ماہِ ذو الحجہ کے فضائل و مسائل حصّہ اوّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : ماہِ ذو الحجہ قمری سال کا آخری مہینہ ہونے کے اعتبار سے مسلمانوں کے لیے درس عبرت ہے کہ الله نے زندگی کی صورت میں جو نعمت تمہیں عطا فرمائی تھی اس میں ایک سال اور کم ہو گیا اور یہ نعمت عظمی جس مقصد کے لیے عطا کی گئی تھی وہ کہاں تک پورا ہوا ؟ ۔ اس اعتبار سے ماہ ذوالحجہ انسان کو اس کی غفلت سے بیدار کرنے والا بھی ہے ۔ رب ذوالجلال نے جس طرح سال کے بارہ مہینوں میں سے رمضان المبارک کو اور پھر رمضان المبارک کے تین عشروں میں سے آخری عشرہ کو جو فضیلت بخشی ہے بعینہ ماہ ذوالحجہ کے تین عشروں میں سے پہلے عشرہ کو بھی خاص فضیلت سے نوازا گیا ہے اور اس عشرہ میں اعمال پر خاص اجروثواب رکھا گیا ہے ۔
ماہ ذوالحجہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس قدر برکتیں اور سعادتیں عطا کر رکھی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرمایا : پہلی رات کے چاند کے ساتھ ذوالحجہ کا آغاز ہوتا ہے تو اس کی پہلی دس راتوں میں سے ہر رات اپنی عظمت میں لیلۃ القدر کے برابر ہے ۔
لیلۃ القدر کی مناسبت سے جہاں ماہ رمضان المبارک کو منفرد شان والی ایک رات لیلۃ القدر نصیب ہوئی ہے جس کے اندر چند ساعتیں اللہ کے بندوں کی مغفرت و بخشش کا سامان لئے ہوئے وارد ہوتی ہیں اور جن میں اخلاص کے ساتھ بندہ اپنے رب سے جو بھی بھلی شے طلب کرتا ہے وہ اسے عطا کر دی جاتی ہے ۔ ادھر ماہ ذوالحجہ کی پہلی دس راتوں کو عظمت و فضیلت کا وہ خزانہ عطا کیا گیا ہے کہ ہر ایک رات رمضان المبارک کی لیلۃ القدر کے برابر ہے ۔ جس طرح رمضان المبارک کی برکتوں کو سمیٹ کر عید الفطر میں رکھ دیا گیا اور اس دن کو خوشی کے دن کے طور پر مقرر کر دیا گیا ۔ ان دس راتوں کے اختتام پر اللہ رب العزت نے عیدالاضحٰی کے دن کو مسرت و شادمانی کے دن کی صورت میں یادگار حیثیت کر دی۔ اس دن کو عرف عام میں قربانی کی عید کہتے ہیں ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مامن ايام العمل الصالح فيهن احب الی الله من هذه الايام العشرة قالوا يارسول الله ولا الجهاد في سبيل الله، قال ولا الجهاد في سبيل الله الا رجل خرج بنفسه وماله فلم يرجع من ذلک بشئی ۔
ترجمہ : ان دس دنوں (عشرہ ذی الحجہ) میں اللہ تعالیٰ کے حضور نیک عمل جتنا پسندیدہ و محبوب ہے کسی اور دن میں اتنا پسندیدہ و محبوب تر نہیں ۔ صحابہ کرام نے عرض کی یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اللہ کے راستہ میں جہاد بھی نہیں، فرمایا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ۔ ہاں وہ شخص جو اپنی جان اور مال کے ساتھ نکلا اور کچھ لے کر گھر نہ لوٹا ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:ما من ايام احب الی الله ان يتعبدله فيها من عشر ذی الحجة، يعدل صيام کل يوم منها بصيام سنة وقيام کل ليلة منها بقيام ليلة القدر ۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ کو اپنی عبادت بجائے دوسرے اوقات و ایام میں کرنے کے عشرہ ذوالحجہ میں کرنی محبوب تر ہے۔ اس کے ایک دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ایک ایک رات کا قیام، لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے ۔ (ترمذی، ابن ماجه،چشتی)
قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں عشرۂ ذی الحجہ میں جن اعمال کے کرنے کی فضیلت آئی ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں : ⬇
ذکر الٰہی کا اہتمام کرنا
اللہ عزوجل نے قرآن پاک میں ان دس دنوں میں اپنا ذکر کرنے کا خصوصی طور پر تذکرہ فرمایا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ ۔
ترجمہ : اور مقررہ دنوں کے اندر ﷲ کے نام کا ذکر کرو ۔ (سورہ الْحَجّ 22: 28)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور محدثین و مفسرین کے نزدیک ان ایام معلومات سے مراد عشرۂ ذی الحجہ کے دس دن ہیں ۔
کثرت سے تہلیل ، تکبیر اور تحمید کہنا
امام احمد نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کوئی دن بارگاہ الٰہی میں ان دس دنوں سے زیادہ عظمت والا نہیں ، اور نہ ہی کسی دن کا (اچھا) عمل اللہ کو ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب ہے پس تم ان دس دنوں میں کثرت سے لا الہ الا اللہ ، اللہ اکبر اور الحمد للہ کہو ۔
سلف صالحین علیہم الرحمہ اس عمل کا بہت اہتمام کیاکرتے تھے ۔ امام بخاری علیہ الرحمہ نے بیان کیا ہے کہ ’’ان دس دنوں میں حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہما تکبیر کہتے ہوئے بازار نکلتے اور لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیر کہنا شروع کردیتے ۔
عشرہ ذو الحجہ کے اعمال فضیلتـ میں جہاد فی سبیل اللہ سے بھی بڑھ کر ہیں ۔ حضرت عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : الله تعالیٰ کی بارگاہ میں دوسرے ایام کا کوئی عمل عشرہ ذوالحجہ (یکم ذوالحجہ سے دس ذوالحجہ تک) کے دوران نیک عمل سے بڑھ کر پسندیدہ نہیں ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا : یا رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا یہ جہاد فی سبیل الله سے بھی بڑھ کر ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جہاد فی سبیل الله سے بھی بڑھ کر ہے ، ہاں ! جو شخص جان اور مال لے کر الله کی راہ میں نکلا ، پھر ان میں سے کوئی چیز بھی واپس لے کر نہ آیا ، سب کچھ الله کے راستے میں قربان کر دیا، بے شک یہ سب سے بڑھ کر ہے ۔
عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال: قال رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : «ما من أيام العمل الصالح فيها أحب إلى من هذه الأيام» يعني أيام العشر، قالوا: يا رسول الله، ولا الجهاد في سبيل الله؟ قال : ولا الجهاد في سبيل الله، إلا رجل خرج بنفسه وماله، فلم يرجع من ذلك بشيء ۔ (سنن أبي داود 2/ 325 رقم الحديث 2438 باب في صوم العشر)
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو عمل اس دن میں کیا جائے اس سے کوئی عمل افضل نہیں ہے ، لوگوں نے سوال کیا کیا جہاد بھی نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جہاد بھی نہیں ، بجز اس شخص کے جس نے اپنی جان ومال کو خطرے میں ڈالا اور کوئی چیز واپس لے کر نہ لوٹا ۔
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما ، عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَنَّهُ قَالَ : مَا العَمَلُ فِي أَيَّامٍ أَفْضَلَ مِنْهَا فِي هَذِهِ ؟ قَالُوا : وَلاَ الجِهَادُ ؟ قَالَ : وَلاَ الجِهَادُ ، إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ يُخَاطِرُ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، فَلَمْ يَرْجِعْ بِشَيْءٍ ۔ (صحيح البخاري رقم الحديث 969 باب فضل العمل في أيام التشريق،چشتی)
عشرہ ذوالحجہ سال کے بارہ مہینوں میں بڑ ی ممتاز حیثیت رکھتا ہے، پارہ عم میں سورہ فجر کی آیات والفجر ولیال عشرمیں الله رب العزت نے دس راتوں کی قسم کھائی اور کسی چیز پر الله تعالیٰ کا قسم کھانا اس چیز کی عزت اور حرمت پر دلالت کرتا ہے تو الله تعالیٰ نے سورہ فجر میں جن دس راتوں کی قسم کھائی ہے اس بارے میں مفسرین کی ایک بڑی جماعت کا قول یہ ہے کہ اس سے مراد ماہ ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں، لہٰذا اس سے ان دس راتوں کی عزت،عظمت او رحرمت کی نشان دہی ہوتی ہے ۔
ایک دن کی روزے کا ثواب ایک سال کے برابر اور رات کی عبادت شب قدر کے برابر : ایک روایت میں ان دس ایام کی فضیلت واہمیت بیان فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ : ان دنوں میں سے کسی دن میں بھی بندے کا عبادت کرنا الله کو اتنا محبوب نہیں جتنا عشرہ ذوالحجہ میں محبوب ہے ۔ اس عشرہ کے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزں کے برابر ہے اور اس کی ہر رات کے نوافل شب قدر کے نوافل کے برابر ہیں ۔
عن أبي هريرة رضی اللہ عنہ ، عن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال : ما من أيام أحب إلى أن يتعبد له فيها من عشر ذي الحجة، يعدل صيام كل يوم منها بصيام سنة، وقيام كل ليلة منها بقيام ليلة القدر ۔ (سنن الترمذي ت بشار رقم الحديث 758 باب ما جاء في العمل في أيام العشر،چشتی)
یعنی ایک روزہ کا ثواب بڑھا کر ایک سال کے روزوں کے ثواب کے برابر کر دیا اور ان راتوں میں سے ایک رات میں بھی اگر عبادت کی توفیق ہو گئی تو وہ اس طرح ہے جیسے لیلۃ القدر میں عبادت کر لی ہو ۔
عشرہ ذو الحجہ کے محبوبـ اعمال
ایک اور روایت میں ان دس ایام کی فضیلت واہمیت بیان فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ” دنوں میں سے کسی دن میں بھی بندے کا عبادت کرنا الله کو اتنا محبوب نہیں جتنا عشرہ ذوالحجہ میں محبوب ہے ۔ پس اس میں تہلیل ، تکبیر اور اللہ کا ذکر کثرت سے کریں ، اس عشرہ کے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزں کے برابر ہے اور اس کی ہر رات کے نوافل شب قدر کے نوافل کے برابر ہیں اور اعمال ان دنوں میں سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے ۔
یعنی سبحان اللہ ، الحمد للہ ، لا الہ الا اللہ واللہ اکبر ، کثرت سے پڑھا کریں ۔
عَن ابْن عَبَّاس رضی اللہ عنہما قَالَ قَالَ رَسُول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَا من أَيَّام أفضل عِنْد وَلَا الْعَمَل فِيهِنَّ أحب إِلَى عز وَجل من هَذِه الْأَيَّام يَعْنِي من الْعشْر فَأَكْثرُوا فِيهِنَّ من التهليل وَالتَّكْبِير وَذكر وَإِن صِيَام يَوْم مِنْهَا يعدل بصيام سنة وَالْعَمَل فِيهِنَّ يُضَاعف بسبعمائة ضعف ۔ (الترغيب والترهيب للمنذري 2/ 128 رقم الحديث 1787 كتاب الْحَج)
عشرہ ذو الحجہ کے اعمال اجر و ثواب میں بڑھ کر ہیں
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:نیکی کا کوئی بھی عمل عشرہ ذو الحجہ میں کیے جانے والے کام سے اللہ تعالی کے نزدیک زیادہ پاکیزہ ہے نہ اجرو ثواب میں بڑھ کر ہے ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَنَّهُ قَالَ : مَا مِنْ عَمَلٍ أَزْكَى عِنْدَ عَزَّ وَجَلَّ وَلَا أَعْظَمَ مَنْزِلَةً مِنْ خَيْرِ عَمَلٍ فِي الْعَشْرِ مِنَ الْأَضْحَى ۔ (شرح مشكل الآثار رقم الحديث 2970)
عشرہ ذو الحجہ کا ایک دن فضیلت میں دس ہزار دنوں کے برابر ہے ۔ حضرت انس بن مالك رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عشرہ ذو الحجہ کے متعلق یہ فرماتے تھے کہ :ایک دن ہزار دن کے برابر ہے اور عرفہ کا دن دس ہزار دنوں کے برابر ہے یعنی فضیلت میں ۔
وَعَن أنس بن مَالك رضی اللہ عنہ قَالَ كَانَ يُقَال فِي أَيَّام الْعشْر بِكُل يَوْم ألف يَوْم وَيَوْم عَرَفَة عشرَة آلَاف يَوْم قَالَ يَعْنِي فِي الْفضل، رَوَاهُ الْبَيْهَقِيّ والأصبهاني وَإسْنَاد الْبَيْهَقِيّ لَا بَأْس بِهِ ۔ (الترغيب والترهيب للمنذري 2/ 128 رقم الحديث 1788 كتاب الحج)
عشرہ ذوالحجہ میں بال اور ناخن نہ کاٹنا کی تحقیق و شرعی حکم
عشرہ ذوالحجہ کا خاص الخاص عمل حج ہے اور یہ اہل استطاعت مسلمان پر زندگی میں صرف ایک ہی دفعہ فرض کیا گیا ہے، لہٰذا اس کی خاص برکات صرف وہی لوگ حاصل کرسکتے ہیں جو بیت الله میں حاضر ہو کر حج کریں ، لیکن الله نے اپنے فضل وکرم اور بے پایہ رحمت سے تمام اہل ایمان کو اس بات کا موقع عنایت فرما دیا کہ وہ اپنے مقام پر رہ کر بھی حجاج کرام سے ایک طرح کی نسبت پیدا کر لیں اور ان کے کچھ اعمال میں شریک ہو جائیں، لہٰذا ذوالحجہ کا چاند دیکھتے ہی جو حکم مسلمانوں کو سب سے پہلے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ام المؤمنین حضرت سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ : جب ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہو جائے تو تم میں سے جو آدمی قربانی کرنے کا ارادہ کرے وہ ( اس وقت تک کہ قربانی نہ کرے) اپنے بال اور ناخن بالکل نہ کتروائے" ایک روایت میں یوں ہے کہ " نہ بال کٹوائے اور نہ ناخن کتروائے ۔" ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ " جو آدمی بقر عید کا چاند دیکھے اور وہ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ (قربانی کے لینے تک) اپنے بال اور ناخن نہ کٹوائے ۔
وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : «إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَأَرَادَ بَعْضُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ فَلَا يَمَسَّ مِنْ شَعْرِهِ وَبَشَرِهِ شَيْئًا» وَفِي رِوَايَةٍ «فَلَا يَأْخُذَنَّ شَعْرًا وَلَا يَقْلِمَنَّ ظُفْرًا» وَفِي رِوَايَةٍ «مَنْ رَأَى هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ وَأَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ فَلَا يَأْخُذْ مِنْ شَعْرِهِ وَلَا مِنْ أَظْفَارِهِ ۔ (رَوَاهُ مُسلم مشكاة المصابيح 1/ 458 رقم الحديث 1459 باب في الأضحية،چشتی)
حضرت عبدالله بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے ، قربانی کے روز عید منانے کا، جو الله تعالیٰ نے اس امت کےلیے مقرر فرمائی ہے۔ ایک شخص عرض گزار ہوا کہ اگر مجھے کچھ میسر نہ آئے سوائے اس اونٹی یا بکری وغیرہ کے، جو دودھ دوہنے کے لیے عاریتاً یا کرائے پر ملی ہو تو کیا اس کی قربانی پیش کر دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں ! بلکہ تم اپنے بال کتراؤ ، ناخن کاٹو ، مونچھیں پست کرو اور موئے زیر ناف صاف کرو، الله تعالیٰ کے نزدیک بس یہی تمہاری قربانی ہے ۔
عَنْ عَبْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: «أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ عَزَّ وَجَلَّ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ». قَالَ الرَّجُلُ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلَّا أُضْحِيَّةً أُنْثَى أَفَأُضَحِّي بِهَا؟ قَالَ: «لَا، وَلَكِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِكَ وَأَظْفَارِكَ وَتَقُصُّ شَارِبَكَ وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ، فَتِلْكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ عَزَّ وَجَلَّ ۔ (سنن أبي داود رقم الحديث 2789 بَابُ مَا جَاءَ فِي إِيجَابِ الْأَضَاحِيِّ،چشتی)
ام المؤمنین حضرت سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَعِنْدَهُ أُضْحِيَّةٌ يُرِيدُ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلَا يَأْخُذَنَّ شَعْرًا، وَلَا يَقْلِمَنَّ ظُفُرًا
جب عشرہ (ذوالحجہ) شروع ہوجائے تو جس شخص کے پاس قر بانی ہو اور وہ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتاہو،وہ اپنے بال اتارے نہ ناخن تراشے ۔
إِذَا دَخَلَتِ الْعَشْرُ، وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلَا يَمَسَّ مِنْ شَعَرِهِ وَبَشَرِهِ شَيْئًا ۔
جب عشرہ ذوالحج شروع ہو جائے اور تم میں کوئی شخص قربانی کا ارادہ کرے تووہ اپنے بالوں اور ناخنوں کو نہ کاٹے ۔
إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَعِنْدَهُ أُضْحِيَّةٌ يُرِيدُ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلَا يَأْخُذَنَّ شَعْرًا، وَلَا يَقْلِمَنَّ ظُفُرًا ۔
جب عشرہ (ذوالحجہ) شروع ہوجائے تو جس شخص کے پاس قر بانی ہو اور وہ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتاہو،وہ اپنے بال اتارے نہ ناخن تراشے ۔
إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِهِ ۔
جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کاا رادہ رکھتا ہو،وہ اپنے بالوں اور ناخنوں کو(نہ کاٹے) اپنے حال پر رہنے دے ۔
مَنْ كَانَ لَهُ ذِبْحٌ يَذْبَحُهُ فَإِذَا أُهِلَّ هِلَالُ ذِي الْحِجَّةِ، فَلَا يَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِهِ، وَلَا مِنْ أَظْفَارِهِ شَيْئًا حَتَّى يُضَحِّيَ ۔
جس شخص کے پاس ذ بح کرنے کے لئے کوئی ذبیحہ ہوتو جب ذوالحجہ کا چاند نظر آجائے،وہ ہرگز اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے،یہاں تک کہ قربانی کرلے ۔ (صحیح مسلم : بَابُ نَهْيِ مَنْ دَخَلَ عَلَيْهِ عَشْرُ ذِي الْحِجَّةِ وَهُوَ مُرِيدُ التَّضْحِيَةِ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ شَعْرِهِ، أَوْ أَظْفَارِهِ شَيْئًا ؛ 3/1565،چشتی)
اب وہ روایات جن سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم خود ایسا نہیں کرتے تھے یعنی ناخن اور بال نہ کٹوانے پر آپ کا اپنا مبارک نہیں تھا اور ایسی کوئی پابندی آپ ان دنوں نہیں فرماتے تھے ملاحظہ کریں : ⬇
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں : رُبَّمَا فَتَلْتُ الْقَلَائِدَ لِهَدْيِ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فَيُقَلِّدُ هَدْيَهُ، ثُمَّ يَبْعَثُ بِهِ، ثُمَّ يُقِيمُ لَا يَجْتَنِبُ شَيْئًا مِمَّا يَجْتَنِبُ الْمُحْرِمُ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قربانیوں کے ہار اکثر میں بناتی تھی پھر ان کے گلے میں ہار ڈال کر روانہ کر دیتے پھر آپ ٹھہرے رہتے اور کسی ایسی چیز سے پرہیز نہیں فرماتے تھے جن سے محرم پرہیز کرتا ہے (احرام میں جو امور منع ہیں ان میں ناخن اور بال کاٹنا بھی شامل ہے ۔
كَانَ رَسُولُ اللهِصلی اللہ علیہ والہ وسلم يُهْدِي مِنَ الْمَدِينَةِ فَأَفْتِلُ قَلَائِدَ هَدْيِهِ، ثُمَّ لَا يَجْتَنِبُ شَيْئًا مِمَّا يَجْتَنِبُ الْمُحْرِمُ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مدینہ منورہ سے قربانی کے جانور روانہ کر دیا کرتے تھے اور میں جانوروں کے ہار خود بناتی تھی (پھر) آپ ان چیزوں سے پرہیز نہیں کیا کرتے تھے جن سے محرم (احرام باندھنے والا) پرہیز کرتا ہے ۔
كُنْتُ أَفْتِلُ قَلَائِدَ هَدْيِ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بِيَدَيَّ هَاتَيْنِ، ثُمَّ لَا يَعْتَزِلُ شَيْئًا وَلَا يَتْرُكُهُ ۔
ترجمہ : میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قربانی کے اونٹوں کے ہار بناتی تھی پھر آپ کسی چیز سے پرہیز کرتے تھے نہ کسی چیز کو چھوڑتے تھے ۔
كَانَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ والہ وسلميَبْعَثُ بِالْهَدْيِ أَفْتِلُ قَلَائِدَهَا بِيَدَيَّ، ثُمَّ لَا يُمْسِكُ عَنْ شَيْءٍ لَا يُمْسِكُ عَنْهُ الْحَلَالُ ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم قربانی کے اونٹ روانہ فرما دیا کرتے تھے میں ان کے ہار اپنے ہاتھوں سے بناتی تھی پھر آپ کسی ایسی چیز کو نہیں چھوڑتے تھے جس کو حلال نہیں چھوڑتا ۔
كُنَّا نُقَلِّدُ الشَّاءَ ، فَنُرْسِلُ بِهَا وَرَسُولُ اللهِصلی اللہ علیہ والہ وسلم حَلَالٌ ، لَمْ يَحْرُمْ عَلَيْهِ مِنْهُ شَيْءٌ ۔
ترجمہ : ہم بکریوں کی گردنوں میں ہار ڈال کر ان کو مکہ مکرمہ روانہ کر دیا کرتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم حلال ہی رہتے کسی چیز کو اپنے اوپر حرام نہیں کرتے تھے ۔ (صحیح مسلم : بَابُ اسْتِحْبَابِ بَعْثِ الْهَدْيِ إِلَى الْحَرَمِ لِمَنْ لَا يُرِيدُ الذَّهَابَ بِنَفْسِهِ ، 2/959،چشتی)
زیاد بن ابی سفیان نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو لکھا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہے کہ جس نے یعنی قربانی کا جانور بھیج دیا اس پر وہ تمام چیزیں حرام ہو جاتی ہیں جو ایک حاجی پر حرام ہوتی ہیں تا آنکہ اس کی ہدی کی قربانی کر دی جائے، عمرہ نے کہا کہ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے جو کچھ کہا مسئلہ اس طرح نہیں ہے، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کے قلادے اپنے ہاتھوں سے خود بٹے ہیں، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے ان جانوروں کو قلادہ پہنایا اور میرے والد محترم (ابوبکر رضی اللہ عنہ) کے ساتھ انہیں بھیج دیا لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی ایسی چیز کو اپنے اوپر حرام نہیں کیا جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے حلال کی تھی، اور ہدی کی قربانی بھی کر دی گئی ۔ (صحیح البخاری باب من قلد القلائد بیدہ :2/ 169، حدیث نمبر1700)۔[(مؤطا امام مالک ؛ باب ما لا يوجب الإحرام من تقليد الهدي :1/433 حدیث نمبر 1096،چشتی)۔(السنن الکبری للبیہقی : حدیث نمبر 10190)
دو طرح کے مضمون کی روایات کتب احادیث میں آتی ہیں ایک میں قربانی کرنے والے کیےلیے ذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں قربانی کرنے سے پہلے بالوں اور ناخنوں کا کاٹنا منع ہے جبکہ دیگر احادیث کہتی ہیں ایسا کو ئی امر نہیں ۔ اب ان دونوں کا معنی مختلف ہے احادیث اپنی درجے میںدرجے اور قوت میں برابر ہیں ایسی صورت میں کیا حکم ہو گا تو اس کیلئے علم اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ جب دومقبول احادیث بظاہر متعارض اور معنیً مخالف ہوں تو سب سے پہلے ان میں تطبیق کی کوشش کی جائے گی دونوں کو اس طرح جمع کیا جائے گاکہ اختلاف ختم ہواور دونوں طرح کی روایات پر عمل ہو سکے اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر دوسرے اصولوںپر عمل کیا جائے گا یہاں دونوں طرح کی احادیث پر یوں عمل ممکن ہو گا کہ منع والی احادیث جن میں ناخن اور بال کاٹنے کی ممانعت ہے کو استحباب پر اور دوسری احادیث کو رخصت پر محمول کیا جائےگا مسئلہ یوں ہو گا کہ قربانی کا ارادہ رکھنے والے کو عشرہ ذوالحجہ میں قربانی کا جانور ذبح کرنے سے پہلے ناخن اور بال نہ کاٹنا مستحب ہوگا اور اگر کوئی کاٹنا چاہے تو اس کیےلیے اباحت اور جواز ہے ۔
فقہائے اسلام کی آراء
قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : قال الإمام : مذهبنا أن هذا الحديث لا يلزم العمل به، واحتج أصحابنا بقول عائشة - رضى الله عنها : " أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ والہ وَسَلَّمَ «يُهْدِي مِنَ المَدِينَةِ، فَأَفْتِلُ قَلاَئِدَ هَدْيِهِ، ثُمَّ لاَ يَجْتَنِبُ شَيْئًا مِمَّا يَجْتَنِبُهُ المُحْرِمُ ۔
ترجمہ : امام فرماتے ہیں ہمارا مذہب یہ ہے اس حدیث پر عمل واجب نہیں اور اس پر ہماری دلیل حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ کی روایت کردہ حدیث ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مدینہ سے ہدی (اونٹ کی قربانی ) بھیجتے تھے اور آپ کی قربانی کےلئیے ہار میں بناتی تھی پھر آپ ان امور سے اجتناب نہیں کرتے تھے جن سے محرم (احرام والا) اجتناب کرتا ہے ۔ (اکمال العلم بفوائد مسلم : 6/431]')
غیرمقلد عالن عبد الرحمٰن مبارکپوری لکھتے ہیں : وَقَالَ الشَّافِعِيُّ وَأَصْحَابُهُ هُوَ مَكْرُوهٌ كَرَاهَةَ تَنْزِيهٍ وَلَيْسَ بِحَرَامٍ
شافعیہ کا مذہب ہے قربانی کرنے والے کےلیے عشرہ ذو الحجہ میں بال اور ناخن کاٹنا مکروہ تنزیہہ ہے حرام نہیں ۔
وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ لَا يُكْرَهُ
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی علیہ کہتے ہیں مکروہ ( بھی ) نہیں ۔
وَقَالَ مَالِكٌ فِي رِوَايَةٍ لَا يُكْرَهُ وَفِي رِوَايَةٍ يُكْرَهُ وَفِي رِوَايَةٍ يَحْرُمُ فِي التَّطَوُّعِ دُونَ الْوَاجِبِ ۔
امام مالک رحمہ اللہ تعالی علیہ کی ایک روایت میں کراہت نہیں جبکہ ایک روایت کے مطابق کراہت ہےایک روایت میںہے یہ عمل نفل قربانی میں حرام ہے واجب میں نہیں ۔ (تحفۃ الاحوذی : 5/99)
محمَّدُ بنُ عزِّ الدِّينِ عبدِ اللطيف الكَرمانيّ، الحنفيُّ لکھتے ہیں : ذهب قومٌ إلى ظاهر الحديث، فمنع من أخذ الشعر والظفر ما لم يذبح، وكان مالكٌ والشافعي يَريان ذلك على الاستحباب، ورخَّص فيه أبو حنيفة وأصحابه ۔
تعجمہ : ایک قوم اس حدیث کے ظاہر معنی پر گئی ہے کہ قربانی کرنے والے کو اپنی ناخن اور بال کاٹنا منع ہیں جب تک وہ ذبح نہ کر لے مالکیہ اور شافعیہ کی رائے استحباب کی ہے جبکہ حنفیہ رخصت کے قائل ہیں ۔ (شرح مصابيح السنة للإمام البغوي:2/263)
علامہ ابن عابدین شامی حنفی لکھتے ہیں : مَحْمُولٌ عَلَى النَّدْبِ دُونَ الْوُجُوبِ بِالْإِجْمَاعِ ۔
تجمہ : یہ حکم بالاجماع مندوب اور مستحب پر محمول ہے واجب پر نہیں ۔ (حاشیہ ابن عابدین : 2/181) ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment