Monday 14 October 2019

فضائل و مناقب حضرت عمار بن یاسر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ

1 comments
فضائل و مناقب حضرت عمار بن یاسر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ

محترم قارئینِ کرام : حضرت عمار بن یاسر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا یوم شہادت سات (7) صفر المظفر کو ہے ۔ حضرت عمار بن یاسر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ عظیم المرتب صحابی رسول رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ہیں ، حضرت عمار بن یاسر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے دور اسلام کے شروع میں ہی اسلام قبول کر لیا تھا ، بعض روایات کے مطابق پہلے سات افراد جنہوں نے اسلام قبول کیا ان میں سے ایک حضرت عمار بن یاسر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بھی ہیں ۔ حضرت عمار بن یاسر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے والد محترم حضرت یاسر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور والدہ محترمہ حضرت بی بی سمیہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کا شمار اسلام کے پہلے شہیدوں میں ہوتا ہے ، ابوجہل اور دیگر مشرکین کے حکم پر حضرت عمار بن یاسر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما کے والد کو تازیانے مار مار کر شہید کیا گیا اور ان کی والدہ محترمہ حضرت سمیہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کے دونوں پیروں کو دو اونٹوں سے باندھ کر مختلف سمتوں میں دوڑایا گیا یہاں تک کہ ان کے جسم مبارک کے دوٹکڑے ہوگئے ۔

آپ کا نام و نسب یہ ہے

عمار بن یاسر بن عامر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما بن مالک بن کنانہ بن قیس بن وذیم ۔

آپ کی کنیت

ابو یقظان تھی

آپ کی نسبت

عنسی ہے ۔

مکہ کے رہنے والے اور بنی مخزوم کے موالی میں سے تھے ۔

آپ کا شمار ابتدائے اسلام میں مسلمان ہونے والے ان چند مسلمانوں میں ہوتا ہے جو جنگ بدر میں شامل ہوئے تھے ، آپ کی والدہ محترمہ کا نام سمیہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا تھا ، آپ بھی بنی مخزوم کے موالی میں شامل تھیں ، اور آپ کی والدہ کا شمار بھی عظیم صحابیات میں ہوتا ہے ۔

عرب کی سرزمین اسلام کی نورانی کرنوں سے مُنوّر ہوئی توآپ کے ساتھ ساتھ والد ماجد حضرت یاسر اور والدہ ماجدہ حضرت بی بی سُمَیَّہ اور بھائی حضرت عبداللہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُم کا سینہ بھی ایمان کی کِرنوں سے جگمگانے لگا۔ [طبقات ابن سعد،ج 3،ص186]

چونکہ یہ مقدس گھرانا غلامی کی زندگی بسر کررہا تھا اس لئے کفارِ قریش پورے گھرانے کو طرح طرح کی اذیتیں اور تکالیف دینے لگے، حضرت بی بی سمیہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہَا ایک نِڈر اور بہادر خاتون تھیں ایک مرتبہ ابوجہل نے گالیاں بکتے ہوئے حضرت بی بی سمیہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہَا کی ناف کے نیچے اس زور سے نیزہ مارا کہ وہ خون میں لَت پَت ہو کر گرپڑیں اور اسلام کی سب سے پہلی شہید خاتون ہونے کا اعزاز حاصل کیا ۔ [تاریخ ابن عساکر،ج 43،ص367]

پھر والد ماجد حضرت یاسر اور بھائی حضرت عبد اللہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُمَا بھی کفار و مُشرکین کا ظلم و ستم سہتے سہتے جام ِ شہادت سے سیراب ہوکر اَبدی میٹھی نیند سو گئے ۔ [الاصابہ،ج6ص500،چشتی]

ان مقدس حضرات کی شہادت کے بعد بھی کفارِ مکہ کو حضرت عمار رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ پر رحم نہ آیا کبھی ایمان سے لبریز سینے پر بھاری پتھر(Stone) رکھ دیتے تو کبھی پانی میں غوطے دے کر بے حال کر دیتے اور کبھی آگ سے جسم داغدار کرکے نڈھال کر دیتے تھے ۔ [الکامل لابن اثیر،ج 1،ص589]

یہاں تک کہ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی پیٹھ مبارک ان زخموں سے بھر گئی، بعد میں کسی نے آپ کی پیٹھ کو دیکھا تو پوچھا : یہ کیسے نشانات ہیں؟ ارشاد فرمایا : کفارِ قریش مجھے مکہ کی تپتی ہوئی پتھریلی زمین پر ننگی پیٹھ لٹاتے اور سخت اذیتیں اور تکالیف پہنچاتے تھے، یہ ان زخموں کے نشانات ہیں۔ [طبقات ابن سعد،ج 3،ص188]

عمر بن حکم کہتے ہیں کہ : عمار رضی اللہ عنہ کو اتنی سزائیں دی جاتیں کہ انہیں خود معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں ، یہی حال صہیب رضی اللہ عنہ کا تھا، انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی : وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا . جن لوگوں نے ظلم ڈھائے جانے کے بعد راہِ الہی میں ہجرت کی ۔ (النحل : 41)

عمار رضی اللہ عنہ نے بدر سمیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ تمام غزوات میں شرکت کی ، آپ نے پہلے حبشہ کی جانب ہجرت کی اور پھر مدینہ کی جانب ہجرت کی ۔ (سير أعلام النبلاء" (3/ 247)

آپ رضی اللہ عنہ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں اللہ تعالی نے شیطان سے پناہ دی ہوئی تھی : صحیح بخاری : (3287) میں علقمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں ملک شام گیا، تو وہاں جا کر میں نے پوچھا : یہاں کون (سی نامور شخصیت) موجود ہے ؟ تو انہوں نے بتلایا : ابو درداء رضی اللہ عنہ ہیں ، پھر انہوں نے کہا : کیا تم میں ایسا شخص نہیں ہے جسے اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی شیطان سے پناہ دی ہے ؟ ان کی مراد عمار بن یاسر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ تھے ۔

آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سراپا ایمان تھے ، آپ کی رگ رگ، گوشت پوست اور ہڈی ہڈی ایمان سے لبریز تھی : امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام میں سے ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (عمار مشاشہ (ہڈی کا وہ نرم حصہ جسے چبایا جا سکتا ہے) تک ایمان سے بھرا ہوا ہے ۔ اسے ناصر البانی نے "صحیح ابن ماجہ" میں صحیح قرار دیا ہے ۔

امام مناوی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : ایمان عمار رضی اللہ عنہ کے رگ و پے ، اور ہڈیوں میں اس طرح رچ بس گیا کہ اسے اب جدا کرنا ناممکن ہے ، اس لئے کفارہ مکہ کی طرف سے دی جانے والی شدید جسمانی سزاؤں کی وجہ سے مجبورا کلمہ کفر انہیں نقصان نہیں دے گا ، اور "فتح الباری" میں ہے کہ : یہ خوبی صرف اسی شخص میں پیدا ہوسکتی ہے جسے اللہ تعالی شیطان مردود سے محفوظ فرما لے" انتہی ۔ (فيض القدير" (6/ 4)،چشتی)

بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کے نقش قدم پر چلنے ، اور ان کا طریقہ اپنانے کی رہنمائی فرمائی : جامع ترمذی میں حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ بیٹھے ہوئے تھے، تو آپ نے فرمایا : مجھے نہیں معلوم کہ میں تمہارے درمیان کتنی دیر رہوں گا ؛ چنانچہ تم میرے بعد لوگوں کی اقتدا کرنا - آپ نے ابو بکر اور عمر کی جانب اشارہ فرمایا - اور عمار کے طریقے کو اپنانا ، اور جو تمہیں ابن مسعود احادیث بیان کریں، ان کی تصدیق کرنا ۔ شیخ ناصر البانی نے اسے "صحیح ترمذی" میں صحیح قرار دیا ہے ۔

صاحب کتاب تحفۃ الأحوذی کہتے ہیں : حدیث میں مذکور عربی لفظ "ھدی" سے مراد سیرت اور طریقہ ہے ، مطلب یہ ہے کہ : عمار کے طریقے کے مطابق چلو ، اور اسی کا انداز اپناؤ" انتہی ۔

عمار رضی اللہ عنہ فقیہ اور زاہد تھے

امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : عمار رضی اللہ عنہ سے ایک مسئلے کے بارے میں پوچھا گیا ، تو انہوں نے وضاحت طلب کی : کیا یہ مسئلہ در پیش ہوچکا ہے ؟ لوگوں نے کہا : "نہیں" تو آپ نے جواب دیا : اسےچھوڑدو ! جب پیش آئے گا تو دیکھ لیں گے ، اور تمہیں اس کا حکم بھی بتلا دیں گے ۔

عبد اللہ بن ابو ہذیل رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : میں نے عمار رضی اللہ عنہ کو ایک درہم کے بدلے راشن خریدتے ہوئے دیکھا ، پھر انہوں نے راشن اپنی کمر پر اٹھا لیا ، حالانکہ وہ اس وقت کوفہ کے امیر تھے ۔

ابو نوفل بن ابو عقرب کہتے ہیں : عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما بہت کم بات کرتے اور زیادہ خاموش رہتے تھے ۔ (سير أعلام النبلاء" (3/ 256))

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشین گوئی کی تھی کہ عمار رضی اللہ عنہ کو ایک باغی گروہ قتل کریگا :

بخاری شریف کے اندر یہ حدیث شریف موجود ہے کہ مسجد نبوی کی تعمیر میں جب حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ دو دو پتھر اٹھا کر لارہے تھے ، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی، جو عمار کو جہنم کی طرف بلا رہی ہوگی اور عمار ان کو جنت کی طرف بلا رہے ہوںگے ۔
عن عکرمۃ قال : قال لي ابن عباس ولابنہ علی: انطلقا إلی أبي سعید فاسمعا من حدیثہ، فانطلقنا، فإذا ہو في حائط یصلحہ، فأخذہ رداء ہ فاحتبي، ثم أنشأ یحدثنا حتی أتی علی ذکر بناء المسجد، فقال: کنا نحمل لبنۃ لبنۃ وعمار لبنتین لبنتین، فرأہ النبي صلی اللہ علیہ وسلم، فجعل ینفض التراب عنہ، ویقول: ویح عمار تقتلہ الفئۃ الباغیۃ یدعوہم إلی الجنۃ ویدعونہ إلی النار، قال: یقول عمار: أعوذ باللہ من الفتن۔ (بخاري شریف، کتاب الصلاۃ، باب التعاون في بناء المسجد، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۶۴، رقم: ۴۴۲، ف: ۴۴۷، وکذا في کتاب الجہاد، باب مسح الغبار عن الرأس ۱/ ۳۹۴، رقم : ۲۷۲۸، ف: ۲۸۱۲،چشتی)

یہ پیشگوئی اس طرح پوری ہوئی کہ حضرت عمار رضی ﷲ تعالیٰ عنہ جنگ صفین کے دن حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے اور حضرت معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھیوں کے ہاتھ سے شہید ہوئے ۔ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ جنگ صفین میں حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ یقینا حق پر تھے اور حضرت معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا گروہ یقینا خطا کا مرتکب تھا ۔ لیکن چونکہ ان لوگوں کی خطا اجتہادی تھی لہٰذا یہ لوگ گنہگار نہ ہوں گے کیونکہ رسول ﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ : عن عمرو بن العاص أنہ سمع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: إذا حکم الحاکم فاجتہد، ثم أصاب، فلہ أجران، وإذا حکم فاجتہد ثم خطأ، فلہ أجر ۔ کوئی مجتہد اگر اپنے اجتہاد میں صحیح اور درست مسئلہ تک پہنچ گیا تو اس کو دوگنا ثواب ملے گا اور اگر مجتہد نے اپنے اجتہاد میں خطا کی جب بھی اس کو ایک ثواب ملے گا ۔ (بخاري، کتاب الاعتصام، باب أجر الحاکم إذا اجتہد، النسخۃ الہندیۃ ۲/ ۱۰۹۲، رقم: ۷۰۵۵، ف: ۷۳۵۲،چشتی)،(حاشيه بخاری بحواله کرمانی جلد ۱ ص ۵۰۹ باب علامات النبوة) ۔

اس لیے حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی شان میں لعن طعن ہرگز ہرگز جائز نہیں کیونکہ بہت سے صحابہ کرام رضی ﷲ تعالیٰ عنہم اس جنگ میں حضرت معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے ۔ پھر یہ بات بھی یہاں ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ مصری باغیوں کا گروہ جنہوں نے حضرت امیرالمؤمنین عثمان غنی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا محاصرہ کر کے ان کو شہید کر دیا تھا یہ لوگ جنگ صفین میں حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے لشکر میں شامل ہو کر حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے لڑ رہے تھے تو ممکن ہے کہ گھمسان کی جنگ میں انہی باغیوں کے ہاتھ سے حضرت عمار رضی ﷲ تعالیٰ عنہ شہید ہوگئے ہوں ۔ اس صورت میں حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بالکل صحیح ہوگا کہ ” افسوس اے عمار ! تجھ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا ” اور اس قتل کی ذمہ داری سے حضرت معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا دامن پاک رہے گا ۔ ِ وﷲ تعالیٰ اعلم ۔ بہر حال حضرت معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی شان میں لعن طعن کرنا رافضیوں کا مذہب ہے حضرات اہل سنت کو اس سے پرہیز کرنا لازم و ضروری ہے ۔ (اس پر ہم تفصیل سے لکھ چکے ہیں جسے آپ اس لنک میں پڑھ سکتے ہیں : https://faizahmadchishti.blogspot.com/2019/09/blog-post_88.html

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اور ان کے والدین کو جنت کی خوشخبری بھی سنائی : چنانچہ حاکم : (5666) کی روایت کے مطابق جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمار اور انکے اہل خانہ کے پاس سے گزرے ، انہیں سزائیں دی جا رہی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (آل عمار اور آل یاسر خوش ہو جاؤ، تمہارے ساتھ جنت کا وعدہ ہے)" حاکم رحمہ اللہ نے اسے نقل کرنے کے بعد کہا: "یہ حدیث صحیح مسلم کی شرائط ہے، اور بخاری و مسلم نے اسے روایت نہیں کیا" انکی اس بات پر امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی موافقت کی ہے ۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں : تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ آپ علی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ جنگ صفین میں سن 37 ہجری میں داغِ مفارقت دے گئے، ان کی اس وقت 93 سال عمر تھی، اس بات پر بھی اس کا اتفاق ہے کہ آپ ہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: ( إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمانِ) النحل/ 106" انتہی ۔ مزید کیلئے دیکھیں : "سير أعلام النبلاء" (3/ 245-259) ، " الإصابة" (4/473-474) ، "تهذيب الكمال" (21/215-221،چشتی)

حضرت عمار رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے جنگ بدر سمیت رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلٰہ وسلَّم کے ساتھ تمام غزوات میں شرکت کی ، آپ انتہائی بہادرتھے ، کسی بھی موقع پر آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلٰہ وسلَّم کو کبھی پشت نہیں کی اور نہ ہی کبھی جنگ سے فرار کیا، کیونکہ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلٰہ وسلَّم نے انہیں شیطان سے پناہ کی ضمانت دی ہوئی تھی ۔ (صحیح بخاری 3287)

آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا مقبرہ شام کے شہر رقہ میں موجود ہے ، جس کو خارجی داعشی گروہ نے پہلے راکٹ سے نقصان پہنچایا اور پھر بم دھماکے سے مکمل شہید کر دیا تھا ۔
حضرت عمار رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے : میں نے رسولُ اللّٰہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہمراہی میں شیطان اور انسان سے جنگ لڑی ہے ، کسی نے حیرت سے پوچھا : انسان سے جنگ لڑی ہے یہ تو سمجھ میں آتا ہے مگر شیطان سے کس طرح جنگ لڑی ؟
ارشاد فرمایا : ایک مرتبہ ہم نے دورانِ سفر کسی جگہ پڑاؤ کیا تو میں نے اپنا مشکیزہ اٹھایا اور پانی بھرنے کےلئے چل پڑا ، مجھے دیکھ کر نبی کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے فرمایا : کوئی تمہارے پاس آئے گا اور پانی بھرنے سے روکے گا۔ جب میں کنویں کے قریب پہنچا توایک کالا کلَوٹا شخص بڑی تیزی سے میری جانب لپکا اور کہنے لگا : جب تک کوئی گناہ نہیں کروگے میں پانی نہیں بھرنے دوں گا، یہاں تک کہ ہم دونوں میں لڑائی شروع ہوگئی اچانک میں نے اس کوپچھاڑ دیا اور قریب پڑا ہوا پتھر اٹھا کر اس پر دے مارا جس کی وجہ سے اس کی ناک ٹوٹ گئی اور چہرہ بگڑ گیا، اس کے بعد مشکیزے میں پانی بھرا اور بارگاہِ رسالت صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم میں حاضر ہوگیا ، پیارے آقا صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے پوچھا : کیا تمہارے پاس کوئی آیا تھا ؟ میں نے عرض کی : جی ہاں! اور پورا قصہ گوش گزار کردیا ، ارشاد فرمایا : کیا تم جانتے ہو وہ کون تھا ؟ عرض کی : جی نہیں ، فرمایا : وہ شیطان تھا ۔ (طبقات ابن سعد،ج 3،ص190)

صاحبو! شیطان سے جنگ کرنے، اس کا حلیہ بگاڑنے والے یہ جاں نثار، وفادار اور فرمانبردار صحابی رسول حضرت سیّدنا اَبُو الیَقظان عمار بن یاسر رضیَ اللہُ تعالٰی عنہما تھے۔

فضائل و مناقب

جنت عمار رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی مُشتاق ہے ۔ [ترمذی،ج 5،ص438، حدیث:3822]

جس نے عمار رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ سے بغض رکھا اللّٰہ تَعَالٰی نے اسے مبغوض رکھا ۔ [مسند امام احمد،ج 6،ص6، حدیث:16814]

ایک بار شانِ عمار رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کا یوں ذکر فرمایا : کتنے ہی ایسے کمبل پوش ہیں کہ لوگ جن کی کوئی پروا نہیں کرتے لیکن اگر وہ کسی بات کی قسم کھالیں تو اللہ تَعَالٰی ضروران کی قسم کو پوری فرمادیتاہے اور ان ہی لوگوں میں عمار بن یاسرکا شمار ہوتا ہے ۔ [معجم اوسط،ج4،ص194، حدیث: 5686]

ایک مرتبہ یوں فرمایا : اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے عمار رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کو سر سے لے کر پاؤں تک ایمان سے بھر دیا ہے، عمار کے خون اور گوشت میں ایمان سرایت کرچکا ہے ۔ [تاریخ ابن عساکر،ج43،ص393]

آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی گفتگو بہت ہی کم اور خاموشی طویل ہواکرتی تھی جبکہ اکثر و بیشتر خوفِ خدا میں ڈوبے رہتے اور آنے والے فتنوں سے پناہ مانگا کرتے تھے ۔ [تاریخ ابن عساکر،ج 43،ص456]

آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ روزانہ مغرب کی نماز کے بعد چھ (6) رکعت نفل ضرور پڑھتے تھے کسی نے وجہ پوچھی تو فرمایا:میں نے اپنے محبوب آقا صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کو مغرب کے بعد چھ رکعتیں ادا کرتے دیکھا تو انہوں نے ارشاد فرمایا کہ جو مغر ب کے بعد چھ رکعتیں ادا کرے گا اس کے گناہ معاف کردیئے جائیں گے اگرچہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں ۔ [معجمِ اوسط،ج7،ص255، حدیث: 7245]

ایک مرتبہ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کا گزر ایک ایسی جگہ سے ہوا جہاں ایک مکان تعمیر ہورہا تھا مالک ِمکان نے آپ کو دیکھا توکہا : آئیے اور میرا گھردیکھ کر بتائیے کہ کیسا بنا ہے ؟ گھر دیکھنے کے بعد آپ نے فرمایا: بڑا مضبوط بنایا ہے ، خوب غور و خوض بھی کیا ہے لیکن عنقریب تمہیں موت کے شکنجے میں پھنس جانا ہے ۔ [تاریخ ابن عساکر،ج 43،ص445،چشتی]

ایک بار کچھ لوگ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے گرد حلقہ بنائے بیٹھے تھے کہ بیماری کا تذکرہ ہواتوایک دیہاتی نے فخریہ اندا ز میں کہا : میں تو کبھی بیمار نہیں ہوا ، یہ سنتے ہی آپ نے فرمایا : تُو ہم میں سے نہیں ہے کیونکہ کامل ایمان والے کو مصیبتوں کے ذریعے آزمایا جاتا ہے اور اس کے گناہ اس طرح گرتے ہیں جس طرح درخت کے پتے جھڑتے ہیں ۔ [شعب الایمان،ج 7،ص178، حدیث:9913]

آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ سے چند اشعار بھی منقول ہیں چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہِ رحمۃُ الرَّحمٰن فرماتے ہیں : حضرت ابوبکر صدیق رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے حضرت بلال رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کو خرید کر آزاد کیا تو سردار بن سردار عمار بن یاسر رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُما نے اشعار کہے (پہلے شعر کا ترجمہ یہ ہے) ۔ اللہ جزائے خیر دے بلال اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے ابوبکر کو ، اور اُمَیّہ اور ابوجہل کو رُسوا کرے ۔ [فتاویٰ رضویہ ،ج 28،ص511،ماخوذاً]

آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ سرکارِ دوعالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے ساتھ تمام غزوات میں شریک ہوئے ۔ [تاریخ ابن عساکر،ج43،ص356]

جنگِ یمامہ میں ایک موقع پر مسلمانوں میں کھلبلی مچ گئی تو آپ ٹِیلے پر چڑھ گئے اور بلند آواز سے کہا : اے مسلمانوں کے گروہ! جنت تو امن والی جگہ ہے ، بھاگتے کہاں ہو؟ میری طرف آؤ !میں عمار بن یاسر ہوں، اس دوران ایک کافر نے آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ پر حملہ کیا تو آپ کا ایک کان کَٹ کر زمین پر گرا اور پھڑکنے لگا،اس کے باوجود آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نہایت جوش و خروش سے جہاد میں مصروف رہے ۔ [طبقات ابن سعد،ج 3،ص192]

ایک مرتبہ کسی نے آپ کو کٹے ہوئے کان پر طعنہ دیا تو آ پ نے فرمایا: تم مجھےطعنہ دے رہے ہو حالانکہ یہی کٹا ہوا کان مجھے زیادہ اچھا لگتا ہے کیونکہ یہ راہِ خدا میں قربان ہوا ہے ۔

آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے دورِ خلافت میں 21 مہینے تک کوفہ کی گورنری کے فرائض سر انجام دئیے ۔ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے بروز بدھ 7 صفر المظفر سن 37 ہجری میں جنگِ صِفِّین میں حضرت علی کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجہَہُ الْکریم کے دفاع میں لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرمایا، اس وقت آپ کی عمر مبارک 93سال تھی ۔ [تاریخ ابن عساکر،ج43،ص443، 449،359] ۔ اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

1 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔