Monday, 13 June 2022

مسلمان کو کافر و مشرک کہنا

مسلمان کو کافر و مشرک کہنا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : جیسا کہ آپ جانتے ہیں آج کل اکثر اسلام دشمن قوتوں کی طرف سے مسلمانانِ اہلسنت پر شرک و کفر کے فتوے بلا سوچے سمجھے جڑ دیے جاتے ہیں کبھی کسی مسلمان کو مشرک کہہ دیتے ہیں ۔ کبھی کسی مسلمان کو ابوجہل کہہ دیتے ہیں ۔ کبھی ہندو کہہ دیتے تو کبھی قادیانی وغیرہ ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ حدیثِ مبارکہ پڑھتے ہیں ۔ یاد رہے اس حدیث پاک کی اسناد کو آئمہ حدیث نے حسن اور جیّد قرار دیا ہے حوالے موجود ہیں اللہ تعالیٰ اہلِ اسلام کو ہر فتنہ کے شر و فساد سے بچائے آمین : ⬇

سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، رسول اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ان مما اخاف علیکم رجل قرأالقراٰن حتی اذا روئیت بہجتہٗ علیہ وکان ردائہ الاسلام اعتراہ الی ماشآء اللہ انسلخ منہ ونبذہ وراء ظھرہ وسعٰی علی جارہ بالسیف ورماہ بالشرک قال قلت یانبی اللہ ایھما اولیٰ بالشرک المرمی اوالرامی ؟ قال بل الرامی ۔
ترجمہ : یعنی مجھے تم پر ایک ایسے آدمی کا اندیشہ ہے جو قرآن پڑھے گا حتیٰ کہ اس کی روشنی اس پر دکھائی دینے لگے گی،اور اس کی چادر (ظاہری روپ) اسلام ہوگا ۔ یہ حالت اس کے پاس رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا ،پھر وہ اس سے نکل جائے گا اسے پس پشت ڈال دے گا ، اور اپنے (مسلمان) ہمسائے پر تلوار اٹھائے گا اور اس پر شرک کا فتویٰ جڑے گا،راوی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا : یانبی اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ! دونوں میں شرک کا حقدار کون ہوگا ؟ جس پر فتویٰ لگا یا فتویٰ لگانے والا ، آپ نے فرمایا : فتویٰ لگانے والا (مشرک ہوگا) ۔ (صحیح ابنِ حبان جلد اوّل صفحہ 282 عربی مطبوعہ موسس الرسالہ)

یعنی وہ فتویٰ مسلمان پر چسپاں نہیں ہوگا بلکہ جدھر سے صادر ہوا تھا واپس اسی کی طرف لوٹ جائے گا ، اور وہ مسلمان کو مشرک کہنے والا خود مشرک بن جائے گا ۔
اس روایت کو حافظ ابن کثیر نے پارہ نمبر۹، سورۃ الاعراف ،آیت نمبر ۱۷۵یعنی واتل علیہم نبأالذی اٰتینا ہ آیاتنا فانسلخ منھا …آلایۃ۔کی تفسیر میںنقل کیا اور لکھا ہے:ھذا اسناد جید یعنی اس روایت کی سند جید،عمدہ اور کھری ہے ۔ (تفسیرابن کثیر جلد۲صفحہ۲۶۵، امجد اکیڈمی لاہور۔) ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۲۶۵ دارالفکر بیروت۔چشتی)
علاوہ ازیں یہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے ۔ (مختصر تفسیر ابن کثیر جلد۲صفحہ۶۶۔ ۳…مسند ابو یعلی موصلی۔( تفسیر ابن کثیر جلد۲صفحہ۲۶۵) (الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان جلد۱صفحہ۱۴۹ برقم ۱۸۔ )(صحیح ابن حبان،للبلبان جلد اول صفحہ۲۴۸ برقم ۸۱، بیروت۔)(المعجم الکبیر للطبرانی،جلد۲۰صفحہ۸۸ برقم ۱۶۹ ،بیروت ۔)(شرح مشکل الآثار للطحاوی، جلد۲ صفحہ۳۲۴ برقم ۸۶۵، بیروت۔چشتی)(مسند الشامیین للطبرانی ، جلد۲صفحہ۲۵۴برقم ۱۲۹۱، بیروت۔)(کشف الاستارعن زوائد البزار للہیثمی جلد۱صفحہ۹۹ برقم ۱۷۵، بیروت۔)(جامع المسانید والسنن ،لابن کثیر جلد۳صفحہ۳۵۳،۳۵۴ برقم ۱۸۴۲، بیروت۔)(جامع الاحادیث الکبیر،للسیوطی جلد۳صفحہ۱۲۱ برقم ۸۱۳۲،بیروت ۔)(کنزالعمال،للمتقی ہندی جلد۳صفحہ۸۷۲ برقم ۸۹۸۵۔)(ناصر الدین البانی غیر مقلد سلفی وہابی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔ دیکھیئے!سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم الحدیث ۳۲۰۱۔ ۱۴…کتاب المعرفۃ والتاریخ للفسوی جلد۲ صفحہ نمبر ۳۵۸)

ثابت ہوگیا کہ مسلمانوں کو مشرک کہنے والا بذات خود مشرک ہے ۔ کیونکہ اصول یہ ہے کہ کسی مسلمان کی طرف کفر،شرک اور بے ایمانی کی نسبت کرنے سے قائل خود ان چیزوں کا حقدار ہوجاتا ہے۔مثلاً : ⬇

ارشاد نبوی ہے : من کفر مسلما فقد کفر ۔ ترجمہ : جس نے کسی مسلمان کو کافر قرار دیا وہ خود کافر ہوگیا ۔ (مسند احمد جلد۲صفحہ۲۳)

مزید فرمایا : من دعا رجلا بالکفر اوقال عد وا للہ ولیس کذلک الا حار علیہ ۔
ترجمہ : جس نے کسی (مسلمان) شخص کو کافر یا اللہ تعالیٰ کا دشمن کہا اور وہ ایسا نہیں تھا تو یہ (باتیں) خود اس کی طرف لوٹ جائیں گی۔ یعنی وہ خود کافر اور بے ایمان ہوجائے گا ۔ ( مسلم جلد۱صفحہ۵۷،مشکوٰۃ صفحہ ۴۱۱)

مزید ارشاد فرمایا : اذا قال الرجل لاخیہ یا کافر فقد باء بہٖ احدھما ۔
ترجمہ : جس نے اپنے (مسلمان) بھائی کو کہا : اے کافر! … تو یہ کلمہ دونوں میں سے کوئی ایک لے کر اٹھے گا ۔ (بخاری جلد۲ صفحہ ۹۰۱ واللفظ لہٗ مسلم جلد۱صفحہ۵۷)

یعنی اگر کہنے والا سچا ہے تو دوسرا کافر ہوگا ورنہ کہنے والا خود کافر ہوجائے گا ۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے : من اکفر اخاہ بغیر تاویل فھو کما قال ۔
ترجمہ : جس نے بغیر تاویل کے اپنے (اسلامی) بھائی کو کافر قرار دیا تو وہ خود کافر ہوجائے گا ۔ (بخاری جلد۲ صفحہ۹۰۱۔چشتی)

ان دلائل اور مستند حوالہ جات سے واضح ہوگیا کہ مسلمانوں کو بلاوجہ کافر ومشرک قرار دینا خود کافر اور مشرک ان دلائل سے واضح ہوگیا کہ مسلمانوں کو بلاوجہ کافر ومشرک قرار دینا خود کافر اور مشرک بننا ہے ۔ العیاذباللہ تعالیٰ ۔ اے بات بات پر مسلمانان اہلسنت کو اپنی جہالت کی وجہ سے کافر و مشرک کہنے والو اپنے ایمان کی فکر کرو کہیں تم خود کافر و مشرک تو نہیں ہو چکے ہو ، بغیر کفر و شرک ثابت کیئے کسی مسلمان کو کافر کہنے والو سوچو ۔

شارح بخاری فقیہ اعظم ہند مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اگر کسی مسلمان کو کوئی شخص کافر یا ابو جہل کافر سمجھ کر کہتا ہے تو وہ خود کافر ہے اور اگر بطور گالی کہتا ہے تو خود فاسقِ معلن اور تعزیر کا مستحق ہے ۔ اور صفحہ نمبر 369 پر لکھتے ہیں ایسے شخص کی امامت جائز نہیں ہے ۔ (فتاویٰ شارح بخاری جلد دوم صفحہ نمبر 368،چشتی)

اللہ عزّ و جل اور اس کے رسول صلی للہ علیہ والہ والہ وسلم نے اخوت اور بھائی چارے کی بنیاد ایمان پر رکھی ہے۔ جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مسلمانوں کو اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھنے کی ہدایت عطا فرمائی ہے وہاں ان باتوں سے بھی منع فرمایا جو اخوت اور بھائی چارے کی فضاء کو مکدر کر دیتی ہیں۔ ایک مسلما ن کا دوسرے مسلمان کو گالی دینا، اس کی غیبت کرنا، چغلی کرنا وغیرہ ایسے عوامل ہیں جو دلوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیتے ہیں۔ اسی لیے قرآن و سنت میں تفصیل کے ساتھ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے آداب سکھائے گئے ہیں۔ ایک مومن کفر کی طرف لوٹنا اتنا ہی ناپسند کرتا ہے جتنا آگ میں زندہ ڈال دیا جانا۔ اسی طرح اپنے ایمان کی اہمیت کو جانتے ہوئے وہ اس بات کو بھی ناپسند کرتا ہے کہ اسے کوئی ’’کافر‘‘ کہے یا زمرہ اہل اسلام سے خارج ہونے کا لیبل اس پر چسپاں کرے۔ دور حاضر میں یہ بات بہت عام نظر آنے لگی ہے کہ خواص و عوام ایک دوسرے کو بلا جھجک کا فر کہہ دیتے ہیں اور اس عمل سے قبل اپنی طرف نظر بھی نہیں کرتے کہ وہ اس کے اہل ہیں بھی یا نہیں؟ اس پر مستزاد یہ کہ اپنی کہی بات کو اس قدر مستند اور نا قابل تردید سمجھتے ہیں کہ جو ان کے کہے کو کافر نہ کہے وہ اسے بھی دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس بارے میں ارشاد فرمایا : اذا اکفر الرجل اخاہ فقد باء بھااحدھما ۔
ترجمہ : جب کوئی شخص اپنے بھائی کو کافر کہتا ہے تو ان میں سے کسی ایک کی طرف کفرضرور لوٹتا ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : ایما امری قال لاخیہ یا کافر فقد باء بھا احدھما ان کان کما قال و الا رجعت علیہ ۔
ترجمہ : جس شخص نے اپنے بھائی سے اے کافر کہا تو کفر دونوں میں سے کسی ایک کی طرف ضرر لوٹے گا۔اگر وہ شخص واقعی کافر ہو گیا تھا تو فبہا ورنہ کہنے والے کی طرف کفر لوٹ آئے گا ۔

اس حدیث سے یہ معلوم بھی ہو تا ہے کہ کسی کا کفر اگر واقعی ثابت ہو چکا ہو تو اسے کا فر کہنا جائز ہے ورنہ اس کا وبال کہنا والے پر ہو تا ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: و من دعا رجلا بالکفر او قال عدو اللہ و لیس کذلک الا عاد علیہ ۔ (مسلم کتاب الایمان:باب :بیان حال ایمان من قال لاخیہ المسلم یا کافر)
اور جس نے کسی شخص کو کافر یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کفر اس کی طرف لوٹ آئے گا ۔
حضرت امام بخاری علیہ الرحمۃ نے یہاں ’’بغیر تاویل‘‘ کی شرط لگائی ہے جس سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی تکفیر میں متاول ہو تو وہ معذورکہلائے گا اور اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منافق کہنے کو عذر فرمایا اور انہیں تنبیہ بھی فرمائی کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ گمان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جنگی احوال کی خبر کفار کو دینا نفاق ہے۔ اسی طرح جب حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز میں سورۃ البقرۃ کی تلاوت فرمائی تو ایک صحابی نماز سے الگ ہو گئے اور انہوں نے اپنی نماز الگ ادا کر لی۔ جب حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا یہ منافق ہے۔ وہ صحابی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور اپنا عذر پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جب حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا : أ فتان انت ۔
ترجمہ : اے معاذ کیا تم فتنہ میں ڈالنے والے ہو ؟ پھر انہیں مختصر سورتیں تلاوت کرنے کی نصیحت فرمائی۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کافر نہیں فرمایا کیونکہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شخص کو جماعت ترک کرنے کی وجہ سے منافق گمان کیا تھا ۔ (عمدۃ القاری:ج: ۲۲/ص :۱۵۷۔۱۵۸)

حضرت امام طحاوی علیہ الرحمۃ اس بارے میں ارشادفرماتے ہیں: فتاملنا فی ھذا الحدیث طلبا منا للمرادبہ ما ھو؟فوجدنا من قال لصاحبہ :یا کافر معناہ انہ کافر لأن الذی ھو علیہ الکفر فاذا کان الذی علیہ لیس بکفر ،وکان ایمانا کان جاعلہ کافرا جاعل الایمان کفرا،و کان بذلک کافرا باللہ تعالیٰ لأن من کفر بایمان اللہ تعالیٰ فقد کفر باللہ :و من یکفر بالایمان فقد حبط عملہ ،و ھو بالاخرۃ من الخاسرین ،فھذا أحسن ما وفقنا علیہ من تاویل ھذا الحدیث و اللہ نسالہ التوفیق(مشکل الاثار:باب بیان مشکل ما روی عنہ علیہ السلام فیمن قال لأخیہ :یا کافر،المکتبۃ الشاملۃ،چشتی)
ہم نے اس حدیث کی مراد جاننے کے لیے اس میں غور کیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ جس شخص نے اپنے بھائی سے کہا اے کافر! اس کا مطلب ہے کہ وہ کافر ہے کیونکہ یہ وہ ہے جس پر کفر ہے، پس اگر وہ کافر نہ ہو اور ایمان والا ہو تو اسے کافر کہنے والا کافر ہو جائے گا کیونکہ اس نے ایمان کو کفر کہا ہے۔ اس وجہ سے وہ در حقیقت اللہ کا انکار کر نے والا ہے۔ جس نے ایمان کو کفر کہا اس نے اللہ کا انکار کیا۔ جس نے ایمان کا انکار کیا اس کے اعمال بر باد ہو گئے اور وہ آخرت میں خسارا پانے والوں میں ہوگا۔ یہ اس حدیث کی سب سے بہترین تاویل ہے جس کی ہمیں توفیق ملی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی سے ہم توفیق کا سوال کرتے ہیں۔
حضرت امام طحاوی علیہ الرحمۃ کے بیان سے یہ واضح ہو تا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کافر کہے تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ایک صورت تو یہ کہ جس شخص کو اس نے کافر کہا وہ واقعی میں کافر ہو اور دوسری صورت یہ کہ وہ کافر نہ ہو۔ جب اس میں وجہ کفر نہ پائی گئی تو مسلمان کا اس کو کافر کہنا اس کو خود کافر بنا دیتا ہے کیونکہ وہ اب اس کے ایمان کو کفر سے تعبیر کر رہا ہے جو کفر ہے۔
ہمارے نزدیک اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو ’’کافر‘‘ کہے تو محض اس عمل سے اسلام سے دونوں میں سے کوئی بھی خارج نہیں ہوگا۔ کافر ہونے کی صورت کو ہم امام طحاوی کے قول کی روشنی میں بیان کر چکے ہیں۔ یہ ایک وعید ہے تا کہ اہل اسلام ایک دوسرے کو کافر بنانے سے احتراز کریں۔ دوسری بات یہ کہ یہ حدیث مبارکہ خبر واحد ہے جس کی وجہ سے اس کو تکفیر کی بنیاد نہیں بنایا جاسکتا۔ اس حدیث کے بارے میں شرح مواقف میں ہے: (الثالث قولہ علیہ السلام :من قال لاخیہ المسلم یا کافر فقد باء بہ)ای بالکفر(أحدھما قلنا آحاد )و قد اجمعت الامۃ علی ان انکار الاحاد لیس کفرا (و)مع ذلک نقول(المراد مع اعتقاد انہ مسلم فان من ظن بمسلم انہ یھودی أو نصرانی فقال لہ یا کافر لم یکن ذلک کفرا بالاجماع)۔(شرح المواقفـ:ج:۸/ص:۳۴۴،سید شریف جرجانی ،دار الفکر ،قم ایران،چشتی)
خلاصہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہتا ہے تو ان میں سے کسی ایک کی طرف کفرضرور لوٹتا ہے ۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ خبر واحد ہے اور امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ خبر واحد کا انکار کفر نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ یہ بات اس کے بارے میں یہ اعتقاد رکھتے ہوئے کہے کہ یہ مسلمان ہے ۔پس جس کسی نے مسلمان کے بارے میں یہ گمان کیا کہ وہ یہودی ہے یا نصرانی ہے تو اس پر اجماع ہے کہ وہ کہنے والا کافر نہیں ہو گا ۔
اس بارے میں حضرت امام نووی علیہ الرحمۃ کے حوالہ سے امام خانی لکھتے ہیں:قال النووی فی الاذکار :قول المسلم لأخیہ یاکافر یحرم تحریما غلیظا و یمکن حمل قولہ و یمکن حمل قولہ (یحرم تحریما غلیظا)علی الکفر أیضا کما فی الروضۃ لکنہ قال فی شرح مسلم ما حاصلہ :مذھب أھل الحق انہ لا یکفر المسلم بالمعاصی کالقتل و الزنا و کذا قولہ لأخیہ یا کافر من غیر اعتقاد بطلان دین الاسلام ذکر ذلک عند شرح حدیث :اذا قال الرجل لأخیہ یا کافر فقد باء بھا احدھما ۔و الحاصل ان المفھوم من جملۃ اقوال النووی انہ لا یکفر بمجرد ھذا اللفظ بل لا بد معہ من ان یعتقد ان ما اتصف بہ شخص من الاسلام کفر ۔ (رسالۃ فی الفاظ الکفر:ص:۴۰۱قاسم بن صلاح الدین خانی،دار ایلاف الدولیۃ للنشر و التوزیع ،کویت،چشتی)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اذکار میں فرمایا ہے کہ مسلمان کا اپنے بھائی کو اے کافر کہنا بہت شدید حرام ہے آپ کے قول کو کفر پر محمول کرنا بھی ممکن ہے۔جیسا کہ روضہ میں ہے لیکن آپ نے شرح صحیح مسلم میں بیان فرمایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ کوئی مسلمان گناہ سے کافر نہیں ہوتا جیسے قتل کرنا ،زنا کرنا یا جیسے اپنے بھائی کو اے کافر کہنا،اس کے دین اسلام کے باطل نہ ہونے کا عقیدہ رکھتے ہوئے۔آپ نے اس کا ذکر درج ذیل حدیث کی شرح میں ذکر کیا ہے۔جس شخص نے اپنے بھائی سے اے کافر کہا تو کفر دونوں میں سے کسی ایک کی طرف ضرور لوٹے گااگر وہ شخص واقعی کافر ہوگیا تھا تو فبہا ورنہ کہنے والے کی طرف کفر لوٹ آئے گا۔حضرت امام نووی کے تمام اقوال کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص محض اس لفظ سے کافر نہیں ہو گا بلکہ اس کے کافر ہونے کے لیے یہ عقیدہ ضروری ہے کہ یہ شخص جو اسلام کے ساتھ متصف ہے اس کا اسلام کفر ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مروجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام

مروجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام محترم قارئین کرام : میوزک یا مزامیر کے ساتھ نعت شریف کی اجازت نہیں کہ میوزک بجانا ناجائز ہے ۔ یہی حکم ا...