Saturday, 25 June 2022

فلسفہ قربانی قرآن وسنت کی روشنی میں

فلسفہ قربانی قرآن وسنت کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : قربانی دراصل اس تجدیدِ عہد کا نام ہے جس کی طرف قرآن مجید نے یوں ارشاد فرمایا کہ ایک بندہ مومن اللہ رب العزت کی بارگاہ میں یوں ملتمس ہوتا ہے : اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ ۔
ترجمہ: بیشک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کےلیے ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے ۔ (سورہ الانعام 162)

اسلام نے اپنے پیروکاروں کو تسلیم و رضا ، ایثار اور قربانی کا وہ راستہ دکھایا ہے جوایمانی ، روحانی ، معاشی ، معاشرتی سماجی اور اخروی حوالے سے نفع آفرین ہے ۔ عید الاضحی آتی ہے تو دنیا بھر میں اہل اِسلام حضرت ابراہیم علیہ السلام ، ان کے نور نظر حضرت اسماعیل علیہ السلام اور سیدہ ہاجر ہ سلام اللہ علیہا کے عظیم جذبہ ایثار وقربانی کی یاد مناتے ہیں ۔ اس گھرانے کے ہر فرد نے عملی طور پر ایثار کے پیکر میں ڈھل کرحکم ربانی کے سامنے سر جھکایا۔ اپنے انسانی جذبات کو اللہ کے حکم کی تعمیل میں رکاوٹ نہیں بننے دیا اور قیامت تک آنے والے مسلمانوں کےلیے ایک مینارہ نور قائم کیا جو ہر سال مسلمانوں کو جھنجوڑ کر یہ کہتا ہے : دیکھو کہیں فانی دنیا کی فانی راحتوں میں گم نہ ہو جانا بلکہ اپنے رب کی رضا پر سب کچھ لٹا دینا ، اسی صورت دونوں جہاں کی رحمتوں کو حاصل کرلو گے ۔ یہ بات شعوری طور پر سمجھنے اور سمجھانے کی ہے کہ قربانی کا مقصد فقط ایک رسم ادا کرنا نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک سہ روزہ تربیتی ورک شاپ ہے جو ہمیں ہر سال تسلیم و رضا ، ایثار اور قربانی کے ان جذبات سے آشنا کرواتی ہے جو ایمان کی معراج ہیں ۔ آدابِ فرزندی سے سرشار عظیم باپ کے عظیم بیٹے نے اپنی گردن کسی تردد کے بغیر اللہ تعالی کے حکم کی تنفیذ کےلیے پیش کر دی ۔ ایک ماں نے برسوں کی دعاٶں ، التجاٶں اور مناجاتوں کے بعد حاصل ہونے والے اپنے نور ِ نظر کو بلند حوصلے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کر دیا ۔ ایک عظیم باپ نے کسی تردد کے بغیر پدری جذبات کو اللہ تعالی کے حکم پر قربان کرتے ہوئے تسلیم و رضا کی بلند ترین حدوں کو چھو لیا اور عملی طور پر اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی کوشش فرمائی ۔ اللہ تعالی نے اپنے خلیل کو اپنے خاص لطف و کرم سے نوازنے کےلیے جس امتحان میں ڈالا تھا اس میںحضرت ابراہیم علیہ السلام ہی نہیں ان کا پورا گھرانا ہی اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہو گیا ۔ قیامت تک حج کی سعادت پانے والے دنیا بھر کے مسلمان منی میں قربانی پیش کرتے ہوئے اس قربانی کی یاد مناتے رہیں گے ۔ عید الاضحی دلوں میں ایثار اور تسلیم و رضا کے چراغ جلاتی رہے گی ۔ جس رب نے ہمیں قربانی کا حکم دیا ہے وہ جانوروں کی نسل کی بقا کا علم بھی رکھتا ہے اور اپنے بندوں کی فلاح و بہبود کو بھی خوب جانتا ہے ۔ کسی کلمہ گو کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ قربانی کے حوالے سے اپنے محدود اور تاریک ذہن کے خیالات کو خدمت ِ خلق کے تناظر میں زیادہ نفع آفرین گمان کرے ۔ ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم یاد تو اس عظیم قربانی کی منائیں مگر عملی طور ایثار کے راستے پر نہ چلیں ۔ ہمارا یہ طرز عمل نہیں ہونا چاہیے کہ فقط جانور ذبح کر دیں بلکہ قربانی کو وسیع تناظر میں دیکھتے ہوئے ہمیں قربانی کا درس سارا سال پیش نظر رکھنا چاہیے تاکہ ہم اللہ تعالی کی رضا حاصل کر سکیں ۔ اگر اللہ تعالی نے ہمیں اعلی منصب عطا فرمایا ہے تو وہ منصب اقربا پروری اور ناجائز منفعت حاصل کرنے پر صرف نہ کریں بلکہ اللہ تعالی کی مخلوق کو راحت پہچاننے میں صرف کریں ۔ نیز خلقِ خدا کی راحت کو اپنی خواہشات پر ترجیح دیں ۔ اپنی زبان یا قلم سے کسی ضرورت مند کو نفع دے نہیں سکتے ہیں تو اس ضرورت مند کی حسرتوں کاخون نہ نچوڑیں بلکہ اپنے اختیارات اور منصب کے ذریعے اس کے تن بدن میں خوشیاں دوڑا دیں ۔ عید الاضحی اور انسانی خواہشات کی قربانی کے حوالے سے ذہن میں رکھنے والی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم قربانی کے جانور کا گلا توکاٹ دیتے ہیں مگر ہم اپنی خواہشات کے گلے پر چھری پھیرنا تو دور کی بات ہے چھری رکھنا بھی گوارا نہیں کرتے ۔ عید الاضحی آکر چلی جاتی ہے مگر ہمارے قلوب واذہان قربانی کے جذبوں سے خالی کے خالی ہوتے ہیں ۔ ہم قربانی کے عمدہ جانور خریدتے ہیں تو دکھاوے کی دلدل میں الجھ جاتے ہیں یاان ناداروں کی دل آزاری کا سبب بن جاتے ہیں جو نہ توقربانی کےلیے کوئی سستا سا جانور خرید سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی صاحب ثروت انسان انہیں قربانی کے گوشت میں سے ان کا اچھا حصہ دیتا ہے ۔ اس پوری تفصیل سے اس امرکی نشاندہی ہوتی ہے کہ عیدالاضحیٰ پرجانوروں کی قربانی پیش کئے جانے کے پس منظرمیں ایک مکمل فلسفہ ہے اوراسی فلسفے کے تحت یہ ایک مستقل واجب،عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے ۔

عیدالاضحی یاعید قربان کے تین دنوں میں جانور وں کی قربانی کر دینے سے بہتر کوئی عمل ایسا نہیں جو ابنِ آدم اللہ کی بارگاہ میں پیش کر سکے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ ع آلہ وسلم نے مدینہ منورہ کے 10 سالہ قیام میں ہر سال قربانی فرمائی ۔ اس ساری بحث کا لب لباب یہ ہے کہ ہر عمل کے اپنے مخصوص ثمرات اور فیوض و برکات ہوتے ہیں جو قرب الہی کا ذریعہ بنتے ہیں مگر عید قربان میں قربانی کے عمل کو کیوں اللہ کے انتہائی قرب کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے ؟ قربانی کا یہ عمل صرف جانور کو ذبح کرنے تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ گہرے اور دور رس اثرات (Implications) رکھتا ہے ۔ جانور کے ذبح کرنے کے عمل کو قربانی سے اس لیے موسوم کیا گیا ہے کہ یہ عمل بندے کو اللہ کے انتہائی قریب کردیتا ہے ۔ لیکن اس میں قربانی کرنے والے بندے کا اخلاص ایک سوالیہ نشان کے طور پر سامنے آتا ہے ۔ کیا وہ قربانی جو بندہ پیش کر رہا ہے اس سے اللہ کی بارگاہ سے مطلوبہ نتائج حاصل ہوئے ہیں ؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو اس کا عمل ’’قربانی‘‘ اس کےلیے اللہ سے انتہائی قرب کا سبب قرار دیا جائے گا ۔ گویا قربانی کی روح حقیقت میں اس قربانی کے پیچھے کار فرما ’’اخلاص‘‘ ہے ۔

: ’’قربانی‘‘ عربی زبان کے لفظ ’’قُرب‘‘ سے ہے، جس کا مطلب ’’کسی شے کے نزدیک ہونا‘‘ ہے۔ ’’قُرب‘‘، دوری کا متضاد ہے۔ ’قربان‘ ’قرب‘ سے مبالغے کا صیغہ ہے۔ امام راغب اصفحانی قربانی کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : القربان مايتقرب به الی الله وصارفي التعارف اسماً للنسيکة التي هي الذبيحة ۔
ترجمہ : قربانی وہ چیز جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے، شرع میں یہ قربانی یعنی جانور ذبح کرنے کا نام ہے ۔ (المفردات للراغب، 408، طبع مصر،چشتی)

قربانی کے لیے قرآن کریم میں تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں : ⬇

قربانی

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ ۔
ترجمہ : (اے نبی مکرم!) آپ ان لوگوں کو آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں (ہابیل و قابیل) کی خبر سنائیں جو بالکل سچی ہے۔ جب دونوں نے (ﷲ کے حضور ایک ایک) قربانی پیش کی سو ان میں سے ایک (ہابیل) کی قبول کر لی گئی اور دوسرے (قابیل) سے قبول نہ کی گئی تو اس (قابیل) نے (ہابیل سے حسداً و انتقاماً) کہا : میں تجھے ضرور قتل کر دوں گا، اس (ہابیل) نے (جواباً) کہا: بیشک اﷲ پرہیزگاروں سے ہی (نیاز) قبول فرماتا ہے ۔ (سورہ الْمَآئِدَة، 5: 27)

منسک

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ ۔
ترجمہ : اور ہم نے ہر امت کے لئے ایک قربانی مقرر کر دی ہے تاکہ وہ ان مویشی چوپایوں پر جو ﷲ نے انہیں عنایت فرمائے ہیں (ذبح کے وقت) ﷲ کا نام لیں ، سو تمہارا معبود ایک (ہی) معبود ہے پس تم اسی کے فرمانبردار بن جاؤ ، اور (اے حبیب!) عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں ۔ (سورہ الْحَجّ، 22: 34)

نحر

اِنَّآ اَعْطَيْنٰکَ الْکَوْثَرْ ۔ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ ۔ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ ۔
ترجمہ : بیشک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہے۔ پس آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں (یہ ہدیہ تشکرّ ہے) ۔ بیشک آپ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام و نشاں ہوگا ۔ (سورہ الْکَوْثَر، 108: 1 تا 3)

قرآن کریم سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم پر قربانی لازم کی ہے ۔ ٹھیک اسی طرح ہر امت پر نماز و روزہ فرض فرمائے ۔

ہر انسان کو بڑی بڑ ی تین نعمتیں ملی ہیں : ⬇

(1) جان کی نعمت ، اس کا شکریہ یہ ہے کہ اپنی تمام صلاحیتوں کو اطاعت خداوندی میں استعمال کیا جائے۔ ہاتھ پاؤں زبان اوردماغ سے مخلوق خدا کو فائدہ پہنچایا جائے ۔

(2) مال کی نعمت ، اس کا شکر یہ ہے کہ حلال و جائز ذرائع سے مال حاصل کیا جائے ، اللہ کی رضا کےلیے غریبوں ناداروں یتیموں اور حاجت مندوں کی ضروریات زندگی بہم پہنچانے میں اسے خرچ کیا جائے ۔ مال میں و ہ پالتو جانور بھی شامل ہیں جو قدرت نے ہمارے لیے مسخر فرمائے ہیں ۔ جن سے ہمیں اون، کھال، دودھ اور گوشت حاصل ہوتا ہے ان سے ہم سواری و باربرداری کا کام لیتے ہیں ۔ ان کے ایک ایک عضو سے ہمیں بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔ ان شکر، یہ ہے کہ ہم ان منافع میں ان کو شریک کریں جو اس نعمت سے محروم ہیں ۔ سوار و بار برداری کی سہولتوں سے ان کو بھی بہرہ مند کریں ۔ ذبح کریں تو ان کا گوشت دوسروں کو بھی دیں ۔ دودھ جیسے نعمت حاصل ہو تو حسب توفیق ناداروں کو ان کا حصہ ادا کریں ۔ ان جانوروں کے ذریعے جوئے جیسا حرام کاروبار نہ چلائیں ۔ ان کو آپس میں لڑا لڑا کر لہولہان نہ کریں ۔ صرف اللہ کے نام پر ذبح کریں۔ کسی اور کے نام پر ذبح نہ کریں قربانی دم تمتع ، دم احصار ، ہدی، نذر اور دم جنایت کے طو رپر جو جانور ذبح کرو ۔ اسے ان تلوثیات سے پاک رکھو ، جن سے دور جاہلیت کے مشرک اسے ملوث کرتے تھے کہ جانور ذبح کیا اس کا خون کعبے کی دیواروں پر لتھیڑ دیا بتوں کے آستانوں پر لگادیا اور گوشت ضائع کردیا ۔ قربانی کا گوشت خود بھی کھاؤ، دوسروں کو بھی کھلاؤ ، غریب ہو یا امیر سبھی کھاسکتے ہیں ۔

(3) علم کی نعمت ، علم مفید حاصل کریں یہ آپ کا پیدائشی حق بھی ہے اور آپ پر فرض بھی ۔ اس کی قربانی یہ ہے کہ ہم اس پر عمل کریں ۔ اس کو دوسروں تک پہنچائیں اور کوئی علمی بات کسی سے نہ چھپائیں ، نہ لالچ سے نہ کسی کے ڈر سے ۔

ظاہر ہوا کہ قربانی مسلمانوں پر حسب توفیق لازم ہے ۔ سورۃ کوثر میں نماز قربانی کو ایک ساتھ جمع ہونا اس بات کا غماز ہے کہ جس طرح نماز اپنی شرائط کے ساتھ اوقات مقرر پر لازم ہے اسی طرح قربانی بھی اپنی شرائط کے ساتھ اوقات مقررہ پر لازم ہے جیسے نماز کسی خاص مقام کے ساتھ مقید نہیں ہر جگہ کے لئے عام ہے اسی طرح قربانی بھی کسی مخصوص جگہ کے لئے نہیں ہر جگہ کے مسلمانوں کےلیے حکم شرعی ہے ۔

امام ترمذی وابن ماجہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ، نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَاعَمِلَ ابْنُ اٰدَمَ يَوْمَ النَّحْرِ عملاً اَحَبَّ اِلَی اللّٰهِ مِنْ هَراقَةِ الدَّمِواِنَّه لَيَاْتِیْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ بِقُرُوْنِهَا وَاشعارِهَا وَاَظْلاَفِهَا وَاِنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللّٰهِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ يَّقَعَ علی الارض فَطِيْبُوْا بِهَا نَفْسًا ۔
ترجمہ : ابن آدم نے قربانی کے دن خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ خدا کے حضور پسندیدہ کوئی کام نہیں کیا اور بے شک وہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور بے شک خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے۔ لہذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو ۔ (سنن ابن ماجه، جلد2، باب ثواب الاضحيه، رقم : 1045،چشتی)

پس جو قربانی صدق و اخلاص سے دی جائے اس قربانی کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کی بارگاہ میں شرف قبولیت پا جاتی ہے ۔ (مشکوٰة، ص 128 باب الاضحية)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ضَحیّٰ رَسُوْلُ اللّٰه صَلیَّ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِکَبْشَيْنِ اَمْلَحَيْنِ اَقْرَنَيْنِ زَبَحَهُمَا بِيَدِهِ وَسَمّٰی وَکَبَّر قَالَ رَأَيْتُهُ وَاضِعًا قَدَمَهُ عَلٰی صَفَا حِهِمَا وَيَقُوْلُ بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ اَکْبَرُ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو چتکبرے سینگوں والے مینڈھے اپنے ہاتھ سے قربانی کےلیے ذبح فرمائے ۔ بسم اللہ پڑھ کر اور اللہ اکبر کہہ کر (بسم اللہ اللہ اکبر) کہتے ہیں ، میں نے حضور کو ان کے پہلوٶں پر قدم رکھے دیکھا اور فرماتے جاتے بسم اللہ، اللہ اکبر ۔ (مشکوة ص 127)

اپنے ہاتھ سے قربانی کرنے میں حکمت یہ ہے کہ عمل قربانی میں انسان کی اپنی دلچسپی ہو۔ اگر آپ نے قربانی کا جانور قصاب کے حوالے کر دیا اور خود کسی اور کام میں مصروف ہوگئے تو اس طرح سے قربانی ہو جاتی ہے لیکن اس میں اس دلچسپی کا مظاہرہ نہ ہو سکا جتنی دلچسپی کا اظہار خون گراتے وقت ظاہر ہونی تھی کیونکہ قربانی کا فلسفہ محض جانور ذبح کر دینا اور گوشت تقسیم کرنا نہ تھا بلکہ ہاتھ سے اس جانور کا خون بہانا تھا اور اگر خون بہانے کا کام جب انسان نے اپنے ہاتھ سے نہ کیا تو عمل قربانی میں حسن نیت اپنے کمال کو نہ پہنچی۔ اس لئے سنت یہ ہے کہ قربانی اپنے ہاتھ سے کی جائے ۔

امام مسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ : نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم دیا ۔ جو سیاہی میں چلتا ہو، سیاہی میں بیٹھتا ہو اورسیاہی میں دیکھتا ہو یعنی اس کے پاؤں، پیٹ اور آنکھیں سیاہ ہوں، وہ قربانی کے لئے حاضر کیا گیا۔ فرمایا عائشہ! چھری لائو، پھر فرمایا اسے پتھر پر تیز کرو میں نے تیز کردی پھر آپ نے چھری پکڑی، مینڈھا لٹایا ، اسے ذبح کیا پھر فرمایا ۔

بِسْمِ اللّٰهِ اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّمِنْ اُمَّةِ مُحَمَّدٍ ۔
ترمہ : الہی محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، آپ کی آل اور آپ کی امت کی طرف سے قبول فرما ۔ (مشکوة، 127،چشتی)

قربانی میں مقصود گوشت نہیں ہوتا بلکہ قربانی کے عمل کی روح صرف چُھری چلا کر بسم اللہ ، اللہ اکبر کہتے ہوئے اللہ کے نام پر خون بہا دینا ہے ۔ پس اس خون کے قطرے کے گرانے کو قربانی کہتے ہیں جبکہ گوشت کی تقسیم کا معاملہ، عام صدقے کی طرح ایک صدقہ ہے ۔ جس طرح آپ اس قربانی کے علاوہ غرباء میں گوشت تقسیم کرتے رہتے ہیں ۔

نیز یہ بھی کہ قربانی کے گوشت کی تقسیم کا ایک سنت طریقہ ہے کہ اس کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے ایک غرباء کےلیے، ایک حصہ رشتہ داروں کےلیے اور ایک حصہ اپنے لیے لیکن اگر اپنی فیملی کے احباب زیادہ ہوں تو خود دو حصے بھی رکھ سکتے ہیں اور اگر دو حصے بھی کفایت نہ کریں تو سارے کا سارا گوشت خود بھی رکھ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قربانی کا مقصود صرف گوشت کی تقسیم نہیں بلکہ مقصودِ قربانی اللہ کی رضا کے لئے اس کے نام پر خون بہانا ہے ۔ مقصود گوشت کی تقسیم نہیں ، اگر مقصود گوشت کی تقسیم ہوتی تو یہ عمل تو سال بھر ہوتا رہتا ہے ۔ لیکن عیدالاضحی جس سبب سے اس عید کو عید قربان کرتی ہے وہ گوشت کی تقسیم کے سبب سے نہیں ، بلکہ اللہ کی رضا کےلیے اس خون کو گرانے کے عمل سے بندے کو اللہ کا قرب عطا کرتی ہے کہ اللہ کی رضا کےلیے جان کے نذرانے کی علامت کے طور پر خون گرایا جاتا ہے ۔

قربانی صرف کسی جانور کو ذبح کرنے کا نام نہیں ہے ۔ قربانی کسی جانور کو مار کے اس کا خون بہانے کا نام نہیں ہے ۔ قربانی کسی جانور کو کاٹ کے اس کے گوشت سے لطف اندوز ہونے کا نام نہیں ہے ۔ قربانی عید کے دن لذیذ پکوانوں سے شکم سیر ہونے کا نام نہیں ہے ۔ قربانی لذت کام و دہن کا نام نہیں ہے ۔قربانی گوشت کے مختلف عمدہ  ڈش تیار کروا کے اس سے چٹخارہ  لینے کا نام نہیں ہے ۔ قربانی کے دن صرف ایک جانور ذبح کر دینا  ایک ظاہری عمل ہے جو بلاشبہ ایک مستطیع مسلمان سے مطلوب ہے ۔ اور یہ دس ذو الجہ کا سب سے افضل عمل ہے ۔ لیکن قربانی ایک عظیم دینی عبادت ہے ۔ اور جس طرح ہر عبادت کا ایک فلسفہ ہے اسی طرح قربانی کا بھی ایک فلسفہ و حکمت ہے ۔ اس  کا معنى و مفہوم صرف جانور ذبح کردینے  سے کہیں زیادہ وسیع اور  بلند تر ہے ۔ قربانی میں در أصل بہت سارے اہم دروس و اسباق پوشیدہ ہیں ۔ اس میں بہت سارے قیمتی اسرار و رموز  مخفی ہیں ۔ اس کے بہت سارے عظیم أغراض و مقاصد  ہیں۔ جن میں سے چند کا تذکرہ میں یہاں پر کر رہا ہوں ۔
 
حصولِ تقوى : قربانی کی سب سے بڑی حکمت اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تقوى کی تعلیم دینا ہے ۔ ہمارے اندر تقوی و اِخلاص  کی صفت پیدا کرنی ہے ۔ اور ہم سب کو متقی و مخلص بنانا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے : لن ینال اللہ لحومہا و لا دماؤہا و لکن ینالہ التقوى منکم (سورہ حج/ 37) ۔ اور تقوى و إخلاص دونوں ایک دوسرے کےلیے لازم و ملزوم ہیں ۔ اور بلاشبہ جو متقی ہوگا وہ مخلص بھی ہوگا ۔ اور جس کے اندر اخلاص ہوگا وہ ضرور با ضرور متقی ہوگا ۔ اور ایسا ہو ہی نہیں سکتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر پائے جائیں ۔ یہ قربانی کا سب سے بڑا فلسفہ ہے کیونکہ اللہ تعالىٰ نے خود اس کا ذکر کیا ہے ۔ اب اگر کسی شخص کے اندر قربانی سے یہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے تو سمجھیے اس کی قربانی صحیح ہے ورنہ اس کی قربانی رائیگاں و ضائع و برباد ہے اس معنی میں کہ قربانی کا جو  أصلی و حقیقی مقصد تھا وہ حاصل نہیں ہوا ۔

اتباعِ ابراہیم علیہ السّلام : در اصل قربانی کا تعلق اور یادگار جس نادر , بے مثال , عظیم اور ہمہ جہت  شخصیت سے وابستہ ہے  وہ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السّلام کی شخصیت ہے ۔ لہذا قربانی کا ایک عظیم درس آپ کے نقش قدم  کی حقیقی اتباع ہے صرف زبانی یا ظاہری یاد گار منا لینا نہیں ہے ۔ اور آپ کی زندگی کا جو لب لباب ہے وہ اللہ کے ہر حکم کو بلاچوں و چرا تسلیم کرلینا ہے اور اس کے نفع و نقصان کا اندازہ لگائے بغیر اس  پر فوراً عمل کرنے کےلیے تیار ہو جانا ہے ۔خوا وہ أپنے لخت جگر کو قربان کرنے کا حکم ہی کیوں نہ ہو ۔ در حقیقت حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی پوری زندگی ہی اللہ کی اطاعت و فرماں برداری سے عبارت ہے ۔ اور اس کی رضا و خوشنودی کے حصول کےلیے ہر چیز کو قربان کردینے کا نام ہے ۔ اور فی الواقع آپ کی پوری  زندگی قربانی , زہد , تقوی , اخلاص , دعوت الى اللہ , ہجرت , ضیافت , توکل على اللہ , بردباری , عبادت , دعا , تضرع , خشوع , خضوع , صبرو ایثار   اور عزم و ہمت کا بہترین نمونہ ہے ۔ اور قربانی کا مقصد انہیں تمام ابراہیمی صفات کو ایک مسلمان کے اندر پیدا کرنا ہے ۔ لیکن آج کے زمانہ میں افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم مسلمان ابراہیم کو زبانی  یا ظاہر ی طور پر یاد کر لیتے ہیں ۔خطبوں اور گھروں میں ان کا تذکرہ کر لیتے ہیں ۔ لیکن  حقیقی طور پر ان صفات کو ہم اپنی زندگی میں اپنانے کےلیے باکل تیار نہیں ہیں اور نہ ہم اس کی کوشس کرتے ہیں ۔ جس کا مشاہدہ آج کے دور میں ہر کوئی کر رہا ہے ۔

جذبہ قربانی : قربانی کا ایک بڑا فلسفہ ہم مسلمانوں کے اندر  قربانی کا جذبہ صادق بیدار کرنا ہے ۔ ہم مسلمانوں کے اندر اس کی عادت ڈالنی ہے ۔ اور اس کا عادی بنانا ہے کہ اگر مستقبل میں کبھی بھی اللہ اور  اس کے دین و ایمان کی خاطر مال و دولت ۔ گھر بار وطن و ملک  کو چھوڑنے کی نوبت آتی ہے تو میں أپنا تن من دھن سب کچھ اللہ کی راہ میں  قربان دوں گا ۔ اور أپنے دین و ایمان کی حفاظت کروں گا ۔ جیسا کہ ہمارے پیارے نبی , صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ہمارے بہت سارے بزرگوں نے کیا ہے ۔ آج ہم میں کتنے مسلمان ہیں جو اس کے بالکل برعکس ہیں ۔

إطاعت الہی اور ترک خواہشات : قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ قربانی یہ عظیم درس ہم کو دیتا ہےکہ ہم اپنی خواہشات کو اللہ کی خواہشات پر قربان کردیں  گے ۔ اور ہم ہمیشہ اس عمل کےلیے تیارر ہیں گے ۔ خواہ اس میں ہمارے لیے کتنا ہی زیادہ نقصان کیوں نہ ہو ۔ قربانی کا سب سے بڑا فلسفہ یہی ہے کہ وہ ہمیں أپنے آپ کو اللہ کے حکم کے سامنے سرنڈر اور حوالے کرنا سکھاتی ہے ۔ اللہ کے حکم کو فوراً بنا کسی چوں و چرا کے اور بنا اس کی حکمت کو جانے ہوئے اس کی تعمیل کرنا سکھاتی ہے ۔ مثال کے طور  رسم و رواج کو چھوڑ دیں گے اگرچہ اس کے چھوڑنے میں ہمارا معاشی نقصان ہی کیوں نہ ہو یا لوگ ہم کو لعنت و ملامت کریں ۔ اسی طرح حرام کمانا ترک کر دیں گے اگرچہ ہمیں مفلسی کی زندگی گذارنی پڑے ۔

مفادات امت کو ترجیح دینا : قربانی کا ایک بڑا سبق یہ ہے کہ ہم اسلام اور امت کے مفادات و مصلحتوں کو أپنی شخصی و ذاتی مصلحتوں پر ہمیشہ ترجیح دیں گے اور اس میں کسی بھی طرح کی کوئی بھی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے ۔ بطور مثال اگر امت کی مصلحت کا تقاضہ ہے کہ میں اپنے منصب کو چھوڑ دوں یا أگر میں کسی امت کے ادارے یا مرکز کا صدر ہوں اور میرا بیٹا نا اہل ہے تو میں امت کی مصلحت کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے بیٹے کو قطعا أپنا جانشین نہیں بناؤں گا بلکہ کسی قابل شخص کو ذمہ داری دوں گا گرچہ اس سے میرا کوئی رشتہ نہیں ہے ۔ جیسا کہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اور بعض ہمارے بزرگوں نے کیا ہے ۔

خدمت خلق : قربانی ہم مسلمانوں کو یہ سکھلاتی ہے کہ ہم أپنے مسلمان بھائیوں کی أپنی طاقت بھر خدمت کریں اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کریں ۔ اللہ کا فرمان ہے : و أطعموا القانع و المعتر یعنی سائل و غیر سائل دونوں کو کھلاؤ ۔ خصوصا غریبوں , مسکینوں , بیواؤں , یتیموں کا خیال رکھیں گے اور ان کا ہر طرح کا تعاون کریں گے ۔

أہمیت وقت : قربانی ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ وقت کی اسلام میں بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ اور ہر عبادت وقت سے مربوط ہے۔ لہذا اس عبادت کو اسی وقت میں ادا کرنا ہے ۔ وقت نکلنے کے بعد وہ عبادت قابلِ قبول نہیں ہے ۔ قربانی کے صرف تین دن ہیں ۔

خالص شرعی جہاد : قربانی ہمیں خالص شرعی جہاد کرنا سکھلاتی ہے لیکن یاد رہے کہ جب جہاد شرعی ہو ۔ اس کی شراٸط پائی  جاٸیں ۔ نام نہاد اسلامی جہاد نہ ہو ۔ کسی پر ظلم نہ ہو ۔ غیر اسلامی جہاد نہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی طور پر قربانی سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اور اس کا جو مقصد و روح ہے اس کو ہمارے اندر پیدا فرمائے اور تمام مسلمانوں کی قربانی قبول فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...