واقعہ حضرت ثوبیہ رضی اللہ عنہا اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ۔ اس مسلمان کا کیا حال ہوگا جو میلاد پاک میں مال خرچ کرتا ہے
محترم قارئینِ کرام : وہابی نجدی مذھب کے بانی محمد ابن عبد الوہاب نجدی کے بیٹے شیخ عبد الله بن محمد بن عبد الوهاب نے اپنی کتاب “مختصر سيرة الرسول صلى الله عليه وسلم” میں رقم کیا ہے : وأرضعته صلى الله عليه وسلم ثويبة عتيقة أبي لهب، أعتقها حين بشرته بولادته صلى الله عليه وسلم. وقد رؤي أبو لهب بعد موته في النوم فقيل له: ما حالك ؟ فقال: في النار، إلا أنه خفف عني كل اثنين، وأمص من بين إصبعي هاتين ماء ۔ وأشار برأس إصبعه ۔ وإن ذلك بإعتاقي ثويبة عندما بشرتني بولادة النبي صلى الله عليه وسلم وبإرضاعها له ۔
ترجمہ : ابو لہب کی آزاد کردہ باندی “ثویبہ” کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت رضاعت کا شرف ملا ، ابو لہب نے انہيں اس وقت آزاد کیا تھا جس وقت انہوں نے اسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت باسعادت کی بشارت سنائی تھی ۔ اور ابو لہب کے مرنے کے بعد اسے خواب میں دیکھا گيا ، اس سےپوچھا گیا کہ تیرا کیا حال ہے ؟ تو اس نے کہا : میں عذاب میں ہوں البتہ ہر پیر کے دن مجھ سے عذاب ہلکا کیا جاتا ہے ، اور میں اپنی ان دونوں انگلیوں کے درمیان پانی چوستا ہوں (اس نے اپنی انگلی کی پور کی جانب اشارہ کیا) اور یہ ثویبہ کو اس موقع پر آزاد کرنے کی برکت ہے جس وقت اس نے مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت کی بشارت دی تھی ، اور خدمت رضاعت کا شرف حاصل کیا تھا ۔ شیخ عبد الله بن محمد بن عبد الوهاب نجدی نے اس روایت سے جواز میلاد پر استدلال کرتے ہوئے علامہ ابن جوزی کا قول نقل کیا ہے : قال ابن الجوزي : فإذا كان هذا أبو لهب الكافر الذي نزل القرآن بذمه جوزي بفرحه ليلة مولد النبي صلى الله عليه وسلم به فما حال المسلم الموحد من أمته صلى الله عليه وسلم يسر بمولده ؟۔ ترجمہ:ابن جوزی نے کہا:جب کافر ابو لہب کہ جس کی مذمت میں قرآن کریم کی سورت نازل ہوئی اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت کی شب خوش ہونے پر ثواب دیا جارہا ہے تو آپ کی امت کا مؤمنِ موحّد جب آپ کی ولادت پر اظہار مسرت کرتا ہے تو وہ کس قدر نوازا جائے گا – (مختصر سيرة الرسول صلى الله عليه وسلم لعبد الله بن محمد بن عبد الوهاب، باب رضاعه من ثويبة عتيقة أبي لهب ،ج 1، ص10- مطبوعہ: دار الفيحاء دمشق ـ مختصر سيرة الرسول صلى الله عليه وسلم لعبد الله بن محمد بن عبد الوهاب، باب رضاعه من ثويبة عتيقة أبي لهب ،ج 1،ص16/ 17-مطبوعہ: دار السلام الرياض،چشتی)،(مختصر سیرۃ الرسول مترجم اردو صفحہ نمبر 32 عبد اللہ بن محمد بن عبد الوہاب نجدی) ، (مختصر سیرۃ الرسول عربی صفحہ نمبر 23 عبد اللہ بن محمد بن عبد الوہاب نجدی) ، (بیان المولد النبوی صفحہ نمبر 70)
ابو لہب جیسے کافر نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کی خوشی میں ثوبیہ کو آزاد کیا تو ہر پیر کو عذاب میں کمی ہو جاتی ، (توفیق الباری شرح بخاری جلد 8 صفحہ 194 مترجم وہابی عالم)
امامُ الوہابیہ و دیابنہ علامہ حافظ ابن قیم جوزی لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم جب پیدا ہوئے ثوبیہ نے ابو لہب کو خوشخبری دی اس نے اسے اس خوشی میں آزاد کردیا جب مرگیا تو اسے مرنے کے بعد عذاب میں کمی ہوتی تھی اس کی انگلی سے مشروب جاری ہوتا جسے وہ پیتا ۔ (تحفۃُالودود صفحہ نمبر 33)
کب تک انکار کروگے نادانو جب ایک کافر کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی ولادت کی خوشی منانے پر عذاب میں کمی کر دی جاتی ہے یہ سب تعظیم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم میں ہے تو جب مسلمان اپنے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی ولادت کی خوشی منائے گا اسے کتنا اجر و فائدہ ملے گا امام عسقلانی ، شیخ عبد الحق محدث دہلوی اور امام جزری علیہم الرّحمہ جیسے جلیل القدر محدثین فرماتے ہیں اللہ کی قسم جس کے قبضے میں ہمارے جان ہے اللہ مسلمان کو اجر عطاء فرمائے گا ۔ یہ تم لوگوں کی بد نصیبی و بغض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی زندہ مثال ہے کبھی احادیث کو ضعیف کہہ کر انکار ، کبھی کافر کے طعنے دے کر انکار ظالمو یہ خواب صحابی رسول نے بیان کیا ہے اور کبھی سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کرنے کےلیئے خود حدیث و روایت کا انکار کردیتے صحیح بخاری شریف اور تمہارے بڑوں سے دوسرا حوالہ یعنی وہابی علماء سے پیش خدمت ہے اللہ تعالیٰ ہدایت عطاء فرمائے آمین ۔
شیخ محقق شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ابولہب کی باندیوں میں سے ثویبہ لونڈی نے ابولہب کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادت کی خوشخبری دی جسے سن کر ابولہب نے اپنی باندی ثویبہ کو آزاد کردیا۔ ابولہب کے مرنے کے بعد اس کے کسی ساتھی نے اسے خواب میں دیکھ کر اس کاحال پوچھا تو جواب دیا جہنم میں پڑا ہوں البتہ اتنا ضرور ہے کہ ہر پیر کی رات کو عذاب میں تخفیف ہوجاتی ہے اور اپنی ان دو انگلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ان انگلیوں سے میں نے اپنی لونڈی ثویبہ کو اس لئے آزاد کیا تھا کہ اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادت کی خوشخبری دی تھی ۔ اس صلہ میں ان دونوں انگلیوں سے کچھ پانی پی لیتاہوں ۔ (مومن کے ماہ و سال صفحہ 84-85)
میلاد شریف کرنے والوں کے لئے اس میں سند ہے جوشب میلاد خوشیاں مناتے ہیں اور مال خرچ کرتے ہیں ۔ یعنی ابولہب کافر تھا اور قرآن پاک اس کی مذمت میں نازل ہوا ۔ جب اسے میلاد کی خوشی منانے اور اپنی لونڈی کے دودھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے لئے خرچ کرنے کی وجہ سے جزا دی گئی تو اس مسلمان کا کیا حال ہوگا جو محبت اور خوشی سے بھرپور ہے اور میلاد پاک میں مال خرچ کرتا ہے ۔ (مدارج النبوۃ مترجم اردو جلد دوم صفحہ نمبر 35)
اِمام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ روایت کی تشریح جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے ایک کافر چچا ابولہب کا ذکر ہے کہ اُسے بھی ﷲ تعالیٰ نے آمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی خوشی منانے پر اَجر سے محروم نہیں رکھا، حالاں کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالفین میں سرِفہرست تھا ۔ یہ ایسا بدبخت شخص تھا کہ ﷲ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اس کی مذمت میں پوری سورت نازل فرمائی۔ اِرشاد فرمایا : تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ ٭ مَا أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ ٭ سَيَصْلَى نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ ۔
ترجمہ : ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ ہو جائے (اُس نے ہمارے حبیب پر ہاتھ اُٹھانے کی کوشش کی ہے) اُسے اُس کے (موروثی) مال نے کچھ فائدہ نہ پہنچایا اور نہ ہی اُس کی کمائی نے عنقریب وہ شعلوں والی آگ میں جا پڑے گا ۔ (سورہ لہب، 111 : 1 - 3)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادتِ مبارکہ کے حوالہ سے مشہور واقعہ کتبِ اَحادیث میں مذکور ہے کہ ابو لہب نے اپنی ایک لونڈی ثویبہ کو وقتِ ولادت حضرت سیدہ آمنہ رضی ﷲ عنہا کی خدمت کے لیے بھیجا۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی تو ثویبہ دوڑتے ہوئے ابولہب کے پاس پہنچی اور اسے بھتیجا پیدا ہونے کی خوش خبری سنائی۔ بھتیجے کی پیدائش کی خبر سن کر ابولہب اتنا خوش ہوا کہ اُس نے وہیں اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہا : ثویبہ! جا میں نے تجھے نومولود (صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم) کی پیدائش کی خوشی میں آزاد کیا ۔
ابولہب جب حالت کفر پر ہی مر گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا کہ مرنے کے بعد تجھ پر کیا گزر رہی ہے ؟
اس نے جواب دیا کہ میں دن رات سخت عذاب میں جلتا ہوں لیکن جب پیر کا دن آتا ہے تو میرے عذاب میں کمی کر دی جاتی ہے اور میری انگلیوں سے پانی جاری ہو جاتا ہے جسے پی کر مجھے سکون ملتا ہے ۔ اِس تخفیف کا باعث یہ ہے کہ میں نے پیر کے دن اپنے بھتیجے (محمد صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم) کی ولادت کی خوش خبری سن کر اپنی خادمہ ثویبہ کو ان انگلیوں کا اشارہ کرتے ہوئے آزاد کر دیا تھا ۔
یہ واقعہ حضرت زینب بنت اَبی سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے جسے محدثین علیہم الرّحمہ کی کثیر تعدادنے واقعہ میلاد کے تناظر میں نقل کیا ہے ۔ اِمام بخاری رحمۃ اللہ علیہ (194۔ 256ھ) کی الصحیح میں مروی حدیث کے الفاظ یہ ہیں فلما مات أبولهب أريه بعض أهله بشرّ حيبة، قال له : ما ذا لقيت؟ قال أبولهب : لم ألق بعدکم غير أني سقيت في هذه بعتاقتي ثويبة ۔
ترجمہ : جب ابولہب مر گیا تو اس کے اہل خانہ میں سے کسی کو اُسے خواب میں دکھایا گیا ۔ وہ برے حال میں تھا ۔ (دیکھنے والے نے) اس سے پوچھا : کیسے ہو ؟
ابولہب نے کہا : میں بہت سخت عذاب میں ہوں ، اس سے کبھی چھٹکارا نہیں ملتا ۔ ہاں مجھے (اس عمل کی جزا کے طور پر) اس (انگلی) سے قدرے سیراب کر دیا جاتا ہے جس سے میں نے (محمد صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادت کی خوشی میں) ثویبہ کو آزاد کیا تھا ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب وأمهاتکم اللاتي أرضعنکم، 5 : 1961، رقم : 4813)(عبد الرزاق، المصنف، 7 : 478، رقم : 13955)(عبد الرزاق، المصنف، 9 : 26، رقم : 16350)(مروزي، السنة : 82، رقم : 290)(بيهقي، السنن الکبري، 7 : 162، رقم : 13701)(بيهقي، شعب الإيمان، 1 : 261، رقم : 281)(بيهقي، دلائل النبوة و معرفة أحوال صاحب الشريعة، 1 : 149) (ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 108،چشتی)(ابن ابی دنیا نے ’’کتاب المنامات (ص : 154، رقم : 263)‘‘ میں اسے حسن اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے )(بغوي، شرح السنة، 9 : 76، رقم : 2282)(ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 62 12)(سهيلي، الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام، 3 : 98، 99 13)(زيلعي، نصب الراية لأحاديث الهداية، 3 : 168 14)(ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 67 : 171، 172 15)(ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 229، 230 16)(عسقلاني، فتح الباري، 9 : 145 17) (عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 20 : 95 18)(شيباني، حدائق الأنوار، 1 : 134 19. عامري، شرح بهجة المحافل، 1 : 41 20)(انور شاه کشميري، فيض الباري علي صحيح البخاري، 4 :278)
یہ روایت اگرچہ مُرسَل ہے لیکن مقبول ہے ، اِس لیے کہ اِمام بخاری رحمۃ اللہ علیہ (194۔ 256ھ) نے اسے اپنی ’’الصحیح‘‘ میں نقل کیا ہے اور اَجل علماء و حفاظِ حدیث علیہم الرّحمہ نے اِس پر اِعتماد کرتے ہوئے اِس سے اِستشہاد و اِستناد کیا ہے ۔ ثانیاً یہ روایت فضائل و مناقب کے باب میں ہے نہ کہ حلال و حرام میں ؛ اور مناقب و اَحکام کے مابین حدیث کے اِستدلال میں فرق کو علماء خوب جانتے ہیں ۔
(1) اُصولِ حدیث میں مرسل اُس حدیث کو کہا جاتا ہے جس کی سند کا آخری حصہ یعنی تابعی سے اوپر کا کوئی راوی ساقط ہو ۔
(2) اِس کا حکم یہ ہے کہ جب اَجل تابعی تک یہ روایت صحیح ثابت ہوجائے تو قابلِ حجت ہوگی ۔
(3) تین فقہی مذاہب کے بانیان . اِمام اَعظم ابو حنیفہ (80۔ 150ھ)، اِمام مالک (93۔ 179ھ) اور اِمام اَحمد بن حنبل (164۔ 241ھ) علیہم الرّحمہ ۔ اور محدّثین کی کثیر جماعت کے نزدیک مرسل روایت قابلِ حجت ہوتی ہے بشرطیکہ ارسال کرنے والا ثقہ ہو اور وہ ثقہ ہی سے ارسال کرتا ہو ۔
(4) ان کی دلیل یہ ہے کہ ثقہ تابعی کے متعلق یقینی ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے متعلق ’’قال رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کذا او فعل کذا او فعل بحضرتہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے یہ فرمایا ، یا یہ کیا یا آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے سامنے یہ کیا گیا) ‘‘ تب ہی کہے گا جب وہ ثقہ راوی سے سنے گا ۔
(ذهبي، الموقظة في علم مصطلح الحديث : 38)(ذهبي، الموقظة في علم مصطلح الحديث : 39)(سخاوي، کتاب الغاية في شرح الهداية في علم الرواية، 1 : 273)(ابن کثير، الباعث الحثيث شرح اختصار علوم الحديث : 48)(ابن حجر عسقلاني، نزهة النظر بشرح نخبة الفکر في مصطلح حديث أهل الأثر : 36، 37)(سخاوي، کتاب الغاية في شرح الهداية في علم الرواية، 1 : 272 2)(ابن کثير، الباعث الحثيث شرح اختصار علوم الحديث : 48 3)(عبد الحق محدث دهلوي، مقدمة في أصول الحديث : 42، 43)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (773۔ 852ھ) ’’نزھۃ النظر بشرح نخبۃ الفکر فی مصطلح حدیث اھل الاثر صفحہ نمبر 37 میں لکھتے ہیں : اِمام اَحمد کے ایک قول اور مالکی و حنفی فقہاء کے مطابق حدیثِ مرسل مطلقاً مقبول ہوتی ہے، اور امام شافعی یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی اور سند (خواہ وہ سند متصل ہو یا مرسل) سے مرسل روایت کی تائید ہو جائے تو وہ مقبول ہے ورنہ نہیں ۔
ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ (م 1014ھ) شرح شرح نخبۃ الفکر میں لکھتے ہیں کہ ابن جریر نے یہ تصریح کی ہے کہ حدیث مرسل قبول کرنے پر تمام تابعین رضی اللہ عنہم کا اِجماع ہے اور کسی تابعی سے اس کا انکار منقول نہیں ۔ اور نہ اس کے بعد دو سو (200) سال تک اَئمہ میں سے کسی نے اس کا انکار کیا اور یہی وہ قرونِ فاضلہ ہیں جن کے خیر پر برقرار رہنے کی رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے شہادت دی ۔
ذیل میں ہم اِس روایت کے بارے میں چند ائمہ کرام کے ملفوظات نقل کریں گے ، جنہوں نے اِس واقعہ سے جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا اِستشہاد و اِستناد کیا ہے :
حافظ شمس الدین محمد بن عبد ﷲ جزری (م 660ھ) اپنی تصنیف ’’عرف التعریف بالمولد الشریف‘‘ میں لکھتے ہیں : فإذا کان أبولهب الکافر الذي نزل القران بذمه جوزيَ في النار بفرحه ليلة مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم به، فما حال المسلم الموحد من أمة النبي صلي الله عليه وآله وسلم يسر بمولده، وبذل ما تصل إليه قدرته في محبته صلي الله عليه وآله وسلم ؟ لعمري إنما يکون جزاؤه من ﷲ الکريم أن يدخله بفضله جنات النعيم ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں اُس ابولہب کے عذاب میں بھی تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت میں قرآن حکیم میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے ۔ تو اُمتِ محمدیہ کے اُس مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی محبت و عشق میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم ! میرے نزدیک ﷲ تعالیٰ ایسے مسلمان کو اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی خوشی منانے کے طفیل اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائے گا ۔ (سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206)(سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 65، 66)(قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 147)(زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 260، 261)(يوسف صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 366، 367 6)(نبهاني، حجة ﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 237، 238،چشتی)
حافظ شمس الدین محمد بن ناصر الدین دمشقی (777۔ 842ھ) ’’مورد الصادی فی مولد الہادی‘‘ میں فرماتے ہیں : قد صح أن أبالهب يخفّف عنه عذاب النار في مثل يوم الإثنين لإعتاقه ثويبة سرورًا بميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم ۔
ترجمہ : یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کرنے کے صلہ میں ہر پیر کے روز ابولہب کے عذاب میں کمی کی جاتی ہے ۔
اِس کے بعد محمد بن ناصر الدین دمشقی نے درج ذیل اَشعار پڑھے :
إذا کان هذا کافر جاء ذمه
وتبت يداه في الجحيم مخلَّدا
أتي أنه في يوم الاثنين دائما
يخفّف عنه للسّرور بأحمدا
فما الظن بالعبد الذي طولُ عمره
بأحمد مسروراً ومات موحدا
ترجمہ : جب ابولہب جیسے کافر کے لیے۔ جس کی مذمت قرآن حکیم میں کی گئی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں اُس کے ہاتھ ٹوٹتے رہیں گے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی منانے کی وجہ سے ہر سوموار کو اُس کے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔ تو کتنا خوش نصیب ہوگا وہ مسلمان جس کی ساری زندگی عبادتِ الٰہی اور میلاد کی خوشیوں میں بسر ہوئی اور وہ حالتِ اِیمان پر فوت ہوا ۔ (سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206)(سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 66)(نبهاني، حجة ﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 238) ۔ (صحیح بخاری ، کتاب النکاح) یہ حدیث کہیں مختصر اً اور کہیں مطولاً کتاب النکاح کے علاوہ بھی وارد ہوئی ہے، رقم احادیث اس طرح ہیں ۔ ۵۱۰۶، ۵۱۰۷، ۵۱۳۳ اور ۵۳۷۲) ۔
اے اہلِ اسلام : اس نعمت عظمی پر فرحت ومسرت کا اظہار کرنا تقاضۂ فطرت ہے ، جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت باسعادت کے موقع پر خوشی کا اظہار کرتا ہے اللہ تعالی اسے اجرعظیم وثواب جزیل عطافرماتاہے ۔ صحیح بخاری شریف اور دیگر کئی کتب حدیث میں الفاظ کے قدرے اختلاف کے ساتھ روایت مذکور ہے ، بعض روایتوں میں اختصار ہے اور بعض میں تفصیل ہے ، صحیح بخاری شریف ج 2،صفحہ 764،کی روایت کے الفاظ یہ ہیں : قال عروة و ثويبة مولاة لابی لهب کان ابولهب اعتقها فارضعت النبی صلی الله عليه وسلم فلما مات ابولهب اريه بعض اهله بشرحيبة قال له ماذا لقيت قال ابولهب لم الق بعدکم غير انی سقيت فی هذه بعتاقتی ثويبة ۔
ترجمہ : حضرت عروہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ثویبہ ابولہب کی باندی ہے ، ابو لھب نے انہیں آزاد کیا تھا تاکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دودھ پلائیں ، جب ابولہب مرگیا تو اس کے خاندان والوں میں کسی نے خواب میں اسے بدترین حالت میں دیکھا‘ اس سے کہا : تو نے کیا پایا ؟ ابو لہب نے کہا : میں نے تم لوگوں سے جدا ہونے کے بعد کچھ آرام نہیں پایا ‘ سوائے یہ کہ ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے اس (انگلی) سے سیراب کیا جاتا ہوں ۔ (صحیح بخاری شریف ،کتاب النکاح ،باب من قال لا رضاع بعد حولین ،جلد نمبر 2 ،ص764، حدیث نمبر: 4711 عربی،چشتی۔صحیح بخاری مترجم اردو جلد سوم صفحہ نمبر 224 ، 225)
اس روایت کی شرح کرتے ہوئے شارحین صحیح بخاری شریف علامہ بدرالدین عینی حنفی اور حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی علیہما الرّحمہ اپنی اپنی شرح میں دیگر کتب حدیث کے حوالہ سے تفصیلی روایت تحریر فرماتے ہیں ۔ ہم یہاں علامہ بدرالدین عینی حنفی رحمۃ اللہ علیہ کی شرح عمدۃ القاری ج ،14 صفحہ 45، سے عبارت نقل کرتے ہیں : وذکر السهيلی ان العباس رضی الله تعالی عنه قال لمامات ابولهب رايته فی منامی بعد حول فی شرحال، فقال مالقيت بعدکم راحة الا ان العذاب يخفف عنی کل يوم اثنين، قال وذلک ان النبی صلی الله عليه وسلم ولد يوم الاثنين وکانت ثويبة بشرت ابالهب بمولده فاعتقها ۔
ترجمہ : حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب ابولہب مر گیا تو میں نے ایک سال کے بعد خواب میں اسے بدترین حالت میں دیکھا تو اس نے کہا : میں تم سے جداہونے کے بعد اب تک راحت نہیں پایا البتہ ہر پیر کے دن مجھ سے عذاب ہلکا کیا جاتاہے ۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں وہ اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پیر کے دن تولد ہوئے اور ثویبہ نے ابو لھب کو آپ کی ولادت باسعادت کی خوشخبری دی تو اس نے انہیں آزاد کردیا ۔ (عمدۃ القاری، کتاب النکاح ،باب من قال لا رضاع بعد حولین،ج14،ص45،چشتی) ۔ یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ ذیل میں ان کتب احادیث میں بھی موجود ہے : (سنن کبری للبیہقی کتاب النکاح ،حدیث نمبر:14297- مصنف عبدالرزاق ، کتاب المناسک ج7،۔حدیث نمبر:13546- جامع الاحادیث والمراسیل ، مسانید الصحابۃ ،حدیث نمبر:43545- کنزالعمال، ج6،کتاب الرضاع من قسم الافعال ،حدیث نمبر 15725)
سلف صالحین و علماء امت میں حافظ شمس الدین ابن الجزری نے اور حافظ شمس الدین بن ناصر الدین دمشقی علیہم الرّحمہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کے موقع پر خوشی منانے اور فرحت و مسرت کا اظہار کرنے پر اس روایت سے استدلال کیاہے ۔ حافظ شمس الدین بن ناصرالدین دمشقی فرماتے ہیں : قدصح ان ابا لهب يخفف عنه عذاب النار فی مثل يوم الاثنين باعتاقه ثويبة مسرورا بميلاد النبی صلی الله عليه وسلم ثم انشد ۔
ترجمہ : یہ صحیح روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت مبارک پر خوش ہو کر ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے ابو لہب سے پیر کے دن دوزخ کے عذاب میں تخفیف کی جاتی ہے پھر انہوں نے اشعار پڑھے ‘ اس کا ترجمہ یہ ہے : جب یہ (ابولھب) کافر ہے جس کی مذمت میں ’’ سورہ تبت یدا‘‘ نازل ہوئی اور وہ ہمیشہ دوزخ میں رہنے والا ہے تو احمد مجتبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی میلاد پر خوش ہونے کی وجہ سے ہمیشہ ہر پیر کے دن اس سے عذاب میں تخفیف کی جاتی ہے تو اس بندہ کے حق کس قدر اجر و ثواب کا گمان کیا جائے جو عمر بھر احمد مجتبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے میلاد کی خوشی منایا اور حالت ایمان میں انتقال کیا ۔ علاوہ ازیں اس کا ذکر ۔ (شرح المواہب للزرقانی ، ج1، ص 261 ، اور سبل الہدی والرشاد ،ج،1،ص367،چشتی) میں موجود ہے ۔
خاص طور پر میلاد شریف کے دن اہتمام کرنا خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے عمل مبارک سے ثابت ہے ، چنانچہ صحیح مسلم شریف میں ہے : عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ صَوْمِ الِاثْنَيْنِ فَقَالَ فِيهِ وُلِدْتُ وَفِيهِ أُنْزِلَ عَلَيَّ- ترجمہ : سیدنا ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روز دوشنبہ کے روزہ کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: یہ میری ولادت کا دن ہے اور اسی دن مجھ پر قرآن نازل کیا گیا ۔ (صحيح مسلم ، كتاب الصيام ، باب استحباب صيام ثلاثة أيام من كل شهر وصوم يوم عرفة وعاشوراء والاثنين والخميس، حدیث نمبر:1978)
اسی روایت کے مطابق ہمارے اسلاف جوکہ اپنے دور کے مستند مفسر ، محدث اور محقق رہے ہیں ان کے خیالات پڑھئے اور سوچئے کہ اس سے بڑھ کر جشن ولادت منانے کے اور کیا دلائل ہوں گے ؟
ابولہب وہ بدبخت انسان ہے جس کی مذمت میں قرآن کی ایک پوری سورۃ نازل ہوئی ہے لیکن محض اس وجہ سے کہ اس کی آزاد کردہ باندی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو دودھ پلایا تو اس کا فائدہ اس کے مرنے کے بعد بھی اس کو کچھ نہ کچھ ملتا رہا۔ سہیلی وغیرہ نے اس خواب کا اتنا حصہ اور بیان کیا ہے ۔ ابولہب نے حضرت عباس سے یہ بھی کہا کہ دوشنبہ پیر) کو میرے عذاب میں کچھ کمی کردی جاتی ہے ۔ علماء کرام نے فرمایا اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی تشریف آوری کی بشارت سنانے پر ثویبہ کو جس وقت ابولہب نے آزاد کیا تھا اسی وقت اس کے عذاب میں کمی کی جاتی ہے ۔ (میلاد رسول صفحہ نمبر 18)
شیخ محقق حضرت علامہ مولانا شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ ﷲ علیہ کا فرمان مبارک : میلاد شریف کرنے والوں کے لئے اس میں سند ہے جوشب میلاد خوشیاں مناتے ہیں اور مال خرچ کرتے ہیں ۔ یعنی ابولہب کافر تھا اور قرآن پاک اس کی مذمت میں نازل ہوا ۔ جب اسے میلاد کی خوشی منانے اور اپنی لونڈی کے دودھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے لئے خرچ کرنے کی وجہ سے جزا دی گئی تو اس مسلمان کا کیا حال ہوگا جو محبت اور خوشی سے بھرپور ہے اور میلاد پاک میں مال خرچ کرتا ہے ۔ (مدارج النبوۃ جلد دوم صفحہ نمبر 26،چشتی)
حضرت علامہ مولانا حافظ الحدیث ابن الجزری رحمۃ ﷲ علیہ کا فرمان مبارک : جب ابولہب کافر جس کی مذمت میں قرآن پاک نازل ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت کی خوشی میں جزا نیک مل گئی (عذاب میں تخفیف) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی امت کے مسلمان موحد کا کیا حال ہوگا ۔ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت کی خوشی مناتا ہو اور حضور کی محبت میں حسب طاقت خرچ کرتا ہو ۔ مجھے اپنی جان کی قسم ﷲ کریم سے اس کی جزا یہ ہے کہ اس کو اپنے فضل عمیم سے جنت نعیم میں داخل فرمائے گا ۔ (مواہب لدنیہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 27)
ان محدثین کرام اور اسلاف علیہم الرّحمہ کے خیالات سے ثابت ہے کہ جشن ولادت منانا اسلاف کا بھی محبوب فعل رہا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ جب کافر محمد بن عبد ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی آمد کی خوشی مناکر فائدہ حاصل کرسکتا ہے تو مسلمان محمد رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی آمد کا جشن مناکر کیوں فائدہ حاصل نہیں کرسکتا ؟ بلکہ ابن الجزری نے تو قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ میلاد منانے والوں کی جزا یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں جنت میں داخل فرمادے گا ۔
جہاں تک مروجہ طریقے سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم منانے کا سوال ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جیسے جیسے زمانہ ترقی کرتا رہا ، لوگ ہر چیز احسن سے احسن طریقے سے کرتے رہے ۔ پہلے مسجدیں بالکل سادہ ہوتی تھیں ، اب اس میں فانوس اور دیگر چراغاں کرکے اس کو مزین کرکے بنایا جاتا ہے ۔ پہلے قرآن مجید سادہ طباعت میں ہوتے تھے ، اب خوبصورت سے خوبصورت طباعت میں آتے ہیں وغیرہ اسی طرح پہلے میلاد سادہ انداز میں ہوتا تھا ، صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور تابعین اپنے گھروں پر محافلیں منعقد کرتے تھے اور صدقہ و خیرات کرتے تھے ۔
منکرین سے صرف اتنی گذارش ہے ایک کافر جس کی مذمّت میں قرآن نازل ہوا اگر وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادت پر بھتیجا سمجھ کر خوشی کا اظہار کرتا ہے تو اسے بھی فائدہ حاصل ہوتا ہے جبکہ ابولہب کافر تھا جب اسے میلاد کی خوشی منانے اور اپنی لونڈی کے دودھ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے لئے خرچ کرنے کی وجہ سے جزا دی گئی تو اس مسلمان کا کیا حال ہوگا جو محبت اور خوشی سے بھرپور ہے اور میلاد پاک میں مال خرچ کرتا ہے تم تو اس کافر سے بھی گئے گذرے ہو اور بد نصیب بھی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment