستاخِ رسول کی سزا ، ص۳۲۳، شائع کردہ عالمی تحفظ ختم نبوت، ملتان،چشتی)

ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ معمولی آدمی کی ہتکِ عزت بڑا جرم ہے اور ہر حکومت میں یہ جرم قابلِ سزا ہوتا ہے ۔ اور جب ہتکِ عزت انتہائی معززین کی ہو تو انتہائی سزاٶں کا مستحق ہوتا ہے ۔

تمام قوموں سے ایک سوال
اسرائیل ہو یا ساری دنیا ، مشرق و مغرب ، شمال و جنوب کی کوئی مملکت یا اقوامِ متحدہ یا کوئی ادارہ جس میں انسانیت کی کوئی رمق باقی ہو ، بلکہ دنیا بھر کے ہر ہر فرد سے یہ سوال ہے کہ اگر کوئی مسلمان یا دوسرے دین کا کوئی فرد آپ کے نبیوں ، مقتداؤں ، دین کے ستونوں اور ان کے اہلِخانہ کے نام لے لے کر یہ انتہائی برا کام کرے کہ ایک دن کو مقرر کر کے کارٹون ڈے منائے اور اس کو کرنے سے پہلے اعلان کرے کہ جو بھی حصہ لینا چاہے اسے دعوت عام ہے ، اور آپ کو اس پر طاقت و قدرت حاصل ہو تو آپ اُس کے ساتھ کیا کریں گے ؟

اگر یہ حرکت عالمِ انسانیت کسی طرح اپنے لئے قطعی برداشت نہیں کر سکتی تو اُس وقت وہ انسانیت کہاں غائب ہو جاتی ہے جب ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بات آجاتی ہے ؟ کیا آپ برداشت کر سکتے ہیں ؟ کیا آپ اُس وقت آگ بگولہ نہ ہوں گے ؟

مسلمانوں سے سوال ؟ الله اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ایذا دینے والوں سے متعلق قرآنی آیات آپ کے سامنے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا گستاخوں کے ساتھ معاملہ آپ کے علم میں آ گیا ۔ احکاماتِ فقہ ، فتاوی ائمہ ، علماء کے ردعمل اور اجماعِ امت سے واقف ہونے کے بعد اب کوئی ابہام نہیں رہا کہ توہینِ رسالت کی سزا قتل کے سوا کچھ نہیں اور معافی کا کوئی تصوّر نہیں ۔

آخر ہم نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ناموس کی حفاظت کا اب تک کتنا حق اداکیا ؟ وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جو تمام عمر یہی دعا کرتے رہے کہ یا الله !میری امّت کو بخش دے اور جب اس دنیا سے تشریف لے جانے لگے تو اُن کے لبوں پر یہی الفاظ تھے کہ یا الله ! میری امّت کو بخش دے ۔ نہ کبھی اپنے لئے الله پاک سے سوال کیا نہ اپنی اولادوں کےلیے کچھ مانگا ، ہمیشہ امّت کا غم دل میں رکھا ۔ وہ جن کی دعاٶں سے آج ہم اجتماعی تباہی سے بچے ہوئے ہیں ، ورنہ وہ کون سا گناہ ہے جو امّت ِمحمد یہ نہیں کر رہی جن کی وجہ سے پچھلی قوموں کو الله جل شانہُ نے عذاب میں پکڑا اور صفحہ ہستی سے مٹا دیا ۔ ہم ایسے کریم شفقت کرنے والے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے ایسے الفاظ یا توہین آمیز خاکے کیسے برداشت کر لیتے ہیں ؟ اپنی بزدلی اور ایمانی کمزوری کا اقرار کرنے کے بجائے یہ کہہ کر اپنے آپ کو تسلّی دے لیتے ہیں کہ اب تو انہوں نے معافی مانگ لی ، حالانکہ شریعت میں اِس جرم کی تو معافی ہے ہی نہیں ۔

دین ہم تک پہنچانے والے کی ناموس کی حفاظت کے لئے ہم کھڑے نہ ہوئے تو ہمیں مسلمان کہلانے کا کیاحق ہے ؟ یہ آیت شاید ہم جیسوں کے لئے ہی نازل ہوئی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ترجمہ : گنوار بولے ہم ایمان لائے تم فرماؤ تم ایمان تو نہ لائے ہاں یوں کہوں کہ ہم مطیع ہوئے اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں کہاں داخل ہوا اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو گے تو تمہارے کسی عمل کا تمہیں نقصان نہ دے گا بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ (سورہ الحجرات، ۱۴)

آج ہمارا زمانہ بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور سے قریب تر ہے ۔ جو اجر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سمیٹ لیا اب وہ کوئی اور نہیں پا سکتا ، انہوں نے اسلام کی بنیاد رکھی ، انہوں نے اُس وقت دین کو تقویت دی جب چاروں طرف کفر کی ظلمت چھائی ہوئی تھی ۔ انہوں نے اپنے چار وں طرف پھیلے کافروں سے ٹکر لی، خاص طور پر اُس وقت کی دو بڑی سلطنتوں روم اور فارس کی شوکت کو توڑا ۔ ان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کو بلاواسطہ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صحبت نصیب ہوئی ۔ آج اسلام پھر غریب الوطن ہے ۔آج ہمارے زمانے میں بھی ساری دنیا پر عالمِ کفر چھایا ہوا ہے اور کہنے کو تو بہت سارے اسلامی ممالک بھی ہیں ، لیکن کسی بھی ملک میں شرعی اسلامی حکومت نہیں ہے ، ہر اسلامی ملک نے سربراہ چننے کا جو نظام اپنایا ہوا ہے ، اس میں کسی صورت عالمِ کفر کی مرضی کے برخلاف کوئی اسلامی ذہن رکھنے والا شخص منتخب ہی نہیں ہو سکتا ۔ یہ اور بھی خطرناک وقت ہے کہ الله کی زمین پر الله کا نظام نافذ کرنے کی کوشش کرنے والوں کو صرف کفار سے ہی نہیں ٹکرانا ہوتا ہے بلکہ ان کی حفاظت کرنے والے مسلمان اتحادیوں کی مخالفتوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اسی لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارا زمانہ بعینہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح نہیں پھر بھی ان سے مماثلت رکھتا ہے ۔ ہم میں سے اکثر یہ ذکر کرتے ہیں کہ ہم اگر دورِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں ہوتے تو اسلام کی فلاں خدمت کرتے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت کر کے انوارات سمیٹتے ۔ ذرا آنکھ بند کر کے تصّور کریں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنے روضے مبارک میں تشریف فرما ہیں ، فرشتے امت کے اعمال اور حالات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو پیش کر رہے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم د ل گرفتہ ہیں ۔ ہاں مدینے کی طرف کان لگا کر سنیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرما رہے ہیں : من یکفینی عدوی“ میرے شمن کی خبر کون لے گا ؟ یہ ہم کو ایذا دیتے ہیں ۔ اب آنکھ کھول لیں ۔ ہاں ، اب آنکھ کھول ہی لیں ، اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں ، آپ میں ایمان کی کتنی رمق باقی ہے ؟ یقینا ہر مومن کہے گا ” لبیک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ۔

ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : آخری وقتوں میں لوگوں کی ایک ایسی نسل ہو گی کہ جن میں سے ایک کا اجر پچاس کے برابر ہو گا ۔ صحابہ نے پوچھا کہ ہم میں سے پچاس یا اُن میں سے پچاس ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا، تم میں سے پچاس ۔ (الله ہمیں فتح کے لیے تیار کر رہا ہے“، امام انورالعلوقی)

اتنے زیادہ اجر کا ذکر کیوں فرمایا ، حالات کی سختیوں کی وجہ سے ۔ توجب اجر بٹنے کا وقت ہے پھر پیچھے رہنا کون چاہے گا ۔ ہاں !جنت کے اعلیٰ درجات تو قربانیوں سے ہی حاصل ہوتے ہیں ، لہٰذا سوچیں اور سمجھیں اپنے اعمال پہ نظر کریں ، اپنی صلاحیتوں کو ٹٹولیں اور دین کی سربلندی اور ناموس ِرسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حفاظت کےلیے استعمال کریں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو کافروں سے اتنی تکلیف نہیں پہنچتی جتنی اپنی امّت کے رویہ سے پہنچتی ہے ۔

اس دنیا سے آگے بھی ایک دنیا ہے ، جہاں ہمیں جانا ہے ، کسی کی سفارش یا مصلحت کام نہیں آئے گی ، اس دنیا میں تو ہم اپنے آپ کو دھوکہ دے سکتے ہیں مگر وہاں الله تعالیٰ سب کھول کر رکھ دے گا ۔ جو صراطِ مستقیم پر چلے گا اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سچی محبت کرے گا اُسی کا بیڑا پار ہو گا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مروجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام

مروجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام محترم قارئین کرام : میوزک یا مزامیر کے ساتھ نعت شریف کی اجازت نہیں کہ میوزک بجانا ناجائز ہے ۔ یہی حکم ا...