Friday 25 October 2019

ایک ماہ بعد ملاقات ہو گی ان شاء اللہ

0 comments
فقیر ایک ماہ کےلیئے سفر میں جا رہا ہے احباب سے دعاؤں کی درخواست ہے زندگی رہی تو ایک ماہ بعد ملاقات ہو گی ان شاء اللہ ۔

میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حکیم الامت دیوبند کی نظر میں

0 comments
میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حکیم الامت دیوبند کی نظر میں

حکیم الامت دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عید میلاد لکھتے ہیں اور لکھتے ہیں ہم اسے باعث برکت سمجھتے ہیں اور جس مکان میں عید میلاد منائی جائے اس میں برکت ہوتی ہے ۔ (ارشاد العباد فی عید میلاد صفحہ نمبر 4)

حکیم الامت دیوبند جناب اشرف علی تھانوی کہتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وجود سب سے بڑی نعمت ہے یومِ ولادت پیر اور تاریخ ولادت بارہ (12) ربیع الاوّل باعث برکت ہیں اس دن و یوم میلاد سے برکتیں حاصل ہوتی ہیں ۔ (ارشاد العباد فی عید میلاد صفحہ نمبر 5)

حکیم الامت دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب کہتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وجود سب سے بڑی نعمت ہے اور تمام نعمتیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صدقے ملی ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اصل ہیں تمام نعمتوں کی ۔ (اِرشادُالعِبَاد فِی عِیدِ المیلاد صفحہ نمبر 5 ، 6)

حکیم الامت دیوبند لکھتے ہیں : ذکر ولادت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دیگر اذکار خیر کی طرح ثواب اور افضل ہے ۔ (امدادُالفتاویٰ جلد نمبر 11 صفحہ نمبر 351 مطبوعہ انڈیا،چشتی)

مکتبہ فکر دیوبند کے دوستو آؤ منکرات کے خلاف مل کر کام کریں آواز اٹھائیں مگر خدا را ہماری نہ مانو اپنے حکیم الامت صاحب کی مان لو اور وہابیت کے راستے پر چل کر میلاد جیسے ثواب کے کام کا مذاق مت اڑاؤ پڑھو تھانوی صاحب کیا لکھ رہے ہیں ۔ اب آپ کی مرضی ہے اس ثواب کے کام کا مذاق اڑاؤ یا منا کر ثواب کماؤ ۔

حکیم الامت دیوبند تھانوی صاحب فرماتے ہیں : میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلّم مستحب عمل ہے اس شامل منکرات کو ترک کرنا چاہیئے نہ کہ مستحب عمل کو ۔ (مجالس حکیم الامت صفحہ نمبر 160 مطبوعہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی )

اے اہلیان دیوبند آپ کے حکیم الامت علامہ اشرف علی تھانوی صاحب میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلّم کو مستحب عمل قرار دے رہے ہیں ذرا بتایئے مستحب عمل کرنے پر ثواب ملتا ہے یا گناہ ؟ سنیئے ہم بھی مستحب سمجھ کر میلاد مناتے ہیں فرض یا واجب نہیں ۔

رہی بات منکرات کی تو ہم سخت مخالف ہیں اور رد کرتے ہیں ان غیر شرعی افعال کا جو کچھ جہلا شامل کر لیتے ہیں آیئے منکرات کا رد کریں مستحب عمل میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلّم کو دھوم دھام سے منائیں ۔

حکیم الامت دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں : میلاد ہر جگہ تو بدعت ہے مگر کالج میں منانا نہ صرف جائز ہے بلکہ واجب ہے ۔ (ملفوظات حکیم الامت انفاس عیسیٰ جلد نمبر 21 حصّہ اوّل صفحہ نمبر 326،چشتی)
اب دیوبندی حضرات سے سوال ھے کہ میلاد ہر جگہ بدعت کیوں ہے ؟ اور کالج میں جائز بلکہ واجب کیوں ھے ؟ برائے کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں اس تضاد بیانی کا جواب دیا جائے اوٹ پٹانگ باتوں سے پرھیز فرمائیں موضوع اور پوسٹ کے مطابق جواب عنایت فرمائیں جاہلانہ کمنٹ کرنے والوں سے ایڈوانس معذرت ایسے لوگ پوسٹ سے دور رہیں ۔

بانی دیوبند سے سوال کیا گیا مولانا عبد السمیع رامپوری میلاد مناتے ہیں آپ کیوں نہیں مناتے کہا انہیں حب رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا بڑا درجہ حاصل ہے دعا کرو مجھے بھی حاصل ہو جائے۔ ( مجالس حکیم الامت صفحہ 124)

معلوم ہوا میلاد محبت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم والے ہی مناتے ہیں آؤ میلاد منائیں محبت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں ڈوب کر ۔

حکیم الامت مکتبہ فکر دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں : نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا ذکر پاک طاعون سے چھٹکارے کا سبب ہے محفل میلاد ہر روز مناؤ سرکار صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا ذکر پاک کرو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے ذکر کی کتاب پڑھنے سے مصائب دور ہوتے ہیں ۔ (خطبات میلاد رسالہ النور صفحہ نمبر 112،113 ،)

یہی ہم کہتے ہیں مٹھائی بانٹنا یا لنگر کا اہتمام شرط میلاد نہیں ہے اور نہ اہلسنت یہ کہتے ہیں ہاں اگر کوئی اہتمام کرے تو ناجائز بھی نہیں ہے علمائے دیوبند و اہلسنت دونوں سے ایصال ثواب ثابت ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)







اس مسلمان کا کیا حال ہوگا جو میلاد پاک میں مال خرچ کرتا ہے

0 comments
اس مسلمان کا کیا حال ہوگا جو میلاد پاک میں مال خرچ کرتا ہے

محترم قارئینِ کرام امامُ الوہابیہ و دیابنہ علامہ حافظ ابن قیم جوزی لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم جب پیدا ہوئے ثوبیہ نے ابو لہب کو خوشخبری دی اس نے اسے اس خوشی میں آزاد کردیا جب مرگیا تو اسے مرنے کے بعد عذاب میں کمی ہوتی تھی اس کی انگلی سے مشروب جاری ہوتا جسے وہ پیتا ۔ (تحفۃُالودود صفحہ نمبر 33)

جب کافر کو فائدہ ہوتا ہے تو اہل ایمان کا کیا حال ہوگا ۔ لگاؤ ابن قیم جوزی پر فتویٰ کہ یہ بھی ابو لہب کی نسل تھا شرم تم کو مگر نہیں آتی ۔

کب تک انکار کروگے نادانو جب ایک کافر کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی ولادت کی خوشی منانے پر عذاب میں کمی کر دی جاتی ہے یہ سب تعظیم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم میں ہے تو جب مسلمان اپنے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی ولادت کی خوشی منائے گا اسے کتنا اجر و فائدہ ملے گا امام عسقلانی ، شیخ عبد الحق محدث دہلوی اور امام جزری علیہم الرّحمہ جیسے جلیل القدر محدثین فرماتے ہیں اللہ کی قسم جس کے قبضے میں ہمارے جان ہے اللہ مسلمان کو اجر عطاء فرمائے گا ۔ یہ تم لوگوں کی بد نصیبی و بغض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی زندہ مثال ہے کبھی احادیث کو ضعیف کہہ کر انکار ، کبھی کافر کے طعنے دے کر انکار ظالمو یہ خواب صحابی رسول نے بیان کیا ہے اور کبھی سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کرنے کےلیئے خود حدیث و روایت کا انکار کردیتے صحیح بخاری شریف اور تمہارے بڑوں سے دوسرا حوالہ یعنی وہابی علماء سے پیش خدمت ہے اللہ تعالیٰ ہدایت عطاء فرمائے آمین ۔

شیخ محقق شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ابولہب کی باندیوں میں سے ثویبہ لونڈی نے ابولہب کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادت کی خوشخبری دی جسے سن کر ابولہب نے اپنی باندی ثویبہ کو آزاد کردیا۔ ابولہب کے مرنے کے بعد اس کے کسی ساتھی نے اسے خواب میں دیکھ کر اس کاحال پوچھا تو جواب دیا جہنم میں پڑا ہوں البتہ اتنا ضرور ہے کہ ہر پیر کی رات کو عذاب میں تخفیف ہوجاتی ہے اور اپنی ان دو انگلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ان انگلیوں سے میں نے اپنی لونڈی ثویبہ کو اس لئے آزاد کیا تھا کہ اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادت کی خوشخبری دی تھی ۔ اس صلہ میں ان دونوں انگلیوں سے کچھ پانی پی لیتاہوں ۔ (مومن کے ماہ و سال صفحہ 84-85،چشتی)
میلاد شریف کرنے والوں کے لئے اس میں سند ہے جوشب میلاد خوشیاں مناتے ہیں اور مال خرچ کرتے ہیں ۔ یعنی ابولہب کافر تھا اور قرآن پاک اس کی مذمت میں نازل ہوا ۔ جب اسے میلاد کی خوشی منانے اور اپنی لونڈی کے دودھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے لئے خرچ کرنے کی وجہ سے جزا دی گئی تو اس مسلمان کا کیا حال ہوگا جو محبت اور خوشی سے بھرپور ہے اور میلاد پاک میں مال خرچ کرتا ہے ۔ (مدارج النبوۃ مترجم اردو جلد دوم صفحہ نمبر 35)

اِمام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ روایت کی تشریح جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے ایک کافر چچا ابولہب کا ذکر ہے کہ اُسے بھی ﷲ تعالیٰ نے آمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی خوشی منانے پر اَجر سے محروم نہیں رکھا، حالاں کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالفین میں سرِفہرست تھا ۔ یہ ایسا بدبخت شخص تھا کہ ﷲ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اس کی مذمت میں پوری سورت نازل فرمائی۔ اِرشاد فرمایا : تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ ٭ مَا أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ ٭ سَيَصْلَى نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ ۔
ترجمہ : ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ ہو جائے (اُس نے ہمارے حبیب پر ہاتھ اُٹھانے کی کوشش کی ہے) اُسے اُس کے (موروثی) مال نے کچھ فائدہ نہ پہنچایا اور نہ ہی اُس کی کمائی نے عنقریب وہ شعلوں والی آگ میں جا پڑے گا ۔
(سورہ لہب، 111 : 1 - 3​)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادتِ مبارکہ کے حوالہ سے مشہور واقعہ کتبِ اَحادیث میں مذکور ہے کہ ابو لہب نے اپنی ایک لونڈی ثویبہ کو وقتِ ولادت حضرت سیدہ آمنہ رضی ﷲ عنہا کی خدمت کے لیے بھیجا۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی تو ثویبہ دوڑتے ہوئے ابولہب کے پاس پہنچی اور اسے بھتیجا پیدا ہونے کی خوش خبری سنائی۔ بھتیجے کی پیدائش کی خبر سن کر ابولہب اتنا خوش ہوا کہ اُس نے وہیں اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہا : ثویبہ! جا میں نے تجھے نومولود (صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم) کی پیدائش کی خوشی میں آزاد کیا ۔

ابولہب جب حالت کفر پر ہی مر گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا کہ مرنے کے بعد تجھ پر کیا گزر رہی ہے ؟
اس نے جواب دیا کہ میں دن رات سخت عذاب میں جلتا ہوں لیکن جب پیر کا دن آتا ہے تو میرے عذاب میں کمی کر دی جاتی ہے اور میری انگلیوں سے پانی جاری ہو جاتا ہے جسے پی کر مجھے سکون ملتا ہے ۔ اِس تخفیف کا باعث یہ ہے کہ میں نے پیر کے دن اپنے بھتیجے (محمد صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم) کی ولادت کی خوش خبری سن کر اپنی خادمہ ثویبہ کو ان انگلیوں کا اشارہ کرتے ہوئے آزاد کر دیا تھا ۔
یہ واقعہ حضرت زینب بنت اَبی سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے جسے محدثین علیہم الرّحمہ کی کثیر تعدادنے واقعہ میلاد کے تناظر میں نقل کیا ہے ۔ اِمام بخاری رحمۃ اللہ علیہ (194۔ 256ھ) کی الصحیح میں مروی حدیث کے الفاظ یہ ہیں فلما مات أبولهب أريه بعض أهله بشرّ حيبة، قال له : ما ذا لقيت؟ قال أبولهب : لم ألق بعدکم غير أني سقيت في هذه بعتاقتي ثويبة ۔
ترجمہ : جب ابولہب مر گیا تو اس کے اہل خانہ میں سے کسی کو اُسے خواب میں دکھایا گیا ۔ وہ برے حال میں تھا ۔ (دیکھنے والے نے) اس سے پوچھا : کیسے ہو ؟
ابولہب نے کہا : میں بہت سخت عذاب میں ہوں ، اس سے کبھی چھٹکارا نہیں ملتا ۔ ہاں مجھے (اس عمل کی جزا کے طور پر) اس (انگلی) سے قدرے سیراب کر دیا جاتا ہے جس سے میں نے (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کی خوشی میں) ثویبہ کو آزاد کیا تھا ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب وأمهاتکم اللاتي أرضعنکم، 5 : 1961، رقم : 4813)(عبد الرزاق، المصنف، 7 : 478، رقم : 13955)(عبد الرزاق، المصنف، 9 : 26، رقم : 16350)(مروزي، السنة : 82، رقم : 290)(بيهقي، السنن الکبري، 7 : 162، رقم : 13701)(بيهقي، شعب الإيمان، 1 : 261، رقم : 281)(بيهقي، دلائل النبوة و معرفة أحوال صاحب الشريعة، 1 : 149) (ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 108،چشتی)(ابن ابی دنیا نے ’’کتاب المنامات (ص : 154، رقم : 263)‘‘ میں اسے حسن اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے )(بغوي، شرح السنة، 9 : 76، رقم : 2282)(ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 62 12)(سهيلي، الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام، 3 : 98، 99 13)(زيلعي، نصب الراية لأحاديث الهداية، 3 : 168 14)(ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 67 : 171، 172 15)(ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 229، 230 16)(عسقلاني، فتح الباري، 9 : 145 17) (عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 20 : 95 18)(شيباني، حدائق الأنوار، 1 : 134 19. عامري، شرح بهجة المحافل، 1 : 41 20)(انور شاه کشميري، فيض الباري علي صحيح البخاري، 4 :278)

یہ روایت اگرچہ مُرسَل ہے لیکن مقبول ہے ، اِس لیے کہ اِمام بخاری رحمۃ اللہ علیہ (194۔ 256ھ) نے اسے اپنی ’’الصحیح‘‘ میں نقل کیا ہے اور اَجل علماء و حفاظِ حدیث علیہم الرّحمہ نے اِس پر اِعتماد کرتے ہوئے اِس سے اِستشہاد و اِستناد کیا ہے ۔ ثانیاً یہ روایت فضائل و مناقب کے باب میں ہے نہ کہ حلال و حرام میں ؛ اور مناقب و اَحکام کے مابین حدیث کے اِستدلال میں فرق کو علماء خوب جانتے ہیں ۔

(1) اُصولِ حدیث میں مرسل اُس حدیث کو کہا جاتا ہے جس کی سند کا آخری حصہ یعنی تابعی سے اوپر کا کوئی راوی ساقط ہو ۔

(2) اِس کا حکم یہ ہے کہ جب اَجل تابعی تک یہ روایت صحیح ثابت ہوجائے تو قابلِ حجت ہوگی ۔

(3) تین فقہی مذاہب کے بانیان . اِمام اَعظم ابو حنیفہ (80۔ 150ھ)، اِمام مالک (93۔ 179ھ) اور اِمام اَحمد بن حنبل (164۔ 241ھ) علیہم الرّحمہ ۔ اور محدّثین کی کثیر جماعت کے نزدیک مرسل روایت قابلِ حجت ہوتی ہے بشرطیکہ ارسال کرنے والا ثقہ ہو اور وہ ثقہ ہی سے ارسال کرتا ہو ۔

(4) ان کی دلیل یہ ہے کہ ثقہ تابعی کے متعلق یقینی ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے متعلق ’’قال رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کذا او فعل کذا او فعل بحضرتہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے یہ فرمایا ، یا یہ کیا یا آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے سامنے یہ کیا گیا) ‘‘ تب ہی کہے گا جب وہ ثقہ راوی سے سنے گا ۔
(ذهبي، الموقظة في علم مصطلح الحديث : 38)(ذهبي، الموقظة في علم مصطلح الحديث : 39)(سخاوي، کتاب الغاية في شرح الهداية في علم الرواية، 1 : 273)(ابن کثير، الباعث الحثيث شرح اختصار علوم الحديث : 48)(ابن حجر عسقلاني، نزهة النظر بشرح نخبة الفکر في مصطلح حديث أهل الأثر : 36، 37)(سخاوي، کتاب الغاية في شرح الهداية في علم الرواية، 1 : 272 2)(ابن کثير، الباعث الحثيث شرح اختصار علوم الحديث : 48 3)(عبد الحق محدث دهلوي، مقدمة في أصول الحديث : 42، 43)

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (773۔ 852ھ) ’’نزھۃ النظر بشرح نخبۃ الفکر فی مصطلح حدیث اھل الاثر صفحہ نمبر 37 میں لکھتے ہیں : اِمام اَحمد کے ایک قول اور مالکی و حنفی فقہاء کے مطابق حدیثِ مرسل مطلقاً مقبول ہوتی ہے، اور امام شافعی یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی اور سند (خواہ وہ سند متصل ہو یا مرسل) سے مرسل روایت کی تائید ہو جائے تو وہ مقبول ہے ورنہ نہیں ۔

ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ (م 1014ھ) شرح شرح نخبۃ الفکر میں لکھتے ہیں کہ ابن جریر نے یہ تصریح کی ہے کہ حدیث مرسل قبول کرنے پر تمام تابعین رضی اللہ عنہم کا اِجماع ہے اور کسی تابعی سے اس کا انکار منقول نہیں ۔ اور نہ اس کے بعد دو سو (200) سال تک اَئمہ میں سے کسی نے اس کا انکار کیا اور یہی وہ قرونِ فاضلہ ہیں جن کے خیر پر برقرار رہنے کی رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے شہادت دی ۔

ذیل میں ہم اِس روایت کے بارے میں چند ائمہ کرام کے ملفوظات نقل کریں گے ، جنہوں نے اِس واقعہ سے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا اِستشہاد و اِستناد کیا ہے :

حافظ شمس الدین محمد بن عبد ﷲ جزری (م 660ھ) اپنی تصنیف ’’عرف التعریف بالمولد الشریف‘‘ میں لکھتے ہیں : فإذا کان أبولهب الکافر الذي نزل القران بذمه جوزيَ في النار بفرحه ليلة مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم به، فما حال المسلم الموحد من أمة النبي صلي الله عليه وآله وسلم يسر بمولده، وبذل ما تصل إليه قدرته في محبته صلي الله عليه وآله وسلم ؟ لعمري إنما يکون جزاؤه من ﷲ الکريم أن يدخله بفضله جنات النعيم ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں اُس ابولہب کے عذاب میں بھی تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت میں قرآن حکیم میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے ۔ تو اُمتِ محمدیہ کے اُس مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی محبت و عشق میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم ! میرے نزدیک ﷲ تعالیٰ ایسے مسلمان کو اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی خوشی منانے کے طفیل اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائے گا ۔ (سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206،چشتی)(سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 65، 66)(قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 147) (زرقاني ، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 260، 261)(يوسف صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 366، 367 6)(نبهاني، حجة ﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 237، 238)

حافظ شمس الدین محمد بن ناصر الدین دمشقی (777۔ 842ھ) ’’مورد الصادی فی مولد الہادی‘‘ میں فرماتے ہیں : قد صح أن أبالهب يخفّف عنه عذاب النار في مثل يوم الإثنين لإعتاقه ثويبة سرورًا بميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم ۔
ترجمہ : یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کرنے کے صلہ میں ہر پیر کے روز ابولہب کے عذاب میں کمی کی جاتی ہے ۔

اِس کے بعد محمد بن ناصر الدین دمشقی نے درج ذیل اَشعار پڑھے :

إذا کان هذا کافر جاء ذمه
وتبت يداه في الجحيم مخلَّدا

أتي أنه في يوم الاثنين دائما
يخفّف عنه للسّرور بأحمدا

فما الظن بالعبد الذي طولُ عمره
بأحمد مسروراً ومات موحدا

ترجمہ : جب ابولہب جیسے کافر کے لیے۔ جس کی مذمت قرآن حکیم میں کی گئی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں اُس کے ہاتھ ٹوٹتے رہیں گے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی منانے کی وجہ سے ہر سوموار کو اُس کے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔ تو کتنا خوش نصیب ہوگا وہ مسلمان جس کی ساری زندگی عبادتِ الٰہی اور میلاد کی خوشیوں میں بسر ہوئی اور وہ حالتِ اِیمان پر فوت ہوا ۔ (سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206)(سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 66)(نبهاني، حجة ﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 238) ۔ (صحیح بخاری ، کتاب النکاح) یہ حدیث کہیں مختصر اً اور کہیں مطولاً کتاب النکاح کے علاوہ بھی وارد ہوئی ہے، رقم احادیث اس طرح ہیں ۔ ۵۱۰۶، ۵۱۰۷، ۵۱۳۳ اور ۵۳۷۲)

منکرین سے صرف اتنی گذارش ہے ایک کافر جس کی مذمّت میں قرآن نازل ہوا اگر وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت پر بھتیجا سمجھ کر خوشی کا اظہار کرتا ہے تو اسے بھی فائدہ حاصل ہوتا ہے جبکہ ابولہب کافر تھا جب اسے میلاد کی خوشی منانے اور اپنی لونڈی کے دودھ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لئے خرچ کرنے کی وجہ سے جزا دی گئی تو اس مسلمان کا کیا حال ہوگا جو محبت اور خوشی سے بھرپور ہے اور میلاد پاک میں مال خرچ کرتا ہے تم تو اس کافر سے بھی گئے گذرے ہو اور بد نصیب بھی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم امام الوہابیہ و دیابنہ ابن تیمیہ کی نظر میں

0 comments
میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم امام الوہابیہ و دیابنہ ابن تیمیہ کی نظر میں

محترم قارئینِ کرام : ہم نے ابن تیمیہ کا حوالہ پیش کیا تو منکرین میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو آگ اور مرچی لگ گئی کہ خیانت کی گئی ہے ان بچاروں کے پاس جواب تو ہوتا نہیں جب جواب نہیں ہوتا تو سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کرنے کےلیئے جھوٹ بولنے سے دریغ نہیں کرتے کبھی کہتے ہیں حدیث ضعیف ہے ، کبھی کہتے ہیں عبارت مکمل نہیں اور جب پھنس جائیں تو پھر کہتے یہ مولوی ہمارے لیئے حجت نہیں ہے مگر انہیں ملاّؤں کا نام استعمال کر کے لوگوں کو گمراہ بھی کرتے ہیں آیئے ہم اقتضاء الصراط مستقیم کے دو عربی ایڈیشنوں اور ایک اردو ترجمہ جو وہابیوں نے کیا ہے کے اسکینز ساتھ پیش کر رہے ہیں اور کچھ دیگر عبارت اصل مقصود ابن تیمیہ کی عبارت ہے جس میں علامہ ابن تیمیہ نے صاف لکھا ہے کہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منانے والوں کےلیئے اجر عظیم اور ثواب ہے پڑھیئے اور وہابیوں کا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بغض و عداوت ملاحطہ کیجیئے ۔

اہل اسلام کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کی خوشی منانا ، سال کے تمام ایام میں بالخصوص ماہ ربیع الاول میں اجر و ثواب کی نیت سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے شمائل و خصائل کو بیان کرنا اور ایصال ثواب کے نذرانے پیش کرنا اہل اسلام کا طریقہ رہا ہے ۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کے میلاد منانا ایک کار خیر اور باعث اجر و ثواب ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ جمہور محدثین ، مفسرین ، مورخین علیہم الرّحمہ سب میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ایک امر خیر جانتے ہیں اور اس کے منانے والوں کےلئے الله عزّ و جل کی جانب سے اجرعظیم کی امید رکھتے ہیں ۔

آگے بڑھنے سے پہلے یہ حدیث پڑھ لیجیئے دین میں اچھے کام کے رائج کرنے والوں پر اجر : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ سَنَّ فِي الإِسْلامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الإِسْلامِ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ).(رواہ مسلم كتاب الزكاة ١٠١٧،چشتی)
ترجمہ : جو شخص اسلام میں اچھے طریقے کو رائج کرے گا ، تو اس کو اس کا ثواب ملے گا، اور ان لوگوں کے عمل کا بھی ثواب ملے گا جو اس کے ایجاد کردہ فعل پر عمل کرتے رہیں اور عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں واقع نہیں ہوگی ، اور جو شخص اسلام میں کسی برے عمل کو رائج کرے گا تو اس پر اس عمل کو رائج کرنے کا بھی گناہ ملے گا اور ان لوگوں کے عمل کا بھی جو اس کے بعد اس طریقے پر چلتے رہے اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں بھی کچھ کمی نہیں کی جائے گی ۔

اہل بدعت یعنی غیر مقلدین جنہوں نے عقائد میں طرح طرح کی بدعات نکال لی ہیں .اور دین کے ہر مسئلے میں ان کا اسی طرح پوری امت سے علیحدہ ہی رہنے کا ان کا عزم ہے ۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بدعت بدعت کہ کر رٹ لگائے رکھتے ہیں پر ان غیر کے مقلدوں کے پاس اس کی حرمت کی دلیل نہیں فقط یہ کہنے کہ " كل بدعة ضلالة " یا پھر "من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منه فھو رد " سے استدلال باطلہ کرنے کے . من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منه فھو رد ، اس حدیث کی شرح میں محدثین علیہم الرّحمہ کے اقوال میں نقطہ یہ ہے کہ اس میں ما لیس منه کی قید ہے . مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح » كتاب الإيمان » باب الاعتصام بالكتاب والسنة."ما ليس منه فيه إشارة إلى أن إحداث ما لا ينازع الكتاب والسنة ۔
ترجمہ : اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایسی نئی بات کا نکالنا جو کتاب و سنت کے خلاف نہ ہو مذموم (نا پسندیدہ) نہ ہو گی ۔

امام شافعی رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں : مَا أَحْدَثَ وَخَالَفَ كِتَابًا أَوْ سُنَّةً أَوْ إِجْمَاعًا أَوْ أَثَرًا فَهُوَ الْبِدْعَةُ الضَّالَّةُ. وَمَا أُحْدِثَ مِنَ الْخَيْرِ وَلَمْ يُخَالِفْ مِنْ ذٰلِكَ فَهُوَ الْبِدْعَةُ الْمَحْمُوْدَةُ.
( إعانة الطالبين ج 1 ص 594،چشتی)
ترجمہ : جو چیز نئی پیدا ہوئی اور مخالف ہوئی کتاب و سنت اور اجماع اور اثر کے ، وہ بدعت ضلالہ ہے اور جو نئی چیز پیدا ہوئی خیر سے اور نہیں مخالف ہے ان سے (کتاب و سنت ، اجماع اثر)، پس وہ بدعت محمودہ ہے ۔

دوسری حدیث : كل بدعة ضلالة اس حدیث میں لفظ کل استغراقی نہیں ہے ۔ بلکہ یہ "کل" عام اور مخصوص البعض ہے کیونکہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم احداث کو ما لیس منہ کے ساتھ مقید فرما چکے ہیں تو اب جس قدر حدیثیں بدعت کی منع ہوں گی وہ سب احداث، مخالف شریعت کی طرف راجع ہونگی ، نہ کہ موافق شریعت کی طرف، کیونکہ اصول کا مسلہ ہے کہ جب کوئی حکم کسی امر مقید پر ہوتا ہے تو وہ حکم قید کی طرف راجع ہوگا . (حديث مرفوع) : مَا رَآهُ الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ ۔ (أحمد في كتاب السنة رقم الحديث: 914)
ترجمہ : جسے مسلمان اچھا جانیں ، وہ الله کے نزدیک بھی اچھا ہے ۔

وہابیوں کی گردنوں پر تلوار ، شیخ ابن تیمیہ بھی میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ایک کارخیر ہی جانتے ہیں . فتعظيم المولد واتخاذه موسماً، قد يفعله بعض الناس، ويکون له فيه أجر عظيم؛ لحسن قصده، وتعظيمه لرسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ۔
علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام بن تیمیہ اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم میں لکھتے ہیں : وکذلک ما يحدثه بعض الناس، إما مضاهاة للنصاري في ميلاد عيسي عليه السلام، وإما محبة للنبي صلي الله عليه وآله وسلم وتعظيمًا. وﷲ قد يثيبهم علي هذه المحبة والاجتهاد، لا علي البدع، من اتخاذ مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم عيدًا ۔
ترجمہ : اور اِسی طرح اُن اُمور پر (ثواب دیا جاتا ہے) جو بعض لوگ ایجاد کرلیتے ہیں، میلادِ عیسیٰ علیہ السلام میں نصاریٰ سے مشابہت کے لیے یا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّمکی محبت اور تعظیم کے لیے۔ اور ﷲ تعالیٰ اُنہیں اِس محبت اور اِجتہاد پر ثواب عطا فرماتا ہے نہ کہ بدعت پر، اُن لوگوں کو جنہوں نے یومِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بہ طور عید اپنایا ۔ (اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 269 ، 619 ، 622چشتی)

اِسی کتاب میں دوسری جگہ لکھتے ہیں : فتعظيم المولد واتخاذه موسماً، قد يفعله بعض الناس، ويکون له فيه أجر عظيم؛ لحسن قصده، وتعظيمه لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، کما قدمته لک أنه يحسن من بعض الناس ما يستقبح من المؤمن المسدد ۔
ترجمہ : میلاد شریف کی تعظیم اور اسے شعار بنا لینا بعض لوگوں کا عمل ہے اور اِس میں اُس کے لیے اَجر عظیم بھی ہے کیوں کہ اُس کی نیت نیک ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تعظیم بھی ہے ، جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک ایک اَمر اچھا ہوتا ہے اور بعض مومن اسے قبیح کہتے ہیں ۔ (اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 269 ، 619 ، 622)

جو مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی محبت میں میلاد مناتے ہیں اللہ انہیں اس پر اجر و ثواب عطاء فرمائے گا ۔ (فکر و عقیدہ کی گمراہیاں ترجمہ اقتضاء الصراط مستقیم صفحہ 73 ابن تیمیہ، مترجم وہابی عالم) ۔ لو جی وہابیو اب تو ترجمہ اور چھاپہ تمہارا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)


صحابہ رضی اللہ عنہم میلاد النی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مناتے تھے

0 comments
صحابہ رضی اللہ عنہم میلاد النی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مناتے تھے

محترم قارئینِ کرام : صحابہ کرام علیہم الرضوان نے بھی حضور پرنور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا میلاد منایا اور سرور کونین صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے سامنے منعقد کیا ۔ میرے رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے منع کرنے کے بجائے خوشی کا اظہار فرمایا ۔ صحابہ کرام کا میلاد بیان کرنے پر حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں : غزوہ تبوک سے جب سب لوگ واپس آئے تو حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کی تعریف کروں۔ حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا: بیان کرو اللہ تمہارے منہ کو ہر آفت سے بچائے ۔ اس پر انہوں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی پیدائش کا حال بیان کیا ۔ ( دلائل النبوہ جلد 5، صفحہ 47، 48)

آپ غور نہیں فرماتے کیا کہ یہاں حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا بیان کرو۔ حکم ہوا ۔۔۔ اور دعا فرمائی کہ منہ کو ہر آفت سے بچائے۔ اور اللہ عزوجل نے دعا قبول فرما کر حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی زبان پر ذکرِ خیر جاری فرمایا میلاد یعنی پیدائش/ولادت کے بیان کو جاری فرما دیا۔ تو مقصد بیان کرنے والے کون ہیں؟ صحابی ہوئے یا تابعی؟ اور جیسے میں نے گزشتہ پوسٹ میں عرض کی تھی کہ ہمارے میلاد منانے میں وہی طریقہ رائج ہے بس فرق آپ نہیں دیکھ پا رہے کیوں کہ اس دور میں صحابہ کرام ہر وقت ہے جھرمٹ کی طرح جمع رہا کرتے جیسے ہم آج صرف ۱۲ ربیع الاول اور جمعہ و نماز کے وقت جمع ہوتے ہیں اور ہر وقت درود و سلام و تعریف کیا کرتے تھے۔ ولادت کے دن پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوموار شریف کا روزہ رکھ کر اضافی عمل پیش کیا وگرنہ روزانہ کی طرح حمد و ثناء، تعریف، درود و سلام ۱۲ ربیع الاول کو بھی جاری رہا کرتیں ۔

اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے میلاد کا ذکر میرے پاس ہوا ۔ (المعجم الکبیر مترجم اردو جلد اوّل صفحہ 96،چشتی) ۔ معلوم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میلاد کی محافل سجایا کرتے تھے اور ذکرِ میلاد النبی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کرتے تھے ۔

جلیل القدر صحابی حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ عنہ بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم میں قصیدہ پڑھ کر جشن ولادت منایا کرتے تھے۔

حدیث: سرکار صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم خود حضرت حسان رضی اﷲ عنہ کے لئے منبر رکھا کرتے تھے تاکہ وہ اس پر کھڑے ہوکر سرکار صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی تعریف میں فخریہ اشعارپڑھیں ۔ سرکار صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم حضرت حسان رضی اﷲ عنہ کے فرماتے اﷲ تعالیٰ روح القدس (حضرت جبرائیل علیہ السلام) کے ذریعہ حسان کی مدد فرمائے (بحوالہ: بخاری شریف جلد اول صفحہ نمبر 65،چشتی)

حدیث: حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ میں سرکار صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے ساتھ حضرت عامر انصاری رضی اﷲ عنہ کے گھر گیا۔ وہ اپنی اولاد کوحضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادت کے واقعات سکھلا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ آج کا دن ہے۔ سرکار صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اس وقت فرمایا اﷲ تعالیٰ نے تم لوگوں کے واسطے رحمت کا دروازہ کھول دیا اور سب فرشتے تم لوگوں کے لئے دعائے مغفرت کررہے ہیں جو شخص تمہاری طرح واقعہ میلاد بیان کرے اس کو نجات ملے گی ۔ (رضیہ التنویر فی مولد سراج المنیر)

صحابہ کرام کا میلاد بیان کرنے پر حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں : غزوہ تبوک سے جب سب لوگ واپس آئے تو حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کی تعریف کروں۔ حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا: بیان کرو اللہ تمہارے منہ کو ہر آفت سے بچائے۔اس پر انہوں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی پیدائش کا حال بیان کیا۔( دلائل النبوہ جلد 5، صفحہ 47، 48،چشتی)
آپ غور نہیں فرماتے کیا کہ یہاں حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا بیان کرو۔ حکم ہوا۔۔۔ اور دعا فرمائی کہ منہ کو ہر آفت سے بچائے۔ اور اللہ عزوجل نے دعا قبول فرما کر حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی زبان پر ذکرِ خیر جاری فرمایا میلاد یعنی پیدائش/ولادت کے بیان کو جاری فرما دیا۔ تو مقصد بیان کرنے والے کون ہیں؟ صحابی ہوئے یا تابعی؟ اور جیسے میں نے گزشتہ پوسٹ میں عرض کی تھی کہ ہمارے میلاد منانے میں وہی طریقہ رائج ہے بس فرق آپ نہیں دیکھ پا رہے کیوں کہ اس دور میں صحابہ کرام ہر وقت ہے جھرمٹ کی طرح جمع رہا کرتے جیسے ہم آج صرف ۱۲ ربیع الاول اور جمعہ و نماز کے وقت جمع ہوتے ہیں اور ہر وقت درود و سلام و تعریف کیا کرتے تھے۔ ولادت کے دن پر صحابہ کرام نے سوموار شریف کا روزہ رکھ کر اضافی عمل پیش کیا وگرنہ روزانہ کی طرح حمد و ثناء، تعریف، درود و سلام ۱۲ ربیع الاول کو بھی جاری رہا کرتی۔

اب مندرجہ ذیل ایک سو سولہ (116)اَئمہ و شیوخ کی ایک سو پچیس(125)سے زائد تالیفات و شروحات کا ذکر ہے جن سے تمہاری جھوٹی اور عقل کی مکاری ثابت ہوتی ہے کیونکہ ان 116 کتابوں میں صحاستہ کا بھی ذکر ہے۔

یہ کتب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد ناموں اور واقعاتِ ولادت کے قصص پر مشتمل ہیں ۔ جب کہ اَمرِ واقعہ یہ ہے کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے واقعات اور جشنِ میلاد کی کیفیت کی حامل تالیفات و مولود ناموں کی تعداد اِس سے کہیں زیادہ ہے ، اور ایسی کتب اُردو، پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو، سرائیکی، ہندی، فارسی، انگریزی الغرض دنیا کی ہر اُس زبان میں پائی جاتی ہیں جو مومنین بولتے ہیں ۔

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لکھی جانے والی گراں قدر تصانیف

قرونِ اُولیٰ سے لے کر آج تک اَئمہ و محدّثین اور علماء و شیوخ نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر قلم اٹھایا اور نظم و نثر میں ہزاروں کی تعداد میں گراں قدر کتب تصنیف کیں۔ ان میں سے بعض مختصر اور بعض ضخیم ہیں ۔

اکثر اَئمہ و محدّثین اور اَکابر علماء نے اَحادیث، سیرت و فضائل اور تاریخ کی کتب میں میلاد شریف کے موضوع پر باقاعدہ اَبواب باندھے ہیں۔ مثلاً اِمام ترمذی (210۔ 279ھ) نے الجامع الصحیح میں کتاب المناقب کا دوسرا باب ہی ’’ما جاء فی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ قائم کیا ہے۔

ابن اِسحاق (85۔ 151ھ) نے السیرۃ النبویۃ میں،

ابن ہشام (م 213ھ) نے السیرۃ النبویۃ میں،

ابن سعد (168۔ 230ھ) نے الطبقات الکبری میں،

ابو نعیم (336۔ 430ھ) نے دلائل النبوۃ میں،

بیہقی (384۔ 458ھ) نے دلائل النبوۃ ومعرفۃ احوال صاحب الشریعۃ میں،

ابو سعد خرکوشی نیشاپوری (م 406ھ) نے کتاب شرف المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں،

ابن اثیر (555۔ 630ھ) نے الکامل فی التاریخ میں،

طبری (224۔ 310ھ) نے تاریخ الامم والملوک میں،

ابن کثیر (701۔ 774ھ) نے البدایۃ والنھایۃ میں،

ابن عساکر (499۔ 571ھ) نے تاریخ دمشق الکبیر میں،

الغرض تمام اَجل اَئمہ و علماء نے اپنی اپنی کتب میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔
نیز

اِمام محمد بن یوسف صالحی شامی (م 942ھ) نے ’’سبل الہدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ میں بہت تفصیل سے لکھا اور جواز میں علمی دلائل کے اَنبار لگا دیئے ہیں۔

اِمام ابو عبد اﷲ بن الحاج مالکی (م 737ھ) نے ’’المدخل الی تنمیۃ الاعمال بتحسین النیات والتنبیہ علی کثیر من البدع المحدثۃ والعوائد المنتحلۃ‘‘ میں مفصل بحث کی ہے۔

اِمام زرقانی (1055۔ 1122ء) نے ’’المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ‘‘ میں،

شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958۔ 1052ھ،چشتی) نے ’’ما ثَبَت مِن السُّنّۃ فی ایّام السَّنَۃ‘‘ میں
اور
اِمام یوسف بن اسماعیل نبہانی (1265۔ 1350ھ) نے ’’حجۃ اﷲ العالمین فی معجزات سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ اور ’’جواھر البحار فی فضائل النبی المختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ میں میلاد شریف کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔

ذیل میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر لکھی جانے والی چند معروف کتب درج کی جارہی ہیں :

1۔ ابو العباس احمد اقلیشی (م 550ھ)
ابو العباس احمد بن معد بن عیسی اقلیشی اندلسی (م 550ھ) نے الدر المنظم فی مولد النبی الاعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے کتاب تالیف کی ہے۔ اِس میں اُنہوں نے دس فصول قائم کی ہیں۔ باشا بغدادي، ايضاح المکنون : 451

2۔ علامہ ابن جوزی (510۔ 597ھ)
عبدالرحمان بن علی بن محمود بن علی بن عبد اللہ بن حمادی قرشی حنبلی جن کا لقب جمال الدین ہے۔ 510ھ میں بغداد میں پیدا ہوئے اور 597 ہجری میں اسی شہر میں انتقال فرمایا۔ ابتدائی علوم پر صغر سنی میں ہی دسترس حاصل کر کے وعظ و تبلیغ میں لگ گئے۔ پھر حدیث میں مہارت اور پختگی حاصل کی تو حافظ اور محدّث کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ نے 159 سے زائد کتب تصنیف کیں جن میں سے اکثر حدیث، تاریخ اور مواعظ پر مشتمل ہیں۔ انہوں نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دو مستقل کتب لکھیں :
1. بيان الميلاد النبوي صلي الله عليه وآله وسلم
2. مولد العروس

3۔ اِبن دحیہ کلبی (544۔ 633ھ)
ابو خطاب عمر بن حسن بن علی بن محمد بن دحیہ کلبی اندلس میں پیدا ہوئے۔ آپ نے حصولِ علم کے لیے شام، عراق، خراسان وغیرہ کے سفر کیے اور مصر میں قیام فرما رہے۔ آپ مشہور محدّث، معتمد مؤرّخ اور مایہ ناز ادیب تھے۔ بہت سی کتب لکھیں اور شاندار علمی ورثہ چھوڑا۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر آپ کی تصنیف ’’التنویر فی مولد البشیر النذیر‘‘ بھی ہے۔

4۔ حافظ شمس الدین جزری (م 660ھ)
ابو الخیر شمس الدین محمد بن عبد اللہ جزری شافعی (م 1262ء) اپنے وقت کے امام القراء اور محدّث تھے۔ مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آپ کی ایک کتاب ’’عرف التعریف بالمولد الشریف‘‘ ہے۔

5۔ شیخ ابو بکر جزائری (م 707ھ)
شیخ ابو بکر محمد بن عبد اﷲ بن محمد بن محمد بن احمد عطار جزائری نے ’’المورد العذب المعین فی مولد سید الخلق اجمعین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے نام سے کتاب لکھی۔

6۔ اِمام کمال الدین الادفوی (85۔ 6۔ 748ھ)
اِمام کمال الدین ابو الفضل جعفر بن ثعلب بن جعفر اَدفوی نے اپنے ملک مراکش میں جشنِ میلاد کی تقریبات کے حوالے سے بہت سی تفصیلات اپنی کتاب ’’الطالع السعید الجامع لاسماء نجباء الصعید‘‘ میں جمع کی ہیں۔

7۔ سعید الدین الکازرونی (م 758ھ)
محمد بن مسعود بن محمد سعید الدین الکازرونی نے ’’مناسک الحجز المنتقی من سیر مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے نام سے کتاب لکھی۔

8۔ ابو سعید خلیل بن کیکلدی (694۔ 761ھ)
ابو سعید خلیل بن کیکلدی بن عبد اﷲ لاعلائی دمشقی شافعی نے الدرۃ السنیۃ فی مولد خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے کتاب تالیف کی۔

9۔ امام عماد الدین بن کثیر (701۔ 774ھ)
میلاد نگاروں میں صاحبِ ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘۔ اِمام حافظ عماد الدین ابو الفداء اسماعیل بن کثیر۔ کا نام بھی شامل ہے۔ اِمام ابن کثیر نے ’’ذکر مولد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ورضاعہ‘‘ کے نام سے میلاد شریف کے موضوع پر کتاب لکھی ہے۔

10۔ سلیمان برسوی حنفی
سلیمان بن عوض باشا بن محمود برسوی حنفی 780ھ کے قریب فوت ہوئے۔ آپ سلطان بایزید عثمانی کے دور میں بہت بڑے امام تھے۔ اُنہوں نے ’’وسیلۃ النجاۃ‘‘ کے نام سے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ لکھا۔

11۔ اِمام عبد الرحیم برعی (م 803ھ)
اِمام عبد الرحیم بن اَحمد برعی یمانی (م 1400ء) نے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر رسالہ تالیف کیا ہے جو کہ ’’مولد البرعي‘‘ کے نام سے معروف ہے۔

12۔ حافظ زین الدین عراقی (725۔ 808ھ)
حافظ ابو الفضل زین الدین عبد الرحیم بن حسین بن عبد الرحمٰن مصری عراقی یکتائے زمانہ، نابغہ روزگار، محافظ اسلام، مرجع خلائق اور دانش وَر محقق تھے۔ انہوں نے حدیث، اسناد اور ضبط روایات میں کمال رسوخ حاصل کیا۔ علم حدیث سے تھوڑا بہت شغف رکھنے والا ہر شخص ان کے علم و فضل سے بخوبی آگاہ ہے۔ اس جلیل القدر امام نے جشنِ میلاد کے متعلق ایک مستقل رسالہ لکھا جس کا نام ’’المورد الھنی فی المولد السنی‘‘ رکھا۔

13۔ سلیمان برسونی
حاجی خلیفہ نے ’’کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون (2 : 1910)‘‘ میں لکھا ہے کہ سلیمان برسونی 808ھ کے بعد فوت ہوئے۔ اُنہوں نے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ لکھا جو کہ روم کی مجالسِ میلاد میں پڑھا جاتا ہے۔

14۔ اِمام محمد بن یعقوب فیروزآبادی (729۔ 817ھ،چشتی)
اِمام ابو طاہر محمد بن یعقوب بن محمد بن ابراہیم فیروزآبادی ایک بہت بڑے اِمام ہو گزرے ہیں۔ آپ نے بے شمار کتب لکھیں، جن میں تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس، الصلات والبشر فی الصلاۃ علیٰ خیر البشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور لغت کی معروف کتاب القاموس المحیط شامل ہیں۔ آپ نے میلاد شریف پر النفحۃ العنبریۃ فی مولد خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھی۔

15۔ امام شمس الدین بن ناصر الدین دمشقی (777۔ 842ھ)
میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لکھنے والے جلیل القدر آئمہ میں سے ایک حافظ شمس الدین محمد بن ابی بکر بن عبد اللہ قیسی شافعی المعروف حافظ ابن ناصر الدین دمشقی ہیں۔ آپ اعلیٰ پائے کے مؤرّخ تھے۔ لاتعداد کتب ان کی نوک قلم سے نکلیں، بے شمار حواشی تحریر کیے اور مختلف علوم و فنون میں طبع آزمائی کی۔ آپ دمشق کے الشرفیہ دار الحدیث کے شیخ الحدیث بنے۔ آپ نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں کئی کتب تحریر کیں۔ حاجی خلیفہ نے ’’کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون (2 : 1910)‘‘ میں ان کی درج ذیل تین کتب کا تذکرہ کیا ہے جو صرف اِسی موضوع پر ہیں :

1. جامع الآثار في مولد النبي المختار صلي الله عليه وآله وسلم (تين جلدوں پر مشتمل ہے)

2. اللفظ الرائق في مولد خير الخلائق صلي الله عليه وآله وسلم
3. مورد الصادي في مولد الهادي صلي الله عليه وآله وسلم

16۔ شیخ عفیف الدین التبریزی (م 855ھ)

شیخ عفیف الدین محمد بن سید محمد بن عبد اﷲ حسینی تبریزی شافعی نے مدینہ منورہ میں 855ھ میں وفات پائی۔ آپ نے اِمام نووی (631۔ 677ھ) کی الاربعین اور اِمام ترمذی (210۔ 279ھ) کی الشمائل المحمدیۃ کا حاشیہ لکھا۔ آپ نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے کتاب لکھی۔

17۔ شیخ محمد بن فخر الدین (م 867ھ)

شیخ شمس الدین ابو القاسم محمد بن فخر الدین عثمان لؤلؤی دمشقی حنبلی ’’اللؤلؤ ابن الفخر‘‘ کے نام سے معروف تھے۔ اُنہوں نے میلاد شریف کے موضوع پر الدر المنظم فی مولد النبی المعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھی۔ بعد ازاں اُنہوں نے اللفظ الجمیل بمولد النبی الجلیل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے اس کی تلخیص کی۔

18۔ سید اصیل الدین ہروی (م 883ھ)

سید اصیل الدین عبد اللہ بن عبد الرحمٰن ہروی نے درج الدرر فی میلاد سید البشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے کتاب تالیف کی۔

19۔ اِمام عبد اللہ حسینی شیرازی (م 884ھ)

اِمام اصیل الدین عبد اللہ بن عبد الرحمٰن حسینی شیرازی نے میلاد کے موضوع پر ایک کتاب بہ عنوان ’’درج الدرر فی میلاد سید البشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ لکھی۔ اِس کا ذکر حاجی خلیفہ نے ’’کشف الظنون (1 : 745)‘‘ میں کیا ہے۔

20۔ شیخ علاء الدین المرداوی (م 885ھ)

ابو الحسن علاء الدین علی بن سلیمان بن احمد بن محمد مرداوی دمشق میں حنبلی فقہ کے بہت بڑے شیخ ہو گزرے ہیں۔ آپ نے میلاد شریف پر المنھل العذب القریر فی مولد الھادی البشیر النذیر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نامی کتاب تالیف کی۔

21۔ برہان الدین ابو الصفاء (م 887ھ)

برہان الدین ابو الصفاء ابن ابی الوفاء نے فتح اﷲ حسبی وکفی فی مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے کتاب تالیف کی۔

22۔ شیخ عمر بن عبد الرحمان باعلوی (م 889ھ)

شیخ عمر بن عبد الرحمان بن محمد بن علی بن محمد بن احمد باعلوی حضرمی نے ’’کتاب مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ لکھی۔

23۔ امام شمس الدین السخاوی (831۔ 902ھ)

امام شمس الدین محمد بن عبد الرحمان بن محمد قاہری سخاوی کا شمار اکابر اَئمہ میں ہوتا ہے۔ ایک عالم نے کہا کہ ’’حافظ ذہبی کے بعد ان جیسے ماہر علوم و فنونِ حدیث شخص کا وجود نہیں ملتا اور انہی پر فنِ حدیث ختم ہو گیا۔‘‘ امام شوکانی کا کہنا ہے کہ اگر حافظ سخاوی کی ’’الضوء اللامع‘‘ کے علاوہ کوئی اور تصنیف نہ بھی ہوتی تو یہی ایک کتاب ان کی امامت پر بڑی دلیل تھی۔

آپ نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ایک کتاب ’’الفخر العلوی فی المولد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ تصنیف کی، اور اس کا ذکراپنی کتاب ’’الضوء اللامع (8 : 18)‘‘ میں بھی کیا ہے۔ اِس کے علاوہ آپ نے الضوء اللامع میں اُن اَئمہ کرام کی فہرست بھی دی ہے جنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف کے بارے میں کتب و رسائل تالیف کیے ہیں۔

حاجي خليفه، کشف الظنون عن أسامي الکتب والفنون، 2 : 1910

24۔ اِمام نور الدین سمہودی (844۔ 911ھ)

میلاد کے موضوع پر لکھی جانے والی ایک اور کتاب ’’المورد الھنیۃ فی مولد خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ ہے۔ اِس کے مصنف اِمام نور الدین ابو الحسن علی بن عبد اﷲ بن احمد حسینی شافعی سمہودی ہیں جنہیں تاریخِ مدینہ کے لکھنے والوں میں مستند درجہ حاصل ہے۔

25۔ امام جلال الدین سیوطی (849۔ 911ھ)

امام جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابی بکر سیوطی کا علمی مقام آفتاب کی طرح ہر خاص و عام پر واضح ہے۔ آپ کے تذکروں میں لکھا ہے کہ آپ کی تصانیف کی تعداد سات سو (700) کے قریب پہنچتی ہے۔ آپ نے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جواز میں ’’حسن المقصد فی عمل المولد‘‘ کے نام سے رسالہ لکھاجو پوری دنیا میں مقبول ہوا۔ یہ رسالہ آپ کی تصنیف ’’الحاوی للفتاوي‘‘ میں بھی شامل ہے۔

26۔ عائشہ بنت یوسف باعونیہ (م 922ھ)

عائشہ بنت یوسف باعونیہ دمشقیہ شافعیہ مشہور عالمہ و صوفیہ اور کثیر التصانیف محققہ تھیں۔ اُنہوں نے منظوم ’’مولود النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ تصنیف کیا۔

27۔ ابو بکر بن محمد حلبی (م 930ھ)

ابو بکر بن محمد بن ابی بکر حبیشی حلبی نے الکواکب الدریۃ فی مولد خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے کتاب رقم کی۔

28۔ ملا عرب الواعظ (م 938ھ)

ملا عرب الواعظ نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے ایک کتاب تالیف کی۔

29۔ ابن دیبع الشیبانی (866۔ 944ھ)

حافظ وجیہ الدین عبد الرحمٰن بن علی بن محمد شیبانی شافعی، ابن دیبع کے لقب سے مشہور ہیں۔ آپ نے ایک سو (100) سے زیادہ مرتبہ بخاری شریف کا درس دیا اور ایک مرتبہ چھ روز میں بخاری شریف کو ختم کیا۔ آپ نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں بھی کتاب لکھی ہے۔

30۔ شیخ عبد الکریم الادرنتوی (م 965ھ)

شیخ عبد الکریم ادرنتوی خلوتی نے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ لکھا تھا۔

31۔ اِمام ابن حجر ہیتمی مکی (909۔ 973ھ)

امام الحرمین، ابو العباس احمد بن محمد بن علی بن حجر ہیتمی مکی شافعی کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ ’’الفتاویٰ الحدیثیۃ،‘‘ ’’الخیرات الحسان فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ النعمان،‘‘ ’’الصواعق المحرقۃ فی الرد علی اھل البدع والزندقۃ‘‘ اور ’’الجوہر المنظم فی زیارۃ القبر الشریف النبوی المکرم المعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ جیسی مشہورِ زمانہ کتب آپ کے علمی شاہکار ہیں۔ آپ علومِ حدیث میں شیخ الاسلام زکریا مصری کے شاگردِ خاص تھے۔ شیخ الاسلام ابن حجر عسقلانی آپ کے دادا استاد تھے۔ علامہ ملا علی قاری اور بر صغیر پاک و ہند کے مایہ ناز فرزند علاؤ الدین علی متقی ہندی (صاحبِ کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال) آپ ہی کی مسند اِرشاد و تدریس کے فیض یافتہ تھے۔ آپ نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر مندرجہ ذیل کتب تصنیف کیں:
1. تحرير الکلام في القيام عند ذکر مولد سيد الأنام صلي الله عليه وآله وسلم
2. تحفة الأخيار في مولد المختار صلي الله عليه وآله وسلم
3. اتمام النعمة علي العالم بمولد سيد ولد آدم صلي الله عليه وآله وسلم
4. مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم
علاوہ ازیں انہوں نے اپنی مشہور کتاب ’’الفتاویٰ الحدیثیۃ‘‘ میں بھی اس موضوع کا تفصیلی تذکرہ کیاہے۔

32۔ اِمام خطیب شربینی (م 977ھ)
اِمام شمس الدین محمد بن احمد خطیب شربینی نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پچاس (50) صفحات کا محظوطہ تحریر کیا ہے۔

33۔ ابو الثناء احمد الحنفی (م 1006ء)
ابو الثناء احمد بن محمد بن عارف زیلی رومی حنفی نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے کتاب تالیف کی۔

34۔ ملا علی القاری (م 1014ھ،چشتی)
جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لکھنے والوں میں حافظِ حدیث، مجتہد الزمان امام ملا علی قاری بن سلطان بن محمد ہروی بھی ہیں۔ امام شوکانی نے ’’البدر الطالع‘‘ میں ان کے حالات نقل کرتے ہوئے لکھاہے کہ وہ علوم نقلیہ کے جامع، سنت نبوی میں دسترس رکھنے والے، عالم اسلام کے بطلِ جلیل اور قوتِ حفط و فہم میں نام وَر تھے۔ اُنہوں نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ایک کتاب تالیف کی ہے جس کا نام ’’المورد الروی فی مولد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ونسبہ الطاھر‘‘ ہے۔ اِس کتاب میں اُنہوں نے میلاد شریف کے بارے میں مختلف علماء کے اَقوال اور مختلف اِسلامی ممالک میں جشنِ میلاد کی تقریبات کا حال بیان کیا ہے۔

35۔ اِمام عبد الرؤف المناوی (952۔ 1031ھ)
’’فیض القدیر شرح الجامع الصغیر‘‘اور ’’شرح الشمائل علی جمع الوسائل‘‘ کے مصنف و نام وَر اِمام عبد الرؤف بن تاج العارفین بن علی بن زین العابدین مناوی (1545۔ 1621ء) نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر ایک رِسالہ تالیف کیا ہے، جو کہ ’’مولد المناوي‘‘ کے نام سے معروف ہے۔

36۔ محی الدین عبد القادر عیدروسی (987۔ 1038ھ)
محی الدین عبد القادر بن شیخ بن عبد اﷲ عیدروسی نے المنتخب المصفی فی اخبار مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تالیف کی۔

37۔ اِمام علی بن اِبراہیم الحلبی (975۔ 1044ھ)
سیرتِ طیبہ کی مشہور کتاب۔ ’’انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون‘‘ جو کہ ’’السیرۃ الحلبیۃ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ کے مصنف اِمام نور الدین علی بن ابراہیم بن احمد بن علی حلبی قاہری شافعی نے میلاد شریف کے موضوع پر کتاب ’’الکواکب المنیر فی مولد البشیر النذیر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ لکھی ہے۔ اُنہوں نے ’’السیرۃ الحلبیۃ‘‘ میں بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف منانے پر دلائل دیتے ہوئے اِس کا جائز اور مستحب ہونا ثابت کیا ہے۔

38۔ اِمام محمد بن علان صدیقی (996۔ 1057ھ)
اِمام محمد علی بن محمد بن علان بکری صدیقی علوی (1588۔ 1647ء) نام وَر مفسر و محدّث تھے۔ اُنہوں نے ’’مورد الصفا فی مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ نامی مولود نامہ تالیف کیا۔

39۔ شیخ زین العابدین خلیفتی (م 1130ھ)
شیخ زین العابدین محمد بن عبد اﷲ عباسی مدینہ منورہ کے نام وَر خطیب تھے۔ آپ خلیفتی کے لقب سے معروف تھے۔ آپ نے میلاد شریف پر الجمع الزاھر المنیر فی ذکر مولد البشیر النذیر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نامی کتاب لکھی۔

40۔ اِمام عبد الغنی نابلسی (م 1143ھ)
شیخ عبد الغنی نابلسی بڑے جلیل القدر اِمام تھے۔ آپ نے ’’المولد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے عنوان سے مختصر اور جامع مولود نامہ لکھا ہے۔

41۔ شیخ جمال الدین بن عقیلہ المکی الظاہر (م 1130ھ)
شیخ جمال الدین ابو عبد اﷲ محمد بن احمد بن سعید بن مسعود المکی الظاہر نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے کتاب لکھی۔

42۔ سلیمان نحیفی رومی (م 1151ھ)
سلیمان بن عبد الرحمان بن صالح نحیفی رومی۔ جنہوں نے مولانا روم (604۔ 672ھ) کی ’’مثنوی مولوی معنوی‘‘ کا ترکی زبان میں منظوم ترجمہ کیا تھا۔ نے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ بھی لکھا۔

43۔ یوسف زادہ رومی (1085۔ 1167ھ)
عبد اﷲ حلمی بن محمد بن یوسف بن عبد المنان رو می حنفی مقری ایک نام وَر محدث تھے۔ آپ ’’یوسف زادہ شیخ القرائ‘‘ کے لقب سے معروف تھے۔ اُنہوں نے اِختلافِ قرات پر الائتلاف فی وجود الاختلاف فی القراء ۃ کے نام سے کتاب لکھی۔ میلاد شریف کے موضوع پر ان کی کتاب کا نام الکلام السنی المصفی فی مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

44۔ حسن بن علی مدابغی (م 1170ھ)
علامہ حسن بن علی بن احمد بن عبد اللہ منطاوی جوکہ مدابغی کے نام سے معروف تھے، اُنہوں نے 1170 ہجری میں مصر میں وفات پائی۔ اُنہوں نے رسالۃ فی المولد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے ایک رِسالہ تالیف کیا۔

45۔ عبد اﷲ کاشغری (م 1174ھ)
عبد اﷲ بن محمد کاشغری بندائی نقشبندی زاہدی قسطنطنیہ میں درس و تدریس کرتے تھے۔ آپ وہاں سلسلہ نقشبندیہ کی تعلیم بھی دیتے تھے۔ آپ نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے کتاب لکھی ہے۔

46۔ احمد بن عثمان حنفی (1100۔ 1174ھ)
احمد بن عثمان دیاربکری آمدی حنفی نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تالیف کی۔

47۔ عبد الکریم برزنجی (م 1177ھ)
سید جعفر بن حسن بن عبد الکریم برزنجی شافعی مدینہ منورہ کے مفتی اعظم اور مشہور محدث تھے۔ عربی لغت کی مشہور کتاب۔ تاج العروس من جواھر القاموس۔ کے مصنف سید مرتضیٰ زبیدی (1145۔ 1205ھ) نے آپ سے ملاقات کی اور مسجد نبوی میں ہونے والے آپ کے دروس میں حاضر ہوئے۔ آپ کی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مشہور و معروف کتاب ’’عقد الجوھر فی مولد النبی الازھر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ہے، جوکہ ’’مولود البرزنجی‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اِس کی شہرت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ عرب و عجم میں اکثر لوگ اس رسالہ کو حفظ کرتے ہیں اور دینی اجتماعات کی مناسبت کے اعتبار سے اسے پڑھتے ہیں۔ یہ میلاد نامہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مختصر سیرت، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت و ہجرت، اَخلاق و غزوات اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات تک کے ذکر پر مشتمل ہے۔ آپ نے اس میلاد نامہ کے ابتداء میں یہ تحریر کیا ہے : أبتدئ الإملاء باسم الذات العلية، مستدرّا فيض البرکات علي ما أناله وأولاه.
’’میں (ﷲ تعالیٰ کی) بزرگ و برتر ذات کے نام سے لکھنا شروع کرتا ہوں، اُس سے برکتوں کے فیض کے نزول کا طلب گار ہوں ان نعمتوں پر جو اس نے مجھے عطا فرمائی ہیں۔‘‘
اس کتاب کی شرح شیخ ابو عبد اللہ محمد بن احمد علیش (م 1299ھ) نے کی ہے اور یہ شرح بہت ہی جامع اور مفید ہے اس کا نام ’’القول المنجی علی مولد البرزنجی‘‘ ہے۔ یہ مصر سے کئی مرتبہ طبع ہو چکی ہے۔ اس شرح کو ان کے پوتے علامہ فقیہ و مورخ سید جعفر بن اسماعیل بن زین العابدین برزنجی (م 1317ھ)۔ جوکہ مدینہ منورہ میں مفتی تھے۔ نے منظوماً تحریر کر کے 198 ابیات میں بیان کیا ہے۔ اِس کے شروع میں وہ فرماتے ہیں :

بدأت باسم الذات عالية الشأن
بها مستدراً فيض جود وإحسان

اس منظوم میلاد نامہ کا نام ’’الکوکب الانوار علی عقد الجوھر فی مولد النبی الازھر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ ہے۔

48۔ سید محمد بن حسین حنفی جعفری (1149۔ 1186ھ)
سید محمد بن حسین مدنی علوی حنفی جعفری نے خلفاء راشدین اور اہلِ بیتِ اَطہار کے مناقب پر کافی کتب لکھیں، جن میں الفتح والبشری فی مناقب سیدۃ فاطمۃ الزھراء، قرۃ العین فی بعض مناقب سیدنا الحسین، مناقب الخلفاء الاربعۃ، المواھب العزار فی مناقب سیدنا علی الکرار شامل ہیں۔ آپ نے میلاد شریف کے موضوع پر مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تالیف کی۔

49۔ شیخ محمد بن احمد عدوی (م 1201ھ)
شیخ احمد بن محمد بن احمد عدوی مالکی مصری ’’دردیر‘‘ کے لقب سے معروف ہیں۔ آپ کا مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مختصر رسالہ مصر سے شائع ہوا جو ’’مولد الدردیر‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ آپ کے علمی مرتبہ کے پیش نظر جامعہ اَزہر کے علماء و مدرسین یہ مولود نامہ درساً پڑھایا کرتے تھے۔ شیخ الجامعۃ الازہر ابراہیم بن محمد بن احمد بیجوری (م 1198۔ 1277ھ) نے اِس کے اوپر بہت مفید حاشیہ بھی لکھا ہے۔

50۔ اشرف زادہ برسوی (م 1202ھ)
عبد القادر نجیب الدین بن شیخ عز الدین احمد ’’اشرف زادہ برسوی حنفی‘‘ کے نام سے معروف تھے۔ ان کا ترکی زبان میں شعری دیوان ہے۔ ان کی تصوف پر لکھی گئی کتاب کا نام ’’سر الدوران فی التصوف‘‘ ہے۔ آپ نے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ لکھا۔

51۔ محمد شاکر عقاد السالمی (م 1202ھ)
محمد شاکر بن علی بن حسن عقاد السالمی نے تذکرۃ اہل الخیر فی المولد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا۔

52۔ عبد الرحمان بن محمد مقری (م 1210ھ)
عبد الرحمان بن محمد نحراوی مصری مقری نے حسن بن علی مدابغی (م 1170ھ) کے رسالۃ فی المولد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرح لکھی، جس کا عنوان حاشیۃ علی مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم للمدابغی ہے۔

53۔ سلامی الازمیری (م 1228ھ)
مصطفیٰ بن اِسماعیل شرحی اَزمیری سلامی نے ترکی زبان میں منظوم میلاد نامہ لکھا۔

54۔ محمد بن علی شنوانی (م 1233ھ)
محمد بن علی مصری اَزہری شافعی شنوانی نے میلاد شریف کے موضوع پر الجواھر السنیۃ فی مولد خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے ایک رسالہ تالیف کیا۔

55۔ عبد ﷲ سویدان (م 1234ھ،چشتی)
عبد ﷲ بن علی بن عبد الرحمان دملیجی ضریر مصری شاذلی جو کہ سویدان کے لقب سے معروف تھے، اُنہوں نے مطالع الانوار فی مولد النبی المختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھی۔

56۔ ابن صلاح الامیر
سید علی بن ابراہیم بن محمد بن اسماعیل بن صلاح الامیر صنعانی 1171ھ میں پیدا ہوئے اور 1236ھ کے لگ بھگ فوت ہوئے۔ اُنہوں نے تانیس ارباب الصفا فی مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے میلاد نامہ لکھا۔

57۔ اِمام محمد مغربی (م 1240ھ)
اِمام محمد مغربی نام وَر محقق و صوفی اور اکابر اَولیاء میں سے تھے۔ اُنہوں نے ’’المولد النبوي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے عنوان سے مولود نامہ تصنیف کیا ہے جو محدثین کی روایات اور صوفیاء کے اَقوال سے مزین ہے۔

58۔ شیخ ابراہیم بن محمد باجوری (م 1276ھ)
شیخ ابراہیم بن محمد باجوری شافعی مصری نے تحفۃ البشر علی مولد ابن حجر تالیف کیا۔

59۔ شاہ احمد سعید مجددی دہلوی (م 1277ھ)
ہندوستان کی معروف علمی و روحانی شخصیت شاہ احمد سعید مجددی دہلوی (م 1860ء) نے جشنِ میلاد شریف کے جواز پر ’’اثبات المولد والقیام‘‘ نامی ایک رسالہ تالیف کیا ہے۔

60۔ سید احمد مرزوقی
سید ابو الفوز احمد بن محمد بن رمضان مکی مالکی مرزوقی حرمِ مکہ کے مدرّس تھے۔ آپ نے 1281ھ میں ’’بلوغ المرام لبیان الفاظ مولد سید الانام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی شرح مولد احمد البخاری‘‘ تالیف کیا۔ علاوہ ازیں ’’عقیدۃ العوام‘‘ کے نام سے ایک مولود نامہ بھی تحریر کیا، جس کی شرح بھی آپ نے خود ’’تحصیل نیل المرام‘‘ کے نام سے کی۔

61۔ شیخ محمد مظہر بن احمد سعید (م 1301ھ)
شیخ محمد مظہر بن احمد سعید (م 1884ء) نے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر ایک رسالہ تالیف کیا ہے، جو کہ ’’الرسالۃ السعیدیۃ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔

62۔ عبد الہادی اَبیاری (م 1305ھ)
شیخ عبد الہادی اَبیاری مصری نے ’’مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ پر ایک مختصر رسالہ تحریر کیا ہے۔

63۔ عبد الفتاح بن عبد القادر دمشقی (1250۔ 1305ھ)
عبد الفتاح بن عبد القادر بن صالح دمشقی شافعی نے میلاد شریف کے موضوع پر سرور الابرار فی مولد النبی المختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تالیف کیا۔

64۔ نواب صدیق حسن خان بھوپالی (م 1307ھ)
غیر مقلدین کے نام وَر عالم دین نواب صدیق حسن خان بھوپالی نے میلاد شریف کے موضوع پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے، جس کا عنوان ہے : ’’الشمامۃ العنبریۃ من مولد خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔‘‘

65۔ ابراہیم طرابلسی حنفی (م 1308ھ)
ابراہیم بن سید علی طرابلسی حنفی منظوم میلاد نامہ لکھا جس کا عنوان ہے : منظومۃ فی مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

66۔ ہبۃ ﷲ محمد بن عبد القادر دمشقی (م 1311ھ)
ہبۃ ﷲ ابو الفرح محمد بن عبد القادر بن محمد صالح دمشقی شافعی نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے رسالہ تالیف کیا۔

67۔ ابو عبد المعطی محمد نویر جاوی (م 1315ھ)
ابو عبد المعطی محمد نویر بن عمر بن عربی بن علی نووی جاوی نے بغیۃ العوام فی شرح مولد سید الانام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تالیف کی۔

68۔ مفتی اَدرنہ محمد فوزی رومی (م 1318ھ)
مفتی اَدرنہ محمد فوزی بن عبد اﷲ رومی نے اثبات المحسنات فی تلاوۃ مولد سید السادات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے میلاد نامہ لکھا۔

69۔ سید اَحمد بن عبد الغنی دمشقی (م 1320ھ)
سید اَحمد بن عبد الغنی بن عمر عابدین دمشقی فقہ حنفی کے نام وَر عالم و محقق اور ’’رد المحتار علی در المختار علی تنویر الابصار‘‘ کے مؤلّف اِمام محمد بن محمد امین بن عابدین شامی دمشقی (1198۔ 1252ھ) کے بھانجے تھے۔ اُنہوں نے اِمام ابن حجر ہیتمی مکی (909۔ 973ھ) کی میلاد شریف کے موضوع پر لکھی کتاب کی ضخیم شرح ’’نثر الدرر علی مولد ابن حجر‘‘ کے عنوان سے لکھی۔

70۔ اِمام احمد رضا خان (1272۔ 1340ھ)
اِمام احمد رضا بن نقی علی خاں قادری بریلوی (1886۔ 1921ء) میلاد شریف کے موضوع پر درج ذیل دو کتب تالیف کی ہیں :
1. نطق الهلال بارخ ولادة الحبيب والوصال
2. إقامة القيامة علي طاعن القيام لنبي تهامة صلي الله عليه وآله وسلم

71۔ محمدبن جعفر کتانی (م 1345ھ)
عارف باللہ سید شریف محمد بن جعفر کتانی بہت بڑے محدث اور معتمد تھے۔ آپ کا مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک رسالہ ’’الیمن والاسعاد بمولد خیر العباد‘‘ ہے۔ یہ ساٹھ (60) صفحات پر مشتمل اور جدید و تاریخی تحقیقات سے بھرپور رسالہ ہے۔

72۔ اِمام یوسف بن اسماعیل نبہانی (1265۔ 1350ھ)
عالم عرب کے معروف محدّث و سیرت نگار اِمام یوسف بن اسماعیل نبہانی نے مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ’’جواہر النظم البدیع فی مولد الشفیع صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے عنوان سے منظوم کتاب لکھی ہے۔

73۔ مولانا اشرف علی تھانوی (1280۔ 1362ھ)
حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی (1863۔ 1943ء) نام وَر دیوبندی عالم تھے۔ سیرتِ طیبہ پر آپ کی کتاب۔ نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ کے آغاز میں ہی تخلیقِ نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور واقعاتِ ولادت بالتفصیل ذکر کیے گئے ہیں۔ آپ نے ’’طریقۂ مولود‘‘ بھی ترتیب دیا ہے۔

74۔ شیخ محمود عطار دمشقی (1284۔ 1362ھ)
شیخ محمود بن محمد رشید عطار حنفی دمشق کے نام وَر عالم و محدّث تھے۔ آپ نے اپنے وقت کے کبار اساتذہ وشیوخ سے علم حاصل کیا اور دمشق کے علماء کا شمار آپ کے شاگردوں یا آپ کے شاگردوں کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔ آپ نے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر ایک رسالہ ’’استحاب القیام عند ذکر ولادتہ علیہ الصلاۃ والسلام‘‘ تالیف کیا ہے۔

75۔ اِمام محمد زاہد کوثری (1296۔ 1371ھ)
عالم عرب کی معروف علمی شخصیت علامہ مجدد اِمام محمد زاہد کوثری نے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جواز پر مختلف مقالہ جات لکھے ہیں۔

76۔ عبد اﷲ بن محمد ہرری (م 1389ھ)
عبد ﷲ بن محمد شیبی عبدری ہرری حبشی (م 1969ء) نے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بابت دو رسائل تالیف کیے ہیں:
1. کتاب المولد النبوي صلي الله عليه وآله وسلم
2. الروائح الزکية في مولد خير البرية صلي الله عليه وآله وسلم

77۔ شیخ محمد رشید رضا مصری
مصر کے معروف مؤرّخ، مشہور محقق، محدث، مفسر اور تاریخ دان شیخ محمد رشید رضا نے میلاد پر ایک کتاب تحریر کی جس کا نام ہے : ’’ذکر المولد وخلاصۃ السیرۃ النبویۃ وحقیقۃ الدعوۃ الاسلامیۃ۔‘‘

78۔ شیخ محمد بن علوی مالکی مکی (م 1425ھ)
مکہ مکرمہ کے نام وَر محدث اور عالم شیخ محمد بن علوی مالکی مکی (م 2004ء) نے میلاد شریف کی بابت اجل اَئمہ کرام کے درج ذیل تین رسائل کامجموعہ تالیف کرکے طبع کرایا ہے :
1۔ ابن کثیر، ذکر مولد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و رضاعہ
2۔ ملا علی قاری، المورد الروی فی المولد النبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اِس رسالہ پر اِمام علوی مالکی کی تعلیقات و تحقیق بھی شامل ہے۔)
3۔ ابن حجر ہیتمی مکی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اُنہوں نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق ایک رسالہ بہ عنوان ’’حول الاحتفال بذکری المولد النبوی الشریف صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ بھی تالیف کیا ہے۔ علاوہ ازیں جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جواز پر مختلف ائمہ و علماء کے فتاوی جات کا مجموعہ بھی ترتیب دیا ہے، جس کا عنوان ہے : ’’الاعلام بفتاوی ائمۃ الاسلام حول مولدہ علیہ الصلاۃ والسلام۔‘‘

79۔ شیخ عبد العزیز بن محمد
شیخ عبد العزیز بن محمد ایک عظیم محقق اور وزارت ’’الامر بالمعروف والنہی عن المنکر‘‘ کے رئیس العام تھے۔ انہوں نے جشنِ میلاد پر ایک کتاب بہ عنوان’’بعثۃ المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ لکھی۔

80۔ سید ماضی ابو العزائم
آپ نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر ’’بشائر الاخیار فی مولد المختار‘‘ لکھی ہے۔ اِس میں اُنہوں نے نورِ نبوت کی تخلیق اور ظہور کا ذکر کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضاعت، نبوت اور دیگر انبیائے کرام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت کے بیان کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد شریف منانے پر بھی دلائل دیے ہیں۔

81۔ سید محمد عثمان میرغنی
آپ نے میلاد کے موضوع پر ایک رسالہ بہ عنوان ’’الاسرار الربانیۃ المعروف ب : مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ لکھا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف کے بیان پر مشتمل اِس رسالہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب و ولادت اور حیاتِ طیبہ کے دیگر پہلؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔

محمد بن محمد منصوری شافعی خیاط نے ابن حجر ہیتمی کی میلاد شریف کے موضوع پر تالیف کردہ کتاب کی شرح اقتناص الشوارد من موارد الموارد کے نام سے لکھی۔
احمد بن قاسم مالکی بخاری حریری، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو حسن بکری، الانوار فی مولد النبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابراہیم اَبیاری، مولد رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
صلاح الدین ہواری، المولد النبوی الشریف صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو محمد ویلتوری، ابتغاء الوصول لحب اﷲ بمدح الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
زین الدین مخدوم فنانی، البنیان المرصوص فی شرح المولد المنقوص
عبد ﷲ عفیفی، المولد النبوی المختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
عبد ﷲ حمصی شاذلی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شیخ خالد بن والدی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شیخ محمد وفا صیادی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شیخ محمود محفوظ دمشقی شافعی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شیخ عبد ﷲ بن محمد مناوی شاذلی، مولد الجلیل حسن الشکل الجمیل
حافظ عبد الرحمٰن بن علی شیبانی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سید عبد القادر اسکندرانی، الحقائق فی قراء ۃ مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
محمد بن محمد دمیاطی، مولد العزب
شیخ محمد ہاشم رفاعی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شیخ محمد ہشام قبانی، المولد فی الاسلام بین البدعۃ والایمان
سعید بن مسعود بن محمد کازرونی، تعریب المتقی فی سیر مولد النبی المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شیخ محمد نوری بن عمر بن عربی بن علی نووی شافعی، الابریز الدانی فی مولد سیدنا محمد العدنانی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
شیخ محمد نوری بن عمر بن عربی بن علی نووی شافعی، بغیۃ العوام فی شرح مولد سید الانام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
زین العابدین محمد عباسی، الجمع الزاہر المنیر فی ذکر مولد البشیر النذیر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو شاکر عبد اﷲ شلبی، الدر المنظم شرح الکنز المطلسم فی مولد النبی المعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،(چشتی)۔
سیف الدین ابو جعفر عمر بن ایوب بن عمر حمیری ترکمانی دمشقی حنفی، الدر النظیم فی مولد النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو ہاشم محمد شریف النوری، احراز المزیۃ فی مولد النبی خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
بدر الدین یوسف المغربی، فتح القدیر فی شرح مولد الدردیر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو الفتوح الحلبی، الفوائد البہیۃ فی مولد خیر البریۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سویدان عبد اللہ بن علی الدملیجی المصری، مطالع الانوار فی مولد النبی المختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابن علان محمد علی الصدیقی المکی، مورد الصفا فی مولد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سید محمد بن خلیل الطرابلسی المعروف بالقاوقجی، مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن محمد العطار الجزائری، الورد العذب المبین فی مولد سید الخلق اجمعین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو الحسن احمد بن عبد ﷲ البکری، کتاب الانوار ومفتاح السرور والافکار فی مولد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
احمد بن علی بن سعید، طل الغمامۃ فی مولد سید تہامۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابن الشیخ آق شمس دین حمد اللہ، المولد الجسمانی والمورد الروحانی
محمد بن حسن بن محمد بن احمد بن جمال الدین خلوتی سمنودی، الدر الثمین فی مولد سید الاولین والآخرین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔

میلاد کے لغوی اور اصطلاحی معنی محافل منعقد کرکے میلاد کا تذکرہ کرنا ہے جو ہم نے مذکورہ احادیث مبارکہ سے ثابت کیا ہے۔ آپ لوگ میلاد کی نفی میں ایک حدیث لاکر دکھادو ، جس میں واضح طور پر یہ لکھا ہو کہ میلاد نہ منایا جائے ۔ حالانکہ کئی ایسے کام ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے نہیں کئے مگر ہم اسے کرتے ہیں کیونکہ اس کام کے کرنے سے منع نہیں کیا گیا ہے لہٰذا وہ کام جائز ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)