Thursday 16 June 2022

امیرِ اہلسنّت مولانا محمد الیاس قادری کی شخصیت و تعارف حصّہ سوم

0 comments
امیرِ اہلسنّت مولانا محمد الیاس قادری کی شخصیت و تعارف حصّہ سوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ نے اکابر علمائے کرام کی زیرِ قیادت تحریک دعوتِ اسلامی کے نام دینی تبلیغی کام شروع کیا اس وقت کا فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی عینی شاھد ہے کہ کس طرح کام کا آغاز کیا گیا اور کون کون سے بزرگوں و علمائے کرام کی سرپرستی شامل تھی اور یہ بات بھی واضح کرتا چلوں یہ فقیر چشم دید گواہ ہے اُن لمحوں کا جب کوئی مسجد میں درس بھی نہیں دینے دیتا تھا اس فقیر نے کراچی کئی مساجد میں دروس کا آغاز کروایا لوگوں کو بتایا کہ دعوتِ اسلامی ہم اہلسنّت و جماعت کی تبلیغی و اصلاحی جماعت ہے ہاں یہاں اُن بعض متعصب و متکبر ذھن کے لوگوں کا ذکر و شکوہ کرنا بھی بے جا نہ ہو گا جو دعوتِ اسلامی کی آڑ میں علمائے اہلسنّت سے بغض رکھنے اور تحقیر و تذلیل کرنے لگے یاد رہے ایسے لوگوں کا مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ فقیر عینی شاھد ہے کہ مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ اپنے متوسلین و متعلقین کو علمائے اہلسنّت کے ادب و احترام کا ہمیشہ فرمایا کرتے ہیں صد افسوس کہ آج بھی دعوتِ اسلامی کی نئی پود میں بعض ایسے متعصب و متکبر عناصر موجود ہیں اللہ تعالیٰ انہیں سمجھ و ہدایت عطاء فرمائے آمین ۔ اللّٰہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت و عطا سے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عِنایت ، صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی بَرَکت ، اولیائے عظام کی نسبت اور علماء و مشائخِ اہل سُنّت کی برکت سے دعوتِ اسلامی عام ہونے لگی ۔

مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کے خوفِ خدا و عشقِ مصطفی  عَزَّوَجَلَّ  و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں ڈُوبے ہوئے بیانات سُن سُن کر لاکھوں مسلمان نمازی بنے ، بے شمار چور ڈاکو زانی شرابی اور دیگر جرائم پیشہ لوگ گناہوں سے توبہ کر کے باکردار مسلمان بن گئے اور  لا تعداد کُفّار بھی مشرّف بہ اِسلام ہوئے ۔ بابُ المدینہ کراچی سے یہ تحریک حیدر آباد اور بابُ الاسلام (سندھ) پہنچی اِس کے بعد پنجاب اور پھر سرحد ، کشمیر و بلوچستان میں دعوتِ اسلامی کا مدنی پیغام پہنچا ۔ اس وقت پاکستان کے کم وبیش ہر شہر میں دعوتِ اسلامی والے موجود ہیں ۔  دیکھتے ہی دیکھتے مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کے اِخلاص و اِستقامت کی برکت اور مدنی قافلوں کے باعث دعوتِ اسلامی پاکستان سے ہِند اور پھر بنگلہ دیش ، نیپال ، ساؤتھ افریقہ اور عرب اَمارات وغیرہ تقریباً دُنیا کے 66 ممالک میں اپنا پیغام پہنچا چکی ہے اور مزید کُوچ جاری ہے ۔ 

محترم سیّد مبشر رضا سنی قادری صاحب لکھتے ہیں : آدمِ خاکی نے جب اپنی منزلِ افلاک کو چھوڑ کر جہانِ بے بنیاد کو اپنا مسکن بنایا تو ساتھ ہی طاغوت نے بھی اپنی خلشِ قلب کو ہوا دینے کے لیے آدم کی ہمراہی لی اوراس بات کی ٹھانی کہ تعلیماتِ صاحب ِحریم دوساجد ِعظیم اکی بیباکانہ سیمابی کروں گا ،اُدھررفتہ رفتہ اَبنائے آدم کی افزائش نے اس عالمِ بے رنگ و بو کو آباد کیا ، اِدھر قصہ ہابیل و قابیل سے طاغوت کی شیطنت کاری کی ابتداہوئی جو کہ انسان کا مقدر کی گئی تھی لیکن صاحبِ حریم نے بھی اس عقدہ ِمشکل کو سلجھانے کے لیے آفاقی تعلیمات کا انتظام کر رکھا تھا ، دیکھتے ہی دیکھتے خطوط ِ عالم ابنائے آدم کی پناہ گزیں ہوئے اور بتقاضائے قضاء ِمبرم انبیاء و رُسل مخلوقِ رب لم یزل کی تعلیمات کے لیے نزول فرماتے رہے آخر وہ وقت بھی آن پہنچا جب اس سلسلہ نزول وحی کو اپنے انجام کو پہنچنا تھا لیکن آج ایک ایسی بازگشت ابنائے آدم کو سنائی دی جس نے ان کو ضابطہ حیات کی تعمیل میں آسانی فراہم کر دی ، وہ بازگشت یہ تھی ''ان العلماء ورثۃ الانبیائ'' بس وقت کا تیز دھارا بڑی سرعت سے اخلاقیات ِابنائے آدم کو بہالے جانے لگا لیکن صاحب ِشریعت اکے جاں نثار علماء و اولیاء نے اس دھارے کی اپنے بازوئے علم و روحانیت سے بنداری کی ، ایک تھکا تو دوسر ا ، دوسر ے کے بعد تیسرا ، تیسرے کے بعد چوتھا یکے بعد دیگرے اس دھارے کو تھامے رکھا لیکن تقدیر کو ہمارا امتحان لینا مقصود تھا کہ ان طاغوتی تابدار تخیلات کو کون سلجھاتا ہے ۔

ایک وقت وہ آیا کہ طاغوت نے اپنا کارِمذموم چند فرشی پسران کے سپرد کیا جو اپنے پدرِاول سے دس قدم آگے تھے اب کیا تھا پہلے تو ملتِ بیضاپر چھپ چھپ کر ہنگامہ آرائی ہوتی تھی مگر اب کھلے بندوں خالق و مخلوق کی عزت و ناموس پر حملے ہونے لگے، چشمِ جہاں اس حامی کو تلاش کرنے لگی جو ان بے ہمت و لاچاربندوںکو منزلِ مراد تک پہنچائے،گردشِ افلاک کا نظارہ دیکھئے کہ جو شِ حق کی ایک تجلی نے عوجِ ثریا سے ایک نجم علم وعرفاں کو ارض مقدس کے سپر د کر دیا بقول شاعر :

پھر چراغ ِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ ودمن
مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغِ چمن

پھر کیا تھا ہوائے چمنِ عالم بدلی اور فصلِ بہارگیتی نے ایک پھول کھلا دیا عشق والے ان کو پیکر ِ عشق ووفاکہتے ہیں اہل صفا ان کو پروانہ شمعِ رسالت کہتے ہیںعقل والے ان کو امام الکلام کہتے ہیں نظر والے ان کو رہبرِبصیرت کہتے ہیں ، محبِ رسول و عاملین قرآن وسنت ان کو اما م اہلسنت الشاہ احمد رضاخان ص کہتے ہیں ۔

بقول علامہ عبدالستار ہمدانی امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ ایک وسیع النظر مدبر ، عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا پیکر ، اپنے وقت کا ممتاز فقیہہ ، علم و عرفان کا بہتا سمندر ، کفر و ارتداد سے امتِ مسلمہ کو بچایا ، ایمان کی روشنی دی ، کفر کی ظلمت کو چھانٹا،بے دینی کا پردہ چاک کیا ، صراط مستقیم پر امت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گامزن کیا ...... جس کے قلم کی نوک سے نکلی ہوئی ہر بات بلکہ ہر لفظ ایسا جامع ،مانع اور موثر تھاکہ جس کا رد کرنا محال تھا ، جس کے قاہر دلائل وشواہد پہاڑ سے بھی زیادہ اٹل تھے جو ٹالے نہ ٹل سکتے تھے ، دلائل کے میدان کا وہ شہسوار تھا ، قلم کا وہ دھنی تھا ، نفاذِدلائل ، سرعت ِکتابت ، زور ِبیان ، طرزِ تحریر ، اثباتِ دعویٰ ، اظہار ِحق ، ابطالِ باطل ، دفاعِ حق ، فصاحت وبلاغت ، علم و ادب فضل و دانش ، وضاحت و تشریح ، تفتیشِ رموز، انسداد ِضرر ، اجتہاد و استنباط ، تحقیق و تدقیق ، خطابت و کلام ، ذہانت و فقاہت ، استعداد و جلالتِ علم شعرو سخن ، فن و حکمت وغیرہ میں وہ اپنی مثال آپ تھے ۔ (چشتی)

بس اب کیا تھا چہار سوعالم عشاق کی چہل پہل ہونے لگی گھر گھر علم و دانش کے چراغ روشن ہونے لگے رفتہ رفتہ اس چمنستانِ رسالت اکے اس گلِ نو بہار کی بوِخوش پر گستاخانِ رُسل ومرسِل علیھم السلام کی بو ِبد غلبہ پانے لگی ، ہوا وہی جس کا ڈر تھاکہ چمنِ عالم میں فصل ِبہارگیتی کا جو پھول کھلا تھا اب بہار ہی جاتی رہی تو اس فصلِ بہارکے جاتے ہی وہ گلِ بہار بھی چل بسا ، اب چہار دہانگ ِعالم میں کفر و ارتداد کا غوغہ مچ گیا ،ابنائے آدم حسرت ویاس سے کسی مصلح کی راہ تکنے لگے جورخنہِ ملتِ اسلامیہ کی پیوند کاری کرتا ۔

آگیا آگیا آگیا ........... کون آگیا ؟ ..... وہی جس کا انتظار تھاوہ جو امت ِمسلمہ کی آہ و فغاں کا مداوا ہے ، وہ جس نے کج رو تخیلات کی بیخ کنی کرنی ہے ، وہ جس نے عریاں روش کی تعمیر نو کرنی ہے ، وہ جس نے سر گزشتِ طاغوت کا قرطاس چاک کر نا ہے ، وہ جس نے امت مظلومہ کو ساغر ِعشق کا جامِ آتشیں پلانا ہے ، وہ جو خیال ِفلک نشیں رکھتا ہے ، وہ جو ذوقِ تکلم سے سر مست ہے ، وہ جو پیرہنِ شرعِ مطہرہ کا زیب ِگلو ہے ..... کون ہے ایسا ماحی شیطنت ذرا نام تو بتاؤ ان کا ؟

آج جب کہ دنیا سمٹ کر ایک گلوبل ویلج کی سی کیفیت میں دنیا کے سامنے ہے ۔ سائنس و میڈیا کے اس دور میں ہر انسان مادیت و ظاہریت میں اپنی فلاح و کامرانی کا متلاشی نظر آتا ہے ۔ دیگر اقوامِ عالَم کی طرح اب مسلم امہ بھی اپنے جزیا ت ِ دین کو ایک سایئنٹیفک نظر یہ انداز سے دیکھتی نظر آتی ہے ۔ بنی نوع انساں کی تربیت ِاخلاق کے لیے اللہ مجدہ الکریم نے مختلف ادوار میں اپنے مقرب بندوں انبیاء و رُسل علیہم السّلام کے ذریعے رہنمائی فرمائی ، بعد ازیں اصحاب رسو ل ، تابعین و تبع تابعین رضی اللہ عنھم نے اس فریضہ کی تکمیل کے لیے انتھک محنت و کوشش کی مگر معلم کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اس قول زریں' ان العلماء ورثۃ الانبیائ' بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں ۔ کے پیش نظراب جبکہ سلسلہ نبوت کانزول نبی آخر الزمان ا پر رک چکا ہے علماء ِ اسلام ہی دین کے وہ وِرثِ نباء ہیں جنہوں نے راہِ صراط سے بھٹکے ہوئے فرزندانِ آدم کو راہِ ہدایت پر گامزن کرتے رہنا ہے ۔

چودھویں صدی ہجری جہاں آفتابِ نصفِ نہار لے کر شروع ہوئی جس میں نظریاتِ بنی نوع انساں ایک جدید رنگ لے کر سامنے آئے زعماء اسلام کو جدید اذھان سے نمٹنے کے لیے مختلف طرق سے افہام و تفہیم سے کام لیناپڑا ، لیکن دور جدید اس امر کا مقتضی تھا کہ عصرِحاضر کی ضروریات کو مدِنظر رکھتے ہوئے حکمت ِ عملی سے تبلیغ دین کا کام سرانجا م دیا جائے لہٰذا تاریخ نے ایک مرتبہ پھر ورق گردانی کی جس کے نتیجہ میں باب المدینہ کراچی سے ایک ایسی تحریک نے جنم لیا جس نے اپنی قوم کی طاغوتی طاقتوں سے بازیابی کے لیے وہ آفاقی تعلیمات جن کا معلمِ کائنات انے علماء کو وارث ٹھہرایا تھا تبلیغِ دین کا کام شروع کیا ،دیکھتے ہی دیکھتے اس تحریک نے چہار دانگ عالم میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ضوفشانی کی اور نفس و شیطان کے دام تذویر سے انسانوں کو باہر نکالا ، آن کی آن اس تحریک کے چرچے عوام سے اب علماء میں بھی ہونے لگے ، علماء بہت خوش تھے کہ اجتماعی تبلیغِ دین کی کمی جو ہم ایک عرصہ سے محسوس کر رہے تھے چلو کسی نے تو اس کا م کا بیڑا سنبھالا لیکن اسی اثناء میں شیطان نے بھی اپنا کام تیز کر دیا ، کیونکہ شیطان کو اپنے مذموم مقاصد ختم ہوتے دکھائی دے رہے تھے لہٰذا اس نے لوگوں کے دلوں میں ایسی باتیں ڈالنی شروع کیں جس سے اس کا مقصد لوگوں کو اِس عظیم فریضہ سے باز رکھنا تھا اِس مذموم مقصد کے لیے اور تو اس کو کوئی سوجھی نہ اس نے امیرِتحریک دعوتِ اسلامی مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کے بارے میں یہ غوغہ مچایا کہ'' امیر تحریک مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ تو عالِم دین ہی نہیں ہیں''یہ ایک ایسا نظریہ تھا جس کی وجہ سے اُسے اپنی طاغوتی چال کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی تھی کیوں کہ وہ اپنے اس نظریہ کی رو سے یہ باور کروانا چاہ رہاتھا کہ کیونکہ تحریک دعوت اسلامی کو مریدینِ مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کی وجہ سے عروج ملا تھا اور مسند ارشاد پر فائز ہونے کے لیے عالِم دین ہونا شرط ہے اگر وہ اپنے اس نظریہ میں کامیاب ہوتا ہے تو تمام مریدین کی بیعت ٹوٹ جاتی ہے جس کی بنا پر امت مسلمہ کی عظیم روحانی و تبلیغی تحریک کی بنیاد کمزور ہو جاتی ہے ۔ لہٰذا سادہ لوح عوام کے علاوہ بعض اکابر بھی ان شکوک و شبہات کا شکار ہوئے ، یہ ابلیس لعین کا وار ایسا تھا جس کی بنیاد سراسر جھوٹ پر مبنی تھی ، امیر دعوتِ اسلامی مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کا ان جلیلُ القدر علماء ِاہلسنت میں شمار ہوتاہے جنہوں نے شجر اسلام کی آبیاری کی ، اب ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ امیرِ تحریک اپنے سر پر کوئی علامتی نشان کندہ کر لیں جس سے دیکھنے والے کو معلوم ہو کہ حضرت موصوف عالم بھی ہیں اور ان کو فلاں علومِ درسیہ و علوم اسلامیہ پر دسترس حاصل ہے اور حضرت نے فلاں معروف درس گاہ سے استفادہ علم کیا ہے ۔ حالانکہ شواہد موجود ہیں کہ جمیع علماء اسلام مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کو ایک جلیل القدر عالم دین گردانتے ہیں اور آپ نے باقاعدہ علوم اسلامیہ کااستنباط کیا ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ عوامِ اہلسنت مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کو اپنا امیر تسلیم کرتی ہے ۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ دعوت اسلامی اہلسنت کی نمائندہ تبلیغی تحریک ہے اور اگر ایسے نظریات کاباب ابھی سے بند نہ کیا گیا تو ناگہاں شیطان اپنے طاغوتی مشن میں کامیاب ہو جائے گا اور اگر مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کی طرح دیگر علماء اہلسنت کو اِسی طرح ہدف تنقید بنایا جاتا رہا تو ہو سکتا ہے صفحہ ہستی میں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صدا بلند کرنے والے شایدڈھونڈنے سے ہی ملیں ۔

علماء پر اعتراضات کرنے سے پہلے ذرایہ سوچ لیاکریں کہ علماء اس قوم میں روح محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پھونکنے کاکام کر رہے ہیںہم علماء پر اعتراض کر کے حقیقت میں قلبِ ابلیس کو ہر دم خوش کر رہے ہیں اور ابلیس لعین اپنے چیلوںکو پکار پکار کر کہ رہا ہے کہ :

وہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتانہیں ذرا
روحِ محمدی اس کے بدن سے نکال د و

علماء کی فضیلت

عالم زمین میں اللہ عز وجل کی دلیل و حجت ہے تو جس نے عالم میں عیب نکالا وہ ہلاک ہوگیا ۔ (جامع صغیر، ص ۳۴۹، حدیث: ۵۶۵۸)

بیشک زمین پر عُلَماء کی مثال ان ستاروں کی طرح ہے جن سے کائنات کی تاریکیوں میں رَہْنُمائی حاصل کی جاتی ہے تو جب ستارے ماند پڑ جائیں تو قریب ہے کہ ہدایت یافتہ لوگ گمراہ ہو جائیں ۔ (مسند امام احمد ، مسند انس بن مالک، ۴/۳۱۴،حدیث:۱۲۶۰۰)

علم کے ساتھ تھوڑا عمل بھی نفع دیتا ہے لیکن جہالت کے ساتھ بہت عمل بھی نفع نہیں دیتا ۔ (جامع بیان العلم، ص ۶۵، حدیث:۱۹۷،چشتی)

اَلْعِلْمُ حَیَاةُالْاِسْلَامِ وَعِمَادُ الْا یْمَانِ" علم اسلام کی زندگی اور دین کا ستون ہے ۔ (جمع الجوامع، ۵/۲۰۰،حدیث:۱۴۵۱۸)

مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ تَـکَفَّلَ اللهُ بِرِزْقِهٖ" جو شخص علم کی طلب میں رہتا ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے رِزْق کا ضامن ہے ۔ (تاریخ بغداد، محمد بن القاسم بن ھشام، ۳/)

مَنْ سَلَکَ طَرِیْقًا یَلْتَمِسُ فِیْهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللهُ لَهُ بِهٖ طَرِیْقًا اِلَی الْجَنَّةِ" جو ایسے راستے پر چلے جس میں علم کو تلاش کرے، اس کے سبب اللہ عَزَّ وَجَل اس کیلئے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے ۔ (مسلم، کتاب الذکر و الدعاء۔۔۔۔الخ ، باب فضل الاجتماع…الخ،ص ۱۴۴۸، حدیث: ۲۶۹۹)

عُلَماءانبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے وارث ہیں ، بیشک انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام دِرہَم و دِینار کا وارث نہیں بناتے بلکہ وہ تو علم کا وارث بناتے ہیں ، لہٰذا جس نےعلم حاصل کیا اس نے اپنا حصہ لے لیا اور عالمِ دین کی موت ایک ایسی آفت ہے جس کا ازالہ نہیں ہوسکتا اور ایک ایسا خلا ہے جسے پُر نہیں کیا جا سکتا (گویا کہ ) وہ ایک ستارہ تھا جو ماند پڑ گیا ، ایک قبیلے کی موت ایک عالم کی موت کے مقابلے میں نہایت معمولی ہے ۔ (شعب الایمان،باب فی طلب العلم،۲/۲۶۳،حدیث:۱۶۹۹،چشتی)

شیخ الْاِسلام امام بُرہانُ الْاِسلام ابراہیم زَرنُوجی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : علم کو اس وجہ سے شرافت و عظمت حاصل ہے کہ علم ، تقویٰ تک پہنچنے کا وسیلہ ہے جس کے سبب بندہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حضور بزرگی اور ابدی سعادت کا مستحق ہوجاتا ہے ۔ (تعلیم المتعلم طریق التعلم،ص۶)

کروڑوں حنفیوں کے پیشوا حضرت سیدنا امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ اس بلند مقام پر کیسے پہنچے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : میں نے (اپنے علم سے) دوسروں کو فائدہ پہنچانے میں بخل نہیں کیا اور دوسروں سے اِسْتفَادَہ کرنے (سیکھنے ) میں شرم نہیں کی ۔ (در مختار المقدمة ۱/۱۲۷)

اولیائے کرام (رحمہم اللہ علیہم)کا ارشاد ہے : صُوْفیِ بے علم مَسْخَرۂ شَیطان اَسْت ، یعنی بے علم صوفی شیطان کا مسخرہ ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ،۲۴/۱۳۲)

اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بے علم مجاہدہ والوں کو شیطان انگلیوں پر نچاتا ہے ،منہ میں لگام ،ناک میں نکیل ڈال کر جدھر چاہے کھینچے پھرتا ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ،۲۱/۵۲۸)
نیز ارشاد فرماتے ہیں : عُلمائے شَریْعَت کی حاجت ہر مسلمان کو ہر آن ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ،۲۱/۵۳۵)

عُلمائے کرام وارثِ انبیاء علیہم السّلام ہیں کیونکہ یہ حضرات انبیاء علیہم السّلام کی مِیراث یعنی علمِ دین کو حاصل کرتے اور اس کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں لیکن بد قسمتی سے آج کل شاید کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت امت محبوب صَلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم کو علمائے کرام رحمہم اللہ ُ السلام سے دور کیا جا رہا ہے ، ان کے مقام و مرتبے کو مُسلمانوں کے دل و دماغ سے نکالا جارہا ہے ، ان کی شان میں لَب کشائی کی جارہی ہے ، ان پر اعتراض اور طعن و تنقید کرنے پر ابھارا جا رہا ہے بلکہ اب تو معاذ اللہ عز وجل علماء کی توہین و تحقیر تک نوبت آپہنچی ہے جو کہ ایمان کی بربادی کا سبب بن سکتی ہے ۔ یوں بھی جو علمائے کرام کا گستاخ ہوگا وہ ان کی صحبت و فیض سے محروم ہوجائے گا اور جب یہ دونوں چیزیں نصیب نہ ہونگی تو شرعی رہنمائی حاصل ہونا بھی ناممکن ، لہٰذا بے عملیاں کرتے کرتے ایسوں کا کُفر تک جا پڑنا بھی عین ممکن ہے ۔

اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جاہل بوجہ جہل اپنی عبادت میں سو گُناہ کرلیتا ہے اور مصیبت یہ کہ انہیں گناہ بھی نہیں جانتا اور عالمِ دین اپنے گناہ میں وہ حصہ خوف و ندامت کا رکھتا ہے کہ (اللہ عَزَّ وَجَلَّ) اسے جلد نجات بخشتا ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ ،۲۳/۶۸۷)

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : اس (عالم) کی خطا گیری (بھول نکالنا) اوراس پر اعتراض حرام ہے اور اس کے سبب رَہْنُمائے دین سے کنارہ کش ہونا اور استفادۂ مسائل (مسائل میں رہنُمائی لینا) چھوڑ دینا اس کے حق میں زہر ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ،۲۳/۷۱۱) ۔ (مزید حصّہ چہارم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔