Saturday 19 October 2019

اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کا نظریہ افضلیت شیخین رضی اللہ عنہما

0 comments
اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کا نظریہ افضلیت شیخین رضی اللہ عنہما

محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ (17) الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَكّٰىۚ (18) ۔ (سورہ لیل پارہ نمبر 30 آیت نمبر 17 ، 18)
ترجمہ : اور بہت جلداس سے دُور رکھا جائے گا جو سب سے بڑاپرہیزگار ۔ جو اپنا مال دیتا ہے کہ ستھرا ہو ۔

اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کا نظریہ افضلیت شیخین رضی اللہ عنہما

آج کل سید کہلانے والے کچھ پیرانِ عظام محبت اہلبیت رضی اللہ عنہم کا چرچہ کرتے نظر آتے ہیں اور اپنے زعم فاسد میں اپنے ماسوا کو اہلبیت رضی اللہ عنہم کا غدار سمجھتے ہیں لیکن ان کے طوطوں کو بھی خبر نہیں کہ یہ جو عقیدے اپنائے بیھٹے ہیں ان کا عقیدہ ہی اہلبیت رضی اللہ عنہم کی محبت سے ان کو باغی کرچکا ہے مسئلہ افضلیت پر اہلبیت رضی اللہ عنہم کا نظریہ پڑھیں :

حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر عزیزی میں فرماتے ہیں
ابن السمان کتاب الموافق میں امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے سند صحیح کے ساتھ روایت کرتے ہیں انہوں نے اپنے والد بزگوار امام محمد باقر رضی اللہ عنہ انہوں نے اپنے والد امام زین العابدین رضی اللہ عنہ انہوں نے سید الشہداء امام حسین رضی اللہ عنہ انہوں نے مولی کائنات علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت فرمائی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا کہ انبیاء و مرسلین علیہم السّلام کے بعد کسی ایسے شخص پر سورج طلوع ہوا نہ غروب جو ابوبکر رضی اللہ عنہ سے افضل ہو ۔ (تفسیر عزیزی جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 404)

اس روایت کی سند میں اہلبیت رضی اللہ عنہم کی پیارے دلہارے خوشبوئیں بکھیر رہے ہیں جن کے نام پر آج ایرانی ہڈیاں کھانے والے جدید پیرانِ عظام پیسے بٹور رہے ہیں خدا ایسی دوغلہ پالیسی سے بچائے آمین ۔

وَ سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَى : اور عنقریب سب سے بڑے پرہیزگارکو اس آگ سے دور رکھا جائے گا ۔ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اور سب سے بڑے پرہیزگارکو اس بھڑکتی آگ سے دور رکھا جائے گا اور سب سے بڑا پرہیز گار وہ ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال ریا کاری اور نمائش کے طور پر خرچ نہیں کرتا بلکہ اس لئے خرچ ہے تاکہ اسے اللّٰہ تعالیٰ کی بار گاہ میں پاکیزگی ملے ۔ (مدارک، اللّیل، تحت الآیۃ : ۱۷-۱۸، صفحہ نمبر ۱۳۵۵،چشتی)

امام علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : تما م مفسرین کے نزدیک اس آیت میں سب سے بڑے پرہیزگار سے مراد حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں ۔ (تفسیر خازن، واللّیل، تحت الآیۃ: ۱۹، ۴/۳۸۴)

اس سے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کے 6 فضائل معلوم ہوئے

(1) دنیا میں ان سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو گا ۔

(2) انہیں جہنم سے بہت دور رکھا جائے گا ۔

(3) جہنم سے دور رکھے جانے میں ان کے لئے جنّتی ہونے کی بشارت ہے ۔

(4) سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی امت میں سب سے بڑے متقی اور پرہیز گار حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ہیں ۔

(5) حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کے تمام صدقات و خیرات قبول ہیں ۔

(6) حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کے ہر صدقے میں اعلیٰ درجے کا اخلاص ہے جس کی گواہی رب تعالیٰ دے رہا ہے ۔

اخرج ابن ابی حاتم والطبرانی ان ابا بکر اعتق سبعۃ کلھم یعذب فی اللہ فانزل اللہ تعالی قولہ وسیجنبہا الاتقی الی اخرالسورۃ ۔
ترجمہ : ابن ابی حاتم وطبرانی نے حدیث روایت کی کہ ابو بکر (رضی اللہ تعالی عنہ) نے ان سات کو آزاد کیا جو سب کے سب اللہ کی راہ میں ستائے جاتے تھے تو اللہ نے اپنا فرمان (وسیجنبہا الاتقی تا آخر سورۃ) نازل فرمایا ۔ ( الحاوی اللفتاوی الفتاوی القرآنیۃ سورۃ اللیل الفصل الاول دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۳۲۷)

وعن ابن عباس فی قولہ تعالٰی '' وسیجنبہا الاتقی'' قال ھو ابوبکر الصدیق ۔
ترجمہ : اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے '' وسیجنبہا الاتقی'' کی تفسیر میں ہے فرمایا وہ ابوبکرصدیق ہیں ۔ ( آیت میں جن کا ذکر ہے ) ۔ (ازالۃ الخفا عن خلافۃ الخلفاء فصل ہشتم مقصد اول مسلک اول سہیل اکیڈمی لاہور ۱/ ۳۰۱ )

وقال الرازی فی مفاتیح الغیب '' اجمع المفسرون منا علی ان المراد منہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ'' ۔
ترجمہ : امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے مفاتیح الغیب میں فرمایا مفسرین کا اس پر اجماع ہے کہ اتقی سے مراد ابوبکر رضی ا للہ تعالی عنہ ہیں ۔ (مفاتیح الغیب الغیب (التفسیر الکبیر تحت الایۃ ۹۲/ ۱۷ المطبعۃ البہیۃ المصریۃ مصر ۳۱ / ۲۰۵)

ونقل ابن حجر فی الصواعق عن العلامۃ ابن الجوزی اجمعوا انہا نزلت فی ابی بکر ۔حتی بلغنی ان الطبرسی مع رفضہ لم یسغ لہ انکارہ فی تفسیر ہ مجمع البیان ، والفضل ماشہدت بہ الاعدء ، الحمد للہ رب العلمین ۔
ترجمہ : صواعق میں ابن حجر نے علامہ ابن الجوزی سے نقل کیا علماء اس پر متفق ہیں کہ یہ آیت ابوبکر کے حق میں نازل ہوئی۔ یہاں تک کہ مجھے خبر پہنچی کہ طبرسی کو باوجود رفض اپنی تفسیرمجمع البیان میں اس کا انکار نہ بن پڑا اور فضل وہی ہے جس کی شہادت دشمن دیں ، والحمد للہ رب العلمین ۔ (الصواعق المحرقہ الباب الثالث الفصل الثانی ، دار الکتب العلمیہ بیروت ص ۹۸،چشتی)

فمنہم من ھو اولہم واولٰھم سیدھم ومولٰیھم اکثرھم للتفضیل تفصیلا واشد ھم علی المخالف تنکیلا سیدنا المرتضٰی اسد اللہ العلی الاعلی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم اذقد تواتر عنہ فی ایام امامتہ وکرسی زعامتہ تفضیل الشیخین علٰی نفسہ وعلی سائرالامۃ۔ ورمٰی بھابین اکتاف الناس وظہورھم حتی جلی ظلام شکوک مدلھمۃ ۔ روی الدارقطنی عنہ رضی اللہ تعالٰی عنہ قال لااجداحدًا فضلنی علی ابی بکر و عمر الاجلدتہ حد المفترٰی ، قال سلطان الشان ابوعبداللہ الذھبی حدیث صحیح ۔
ترجمہ : تو ان میں سے ایک وہ ہیں جو سب سے زیادہ اول و اولٰی اور ان سب کے سید و مولٰی اور مسئلہ تفضیل کو سب سے زیادہ بیان کرنے والے اور مخالفین کو سخت سزا کا خوف دلانے والے سیدنا علی مرتضٰی اللہ بلند وبالا کے شیر کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم اس لیے کہ ان کے ایامِ خلافت اور کرسی زعامت میں ان کا شیخین ابوبکر و عمر کو خود پر اور تمام امت پر فضیلت دینا تواتر سے ثابت ہوا اس کو لوگوں کے کندھوں اور پشتوں پر مارا یعنی اس مسئلہ کو لوگوں کے سامنے اور ان کے پیچھے خوب روشن کیا یہاں تک ہ تیرہ و تار شبہات کی اندھیری کو دور کردیا۔ دارقطنی نے اسی جناب سے روایت کیا۔ فرمایا میں کسی کو نہ پاؤں گا جو مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دے مگر یہ کہ میں اس کو مفتری کی حد ماردوں گا۔ اس فن کے سلطان حضرت ابوعبداللہ ذہبی نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔ (الصواعق المحرقۃ بحوالہ الدار قطنی الباب الثالث الفصل الاول دارالکتب العلمیہ بیروت ص ۹۱)

وقد کان رضی اللہ تعالٰی عنہ یبوح بھذا فی المجامع الشاملۃ والمحافل الحافلۃ والمساجد الجامعۃ وفیھم من فیھم من الصحابۃ والتابعین لھم باحسان ثم لم ینقل عن احد منھم انہ ردقولہ ھذا ولقد کانوا اتقٰی اللہ تعالٰی من ان یسکنوا عن حق اویقروا علٰی خطاؤ ھم الّذین وصف اﷲ سبحٰنہ وتعالٰی فی القرآن العظیم بانھم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر (القرآن الکریم ۳ /۱۱۰) وائمتھم الکرام کانوااتقی ومنھم احرص علی الرشد والصواب۔ وقد کانوا یحثون العلماء علی ابانۃ الحق ان خطاء وتقویمہ الاودان مالوا ۔
ترجمہ : اور سیدنا علی رضی اللہ تعالٰی عنہ عام مجمعوں میں اور بھری محفلوں میں اور جامع مسجدوں میں اس بات کا اعلان فرماتے تھے اور لوگوں میں صحابہ اور تابعین کرام موجود ہوتے تھے پھر ان میں سے کسی سے یہ منقول نہیں کہ انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اس قول کو رد کیا ہو اور بے شک وہ اللہ تعالٰی سے بہت ڈرنے والے تھے اور اس بات سے دور تھے کہ حق بتانے سے خاموش رہیں یا کسی خطا کو مقرر رکھیں حالانکہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا اللہ تبارک و تعالٰی نے قرآن عظیم میں یوں بیان فرمایا '' اور تم بہترین اُمت ہیں جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی کہ بھلائی کا حکم دیتے اور بُرائی سے روکتے ہو'' اور اس گروہ کے آئمہ کرام ان سے زیادہ متقی اور ہدایت و صواب پر ان سے زیادہ حریص تھے اور علماء کو حق ظاہر کرنے پر اکساتے تھے اگر ان سے خطا ہو اور کجی کو درست کرنے کی ترغیب دیتے تھے اگر وہ منحرف ہوں ۔
قلت انظر الی ھذا الوعید الشدیدا افتراہ معاذ اللہ مجترأعلی اللہ تعالٰی فی اجراء الحدود مع تعارض الظنون وھو الراوی عن النبی صلی اللہ تعالٰی علی وسلم ادرؤاا لحدود اخرجہ عنہ الدار قطنی والبیھقی ۔ (سنن الدارقطنی کتاب الحدود والدیات حدیث ۳۰۶۲/۹ دارالمفرفۃ بیروت ۳/۶)،(سنن الکبرٰی کتاب الحدود باب ماجاء فی درء الحدود بالشبہات دارصادر بیروت ۸ /۲۳۸)

اس وعید شدید و دیکھو تو کیا تم حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو گمان کرو گے پناہ بخدا اللہ تبارک و تعالٰی پر جرا ت کرنے والا حدود کو جاری کرنے میں باوجود گمانوں کے تعارض کے حالانکہ وہی نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم سے راوی ہیں کہ فرمایا حدود کو دفع کرو ۔ مولٰی علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بیہقی ودارقطنی نے روایت کیا : وقد قال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ادرؤا الحدود عن المسلمین ما استطعتم فان وجد تم للمسلم مخرجاً فخلوا سبیلہ فان الامام ان یخطی فی العفو خیر من ان یخطی فی العقوبۃ رواہ ابن ابی شیبۃ والترمذی ۔ (المستدرک للحاکم کتاب الحدود باب ان وجدتم لمسلم مرجا الخ دارالفکر بیروت ۴ /۳۸۴)(جامع الترمذی ابواب الحدود باب ماجاء فی درء الحدود امین کمپنی دہلی ۱ /۱۷۱،چشتی)،(السنن الکبرٰی کتاب الحدود باب ماجاء فی درء الحدود بالشبہات دارصادربیروت ۸ /۲۳۸)،(المصنف لا بن ابی شیبیہ کتاب الحدود باب فی درء الحدود بالشبہات حدیث ۲۸۴۹۳ دارالکتب العلمیہ بیروت ۵ /۵۰۸) والحاکم والبیہقی عن اُم المومنین الصدیقۃ رضی اللہ تعالٰی عنہما ومنہم میمون ابن مھر ان من فقہاء التابعین سُئِل ابوبکر و عمر افضل ام علی ۔ فقف شعرہ وارتعدت فرائصہ حتی سقطت عصاہ من یدہ وقال ماکنت اظن ان اعیش الٰی زمان یفضل الناس فیہ احداً علی ابی بکرو عمر اوکما قال رواہ ابونعیم ۔ (حلیۃ الاولیاء ترجمہ ۲۵۱ میمون بن مہران دارالکتاب العربی بیروت ۴ /۹۲ و ۹۳) عن فرات بن السائب ۔
ترجمہ : اور فرمایا حضور صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم نے '' مسلمانوں سے حدود کو دفع کرو جب تک تم کو استطاعت ہے ۔ تم اگر تم مسلمان کے لیے کوئی راہِ خلاص پاؤ تو اس کا راستہ چھوڑ دو اس لیے کہ امام کا درگزر میں خطا کرنا اس سے بہتر ہے کہ وہ عقوبت میں خطا کرے'' اس حدیث کو ابن ابی شیبہ ۔ ترمذی ۔ حاکم اور بیہقی نے ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کیا اور انہیں میں سے حضرت میمون ابن مہران ہیں جو کہ فقہائے تابعین سے ہیں ان سے سوال ہوا کہ سیدنا ابوبکر و عمر افضل ہیں یا علی تو ان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور ان کی رگیں پھڑکنے لگیں یہاں تک کہ چھڑی ان کے ہاتھ سے گر گئی اور انہوں نے کہا کہ مجھے گمان نہ تھا کہ میں اس زمانہ تک جیوں گا ۔ جس میں لوگ ابوبکر و عمر پر کسی کو فضیلت دیں گے ۔ یا جیسا انہوں نے فرمایا اس حدیث کو روایت کیا ابونعیم نے فرات بن سائب سے ۔

ومنہم عالم المدینۃ الامام مالک بن انس رضی اللہ تالٰی عنہ سُئِل عن افضل الناس بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فقال ابوبکر و عمر۔ ثم قال اوفی ذٰلک شک ۔ (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصدالسابع الفضل الثالث دارالمعرفۃ بیرو ت ۷ /۳۸)
ترجمہ : اور انہیں میں سے عالمِ مدینہ امام مالک بن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں ان سے سوال ہوا رسول ا للہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد سب لوگوں سے افضل کے بارے میں ۔ تو فرمایا ابوبکر و عمر ۔ پھر فرمایا کیا اس میں کوئی شک ہے ۔

ومنہم الامام الاعظم الاقدم الاعلم الاکرم سیدنا ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سئل ن علامات اھل السنۃ فقال ان تفضل الشیخین وتحب الختنین و تمسح علی الخفین ۔ (تمہید ابی الشکور السالمی الباب الحادی عشر القول السادس دارالعلوم حزب الاحناف الاہورص ۱۶۵)،(خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الفاظ الکفر الفضل الاول مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۲ /۳۸۱)
ترجمہ : اور انہیں میں سے امام اعظم اقدم سب سے زیادہ علم رکھنے والے سب سے زیادہ مکرم سیدنا ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں ان سے سوال ہوا اہلسنت کی علامات کے بارے میں تو انہوں نے فرمایا اہلسنت کی پہچان یہ ہے کہ تو شیخیں ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کو نبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل جانے اور حضور صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم کے دونوں دامادوں سے محبت کرے اور خفین پر مسح کرے ۔ (طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔