امیرِ اہلسنّت مولانا محمد الیاس قادری کی شخصیت و تعارف حصّہ چہارم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارٸینِ کرام : یہ نکتہ محلِ غور ہے کہ کیا عالمِ دین وہی ہے جس کے پاس ایک کاغذ کا ٹکرا جس کو عام مفہوم میں سند سے تعبیر کرتے ہیں موجود ہو ؟ اگر ایسا ہی ہے تو آج کے جدید دور میں پرنٹنگ پریس کی سہولت موجود ہے جس کو عالم بننے کا جذبہ جانگزیں ہو وہ پریس سے رابطہ کر کے ایک کیا سینکڑوں اسناد ترتیب دے لے ۔ یہ امر اہل نظر پرخوب عیاں ہے کہ میدانِ ِعلم میں سند کی کوئی حیثیت نہیں ہے علم وہ ہے جو دل و دماغ میں ہو اور اس کا احساس اس صاحب کے قول و فعل سے ہوتا ہے ۔
اعلیٰحضرت علیہ الرحمہ سے جب اس قسم کا سوال ہوا تو آپ نے اس کا جواب ارشاد فرمایا : مسئلہ کیا فرماتے ہیں علماء دین اس باب میں کہ اگر کوئی شخص جس نے سوائے کتب فارسی اور اردو کے جو کہ معمولی درس میں پڑھی ہوں اور اوس نے کس مدرسہ اسلامیہ یا علماء گرامی سے کوئی سند تحصیل علم نہ حاصل کی ہو اگروہ شخص مفتی بنے یا بننے کا دعویٰ کرے اور آیات قرآنی اور احادیث کو پڑھکر اوس کا ترجمہ بیان کرے اور لوگوں کو باورکراوے کہ وہ مولوی ہے تو ایسے شحص کا حکم یافتوی اور اقوال قابل تعمیل ہیں یا نہیں اور ایسے شخص کا کوئی دوسرا شخص حکم نہ مانے تو اس کےلیے شریعت میں کیا حکم ہے ؟
الجواب : سند کوئی چیز نہیں بہتیرے سند یافتہ محض بے بہرہ ہوتے ہیں اور جنہوں نے سند نہ لی اون کی شاگردی کی لیاقت بھی ان سند یافتو ں میں نہیں ہوتی۔علم ہونا چاہیے اور علم الفتویٰ پڑھنے سے نہیں آتا جب تک مدتہا کسی طبیب حاذق کا مطب نہ کیا ہو ۔مفتیان کامل کے بعض صحبت یافتہ کہ ظاہری درس تدریس میں پورے نہ تھے مگر خدمت علماء کرام میں اکثر حاضر رہتے اور تحقیق مسائل کاشغل اون کا وظیفہ تھا فقیر نے دیکھا ہے کہ وہ مسائل میں آجکل کے صد ہا فارغ التحصیلوں بلکہ مدرسوں بلکہ نام کے مفتیوں سے بدرجہازائد تھے پس اگر شخص مذکورفی السوال خواہ بذات خود خواہ بفیض صحبت علماء کاملین علم کافی رکھتاہے جو بیان کرتاہے غالباً صحیح ہوتا ہے اوسکی خطا سے اوس کا صواب زیادہ ہے تو حرج نہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ قدیم ١٠/٢٣١،چشتی)
مفتی جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ : علم حاصل کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ طالب علم بن کر کسی مدرسہ میں اپنا نام لکھائے اور پڑھے جیسا کہ رائج ہے بلکہ اس کا مطلب یہ کہ علمائے اہلسنت سے ملاقات کرکے شریعت کا حکم ان سے معلوم کرے یا معتبر اور مستند کتابوں کے ذریعہ حلال وحرام اور جائز وناجائز کی جانکاری حاصل کرے ۔ (علم اور علماء از مفتی جلال الدین امجدی صفحہ ٢٤)
جہاں پر علم و علماء کے فضائل و برکات ہیں وہاں بے عمل علماء کےلیے شریعت نے بہت سختی اختیار کی ہے ۔
حضرت داتا گنج بخش علیہ الرحمہ غافل علماء کے بارے فرماتے ہیں : غافل علماء وہ ہیں جنہوں نے اپنے دل کاقبلہ دنیا کو بنا رکھا ہے شریعت میں رخصتوں اور آسانیوں کی تلاش میں رہتے ہیں بادشاہوں کے حواری و پجاری ہیں اور ان کی سرکار دربار کے طواف کو وظیفہ حیات سمجھتے ہیں مخلوق میں جاہ ومرتبہ ان کے نزدیک معراج ہے فخر وغرور کی بدولت اپنی چالاکی اور عیاری پر فخر کرتے ہیں زبان وبیان میں تکلف و بناوٹ سے کام لیتے ہیں ، اساتذہ اور ائمہ پر طعن وتشنیع کرتے ہیں بزرگان دین کے بارے میں نہایت ہلکے پن کا اظہار کرتے ہیں اگر دونوں جہاں بھی ان کے ترازو کے پلڑے میں رکھ دیے جائیں تو کچھ بار نہ پاسکیں حسد اور عناد ان کی فطرت اور خمیر بن چکا ہے ، الغرض یہ ساری باتیں علم کے دائرے سے باہر ہیں علم تو ایسی نعمت ہے جس سے اس قسم کی تمام جاہلانہ باتیں خود بخود ختم ہو جاتی ہیں ۔ (کشف المحجوب صفحہ ١٠٠،چشتی)
علماء سوء کی مذمت پڑھنے کے بعد ہم بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے بارے جوبات بات پر علماء کو تعن و تشنیع کرتے نہیں چوکتے اور معاذ اللہ کچھ تو ایسے ہیں جو علماء ِحق کو گالیاں بھی دیتے ہیں ان لوگوں کے لیے شریعت نے حکم ِکفر لگایا ہے اس موضوع پر ہم علماء ِ کرام کی کچھ تصریحات بیان کرتے ہی ۔
اعلٰحضرت علیہ الرحمہ کا ایک فتویٰ حاضرِخدمت ہے جو ان شاء اللہ اس عنوان کو کفایت کرے گا ۔
مسئلہ : کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی عالم و فقیہ کو گالی دے یا حقارت کرے تو اس کے اوپر حکم کفر جاری ہو گا یا نہیں اور اکثر عوام الناس اس زمانے میں عالموں کو گالی دیتے اور حقارت اور غیبت کرتے ہیں ۔ بینو ا توجروا ۔
الجواب : غیبت تو جاہل کی بھی سو اصور مخصوصہ کے حرام قطعی و گنا ہ کبیرہ ہے قرآن عظیم میں اسے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا فرمایا اور حدیث میں آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں : ایا کم و الغیبۃ فان الغیبۃ اشد من الزنا ان الرجل قدیزنی ویتوب فیتوب اللہ علیہ و ان صاحب الغیبۃ لایغفر لہ حتی یغفرلہ صاحبہ ۔ غیبت سے بچو کہ غیبت زنا سے بھی زیادہ سخت ہے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ زانی توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اوس کی توبہ قبول فرمالیتا ہے اور غیبت کرنے والے کی بخشش ہی نہ ہو گی ، جب تک وہ نہ بخشے جس کی غیبت کی تھی ، رواہ ابن ابی الدنیافی ذم الغیبۃ و ابو الشیخ فی التوبیخ عن جابر بن عبداللہ و ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہم یوہیں بلاوجہ شرعی کسی مسلمان جاہل کی بھی تحقیر حرام قطعی ہے ۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بحسب امری من الشران یحقر اخاہ المسلم کل المسلم علی المسلم حرام دمہ و عرضہ و مالہ آدمی کے بد ہونے کو یہ بہت ہے کہ اپنے بھائی مسلمان کی تحقیر کرے مسلمان کی ہر چیز مسلمان پر حرام ہے خون آبرومال رواہ مسلم عن ابی ھریرۃرضی اللہ عنہ اسی طرح کسی مسلمان جاہل کوبھی بے اذن شرع گالی دینا حرام قطعی ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں سباب المسلم فسوق مسلمان کو گالی دینا گناہ کبیرہ ہے ۔ رواہ البخاری و مسلم والترمذی والنسائی وابن ماجہ وا لحاکم عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور فرماتے ہیں : سباب المسلم کا لمشرف علی الہلکۃ ۔ مسلمان کو گالی دینے والا اوس کی مانند ہے جو عنقریب ہلاکت میں پڑا چاہتاہے رواہ الامام احمد و البزاز عن عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ تعالیٰ عنہما بسند جید اور فرماتے ہیں ا من آذی مسلما فقد آذانی و من آذانی فقد آذی اللہ جس نے کسی مسلمان کو ایذادی اوس نے مجھے ایذادی او رجس نے مجھے ایذادی اس نے اللہ کو ایذادی رواہ الطبرانی فی الاوسط عن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بسند حسن جب عام مسلمانوں کے باب میں یہ احکام ہیں تو علماء کرام کی شان تو ارفع وا علی ہے ۔حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : لا یستخف بحقہم الا منافق علماء کے حق کو ہلکا نہ جانے گامگر منافق رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابی امامۃرضی اللہ تعالیٰ عنہ دوسری حدیث میں ہے فرماتے ہیں الا یستخف بحقہم الا منافق بین النفاق اون کے حق کو ہلکا نہ سمجھے گا مگر کھلا منافق رواہ ابو الشیخ فی التوبیخ عن جابر بن عبد اللہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور فرماتے ہیں : الیس من امتی من لم یعرف لعالمنا حقہ جو ہمارے عالم کا حق نہ پہچانے وہ میری امت سے نہیں ۔ رواہ احمد والحاکم والطبرانی فی الکبیر عن عبادۃ بن الصامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر اگر عالم کو اس لیے برا کہتا ہے کہ وہ عالم ہے جب تو صریح کافر ہے اور اگر بوجہ علم اس کی تعظیم فرض جانتا ہے مگر اپنی کسی دنیوی خصومت کے باعث برا کہتا ہے گالی دیتا تحقیر کرتا ہے تو سخت فاسق و فاجر ہے اور اگر بے سبب رنج رکھتا ہے تو مریض القلب خبیث الباطن ہے اور اوس کے کفر کا اندیشہ ہے ۔ خلاصہ میں ہے من ابغض عالما من غیر سبب ظاہر خیف علیہ الکفر منح الروض الازہر میں ہے الظاہر انہ یکفر الخ واللہ تعالیٰ اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم ۔ (فتاویٰ رضویہ قدیم ١٠/١٤٠)
مذکورہ بالا تمام تفصیل سے معلوم ہوا کہ عالم کی تحقیر و تذلیل کتنا بڑا گناہ ہے او ربسا اوقات یہ گناہ قصداً کرنے سے حد کفر تک پہنچ جاتاہے ،لہٰذا ہمیں بھی غور کر لینا چاہیے کہ کہیں ہم بھی اس کبیرہ گنا ہ میں ملوث تو نہیں ،کبھی ایسابھی ہو تا ہے کہ جب ہم دوستوں میں بیٹھے ہوتے ہیں تو اگر کوئی ہمارا دوست کسی عالم دین کی توہین کر تا ہے تو ہم بھی اس کی ہا ں میں ہا ں ملاتے چلے جاتے ہیں یاد رکھیے کفر یہ کلام پر ہاں کرنا کافر کرد یتا ہے۔
عالم دین سے قطع تعلقی کرنا
ہمارے بعض بد نصیب مسلمان بھائی ایسے بھی ہیں جو شیطان کے بہکاوے میں آ کر علماء سے لا تعلقی کا اظہار کر بیٹھتے ہیں کیونکہ شیطان تو پہلے ہی سے اولاد آدم کا دشمن ہے اور اسے معلوم ہے کہ اگر عوامی طبقہ علماء کے قریب آگیاتو یہ بے راہ روی سے کنارہ کش ہو جائیں گے اور مجھے اپنے مذموم مقصدمیں کامیابی نصیب نہیں ہوگی ۔ یادرکھیے عالم دین سے محض اپنے ذاتی ونفسانی بغض کی وجہ سے لاتعلق ہونا بہت بڑے گناہوں کاباب کھولنے والا ہے ۔
اسی مسئلہ کے بارے اعلٰحضرت علیہ الرحمہ سے دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا : ⬇
مسئلہ ٥١:ایک عالم نے اپنے متعدد وعظوں میں سود خوری ،شراب فروشی ، شراب نوشی ، بیع لحم خنزیر ، اکل غیر مذبوح مرغ ، زناکاری ، لواطت واغلام کی حرمت قرآن و حدیث سے بیان کی اور میراث کے مسئلے میں محمد ن لاء (شریعت محمدی) کو چھوڑ کر ہندو لاء (ہندو دھرم) قبول کرنے کو کفر ِ صریح بتلایا جس جماعت میں یہ باتیں تھیں بجائے اس کے کہ ان باتوں کو ترک کردیتے اور توبہ واستغفار کرتے اور خدا ل و رسول ا کے حکم کے آگے سر جھکا دیتے خلاف اس کے ضد اور نفسانیت میں آن کر اپنی جماعت کواکٹھا کر کے اتفاق کر لیا کہ جماعت کا کوئی فرد اپنے ہاں اس عالم کے وعظ کی مجلس منعقدنہ کر ے اور اگرکیا تو جماعت سے خارج کر دیا جائیگا ،آیا اس صورت میں شرعاًاس جماعت کا کیا حکم ہے اور دوسرے مسلمانوں کو شرعاً اس جماعت سے قطع تعلق کرنا چاہیے یانہیں ؟ بدلائل شرعیہ جواب لکھ کر عند اللہ ماجور ہوں ۔
الجواب:اس صورت میں جماعت سخت ظالم اور عذاب شدید کی اور اس آیت کریمہ کی مصداق ہے ،واذا قیل لہ اتق اللہ اخذتہ العزۃ بالاثم فحسبہ جھنم اورجب اس سے کہاجائے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرئیے تو اسے گناہ،مزید ضد (اورطیش) پر آمادہ کرے اورابھارے ، پس (بد نصیب) کےلیے دوزخ ہی کافی ہے ۔ (القرآن٢،٢٠٦) ۔ اگروہ لوگ توبہ نہ کریں تو مسلمانوں کو ان سے قطع تعلق چاہیے ورنہ بحکم احادیث کثیرہ وہ بھی ان کے ساتھ شریک عذاب ہونگے اوشک ان یعمھم اللہ بعقاب منہ (قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اس کے عذاب میں شامل اورشریک فرمائے) واللہ تعالیٰ اعلم'' ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید، ٢٤/١٧٣،١٧٤،چشتی)
عالم دین کو ہلکاجاننے والے کے بارے میں سرکارِ کُل عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چند احادیث ملاحظہ فرمائیں المعجم الکبیر میں ہے : لایستخف بحقھم الامنافق '' عالم کو ہلکا نہ جانے گا مگر منافق ۔(المعجم الکبیر حدیث٧٨١٩،٨/٢٣٨)
کنزالعمال میں ہے : لایستخف بحقھم الامنافق بین النفاق رواہ ابو الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہما'' ان کے حق کو ہلکا نہ سمجھے گا مگر کھلا منافق اسے ابو الشیخ نے التوبیخ میں حضرت جابر بن عبداللہ انصاری صسے روایت کیا۔(کنزالعمال بحوالہ ابی الشیخ رقم الحدیث٤٣٨١١،١٦/٣٢)
مسند امام احمد بن حنبل صمیں ہے:لیس من امتی من لم یعرف لعالمنا حقہ رواہ احمد و الحاکم والطبرانی فی الکبیر عن عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ''ان کے حق کو ہلکا نہ سمجھے گامگر کھلا منافق اسے ابو الشیخ نے التوبیخ میں حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ص سے روایت کیا۔
(مسند امام احمد بن حنبل حدیث عبادہ ابن صامت ٥/٣٢٣،چشتی)
خلاصۃ الفتاویٰ میں ہے : من ابغض عالما من غیر سبب ظاھر خیف علیہ الکفر''جو کسی عالم سے بغیر سبب ظاہری کے عداوت رکھتا ہے اس کے کفر کا اندیشہ ہے ۔ (خلاصۃ الفتاویٰ،کتاب الفاظ الکفر الفصل الثانی ٤/٣٨٨)
منح الروض میں ہے : ''الظاھر انہ یکفر'' ظاہر یہ ہے کہ وہ کافر ہو جائے گا۔(منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر فصل فی العلم والعلماء صفحہ١٧٣،چشتی)
اپنے آپ کو عالم یا مولوی کہنا
اعلٰحضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں : اپنے آپ کو بے ضرورت شرعی مولوی صاحب لکھنا بھی گناہ و مخالف حکم قرآن عظیم ہے قال اللہ تعالیٰ ھواعلم بکم اذانشاکم من الارض واذانتم اجنۃ فی بطون امھٰتکم فلاتزکواانفسکم ھواعلم بمن اتقیٰ اللہ تمہیں خوب جانتا ہے جب اوس نے تمہیں زمین سے اوٹھان دی اورجب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں چھپے تھے تو اپنی جانوں کو آپ اچھا نہ کہو خداخوب جانتا ہے جو پرہیز گار ہے اورفرماتا ہے الم ترالی الذین یزکون انفسھم بل اللہ یزکی من یشاء کیا تونے نہ دیکھا اون لوگوں کو جوآپ اپنی جان کو ستھرا بتاتے ہیں بلکہ خدا ستھرا کرتا ہے جسے چاہے ۔حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں من قال انا عالم فھوجاھل جواپنے آپ کو عالم کہے وہ جاہل ہے رواہ الطبرانی فی الاوسط عن ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنھما بسند حسن ہاں اگر کوئی شخص حقیقت میں عالم دین ہو اور لوگ اوس کے فضل سے ناواقف اور یہ اس سچی نیت سے کہ وہ آگاہ ہو کر فیض لیں ہدایت پائیں اپنا عالم ہونا ظاہر کرے تومضائقہ نہیں جیسے سیدنا یوسف علیٰ نبیناالکریم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے فرمایا تھا انی حفیظ علیم ۔ (فتاویٰ رضویہ قدیم١٠/٩٥،٩٦،چشتی)
امیر اہلسنت مولانا الیاس قادری صاحب کا شمار ملتِ اسلامیہ کے ان نامور علماء ومشائخ میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی پوری زندگی حصولِ علم وتبلیغَ علم میں صرف کردی ہے یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ وہ عظیم کا م جس کو تمام علماء کو انفرادی و اجتماعی طور پر کرنا چاہیے تھاوہ کارِحسن اللہ تعالیٰ نے صرف ایک عظیم الشان ہستی سے لے لیا اگر چہ بعض علماء ومشائخ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی وسعت کے مطابق امورِ تبلیغیہ کو سرانجام دیا ہے۔ اگرکوئی مفتی ہے تو افتاء کے ذریعے ،کوئی مدرس ہے تو اپنی بے مثل تدریس سے ،کوئی مقرر ِشعلہ بیان ہے تو اپنی تقریر کے ذریعے ،کوئی محرر ہے تو اپنی تحریر کے ذریعے دین اسلام کے مختلف مورچوں سے امور تبلیغیہ کو سنبھالے ہوئے ہے۔ لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے جس سے کسی کو راہ ِفرار نہیں کہ بہت کم علمائے کرام ایسے ہوںگے کہ جن کوجمیع ذرائع تبلیغیہ کو بروئے کار لانے کی توفیق حاصل ہوئی ہو ۔
عظیم مبلغ :۔اگر ہم امیر اہلسنت کے کارناموں پر نظر کریں تو پتہ چلتاہے کہ وہ عظیم ہستی جس نے اپنی پوری زندگی شریعتِ محمدیہ کی نشر واشاعت میں صرف کر دی اگر تقریر کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ امام البیان ہیں کیونکہ بیان ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے خود افصح الفصحاء و ابلغ البلغاأانے ارشاد فرمایا تھا:ان من البیان لسحرا بعض بیان جادو ہیں ۔ (مشکوۃ شریف صفحہ ٤٠٩)
اس سے مراد یہ ہے کہ بیان ایک ایسا منتر ہے کہ اس کے سننے والے پر جادو جیسا اثر کرکے اس کو بے راہ روی سے ہٹا کر راہِ حق کا مسافر بنانے کا کام کرتاہے ۔امیر اہلسنت نے بھی اس کلیہ ِشرعیہ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے زود اثر بیانات سے تقدیر امتِ مسلمہ بدل ڈالی آپ کے بیانات پر توجہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ خود بیان نہیں فرمارہے بلکہ ھادی امت ا آپ کی مکمل رہنمائی فرمارہے ہیںاسی لیے آج بینا نظر کو نصف النھار کی مانند دکھائی دے گاکہ جو اصلاح معاشرہ امیر اہلسنت کے بیانات کے ذریعے سے ہوئی ہے وہ اصلاح کسی اور ذریعہ تبلیغ سے نہیں ہوئی ۔
شہبازِ تحریر : اسی طرح اگر امیر اہلسنت کو ہم میدانِ تصنیف میں دیکھتے ہیں تو ایسامعلوم ہوتا ہے کہ جیسے آپ قاری کے حالات سے آگاہ ہیں اور جو خطائیںوہ سابقہ زندگی میں کر چکا اپنے انہی گناہوں کو وہ امیرِاہلسنت کی کتاب میںپڑ ھ رہا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ دام ظلہ العالی کو عوام کی دکھتی نبض پر ہاتھ رکھنے کا فن باخوبی آتاہے آپ جیسے نباضِ قوم محررین میں سے گنے چنے ہیں۔
امامِ اہلِ صَفا : جب ہم آپ کومیدانِ عمل میں دیکھتے ہیںتواپنے اسلاف علماء ومشائخ ِعظام کی یاد تازہ ہو جاتی ہے امیر اہلسنت ایک ایسے صوفی ِ باصفا ہستی ہیں جن کا عمل امتِ مسلمہ کے لیے مشعل ِ روز گار ہے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر کسی پیر کا عمل ملاحظہ کرناہو تو اس کے مریدوں میںدیکھ لو تو جان جاؤ گے کہ اس کا پیر کتنا باعمل ہے ۔تحریک ِدعوتِ اسلامی سے وابستہ اسلامی بھائیوں کو دیکھ کر ایسا معلوم ہو تا ہے کہ سنتِ مصطفی کریم اکی چلتی پھرتی تصویریں ہیں ،امیر اہلسنت کا ہم پر یہ احسان ہے کہ آپ دامت برکاتھم العالیہ نے ایسی سنتوں سے متعارف کروایا جن کو مسلمان بھول چکے تھے ۔نبی غیب داںا نے ارشاد ہے : عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من تمسک بسنتی عند فساد امتی فلہ اجر مائۃ شھید'' حضرت ابو ھریرہصنے کہا کہ رسول کریم ںنے فرمایا کہ جو شخص میری امت میں (عملی و اعتقادی) خرابی پیدا ہونے کے وقت میری سنت پر عمل کرے گا اس کو سو شہید کا ثواب ملے گا۔(مشکواۃ صفحہ ٦٨)
سب جانتے ہیں کہ یہی وہ زمانہ ہے جس کی خبر سرکارِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی یہ مادیت پرستی کا دور جس میں سنتِ کریمہ پر عمل کرنا لوگوں پر بہت گراں ہے ۔
امیر اہلسنت اپنے عمل پر ایسے مستقیم ہیں کہ فقیر چشتی کو ایک مدرسہ کے ناظم صاحب نے بتایا جن کو امیر اہلسنت کو بہت قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے ان کا کہنا ہے کہ جب امیر دعوتِ اسلامی نے اپنے مریدوں کو یہ حکم ارشاد فرمایا کہ قفلِ مدینہ (دعوتِ اسلامی کی اصطلاح میںکم بولنے کو کہتے ہیں) لگالو تو اس سے پہلے آپ نے خود تقریباً پانچ سال تک زبان کی حفاظت کی طرف توجہ دی جب دیکھا کہ اب مجھے اس پر استقامت مل گئی ہے تو آپ نے اپنے محبین کو زبان کی حفاظت کا مشورہ دیا ۔
میدانِ اردو ادب کا سپاہی : بلا مبالغہ اگر ہم یہ کہہ دیں کہ امیر اہلسنت کی نابغہ روزگار ہستی دنیائے اردو ادب کی ایک ایسی جانی پہچانی شخصیت ہیں کہ جن کے اردو ادب سے آج لاکھوں مسلمانوں کی اردو درست ہوئی ہے ۔آپ کی جتنی بھی تحاریر مارکیٹ میں آگئی ہیں آپ خود ملاحظہ فرماسکتے ہیں کہ آپ نے مشکل مقامات پر اعراب لگادیئے ہیں اور ایک ادیب جانتاہے کہ کسی اردوعبارت پر اعراب لگانا کتنا دشوارعمل ہے ۔
ادب چونکہ شعر و شاعری سے متعلق ہے لیکن سخن پرداری ایک ایسا ملکہ ہے جو ہمیں اردو زبا ن کو درست بولنے کا انداز بتاتاہے ۔اگرہم امیر اہلسنت کو شاعری کے میدان میں دیکھتے ہیں تو آپ کی شاعری میں سخنِ رضانظر آتاہے اور میدانِ اردو ادب کے شاہسوار جانتے ہوں گے کہ اعلحضرتص کی نعتیہ شاعری کتنی محتاط اور دلنواز ہے جس میں ادب بھی موجود ہے تو آداب بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ملحوظ ہے اور یہی سب کچھ امیر اہلسنت کے نظم و نثر میں دکھائی دیتا ہے ۔
عوام و خواص میں سلسلہِ مراتب
اعلٰحضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ عوام و خواص میں تراتبِ علمی بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں : اگرائمہ مجتہدین انکی شرح نہ فرماتے تو علماء کچھ نہ سمجھتے اور علماۓ کرام اقوال ِائمہ مجتہدین کی تشریح و توضیح نہ کرتے تو ہم لوگ ارشاداتِ ائمہ کے سمجھنے سے بھی عاجز رہتے اوراب اگر اہل علم عوام کے سامنے مطالب کتب کی تفصیل اور صورتِ خاصہ پر حکم کی تطبیق نہ کریں تو عام لوگ ہرگز ہرگز کتابوں سے احکام نکال لینے پر قادرنہیں ہزار جگہ غلطی کریں گے اور کچھ کا کچھ سمجھیں گے ، اس لیے یہ سلسلہ مقرر ہے کہ عوام آج کل کے اہل علم ودین کا دامن تھامیں اور وہ تصانیف علمائے ماہرین کا اور وہ مشائخ فتویٰ کا اور وہ ائمہ ھدیٰ کا اور وہ قرآن وحدیث کا ، جس شخص نے اس سلسلے کو توڑا وہ اندھاہے ، جس نے دامن ہادی ہاتھ سے چھوڑا عنقریب کسی عمیق (گہرے) کنویں میں گراچاہتاہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید ٢١/٤٦١،٤٦٢)
اعلٰحضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی اس ترتیب کو ملاحظہ کر نے کے بعد معلوم ہوا کہ عوام کو تو حکم ہے کہ علماء سے رجوع کریں اور علماء کو حکم ہے کہ وہ تصانیف ماہر علماء سے استفادہ کریں میں نے اس عبارت کو انڈر لائن کر دیا ہے تا کہ دیکھنے میں آسانی ہو سکے ۔ اور حقیقت میں یہی عالم کی تعریف ہے کہ وہ اپنی ضرورت کے مسائل کو ازخود استنباط کر سکے اوریہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ علم کے حصو ل کے موجودہ دور میں مختلف ذرائع ہیں کو ہم بالتفصیل بیان کرتے ہیں ۔
دور حاضر میں علم و آگہی حاصل کرنے کے مندرجہ ذیل ذرائع ہیں : ⬇
(1) مدرسہ و اسکول : یہ ذریعہ ِتعلیم بہت اہم ونافع ہے کیو نکہ ہمارے اکثراسلا ف بھی اسی ذریعہ سے ہی علم وفقاہت کے منارہ پر چڑھے ۔
(2) پرنٹنگ و الیکٹرانک میڈیا :
یہ ذریعہ تعلیم آج کے اس دور میں بہت رائج ہے آپ خود ملاحظہ فرمالیں کہ نت نئ کتب ، رسائل و جرائد ، ٹیلی ویژن و کمپیوٹر ، وی سیڈیز و آڈیو کیسٹس اس ذریعہ تعلیم کی زندہ مثالیں ہیں ۔
(3) افواہِ رجال : وہ حضرات جن کا واسطہ عوام و خواص سے بلاواسطہ ہوتا رہتا ہے ان کو بھی طرح طرح کی معلومات ہوتی رہتی ہیں اور اگر اس کا رابطہ علماء و فقہاء سے ہو تو علماء سے سن کر یا پوچھ کر بھی ایک علمی ذخیرہ اکھٹا ہو جاتا ہے اور اس ذریعہ تعلیم کی طرف اللہ مجدہ الکریم کا کلام ِبے عیب بھی ہماری رہنمائی کرتاہے : فَاسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ،، تو اے لوگوعلم والوںسے پوچھو اگر تمھیں علم نہیں۔(سورہ النحل ٤٣)
اعلٰحضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ سے کسی نے سوال کیا :
عرض : کتب بینی ہی سے علم حاصل ہوتاہے ؟
ارشاد : یہی کافی نہیں بلکہ علم افواہ رجال سے بھی حاصل ہوتاہے ۔ (ملفوظات اعلٰحضرت صفحہ ٢٣)
اعلٰحضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی بیان کردہ توضیح سے معلوم ہو گیا کہ علم افواہِ رجال یعنی لوگوں سے سن کر معلومات کا ذخیرہ اپنے ذھن نشیں کر لینے سے بھی حاصل ہوتا ہے ۔
(4) خارجی مطالعہ : ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ایک مصروف شخص اپنے وقت سے فارغ وقت نکال کر کچھ کتب بینی کر لے ،اس طر ح بھی آہستہ آہستہ ایک کثیر علمی ذخیرہ اکٹھا ہو سکتا ہے ، اسی طرح ایک طالب ِ علمِ دین اپنے اسباق کے علاوہ دوسری متعلقہ کتب کے مطالعہ سے دوسرے طلباء سے زیادہ ذہین و فہیم ہو جاتا ہے ۔
امیر اہلسنت مولانا الیاس قادری صاحب کا ذریعہ تعلیم : ⬇
مولانا الیاس قادری صاحب نے جہاں اسکول کی تعلیم (جو کہ آپ نے بھارت سے حاصل کی آپ پاکستان آنے سے پہلے بھارت میں مقیم تھے) حاصل کی تو وہاں علمِ دین کو بھی اپنی مشعل راہ بنایا ۔ اس سلسلے میں آپ دامت برکاتہم العالیہ کو بچپن ہی سے علم و علماء سے گہرا شغف رہا آپ کا یہ معمول رہتا کہ دیگر کاموں کے علاوہ آپ علماء کی مجالس میں رہتے اور مسائل شرعیہ میں استفسار فرماتے اس کے علاوہ علماء کرام کی کتب بینی اور علمی مناظرے آپ کا ایک مخصوص ذوق تھا ۔ آپ نے باقاعدہ طور پر تحصیل درسیات کےلیے دارالعلوم امجدیہ کراچی سے رابطہ استوار رکھا (فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی اس کا چشم دید گواہ کہ قبلہ مفتی وقار احمد علیہ الرحمہ سے اکھٹے فیضیاب ہوتے رہے الحَمْدُ ِلله) ۔ کراچی کی یہ عظیم درس گاہ ہی نے آپ کو نکھارا اور آپ کی علمی تشنگی کو دور کیا ۔
مولانا الیاس قادری صاحب کے اُستادِ محترم کا اپنے شاگرد کے بارے میں تاثر : ⬇
مولانا الیاس قادری صاحب کے علمی مقام و ذوق کو بیان کرتے ہوئے ایک ایسی شخصیت کا ہم حوالہ پیش کرتے ہیں جن کے پاس مولانا الیاس قادری صاحب اپنی زندگی کا ایک حصہ 22 سال حصول علم کےلیے آتے رہے ۔ ایک استفتاء کے جواب میں جو کچھ بیان ہوا ہم من وعن بیان کر رہے ہیں ۔
مولانا الیاس قادری صاحب کی سنیت کا بیان '' کے عنوان سے وقار الفتاویٰ میں اُستاذی المکرم مفتی وقارالدین علیہ الرحمہ کا ایک تاریخی فتویٰ موجود ہے : ⬇
الاستفتاء : محترم جناب مفتی وقار الدین صاحب اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ ۔ گزارش یہ ہے کہ کاٹھیا واڑ (انڈیا ) کے کچھ دیہاتیوں میں مولانا محمد الیاس قادری صاحب کے بارے میں یہ مشہور کیا جا رہا ہے کہ یہ دیوبندیوں کے ایجنٹ ہیں اور آگے چل کر کھل جائیں گے ۔ برائے مہر بانی آپ ان کے مسلک کی پوزیشن کو واضح فرمائیں ۔ عین نوازش ہوگی ۔ سائل : محمد اقبال ۔
الجواب : دعوت اسلامی کے بانی مولوی محمدالیاس قادری صاحب کو میں تقریباً 22 سال سے جانتا ہوں وہ برابر میرے پاس آتے جاتے رہتے تھے اور مسائل پوچھ پوچھ کر ہی وہ مولوی بنے اورا ن کو یہ جماعت قائم کرنے کےلیے بھی ہم لوگوں نے تیار کیا تھا اور میں نے ان کو خلافت بھی دی وہ میرے خلیفہ بھی ہیں ان کے سنی ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے پکے سنی ہیں ۔ اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کے شیدائی ہیں ۔ ان کے متعلق دیوبندیت کا شبہ کرنا سخت ناجائز ہے اور یہ وہی گمان ہے جس کے متعلق قرآن کریم میں فرمایا گیا : اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ۔ یعنی بے شک کوئی گمان گناہ ہو جاتا ہے ۔ (سورہ الحجرات٤٩آیت ١٢)
لہٰذا مسلمانوں کو ایسے شبہات نہیں کرنے چاہئیں اور جو لوگ اس قسم کے شبہات ظاہر کر کے دعوتِ اسلامی کو بدنام کر رہے ہیں انہیں خدا سے ڈرنا چاہیے ۔وقار الدین غفر لہ ۔ (وقار الفتاویٰ جلد ٢ صفحہ ٢٠٢)
اس فتویٰ کی رو سے نہ صرف یہ پتہ چلتا ہے کہ مولانا محمد الیاس عطار قادری صاحب کی حصولِ علم کےلیے کتنی کاوشیں رہی بلکہ اس تحریر کو ملاحظہ فرمانے کے بعد قاری کو یہ احساس بھی ہوگا کہ جن ذی قدس اسلاف کے متعلق ہم کتب میں پڑھتے تھے یا پھر علماء و خطباء کی زبانی سنتے تھے کہ ہمارے اسلاف حصولِ علم کی تگ و دو میں کوچہ کوچہ ، نگر نگر ، ڈگر ڈگر ، اور ملک بہ ملک سفر کرتے رہے اور بعض اسلاف کے بارے تو یہاں تک سنا کہ چالیس چالیس سال تک علم کے حصول کی خاطر گھر سے دور رہے وہی ایک جھلک مولانا الیاس قادری صاحب میں بھی نظر آتی ہے اور یہ فتویٰ آپ کے علمی شغف کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment