Saturday, 11 June 2022

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نکاح اور رخصتی کے وقت عمر کی تحقیق

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نکاح اور رخصتی کے وقت عمر کی تحقیق
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : منکرین حدیث نے اس بات کو بہت اچھالا ہے کہ حدیث شریف میں حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  کی شادی کے وقت 9 سال عمر بتائی گئی ہے جو عقل و نقل کی رو سے غلط ہے ۔ اس سے غیر مسلموں بلکہ پڑھے لکھے مسلمانوں کو بھی انکار حدیث کا بہانہ مل گیا ہے ۔ فقیر کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک شادی کے وقت کم سے کم 17 یا 19 سال تھی ۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  کی بڑی بہن سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا  طویل العمر صحابیات میں سے ہیں ۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  کی والدہ محترمہ ہیں ۔ بڑی خدا رسیدہ عبادت گذار اور بہادر خاتون ان کی عمر تمام مورخین نے سو سال لکھی ہے ۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  ان سے دس سال چھوٹی ہیں ۔ سیدہ اسماء حضرت عبداللہ بن زبیر کی شہادت کے پانچ یا دس دن بعد فوت ہوئیں ۔ سن وفات 73ھ ہے ۔ اس حساب سے سیدہ اسماء کی عمر ہجرت کے وقت 27 سال ہوئی اور سیدہ عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  ان سے دس سال چھوٹی ہیں تو آپ کی عمر ہجرت کے وقت 17 سال ہوئی ۔ اگر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  کی رخصتی 2ھ کو مانی جائے تو رخصتی کے وقت آپ کی عمر مبارک 19 سال ہوئی۔ حوالہ جات ملاحظہ ہوں ۔

اسلمت اسماء قديما وهم بمکة فی اول الاسلام... وهی آخر المهاجرين والمهاجرات موتا. وکانت هی اکبر من اختها عائشة بعشر سنين.. بلغت من العمر ماته سنة ۔
ترجمہ : اسماء مکہ میں اوائل اسلام میں مسلمان ہوئیں۔ مہاجرین مردوں عورتوں میں سب سے آخر فوت ہونے والی ہیں۔ اپنی بہن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  سے دس سال بڑی تھیں ۔ (ابن کثير، البدايه والنهايه 8 / 346 طبع بيروت)

اسلمت قديما بعد اسلام سبعة عشر انسانا... ماتت بمکة بعد قتله بعشره ايام وقيل بعشرين يوماً وذلک فی جمادی الاولیٰ سنة ثلاث وسبعين ۔
ترجمہ : مکہ معظمہ میں سترہ آدمیوں کے بعد ابتدائی دور میں مسلمان ہوئیں۔۔۔ اور مکہ مکرمہ میں اپنے بیٹے (عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ) کی شہادت کے دس یا بیس دن بعد فوت ہوئیں اور یہ واقع ماہ جمادی الاولیٰ سن 73ھ کا ہے ۔ (علامه ابن حجر عسقلانی، تهذيب التهذيب 12 ص 426 طبع لاهور، الامام ابوجعفر محمد بن حرير طبری، تاريخ الامم والملوک ج 5 ص 31 طبع بيروت، حافظ ابونعيم احمد بن عبدالله الاصبهانی م 430ه، حلية الولياء وطبقات الاصفياء 2 ص 56 طبع بيروت)

اسلمت قديما بمکة وبايعت رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم.. ماتت اسماء بنت ابی بکرالصديق بعد قتل ابنها عبدالله بن الزبير وکان قتله يوم الثلثاء لسبع عشرة ليلة خلت من جمادی الاولیٰ سنة ثلاث وسبعين ۔
ترجمہ : سیدہ اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  مکہ معظمہ میں قدیم الاسلام ہیں ۔ آپ نے رسول اللہ A کی بیعت کی ۔ اپنے بیٹے عبداللہ بن زبیر کی شہادت کے چند دن بعد فوت ہوئیں۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  کی شہادت بروز منگل 12 جمادی الاولیٰ 73ھ کو ہوئی ہے ۔ (محمد ابن سود الکاتب الواقدی 168ه م 230ه الطبقات الکبریٰ ج 8 / 255 طبع بيروت)

کانت اسن من عائشة وهی اختها من ابيها.. ولدت قبل التاريخ لسبع وعشرين سنة ۔
ترجمہ : سیدہ اسمائ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  سے زیادہ عمر کی تھیں۔ باپ کی طرف سے سگی بہن تھیں۔ ہجرت سے 27 سال قبل پیدا ہوئیں ۔ (امام ابن الجوزی، اسدالغايه فی معرفة الصحابة ج 5 ص 392 طبع رياض)

اسلمت قديما بمکة قال ابن اسحق بعد سبعة عشر نفسا .. بلغت اسماء مائة سنة ولدت قبل الهجرة لسبع وعشرين سنة ۔
ترجمہ : سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا  مکہ مکرمہ میں ابتدائً مسلمان ہوئیں ۔ ابن اسحاق نے کہا سترہ انسانوں کے بعد سو سال عمر پائی ہجرت سے 27 سال پہلے پیدا ہوئیں ۔ (شهاب الدين ابوالفضل احمد بن علی بن حجر عسقلانی، الاصابة فی تميز الصحابة 4 ص 230 م 773ه طبع بيروت، سيرة ابن هشام م 1 ص 271 طبع بيروت، علامه ابن الاثير، الکامل فی التاريخ 4، ص 358 طبع بيروت،چشتی،علامه ابوعمر يوسف ابن عبدالله بن محمد بن عبدالقرطبی 363ه، الاستيعاب فی اسماء الاصحاب علی هامش الاصابة 463ه ج 4 ص 232 طبع بيروت، حافظ شمس الدين محمد بن احمد الذهبی، تاريخ الاسلام ودفيات المشاهير والاسلام ج 5 ص 30 طبع بيروت، الروض الانف شرح سيرة ابن هشام ج 1 ص 166 طبع ملتان)

حضرت عائشہ کی عمر اور حضرت اسماء کی عمر کی نسبت
بقول عبدالرحمن ابن ابی الذناد۔ حضرت اسماء، حضرت عائشہ سے دس سال بڑی تھیں ۔ (سیار العلم النبالہ، الذہابی ، جلد 2 ، صفحہ 289 عربی ۔ موسستہ الرسالہ، بیروت ، 1992،چشتی)

بقول ابن کثیر: حضرت اسماء اپنے بہن حضرت عائشہ سے 10 سال بڑی تھیں۔ (البدایہ والنہایہ، ابن کثیر، جلد 8، ص371، دار الفکر العربی الجزاہ، 1933)

بحوالہ ابن کثیر : حضرت اسماء نے اپنے بیٹے کو 73ھ میں مرتے ہوئے دیکھا۔ اور پھر 5 دن، یا 10 دن یا 20 دن یا' کچھ دن' یا 100 دن بعد( دنوں کی تعداد مورخ یا محدث پر منحصر ہے) ان کی وفات 100 برس کی عمر میں ہوئی ۔ (البدیاہ والنہایہ، ابن کثیر، جلد 8، ص 372، دار الفکر العربی، الجزاہ، 1933)

بحوالہ ابن حجار الاثقلینی : حضرت اسماء - 100 سو برس زندہ رہیں اور 73ھ یا 74 ھجری میں وفات پائی ۔ (تقریب التہذیب، ابن حجار الاثقلینی، ص 654، عربی۔ باب فی النساء، الحرف الیف، لکھنئو،چشتی)

تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت اسماء کی وفات - سو برس کی عمر میں 73ھ یا 74 ھ میں ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ھجرت کے وقت ، 27 یا 28 برس کی تھیں ۔ جس کے حساب سے حضرت عائشہ کی عمر ہجرت کے وقت 17 یا 18 سال اور رسول اللہ کے گھر 19 یا 20 سال کی عمر سے رہنا شروع کیا ۔

حجار ، ابن کثیر ، اور عبدالرحمن کی درج روایات کے مطابق ، حساب کرنے سے ، حضرت عائشہ کی عمر ، شادی کے وقت 19 یا 20 سال بنتی ہے ۔

یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں سن ہجری کا آغاز نہیں ہوا اور سن عیسوی یا کسی اور سن کا عرب معاشرے میں تعارف یا چلن نہ تھا۔

اہل عرب کسی مشہور تاریخی واقعہ سے سالوں کا حساب کرتے تھے مثلاً واقعہ اصحاب فیل، سے اتنا عرصہ پہلے یا بعد وغیرہ۔ باقاعدہ سن ہجری کا آغاز حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  نے اپنے دور خلافت میں کیا اور اس کا آغاز سال ہجرت سے کیا ۔

پہلی سن ہجری ، دوسری سن ہجری، تیسری سن ہجری میں کم سے کم امکانی مدت ۔ پہلی سن ہجری کا آخری دن یعنی 30 ذی الحجہ لیں اور دوسری سن ہجری کا پہلا دن یعنی یکم محرم ، دو سنوں میں وقفہ ایک دن ۔ دوسرے رخ سے دیکھیں پہلی سن ہجری کا پہلا دن یعنی یکم محرم، دوسری سن ہجری کا آخری دن یعنی 30 ذی الحجہ، کل مدت دو سال مکمل۔ دونوں صورتوں میں سن بدل گئے مگر ایک طرف ایک دن ملا اور دوسری طرف پورے دو سال ۔ جب تک تاریخ اور مہینہ متعین نہ ہو یہ فرق باقی رہ کر ابہام پیدا کرتا رہے گا ۔

آج کل پرنٹ میڈ یا کتنی ترقی کر چکا ہے مگر کتابوں میں ، اخبارات میں ، حد تو یہ کہ قرآن کریم کی طباعت و کتابت میں غلطی ہوجاتی ہے ، پہلا دور تو ہاتھوں سے کتابت کا دور تھا ، ممکن ہے ’’تسع عشر‘‘ انیس سال عمر مبارک ہو ، مگر کتابت کی غلطی سے تسع یا تسعاً رہ گیا اور عشر کا لفظ کتابت میں ساقط ہوگیا ہو ، تسع عشر انیس سال کی جگہ تسعاً یا تسع یعنی نو سال باقی رہ گیا اور آنے والوں نے نقل درنقل میں اسی کو اختیار کرلیا کہ نقل کرنے والے اعلیٰ درجہ کے ایماندار ، پرہیزگار ، علوم وفنون کے ماہر ، صحیح و سقیم میں امتیاز کرنے والے ، نہایت محتاط لوگ تھے ۔ وجہ سقوط کچھ بھی ہونا ممکن نہیں ۔ حقائق بہر حال حقائق ہوتے ہیں ، ان کے چہرے پر گردو غبار تو پڑ سکتا ہے مگر ہمیشہ کےلیے اسے مسخ نہیں کیا جا سکتا ۔ احادیث کی تمام کتب میں ایسے تسامحات کا ازالہ کیا جانا چاہیے تاکہ بد اندیش کو زبان طعن دراز کرنے کی ہمت نہ رہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مروجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام

مروجہ نعت خوانی کے آداب و شرعی احکام محترم قارئین کرام : میوزک یا مزامیر کے ساتھ نعت شریف کی اجازت نہیں کہ میوزک بجانا ناجائز ہے ۔ یہی حکم ا...