Thursday 24 October 2019

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے خود اپنا میلاد منایا

0 comments
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے خود اپنا میلاد منایا

ارشاد باری تعالیٰ ہے : وانک لعلیٰ خلق عظیم۔(القلم ۲۸:۴)
ترجمہ : اور بیشک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں ۔

قل یا یھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا ۔ الذی لہ الملک السموات والارض ۔
ترجمہ : آپ فرما دیں اے لوگو میں تم سب کی طرف اس اللہ کار سول (بن کر آیا) ہوں ۔ جس کے لیے تمام آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے ۔

عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الِاثْنَيْنِ ؟ قَالَ : ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ، وَيَوْمٌ بُعِثْتُ أَوْ أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهِ ۔
ترجمہ : حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم سے پیر کے دن کے روزے کے بارے میں پو چھا گیا تو آ پ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فر مایا میں اسی دن پیدا ہوا تھا اور اسی دن قرآن کا نزول ہوا ۔ (صحیح مسلم عربی حدیث نمبر ۱۱۶۲صفغہ نمبر ۳۹۲ مکتبہ دار الغد الجدید قاہرہ مصر)،(صحیح مسلم شریف مترجم اردو جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 517 مطبوعہ دارالعلم ممبئی انڈیا)

اس حدیث شریف سے چند باتیں معلوم ہوئیں

(1) پیر کے دن کا روزہ اس لئے سنت ہے کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی ولادت باسعادت کا دن ہے ۔

(2) حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے پیر کے دن کے روزہ کا اہتمام فر ما کر خود اپنی ولادت کی یاد منائی اور اللہ کا شکر بجا لایا ۔

(3)امت کے لئے یوم ولادت کی اہمیت و فضیلت ظاہر فر مائی ۔

(4) دن مقرر کر کے یاد منا نا سنت نبوی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم ہے ۔

(5) ولادت کی خوشی اور شکرانے میں عبادت کرنا سنت ہے ۔ مگر افسوس اس صاف اور صریح حدیث کے باوجود کچھ لوگ اس کے منکر ہیں ۔ اور طر ح طرح کی بے جا حیلے اور بہانے بنا کر اس سے خود بھی باز رہتے ہیں اور لوگوں کو بھی منع کرتے ہیں اور اتنا ہی پر بس نہیں بلکہ اس کو ناجائز وحرام اور بدعت سئیہ کہتے ہیں ۔ (نعوذباللہ من ذالک)

قال الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم : قال حضرت ابو ھریرہ یارسول اللہ متی وجبت لک النبوۃ ؟ قا ل الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم بین خلق آدم و نفخ الروح فیہ ۔ (دلائل النبوۃ ، جواہر البحار،مواہب الدنیہ)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم آپ کو شرف نبوت سے کب نوازا گیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا ۔ (میں اس وقت بھی نبی تھا)جب آدم علیہ السلام ابھی تخلیق اور روح کے مرحلے میں تھے ۔

حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا معمول مبارک تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم صحا بہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ مختلف موضوعات پر خطبا ت اِ رشاد فرماتے ۔ اور کبھی کبھی اپنے نسب مبارک اور ولادت مبارک کے بارے میں بھی اِرشاد فرماتے۔میں اس زمرے میں چند احادیث مبارکہ آپ کے گوش گزار کروں گا جن میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے صحابہ کرام کے اجتماع میں اپنی ولادت باسعادت کا تذکرہ فرمایا ہے ۔

حضرت مطلب بن ابی وداعہ سے مروی ہے : جاء العباس الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم فکانہ سمع شیئاًََ، فقام النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم علی المنبر، فقال: من انا ؟ فقالوا: انت رسول اللہ، علیک السلام، قال :انا محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ان اللہ خلق الخلق فجعلنی فی خیرھم فرقۃ، شم جعلھم فرقتین، فجعلنی فی خیرھم فرقۃ، شم جعلھم قبائل،فجعلنی فی خیرھم قبیلۃ،شم جعلھم بیوتا، فجعلنی فی خیرھم بیتا و خیرھم نسباً۔ (ترمذی،الجامع الصحیح، کتاب الدعوات ۵:۵۴۳،رقم:۳۵۳۲،چشتی)
ترجمہ : حضرت عباس رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے،(اس وقت ان کی کیفیت ایسی تھی) گویا انہوں نے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے متعلق کفار سے) کچھ (نازیبا الفاظ) سن رکھے تھے ( اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کو بتانا چاہتے تھے)۔ (حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کو بتائے یا آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم علم نبوت سے جان گئے) تو حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا : میں کون ہوں ؟ سب نے عرض کیا : آپ پر سلام ہو ، آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فرمایا: میں عبد اللہ کابیٹا محمد (صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم) ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور اس مخلوق میں سے بہترین گروہ (انسان) کے اندر مجھے پیدا فرمایا اور پھر اس گروہوں (عرب و عجم) میں تقسیم کیا اور ان میں سے بہترین گروہ (عرب ) میں مجھے پیدا کیا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس حصے قبائل بنائے اور ان میں سے بہترین قبیلہ (قریش ) کے اندر مجھے پیدا کیا اور پھر اس بہترین قبیلہ کے گھر بنائے تو مجھے بہترین گھر اور نسب (بنو ہاشم) میں پیدا کیا ۔

حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔ قلت : یارسول اللہ ! ان قریشاًجلسوافتذاکرواأحسابھم بینھم،فجعلوا مثلک کمثل نخلۃ فی کبوۃ من الأرض،فقال النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ان اللہ خلق الخلق فجعلنی من خیرھم من خیر فرقھم و خیر الفریقین، ثم تخیر القبائل فجعلنی من خیر قبیلۃ، ثم تخیر البیوت فجعلنی من خیر بیوتھم فأنا خیر نفساً و خیرہم بیتا۔(ترمذی،الجامع الصحیح، ابواب المناقب، باب فی فضل النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ۵:۵۸۴، رقم:۳۶۰۷،چشتی)
ترجمہ: میں نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم قریش نے ایک مجلس میں اپنے حسب و نسب کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی مثال کھجور کے اس درخت سے دی جو کسی ٹیلہ پر ہو۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے ان کی بہترین جماعت میں رکھا اور ان کے بہترین گروہ میں رکھا اور دونوں گروہوں میں سے بہترین گروہ میں بنایا، پھر قبائل کو منتخب فرمایا اور مجھے بہترین قبیلے میں رکھا، پھر اُس نے گھرانے منتخب فرمائے تو مجھے اُن میں سے بہتر گھرانے میں رکھا، میں اُن میں سے بہترین فرد اور بہترین خاندان والا ہوں ۔

حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فرمایا : ان اللہ اصطفی من ولد ابراھیم اسماعیل، واصطفی من ولد اسماعیل بنی کنانۃ، واصطفی من بنی کنانۃ قریشاً، واصطفی من قریش بنی ھاشم،واصطفانی من بنی ھاشم ۔ (ترمذی،الجامع الصحیح، ابواب المناقب، باب فی فضل النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم ۵:۵۸۳، رقم:۳۶۰۵)
ترجمہ : بے شک رب کائنات نے ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے اسماعیل علیہ السلام کومنتخب فرمایا ، اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے کنانہ کو ، اور اولاد کنانہ میں سے قریش کو ، اور قریش میں سے بنی ہاشم کو، اور بنی ہاشم میں سے مجھے شرف انتخاب سے نوازا اور پسند فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے اصطفی کا لفظ اس لیے بیان کیا کہ صاحب نسب ، مصطفی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم (چنے ہوئے) ہیں ۔ اسی طرح کی بیشمار احادیث مبارکہ اور بھی موجود ہیں ۔جن میں حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے اپنی ولاد ت مبارکہ کا تذکرہ فرمایا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔