Sunday 6 October 2019

شان و ادبِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ

0 comments
شان و ادبِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام قرآن کرام کریم اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ وَالَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحْسٰنٍ ۙ رَّضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوۡا عَنْہُ وَ اَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیۡ تَحْتَہَا الۡاَنْہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیۡمُ ۔ (سورہ توبہ آیت نمبر 100)
ترجمہ : اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے ۔

صحابی کی تعریف

علماء متقدمین و متاخرین نے صحابی کی تعریف میں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر اس صاحب ایمان شخص کو صحابی کہا جائے گا جس نے ایمان کی حالت میں خاتم النّبیین محمد عربی صلى الله عليه و آلہ وسلّم سے شرف ملاقات حاصل کیا اور اسی ایمان کے ساتھ وفات پائی ،اور ظاہر ہے کہ وہ نابینا حضرات یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نومولود بچے جو نبی کریم صلى الله عليه و آلہ وسلّم کی خدمت مبارکہ میں لائے گئے ان سب کو ملاقات حاصل ہے لہٰذا بلا تردد جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم میں ان کا شمار ہوگا ۔

صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم پر طعنہ زنی جائز نہیں

ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا تسبوا اصحابی لعن اللہ من سب اصحابی ۔
ترجمہ : میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا مت کہو، اللہ تعالیٰ کی اس پر لعنت ہو جو میرے صحابہ کو برا کہتا ہے ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 94)

امام المفسرین علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یہ جائز نہیں کہ کسی بھی صحابی رضی اللہ عنہ کی طرف قطعی اور یقینی طور پر غلطی منسوب کی جائے اس لیے ان سب حضرات نے اپنے اپنے طرز عمل میں اجتہاد سے کام لیا تھا اور ان سب کا مقصد اللہ کی خوشنودی تھی یہ سب حضرات ہمارے پیشوا ہیں اور ہمیں حکم ہے ان کے باہمی اختلافات میں کفِ لسان کریں اورہمیشہ ان کا ذکر بہتر طریقہ پر کریں ، کیونکہ صحابیت بڑی حرمت (وعظمت) کی چیز ہے اورنبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کو برا کہنے سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ اللہ نے انہیں معاف کر رکھا ہے اور ان سے راضی ہے ۔ (تفسیر قرطبی جلد نمبر ۱۶، ص:۳۲۲)

اس آیتِ مبارکہ کی ابتداء میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے دو گروہوں کا ذکر ہوا ۔

سابقین مہاجرین یعنی ایمان قبول کرنے میں دوسروں پر سبقت لے جانے والے مہاجرین ۔ ان کے بارے میں بعض مفسرین کا قول یہ ہے کہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نمازیں پڑھیں۔ ایک قول یہ ہے کہ ان سے اہلِ بدر مراد ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ ان سے اہلِ بیت ِرضوان مراد ہیں ۔

سابقین انصار یعنی ایمان قبول کرنے میں دوسروں پر سبقت لے جانے والے انصار۔ ان سے مراد وہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ہیں کہ جو بیعتِ عَقَبۂ اُولیٰ میں شریک تھے جن کی تعداد چھ تھی، یونہی بیعتِ عقبۂ ثانیہ میں شریک بارہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور بیعتِ عقبۂ ثالثہ میں شریک ستر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھی سابقین انصار کہلاتے ہیں ۔ پھر سابقین کے گروہ میں بھی جو ایمان قبول کرنے میں سب سے سابق ہیں وہ یہ حضرات ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا یعنی مردوں میں سب پہلے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ، عورتوں میں سب سے پہلے اُمّ المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا نے ، بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اور غلاموں میں سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایمان قبول کیا ۔ (تفسیر خازن، التوبۃ : ۱۰۰، ۳/۲۷۴،چشتی)

وَالَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحْسٰنٍ : اور جو بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے ہیں ۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ ان سے باقی مہاجرین و انصار مراد ہیں ، اس قول کے مطابق تمام صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اس آیت میں داخل ہوگئے اور ایک قول یہ ہے کہ پیرو ی کرنے والوں سے قیامت تک کے وہ ایماندار مراد ہیں جو ایمان ، طاعت اور نیکی میں انصار و مہاجرین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے راستے پرچلیں ۔ ان سب سے اللہ عَزَّوَجَلَّ راضی ہوا کہ اسے ان کے نیک عمل قبول ہیں اور یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے راضی ہیں کہ اس کے ثواب و عطاسے خوش ہیں ۔ اور اس نے ان کیلئے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور یہ حضرات ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے ۔ (تفسیر خازن ، التوبۃ : ۱۰۰، ۲/۲۷۵،چشتی)

سارے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم عادل اور جنتی ہیں

اس سے معلوم ہوا کہ سارے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم عادل ہیں اور جنتی ہیں ان میں کوئی گنہگار اور فاسق نہیں لہٰذا جوبد بخت کسی تاریخی واقعہ یا روایت کی وجہ سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں سے کسی کو فاسق ثابت کرے ، وہ مردود ہے کہ اس آیت کے خلاف ہے اور ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ درج ذیل حدیث پاک کو دل کی نظر سے پڑھ کر عبرت حاصل کرنے کی کوشش کرے ، چنانچہ حضرت عبداللہ بن مغفل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میرے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو، اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو۔ میرے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو ، اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو ۔ میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو ا س نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ایذا دی اور جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی پکڑ فرما لے ۔ (جامع ترمذی کتاب المناقب، باب فی من سبّ اصحاب النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم، ۵/۴۶۳، الحدیث: ۳۸۸۸،چشتی)

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : لَاتَسُبُّوْااَصْحَابِیْ فَلَوْ اَنَّاَحَدَکُمْ اَنْفَقَ مِثْلَ اُحُدٍ ذَھَبًامَابَلَغَ مُدًّااَحَدِھِمْ وَلَانَصِیْفَہُ ۔ (متفق علیہ)
ترجمہ : تم میرے صحابہ کوگالی نہ دو اگرتم میں سے کوئی احد پہاڑکی مثل سوناخرچ کرے وہ ان میں سے کسی ایک کے مد اورنہ ہی آدھے مد (خرچ کرنے کے ثواب) کوپہنچ سکتا ہے ۔

حضرت عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : اَکْرِمُوْااَصْحَابِیْ فَاَنَّھُمْ خِیَارُکُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ۔
ترجمہ : تم میرے صحابہ کی تکریم کروپس وہ بے شک تم میں سے بہترلوگ ہیں پھر وہ جوان سے متصل ہوں گے پھروہ جوان سے متصل ہوں گے ۔ (مشکوٰۃ المصابیح باب مناقب الصحابہ رضی اللہ عنھم اجمٰعین)

محترم قارئینِ کرام : مندرجہ بالا قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت کا اقرار ‘عزت کی حفاظت اوران کی پیروی کرنا ایمان کا حصہ ہے اور جو کوئی شخص کسی ایک صحابی رسول کے بارے میں بھی غلط عقیدہ رکھے اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معاذ اللہ غبی یا احمق وغیرہ قرار دے تو وہ مسلمان اور مومن کہلانے کا حقدار نہیں ہو سکتا ۔

طبرانی میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہے’’ جس نے میرے صحابہ کو گالیاں دیں ، اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو ‘‘ ایک اور حدیث میں ہے ’’ جس نے میرے صحابہ کو گالیاں دیں ، اس نے مجھے گالیاں دیں اور جس نے مجھے گالیاں دیں ، اس نے اللہ تعالیٰ کو گالیاں دیں ‘‘ غرض مذکورہ آیاتِ قرآنیہ اور اِن احادیـثِ نبویہ کے پیشِ نظر اہلِ علم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی دینا اور لعن طعن کرنا کفر قرار دیا ہے ۔

نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلَّم کا فرمان ہے : اََلَاوَ اِنَّ اَصْحَابِیْ خِیَارُکُمْ فَاَکْرِمُوْہُمْ ۔
ترجمہ : یخبر دار! میرے صحابہ تم سب میں بہترین ہیں ان کی عزت کرو ۔ (المعجم الأوسط،۵/۶حدیث:۶۴۰۵،چشتی)

حضرت صدر الشریعہ مولانا امجد علی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : تمام صحابہ کرام رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم اہلِ خیر و صلاح ہیں اور عادل ، ان کا جب ذکر کیا جائے تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔ کسی صحابی کے ساتھ سوءِ عقیدت بدمذہبی و گمراہی و استحقاقِ جہنم ہے کہ وہ حضورِ اقدس صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ بغض ہے ۔ تمام صحابہ کرام اعلیٰ و ادنیٰ (اور ان میں ادنیٰ کوئی نہیں) سب جنتی ہیں ، وہ جہنم کی بِھنک (ہلکی سی آواز بھی) نہ سنیں گے اور ہمیشہ اپنی من مانتی مرادوں میں رہیں گے ۔ (بہار شریعت ،۱/۲۵۴)

ان نفوسِ قدسیہ کی فضیلت و مدح ، ان کے حسنِ عمل ، حسنِ اخلاق اور حسنِ ایمان کے تذکرے سے کتابیں مالا مال ہیں اور انہیں دنیا ہی میں مغفرت ، انعاماتِ اخروی اور باری تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا مثردہ سنا یا گیا ۔ چنانچہ قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں اِرشاد باری تعالیٰ ہے : رَّضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوۡا عَنْہُ (پ۱۱،التوبہ:۱۰۰)
ترجمہ : اللّٰہ ان سے راضی اور وہ اللّٰہ سے راضی ہیں ۔

صدرُ الافاضِل حضرتِ علامہ مولیٰنا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی علیہ رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں : مسلمان کو چاہیے کہ صَحابہ کرام (علیھم الرضوان) کا نہایت ادب رکھے اور دل میں ان کی عقیدت ومحبت کو جگہ دے ۔ ان کی محبت حُضُور (صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کی محبت ہے اور جو بد نصیب صَحابہ (علیھم الرضوان)کی شان میں بے ادَبی کے ساتھ زَبان کھولے وہ دشمنِ خدا و رسول ہے ۔ مسلمان ایسے شخص کے پاس نہ بیٹھے ۔ (سوانح کربلا صفحہ ۳۱،چشتی)

اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں : ⬇

اہلسنّت کا ہے بَیڑا پار اَصحابِ حُضُور
نَجم ہیں اور ناؤ ہے عِترَت رسولُ اللّٰہ کی

یعنی اہلسنَّت کا بیڑا پار ہے کیوں کہ صَحابہ کرام عَلَیْھِمُ الرِّضْوان ان کیلئے ستاروں کی مانند اور اہلبیتِ اَطہارعَلَیْھِمُ الرِّضْوان کشتی کی طرح ہیں ۔

صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضوَان کو اِیذا دینے والے کی سزا

نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس نے میرے صحابہ کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو ایذا دی اور جس نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اسے پکڑے ۔ (ترمذی،کتاب المناقب،باب فی من سب اَصحاب النبی صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، ۵/۴۶۳، حدیث:۳۸۸۸)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے گستاخ کا انجام

منقول ہے کہ حجا ج کا ایک قافلہ مدینہ منورہ پہنچا ۔ تمام اہلِ قافلہ امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے مزارِ مبارک پر زیارت کرنے اور فاتحہ خوانی کےلئے گئے لیکن ایک شخص جو آپ سے بُغض وعنادرکھتا تھا توہین واِہانت کے طور پر آپ کے مزار کی زیارت کے لئے نہیں گیا اورلوگوں سے کہنے لگا کہ بہت دور ہے اس لئے میں نہیں جاؤں گا ۔ جب یہ قافلہ اپنے وطن کو واپس آنے لگا تو قافلہ کے تمام افراد خیر و عافیت اور سلامتی کے ساتھ اپنے اپنے وطن پہنچ گئے لیکن وہ شخص جو آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی قبرِ انور کی زیارت کے لئے نہیں گیا تھا اس کا یہ انجام ہوا کہ درمیان راہ میں بیچ قافلہ کے اندر ایک درندہ غراتا ہوا آیا اوراس شخص کو اپنے دانتوں سے دبوچ کر اور پنجوں سے پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ۔ یہ منظر دیکھ کر تمام اہلِ قافلہ نے یک زبان ہوکر کہا یہ حضرت ِسیدنا عثمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی بے ادبی وبے حرمتی کا انجام ہے ۔ (شواہدالنبوۃ صفحہ نمبر ۲۱۰،چشتی)

صَحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے گستاخوں کے ساتھ برتاؤ

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وسلَّم کا فرمان ہے : میرے صحابہ کو گالی مت دو ، کیونکہ آخِر زمانے میں ایک قوم آئے گی ، جو میرے صَحابہ کو گالی دے گی ، پس اگر وہ (گالیاں دینے والے) بیمار ہو جائیں تو ان کی عِیادت نہ کرنا ، اگر مر جائیں تو ان کی نَمازِ جنازہ نہ پڑھنا ، ان سے ایک دوسرے کا نِکاح نہ کرنا ، نہ انہیں وِراثت میں سے حصّہ دینا ، نہ انہیں سلام کرنا اور نہ ہی ان کے لیے رَحمت کی دُعا کرنا ۔ (تاریخ بغداد،۸/۱۳۸رقم:۴۲۴۰)

اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اللّٰہ والوں کی بے ادبی وگستاخی کی لعنت سے محفوظ رکھے اوراپنے محبوبوں کی تعظیم وتوقیر اوران کے ادب واحترام کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔

فتاویٰ بزازیہ میں ہے : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا منکر کافر ہے ۔ حضرت علی ، طلحہ ، زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کو کافر کہنے والے کو کافر کہنا واجب ہے ۔ (فتاویٰ بزازیہ:۳/۳۱۸،چشتی)

ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ : شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں : جو شخص ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کا انکار کرے تو وہ کافر ہے ، کیونکہ ان دونوں کی خلافت پر تو صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے ۔ (شرح فقہ اکبر صفحہ ۱۹۸)

حضرت مجدِّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ مختلف مکتوبات میں روافض کو کافر فرماتے ہیں : ایک رسالہ مستقل ان پر لکھا ہے جس کا نام رد روافض ہے ، اس میں تحریر فرماتے ہیں : اس میں شک نہیں کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما صحابہ میں سب سے افضل ہیں ، پس یہ بات ظاہر ہے کہ ان کو کافر کہنا ان کی کمی بیان کرنا کفر و زندیقیت اور گمراہی کا باعث ہے ۔ (ردّ روافض صفحہ ۳۱)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے : روافض اگر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی شان میں گستاخی کریں اور ان پر لعنت کریں تو کافر کافر ہیں، روافض دائرۂ اسلام سے خارج ہیں اور کافر ہیں اور ان کے احکام وہ ہیں جو شریعت میں مرتدین کے ہیں ۔ (فتاویٰ عالمگیری:۲/۲۶۸،چشتی)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ اپنی کتاب مسویٰ شرح مؤطا امام محمد رحمۃ اللہ علیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ : اگر کوئی خود کو مسلمان کہتا ہے لیکن بعض ایسی دینی حقیقتوں کی جن کا ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے قطعی ہے ایسی تشریح و تاویل کرتا ہے جو صحابہ رضی اللہ عنہم تابعین رضی اللہ عنہم اور اجماعِ امت کے خلاف ہے تو اس زندیق کہا جائے گا اور وہ لوگ زندیق ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اہل جنت میں سے نہیں ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد کسی کو نبی نہ کہا جائے گا ، لیکن نبوت کی جو حقیقت کسی انسان کا اللہ کی طرف سے مبعوث ہونا ، اس کی اطاعت کا فرض ہونا اور اس کا معصوم ہونا ، یہ سب ہمارے اماموں کو حاصل ہے ، تو یہ عقیدہ رکھنے والے زندیق ہیں اور جمہور متأخرین حنفیہ ، شافعیہ کا اتفاق ہے کہ یہ واجب القتل ہیں ۔ (مسویٰ شرح مؤطا محمد)

درّ مختار میں ہے : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما میں سے کسی ایک کو برا بھلا کہنے والا یا ان میں سے کسی ایک پر طعن کرنے والا کافر ہے اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی ۔ (درمختار)

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائے یا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرے تو اس کے کفر میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ۔ (شامی:۲/۲۹۴)

علامہ سعد الدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اہل حق کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام امور میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ حق پر تھے اور فرماتے ہیں تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین عادل ہیں اور ساری جنگیں اور اختلافات تاویل پر مبنی ہیں ان کے سبب کوئی بھی عدالت سے خارج نہیں اس لیے کہ وہ مجتہد ہیں ۔ الشرف المؤبد ص 104. حدیث میں ہے کہ جس نے میرے صحابہ کرام کو گالی دی اس پر اللہ اور رسول اور فرشتے اور تمام انسانوں کی لعنت ہے ۔ (برکات آل رسول صفحہ 383 )

اصحاب رسول کو برا کہنے والے ملعون کی نہ فرض عبادت قبول نہ نفل: عَنْ عُوَيْمِ بْنِ سَاعِدَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اخْتَارَنِي وَاخْتَارَ لِي أَصْحَابًا ، فَجَعَلَ لِي مِنْهُمْ وُزَرَاءَ وَأَنْصَارًا وَأَصْهَارًا ، فَمَنْ سَبَّهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ، لا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لا صَرْفًا وَلا عَدْلا ” , هذا حديث صحيح الأسناد ولم يخرجاه ، وقال الذهبي “صحيح” ۔ (مستدرك الحاكم : ٣/٦٣٢) ، قَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ : الصَّرْفُ وَالْعَدْلُ : الْفَرِيضَةُ وَالنَّافِلَةُ ۔ (الشريعة للآجري » رقم الحديث: 1973)
ترجمہ : حضرت عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے مروی ہیں کہ “بیشک الله تبارک و تعالیٰ نے مجھے چن لیا ، اور میرے لئے اصحاب کو چن لیا، پس ان میں بعض کو میرے وزیر اور میرے مددگار اور میرے سسرالی بنادیا، پس جو شخص ان کو برا کہتا ہے ، ان پر الله کی لعنت اور سارے انسانوں کی لعنت ، قیامت کے دن نہ ان کا کوئی فرض قبول ہوگا، اور نہ ہی نفل ۔ (السفر الثاني من تاريخ ابن أبي خيثمة (سنة الوفاة:287) » رقم الحديث: 885 2) السفر الثاني من تاريخ ابن أبي خيثمة (سنة الوفاة:279) » رقم الحديث: 1553 3)الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم (سنة الوفاة:287) » رقم الحديث: 1590(1772) 4) الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم (سنة الوفاة:287،چشتی) » رقم الحديث: 1730(1946) 5) معجم الصحابة لابن قانع (سنة الوفاة:351) رقم الحديث: 1285 (1437) 6) الشريعة للآجري (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 1972 7) الشريعة للآجري (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 1973 8) المعجم الأوسط للطبراني (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 467(456) 9) المعجم الكبير للطبراني (سنة الوفاة:360) » رقم الحديث: 13809(349) 10) جزء ابن الغطريف (سنة الوفاة:377) » رقم الحديث: 37 11) المستدرك على الصحيحين (سنة الوفاة:405) » رقم الحديث: 6686(3 : 629) 12) الجزء التاسع من الفوائد المنتقاة (سنة الوفاة:412) » رقم الحديث: 27 13) حديث ابن السماك والخلدي (سنة الوفاة:419) » رقم الحديث: 56 14) أمالي ابن بشران 20 (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 59 15) حلية الأولياء لأبي نعيم (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 1399(1401) 16) معرفة الصحابة لأبي نعيم (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 4040 (4440) 17،چشتی) معرفة الصحابة لأبي نعيم (سنة الوفاة:430) » رقم الحديث: 4863 (5344) 18) المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي (سنة الوفاة:458) » رقم الحديث: 24(47) 19) تلخيص المتشابه في الرسم (سنة الوفاة:463) » رقم الحديث: 936(2 : 631) 20) أربع مجالس للخطيب البغدادي (سنة الوفاة:463) » رقم الحديث: 21 21) مجلسان من أمالي نظام الملك (سنة الوفاة:485) » رقم الحديث: 20 22) الثاني والعشرون من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي (سنة الوفاة:576) » رقم الحديث: 55 23) السابع والعشرون من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي (سنة الوفاة:576) » رقم الحديث: 14 24) التبصرة لابن الجوزي (سنة الوفاة:597) » رقم الحديث: 104 25) التدوين في أخبار قزوين للرافعيي (سنة الوفاة:623) » رقم الحديث: 1438 26) مشيخة أبي بكر بن أحمد المقدسي (سنة الوفاة:718) » رقم الحديث: 69 (70)

علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہم تک دین صحابہ ء کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے ذریعے ہی پہنچا ہے انہیں کو جب مطعون کردیا جائے گا تو آیات و احادیث بھی محل طعن بن جائیں گی اور اس میں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اس لیے کہ نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وصال کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا اور مبلغ کی تبلیغ کےلیے اس کا عادل ہونا ضروری ہے اور ۔ (برکات آل رسول صفحہ 281،چشتی)

حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن مبارک سے پوچھا گیا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز افضل ہیں یا حضرت امیر معاویہ آپ نے فرمایا : نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ جہاد کے موقع پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ناک میں جو غبار داخل ہوا وہ غبار حضرت عمر بن عبدالعزیز علیہ الرحمہ سے افضل ہے ۔ الناہیہ صفحہ 16 پر علامہ قاضی عیاض علامہ معافی بن عمران علیہما الرحمہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ علامہ معافی نے فرمایا کہ صحابی پر کسی کسی کو بھی قیاس نہیں کیا جائے گا حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابی اور زوجہء رسول ام حبیبہ کے بھائی اور کاتب وحی ہیں ۔ (الناہیہ صفحہ 17)

بخاری شریف کی حدیث شریف ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کسی نے کہا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں جب کہ فلاں مسئلے میں انہوں نے یوں کیا تو حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ انہوں نے ٹھیک کیا بیشک وہ فقیہ ہیں ۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 112)

بخاری مسلم ترمذی ابوداؤد وغیرہ کبار محدثین نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ احادیث کو قبول فرمایا اور اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ان ائمہ محدثین کس قدر محتاط ہوئے ہیں اخذ حدیث کے معاملے میں کسی ذی علم پر مخفی نہیں خاص طور پر شیخین کہ ذرا سا عیب بھی پایا تو اس کی روایت لینے سے پرہیز کیا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو قبول کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ان تمام ائمہ کرام کے نزدیک حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ متقی عادل اور ثقہ قابل روایت ہیں ۔

محترم قارئینِ کرام : اس عنوان پر بہت تحقیق ہوچکی ہے جو کتب عقائد میں موجود ہے جس کو مزید تحقیق درکار ہو وہ اہل سنت کی کتب کی طرف رجوع کرے اور بہت موٹی سی بات یہی سمجھ لے کہ جس سیدنا حسن مجتبی رضی اللہ عنہ نے صلح کی ہم ان سے مخالفت نہیں کرسکتے کہ حضرت امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ کے اعتماد کا کھلا مذاق ہے اور جس سے ان کے برادر صغیر سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بیعت نہیں کی ہم اس یزید پلید سے صلح نہیں کرسکتے باقی جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے درمیان نزاع ہوا اس میں بحث کرنے سے خود کو دور رکھتے ہیں نہ ہم اس کے مکلف کہ مجالس میں صبح سے شام تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان ہونے والی جنگوں کا ذکر کریں . ہمارے آقا کا فرمان ہے کہ کہ صحابہ کرام کے بارے میں تمہیں اللہ کا ڈر سناتا ہوں جس نے انہیں تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی الخ .
شرح عقائد : خوب کان کھول کر سن لیجیے جو صحابہ کرام کی محبت کے نام پر اہل بیت کی شان میں گستاخی کرے ناصبی خارجی ہے اور جو محبت اہل بیت کے نام پر صحابہ کرام پر سب و شتم کرے رافضی ہے. دونوں کی محبت اور تعظیم فرض ہے . امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہی خوب فرمایا ہے : ⬇

اپنا ہے بیڑا پار اصحاب حضور نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی

امیر معاویہ بھی ہمارے سردار لیکن حق بجانب حیدر کرار (رضی اللہ عنہما)

ضروری گزارش : ہمارا یہ مضمون لکھنے کا مقصد واللہ صرف یہ بتانا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم میں سے کسی کو بھی مطعون کرنا کتنا جرم ہے اور سخت گمراہی ہے ایسے کتنے لوگ ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بغض سے سفر شروع ہوا اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بغض تک پہنچ گئے نعوذ باللہ من ذالک الف مرات ۔

لہٰذا جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد گمراہ نہ ہو ، وہ قرآن و سنت اور دین و شریعت پر عمل پیرا رہے ، یا وہ جادہٴ حق پر قائم اور صراطِ مستقیم پر گامزن رہے تو ان کو چاہیے کہ وہ اپنے اپنے دور کے اکابر علماء ، محققین اور خدا ترس صلحاء سے دلائل و براہین کے ساتھ اختلاف ضرور کریں ، کیونکہ یہ ان کا حق ہے ، مگر خدارا ! ان کی توہین و تنقیص سے پرہیز کریں ، کیونکہ اس سے ان کی اولادوں اور نسلوں کے بے دین اور ملحد و خارجی ہونے کا شدید اندیشہ ہے ، چنانچہ ایسی بیسیوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں کہ جن لوگوں نے اکابر علماء اور صلحا کی گستاخی یا بے ادبی کی ، نہ صرف یہ کہ ان کی اولاد بے دین و گمراہ ہوگئی بلکہ ان کا انجام بھی کچھ اچھا نہیں ہوا ۔

ازواج مطہرات ، اہل بیت اطہار ، خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بے ادبی و گستاخی کرنے والا گمراہ اور بے ایمان ہے ، اس کو اسلامی عدالت میں تعزیراً سزادی جائے گی جو حد سے بھی سخت ہو سکتی ہے ۔ اسی طرح اولیاء کرام کی بے ادبی و گستاخی کرنے والا گمراہ اور بدعقیدہ ہے اس کو بھی جو مناسب ہو تعزیراً سزا دی جائے گی ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اور ہماری نسلوں کو گستاخی اور بے ادبی سے بچنے ، اہل اللہ اور مقربین بارگاہِ الٰہی کی قدر دانی کی توفیق نصیب فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔