دو قومی نظریہ حصّہ سوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت مجدد الف ثانی اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہما الرّحمہ نے پاکستان اور دو قومی نظریہ کی بنیاد رکھی ۔ امام احمد رضاخاں قادری محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے انگریز حکومت اور ہند و سامراج کے خلاف اسلامیانِ ہند کو دوقومی نظریے سے روشناس کروایا ۔ انہوں نے برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کی ایسی رہنمائی کی کہ صرف چند سالوں کی جد و جہد کے بعد پاکستان دنیا کے نقشے پر معرض وجود میں آگیا ۔ امام احمد رضاخاں قادری محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ایک سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور مسلمانوں کے عظیم محسن تھے ۔ انہوں نے مسلمانوں کے دلوں میں عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ایسا چراغ روشن کیا جس کی روشنی آج برصغیر پاک و ہند میں بلخصوص اور پوری دنیا میں با لعموم دکھائی دے رہی ہے ۔ انہو ں نے کہا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے علمِ لدّنی سے نوازا تھا انہوں نے مسلمانوں کے لئے آنے والی مشکلات کو کئی دھائیوں پہلے محسوس کرتے ہوئے مسلمانوں کو ایک علیحدہ سلامی ریاست کے لئے جدوجہد کی راہ دکھائی ۔ امام احمد رضاخاں قادری محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مرزا غلام احمدقادیانی اور گستا خانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خلاف بھر پور علمی وعملی محاسبہ کیا انہوں نے ہزاروں صفحات پر مشتمل فتاوی رضویہ سمیت ہزاروں کتابیں تصنیف کیں جن کے ذریعے بر صغیر کے مسلمانوں کے دلوں میں عظمت اور محبت کے چراغ روشن ہوئے ۔ وہ اسلام کے سچے مبلغ اور گستاخان رسول کے خلاف ننگی تلوار تھے ۔ (چشتی)
یہ امراظہر من الشمس ہے کہ مسلمان اور غیرمسلم دو الگ الگ قومیں ہیں ۔ دونوں كکے راستے جُدا جُدا ہیں ۔ دونوں کی تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں ۔ مسلمان سب سے پہلے پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا سچا پیرو کار ہے جو اسلام کا سرچشمہ ہیں ، یہ دوقومی نظریہ کا بنیادی اصول ہے ۔ دوقومی نظریہ ’’ملّت اسلامیہ‘‘ کا نظریہ ہے ۔ یہی نظریہ تحریک پاکستان کی بنیاد بنا ۔
برطانوی سامراج طویل غاصبانہ قبضے کے بعد جب بر صغیر سے جانے لگا تو ہندو عیار پورے ہندوستان پر اکیلے حکومت کرنے کا خواب دیکھنے لگا ، چناںچہ اس نے اپنی حکمرانی کا راستہ ہموار کرنے کے لیے مسلمانوں کا علیحدہ قومی تشخص ختم کرنے کی ٹھان لی ۔ بس پھر کیا تھا ایک قومی نظریہ کا نعرہ بلند ہوا اور پھر گاندھی نے نہایت ہی منّظم طریقے سے بر صغیر کے بسنے والوں کے لیے صرف ایک ’’ہندوستانی قوم‘‘ بن جانے کی تحریک چلا دی ۔
’’ہندومسلم اتحاد‘‘ کے مظاہرے ہونے لگے ۔ مسلمان اپنا قومی تشخص اپنے ہاتھوں سے مٹانےلگے ۔
اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھئے :
علاقے بہار میں ہندوؤں نے محض گائے کی قربانی روکنے کے لیے ہزار ہا مسلمانوں کو زخمی اور قتل کردیا ۔ مسلمانوں کے متعدد گاؤں اور دو ہزار سات سو مکانات اس بے دردی کے ساتھ لوٹے گئے کہ جن کی تفصیل سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ لاتعداد مسلمان عورتوں اور لڑکیوں کی عصمت دری کی گئی۔ پانچ عالی شان مسجدیں شہید کردی گئیں۔ قرآن مجید کی بے حرمتی کی گئی۔ بقر عید کے موقع پر کٹا رپور میں ایک دو نہیں تقریباً تیس مسلمانوں کو زندہ آگ میں جلادیا گیا ۔ ان نازک ترین حالات میں بریلی شریف کے مردِ حق آگاہ مجدّد مائتہ حاضرہ امام احمدرضا محدّث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ خاموش نہ رہ سکے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ مجدّدانہ انداز میں آگے بڑھے اور دوقومی نظریہ کی علم برداری کا فریضہ ادا کرنے کی ذمہ داری سنبھالی ۔ آپ نے متحدہ قومیّت کا پرچار کرنے والے گاندھی نواز افراد کا ایسا تعاقب فرمایا کہ ان کے جملہ دلائل کے سارے تار و پود بکھیر کر رکھ دیے ۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے’’انفس الفکر فی قربان البقر‘‘(۱۲۹۸ھ/ ۱۸۸۰ء) کتاب تصنیف فرمائی جس میں قرآن وحدیث سے نفس قربانی اور گائے کی قربانی پر تفصیلی بحث کے بعد تمام شبہات و اعتراضات کا نہایت ہی شافی جواب دیا ، جو دیدنی ہے ، مسلم لیگ ضلع بریلی کے جوائنٹ سیکریٹری سیّد عبدالودود کے ایک استفتاء کے جواب میں فرماتے ہیں : فی الواقع گاؤ کشی ہم مسلمانوں کا مذہبی شعار ہے، جس کا حکم ہماری پاک مبارک کتاب کلام مجید رب الارباب میں متعدد جگہ موجود ہے ۔ اس میں ہندوؤں کی امداد اور اپنے مذہبی معاملات میں کوشش اور قانونی آزادی کی بندش نہ کرے گا ، مگر وہ جو مسلمانوں کا بد خواہ ہے ۔ (چشتی)
’’اعلام الاعلام بان ہندوستان دارالاسلام‘‘ (۱۳۰۶ھ/۱۸۸۸ء) میں ہندوستان کو دارالسّلام قرار دیتے ہوئے آپ نے سود کو حرام اور ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ غاصبانہ قرار دیا ۔ لطف تو یہ ہےکہ دارالحرب قرار دینے والوں نے خود تو ہجرت کا نام تک نہ لیا ، مگر سادہ لوح مسلمانوں کو یہاں سے ہجرت کرجانے کی تلقین کی ، چنانچہ امام احمدرضا محدّث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : الحاصل ہندوستان كکے دارالاسلام ہونے میں شک نہیں، عجب ان سے جو تحلیل ربوٰ کے لیے جس کی حرمت نصوص قرآنیہ سے ثابت اور کیسی کیسی سخت وعیدیں اس پر وارد ، اس ملک کو دارالحرب ٹھہرائیں اور باوجود قدرت و استطاعت ہجرت کا خیال بھی دل میں نہ لائیں ، گویا یہ بلاد اسی دن کےلیے دارالحرب ہوئے تھے کہ مزے سے سود کے لطف اڑائیے اور بآرام تمام وطن مولوف میں بسر فرمائیے ۔‘‘ یہ ہیں اعلیٰ حضرت کے دوقومی نظریے کے حوالے سے وہ افکار ونظریات جس نے برصغیر کے مسلمانوں کی دینی ،مذہبی و سیاسی رہنمائی کافریضہ انجام دیا ۔آپ نے برصغیر کے مسلمانوں میں یہ روح پھونکی کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں ۔
مولانا احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت سے شاید ہی برصغیر پاک و ہند اور دنیائے عرب کا کوئی مذہبی شخص ناواقف ہو گا۔ فقہی،علمی اور مذہبی اعتبار سے آپ جن عبقری صفات کے حامل تھے،مسلکی اختلافات کے باوجود معاصرین سے لے کر دور حاضر کے لوگوں تک سب ہی نے علمی برتری اور شریعت فہمی میں آپ کی نگاہ ثروت کا لوہا مانا ہے۔ آپ ایک جید عالم عبقری فقیہ، صاحب نظر اور عظیم محدث ہیں۔ انفرادیت کا عالم یہ ہے کہ جب آپ کا قلم میدان تحقیق میں فن دکھاتا ہے تو عموماً آخری حدود کو چھو جاتا ہے اور مزید تحقیق کی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ہمہ جہت شخصیت
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی ذات ہمہ صفات تھی ، آپ نے جس میدان میں بھی قدم رکھا ، دنیا نے آپ کو اسی میدان کا شہسوار مانتے ہوئے سمجھا کہ شاید آپ نے اس فن کے حصول کے لیے تمام زندگی صرف کی ہے۔علم ہیئت ، توقیت ، جفر ، فقہ ، حدیث ، منطق ، فلسفہ ، سائنس وغیرہ کے نہ صرف ماہر تھے ، بلکہ ہر فن میں خداداد علمی تحقیقی صلاحیتوں کے مالک تھے اور ہر فن میں ایک نئے انداز وفکر وبیان سے کتاب تحریر فرماکر دنیا سے اپنے قلم کا لوہا منوایا ، اسی طرح نعت گوئی میں بھی آپ امتیازی شان کے مالک تھے ، آپ عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں سرشارتھے ،آپ کی تصانیف میں بھی عشق رسول ومحبت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ایمان افروز جلوے نظر آتے ہیں۔اس عشق ومحبت کے جلوؤں کی جھلکیاں آپ کے نعتیہ کلام کا مجموعہ مسمیٰ تاریخی ’’حدائق بخشش‘‘میں بدرجہ کمال پائی جاتی ہیں ، آپ کا کلام فصاحت وبلاغت ، لطائف ونزاکت اور سلاست و روانی کا اعلیٰ نمونہ ہے ۔ (چشتی)
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اکبر بادشاہ کا دور مسلمانان ہند پہ بہت کڑاوقت تھا ۔ اکبر بادشاہ نے جس نئےدین کی بنیاد ابوالفضل اور فیضی جیسے علماءِ سوء کی مدد سے ڈالی اس کو “دین الہٰی” کانام دیاگیا ۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد رحمۃ اللہ علیہ اس دور کی منظر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں : تیسرے دور میں دین الہی کا آغاز ہوااور وہ کچھ ہوا کہ جو نا گفتنی ہے ۔ ہروہ کام کیا جانے لگا جو اسلام کے سراسر منافی ہے ۔ مثلا کلمہ طیبہ میں محمدرسول اللہ کے بجائے اکبر خلیفۃ اللہ پڑھا جانے لگا ۔ گائے کی قربانی پہ پابندی لگادی گئی ۔ خنزیر اور کتوں کا احترام کیا جانے لگا ۔ داڑھیاں منڈوادی گئیں شراب جواء عورت کی بے پردگی عام ہوگئی بادشاہ کوسجدہ تعظیمی کیا جانے لگا اور شعائرِ اسلام کا برسرعام مزاق اڑایا جانے لگا - ایسے دور میں کلمہ حق بلند کرنا اتنا مشکل ہو گیا لیکن ایسے دور میں امام ربانی مجدد الف ثانی احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ نے سرکاردوعالم صلی اللہ تعالی کی رحلت کے ایک ہزار سال بعد تجدید دین کا کارنامہ سرانجام دیا ۔ چونکہ امام ربانی علیہ الرحمہ کا سلسلہ نسب 29 واسطوں سے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ تک پہنچتاہے تبھی آپ کے علماء مشائخ ، صوفیاء عوام ، بادشاہ کے مقربین کو جو مکتوبات لکھے ان کو پڑھتے وقت ایک ایک جملے سے جلال فاروقی جھلکتا محسوس ہوتاہے ۔
جناب سید شیخ فرید کو بھیجے جانےوالا خط کی تحریر کچھ یوں تھی : اللہ تعالی نے کلام مجیدمیں کافروں کو اپنا اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن فرمایاہے ۔ لہذا کفار کےساتھ دوستی اور میل جول بڑاہی گناہ ہوگا-ان کفار کی ہم نشینی اور دوستی کا کم سے کم نقصان یہ ہے کہ احکام شریعت جاری کرنے اور کفرکےنشان مٹانے کی قوت کمزور پڑ جائے گی اور یہ بہت بڑا نقصان ہے ۔
ایک ایمان والا اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت رکھتا ہے ۔ خودسوچیئےجس شخص سے ایمان کی حد تک محبت ہو کیا اس کے دشمن سے محبت ہو گی ؟ کیا اس کی تعظیم اور عزت کی جاسکتی ہے ؟ حاشا و کلا یہ محبت کی توہین ہوگی غیرت ایمانی کے سراسر منافی ہے یہ ہی دوقومی نظریہ ہے جو قرآن و سنت سے بھی ثابت ہے ۔
اکبری دور کے بعد بیسویں صدی کی ابتداءمیں پھر سےاس فتنے نے سراٹھایا-ہندومسلم بھائی بھائی کا نعرہ بلند ہوا - امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ نے علالت کے باوجود ” المحجۃ الموتمنہ” لکھ کر ہندومسلم اتحاد کےتار پود بکھیر دیئے ۔ قرآن حدیث کی روشنی میں دوقومی نظریہ پوری قوت کےساتھ پیش کیا ۔ کس دردمندی کےساتھ فرماتے ہیں : جب ہندوؤں کی غلامی ٹھہری ، پھر کہاں کی غیرت کہا کی خوداری ؟۔(المحجۃ الموتمنہ،چشتی)
پہلی جنگ عظیم کےبعد جب مسلمانوں کی طرف سےتحریک خلافت کاآغاز ہوا،توحالات نےنیارخ اختیارکیا،اس تحریک میں مولانا محمد علی جوہر،مولانا شوکت علی،حکیم اجمل خاں،ڈاکٹر انصاری،مولانا ظفرعلی،مولانا حسرت موہانی وغیرہم مشاہیرملت شامل تھے.اسی زمانہ میں انڈین نیشنل کانگریس نےمسٹرگاندھی کےایماء پرترک موالات کی تحریک شروع کی_کانگریس کا قیام اگرچہ 1885 میں عمل میں آگیاتھا مگراسکا مقصد صرف یہ تھا کہ حاکم ومحکوم کےتعلقات کواستوارکرےاور بس بعد میں کامل آزادی کامطالبہ کیاگیا ۔
الغرض 1920 میں کانگریس کےقوم پرست ہندو اور مسلمان تحریک خلافت کےداعی اپنے مشترکہ دشمن انگریز کےخلاف متحد ہوگئے،ہرشخص ترک موالات پرتلاہوانظرآتاتھا . مخالفت کی کسی کوجراءت نہ تھی،جوش جنوں میں انگریزوں سےترک مواصلات بلکہ ترک معاملت کرکےکفارومشرکین سےدوستی و محبت کےلیے ہاتھ بڑھایا گیا ۔ ہندومسلم اتحاد کےمؤیداور ہمارے محترم بزرگ مولانا محمد علی ، اور مولانا شوکت علی جب فاضل بریلوی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی تحریک میں شمولیت کی دعوت دی تو فاضل بریلوی نےصاف صاف فرمادیا : مولانا میری اور آپ کی سیاست میںفرق ہے،آپ ہندومسلم اتحاد کےحامی ہیں میں مخالف ہوں،اس جواب سےعلی برادران ناراض ہوئے تو فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے تالیف قلب کےلیے مکررفرمایا : مولانا میں ملکی آزادی کامخالف نہیں ، ہندومسلم اتحاد کا مخالف ہوں ، (اعلی حضرت کی مذہبی وسیاسی خدمات،مطبوعہ عرفات شمارہ اپریل1970،چشتی)
محترم قارئینِ کرام : غور کیجیے جب قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ جیسے مقبول لیڈر کو بھی ترک موالات کے خلاف کچھ کہنے کی جراءت نہ ہوئی ، پورا ملک ہند و مسلم اتحاد کی طوفانی لہروں میں بہہ رہا تھا . ایسے پر فتن ماحول میں جس مرد مجاہد نے ہندومسلم اتحاد کےخلاف آواز اٹھائی اور دوقومی نظریہ پیش کیا وہ ایک عالم ایک مجدد جناب احمدرضاخاں بریلوی قدس سرہ العزیز کی ذات گرامی تھی .اس ہی ضمن میں دو استفتاء کےجواب میں ایک رسالہ “المحجہ الموتمنہ فی آیۃ الممتحنہ 1920/ھ1339 ” کے تاریخی نام سے مولوی حسنین رضاخاں نےمطبع حسنی بریلی سےچھپوا کر شائع کیا تھا . یہ پورارسالہ رئیس احمد جعفری نے اپنی تالیف اوراق گم گشتہ” میں شامل کر دیا ہے ، جو بڑے بڑے سائز کے اسی صفحات پہ پھیلا ہوا ہے ۔
اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی انگریزوں سے نفرت
کہا جاتا ہے کہ آپ انگریزوں کے پروردہ تھے انگریز پرست تھے مگر آپ تو انگریز اور ان کی حکومت سے اس قدر نفرت کرتے تھے کہ لفافے پہ ہمیشہ الٹا ٹکٹ لگاتے تھے اور برملا کہتے تھے کہ میں نے جارج پنجم کا سرنیچا کر دیا ۔ آپ نے کبھی انگریز کی حکمرانی تسلیم ناکی حتی کہ ایک بار ایہ مقدمہ کےسلسلہ میں آپ کو عدالت نے طلب کیا فرمانے لگے کہ میں انگریز کی حکمرانی کو نہیں مانتا تو اس کےنظامِ عدل کو کیونکر مانوں ؟ حتی کے آپ کو گرفتار کرنے کےلیے معاملہ اتنا بڑھ گیا کہ بات پولیس سے نکل کر فوج تک جا پہنچی مگران کے ہزاروں جانثاروں نے سر پہ کفن باندھ کر ان کے گھر کا پہرہ دیا آخرعدالت کو حکم واپس لینا پڑا ۔ (ہفت روزہ الفتح، 14،21 مئی 1976 ص17)
ایک مرتبہ انگریز کمیشنر نے 35 مربع زمین کی آپ کو پیش کش کی مگر اس مرد قلندر نےفرمایا انگریز اپنی تمام حکومت بھی مجھے دے دے تو بھی میرا ایمان نہیں خرید سکتا ۔ ( ماہنامہ الحبیب اکتوبر1970ء) ۔ (مزید حصّہ چہارم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment