Wednesday 23 October 2019

میں تو کئے ہی جاؤں گا میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بیان

0 comments
میں تو کئے ہی جاؤں گا میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بیان

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں میرے والد ہر سال میلاد مناتے تھے ایک سال لنگر کےلیئے کچھ نہ تھا بھنے چنے منگوائے ان پر میلاد پڑھا اور تقسیم کر دیئے رات کو خواب میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلّم کی زیارت ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلّم بہت خوش تھ ۔ (رسائل شاہ ولی اللہ الدر الثمین صفحہ 199 ، بائیسویں حدیث)

نجدیوں کے قبضہ سے پہلے اہل مکّہ میلاد مناتے تھے : حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں اہل مکہ ولادت کے دن میلاد منا رہے تھے میں نے دیکھا یکا یک انوار نازل ہو رہے تھے جب غور کیا تو دیکھا یہ وہ فرشتے ہیں جو ایسی محافل پر انوار و رحمت لے کر نازل ہوتے ہیں ۔ (فیوض الحرمین صفحہ 115)

اے اہل ایمان شاہ صاحب کی اس گواہی و بیان سے معلوم ہوا حرمین مقدسہ پر نجدیوں کے قبضہ سے پہلے اہل مکّہ بڑی دھوم دھام سے میلاد مناتے تھے کیا نجدی قابضوں کا عمل ہمارے لیئے بہتر ہے یا 13 سو سالہ مسلمانوں اور اکابرین ملت اسلامیہ علیہم الرّحمہ کا عمل مبارک فیصلہ خود کیجیئے ۔

میں تو کئے ہی جاؤں گا میلاد مصطفیٰﷺ بیان
ارے اس کو کبھی نہ چھیڑنا سنی بڑا دبنگ ہے

خاک ہوجایں عدو جل کر مگر ہم تو رضا
دم میں جب تک دم ہے ذکر انکا سناتے جایں گے

سب سے پہلے چند باتیں ذہن نشین کرلیں
میلاد کا مطلب کیا ہے ؟

دلیل کے اعتبار سے اس کو کرنے کا کیا حکم ہے ؟

جو نہ کر سکے اس کے لئے کیا حکم ہے ؟

معترض کے ہر اعتراض کا جواب ان تین باتوں کی روشنی میں بآسانی دیا جاسکتا ہے ہم اس موضوع میں ہر بات کو مختصر اور واضح طور پر بیان کرنے کی کوشش کریں گے لہٰذا تمام پڑھنے والوں کی بارگاہ میں عرض ہے کے تمام دلائل کو اپنے پاس کاپی کرلیں تا کہ معترض کو خود ہی جواب مل جائے ۔

میلاد کا مطلب ہے پیدائش یا ولادت اسکا سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے بلخصوص ولادت کے واقعات بیان کرنا اور بالعموم آپکی سیرت نسب آپ کے کمالات و برکات و معجزات و واقعات کو بیان کرنا اس مفہوم کو بھی اچھی طرح ذھن نشین فرمالیں ۔

میلاد کا حکم شرعی

مستحب ہے اور یہ شریعت کے اصولوں میں سے ایک ہے

مستحب

وہ کام ہےجس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کبھی کیا ہو اور اس کو سلف صالحین نے پسند کیا ہو ( شامی ج ١ ص ٥١١ ) اس کےکرنے میں ثواب نہ کرنے میں گناہ بھی نہیں اس کو نفل مندوب اور تطوع بھی کہتے ہیں ۔ والنفل و منہ المندوب یثاب فاعلہ ولا یسیئی تارکہ(شامی ج ١ ص٥٩ )مطلب یہ ہے کہ میلاد 1 مستحب عمل ہے جس کے کرنے پر ثواب ہے اور نہ کرنے پر گناہ نہیں جو کوئی کام میں مشغولیت کی وجہ سے نہ کرسکے تو اس پر ملامت نہیں نہ ہی اس سے سوال کیا جاےگا کہ کیوں نہ کیا ؟

میلاد کا مطلب اور اسکو کرنے اور نہ کرنے کا حکم بھی ہم نے بیان کردیا اب سوال یہ ہے کہ میلاد ثابت کہاں سے ہے تو جواب یہ ہے کہ مستحب عمل کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی اور یہ تمام بحث آپ کتاب سعید الحق شرح جاء الحق کے باب بدعت میں پڑھ سکتے ہیں کہ کس طرح کوئی عمل اگر شریعت کے خلاف نہ ہو تو اسے کرنے کا ثواب ہے اور نہ کرنے کا گناہ نہیں ۔

اب ان شاء اللّه عزوجل ہم میلاد کے ثبوت و دلائل پیش کریں گے جس کے لئے پہلے بیان کی گئی 3 باتوں کا ذھن نشین ہونا بہت ضروری ہے ۔
سوال : ابھی تو اپ نے کہا کہ مستحب عمل پر دلیل کی حاجت نہیں پھر خود ہی دلائل کی بات کر رہے ہیں ؟
جواب : ہم یہ باتیں اسلئے بیان کر رہے ہیں کہ ہمارے سنی بھائیوں کے عقائد مضبوط ہوں اور ان سے بدمذ ھبی دور ہو اور انھیں عقائد اہل سنت سے متعلق آگاہی حاصل ہو ورنہ بدمذہبوں پر ان دلائل کا کچھ اثر نہ ہوگا ۔

قرآن مجید سے دلائل

ﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : اور اپنے رب کی نعمت کے خوب چرچے کرو ۔ (سورۂ وَٱلضُّحَىٰ :11)

معلوم ہوا کہ ﷲ تعالیٰ حکم دے رہا ہے کہ جو تمہیں میں نے نعمتیں دی ہیں ، ان کا خوب چرچا کرو، ان پر خوشیاں مناؤ۔ ہمارے پاس ﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی بے شمار نعمتیں ہیں ۔ کان، ہاتھ، پاؤں ، جسم ، پانی ، ہوا ، مٹی وغیرہ اور اتنی زیادہ نعمتیں ہیں کہ ہم ساری زندگی ان کو گن نہیں سکتے ۔ خود ﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ترجمہ ’’اور اگر ﷲ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کرسکو گے‘‘ ۔ (النحل:18)

معلوم ہوا کہ ﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کی گنتی ہم سے نہیں ہوسکتی ۔ تو پھر ہم کن کن نعمتوں کا پرچار کریں ۔ عقل کہتی ہے کہ جب گنتی معلوم نہ ہوسکے تو سب سے بڑی چیز کو ہی سامنے رکھا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہی نمایاں ہوتی ہے ۔ اسی طرح ہم سے بھی ﷲ پاک کی نعمتوں کی گنتی نہ ہوسکی تو یہ فیصلہ کیا کہ جو نعمت سب سے بڑی ہے اس کا پرچار کریں ۔ اسی پر خوشاں منائیں تاکہ ﷲ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہوسکے ۔ سب سے بڑی نعمت کون سی ہے ؟ آیئے قرآن مجید سے پوچھتے ہیں ترجمہ ’’ﷲ کا بڑا احسان ہوا مومنوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا۔ جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے‘‘ ۔ (سورۂ آل عمران آیت 164)

ﷲ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا فرمائیں مگر کسی نعمت پر بھی احسان نہ جتلایا ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے کسی اور نعمت پر احسان کیوں نہیں جتلایا ۔ صرف ایک نعمت پر ہی احسان کیوں جتلایا ؟ ثابت ہوا کہ ﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ ان گنت نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت آخری نبی کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ہیں اور قرآن کے مطابق ہر مسلمان کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی آمد پر خوشیاں منانی چاہئیں ۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔ ترجمہ ’’تم فرماؤ ﷲ عزوجل ہی کے فضل اور اسی کی رحمت، اسی پر چاہئے کہ وہ خوشی کریں۔ وہ ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے‘‘ ۔ (سورۃ یونس آیت 58)

لیجئے ! اس آیت میں تو ﷲ تعالیٰ صاف الفاظ میں جشن منانے کا حکم فرما رہا ہے ۔ کہ اس کے فضل اور رحمت کے حصول پر خوشی منائیں ۔ قرآن نے فیصلہ کردیا کہ نبی کی آمد کا جشن مناؤ کیونکہ ﷲ کے نبی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے بڑھ کر کائنات میں کوئی رحمت نہیں۔ خود ﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ترجمہ ’’اور ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہاں کے لئے‘‘ ۔ (الانبیاء :107)

مسلمان اگر رحمتہ للعالمین کی آمد کی خوشی نہیں منائیں گے تو اور کون سی رحمت پر منائیں گے ۔ لازم ہے کہ مسلمان رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آمد کا جشن منائیں ۔

میلاد کو عید کہنا کیسا ؟

ترجمہ : عیسیٰ بن مریم نے عرض کی، اے اللہ! اے رب ہمارے ! ہم پر آسمان سے ایک خوان اُتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلے پچھلوں کی اور تیری طرف سے نشانی اور ہمیں رزق دے اور تو سب سے بہتر روزی دینے والا ہے ۔ (المائدة:114)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آسمان سے خوان یعنی نعمت اترنے کے دن کو عید کہا اپنے اگلے پچھلوں کے لئے تو وہ نبی جو تمام کائنات کے لئے رحمت و نعمت ہو انکی تشریف آواری کا دن کیوں نہ عید ہو ؟؟؟ بلکہ وہ تو عیدوں کی عید ہے ۔

میلاد بدعت نہیں

مفہوم احادیث

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خود اپنا نسب اور پیدائش کا تذکرہ ممبر پر کھڑے ہوکر بیان فرمایا ۔ (ترمذی ج 2 ص201 )

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی پیدائش کے ساتھ دیگر نبیوں کی پیدائش کا ذکر فرمایا ۔ (مسلم ج2 ص245،چشتی) غزوہ تبوک سے واپسی پر حضرت ابن عباس رضی اللّه عنہ نے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں عرض کی میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کی تعریف کروں ارشاد ہوا بیان کرو اللّه تمھارے منہ کو ہر آفت سے بچائے پس انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیدائش کا حال بیان کیا ۔ (دلائل النبوت لالبیہقی ج5 ص47،48)

کیا وہ کام جس پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دعا دیں بدعت ہوسکتا ہے ؟

اپنی آمد کا جشن تو خود آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے منایا ہے ۔ تو ان کے غلام کیوں نہ منائیں ؟ چنانچہ حضرت سیدنا ابو قتادہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بارگاہ رسالت میں عرض کی گئی کہ ’’یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ پیر کا روزہ کیوں رکھتے ہیں ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جواب دیا ’’اسی دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی‘‘ ۔ (صحیح مسلم شریف جلد 1ص 7، مشکوٰۃ شریف ص 179)

مخالفین کہتے ہیں کہ کیا میلاد صحابہ رضی اللہ عنہم نے منایا ؟ ہم پوچھتے ہیں کہ جب آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنی آمد کا جشن خود منائیں تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا عمل کافی نہیں ؟

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا چچا ابولہب جوکہ پکا کافر تھا۔ جب اسے اس کے بھائی حضرت عبد ﷲ رضی ﷲ عنہ کے یہاں بیٹے کی ولادت کی خوشخبری ملی تو بھتیجے کی آمد کی خوشخبری لانے والی کنیز ’’ثویبہ‘‘ کو اس نے انگلی کا اشارہ کرکے آزاد کردیا ۔ ابولہب کے مرنے کے بعد حضرت عباس رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا کہ وہ بڑے برے حال میں ہے تو اس سے پوچھا کیا گزری ؟ ابولہب نے جواب دیا ’’مرنے کے بعد کوئی بہتری نہ مل سکی ہاں مجھے اس انگلی سے پانی ملتا ہے کیونکہ میں نے ثویبہ لونڈی کو آزاد کیا تھا‘‘ ۔ (بخاری شریف جلد 2ص 764،چشتی)

اسی روایت کے مطابق ہمارے اسلاف جوکہ اپنے دور کے مستند مفسر ، محدث اور محقق رہے ہیں ان کے خیالات پڑھئے اور سوچئے کہ اس سے بڑھ کر جشن ولادت منانے کے اور کیا دلائل ہوں گے ؟

حضرت علامہ مولانا حافظ الحدیث ابن الجزری رحمۃ ﷲ علیہ کا فرمان مبارک : جب ابولہب کافر جس کی مذمت میں قرآن پاک نازل ہوا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کی خوشی میں جزا نیک مل گئی (عذاب میں تخفیف) تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی امت کے مسلمان موحد کا کیا حال ہوگا۔ جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت کی خوشی مناتا ہو اور حضور کی محبت میں حسب طاقت خرچ کرتا ہو ۔ مجھے اپنی جان کی قسم ﷲ کریم سے اس کی جزا یہ ہے کہ اس کو اپنے فضل عمیم سے جنت نعیم میں داخل فرمائے گا‘‘ ۔ (مواہب لدنیہ جلد 1ص 27)

جلیل القدر محدث حضرت علامہ ابن جوزی رحمۃ ﷲعلیہ کا فرمان مبارک : جب ابولہب کافر (جس کی قرآن میں مذمت بیان کی ہے) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت پر خوش ہونے کی وجہ سے یہ حال ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی امت کے اس موحد مسلمان کا کیا کہنا جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت پر مسرور اور خوش ہے‘‘ ۔ (بیان المولد النبوی ص 70 بحوالہ مختصر سیرۃ الرسول ص 23)

جھنڈے اور جلوس

ہجرت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مدینے میں آمد پرصحابہ نے جلوس نکالا (ابو داود ج2 ص 300)

سیدتنا آمنہ رضی ﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے تین جھنڈے بھی دیکھے ، ایک مشرق میں گاڑا گیا تھا ، دوسرا مغرب میں اور تیسرا جھنڈا خانہ کعبہ کی چھت پر لہرا رہا تھا ۔ (بحوالہ: سیرت حلبیہ جلد اول ص 109)

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت باسعادت کی خوشی میں جھنڈے لہرائے گئے ۔ ایک مشرق میں ، دوسرا مغرب میں اور تیسرا کعبۃ ﷲ کی چھت پر ۔ (بیان المیلاد النبی ، محدث ابن جوزی ص 51)(خصائص الکبریٰ جلد اول ص 48)(مولد العروس ص 71)(معارج النبوت جلد دوم ص 16)

ان محدثین کرام اور اسلاف علیہم الرّحمہ کے خیالات سے ثابت ہے کہ جشن ولادت منانا اسلاف علیہم الرّحمہ کا بھی محبوب فعل رہا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ جب کافر محمد بن عبد ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آمد کی خوشی مناکر فائدہ حاصل کرسکتا ہے تو مسلمان محمد رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آمد کا جشن کیوں فائدہ حاصل نہیں کرسکتا ؟

بلکہ ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ نے تو قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ میلاد منانے والوں کی جزا یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں جنت میں داخل فرمادے گا ۔ اللہ بغضِ رسول صلی اللہ علیہ وسلّم سے بچائے آمین ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔