فضائل و زیارت مدینہ منورہ حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مغفرت کا قوی آسرا بارگاہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حاضری ہے ۔ فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بھولی بھالی امت کی خدمت میں عرض گذار ہے کہ : سوائے محمد ابن عبد الوہاب نجدی خارجی کے پیروکاروں کے تمام امت مسلمہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ کی حاضری اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات اقدس کو اپنی مغفرت کا آخری اور و قوی سہارا سمجھتے ہیں آئیے مستند دلائل کی روشنی میں پڑھتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں گمراہوں کے شر و فتنہ سے بچائے آمین ۔
رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دربار گہر بار میں حاضری بندۂ مومن کے حق میں نعمت عظمی،امید افزا طاعت اوردرجات عالیہ کے حصول کابڑا وسیلہ ہے،آپ کے دربار میں حاضر ہونا تقرب الہی کا قریب ترین ذریعہ ہے،آپ کی بارگاہ کی حاضری گناہوں کی بخشش اور حصول رحمت و مغفرت کا قوی آسرا ہے ۔
زائرین روضۂ اقدس کے لئے رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے شفاعت کا مژدۂ جاں فزا سنایا ، دراقدس کی حاضری کو اللہ تعالی نے معصیت شعار افراد کے لئے گناہوں کی معافی کا ذریعہ، توبہ کی قبولیت اور نزول رحمت کا خصوصی مرکز قرار دیاہے،سورۂ نساء کی آیت نمبر:64،میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وَلَوْ اَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ جَاءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَحِيمًا .
ترجمہ:اور اگر یہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو ائے محبوب وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوں ،اور اللہ سے مغفرت طلب کریں اور اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)بھی ان کے لئے سفارش کردیں تو وہ ضرور بضرور اللہ تعالی کو خوب توبہ قبول کرنے والا‘نہایت رحم فرمانے والا پائیں گے ۔ (سورۃ النساء :64)
اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالی نے تین امور کا ذکر فرمایا : (1) جب گناہ کر بیٹھے تو آپ کے دربار میں حاضر ہونا ۔ (2) استغفار کرنا ۔ (3) حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اس کے حق میں سفارش فرمانا ۔
جب یہ تین کام ہوتے ہیں تواللہ تعالی کی جانب سے اس بندہ کیلئے قبولیتِ توبہ کا مژدہ ملتا ہے اوروہ بے پناہ رحمتوں کا حقدار بنتا ہے ۔
تمام محدثین ومفسرین علیہم الرّحمہ کا اتفاق ہے کہ یہ حکم رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہ وصحبہ وسلم کی ظاہری حیات طیبہ تک ہی محدود نہیں بلکہ بعد از وصال بھی یہی حکم ہے ۔
اس سلسلہ میں کم ازکم دو واقعات ملتے ہیں جس سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں وآشکار ہوجاتی ہے کہ مذکورہ آیت کریمہ کا حکم بعد ازوصال باقی ہے ۔
وصالِ مبارک کے تین دن بعد اعرابی کی حاضری : حضرت مولائے کائنات سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی اسی طرح کی ایک روایت تفسیر البحرالمحیط اورسبل الہدی والرشاد میں منقول ہے : وروی الحافظ ابن النعمان فی (مصباح الظلام فی المستغيثين بخير الانام) من طريق الحافظ ابن السمعانی بسنده عن علی رضی الله تعالی عنه قال: قدم علينا اعرابی بعدما دفنا رسول الله صلی الله عليه وسلم بثلاثة ايام فرمی نفسه علی القبر الشريف، وحثا من ترابه علی راسه وقال: يا رسول الله، قلت فسمعنا قولک، ووعيت عن الله تعالی ووعينا عنک وکان فيما انزل عليک : وَلَوْ اَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ جَاءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَحِيمًا) وقد ظلمت نفسی، وجئتک تستغفر لی فنودی من القبر: إنه قد غفر لک .
ترجمہ : محدث ابن نعمان رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنی کتاب"مصباح الظلام فی المستغیثین بخیر الانام"میں محدث ابن سمعانی کی وساطت سے روایت ذکر کی ہے ، جسے انہوں نے اپنی سند کے ساتھ حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت نقل کی ہے : حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وصال مبارک کے تین دن بعد ایک اعرابی دراقدس پر حاضر ہوکر گریہ وزاری کرنے لگے اور وہاں کی خاک مبارک کو اپنے سر پر ڈالنے لگے اور عرض گزار ہوئے : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! آپ نے ارشاد فرمایا ہم نے آپ کے ارشادِعالی کو سنا ، آپ نے اللہ تعالی سے کلام سنا اور بحفاظت ہم تک پہنچایا اور ہم نے آپ سے اس کلام کو سیکھا اور یادرکھا ، آپ پر نازل کردہ کلام میں یہ آیت کریمہ بھی ہے ۔ ترجمہ : اور اگر یہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو ائے محبوب وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوں اور اللہ تعالی سے مغفرت طلب کریں اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) بھی ان کے لئے سفارش کردیں تو وہ ضرور بضرور اللہ تعالی کو خوب توبہ قبول کرنے والا‘ نہایت رحم فرمانے والا پائیں گے ۔ (سورۃ النساء :64) (یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم!) میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے اور آپ کے دربار اقدس میں حاضر ہوا تاکہ آپ میرے حق میں مغفرت کی دعا فرمائیں!تو روضۂ اقدس سے آواز آئی:’’یقینا تمہاری بخشش کردی گئی ۔ (تفسیر البحرالمحیط سورۃ النساء۔64۔سبل الھدی والرشاد،جماع أبواب زیارتہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد موتہ وفضلھا،ج12،ص380،چشتی)
مذکورہ آیت کریمہ کے تحت علامہ ابن کثیر نے بیان کیاہے : وقوله : وَلَوْ اَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ جَاءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَحِيمًا.) يرشد تعالی العصاة والمذنبين إذا وقع منهم الخطأ والعصيان ان يأتوا إلی الرسول صلی الله عليه وسلم فيستغفروا الله عنده، ويسألوه ان يستغفر لهم، فإنهم إذا فعلوا ذلک تاب الله عليهم ورحمهم وغفر لهم، ولهذا قال : (لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَحِيمًا)
ترجمہ : اللہ تعالی کا ارشاد ہے"اور اگر یہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو ائے محبوب وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوں ،اور اللہ سے مغفرت طلب کریں اور اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) بھی ان کے لئے سفارش کردیں تو وہ ضرور بضرور اللہ کو خوب توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا پائینگے ۔ (اس آیت مبارکہ کے ذریعہ) اللہ تعالی گنہگاروں اور خطاکاروں کو رہنمائی فرما رہا ہے کہ جب ان سے کوئی غلطی اور گناہ سرزد ہوجائے تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوں اور وہاں حاضر ہوکر اللہ تعالی سے مغفرت طلب کریں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے معروضہ کریں کہ آپ ان کے حق میں سفارش فرمائیں،کیونکہ جب وہ لوگ اس طرح کریں گے تو اللہ تعالی ان کی توبہ قبول فرمائے گا اور ان پرخصوصی رحمت نازل فرمائے گااور ان کے گناہوں کو معاف فرمائے گا،اسی وجہ سے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:"ترجمہ:تو وہ ضرور بضرور اللہ تعالی کو خوب توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا پائینگے ۔
وَقَدْ ذَکَرَ جَمَاعَةٌ مِنْهُمْ:اَلشَّيْخُ اَبُوْ نَصْرِ بْنُ الصَّبَّاغِ فِیْ کِتَابِهِ "اَلشَّامِلْ" اَلْحِکَايَةَ الْمَشْهُوْرَةَ عَنِ الْعُتْبِیِّ، قَالَ کُنْتُ جالساً عند قَبْرِ النبیِّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَجَاءَ اَعْرَابِیٌّ ، فَقَالَ : السَّلاَمُ عَلَيْکَ ، يَا رَسُولَ اللَّهِ ، سَمِعْتُ اللَّهَ تعالی يَقُولُ : وَلَوْ اَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ جَاءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَحِيمًا.)، وقَدْ جِئْتُکَ مُسْتَغْفِرًا لِذَنْبِیْ مُسْتَشْفِعًا بِکَ إِلَی رَبِّیْ ثُمَّ اَنْشَأَ يَقُولُ ۔
ترجمہ : اور علماء ومفسرین کی ایک جماعت نے بیان کیاہے،ان میں شیخ ابو نصر بن صباغ رحمۃ اللہ تعالی علیہ ہیں ‘ اُنہوں نے اپنی کتاب "الشامل"میں حضرت عُتْبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے منقول مشہور حکایت ذکر کی،آپ نے فرمایا:میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے روضۂ اقدس کے قریب حاضر تھا،ایک اعرابی نے دراقدس پر حاضر ہوکر صلوۃ وسلام پیش کیا اور عرض گزار ہوئے :یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم !میں نے اللہ تعالی کو (قرآن کریم میں) فرماتے ہوئے سنا : وَلَوْ اَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ جَاءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَحِيمًا.... "اور اگر یہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو ائے محبوب وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوں ،اور اللہ سے مغفرت طلب کریں اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) بھی ان کے لئے سفارش کردیں تو وہ ضرور بضرور اللہ کو خوب توبہ قبول کرنے والانہایت رحم فرمانے والا پائیں گے۔(سورۃ النساء :64)
نیز اعرابی نے عرض کیا : یقینا میں اپنے گناہوں کی معافی کی خاطرآپ کی ذات ستودہ صفات کو اپنے پروردگار کے دربار میں وسیلہ بناکر آپ کے دربار عالی شان میں حاضر ہوا ہوں، اس کے بعد انہوں نے یہ اشعار کہے :
يَا خَيْرَ مَنْ دُفِنَتْ بِالْقَاعِ اَعْظُمُهُ
فَطَابَ مِنْ طِيبِهِنَّ القَاعُ وَالاَکَمُ
نَفْسی الفِدَاءُ لِقَبْرٍ اَنْتَ سَاکِنُهُ
فِيهِ العَفَافُ ، وَفِيهِ الْجُودُ وَالکَرَمُ
ترجمہ : ائے کائنات کی سب سے بہترین ذات !جن کے وجود مقدس کو زمین نے چوما ہے ،آپ کے وجود مقدس کی خوشبوسے میدان اور ٹیلے پاکیزہ ومعطر ہوچکے ہیں ،میری جان قربان اس روضۂ اطہر پر جس میں آپ رونق افروز ہیں ،جس میں پاکیزگی ہے،سخاوت اور کرم نوازی ہے ۔
حضرت عُتبی فرماتے ہیں : ثُمَّ انْصَرَفَ الْاَعْرَابِیُّ فَغَلَبَتْنِیْ عَيْنِیْ، فَرَاَيْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِی النَّوْمِ ، فَقَالَ : يَا عُتْبِیُّ ! اِلْحَقِ الْاَعْرَابِیَّ ، فَبَشِّرْهُ اَنَّ اللَّهَ تَعَالی قَدْ غَفَرَ لَهُ ۔
ترجمہ : جب وہ اعرابی واپس ہوگئے تو مجھ پر نیند طاری ہوگئی،خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دیدار سے مشرف ہوا،اورآپ نے ارشاد فرمایا:اے عُتْبی!اس اعرابی سے ملاقات کرو!اور انہیں بشارت دو کہ یقینااللہ تعالی نے ان کی بخشش فرمادی ہے ۔ حوالہ جات : (تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر،سورۃ النساء ،64۔ج 2،ص384،چشتی)(معجم ابن عساکر،حدیث نمبر738۔)(شعب الإیمان للبیھقی،فضل الحج والعمرۃ،حدیث نمبر4019۔)(الجواھر الحسان فی تفسیر القر ان للثعالبی،سورۃ النساء ،64۔)(الدر المنثور فی التأویل بالمأثور،سورۃ البقرۃ،203۔)(تفسیر البحر المحیط، سورۃ النساء ،64۔)(الحاوی الکبیرللماوردی،مستوی کتاب الحج۔)(الشرح الکبیر لابن قدامۃ،ج3،ص494۔)(الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ،التَّوَسُّل بِالنَّبِیِّ بَعْدَ وَفَاتِہِ۔)(المواھب اللدنیۃ، مع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فی زیارۃ قبرہ الشریف ومسجدہ المنیف،ج12،ص199۔) (سبل الھدی والرشاد، جماع أبواب زیارتہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد موتہ وفضلھا،ج12، ص390۔)(مختصر تاریخ دمشق، باب من زار قبرہ بعد وفاتہ کمن زار حضرتہ قبل وفاتہ۔) (خلاصۃ الوفا بأخبار دار المصطفی،ج1،ص57۔)(الأذکار النوویۃ، کتاب أذکار الحج ،حدیث نمبر 574)
اللہ تعالی نے ان مذکورہ اشعار کو ایسی شان عطا کی ہے کہ جالی مبارک سے متصل ستونوں پر آج بھی نقش ہیں اور زائرین کے لئے نور بصارت وبصیرت کا سامان فراہم کررہے ہیں ۔
روضۂ اقدس کی حاضری عین سعادت
شارح بخاری امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے "المواھب اللدنیہ" میں حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت نقل کی ہے : وعن الحسن البصری قال:وقف حاتم الاصم علی قبر صلی الله عليه واله وسلم فقال:يا رب! انَّا زرنا قبر نبيک فلا تردنا خائبين!فنودی :يا هذا ! ما اذنا لک فی زيارة قبر حبيبنا الا وقد قبلناک؛ فارجع انت ومن معک من الزوار مغفورا لکم .
ترجمہ : حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا:حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دراقدس پر حاضر ہوئے ،اور دربار الہی میں معروضہ کیا کہ ائے اللہ! ہم تیرے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دراطہر پر حاضر ہوئے ہیں،ہمیں محروم نہ لوٹا!ہاتف غیبی سے آواز آئی :اگر ہمیں تم کو قبول کرنا منظور نہ ہوتا تو تمہیں حاضری کا موقع مرحمت ہی نہ فرماتے! تم اس حال میں واپس لوٹو کہ ہم نے تمہیں اور تمہارے ساتھ تمام زائرین کو بخشش ومغفرت سے مالامال فرمادیاہے ۔ (المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فی زیارۃ قبرہ الشریف ومسجدہ المنیف،ج12،ص200)
زائرین روضۂ اقدس کےلیے شفاعت کی ضمانت
کتب حدیث وفقہ میں جہاں حج کے مناسک اور اس کے آداب کا ذکر ہے وہیں روضۂ اطہر کی حاضری اور اس کے آداب کا بھی ذکر موجود ہے، اورزائرین روضۂ اقدس کے حق میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شفاعت خاصہ کا وعدہ بھی فرمایا‘چنانچہ سنن دارقطنی،شعب الإیمان للبیھقی،جامع الأحادیث،جمع الجوامع،مجمع الزوائد اور کنز العمال وغیرہ میں حدیث مبارک ہے : عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :مَنْ زَارَ قَبْرِیْ وَجَبَتْ لَهُ شَفَاعَتِیْ .
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے میرے روضۂ اطہر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوچکی ہے ۔ (سنن الدارقطنی: کتاب الحج، حدیث نمبر:2727۔)(صحیح ابن خزیمۃ کتاب الحج او المناسک باب زیارۃ قبر النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، حدیث نمبر۔3095۔)(شعب الإیمان للبیھقی، الخامس و العشرین من شعب الإیمان و ھو باب فی المناسک ، فضل الحج و العمرۃ،حدیث نمبر:4159۔)(جامع الأحادیث، حرف المیم، حدیث نمبر: 22304،چشتی)(جمع الجوامع، حرف المیم، حدیث نمبر: 5035۔)(مجمع الزوائد ،ج 4،ص 6،حدیث نمبر:5841۔)(کنز العمال ، زیارۃ قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم،حدیث نمبر: 42583۔)(المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فی زیارۃ قبرہ الشریف ومسجدہ المنیف،ج12،ص179)
حدیث زیارت صحیح ومستند د‘ محدثین کی صراحت : اس حدیث شریف کو کئی ایک محدثین نے روایت کیا ،اس کے قابل استدلال ہونے سے متعلق ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے : رواه الدارقطنی وغيره وصححه جماعة من الائمة ۔
ترجمہ : اس حدیث پاک کو امام دارقطنی اور دیگر محدثین نے روایت کیا اور ائمہ ومحدثین کی ایک جماعت نے اُسے صحیح قرار دیاہے ۔ (شرح الشفا لعلی القاری بھامش نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض ، جلد 3، صفحہ 511) ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment