Saturday 19 October 2019

حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ حیات و تعلیمات حصّہ اوّل

0 comments
حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ حیات و تعلیمات حصّہ اوّل

محترم قارئینِ کرام : حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں حصول برکت کےلیئے ہم اُن کا مختصر تذکرہ پیش کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ قبول فرمائے آمین ۔

ولادت و سلسلۂ نسب : حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی ولادتِ با سعادت کم وبیش ۴۰۰ ھ میں غزنی شہر (مشرقی افغانستان) کے محلہ جلّاب میں ہوئی۔کچھ عرصے بعد آپ کا خاندان محلہ ہجویر میں منتقل ہوگیا ۔ آپ کی کُنیت ابوالحسن، نام علی اور لقب داتا گنج بخش ہے ، آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کا شجرہ نسب اس طرح ہے : حضرت سیِّد علی بن عثمان بن سیّد علی بن عبدالرحمن بن شاہ شُجاع بن ابوالحسن علی بن حسین اصغر بن سیِّدزید شہید بن حضرت امام حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بن علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ۔ (مقدمہ کشف المحجوب مترجم،ص۸تا۱۱،ضیاء القرآن پبلی کیشنزلاہور)

حصولِ علم : جس دور مىں حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ پىدا ہوئے اُس وقت کئی عالم ،فاضل اور اہلِ دانش غزنى مىں رہتے تھے،گویا غزنى کى فضا مىں ہر طرف علم و فکر اور معرفت کا چرچاتھا ، چارسال سے زائد عمر مىں آپ نے حروف شناسى کے بعد قرآنِ مجید پڑھنا شروع کىا اورتھوڑے ہی عرصے مىں قرآنى تعلىم مکمل کرلى، اس کے بعدرفتہ رفتہ وقت کے مشہور علماء سے عربى، فارسى ، حدىث ، فقہ،تفسىر ، منطق ، فلسفہ اور دیگر علوم و فنون حاصل کئے ۔

آپ کے اساتذہ : جن اساتذہ سے آپ نے ظاہرى وباطنی علوم حاصل کئے ان مىں حضرت ابوالعباس احمد بن محمد اشقانى،حضرت ابوالقاسم علی بن عبد الله گرگانى ، حضرت ابوالعباس احمد بن محمد قصاب آملی ، حضرت ابو عبد الله محمد بن علی داستانی بسطامی ، حضرت ابوسعىد فضل اللہ بن محمد مہینی ، حضرت ابو احمد مظفر بن احمد اور حضرت ابو القاسم عبدالکرىم بن ہوازن قشىرى رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کے نام قابلِ ذکر ہىں ۔ (کشف المحجوب مترجم،ص ۱۲،وغیرہ)

علمی قابلیت : آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ جواں عمری ہی میں علوم ظاہری کی تکمیل کرچکے تھے ، آپ کے علمی مقام کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہےکہ ایک مرتبہ سلطان محمود غزنوی ( متوفی ۴۲۱ ھ) کی موجودگی میں حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ہندی فلسفی سے مناظرہ ہوا تو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ نے اپنی علمی قابلیت سے اس کو ساکت و صامت اور لاجواب کردیا ، حالانکہ اس وقت آپ کی عمر زیادہ نہ تھی کیونکہ اس مناظرے کو سلطان محمود غزنوی کی زندگی کے آخری سال میں بھی فرض کیا جائے تو اس وقت آپ کی عمر مبارک تقریباً 20 سال بنتی ہے ۔ (مقدمہ کشف المحجوب مترجم ، صفحہ نمبر ۱۲،چشتی)

آپ کى تصنیفات : یوں تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کو علومِ ظاہرى اور باطنى سے بے حد نوازا تھا اور دىنِ اسلام کے بہت سے اسرار و رموز عطا فرمائے تھے مگر اس کے علاوہ حصولِ علم کیلئے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے جو سفر اختیار کئے اس سے بھی آپ کوبےحد مشاہدات حاصل ہوئےچنانچہ آپ نے مخلوقِ خدا کی خیر خواہی اور طالبانِ معرفت کى رہنمائى کے لىے چند گراں قدر(قیمتی) کتابیں تصنىف فرمائیں۔ سب سے پہلی کتاب جو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے 12 سال کی عمر میں لکھی اس کا نام ’’دیوانِ شعر‘‘ ہے ۔ یہ دیوان صوفیانہ و عارفانہ اشعار پرمشتمل تھامگر افسوس ! کسی شخص نے ان سے امانۃً لیا اور خیانت کرتے ہوئے آپ کے نام کی جگہ اپنا نام لکھ کر وہ کتاب اپنی بنالی ۔

اس کے علاوہ بھی آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ نے کئی کتابیں لکھیں مثلاً منہاج الدىن ، بحر القلوب ، کتاب فنا و بقا، کشف الاسرار ، اورکشف المحجوب وغیرہ مگر افسوس ! آپ کی کتابوں میں سےصرف کشف المحجوب ہی کو شہرت حاصل ہوئی ، کیونکہ یہی ایک کتاب بآسانی دستیاب ہے ۔ تصوف کے موضوع پر فارسی زبان میں لکھی گئی یہ کتاب ایک نادرخزانے کے حیثیت رکھتی ہے اور اپنی مثال آپ ہےیہی وجہ ہے کہ اب تک اُردو کے علاوہ کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ کیا جاچکا ہے۔اس کتاب کی ایک ایک بات اپنے اندر تصوف کے حقائق سموئے ہوئے ہےاور سالکینِ طریقت و طالبانِ راہِ ہدایت کے لئے بہترین رہنما ہے۔حضرت سیدنانظام الدین اولیاء رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ اس کتاب کی عظمت کے بارے میں فرماتے ہیں : اگر کسی کا پیر نہ ہو تو وہ اس کتاب کا مطالعہ کرے! اسے پیر مل جائے گا ۔ (مقدمہ کشف المحجوب مترجم،ص ۲۰،چشتی)

سلسلۂ طریقت : حضرت داتا گنج بخش رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ سلسلہ جنیدیہ میں بیعت ہوئے ،یہ وہی سلسلہ ہے جس میں حضورغوث الاعظم محی الدین سیّد ابو محمد عبد القادر جیلانی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ بیعت ہوئے تھے ۔ حضرت داتاگنج بخش رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کے مرشد گرامی حضرت سیدنا ابوالفضل محمد بن حسن خُتُلى رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ تھے جو حضرت شىخ ابو الحسن على حُصرى کے مرىد ، وہ حضرت سیدنا شىخ ابوبکر شبلى کے ، وہ حضرت سیدنا جنىد بغدادى کے ، وہ حضرت سیدنا سرى سقطى کے ، وہ حضرت سیدنا معروف کرخی کے ، وہ حضرت سیدنا داؤد طائی کے ، وہ حضرت سیدنا حبىب عجمى کے ، وہ حضرت سیدنا ابوسعیدحسن بصرى کےمریدتھے ۔ (رَحمَۃُ اللّٰہ تعالی علیہم اجمعین)

حضرت سیدنا حسن بصری رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ وہ جلیل القدرہستی ہیں جو براہِ راست امیرالمؤمنین ، مولامشکل کُشا حضرت سیدنا على المرتضی شیرخدا کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے شرف بیعت اورخلافت کی دولت سے مالامال تھے ۔ (مقدمہ کشف المحجوب مترجم،ص ۱۳)

حنفی المذہب : حضرت داتا صاحب رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نہ صرف حنفی المذہب تھے بلکہ حضرتِ سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے خاص عقیدت بھی رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب کشف المحجوب میں امام موصوف کا نام نامی اسمِ گرامی نہایت تعظیم کے ساتھ اس طرح تحریر فرمایا : امام اما ماں و مقتدائی سنیاں ، شرفِ فقہاء ، عزّ علماء ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الخراز رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ۔ (مقدمہ کشف المحجوب مترجم،ص ۱۶)

ایک خواب کا ذکر : حضرت داتا گنج بخش رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی امام اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے محبت و عقیدت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : میں اىک روز سفر کرتا ہوا ملک شام مىں مؤذن رسول حضرت سیدنا بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے روضے پر حاضر ہوا ، وہاں میری آنکھ لگ گئی اور میں نے اپنے آپ کو مکہ معظمہ پایا ۔ کیا دیکھتا ہوں کہ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلَّم قبیلہ بنى شىبہ کے دروازے پر موجود ہیں اور ایک عمر رسیدہ شخص کو کسی چھوٹے بچے کی طرح اُٹھائے ہوئے ہیں ، میں فرطِ محبت سے بے قرار ہو کر آپ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلَّم کى طرف لپکا اور آپ کے مبارک قدموں کو بوسہ دیا ، دل ہی دل میں اس بات پر بڑا حیران بھی تھا کہ یہ ضعیف شخص کون ہے ؟ اتنے میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مَحبوب ، دانائے غُیوب صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلَّم قوتِ باطنى اور علمِ غیب کے ذریعے میری حیرت و استعجاب کی کیفیت جان گئے اور مجھے مخاطب کرکے فرمایا : یہ ابوحنیفہ ہیں اور تمہارے امام ہیں ۔ (مقدمہ کشف المحجوب مترجم،ص ۱۷)

حضرت داتا گنج بخش رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ اپنا یہ خواب بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس سے مجھے معلوم ہوگیا کہ حضرت سیِّدُنا امام اعظم ابوحنیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا شمار ان لوگوں مىں سے ہے جن کے اوصاف شریعت کے قائم رہنے والے احکام کى طرح قائم و دائم ہیں ، یہى وجہ ہے کہ حُسنِ اَخلاق کے پیکر ، مَحبوبِ رَبِّ اَکبر صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلَّم ان سے اس قدر محبت فرماتے ہىں اور آپ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلَّم کو جو ان سے محبت ہے اس سے یہ نتپجہ بھی نکلتا ہے کہ جس طرح آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے خطا ممکن نہیں اسى طرح حضرت سیِّدُنا امام اعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ سے بھى خطا کا صدورنہیں ہوسکتا یہ ایک لطیف نکتہ ہے جسے صرف وہى لوگ سمجھ سکتے ہىں جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ (کشف المحجوب مترجم،ص ۲۱۶،چشتی)

حکم مرشد کی حکمت : حضر تِ داتا گنج بخش رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے حصولِ معرفت کى خاطر بے حد ریاضت و عبادت کى حُصولِ علم کی خاطر سفر کی صعوبتیں برداشت کیں ، رضائے الٰہى کے لئے اُونی لباس پہنا ، محبتِ الٰہى میں فقرو فاقہ اختیار کیا اور عشقِ حقیقى میں ثابت قدمی کی خاطر مصائب و مشکلات میں صبر و ضبط سے کام لیا آخرکار اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے فضل سے آپ کی معرفت کی تکمیل ہوئی ۔ جب آپ کے پیر و مرشد حضرت سیِّدُنا ابوالفضل محمد بن حسن خُتُلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی نظرِ ولایت نے دیکھا کہ میرے مریدِ خاص کے علمِ ظاہری و باطنی سے مخلوق خدا کے فائدہ اٹھانے اور ان کی صحبت سے فیض پانے کا وقت آگیا ہے تو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے حکم دیا کہ تم (مرکز الاولیا) لاہور روانہ ہوجاؤ اور وہاں جا کر رُشد و ہداىت کا فریضہ انجام دو ۔ (مقدمہ کشف المحجوب مترجم،ص ۵۰،وغیرہ)

اس زمانہ میں غزنى سے لاہور تک کا راستہ کافى دشوار گزار تھا ، لہٰذا آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ مرشدِ کریم سے رخصت ہو کر پہلے اپنے وطن غزنى آئے اور وہاں سے حضرت احمد حمادی کرخی اور حضرت ابو سعید ہجویری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمَا کو ساتھ لے کر تین افراد کے قافلہ کى صورت میں مرکزالاولیا لاہور کى طرف چل دیئے اوربڑی مشقتوں سے پہاڑى راستے طے کرتے ہوئے پہلے پشاور اورپھرغالباً ۴۳۱ ھ بمطابق 1041ء کو مرکزالاولیا لاہور میں آپ کی آمد ہوئی ۔ (تذکرہ اولیائے لاہور، ص۵۷،ادارہ پیغام القرآن)

حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف علم و فضل کے اعلیٰ مرتبے پر فائز تھے بلکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے بہت مقرب ولی اور صاحبِ کثیرُالکرامات بھی تھے ۔ آئیے تمام اولیاء کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہ ُ السَّلَام اور بالخصوص داتا گنج بخش رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی محبت اپنے دل میں مزید پختہ کرنے کے لئے ان کی دو کرامات ملاحظہ کیجئے ۔ (بقیہ حصّہ دوم میں)(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔