Tuesday 15 October 2019

غیر سیّد کا خود کو سیّد کہنے کا شرعی حکم

0 comments
غیر سیّد کا خود کو سیّد کہنے کا شرعی حکم

محترم قارئینِ کرام : خلیلِ ملّت حضرت علاّمہ مفتی خلیل احمد خان قادری مارہروی رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں : غیر سیّد اگر خود کو سیّد کہے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی لعنت کا مستحق ہے اور اس پر جنّت حرام ہے ۔ (فتاویٰ خلیلیہ جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 137 مطبوعہ ضیاء القرآن پبلیکینز لاہور)

اس پر آشوب دور میں جہاں اور بہت سی برائیوں کا راج ہے وہاں شجرے بدلنے کی بیماری بھی ایک ناسور کی طرح ہمارے معاشرے میں پھیل گئی ہے .اس کی وجوہات بیشتر ہیں : عزت و مقام پانے کے لئے، اپنے نجس شجرے کو چھپانے کے لئے(نجس اس لئے کیونکہ شجرہ وہی بدلے گا جس کو اپنے باپ کے نام سے شرمندگی ہوگی) ، کسی شجرے کو بدنام کرنے کے لئے اور سادات کے احترام ختم کرنے کے لیئے . اس ناسور کی وجہ سے سادات عظام کا بہت نقصان ہوا ہے.جن کی محبت کو اجر رسالت بنا کر واجب کیا گیا تھا ان کی فضیلت شجرے بدلنے والوں کی برائیوں اور بد معاشی کی وجہ سے عوام میں سادات کا نام بدنام ہوگیا ہے . اور غیر سادات بھی سادات سے دور ہوگئے ہیں .

سادات عظام سے التماس ہے اگر وہ کسی ایسے فتنہ پرست کو جانتے ہیں جو سید بنا ہوا ہے تو اس کی سرکوبی کریں اور اپنے کردار کی مدد سے سید لفظ کی عملی وضاحت کریں .اور غیر سادات سے التماس ہے اپنا شجرہ محض اس فانی دنیا میں بدل کر سادات کی حق تلفی کر کے محشر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کے سامنے کی شرمندگی سے ڈریں.شجرہ بدلتا ہی وہ ہی ہے جو بد نسب ہو. اور انسان کا اصل اس کا کردار ہوتا ہے. خود کو نسب بدل کر نہیں بلکہ خود کو اپنے کردار سے ثابت کریں اور سادات عظام کی عزت کریں .

سیّد کا معنی و مفہوم

اسلام نے قوم و قبیلہ کی جاہلانہ حیثیت کو ختم کیا ہے۔ جس کی روح سے بعض قومیں اعلی اور بعض ادنی سمجھی جاتی ہیں۔ اور اب جاہلیت جدیدہ میں بھی سمجھی جاتی ہیں۔ قرآن نے واضح کیا کہ قوم قبیلہ، ذات برادری، محض جان پہچان کا ذریعہ ہیں۔فرمان باری تعالی ہے : يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ۔

ترجمہ : اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے ۔

اسلام کی نظر میں عزت و ذلت ، بڑا اور چھوٹا ہونے کا مدار ایمان و کردار پر ہے ۔ حسب و نسب پر نہیں ۔ ین کی نظر میں گھٹیا کمیں وہ شخص نہیں جو ایمان و عمل میں پختہ ہے، باکردار ہو، صاحب علم و تقوی ہے، بہت اعلی ہے، بزرگ تر ہے۔اور اگر ہاشمی ، قریشی ، مکی ، مدنی ہے ، ایمان عمل و صالح سے محروم ہے ۔ جتنا چاہے بڑا بنتا پھرے اللہ کے نزدیک پرکاہ کے برابر عتبہ ، شیبہ، ولید ، ہاشمی و قریشی ہو کر بھی ذلیل تر حقیر تر، کمین تر ہیں ۔ فریق اول کے رنگ، نسل ، زبان ان کی عزت وعظمت کے آڑے آئے۔ اور فریق ثانی کی خاندانی شرافت و نجابت ان کو عزت سے ہمکنار نہ کر سکی ۔ اور وہ نیکی سے محروم ہو کر "شر الدواب" ہی رہے ۔ (بد ترین چوپائے)

(1) خوب سمجھ لیں کہ ذات ، قوم ، قبیلہ صرف تعارف یعنی باہمی جان پہچان کا ذریعہ ہے ۔ کسی ذات سے ہو جانا نہ تو عزت و عظمت کی سند ہے نہ کسی دوسرے قبیلہ میں جنم لینا ذلت و حقارت کی علامت ۔

(2) قرآن و حدیث اور لغت عرب میں سید ، ایک اعزازی لفظ ہے ۔ جو مسلم ہو یا غیر مسلم، سردار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ہماری عام بول چال میں جناب، Sir، ہندی میں شری وغیرہ ۔ چنانچہ قرآن کریم حدیث پاک اور لغت عرب ، قدیم و جدید میں ، یہ لفظ جس طرح اللہ کے نیک بندوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور ہوا ہے۔ اسی طرح غیر مسلم زعماء کے لیے بھی استعمال ہوا اور ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے لفظ سرداری جس طرح مال و دولت و عہدہ دنیا کی خبر دیتا ہے اسی طرح روحانی، ایمانی و اخروی سرداری پر بھی دلالت کرتا ہے ۔ قرآن کریم میں ہے کہ قیامت کے دن مجرم و منکر عوام، اللہ تعالی کے حضور بطور شکوہ و معذرت کہیں گے ۔

وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَاoرَبَّنَا آتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيرًا ۔
ترجمہ : اور وہ کہیں گے : اے ہمارے رب! بیشک ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کا کہا مانا تھا تو انہوں نے ہمیں (سیدھی) راہ سے بہکا دیاo اے ہمارے رب! انہیں دوگنا عذاب دے اور اُن پر بہت بڑی لعنت کر ۔

سید کا معنی : السيد الذی فاق غيره بالعقل و المال و لدفع و لنفع، المعطی له فی حقوقه، المعين بنفسه، السيادة الشرف، السيد الرئيس....الذی لا يغلبه غضبه.....العابد..... الورع الحليم... سمی سيد لانة يسود سواد الناس... السيد الکريم... السيد الملک.... السيد السخی ساده.
ترجمہ : سید وہ جو دوسروں پر عقل و مال کے حساب سے، تکلیف دور کرنے اور فائدہ پہنچانے کے لحاظ سے فائق ہو، دوسروں کو حقوق دینے والا ہو۔ اپنی ذات سے مدد کرے سیادت کا معنی ہے بزرگی، سید، رئیس۔۔۔ سید وہ جس پر غصہ غالب نہ ہو۔ عبادت گزار، پرہیزگار، برداشت کرنے والا۔ اس کو سید اس لیے کہا جاتا ہے کہ لوگوں کی جماعت میں فائق ہوتا ہے۔ سید کریم، سید بادشاہ، سید سخی، اس کی جمع سادۃ ہے۔(سيد مرتضی حسين زبيدی مصری، تاج العروس، شرح القاموس، 2 : 384)

السيد الرب، المالک، الفاضل، الکريم، الحليم محتمل اذی قومه، الزوج، الرئيس، المقدم
ترجمہ : سید کا مطلب ہے پالنے والا، مالک، صاحب شرف، صاحب فضیلت، کریم، بردبار قوم کی تکلیف برداشت کرنے والا، خاوند، رئیس سب سے آگے رہنے والا۔(علامه ابن منظور، لسان العرب، 6 : 422، طبع بيروت،چشتی)
السيد المتولی للسوادای الجامعة الکثيره..... قيل لکل من کان فاضلا فی نفسه سيد..... سمی الزوج سيد لسياسة زوجته وقوله ربنا نا اطعنا سادتنا، ای ولاتنا و سائسينا ۔(ابو القاسم حسين بن محمد المعروف بالراغب الاصفهانی، مفردات، ص 247 طبع جديد)قرآن سنت یا لغت عرب میں سید قوم کہیں بھی ثابت نہیں ۔ بلکہ محض تعظیم و تکریم کے طور پر لفظ استعمال ہوتا ہے۔ جیسا کہ تفصیل بالا سے واضح ہے ۔

سیّد کون ہیں کیا علوی ، ہاشمی ، عباسی ، جعفری بھی سادات میں شامل ہیں ؟

صدرِ اول میں "سید" کا لفظ تمام بنو ہاشم کے لئے استعمال ہوا کرتا تھا چاہے وہ علوی ہوں یا عباسی، جعفری ہوں یا عقیلی، اس میں اولادِ فاطمی کی تخصیص نہیں ہوتی تھی ، بعض شہروں میں اسے علوی اولاد اور بعض میں عباسی اولاد کے لئے بھی استعمال کیا گیا لیکن بعد میں یہ لفظ سیدنا امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنھما کی اولاد کے لئے مختص ہوگیا اور اب عرف میں اس کا اطلاق نبئ رحمت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے انہی دو مبارک نواسوں اور ان سے جاری تمام اولاد پر کیاجاتا ہے۔ انہیں فاطمی اولاد بھی کہتے ہیں ۔

سیّد عربی زبان کالفظ ہے جوکہ لغۃً متعدد معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ لسان العرب میں ہے : والسید یطلق علی الرب والمالک والشریف والفاضل والکریم والحلیم ومحتمل أذی قومہ والزوج والرئیس والمقدم، وأصلہ من ساد یسود فہو سیود ۔
ترجمہ : یعنی لفظ سید کا اطلاق رب ، مالک ،شرافت دار،علم والے، عزت والے، بردبار ، اپنی قوم سے تکلیف کو دورکرنے والے ، شوہر، قوم کے سردار اور پیشوا پر ہوتا ہے اور اس (لفظِ سید ) کی اصل (باعتبارِ صرف) ساد یسود فہو سیودسے ہے ۔ (لسان العرب ۔ جلد03 ۔ صفحہ 228 ۔ دار صاد ۔ بیروت)

(1) امام عبد الرحمن جلال الدین سیوطی شافعی (متوفی : 911 ھ) رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسا لہ ا لعجاجۃ الزرنبیۃ فی السلالۃ الزینبیۃ میں ارقام کرتے ہیں : إن اسم الشریف کان یطلق فی الصدر الأول علی کل من کان من أہل البیت سواء کان حسنیا أم حسینیا أم علویا، من ذریۃ محمد بن الحنفیۃ وغیرہ من أولاد علی بن أبی طالب، أم جعفریا أم عقیلیا أم عباسیا۔۔۔۔ فلما ولی الخلفاء الفاطمیون بمصر قصروا اسم الشریف علی ذریۃ الحسن والحسین فقط، فاستمر ذلک بمصر إلی الآن ۔
ترجمہ : یعنی بے شک سیّد کا اطلاق قرونِ اولی میں ہر اُس شخص پر ہوتا تھا جو اہلِ بیت کرام سے ہو، چاہے وہ حسنی ہو ،حسینی ہو ،یا علوی ہومحمد بن حنفیہ کی اولاد اور دیگر اولادِ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے، یا جعفری ہو یا عقیلی ہو یاعباسی۔۔۔ جب مصر میں خلفاءِ فاطمیین کو حکومت ملی تو انہوں نے سیّد کا لفظ فقط امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی اولاد کے لئے مختص کردیاتو یہ تخصیص اس دور سے اب تک قائم ہے ۔ (الحاوی للفتاوی للسیوطی ۔ جلد02 ۔ صفحہ39 ۔ دارالفکر ۔ بیروت،چشتی)

(2) تقریبا یہی کلام امام عبدالروؤف مناوی (1031 ھ) رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا : وھم - يعني الأشراف . ولد علي وعقيل وجعفر والعباس كذا مصطلح السلف وإنما حدث تخصيص الشريف بولد الحسن والحسين في مصر خاصۃ من عهد الخلفاء الفاطميين ۔ (فيض القدير شرح الجامع الصغير ۔ جلد 01 ۔ صفحہ 522 ۔ المكتبة التجارية الكبرى - مصر)

(3) امام شمس الدین سخاوی (متوفی : 902 ھ) رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : عمر بن أَحْمد بن يُوسُف العباسي الْحلَبِي الْحَنَفِيّ وَيعرف بالشريف النشابي جَريا على مصطلح تِلْكَ النواحي فِي عدم تَخْصِيص الشّرف ببني فَاطِمَۃ بل يطلقونه لبني الْعَبَّاس بل وَفِي سَائِر بني هَاشم ۔
ترجمہ : یعنی عمر بن احمد بن یوسف العباسی الحلبی الحنفی (شریف) سید نشابی کے نام سے معروف ہیں ان علاقوں کی اصطلاح کے مطابق کہ (سید کے اطلاق میں) اولادِ فاطمی کی تخصیص نہیں کرتے بلکہ بنی عباس بلکہ تمام بنی ہاشم پر سید کا اطلاق کرتے ہیں ۔ (الضوء اللامع لأهل القرن التاسع ۔ جلد 06 ۔ صفحہ 73 ۔ منشورات دار مكتبة الحياة - بيروت)

(4) امام ابن حجر عسقلانی (متوفی : 852 ھ) رحمۃ اللہ علیہ رقم فرماتے ہیں ،
" الشريف هُوَ سُلَيْمَان بن يزِيد الْأَزْدِيّ ولقب بِهِ كل عباسي بِبَغْدَاد وَكَذَلِكَ كل علوي بِمصْر "
یعنی سید وہ سلیمان بن یزید الازدی ہیں اور بغداد میں ہر عباسی کا لقب سید ہے اور اسی طرح مصر میں ہر علوی کا ۔ (نزهة الألباب في الألقاب ۔ جلد 01 ۔ صفحہ 399 ۔ مكتبة الرشد - الرياض)

(5) الفقيہ النسابة أحمد بن محمد الحموي الحنفي( متوفی : 1098ھ) رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : الشريف في العرف الآن ہو من ينتسب إلي الحسنين ۔۔ الخ ۔
ترجمہ : 1یعنی اب عرف میں سید وہ ہے جس کا نسب حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے ملتا ہے ۔ (الدر النفيس في نسب الإمام محمد بن إدريس ۔صفحہ 9 ۔ مخطوطہ مکتبہ ملک عبدالعزیز ۔ ریاض،چشتی)

(6) مسائل کثرحولھاالنقاش والجدل میں ہے : والمراد بالشریف المنسوب الی الحسن والحسین رضی اللہ عنہما ۔
ترجمہ : یعنی سید سے مرادہے کہ جن کا نسب سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے منسوب ہو ۔ (مسائل کثر حولھا النقاش والجدل ۔ صفحہ 134 ۔ دارغار حرا ۔ دمشق)

(7) فتاوی رضویہ میں ہے : سبطین کریمین (رضی اللہ عنہما) کی اولاد سید ہیں ۔
(فتاوی رضویہ ۔ جلد 13۔ صفحہ361 ۔ رضا فاؤنڈیشن ۔ لاہور)

علماء اسلام کی مذکورہ بالا تصریحات سے واضح ہوا کہ "سید" ابتداءً ہر ہاشمی کو کہا جاتا تھا ، اس اعتبار سے ہر ہاشمی "سید" تھا ، مگر بعد میں عرف الناس نے اس لقب کو سیدنا حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی اولاد کے لئے مختص کردیا لہذا اب عرب و عجم میں سیّد کا لفظ اولادِ فاطمی کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ لفظ سن کرذہن اسی نسلِ پاک کی طرف منتقل ہوتا ہے لہذا ہمارے دور میں سیّد سے مراد فاطمی اولاد ہیں ۔

فتاوی اہلسنت میں ہے : حضرت علی کر م اللہ تعالی وجہہ الکریم کی جو اولاد حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے ہیں ان کو اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی اولاد کو سید کہا جاتا ہے، ہر سید ہاشمی ضرور ہے مگر ہر ہاشمی سید ہو یہ ضروری نہیں ۔ (فتاوی اہلسنت ۔ کتاب الزکوۃ ۔ صفحہ نمبر 425 ۔ مکتبۃ المدینۃ ۔ کراچی)

اس سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا ، اگر کسی نے وصیت کی کہ اتنے مال سے سید زادوں کو حصہ دیا جائے تو اس سے مراد تمام اہل بیت نہیں بلکہ اولادِ حسن و حسین ہی ہوں گے۔

امام سیوطی اسی مسئلہ کو یوں ذکر فرماتے ہیں : أن الوصایا والأوقاف تنزل علی عرف البلد، وعرف مصر من عہد الخلفاء الفاطمیین إلی الآن أن الشریف لقب لکل حسنی وحسینی خاصۃ فلا یدخلون علی مقتضی ہذا العرف ۔
ترجمہ : یعنی وصیت اور وقف شہر کے عرف پر مبنی ہوتے ہیں، اور مصر کا عرف خلفاءِ فاطمیین کے زمانے سے اب تک یہ ہے کہ سیّد بطورِ خاص ہرحسنی و حسینی کا لقب ہے پس اس عرف کا تقاضا ہے کہ دیگر اہل بیت کرام اس میں داخل نہ ہوں ۔(الحاوی للفتاوی للسیوطی ۔ جلد02 ۔ صفحہ41 ۔ دارالفکر ۔ بیروت،چشتی)

اشکال : بعض احباب سمجھتے ہیں کہ علوی ، عباسی وغیرہ اولادیں بھی سید ہوتی ہیں اور جب علماء دین سے سادات کرام کے فضائل سنتے ہیں تو مذکورہ اولادوں کو بھی ان فضائل میں شامل کرلیتے ہیں ، کیا یہ درست ہے ؟
جواب : جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ اب ساداتِ کرام سے مراد فاطمی اولاد ہی ہیں لہذا جب علماء دین اہلِ بیت کے عمومی فضائل بیان کریں تو اس سے فاطمی و غیر فاطمی ہر ہاشمی اولاد مراد ہوتی ہے، لیکن جب سادات کرام کے خصوصی فضائل بیان ہوں جس میں عذاب سے محفوظ رہنا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسلِ پاک کہلانا وغیرہ تو اس سے اولادِ فاطمی ہی مراد ہوتی ہیں ، لہذا کوئی علوی ، جعفری ، عباسی خود کو سید گمان کرکے ان خصوصی فضائل کو خود پر منطبق کرے تو یہ طریقہ نادرست ہوگا۔ مثال کے طور پر : امام ابو القاسم طبرانی (متوفی : 360 ھ) رحمۃ اللہ علیہ بسندِ صحیح روایت کرتے ہیں ، قال رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم لفاطمۃ: «إن اللہ عز وجل غير معذبك، ولا ولدك ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا ، بیشک اﷲ تعالٰی نہ تجھے عذاب فرمائے گا نہ تیری اولاد کو ۔ (المعجم الكبير للطبرانی ۔ جلد 11 ۔ صفحہ 263 ۔ حدیث : 11685 ۔ مكتبۃ ابن تيميۃ - القاهرۃ)
ترجمہ : یہاں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمی اولاد کی جو رفعتِ شان بیان فرمائی ، ظاہر ہے اس سے مراد وہی ہیں جنہیں اب ہم سادات کرام کہتے ہیں ، علوی ، عباسی ، جعفری اگرچہ ہاشمی ہیں اور بڑی شان کے مالک ہیں مگر وہ ان فضائل میں داخل نہیں ہیں ۔

خلاصہ یہ کہ اگرچہ صدرِ اول میں ہر ہاشمی "سید" کہلاتا تھا مگر اب عرب و عجم میں لفظ "سید" فاطمی اولاد کے لئے مختص ہوگیا ہے اور یہی عوام و خواص میں معروف ہے ۔

محترم قارئین : جو واقع میں سیِّد نہ ہو اور دِیدہ ودِانستہ (جان بوجھ کر) سید بنتا ہو وہ ملعون (لعنت کیا گیا) ہے ، نہ اس کا فرض قبول ہو نہ نفل ۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم فرماتے ہیں : جو کوئی اپنے باپ کے سِوا کسی دوسرے یا کسی غیر والی کی طرف منسوب ہونےکا دعویٰ کرے تو اس پر اللّٰہ تعالیٰ ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا نہ کوئی فرض قبول فرمائے گا اور نہ ہی کوئی نفل ۔ (مُسلِم ، کتاب الحج،باب فضل المدینة. ،ص۷۱۲، حدیث:۱۳۷۰)

اگر کوئی بد مذہب سیِّد ہونے کا دعویٰ کرے اور اُس کی بدمذہبی حدِّ کفر تک پَہُنچ چکی ہو تو ہرگز اس کی تعظیم نہ کی جائے گی ۔ امامِ اہلسنّت ، مجدِّدِ دین وملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ساداتِ کرام کی تعظیم ہمیشہ (کی جائے گی ) جب تک ان کی بدمذہبی حدِّ کفر کو نہ پَہُنچے کہ اس کے بعد وہ سیِّد ہی نہیں ، نسب مُنْقَطَع ہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآنِ پاک میں اِرشاد فرماتا ہے : ' قَالَ یٰنُوۡحُ اِنَّہٗ لَیۡسَ مِنْ اَہۡلِکَ ۚ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیۡرُ صَالِحٍ ۫٭ۖ) (پ۱۲، ھُود:۴۶) ۔ ترجَمہ : ”فرمایا! اے نوح ! وہ (یعنی تیرابیٹا کنعان) تیرے گھر والوں میں نہیں بے شک اس کے کام بڑے نالائق ہیں ۔ “بدمذہب جن کی بد مذہبی حدِّ کفر کو پَہُنچ جائے اگرچہ سیِّد مشہور ہوں نہ سیِّد ہیں ، نہ اِن کی تعظیم حلال بلکہ توہین و تکفیر فرض ۔ (فتاویٰ رضویہ،٢٢/٤٢١)

حضرت علامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدِّین مُراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس سے ثابت ہوا کہ نَسْبی قَرابت سے دِینی قَرابت زیادہ قوی ہے ۔ (خَزائنُ العِرفان ، پ ۱۲ ، ھود ، تحت الآیۃ : ۴۶ ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔