ماہِ ذو الحجہ کے فضائل و مسائل حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں نیک اعمال کی فضیلت صحیح احادیث مبارکہ سے ثابت ہے ، ان نیک اعمال میں روزہ رکھنا بھی شامل ہے ، چنانچہ بالعموم ان دنوں کے روزوں کی فضیلت حدیث شریف میں وارد ہوئی ہے اور خاص طور پر عرفہ (نو ذی الحجہ) کے دن روزہ رکھنے کی فضیلت الگ سے بیان فرمائی گئی ہے، ذیل میں ان روایات کو ذکر کیا جاتا ہے : ⬇
صحیح بخاری کی روایت ہے : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کوئی دن ایسا نہیں ہے کہ جس میں نیک عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں اِن (ذی الحجہ کے) دس دنوں کے نیک عمل سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہو ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا یہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر ہے ، مگر وہ شخص جو جان اور مال لے کراللہ کے راستے میں نکلے ، پھر ان میں سے کوئی چیز بھی واپس لے کر نہ آئے۔ (سب اللہ کے راستے میں قربان کردے ، اور شہید ہو جائے یہ ان دنوں کے نیک عمل سے بھی بڑھ کر ہے) ۔ (صحيح البخاري ٢/ ٢٠ (٩٦٩)كتاب العيدين/ باب فضل العمل في أيام التشريق،چشتی)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں : اس حدیث کو عشرہ ذی الحجہ میں روزے رکھنے کی فضیلت کے ثبوت کے لیے بطور دلیل پیش کیا گیا ہے ، کیونکہ نیک اعمال میں روزہ بھی شامل ہے ۔ (فتح الباري لابن حجر: ٢/ ٤٦٠)
صحيح مسلم کی روایت ہے : حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مجھے اللہ تعالی کی ذات سے امید ہے کہ وہ یوم عرفہ کے روزے رکھنے کی صورت میں گزشتہ سال اور اگلے سال کے گناہ بخش دے گا ۔ (صحیح مسلم: رقم الحدیث 1162،چشتی)
شعب الایمان کی روایت ہے : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کوئی دن ایسا نہیں ہے کہ جس میں نیک عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں اِن (ذی الحجہ کے) دس دنوں کے نیک عمل سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہو ، لہذا تم ان ایام میں کثرت سے تہلیل اور تکبیر (لا الہ الااللہ اور اللہ اکبر) پڑھا کرو ، بے شک یہ تہلیل اور تکبیر کے ایام ہیں اور ان دنوں میں ایک دن کے روزے کا ثواب ایک سال روزہ رکھنے کے ثواب برابر ہے اور ان ایام میں نیک عمل کا ثواب سات سو گنا بڑھا دیا جاتا ہے ۔ (شعب الإيمان: 5/ 311) (3481) تخصيص أيام العشر من ذي الحجة بالاجتهاد بالعمل فيهن)
ابن عدی کی "الکامل" میں روایت ہے : حضرت جابر بن عبد الله رضی الله عنه فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے ان دس ایام میں روزہ رکھا ، تو اس کے ہر روزے کے بدلے میں ایک سال کے روزوں کا ثواب لکھا جائے گا ، سوائے عرفہ کے دن کے ، کیوں کہ جس نے عرفہ کے دن کا روزہ رکھا تو اس کےلیے دو سال روزہ رکھنے کا ثواب لکھا جائے گا ۔ (الكامل لابن عدي: ٦/ ١٥٧)
شعب الإيمان کی روایت ہے : امام اوزاعى کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچى ہے کہ عشرہ ذى الحجہ میں نیک عمل کا ثواب اللہ تعالى کے راستے میں جہاد کے اجر کى طرح ہے، جس کے دن میں روزہ اور رات میں پہرہ دیا جائے، مگر اس شخص کا اجر زیادہ ہوگا، جو جہاد میں جائے اور شہادت کے مرتبہ پر فائز ہو جائے ۔
امام اوزاعى کہتے ہیں : مجھے یہ حدیث بنو مخزوم کے ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب کرکے سنائی ہے ۔ (شعب الایمان للبيهقي:٥ /٣٠٩ (٣٤٧٧) باب في الصيام/ تخصيص أيام العشر من ذي الحجة بالاجتهاد بالعمل فيهن،چشتی)
سنن الترمذی کی روایت ہے :
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ذی الحجہ کے (ابتدائی) دس دنوں سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں ، جس کی عبادت اللہ کو زیادہ محبوب ہو ، ان ایام میں سے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور ان کی ہر رات کا قیام لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے ۔
(سنن الترمذي: ٢/ ١٢٢ (٧٥٨) أبواب الصوم عن رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم/ باب ما جاء في العمل في أيام العشر)
واضح رہے کہ نفل روزے کی الگ حیثیت ہے اور فرض روزے کی قضا کی الگ اور مستقل حیثیت ہے ، لہذا نفل اور قضا روزوں کو الگ الگ رکھا جائے گا ، ایک روزہ میں نفل اور قضا دونوں کی نیت نہیں کر سکتے ۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’کوئی ایسے دن نہیں جن میں نیک اعمال اللہ جل شانہ کو عشرۂ ذی الحجہ (میں نیک اعمال) سے زیادہ محبوب ہوں ، پوچھا گیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا اللہ کے راستے میں جہاد سے بھی (ان دنوں کی عبادت افضل ہے ؟) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ (جی ہاں) اللہ کے راستے میں جہاد بھی برابر نہیں ہو سکتا مگر وہ شخص جو اللہ کے راستے میں جان و مال سمیت نکلے اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ واپس نہ لوٹے ۔ (رواہ البخاری مشکوٰۃ المصابیح، رقم الحدیث:1460 باب فی الأضحیۃ،چشتی)
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ جل شانہ کے نزدیک عشرۂ ذی الحجہ کے برابر زیادہ عظمت والے دن کوئی نہیں اور نہ کسی دنوں میں نیک عمل اتنا پسند ہے (جتنا ان دنوں میں) پس تم ان دنوں میں کثرت سے تسبیح (سبحان اللہ) ، تکبیر (اللہ اکبر) اور تہلیل (لاالہ الااللہ) کیا کرو ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث: 11116)
عید رات کی فضیلت
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص دونوں عیدوں کی رات (یعنی چاند رات) کو اللہ تعالیٰ سے ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے عبادت کرے ، اس کا دل اس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن لوگوں کے دل مردہ ہوں گے ۔ (سنن ابن ماجۃ،رقم الحدیث: 1712،چشتی)
عشرۂ ذی الحجہ میں دن کو روزہ اور رات میں عبادت کی فضیلت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ’’ ایسا کوئی دن نہیں ہے جس میں عبادت کرنا اللہ تعالیٰ کو عشرۂ ذی الحجہ میں عبادت کرنے سے زیادہ محبوب ہو ، اس کے ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر ہے ۔ اور اس میں ہر رات کی عبادت شب قدر کی عبادت کے برابر ہے ۔ (جامع الترمذی رقم الحدیث: 758)
یومِ عرفہ ( نوذی الحجہ) کے روزے کی خاص فضیلت
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’میں اللہ سے امید کرتا ہوں کہ یومِ عرفہ کا روزہ گزشتہ ایک سال اور آیندہ ایک سال کے گناہوں کے لیے کفارہ بن جائے گا ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث:749)
یوم عرفہ کا روزہ دو سال کے گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ”یوم عرفہ یعنی 9 ذوالحجہ کا روزہ ایک سال گزشتہ او رایک سال آئندہ کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔
صيام يوم عرفة ، أحتسب على أن يكفر السنة التي قبله، والسنة التي بعده ۔ (صحيح مسلم رقم الحديث 1162 باب استحباب صيام ثلاثة أيام من كل شهر)
فضائل پر گناہوں کی معافی سے مراد صغیرہ گناہ ہیں
احادیث فضائل میں جہاں بھی کسی نیک عمل سے گناہوں کے معاف ہونے کا ذکر ہے ان سے صغیرہ گناہ مراد ہیں او رجہاں تک کبیرہ گناہوں کا تعلق ہے وہ بغیر توبہ وندامت کے کسی عمل سے معاف نہیں ہوتے او رپھر توبہ سے بھی وہ گناہ کبیرہ معاف ہوتے ہیں جن کا تعلق حقوق الله سے ہو نہ کہ حقوق العباد سے ۔
عرفہ کا روزہ غیر حاجی کےلیے ہے
عرفہ کے دن ، جو دراصل حج کا اہم ترین دن ہے ، روزہ کی یہ فضیلت غیر حاجیوں کےلیے ہے کہ اس طرح حجاج کرام پر نازل ہونے والی رحمتوں اور برکتوں میں شامل ہو سکتے ہیں ۔ جب کہ حجاج کےلیے مقبول ترین عمل اس دن وقوف عرفات ہے ، اگر حجاج اس دن روزہ رکھیں گے تو انہیں وقوف عرفہ کے بعد مزدلفہ جانے میں مشکل پیش آئے گی ، لہٰذا حجاج کرام کےلیے اس دن روزہ رکھنے کی ممانعت بھی ہے ۔
حضرت ام فضل رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عرفہ کے دن کے روزہ کے متعلق اختلاف کیا بعضوں نے کہا کہ : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم روزہ سے ہیں ، بعضوں نے کہا کہ : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم روزہ سے نہیں ہیں ، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس دودھ کا ایک پیالہ بھیجا اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اونٹ پر تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کو پی لیا ۔
عَنْ أُمِّ الفَضْلِ بِنْتِ الحَارِثِرضي الله عنها، أَنَّ نَاسًا اخْتَلَفُوا عِنْدَهَا يَوْمَ عَرَفَةَ فِي صَوْمِ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: هُوَ صَائِمٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَيْسَ بِصَائِمٍ، «فَأَرْسَلْتُ إِلَيْهِ بِقَدَحِ لَبَنٍ وَهُوَ وَاقِفٌ عَلَى بَعِيرِهِ، فَشَرِبَهُ ۔ (صحيح البخاري 2/ 162 رقم الحدیث 1661)
تکبیراتِ تشریق
وَاذْكُرُوا فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ ۔ اور یاد کرتے رہو اللہ کو گنتی کے چند دنوں میں ، ایام معدودات سے ایام تشریق مراد ہیں ۔ (تفسیر مظہری)
تکبیر تشریق کی اصلیت یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو لٹایا تو ﷲ تبارک و تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ فدیہ لے کر جاؤ ۔ لیکن یہ فدیہ لے کر آئے تو اس ڈر سے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسمعیل علیہ السلام کو ذبح کر ڈالیں گے ، ﷲ اکبر ﷲ اکبر پکارنے لگے ۔ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جب یہ آواز سنی تو بشارت سمجھ کر پکار اٹھتے ’’ لا الہ الا ﷲ وﷲ اکبر‘‘ حضرت اسمعیل علیہ السلام سمجھے کہ فدیہ آگیا تو ﷲ اکبر وﷲ الحمد کہتے ہوئے ﷲ تعالیٰ کی حمد اور اس کا شکر ادا کرنے لگے ۔ (شامی ج۱ ص ۵۸۵)
تکبیرِ تشریق کب سے کب تک ہے ؟
تکبیرِ تشریق نویں ذی الحجہ کی نماز فجر سے تیرہویں ذی الحجہ کی نماز عصر تک ہر فرض نماز کے فوراً بعد مردوں کےلیے بآواز بلند اور عورتوں کےلیے ایک مرتبہ آہستہ کہنا واجب ہے ۔
اجْتَمَعَ عُمَرُ وعَلِىٌّ وابْنُ مَسْعُودٍ عَلَى التَّكْبِيرِ فِى دُبُرِ صَلَاةِ الْغَدَاةِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ، فَأمَّا ابْنُ مَسْعُودٍ قَالَ: صَلَاةُ الْعَصْرِ مِنْ يَوْمِ النَّحْرِ، وَأَمَّا عُمَرُ وَعَلِىٌّ قَالَا: صَلَاةُ الْعَصْرِ مِنْ آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ۔ (الجامع الكبير15/ 290)
عن عبيدةَ قالَ : قَدِمَ عَلينَا علىُّ بنُ أبِى طالبٍ فَكَبَّر يَومَ عرفةَ من صلاةِ الغداةِ إلى صلاةِ العصرِ من آخرِ أيَّامِ التشريقِ يقولُ : أكبرُ، أكبرُ، لاَ إِلَهَ إلاَّ الله، و أَكْبَرُ أكبرُ وِلله الحمدُ ۔ (الجامع الكبير 17/ 631)
أوله من فجر عرفة إلی عصر الیوم الخامس آخر أیام التشریق وعليه الاعتماد ۔ (شامی زکریا ۳؍۶۴، ایضاح المسائل ۳۷)
تکبیر تشریق کے الفاظ یہ ہیں :
أکبر أکبر لا إله إلا و أکبر أکبر ولله الحمد ۔
تکبیرِ تشریق کتنی مرتبہ پڑھی جائے ؟
تکبیرِ تشریق اصلا ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے، تاہم کوئی شخص ایک سے زیادہ مرتبہ پڑھ لے تو بھی حرج نہیں ۔ ویجب تکبیر التشریق فی الأصح للأمر به مرة وإن زاد عليها یکون فضلاً ۔ (درمختار 2/177)
تکبیرِ تشریق کن لوگوں پر واجب ہے؟
تکبیرِ تشریق مقیم ، مسافر ، منفرد ، جماعت ، عورت ، اہلِ شہر اور دیہات کے رہنے والوں پر واجب ہے ۔ ووجوبه علی إمام مقیم بمصر و علی مقتد مسافر أو قروی أو امرأة لکن المرأة تخافت ویجب علی مقیم اقتدی بمسافر ، وقالا بوجوبه فور کل فرض مطلقاً ولو منفرداً أو مسافراً أو امرأة لأنه تبع للمکتوبة ۔ (رد المحتار ، زکریا ۳؍۶۴)
تکبیرِ تشریق بھول جانا
تکبیرِ تشریق کہنا واجب ہے اگر کوئی مانع فعل صادر ہوجائے مثلاً مسجد سے باہر نکل گیا یا کوئی بات چیت کرلی یا عمداً وضو توڑ دیا، تو ان تمام صورتوں میں تکبیرِ تشریق ساقط ہوجائے گی لیکن سہواً وضو ٹوٹ جائے تو تکبیر کہہ لے اور اگر قبلہ سے سینہ پھر گیا تو اس میں دو روایتیں ہیں؛ لہٰذا احتیاطاً تکبیر کہہ لی جائے ۔ عقب کل فرض عینی بلا فصل یمنع البناء فلو خرج من المسجد أو تکلم عامداً أو ساهیاً أو أحدث عامداً سقط عنه التکبیر وفی استدبار القبلة روایتان ولو أحدث ناسیاً بعد السلام الأصح أنه یکبر ولایخرج للطهارة ۔ (فتاویٰ شامی زکریا ۳؍۶۳،چشتی)
مسبوق پر تکبیرِ تشریق
مسبوق پر بھی تکبیرِ تشریق واجب ہے وہ اپنی بقیہ رکعات پوری کرنے کے بعد پڑھے گا ۔ والمسبوق یکبر وجوباً کاللاحق ۔ (فتاویٰ شامی زکریا ۳؍۶۵، ہندیہ ۱؍۱۵۲)
عورتوں پر تکبیرِ تشریق
عورتوں پر بھی تکبیرِ تشریق واجب ہے ، لیکن وہ بالکل آہستہ آہستہ پڑھیں گی ۔ یجب علی المرأة والمسافر، والمرأة تخافت بالتکبیر ۔ (ہندیہ ۱؍۱۵۲، شامی زکریا ۳؍۶۴)
اگر حاجی کو اس روزے کی وجہ سے یومِ عرفہ کے قیمتی دن کی عبادات اور دعا مانگنے میں خلل پیدا ہونے کا اندیشہ ہو، تو ایسی صورت میں حاجی کے لیے یہ روزہ رکھنا مکروہ ہے ۔ (فتاویٰ شامی)
واضح رہے کہ یکم ذوالحجہ سے نو ذوالحجہ تک روزہ رکھنا مستحب ہے لیکن عید کے دن روزہ رکھنا شرعاً ممنوع ہے کیوں کہ حدیث میں اس دن روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے ، اسی طرح عید الاضحیٰ کے دوسرے اور تیسرے دن بھی روزہ رکھنا جائز نہیں ۔ البتہ عیدالاضحیٰ کے دن اگر کوئی شخص اپنے کھانے اگر کوئی شخص اپنے کھانے کی ابتداء قربانی کے گوشت سے کرے اور اس سے پہلے کچھ نہ کھائے تو اس کو فقہاء کرام نے مستحب لکھا ہے اور یہ عمل سنت سے ثابت ہے ۔ (بدائع الصنائع ہندیہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment