اس امت میں سب سے افضل ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں
محترم قارئینِ کرام : علمائے اہلسنت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سب سے افضل و برتر ہیں ، ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ، پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اور اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ، ان کے بعد عشرہ مبشرہ کے دیگر حضرات رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین ، پھر اصحابِ بدر رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین ، پھر باقی اصحابِ اُحد رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین ان کے بعد بیعتِ رضوان والے اصحاب رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین اور ان کے بعد دیگر اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے افضل ہیں ۔ (تاریخ الخلفاء مترجم اردو صفحہ نمبر 45 مطبوعہ نفیس اکیڈمی لاہور امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ)۔ (تاریخ الخلفاء مترجم اردو صفحہ نمبر 45 مطبوعہ ممتاز اکیڈمی لاہور)
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے حضرات ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت بر سر ممبر بیان فرمائی حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس امت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد سب سے افضل ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں ۔ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ بات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تواتر کے سات ثابت ہے ۔ (تاریخ الاسلام باب عہد الخلفاء صفحہ نمبر 115 امام ذھبی رحمۃ اللہ علیہ)
حضرت عمرو رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو منبر پر فرماتے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصال باکمال کے بعد افضل ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی ﷲ عنہم اجمعین ہیں ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث 178 جلد اول، ص107)
ابوالبختری طائی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو فرماتے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا ، میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابوبکر اور وہی آپ کے وصال کے بعد آپ کی اُمّت کے والی یعنی خلیفہ ہوں گے اور وہی اُمّت میں سب سے افضل اور سب سے بڑھ کر نرم دل ہیں ۔ (ابن عساکر، تاریخ دمشق، جلد 30، ص 73)
حضرت محمد بن حنفیہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ : میں نے اپنے باپ حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے عرض کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ حضرت ابوبکر ، میں نے عرض کی، پھر کون ؟ فرمایا حضرت عمر رضی ﷲ عنہما ۔ (صحیح بخاری عربی کتاب فضائل اصحاب النبی حدیث نمبر 3671 جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 522)۔(صحیح بخاری مترجم اردو کتاب فضائل اصحاب النبی حدیث نمبر 3671 جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 612 مطبوعہ پروگریسو بکس لاہور)
حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا میری امت میں میرے بعد سب سے بہتر شخص ابوبکر ہیں ، پھر عمر۔ (ابن عساکر)
حضرت ابو حجیفہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے گھر میں داخل ہوا ۔ میں نے عرض کی اے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد لوگوں میں سب سے افضل شخص ! تو آپ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا اے ابو حجیفہ ! کیا تجھے بتاؤں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد سب سے افضل کون ہے ؟ وہ حضرت ابوبکر ہیں ، پھر حضرت عمر ، اے ابو حجیفہ ! تجھ پر افسوس ہے ، میری محبت اور ابوبکر کی دشمنی کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی اور نہ میری دشمنی اور ابوبکر و عمر کی محبت کسی مومن کے دل میں جمع ہوسکتی ہے (رضی اللہ عنہم) ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی من اسمہ علی، حدیث 3920، جلد 3، ص 79)
حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ پھر عرض کی کہ اے ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہم پر کسی کو خلیفہ مقرر فرمایئے ۔ ارشاد فرمایا کہ نہیں ! ﷲ تعالیٰ اسے تم پر خلیفہ مقرر فرمادے گا جو تم میں سب سے بہتر ہوگا پھر ﷲ تعالیٰ نے ہم میں سے سب سے بہتر ابوبکر رضی ﷲ عنہ کو جانا ، جنہیں ہم پر خلیفہ مقرر فرمایا ۔ (دارقطنی، تاریخ دمشق، جلد 30، ص 290-289،چشتی)
ہمدانی سے باکمال روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے وصال کے وقت مجھے سرگوشی کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر ، ان کے بعد عمر ، ان کے بعد عثمان خلیفہ ہے ۔ بعض روایات میں یہ لفظ ہے کہ پھر انہیں خلافت ملے گی ۔ (ابن شاہین فضائل الصدیق لملا علی قاری ، ابن عساکر ، تاریخ دمشق ، جلد 5، ص189)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس امت میں سب سے بہتر ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں پھر عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 33 امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اسناد صحیح ہیں)
جو مجھے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فوقیت دے گا میں اسے مفتری کی حد کوڑے لگاؤں گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد افضل ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ فرمان حضرت مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ ( فضائل صحابہ رضی اللہ عنہم صفحہ 34 امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ )
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس امت میں سب سے افضل ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 37 اس روایت کےرجال ثقہ ہیں) ( الحمد للہ یہی اہلسنت و جماعت کا مؤقف ہے)
افضلیت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ پر مولا علی رضی ﷲ عنہ کے اقوال کتب شیعہ سے
حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا : ابوبکر کو سب لوگوں سے زیادہ حقدار سمجھتے ہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نماز کے ساتھی اور ثانی اثنین ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی حیات ظاہری میں ان کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا ۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی حدید شیعی، جلد اول، ص 332)
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : ان خیر ہذہ الامۃ بعد نبیہا ابوبکر و عمر یعنی اس امت میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد سب سے بہتر حضرت ابوبکر و عمر ہیں ۔ (کتاب الشافی، جلد دوم، ص 428)
حضرت علی علیہ السلام نے ابوبکر و عمر کے بارے میں فرمایا : انہما اماما الہدی و شیخا الاسلام والمقتدی بہما بعد رسول اﷲ ومن اقتدی بہما عصم ۔
ترجمہ : یہ حضرت ابوبکر و عمر دونوں ہدایت کے امام اور شیخ الاسلام اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد مقتدیٰ ہیں اور جس نے ان کی پیروی کی ، وہ برائی سے بچ گیا ۔ (تلخیص الشافی للطوسی، جلد 2،ص 428)
حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ : رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ۔ ان ابابکر منی بمنزلۃ السمع وان عمر منی بمنزلۃ البصر ۔
ترجمہ : بے شک ابوبکر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میرے کان اور عمر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میری آنکھ ۔ (عیون اخبار الرضا لابن بابویہ قمی، جلد اول، ص 313، معانی الاخبار قمی، ص 110، تفسیر حسن عسکری)
شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی کتاب رجال کشی میں مولا علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہما سے ان کو افضل کہنے والوں کے لئے درّوں کی سزا اور حد کا حکم فرمایا ہے اور حضرت ابو بکر عمر رضی اللہ عنہما کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے فرمایا ۔ اصل عبارت درج کی جاتی ہے ۔
شیعوں کا محققِ اعظم لکھتا ہے : انہ رای علیا (علیہ السلام) علی منبر بالکوفۃ وہو یقول لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر لا جلدنہ حد المفتری ،،،، وحب ابی بکر و عمر ایمان و بغضہما کفر ۔
ترجمہ : انہوں نے حضرت علی کو کوفہ کے منبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا اور وہ فرما رہے تھے اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی آئے جو مجھے ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درّے لگاؤں گا جوکہ مفتری کی حد ہے ،،،،،،، حضرت ابو بکر عمر (رضی اللہ عنہما) کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ (رجال کشی صفحہ نمبر 283 مطبوعہ بیروت لبنان)
اے محبتِ حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کا دعویٰ کرنے والو اب جواب دو تم لوگ حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کی بات مانو گے یا سڑک چھاپ جاہل ذاکروں ، جاہل پیروں اور جاہل خطیبوں کی ؟
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جو مجھے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فوقیت دے گا میں اسے مفتری کی حد کوڑے لگاؤں گا اور اس امت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد سب سے افضل ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔ (فضائل صحابہ رضی اللہ عنہم مترجم صفحہ نمبر 34 امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ،چشتی)
محترم قارئینِ کرام : اہل سنت و جماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ انبیاء و رسل بشر و رسل ملائکہ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں ، ان کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق ، ان کے بعد حضرت سیدنا عثمان غنی ، ان کے بعد حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا ، ان کے بعد عَشَرَۂ مُبَشَّرہ کے بقیہ صحابۂ کرام ، ان کے بعد باقی اہل بدر ، ان کے بعد باقی اہل اُحد ، ان کے بعد باقی اہل بیعت رضوان ، پھر تمام صحابۂ کرام رِضْوَانُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن ۔
افضل البشر بعد الانبياء علیہم السّلام بالتحقيق خاص یہ جملہ کلمہ حدیث نہیں ہے ، بلکہ متعدد احادیث کریمہ ، اور اقوالِ فقہا و متکلمین کا خلاصہ ہے . اور اہل سنت و جماعت کے اجماعی عقیدہ افضلیت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ترجمانی پر مشتمل مختصر سا جملہ ہے . جسے دنیا کے مختلف خطوں میں نماز جمعہ سے قبل ہونے والے خطبہ متوارثہ میں بالالتزام پڑھا جاتا ہے .
دراصل جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تمام انبیاء کرام علیہم السلام پر فضیلت رکھتے ہیں ، یوں ہی آپ کی امت کو سابقہ تمام امتوں پر فضیلت کا شرف حاصل ہے . پھر تمام امت محمدیہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سب سے افضل قرار پائے ، پھر حضرات صحابۂ کرام میں وہ مہاجرین جنہیں سابقین اولین ہونے کا شرف حاصل ہے . پھر ان میں بھی وہ دس خوش نصیب حضرات جنہوں نے زبانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے دنیا ہی میں جنتی ہونے کا مژدہ پایا، پھر ان عشرۂ مبشرہ میں حضرات خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو تمام پر فضیلت حاصل ہے . اور ان چار یاروں میں بھی یارغار حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو تمام پر فضیلت حاصل ہے . یہ باتیں مستحکم دلائل پر مبنی ہیں ۔
افضلیت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حدیث کی روشنی میں
سیدنا عبد اللہ بن عمررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ہم رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانۂ مبارکہ میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو شمار کرتےان کے بعد حضرت سیدنا عمر بن خطاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو اور ان کے بعد حضرت سیدنا عثمان بن عفان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو ۔ (صحیح البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی، باب فضل ابی بکر بعد النبی ، الحدیث : ۳۶۵۵، ج۲، ص۵۱۸،چشتی)،(صحیح بخاری مترجم جلد 2 صفحہ نمبر 605)،(تاریخ مدینۃ دمشق، ج۳۰، ص۳۴۶)
حضرت عمرو رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو منبر پر فرماتے سنا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال باکمال کے بعد افضل ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی ﷲ عنہم اجمعین ہیں ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ، حدیث 178 جلد اول ، ص107)
ابوالبختری طائی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو فرماتے سنا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا ، میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابوبکر اور وہی آپ کے وصال کے بعد آپ کی اُمّت کے والی یعنی خلیفہ ہوں گے اور وہی اُمّت میں سب سے افضل اور سب سے بڑھ کر نرم دل ہیں ۔ (ابن عساکر ، تاریخ دمشق، جلد 30، ص 73)
حضرت محمد بن حنفیہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے (فرماتے ہیں) کہ میں نے اپنے باپ حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے عرض کی کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ حضرت ابوبکر ، میں نے عرض کی، پھر کون ؟ فرمایا حضرت عمر رضی ﷲ عنہما ۔ (بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی،حدیث 3671، جلد 2، ص 522،چشتی)
حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ میری امت میں میرے بعد سب سے بہتر شخص ابوبکر ہیں ، پھر عمر (ابن عساکر)
حضرت ابو حجیفہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے گھر میں داخل ہوا ۔ میں نے عرض کی اے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے افضل شخص ! تو آپ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا اے ابو حجیفہ ! کیا تجھے بتائوں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون ہے ؟ وہ حضرت ابوبکر ہیں ، پھر حضرت عمر ، اے ابو حجیفہ ! تجھ پر افسوس ہے ، میری محبت اور ابوبکر کی دشمنی کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی اور نہ میری دشمنی اور ابوبکر و عمر کی محبت کسی مومن کے دل میں جمع ہوسکتی ہے ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی من اسمہ علی، حدیث 3920، جلد 3، ص 79)
حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ پھر عرض کی کہ اے ﷲ کے رسول ! ہم پر کسی کو خلیفہ مقرر فرمایئے ۔ ارشاد فرمایا کہ نہیں ! ﷲ تعالیٰ اسے تم پر خلیفہ مقرر فرمادے گا جو تم میں سب سے بہتر ہوگا پھر ﷲ تعالیٰ نے ہم میں سے سب سے بہتر ابوبکر رضی ﷲ عنہ کو جانا، جنہیں ہم پر خلیفہ مقرر فرمایا ۔ (دارقطنی، تاریخ دمشق، جلد 30، ص 290-289)
ہمدانی سے باکمال روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے وصال کے وقت مجھے سرگوشی کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر ، ان کے بعد عمر ، ان کے بعد عثمان خلیفہ ہے ۔ بعض روایات میں یہ لفظ ہے کہ پھر انہیں خلافت ملے گی ۔ (ابن شاہین، فضائل الصدیق لملا علی قاری ، ابن عساکر ، تاریخ دمشق، جلد 5، ص189، چشتی)
حضرت عمرو بن العاص رضي الله عنہ سے روایت ہے کہ جب انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے استفسار کیا کہ : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نزدیک مردوں میں سب زیادہ محبوب کون ہے ؟ إرشاد فرمایا : أبوبکر حدیث کے الفاظ ہیں : أن النبي صلى الله عليه وسلم بعثه على جيش ذات السلاسل فأتيته فقلت : أي الناس أحب إليك ؟ قال : "عائشة” فقلت من الرجال ؟ قال: "أبوها” قلت ثم من ؟ قال : ” ثم عمر بن الخطاب” فعد رجالاً ۔ (رواہ بخاری و مسلم)
حضرت عائشہ رضی الله عنها کی روایت ہے کہ سقيفۂ بنی ساعدہ کے موقع پر امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایا : آپ ہمارے سردار ، ہم میں سب سے بہتر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب زیادہ محبوب ہیں یہ ایک طویل حدیث ہے جس کے بعض الفاظ ہیں : وفيه أن أبا بكر قال للأنصار : ولكنا الأمراء وأنتم الوزراء هم أوسط العرب دارا، وأعربهم أحسانا، فبايعوا عمر بن الخطاب أو أبا عبيدة بن الجراح فقال عمر بل نبايعك أنت *فأنت سيدنا وخيرنا وأحبنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخذ عمر بيده فبايعه وبايعه الناس ۔ (رواہ البخاری)
چوتھے خلیفہ راشد باب العلم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جب ان کے صاحبزادے حضرت محمد بن الحنفیہ نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد لوگوں میں کون سب سے بہتر ہے .؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : ابوبکر ۔ حدیث کے متعلقہ الفاظ ہیں : محمد بن الحنفية قال : قلت : لأبي: أي الناس خير بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: أبو بكر قلت: ثم من ؟ قال : عمر . (رواہ البخاری )
مسند احمد بن حنبل میں ہے کہ حضرت علي رضي الله عنه نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد اس امت میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق ہیں. حدیث کے الفاظ ہیں : عن علی رضی اللہ عنه أنه قال لأبي جحيفة: يا أبا جحيفة ألا أخبرك بأفضل هذه الأمة بعد نبيها قال: قلت: بلى ولم أكن أرى أن أحدا أفضل منه قال: *أفضل هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر وبعد أبي بكر عمر وبعدهما آخر ثالث ولم يسمه . (روى الإمام أحمد بإسناده)
سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ کی افضلیت پر اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم
حضرت ابو الدرداء رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد ابوبکر اور عمر سے افضل کسی شخص پر نہ سورج طلوع ہوا ہے نہ غروب ۔ ایک روایت میں ہے کہ انبیاء و رسل کے بعد ابوبکر اور عمر سے زیادہ افضل کسی شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ہے ۔ حضرت جابر رضی ﷲ عنہ کی حدیث میں بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا ﷲ کی قسم ! آپ سے افضل کسی شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ہے ۔ (مسند عبدبن حمید ، حدیث 212، ص 101، ابو نعیم، طبرانی)
حضرت انس رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ انبیاء و رسل علیہم السّلام میں سے کسی کو بھی ابوبکر سے افضل کوئی ساتھی نصیب نہیں ہوا ۔ یہاں تک کہ سورۂ یٰسین میں بیان ہونے والے جن انبیاء کرام علیہم السلام کے جس شہید ساتھی کا ذکر ہے، وہ بھی ابوبکر رضی ﷲ عنہ سے افضل نہ تھا ۔ (حاکم، ابن عساکر،چشتی)
حضرت اسعد بن زراہ رضی ﷲ عنہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک روح القدس جبریل امین نے مجھے خبر دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد افضل ابوبکر ہیں ۔ (طبرانی المعجم الاوسط، حدیث 6448، جلد 5، ص 18)
حضرت سلمہ ابن اکوع رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے سوا ابوبکر لوگوں میں سب سے بہتر ہیں ۔ (طبرانی، ابن عدی)
حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نبیوں اور رسولوں کے سوا زمین وآسمان کی اگلی اورپچھلی مخلوق میں سب سے افضل ابوبکر ہیں ۔ (حاکم ،الکامل لابن عدی، حدیث 368، جلد 2،ص 180)
حضرت زبیر رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد میری امت میں سب سے بہتر ابوبکر اور عمر ہیں ۔ (ابن عساکر، ابو العطوف، ابن الجوزی، العینی،چشتی)
حضرت ابن عمر رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں ہم کہتے تھے کہ سب سے افضل ابوبکر ، پھر عمر، پھر عثمان اور پھر علی ہیں (رضی اللہ عنہم) ۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل الصحابہ، حدیث 3655،جلد 2، ص 451)
حضرت بساط بن اسلم رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما سے فرمایا کہ میرے بعد تم پر کوئی بھی حکم نہیں چلائے گا ۔ (طبقات ابن سعد)
حضرت انس رضی ﷲ عنہ اور حصرت سہل سعد رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ ابوبکر کی محبت اور ان کا شکر میرے ہر امتی پر واجب ہے ۔ (ابن عساکر، تاریخ دمشق، حدیث 174، جلد 30، ص 141)
حضرت حجاج تمیمی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جسے دیکھو کہ ابوبکر اور عمر کا برائی سے ذکر کرتا ہے تو سمجھ لو کہ دراصل وہ اسلام کی بنیاد کو ڈھا رہا ہے ۔ (ابن قانع)
حضرت انس رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ میری امت میں جتنے لوگ ابوبکر اور عمر کی محبت کے سبب جنت میں جائیں گے، اتنے لاالہ الا ﷲ کہنے کے سبب نہ جائیں گے ۔ (زوائد الزہد لعبد ﷲ بن احمد، الصواعق المحرقہ)
شانِ ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما ائمہ اہلبیت رضی اللہ عنہم کی زبانی
حضرت محمد باقر رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ رضی ﷲ عنہا کی تمام اولاد اس بات پر متفق ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کے بارے میں اچھی بات ہی کریں ۔ (الدارقطنی، الصواعق المحرقہ ، چشتی)
بسام صیرفی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابو جعفر سے پوچھا کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ ﷲ کی قسم! میں انہیں دوست رکھتا ہوں ، پھر تو ان کے حق میں استغفار کر ، تو میرے اہلبیت میں سے جسے بھی پائے گا ان سے محبت رکھتا ہوا پائے گا ۔ (دار قطنی)
امام جعفر صادق ، امام باقر رضی ﷲ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ جو حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲعنہما کی فضیلت نہ پہچانے ، بے شک وہ سنت سے جاہل ہے ۔ (الدارقطنی)
حضرت عبد ﷲ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابو جعفر باقر سے تلوار پر سونے کا دستہ چڑھانے کا پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ نے اپنی تلوار پر سونے کا دستہ چڑھایا تھا ۔ میں نے عرض کی کہ آپ بھی انہیں ’’صدیق‘‘ کہتے ہیں ؟ تو آپ اچھل کر کھڑے ہوگئے اور قبلہ کی طرف منہ کرکے فرمایا ، ہاں میں بھی انہیں ’’صدیق‘‘ کہتا ہوں جو انہیں ’’صدیق‘‘ نہ کہے، دنیا و آخرت میں ﷲ تعالیٰ اس کی بات کو سچی ثابت نہ کرے ۔ (ابن الجوزی، دارقطنی، صواعق المحرقہ ، چشتی)
حضرت سالم رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت ابو جعفر اور جعفر رضی ﷲ عنہما کے پاس حاضر ہوا۔ انہوں نے عرض کیا اے ﷲ تعالیٰ! بے شک میں ابوبکر اور عمر کو دوست رکھتا ہوں اور ان سے محبت رکھتا ہوں اے ﷲ ! اگر ان کا غیر ان سے افضل ہے تو قیامت کے دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت مجھے نصیب نہ ہوں ۔ (دارقطنی، صواعق المحرقہ، باب ثانی، ص 53)
حضرت زید بن علی رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ آپ نے اس شخص کے بارے میں فرمایا جو شخص ابوبکر اور حضرت عمر رضی ﷲ عنہما سے اپنی بیزاری ظاہر کرے ، ﷲ تعالیٰ کی قسم ! وہ دراصل حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے اپنی بیزاری کا اظہار کرتا ہے ۔ (دار قطنی، صواعق المحرقہ الباب الثانی، ص 53)
اکابرین امت علیہم الرّحمہ اور مسلہ افضیلت خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم
امام ابوبکر احمد بن محمد ابن ھارون الخلّال علیہ الرحمۃ (وفات٣١١ ھجری) اپنی کتاب میں ابن زریع علیہ الرحمتہ (وفات١٨٢ھجری) کا قول نقل کرتے ہیں کہ" یقول خیر ھذہ الامتہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوبکر ثم عمر ثم عثمان۔"ابن زریع نے فرمایا کہ اس امت کے بہترین لوگ حضرت ابوبکر صدیق پھر حضرت عمر پھر حضرت عثمان ہیں رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ (السُّنّتہ الجزء الاول صفحہ ٤٠٢ رقم ٥٨٨،چشتی)
اس کتاب کے محقق ڈاکٹر عطیہ زہرانی نے حاشیے میں واضح لکھا ہے ۔" واسنادہ صحیح "اور اب زریع بھی کوئی معمولی شخصیت نہیں بلکہ ابوحاتم علیہ الرحمتہ نے انہیں ثقہ کہا ہے۔(تذکرہ الحفاظ رقم٢٤٢)
السنتہ کے اگلے صفحے پر ہی موسیٰ بن اسماعیل علیہ الرحمتہ کا فرمان بھی قابل دید ہے ۔"ھکذا تعلمنا ونبتت علیہ لحومنا وادرکنا الناس علیہ تقدیم ابی بکر و عمر وعثمان"امام موسیٰ فرماتے ہیں کہ یہی ہمیں سکھایا گیا اور یہی ہماری رگ رگ میں رچا بسا ہے اور لوگ بھی جانتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ مقدم ہیں (پھر) عمر رضی ﷲ عنہ (پھر) عثمان رضی ﷲ عنہ ۔ (السُّنّتہ رقم ٥٨٨)
اور امام موسیٰ بن اسماعیل علیہ الرحمتہ تیسری صدی کے پہلے حصے میں فوت ہوئے (تاریخ وفات ٢٢٣ ھجری) امام موسیٰ رضی اللہ عنہ کی فضیلت ملاحظہ کریں ۔ (تذکرہ الحفاظ رقم ٣٩٥) ۔ الحمد للہ اہلسنت کا نظریہ بھی یہی ہے جو اکابرین امت علیہم الرّحمہ کا ہے ۔
امام أبو حنيفة نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ : ونقر بأن أفضل هذه الأمة بعد نبيها محمد عليه أفضل الصلاة والسلام أبو بكر ثم عمر ثم عثمان، ثم عليّ رضي الله عنهم أجمعين . ( شرح الفقه الأكبر ص 108 )
إمام مالك بن أنس رضی اللہ عنہ : أنه قال لما سأله الرشيد عن منزلة الشيخين من النبي صلى الله عليه وسلم فقال: *منزلتهما منه في حياته كمنزلتهما منه بعد مماته* ـ ثم قال ـ وكثرة الاختصاص والصحبة مع كمال المودة والائتلاف والمحبة والمشاركة في العلم يقضي بأنهما أحق من غيرهما وهذا ظاهر بين لمن له خبرة بأحوال القوم ۔ (مجموع الفتاوى، 4 / 304 )
امام محمد بن إدريس الشافعي : أفضل الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم أبو بكر، ثم عمر، ثم عثمان، ثم علي رضي الله عنهم ۔ امام شافعی ہی کا یہ فرمان بھی ہے : اضطر الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى أبي بكر فلم يجدوا تحت أديم السماء خيراً من أبي بكر من أجل ذلك استعملوه على رقاب الناس ۔ (مناقب الشافعی ، 1 / 433 – 434) .
إمام أحمد بن حنبل رحمة الله عليه : وخير الأمة بعد النبي صلى الله عليه وسلم أبو بكر، وعمر بعد أبي بكر، وعثمان بعد عمر، وعلي بعد عثمان ووقف قوم على عثمان وهم خلفاء راشدون مهديون ۔ (طبقات الحنابلة لابن رجب، 1 / 30،چشتی)
انہی سے یہ بھی منقول ہے : خير هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر الصديق ۔ (مناقب الإمام أحمد لابن الجوزي،1 / 160)
علامہ شمس الدین الذهبي رحمۃ اللہ علیہ : أفضل الأمة وخليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم ومؤنسه في الغار وصديقه الأكبر … عبد الله بن أبي قحافة عثمان القرشي التيمی ۔ (تذكرة الحفاظ، 1 / 2)
امام ابن بطة عكبري فرماتے ہیں : وھی الإيمان والمعرفة بأن خير الخلق وأفضلهم وأعظمهم منزلة عند الله ـ عز وجل ـ بعد النبيين والمرسلين أبو بكر الصديق عبد الله بن عثمان بن أبي قحافة رضي الله عنه . (الشرح والإبانة على أصول السنة والديانة ص 257)
افضلیت صدیق اکبر اجماعِ امت کی روشنی میں
امام شافعي فرماتے ہیں : ما اختلف أحد من الصحابة والتابعين في تفضيل أبي بكر وعمر وتقديمهما على جميع الصحابة وإنما اختلف من اختلف منهم في عليّ وعثمان ونحن لا نخطئ واحداً من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما فعلوا ۔ ( كتاب الاعتقاد للبيهقي ص 192)
شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں : (ونقل البيهقي في [الاعتقاد] بسنده إلى أبي ثور عن الشافعي أنه قال : أجمع الصحابة وأتباعهم على أفضلية أبي بكر، ثم عمر ثم عثمان، ثم عليّ ۔ (فتح الباري 7 / 17) .
امام نووي شافعی رقم طراز ہیں : اتفق أهل السنة على أن أفضلهم أبو بكر ثم عمر ۔ (شرح النووي على صحيح مسلم 15 / 148 )
علامہ ابن حجر الهيثمي لکھتے ہیں : واعلم أن الذي أطبق عليه عظماء الملة وعلماء الأمة أن أفضل هذه الأمة أبو بكر الصديق ثم عمر رضي الله عنهما . (الصواعق المحرقة في الرد على أهل البدع والزندقة ص 57)
تیسری صدی ہجری کے آخر میں وفات پانے والے بزرگ امام ابی سعید عثمان بن سعید الدارمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ (تاریخ وفات ٢٨٠ ہجری) فرماتے ہیں : فھٰذا الصدیق خیر ھذہ الامتہ بعد نبیھا والخلیفتہ بعدہ ۔
ترجمہ : پس یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ہی) ہیں جو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد اس امت کے بہترین شخص ہیں اور نبی صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد خلیفہ (اوّل بلا فصل) ۔ (الرد علی الجھمیّتہ صفحہ نمبر ٣٤ رقم١٩)
امام دارمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کوئی معمولی شخصیت نہیں بلکہ خطیب بغدادی علیہ الرحمتہ نے واضح کہا کہ امام دارمی کثرت سے سفر کرنے والے اور حدیث کو حفظ کرنے والے اماموں میں سے ایک امام ہیں ۔ (تذکرہ الحفاظ رقم ٥٥٢)
حضرت پیر سیّد عابد حیسن شاہ و پیر سیّد اعجاز حسین شاہ سجادگان چورہ شریف لکھتے ہیں : اس پر اہل سنت کا اجماع ہے کہ انبیاء علیہم السّلام کے بعد سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ہیں ، ان کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق ، ان کے بعد حضرت سیدنا عثمان غنی ، ان کے بعد حضرت سیدنا علی ، ان کے بعد عَشَرَۂ مُبَشَّرہ ان کے بعد باقی اہل بدر ، ان کے بعد باقی اہل اُحد ، ان کے بعد باقی اہل بیعت ، پھر تمام صحابۂ کرام رِضْوَانُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن ۔ (کلید تصوف صفحہ نمبر 6 مطبوعہ خانقاہ مجددیہ چورہ شریف اٹک)
شیعہ حضرات کی کتب سے
شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی کتاب رجال کشی میں مولا علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہما سے ان کو افضل کہنے والوں کے لئے درّوں کی سزا اور حد کا حکم فرمایا ہے اور حضرت ابو بکر عمر رضی اللہ عنہما کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے فرمایا ۔ اصل عبارت درج کی جاتی ہے ۔
شیعوں کا محققِ اعظم لکھتا ہے : انہ رای علیا (علیہ السلام) علی منبر بالکوفۃ وہو یقول لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر لا جلدنہ حد المفتری ،،،، وحب ابی بکر و عمر ایمان و بغضہما کفر ۔
ترجمہ : انہوں نے حضرت علی کو کوفہ کے منبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا اور وہ فرما رہے تھے اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی آئے جو مجھے ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درّے لگاؤں گا جوکہ مفتری کی حد ہے ،،،،،،، حضرت ابو بکر عمر (رضی اللہ عنہما) کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ (رجال کشی صفحہ نمبر 283 مطبوعہ بیروت لبنان،چشتی)
حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ۔ ابوبکر کو سب لوگوں سے زیادہ حقدار سمجھتے ہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نماز کے ساتھی اور ثانی اثنین ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات ظاہری میں ان کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا ۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی حدید شیعی، جلد اول، ص 332)
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ۔ ان خیر ہذہ الامۃ بعد نبیہا ابوبکر و عمر یعنی اس امت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے بہتر حضرت ابوبکر و عمر ہیں ۔ (کتاب الشافی، جلد دوم، ص 428)
حضرت علی علیہ السلام نے ابوبکر و عمر کے بارے میں فرمایا ۔ انہما اماما الہدی و شیخا الاسلام والمقتدی بہما بعد رسول اﷲ ومن اقتدی بہما عصم یعنی یہ حضرت ابوبکر و عمر دونوں ہدایت کے امام اور شیخ الاسلام اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مقتدیٰ ہیں اور جس نے ان کی پیروی کی، وہ برائی سے بچ گیا ۔ (تلخیص الشافی للطوسی، جلد 2،ص 428،چشتی)
حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ ان ابابکر منی بمنزلۃ السمع وان عمر منی بمنزلۃ البصر یعنی بے شک ابوبکر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میرے کان اور عمر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میری آنکھ ۔(عیون اخبار الرضا لابن بابویہ قمی، جلد اول، ص 313، معانی الاخبار قمی، ص 110، تفسیر حسن عسکری)
حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ کے منبر پر ارشاد فرمایا ۔ لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر الا جلدتہ حد المفتری یعنی اگر ایسا شخص میرے پاس لایا گیاتو جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر پر فضیلت دیتا ہوگا تو میں اس پر مفتری کی حد جاری کروں گا ۔ (رجال کشی ترجمہ رقم 257)(معجم الخونی ص 153)
حدیث أي الناس أحب إليك من الرجال ؟ قال : أبوها ، (بخاری ومسلم) فرمان حضرت عمر : فأنت سیدنا ، وخيرنا ، وأحبنا إلى رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ۔ (بخاری) فرمان حضرت علی أفضل ھذہ الأمة بعد نبيها أبوبكر۔ (مسند احمد) جیسی کثیر احادیث اجماع امت اقوالِ فقہا و متکلمین اور صراحتِ محدثین علیہم الرّحمہ کی روشنی میں أفضل البشر بعد الأنبياء علیہم السّلام کہا جاتا ہے . اور بالتحقيق سے اشارہ یہ ہے کہ یہ لقب تحقیق سے ثابت شدہ ہے . خاص اس کلمہ افضل البشر بعد الأنبياء بالتحقيق سے تو احادیث وارد نہیں ، البتہ اس کے ہم معنی بلکہ قریب قریب الفاظ حدیث میں موجود ہیں .
جو حضرت علی کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہما پر مقدم کرے وہ رافضی ہے
امام ابوالعرب محمد بن احمد بن تمیم التمیمی رحمۃ اللہ علیہ (وفات٣٣٣ ہجری) جن کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا کہ آپ بلند پایہ حافظ حدیث اور نامور مؤرخ ہیں : امام ابوالعرب تمیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : تشیع اھل العلم الذی یقدم علیّاً علیٰ عثمان واما من قدم علیّاً علیٰ ابی بکر فھو رافضی ۔
ترجمہ : اہل علم کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر مقدم کرنا تشیع ہے ۔ اور جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر مقدم کرے وہ رافضی ہے ۔ (کتاب المِحَن صفحہ نمبر 346 رقم 170،چشتی)
محترم قارئینِ کرام : : ایسے ایمان کے لٹیرے پیروں مولویوں نعت خوانوں وغیرہم سے بچ کر رہنا جو اہلسنت وط جماعت کے بھیس میں رافضی ہیں ۔ آج بھی ایسے کئی پیر اور مولوی ہیں جو خود کو اہلسنت و جماعت بھی بتاتے ہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سب صحابہ پر تقدیم بھی دیتے ہیں ۔ ایسے لوگ اہلسنت و جماعت نہیں بلکہ اہلسنت و جماعت سے خارج ہیں (پھر چاہے ان کا تعلق کسی بھی آستانے یا تنظیم سے ہو) اہلسنت و جماعت وہی ہے جو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو سب صحابہ بشمول حضرت علی رضی اللہ عنہم پر افضلیت دے ۔
سُونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے
سونے والو جاگتے رہنا چوروں کی رکھوالی ہے
محترم قارئینِ کرام : رافضی کے معنی : (مجازاً) شیعہ انحراف کرنے والا اہل تشیع کا ایک فرقہ سپاہیوں کا وہ گروہ جو اپنے سردار کو چھوڑ دے فرقہ رافضہ فرقہ رافضہ کا ایک فرد رافضی کے انگریزی معنی :
(one of) a Shi'ite dissenting sect (Plural) روافض rva'fizadj & n.m
رافضہ یا روافض کے لفظ کے ساتھ کوئی پیشین گوئی حدیث میں نہیں ہے ۔ البتہ ان لوگوں نے ایسے ایسے عقیدے گھڑے جو قرآن و حدیث کے صریح خلاف ہیں ، اس لیئے علماء نے اس جماعت کا نام رافضی رکھا ۔
رافضی کے معنی ہیں تارکِ اسلام
چونکہ انہوں نے اپنے عقائد باطلہ کی وجہ سے اسلام کو چھوڑدیا اس لیئے انہیں رافضی کہا جاتا ہے ۔ مثلاً ان کے عقائد میں سے یہ عقیدہ ہے کہ قرآن تحریف شدہ ہے ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی الوہیت کے قائل ہیں ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں ۔ حضرت جبرئیل علیہ السّلام کو خائن کہتے ہیں یعنی وحی امام غائب کے پاس لانے کے بجائے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے ۔ اپنے بارہ اماموں کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ ان کو اللہ کی طرف سے نیا دین دیا گیا اور آسمانی نئی کتاب دی گئی ہے ۔ شیعہ در حقیقت رافضی ہی ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو بطور تقیہ شیعہ ظاہر کرتے ہیں تاکہ غیر مضر تشیع کے ذریعے اہلِ سُنّت و جماعت میں بھی رہا جائے اور جب موقعہ ملے تو اپنی رافضیت کو ظاہر بھی کر دیا جائے ۔
ناصبی جس کی جمع نواصب ہے اور اس کے لیئے ناصبہ اور ناصبیہ بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ (القاموس المحیط ص177) (فتح الباری 7:437)
اس کی اصطلاحی تعریفات ایک سے زائد ہیں جن میں سے معروف درج ذیل ہیں
(1) علامہ زمخشری و علامہ آلوسی علیہما لعّحمہ لکھتے ہیں : بغض علی و عداوتہ ۔ ترجمہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض و عداوت کا نام ناصبیت ہے ۔ (الکشاف 4:777) (روح المعانی 30:172)
(2) علامہ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : بغض علی و تقدیم غیرہ علیہ۔ (ھدی الساری ص 459)۔(ترجمہ مفہوم اوپر گزر چکا ہے)
(3) سیرت نگار ابن اسید الناس رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : النواصب قوم یتدینون ببغضۃ علی ۔ اور اس قول کو معروف لغوی ابن منظور اور فیروزاآبادی نےبھی اختیار کیا ہے ۔ (المحکم والمحیط الاعظم 8:345)
(4) علامہ ابن تیمیہ ممدوح غیر مقلد وہابی حضرت لکھتے ہیں : النواصب : الذین یوذون اہل البیت بقول و عمل ۔ (مجموع الفتاوی 3:154)
جزاک اللہ۔۔ آپ کی تحقیق آپ کے نام کے ساتھ ہم اپنی سائیٹ پر بھی رکھ رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ استفادہ حاصل کریں۔
ReplyDelete