Tuesday 1 October 2019

امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحابی ہیں ان کی خطاء اجتہادی ہے ان کا احترام واجب ہے

0 comments
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحابی ہیں ان کی خطاء اجتہادی ہے ان کا احترام واجب ہے

محترم قارئینِ کرام : بعض حضرات جو دن رات حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان اقدس میں گستاخیاں کر رہے ہیں اور گھٹیا زبان استعمال کر رہے ہیں اُن کے نام شیخ الاسلام منہاج القرآن جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کا پیغام :

بانی منہاج القرآن اور شیخ الاسلام منہاج القرآن جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا فیصلہ اجتہاد پر تھا اور ان کی کی خطاء اجتہادی تھی اور صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہونے کے ناطے ان پر ملامت ، طعن یا تنقید کرناحرام ہے اور ان کے معاملے میں خاموشی سکوت واجب ہے ۔ (اسلامن دین امن و رحمت صفحہ نمبر 430 ، 432)

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی مفتی منہاج القرآن کا فتویٰ

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کاتبِ وحی ، عظیم المرتب صحابی اور تمام اہل اسلام کے ماموں ہیں مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی مفتی منہاج القرآن کا فتویٰ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابی ہیں ، کاتب وحی ہیں۔ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں ۔ اس لحاظ سے تمام اہل اسلام کے قابل صد تکریم روحانی ماموں ہیں ۔ لہذا کوئی مسلمان ان کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور جو گستاخی کرے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا ۔ (ماہنامہ منہاج القرآن جنوری 2013 ء الفقہ آپ کے دینی مسائل)

مجتہد کی غلطی پر بھی اجر ہے ڈاکٹر محمد طاہر القادری

شیخ الاسلام منہاج القرآن جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں : یہ صرف مجتہد کی شان کہ اجتہاد صحیح تھا مگر نتیجہ غلط نکلا تو اس کےلیئے بھی اجر ہے ۔ (اقسام بدعت احادیث واقوال ائمہ کی روشنی میں صفحہ 92)
مجتہد اگر غلطی کر بیٹھے تو اس کےلیئے اجر ہے کیونکہ مومنِ مجتہد کا ہر فیصلہ ہر صورت باعث اجر ہے ۔ (اقسام بدعت احادیث و اقوال ائمہ کی روشنی میں صفحہ 93)

شیخ الاسلام منہاج القرآن جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب نے اپنے ایک بیان میں فرمایا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے قصیدے نہ پڑھے جائیں ، ان کا عرس نہ منایا جائے ، ان کے متعلق صرف کف لسان کیا جائے ۔

کف لسان کے متعلق جوابا عرض ہے

(1) کف لسان کا حکم صرف مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم میں ہے ، فضائل بیان کرنے میں نہیں ! اگر فضائل بیان کرنے میں کف لسان کا حکم ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کرآج تک کوئی بھی آپ کے فضائل بیان نہ کرتا ۔ جب کہ صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین ، فقہا و متکلمین ، مجددین ، صوفیہ و صالحین رضی اللہ عنہم اور علماے ربانیین نے آپ کے فضائل بیان کیے ۔ آپ کی شان میں مستقل کتابیں لکھیں گئیں ، اورکتب اسلامیہ میں ابواب باندھے گئے ۔

(2) شیخ الاسلام منہاج القرآن جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب جوش خطابت میں بات بات پرتیرہ سو سال اور چودہ سو سال کےعلمی سرمائے کا حوالہ دیتے ہیں ، جواس کلپ میں بھی دیتےنظر آئے ؛ لیکن ..... اتنا نہیں سوچا کہ : مخلوط دھرنے ، کرسمس ڈے ، طاہری قصیدے اور جملہ اعراس و ایام ایک طرف ، اگر کسی نے " شہر اعتکاف" کا ہی سوال کرلیا تو تیرہ سو سالہ علمی ذخیرے سے اس کی ایک بھی مثال پیش نہیں کرسکیں گے !! تعجب ہے! جب ان کے والدگرامی فرید ملت کا یوم منایا جاسکتا ہے تو صحابی رسول رضی اللہ عنہم کا کیوں نہیں ؟

ان کے والد محترم کے نام پر ادارے قائم ہوسکتے ہیں تو آقا کریم کے معزز صحابی کے نام پر مسجدیں کیوں تعمیر نہیں ہوسکتیں ؟

ان کے جلسے جلوسوں میں تصویریں اور جھنڈے بلند کیے جا سکتے ہیں تو صحابی رسول رضی اللہ عنہ کی تعظیم کے لیے جھنڈا کیوں بلند نہیں کیا جاسکتا ؟

کیا ان کے جملہ اعمال و افعال قرون اولیٰ کی یاد گار ہیں ، اور صحابی رسول کے عرس ، جھنڈوں اور قصیدوں کا کہیں نام و نشان تک نہیں ؟

(3) وہ کون سا سُنی ہے جو حضرت سیدنا مولا علی کرّم اللہ وجہہ الکریم کے مقام رفیع سے آگاہ نہ ہو ، بات صرف اتنی ہے کہ بعض لوگ سنیوں کو حضرت سیدنا مولا علی کرّم اللہ وجہہ الکریم کے نام پر بلیک میل کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کا مقصد صرف ذکر صحابہ رضی اللہ عنہم سے روکنا اور صحاح کی اس حدیث : لاتذکروا معاویۃ الا بخیر " کی مخالفت کرنا ہے ۔

شیخ الاسلام منہاج القرآن جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کے محبین و متوسلین سے گزارش ہے کہ امام نبھانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب اسالیب البدیعہ خود بھی پڑھیں پڑھیں اور ڈاکٹر صاحب کو بھی پیش کریں ، تاکہ آپ حضرات کا زاویہ نظر درست ہوسکے ، اور یہ جان سکیں کہ علمائے امت نے صرف تکفیر وتفسیق سے ہی منع نہیں کیا ، کچھ اور بھی کہا ہے ۔

اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ :

فرق مراتب بے شمار
اور حق بدست حیدر کرار

مگر معاویہ بھی ہمارے سردار
طعن ان پر بھی کارِ فجار

جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں عیاذ باﷲ حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کے سبقت و اوّلیت و عظمت واکملیت سے آنکھ پھیر لے وہ ناصبی یزیدی اور جو حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کی محبت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی صحابیت و نسبت بارگاہ حضرت رسالت بھلا دے وہ شیعی زیدی یہی روش آداب بحمد ﷲ تعالٰی ہم اہل توسط و اعتدال کو ہر جگہ ملحوظ رہتی ہے ـ (فتاویٰ رضویہ، جلد10، صفحہ199، مطبوعہ رضا فاؤبڈیشن لاھور،چشتی)

اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے ہیں کہ مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان مرتبہ کا فرق شمار سے باھر ہے ۔ اگر کوئی حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں حضرت امام المسلمین مولا علی مشکل کُشاء رضی اللہ عنہ کی شان و عظمت کو گرائے وہ ناصبی یزیدی ہے ۔ اور جو مولا علی شیرِ خُدا رضی اللہ عنہ کی محبت کی آڑ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں تنقیص کرے وہ زیدی شیعہ ہے ۔ الحمد لله ہمارا اھلسنت کا مسلک مسلکِ اعتدال ہے جو ہر صاحبِ فضل کو بغیر کسی دوسرے کی تنقیص و توھین کے مانتا ہے ۔ آج کے جاھلوں نے محبتِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کیلئے بُغضِ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ شرط بنا لیا ہے ۔ اللہ تعالٰی ہمیں آل و اصحاب کی محبت میں موت عطا فرمائے آمین ۔

محترم قارئینِ کرام : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مجتہد تھے ۔ صحابہ کا آپسی اختلاف اجتہاد پر مبنی تھا ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کےدرمیان ہونے والے اختلاف میں زبان بند رکھی جائے ۔ اور ان کے فضائل بیان کیے جائیں ۔ ناکہ جیسا کہ بعض جاہلوں نے سمجھ لیا کہ فضائل کے بارے میں کف لسان کیا جائے ۔ اللہ ان سب سے راضی ہے اور ان کا معاملہ اللہ کے سپر د ہے آئمہ اہلسنّت علیہم الرّحمہ کیا فرماتے ہیں آیئے پڑھتے ہیں :

اما م اہلسنت ابو الحسن الاشعری رحمۃ اللہ علیہ (324ھجری) فرماتے ہیں : جو جنگ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت زبیرو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہما کے مابین ہوئی یہ تاویل اور اجتہاد کی بنیاد پر تھی ، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ہی امام تھے اور یہ تمام کے تمام مجتہدین تھے اور ان کے لیئے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم نے جنت کی گواہی دی ہے اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم کی گواہی اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ تمام اپنے اجتہاد میں حق پر تھے ، اسی طرح جو جنگ حضرت سیدنا علی اور حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہما کے مابین ہوئی اس کا بھی یہی حال ہے ، یہ بھی تاویل واجتہاد کی بنیاد پر ہوئی ، اور تمام صحابہ پیشوا ہیں ، مامون ہیں ، دین میں ان پر کوئی تہمت نہیں ہے ، اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ان تمام کی تعریف کی ہے ، ہم پر لازم ہے کہ ہم ان تمام کی تعظیم و توقیر کریں ، ان سے محبت کریں اور جو ان کی شان میں کمی لائے اس سے براءت اختیار کریں ۔ (الابانہ عن اصول الدیانہ صفحہ 624۔625۔626،چشتی)

قاضی ابو بکر الباقلانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 304ھجری) فرماتے ہیں : واجب ہے کہ ہم جان لیں : جو امور حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مابین واقع ہوئے اس سے ہم کف لسان کرے ، اور ان تمام کے لیئے رحمت کی دعا کریں ، تمام کی تعریف کریں ، اور اللہ تعالی سے ان کے لیئے رضا ، امان، کامیابی اور جنتوں کی دعا کرتے ہیں ، اور اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ان امور میں اصابت پر تھے ، اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے لیئے ان معاملات میں دو اجر ہیں ، اور صحابہ کرام علیہم الرضوان سے جو صادر ہوا وہ ان کے اجتہاد کی بنیاد پر تھا ان کے لیئے ایک اجر ہے ، نہ ان کو فاسق قرار دیا جائے گا اور نہ ہی بدعتی ۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ ان کے لیئے اللہ تعالی نے فرمایا : اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ۔ اور یہ ارشاد فرمایا : بے شک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے تو اللہ نے جانا جو ان کے دلوں میں ہے تو ان پر اطمینان اتارا اور انھیں جلد آنیوالی فتح کا انعام دیا ‘ اور حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ہے جب حاکم اجتہاد کرے اور اس میں اصابت پر ہو تو اس کے لیئے دو اجر ہیں ، اور جو اجتہاد کرے اور اس میں خطا کرے ، تو اس کے لیئے اجر ہے ۔ جب ہمارے وقت میں حاکم کے لیئے اس کے اجتہاد پر دو اجر ہیں تو پھر ان کے اجتہاد پر تمہارا کیا گمان ہے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا : رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ ۔ (الانصاف فی ما یجب اعتقاده صفحہ 64،چشتی)

غنیۃ الطالبین میں ہے : اہل سنت صحابہ علیہم الرضوان کے آپس کے معاملات میں کف لسان ، ان کی خطاؤں کے بیان سے رکنے اور ان کے فضائل ومحاسن کا اظہار کرنے پر اور جو معاملہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرات طلحہ وعائشہ ومعاویہ رضی اللہ تعالی عنہم کے مابین اختلاف ہوا اس کو اللہ تعالی کے سپرد کرنے پر متفق ہیں جیسا کہ ہم ماقبل میں بیان کرچکے ہیں اور ان میں ہر فضل والے کو اس کا فضل دینے پر متفق ہیں ۔ (الغنية لطالبي طريق الحق عز وجل صفحہ 163،چشتی)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بُرا کہنے والوں پر اللہ کی لعنت ہو

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ ﷲِ رضي ﷲ عنهما قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : إِنَّ النَّاسَ يَکْثُرُوْنَ، وَإِنَّ أَصْحَابِي يَقِلُّوْنَ، فَـلَا تَسُبُّوْهُمْ لَعَنَ ﷲُ مَنْ سَبَّهُمْ. رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلٰی وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ ۔
ترجمہ ؛ حضرت جابر بن عبد ﷲ رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : بے شک لوگ کثیر تعداد میں ہیں اور میرے صحابہ رضی ﷲ عنہم قلیل ہیں . سو میرے صحابہ رضی ﷲ عنہم کو برا بھلا مت کہو اور اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو جو ان کو برا بھلا کہے ۔ (أخرجه أبو يعلی في المسند، 4 / 133، الرقم : 2184، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 47، الرقم : 1203، وأيضًا في الدعائ / 581، الرقم : 2109، وأبو نعيم في حلية الأوليائ، 3 / 350، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 3 / 149)

وفي رواية : عَنْ عَطَائٍ يَعْنِي بْنَ أَبِي رِبَاحٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ حَفِظَنِي فِي أَصْحَابِي کُنْتُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَافِظًا وَمَنْ سَبَّ أَصْحَابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ ﷲِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ ۔
ترجمہ : ایک روایت میں (تابعی) حضرت عطا بن ابی رباح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے میرے صحابہ رضی ﷲ عنہم کے معاملے میں مجھے یاد رکھا (یعنی میرا لحاظ کیا) تو قیامت کے دن میں اسے یاد رکھوں گا اور جس نے میرے صحابہ رضی ﷲ عنہم کو گالی دی تو اس پر خدا کی لعنت ہو ۔ (اخرجه أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 54، الرقم : 10،چشتی)

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي ﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِيْنَ يَسُبُّوْنَ أَصْحَابِي، فَقُوْلُوْا : لَعْنَةُ ﷲِ عَلٰی شَرِّکُمْ. وفي رواية : فَالْعَنُوْهُمْ ۔
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہتے ہیں تو تم کہو : تم پر اللہ کی لعنت ہو تمہارے شر کی وجہ سے . ایک روایت میں ہے : انہیں لعنت (و ملامت) کرو ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب ما جاء في فضل من رای النّبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 / 697، الرقم : 3866، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 397، الرقم : 606، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 190.191، الرقم : 8366)

وفي رواية : عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي ، فَإِنَّهُ يَجِيءُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ يَسُبُّوْنَ أَصْحَابِي ، فَإِنْ مَرِضُوْا فَـلَا تَعُوْدُوْهُمْ ، وَإِنْ مَاتُوْا فَـلَا تَشْهَدُوْهُمْ ، وَلَا تُنَاکِحُوْهُمْ، وَلَا تُوَارِثُوْهُمْ ، وَلَا تُسَلِّمُوْا عَلَيْهِمْ، وَلَا تُصَلُّوْا عَلَيْهِمْ ۔
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو گالی مت دو یقینا آخری زمانہ میں ایک ایسی قوم آئے گی جو میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہے گی. سو (یہ لوگ) اگر بیمار پڑ جائیں تو ان کی عیادت نہ کرنا اور اگر مر جائیں تو ان کی نمازِ جنازہ میں شریک مت ہونا، اور ان سے نکاح (وغیرہ کے معاملات) مت کرو، اور انہیں وارث مت بنانا، اور انہیں سلام مت کرنا، اور ان کے لیے دعا (مغفرت) بھی مت کرنا ۔ (أخرجه الخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 8 / 143، الرقم : 4240،چشتی)(والمزي في تهذيب الکمال، 6 / 499)(وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 14 / 344، وابن الخلال في السنة، 2 / 483، الرقم : 769)

شیخ الاسلام منہاج القرآن جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ کی خطاء اجتہادی تھی اور صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہونے کے ناطے ان پر ملامت ،طعن یا تنقید کرناحرام ہے اور ان کے معاملے میں خاموشی سکوت واجب ہے ۔ (اسلامن دین امن و رحمت صفحہ 432)

مجتہد کی غلطی پر بھی اجر ہے ڈاکٹر محمد طاہر القادری

بانی منہاج القرآن اور شیخ الاسلام منہاج القرآن جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں : یہ صرف مجتہد کی شان کہ اجتہاد صحیح تھا مگر نتیجہ غلط نکلا تو اس کےلیئے بھی اجر ہے ۔ (اقسام بدعت احادیث واقوال ائمہ کی روشنی میں صفحہ 92)
مجتہد اگر غلطی کر بیٹھے تو اس کےلیئے اجر ہے کیونکہ مومنِ مجتہد کا ہر فیصلہ ہر صورت باعث اجر ہے ۔ (اقسام بدعت احادیث و اقوال ائمہ کی روشنی میں صفحہ 93)

مفتی منہاج القرآن مفتی محمد عبد القیوم ہزاروی صاحب لکھتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابی، کاتب اور ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی ہیں۔ قرآنِ مجید صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اڑنے والے گرد و غبار کی قسمیں کھاتا ہے : وَالْعٰدِيٰتِ ضَبْحًاo فَالْمُوْرِيٰتِ قَدْحًاo فَالْمُغِيْرٰتِ صُبْحًاo فَاَثَرْنَ بِهِ نَقْعًاo
ترجمہ : (میدانِ جہاد میں) تیز دوڑنے والے گھوڑوں کی قَسم جو ہانپتے ہیں۔ پھر جو پتھروں پر سم مار کر چنگاریاں نکالتے ہیں۔ پھر جو صبح ہوتے ہی (دشمن پر) اچانک حملہ کر ڈالتے ہیں۔ پھر وہ اس (حملے والی) جگہ سے گرد و غبار اڑاتے ہیں۔ (العاديت، 100: 4)(آن لائن فتویٰ سوال نمبر 3990)

اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ :

فرق مراتب بے شمار
اور حق بدست حیدر کرار

مگر معاویہ بھی ہمارے سردار
طعن ان پر بھی کارِ فجار

جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں عیاذ باﷲ حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کے سبقت و اوّلیت و عظمت واکملیت سے آنکھ پھیر لے وہ ناصبی یزیدی اور جو حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کی محبت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی صحابیت و نسبت بارگاہ حضرت رسالت بھلا دے وہ شیعی زیدی یہی روش آداب بحمد ﷲ تعالٰی ہم اہل توسط و اعتدال کو ہر جگہ ملحوظ رہتی ہے ـ (فتاویٰ رضویہ، جلد10، صفحہ199، مطبوعہ رضا فاؤبڈیشن لاھور،چشتی)

اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے ہیں کہ مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان مرتبہ کا فرق شمار سے باھر ہے ۔ اگر کوئی حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں حضرت امام المسلمین مولا علی مشکل کُشاء رضی اللہ عنہ کی شان و عظمت کو گرائے وہ ناصبی یزیدی ہے ۔ اور جو مولا علی شیرِ خُدا رضی اللہ عنہ کی محبت کی آڑ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں تنقیص کرے وہ زیدی شیعہ ہے ۔ الحمد لله ہمارا اھلسنت کا مسلک مسلکِ اعتدال ہے جو ہر صاحبِ فضل کو بغیر کسی دوسرے کی تنقیص و توھین کے مانتا ہے ۔ آج کے جاھلوں نے محبتِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کیلئے بُغضِ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ شرط بنا لیا ہے ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق صحیح عقیدہ اہلسنّت

محترم قارئینِ کرام : کتب عقائد اہلسنت میں اس بات کی دو ٹوک صراحت ہے کہ مشاجرات صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سکوت کیا جائے گا . مولائے کائنات مولا مشکل کشا رضی اللہ تعالی عنہ حق پر تھے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ خطا اجتہادی پر تھے کتب عقائد میں تو اسی بات کی صراحت کی گئی ہے . یہ عقیدہ تو اہلسنت کی کسی کتاب میں نہیں لکھا کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل بیان کرنے سے سکوت کیا جائے گا . ائمہ متقدمین ومتأخرین نے تو آپ کے فضائل میں کتابیں لکھی ہیں .
حافظ ابو بکر بن ابی الدنیا رحمہ اللہ تعالی متوفی ۲۸۱ھ نے حلم معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے نام سے کتاب لکھی۔
امام محدث ابو عمر محمد بن عبد الواحد غلام ثعلب رحمہ اللہ تعالی متوفی ۳۴۵ ھ شیخ القراء ابو بکر النقاش البغدادی متوفی ۳۵۱ نے فضائل معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر کتابیں لکھیں۔
ابو القاسم السقطی رحمہ اللہ تعالی متوفی ۴۰۶ ھ نے فضائل معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر ایک جزء لکھا ۔
متاخرین میں اہل سنت کے متفقہ امام یعنی امام اہل سنت اعلی حضرت رحمہ اللہ تعالی نے پانچ کتب لکھیں
البشرى العاجلة من تحف أجله... الأحاديث الراوية لمدح الأمير معاوية .... عرش الإعزاز والإكرام لأول ملوك الإسلام. ذب الأهواء الواهية في باب الأمير معاوية.. رفع العروش الخاوية من أدب الأمير معاوية..
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی نے فضائل الصحابہ میں اور امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے جامع ترمذی میں مناقب معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا باب باندھ کر آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت میں حدیثیں ذکر کیں ۔ اسی طرح دیگر محدثین نے اپنی کتب میں آپ کے مناقب پر باب باندھے تراجم یعنی حالات زندگی کی کتب میں آپ کے فضائل ذکر کیے گئے ۔
کتب عقائد میں تو یہ ہے کہ مشاجرات صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم میں سکوت کیا جائے گا ۔ یہ تو کسی عقیدے کی کتاب میں نہیں لکھا کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل کو بیان کرنے سے سکوت کیا جائے گا ۔ چودہ سو سال کا عقیدہ جو اہلسنت کا ہے وہ تو اوپر کی کتب سے ہر ایک جان سکتا ہے ۔ یہ بالکل نیا عقیدہ بنایا گیا ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل بیان کرنے سے سکوت کیا جائے گا ۔
حافظ مہنا رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی سے عرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالی عنہ والی اس حدیث کے بارے میں سوال کیا جو معاویہ بن صالح کی سند سے مروی ہے، جس میں عرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں مبارک ناشتے کی طرف بلایا اور میں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : اے اللہ اس کو یعنی معاویہ کو کتاب وحساب کا علم سکھا اور عذاب سے بچا ۔ امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا ہاں یہ حدیث ہے اور یہ حدیث ہمیں عبد الرحمن بن مھدی نے معاویہ بن صالح کے طریق سے بیان کی ہے ، مہنا کہتے ہیں میں نے کہا :اہل کوفہ تو اس حصے : ان(معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ) کو کتاب اور حساب کا علم سکھا کو ذکر نہیں کرتے، کیا وہ یہ اس میں قطع وبرید کرتے ہیں ؟
امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا : عبد الرحمن بن مہدی اس حصے کو(ان کے سامنے) بیان ہی نہیں کرتے تھے، وہ اس حصے کو صرف مجھے ہی بیان کیا کرتے تھے ۔ (یعنی یہ فضیلت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اہل کوفہ کے سامنے بیان کرنا ممکن ہی نہیں تھا، اگر ان کے سامنے کے بیان کرتے تو فتنہ برپا ہوجاتا اس لیے وہ میرے سامنے ہی بیان کرتے تھے ۔ (المنتخب من العلل للخلال للإمام ابن القدامة المقدسي صفحه ٢٣٤ رقم ١٤١ طبع دار الرأية،چشتی)


بانی منہاج القرآن اور شیخ الاسلام منہاج القرآن جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف کفر منسوب کرنے والا ان کو گالی دینے والا اشارہ یا کنایہ سےتو ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔ (فلسفہ شہادت صفحہ نمبر 270 ) ۔ آج آپ کے خطاب کے بعد کتنے ہی آپ کے فلاورز ہیں جو یہ سب کچھ کر رہے بقول آپ کے یہ آپ کے فلاورز مسلمان رہے کہ نہیں ؟

تفضیلیوں کے نام حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا پیغام

بانی منہاج القرآن اور شیخ الاسلام منہاج القرآن جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ہوشیار میرے حق میں دو گروہ ہلاک ہونگے ایک محبت میں میرا مرتبہ بڑھانے والے دوسرے بغض رکھنے والے ۔ (فلسفہ شہادت صفحہ نمبر 262 ، شیخ الاسلام منہاج القرآن ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب) ۔ کاش آپ کے فلاورز آپ ہی کے اس فرمان کو سمجھتے اور عمل کرتے ۔

بانی منہاج القرآن اور شیخ الاسلام منہاج القرآن جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں : ہمارا مطالبہ ہے گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اور گستاخِ صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کو پھانسی دی جائے ایسے شیطان کو جینے کا حق نہیں ہے ۔ (فلسفہ شہادت صفحہ نمبر 271 ، شیخ الاسلام منہاج القرآن )

جناب من بانی منہاج القرآن اور شیخ الاسلام منہاج القرآن جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کے بیان کی روشنی میں ہمارا بھی یہی مطالبہ ہے کہ صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کی شان میں گستاخیاں کرنے والوں کو پھانسیاں دی جائیں کیا فرماتے ہیں بانی منہاج القرآن اور شیخ الاسلام منہاج القرآن جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب اور اُن کے فلاورز اس سلسلہ میں ؟ یاد رہے آپ خود اور آپ کے ادارہ کے مفتی صاحب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو جلیل القدر صحابی مانتے ہیں ؟ ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)







0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔