امام احمد رضا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک عظیم عاشق رسول صلی الله علیہ وسلم
امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ 1310 ہجری چودھویں صدی ہجری کی وہ مقتدر ، بلند پایہ اور یگانہ روزگار شخصیت ہیں جس کے فکر و فن ،علم و حکمت اور عشق و محبت کے پر شوق تذکروں سے عرب و عجم کا چپہ چپہ آج بہی گونج رہا ہے مختصر سی مدت میں تن تنہاں آپ نے جو کارہائے گراں مایہ انجام دئیے ہیں اس کی حیرت انگیز روداد سے اہل علم و خرد کا ایک عالم محو حیرت ہے ان کے پر شوکت سرمائہ قرطاس و قلم اور عشق پرور تحقیقات و ایجادات کی بلندیوں کے روبرو مشرق و مغرب کے کسی معاصر محقق کو کھڑا کرنا تو دور کی بات ہے ، صدیوں کے دامن پر پھیلی ہوئی منظم اور ہنگامہ خیز تحریکوں کے نتائج بھی ان کے ہم پلہ اور ہم نظر نھیں آتے ۔ آپ کی تحریک و عمل اور تجدید و اصلاح کا مرکزی نقطئہ نظر اور بنیادی نصب العین عظمت توحید اور ناموس رسالت کا تحفظ تھا ۔ اسی کے گرد آپ کا پورا کاروان فکر و عمل دائر نظر آتاہے۔ آپ کی حیات کا ایک ایک کردار اور ستر علوم وفنون پر ایک ھزار سے زائد تصانیف جس کے زندہ شواھد اور منھ بولتے حقائق ہیں ۔ نظر تقدیس الوھیت اور عظمت رسالت سے آشنا اور دل محبت الہی اور عشق رسول میں سرشار تھا ۔ سنئے آپ خود فرماتے ہیں : بحمد اللہ اگر میرے قلب کے دوٹکڑے کئے جائیں تو خدا کی قسم ایک پر لاالہ الا اللہ اور دوسرے پر محمد رسول اللہ ہوگا ۔ (الملفوظ جلد دوم صفہ ۱۶۷)
ایک فاضل جامعہ ازہر مصر آپ کی پوری زندگی کی تصویر کشی اس طرح کرتے ہیں : آپ کی زندگی کا لمحہ لمحہ ذکر خدا اور یاد مصطفی علیہ اجمل التحیة و الثناء سے معمور ہے پھیلا تو کائنات کی پنہائیوں کو سرشار کرتا گیا اور جب سمٹا تو عشق مصطفی بن کر رہ گیا ، یہی آپ کا ایمان تھا کہ جب حبیب کبریا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جان ایمان اور روح دین ہیں ۔ اسی کے پر چار میں آپ نے اپنی ساری عمر صرف کردی ، اسی لئے اپنی ساری صلاحیتیں اور قابلیتیں وقف کردیں ۔ (پیر کرم شاہ ازھری رحمۃ اللہ علیہ ، مقالات یوم رضا حصہ دوم صفحہ ۲۲)
اس عاشق پرسوز کے عشق کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنے جانثاروں وفا داروں کے قدموں کے نیچے دل کا فرش بچھا کر بھی اہتمام شوق کی تشنگی محسوس کرتا ہے ۔ اور محبوب کے غداروں کو اپنی محفل میں جگہ دینا تو بہت بڑی بات ہے نظر اٹھا کر دیکھنا بہی اپنے عشق کی توہین سمجھتاہے۔ اس تقاضئے عشق پر خود بھی عمل کیا اور زندگی بھر دوسروں کو بھی درس دیتا رہا ۔ مگر جب وصل حبیب کی گھڑیا ں قریب آئیں تو اس کا سوز و ساز اور بھی پر جوش ہوگیا تھا ، ان کی آخری مجلس وعظ و وصیت کا یہ تیور ملاحظہ کیجئے فرماتے ہیں : " جس سے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شان میں ادنی توہین پاؤ پھر وہ تمہارا کیسا ہی پیارا کیوں نہ ہو ، اس سے جدا ہوجاؤ ، جس کی بارگاہ رسالت میں ذرا بھی گستاخی دیکھو پھر وہ تمہارا کیسا ہی بزرگ ، معظم کیوں نہ ہو اپنے اندر سے اسے دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دو ۔ (وصایا شریف از امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ،چشتی)
کہتے ہیں کہ عاشق کا عشق دلیل کا محتاج نہیں ہوتا ، دلیل البتہ نگاہ عشق کی محتاج ہوتی ہے نامحرم کے لئے تو قرآن جیسی کتاب بھی ایک سادہ ورق ہے ، اور نگاہ غیر کا انتظار کئے بغیر حق آشنا دل اور حقیقت پسندانہ نگاہیں لے کر فصیل عشق پر آئیے اور حریم عشق میں ایک مثالی عاشق کی صائے پر سوز پر کان لگائے ۔
جان ہے عشق مصطفی روز فزوں کرے خدا
جسکو ہو درد کا مزا ناز دوا اٹھائے کیوں
غیرت عشق تو ملاحظہ کیجئے یہ بھی گوارا نہیں کہ درد عشق منت کش دوا ہو ، بلکہ اس درد عشق میں وہ لذت قلب و جگر حاصل ہوئی کہ روز افزوں ہونے کی دعائیں مانگی جارہی ہیں۔ وہ عشق سرکار میں ایسا گم ہونا چاہتے ہیں کہ خبر کو بھی انکی حبر نہ ہو۔
ایسا گمادے ان کی ولا میں خدا ہمیں
ڈھونڈا کرے پر اپنی خبر کو حبر نہ ہو
فراق حبیب میں سلگتے ہوئے دل سے ان کے مزاج عشق کی برہمی ملاحظہ کیجئے۔
اے دل یہ سلگنا کیا جلناہے تو جل بھی اٹھ
دم گھٹنے لگا ظالم کیوں دھونی رمائی ہے
عشق رسالت میں جب ان کی وارفتگئی شوق کا اضطراب بڑھا تو ان کے سوز دروں اور آہ گرم سے ایسا دھواں اٹھا ، جس میں حرارت عشق سے بوئے کباب آنے لگی۔
تونے تو کردیا طبیب آتش سینہ کا علاج
آج کے درد آہ میں بوئے کباب آئی کیوں
آپ کی نگاہ عشق و مستی میں صرف اسی کی قدر و قیمت ہے جو یاد سرکار سے معمور اور حب حبیب سے لبریز ہو اور وہی سر لائق صد افتخار ہے جو ان کے قدموں پہ قربان ہونے کے لئے بے چین و مضطرب ہو ۔
دل ہے وہ دل جو تری یاد سے معمور رہا
سر ہے وہ سر جو تیرے قدموں پہ قربان گیا
آپ کے عشق نے رہگزر حیات کو تو روشن و منور کیا ہی تھا ۔ نبض حیات ڈوبنے کے بعد قبر کی تاریکی میں بھی شمع فروزاں کا کام کیا ۔
لحد میں عشق رخ شہ کا داغ لے کے چلے
اندھیری رات سنی تھی چراغ لے کے چلے
ان کے دل دیوانہ کی آخری آرزو کا نقطئہ عروج دیکھئے کونین کی ساری عظمتیں قربان کرنے کو جی چاہتا ہے۔
یا الہی جب رضا خواب گراں سے سر اٹھائے
دولت بیدار عشق مصطفی کا ساتھ ہو
امام احمد رضا کے عشق کی داستان جتنی طویل ہے اتنی ہی پر شوق اور ایمان افروز بھی ، چمن زار رضا میں جس طرف بھی رخ کیا جاتا ہے دیدہ و دل خیرہ ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ آپ نے زندگی بھر ناموس رسالت کی حرمتوں کے تحفظ کے ساتھ ساتھ کردار عمل اور زبان و قلم سے عشق رسالت کا جو درس دیا ہے اس کی اتھاہ گھرائیوں اور بے پناہ وسعتوں کو دیکھ کر ایک عالم آج بھی انگشت بدنداں ہے۔ نعت کے اشعار ملاحظہ فرما لینے کے بعد عشق رسالت کے سوز و ساز میں ڈوبا ہوا ایک نثری شہ پارہ بھی دیکھئے ۔ جو وفاداروں کے لئے مژدہ جانفزا ہے اور غداروں کے لئے تازیانئہ عبرت ، فرماتے ہیں ۔
اے عزیز ایمان رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے مر بوط ہے ۔اور آ تش جاں اور سوز جہنم سے نجات انکی الفت پر منوط جو ان سے محبت نہیں رکھتاواللہ کہ ایمان کی بو اسکی مشام تک نہ آ ئی وہ خو د فر ماتے ہیں
لایو منو احد کم حتی اکو ن احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین ۔
ترجمہ تم میں سے کسی کو ایمان حاصل نہیں ہو تا جب تک کہ میں اسکے ماں باپ اولاد اور سب آدمیوں سے پیارا نہ ہو جاؤں
مزید فر ماتے ہیں اے عزیز چشم خرد میں سرمئہ انصاف لگاکر اور گوش قبو ل سے پنبہ انکار نکال کر پھر تمام اہل اسلامیہ بلکہ ہر مذہب و ملت کے عقلاءسے پو چھتاپھر کہ عشاق کا اپنے محبوب کے ساتھ کیا طریقہ ہو تا ہے اور غلاموں کو مولی کے ساتھ کیا کر نا چا ہئے آیات کثیر فضائل وتکثیر مدائح اور انکی خو بی حسن سن کر باغ باغ ہونا جامے میں پھو لا نہ سمانا ۔رد محا سن نفئ کمالات اور ان کے اوصاف حمیدہ سے بانکاوتکذیب پیش آنااگرایک عاقل منصف بہی تجھ سے کہدےنہ وہ دوستی کا مقتضینہ یہ غلامی کے خلاف ہے تو تجھے اختیار ہے ورنہ خداورسول سے شر ما اور حر کت بے جاسے باز آ یقین ؛جان لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خو بیاں تیرے مٹانے نہ مٹے گی دیار حبیب نگاہ عشق میں ایک سچے عاشق کے نگاہ میں محبوب کے کاکل درخت اور تن و پیرہن تو عزیز ہو تے ہی ہیں دیار حبیب کے بام و کوچہ وبازار بھی حسین حسین تر اور تسکین دل و جان کا سبب ہو تے ہیں مدینہ طیبہ کو دیار حبیب ہونے کی حیثیت سے کائنات عشق کی مرکزیت حا صل ہے عرش بریں کے نورانی قافلے ہوں یا فرش گیتی کے کار وان شوق سب کا رخ ارض طیبہ ہی کی طرف ہے عاشق کہیں بھی رہے دلوں کی دھڑ کن سے خاک طیبہ کا رشتہ نہیں ٹو ٹتا سلطان عشق امام احمد رضا کی نگاہ میں جلوہ گاہ حبیب پر کونین کی عظمتیں قر بان ہیں ۔خاک طیبہ کے زروں پر کہکشاں جمال بھی شر مندہ ہے اور اسکے صحراپر جنت کی بہاریں بھی نثار ہیں عشق سر مستی میں ڈوبے ہوئے یہوجد آفریں جزبات ملاحظہ ہوں فر ماتے ہیں :
جب سے آنکھوں میں سمائی ہے مدینہ کی بہار
نظر آتے ہیں خزاں دیدئہ گلستاں ہم کو
جس خاک پہ رکھتے قدم سید عالم
اس خاک پہ قربان دل شیداں ہے ہمارا
آتش گلہائے طیبہ پر جلانے کے لئے
جان کے طالب ہیں پیارے بلبلان سو ختہ
اے خار طیبہ دیکھ کہ دامن نہ بھیگ جائے
یوں دل میں آکہ دید ہ تر کو خبر نہ ہو
شفا شریف میں ہے : کان مالک رضی اللہ تعا لی عنہ لایر کب دابة بالمدینة وکان یقو ل استحی من اللہ تعالی ان اتا تربة فیہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحافردابة امام مالک رضی اللہ تعالی عنہ مدینہ طیبہ میں سواری پر سوار نہ ہو تے اور فر ما تے مجھے شرم آتی ہے خدا تعالی سے کہ جس زمین میں حضو ر صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جلوہ فرماہوں اسے جانور کے سم سے روندوں امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے عشق و ادب کی سرفرازیوں کا آنداز بہی نرالا ہے وہ حرم محترم اور کو چہ حبیب مین پیدل پاؤں چلنا بھی پسند نہیں کر تے بلکہ چشم و سر کے بل چلنے کی آرزو مند نظر آتے ہیں اور فر ماتے ہیں کہ :
حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا
ارے سر کا مو قعہ ہے او جانے و الے
ہاں ہاں راہ مدینہ ہے غا فل ذرا تو جاگ
او پاؤ ں رکھنے والے یہ جا چشم و سر کی ہ
واروں قدم قدم پہ کہ ہر دم ہے
جان لو یہ راہ جاں فزا میرے مولی کیے در کی ہے
آپ کے عشق ادب اور خاک طیبہ سے شیفتگی کا عالم کتنا کیف پر ور اور حیرت انگیز تھا کہ دیار حبیب سے انے والے ہر مومن اور محیب کے قدم چوم لیتےتھے چا ہے وہ ان سے عمر میں چھو ٹا اور علم میں فرو تر ہی کیوں نہ ہو مگر اسکے باوجود رشک و حسرت سے نڈھال ہو کر فر ما تے ہیں قیس کو عشق مجاز تہا تو مجنو بن کر صحرائے نجد کی خاک چھا ئی اور سگ دیار لیلی کے قدم چو مے اے رضا کیا ایسا مقدر اور بلندی نصیب تیرا بھی ہے ۔
رضا کسی سگ طیبہ کے پاؤں بھی چومے
تم اور آہ کہ اتنا دماغ لے کے چلے
تیرے قد موں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھں
کون نظروں میں جنچے دیکھ کے تلوا تیرا
اس گلی کا گدا ہو ں میں جس میں
مانگتے تاجدا ر پھر تے ہیں
مکہ مدینہ اور مذ ہب عشق
ار باب علم ودانش اور علماء و فقہاء کے درمیان اس سلسلہ میں اختلاف ہے مکہ و مدینہ میں افضل کون ہے اور اپنے اپنے مدعا پر طر فین کے دلائل بھی ہیں ۔ مگر عشق کسی دلیل کا محتاج نہیں ہو تا اور امام احمد رضا صاحب علم و بصیرت کے ساتھ ایک عا شق بھی ہیں اسلئے اس سلسلے میں اس کا فیصلہ یہ ہے :
طیبہ نہ سہی افضل مکہ ہی بڑا زاہد
ہم عشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے
حا جیوں آؤشہنشا کا روضہ دیکھو
کعبہ تو دیکھ چکے ہو کعبے کا کعبہ دیکھو
غور سے سن تو رضا کعبے سے آتی ہے صدا
میری آنکھوں سے میرے پیارے کا روضہ دیکھو
مکہ جلالت الہی کا مر کز ہے اور مدینہ کائنات عشق کی راج دھانی ہے ان تصورات کو ذہن میں رکھ بغیر کسی تبصرے کے پیکر عشق کے جذبات ملاحظہ کیجئے ۔
عاصی بھی ہیں چہیتے یہ طیبہ ہے زاہد و
مکہ نہیں کہ جانچ جہاں خیروشرکی ہے
شان جمال طیبہ جاناہے نفع محض
وسعت جلال مکہ میں سود وضر رکی ہے
کعبہ ہے بشک انجمن آرا دولہن مگر
ساری بہار دولہنوں میں دولہا کے گھرکی ہے
کعبہ دولہن ہے تربت اطہر نئی دولہن
یہ رشک آفتاب وہ غیرت قمر کی ہے
دیار حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم میں حاضری کی بے تاب آرزو
ایک محب صادق کی قلبی تمنا ہوتی ہے کہ اسے دیار نبی کی حاضری نصیب ہوجائے زبان ومکان کی وسعتیں سمٹ جائیں قوت پر واز کے لئے اسے بال وپرمل جائے ۔اور جتنی بھی جلدی ہو وہ چمنستان حبیب میں جابیٹھے ۔ اسی آرزو میں وہ تڑپتامچلتااور کروٹیں بدلتا ہے شام و سحر دعا ئیں اور التجائیں کرتاہے صبر کا دامن تھامتا ہے تو دم گھٹنے لگتاہے اور پیمانہ ضبط لبریز ہو جاتاہیےحسرت و غم کے اشک رواں ہو جاتے ہیں جب وہ مایوسیوں کی شب تاریک دیکھتاہے تو نبض حیات ڈوبنے لگتی ہے اور جب امیدوں کا سویرا نمودار ہو تاہے تو مردہ رگوں میں حیات و مسرت کا لہو دوڑنے لگتاہے کوچئے حبیب کی جانب عاشقوں کے قافلے روانہ ہوتے ہیں تو یہ ولولہ شوق اوربھی دو بالا ہو جاتا ہے ۔اس تناظر میں عاشق رسول امام احمد رضا کی فغان دل آرزوئے شوق اور فراق حبیب میں تپتی ہوئی زندگی کا اضطراب ملاحظہ کیجئے ۔
جان و دل ہوش خرد سب تو مدینے پہونچے
تم نہیں چلتے رضا سارا تو سامان گیا
سنگ در حضور سے ہم خدا نہ صبر دے
جاناں ہے سر کو جاچکے دل کو قرار آئے کیوں
شمع طیبہ سےمیں پروانہ رہوں میں کب تک دور
ہاں جلادے شرر آتش پنہاں ہم کو
حسرت میں خاک بوسئی طیبہ کو اے رضا
ٹپکاجو چشم مہر سے وہ خون ناب ہو ں
دل بستہ بے قرار جگر چاک اشکبار
غنچہ ہوں گل ہوں برق ہوں سحاب ہوں
قافلہ حجاج دیکھ کر امام احمد رضا کے دل کی بے تابی اور ہنگا مہ خیزی ملاحظ کیجئے۔
اے رضا سب چلے مدینہ کو
میں نہ جاؤں ارے خدانہ کرے
پھر اٹھا ولولئہ یاد مغیلان عرب
پھر کھینچادامن دل سوئے بیا بان عرب
اشک بر ساؤ ں چلے کوچہ جاناںسے
نسیم یاخدا جلد کہیں نکلے بخار دامن
جب صبا آتی ہے طیبہ سے ادھر کھل کھلاپڑتی ہیں کلیاں یکسر
پھول جامہ سے نکل کر باہر رخ رنگین کی ثناکر تے ہیں
صف عالم اٹھے خالی ہوئی زنداں ٹوٹیں زنجیر یں
گنہگا رو چلو آقانے درکھو لا ہے جنت کا
بارگاہ رسول میں عشق رضاکی سر فرازی
امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کی داستان عشق و ادب سے با خبر ہوجا نے کے بعد بار گاہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم میں آپی کی مقبو لیت کا اندزہ بخو بی لگایا جاسکتا ہے ۔ مگر پھر بھی تسکین کی خاطر اور اطمنان قلبی کے لئے چند واقعات ذیل میں پڑھئے اگر دل ودماغ کسی خارجی مانع سے بو جھل اور عناد وتعصب کے جرم میں ، ملوث نہیں ہیں ۔ تو ان شاء اللہ یہ چند شوا ہد اس حقیقت کو حلق کے نیچے اتار نے کے لئے کافی ہوں گے کہ امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کا عشق بار گاہِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم میں مقبول ہے مولانا محمد احمد مصباحی استاز الجامعة الاشرفیہ مبارک پور رقم تراز ہیں اعلی حضرت جب دوسری بار ۱۳۲۲ھ میں آقائے کونین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی بار گاہ میں حاضر ہوئے تو شو ق دید ار کے ساتھ موا جہ عالیہ میں درود شریف پڑھتے رہے انھیں امید تھی کہ ضرور سر کارِمدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم عزت افزائی فرمائینگے اور زیارت جمال سے سر فراز کریں گے لیکن پہلی شب تکمیل آرزو نہ ہو سکی یاس و حسرت کے عا لم میں ایک نعت کہی جس کا مطلع ہے :
وہ سوئے لالہ زار پھر تے ہیں
تیرے دن ائے بہار پھر تےہیں
مقطع میں عاشق مصطفی کا ناز اور جلیل القدر ولی کا عر فان پھر بے کسی ومحرومی کا اظہار کچھ عجب انداز لئے ہوے نظر آتاہے عر ض کر تے ہیں :
کو ئی کیوں پو چھے تیری بات رضا
تجھسے کِتے ہزار پھر تے ہیں
نوٹ : اس شعر میں کاف کے نیچے زیر کتے پورانی اردو ہے یعنی کتنے ہزار پھرتے ہیں نوٹ فرما لیں مغالطہ سے بچیں ۔
موا جہ شریف میں یہ نعت عرض کی اور مؤدب و منتظر بیٹھ گئے قسمت جاگی حجاب اٹھا اور عالم بیداری میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی زیارت اور جمال جہاں آراکے دیدار سے شر ف یاب ہوئے ۔یہ آقائے کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے وہ اعزاز ہے جو بڑے ناز کے پالوں کو ہی میسر آتاہے ۔امام احمد رضا قد سرہ خواب میں تو بار بار جمال اقدس سے شرفیاب ہوئے مگر اس بار روضہ مقدسہ کے حضور عالم بیداری ميں دیدار سے سر فراز ہو ئے ہیں جو ان کے عشق وعر فاں کی کھلی ہو ئی دلیل اور بار گاہ رسالت میں ان کی مقبو لیت کا بین ثبوت ہے .
اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بہت بڑے عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّمفاضل گزرے ہیں جن کو فقہ حنفی اور اس کی جزئیات پر عبورحاصل تھا ۔ جس کے بارے میں علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ وه بےحد ذہین اور باریک بین عالم دین تھے فقہی بصریت میں انکا مقام بہت بلند تھا ۔
ان کے فتاوی کے مطالعے سے اندازه ہوتا ہے کہ وه کس قدر اعلی اجتہادی صلاحتیوں سے بہره ور اور پاک و ہند کے کیسے بابغہ روزگار فقیہ تھے ۔ ہندوستان کے اس دور متاخرین میں ان جیسا طباع اور ذہین فقیہ بمشکل ملے گا ۔ (عبدالنبی کوکب، مقالات یوم رضا، حصہ سوم)
آپ کا شمار ان بزرگان دین میں ہوتا ہے جن کو حضورپاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے ظاہری حالت میں اپنی بیعت نصیب فرمائی ۔
اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضورپاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی بارگاه میں ان سے ملاقات کی تمنا لیے حاضر ہوئے اور وہاں جا کر دوردپاک کی کثرت کردی بے حساب درودپاک پڑھا مگر حضورپاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی طرف سے کوئی اشاره معصول نہ ہوا دوسرے دن بھی اسی طرح حضورپاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی بارگاه میں حاضر ہوۓ اور درود پاک کی کثرت کردی مگر اس کے باوجود حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے کوئی اشاره نہ ہوا تیسرے دن آپ حضورپاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی بارگاه میں حاضر ہوئے اور روتے ہوئے یہ قیصدے پڑھنے لگے :
وه سوۓ لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
جوتیرے درسے یارپھرتے ہیں
دربدریونہی خوار پھرتے ہیں
یہ ہوتا ہے عشق کا مقام کہ خود کو معشوق کے قدموں میں گرا دیتا ہے عاشق خود کو معشوق کے سامنے حقیربنا کر پیش کرتا ہے ۔ یہ بات کہنے کی دیر تھی حضورصلی الله علیہ وسلم بشم خود ظاہری حالت میں تشریف لاۓ اور اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اٹھا کر اپنے سینہ مبارک سے لگایا ۔ اس کے بعد اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو حضور صلی الله علیہ وسلم کے اتنے جلوے نظر آۓ کہ کبھی کہتے ہیں :
کس کے جلوے کی جھلک ہے یہ اجالا کیا ہے
کبھی کہتے ہیں
تو شمع رسالت ہے عالم ہے تیرا پروانہ
کبھی کہتے ہیں
وه کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں
غرض یہ کہ اس کے بعد اعلی حضرت کے قلم سے ایسے ایسے الفاظ نکلے کہ جنہیں سن کر بڑے بڑے اہل علم دنگ ہیں اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضورصلی الله علیہ وسلم کی شان میں اتنا کچھ لکھ دیا کہ جو آج تک کوئی نہ لکھ سکا اور کمال بات یہ اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے نہ کبھی حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کی شان کو گھٹایا نہ کبھی بڑھایا بلکہ حضورپاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے حکم کے مطابق آپ کی شان کو بیان کیا اور ایسی بیخودی کے عالم میں بیان کیا کہ اگر اعلی حضرت کو کوئی کلام بھری محفل میں پڑھ دیا جاۓ تو وہاں پر موجود ہر فرد جھوم اٹھتا ہے ۔
اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سرورکہوں کے مالک و مولا کہوں تجھے کلام لکھ کر اپنی حیرت و بے بسی کی انتہا کر دی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی جسم مبارک کی تعریف کرتے ہوۓ فرماتے ہیں کہ :
الله رے تیرے جسم منور کی تابشیں
اے جان جاں میں جان تجلا کہوں تجھے
پھر جب اعلی حضرت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے وصف کا ذکر کرتے ہیں تو یوں فرماتے ہیں :
تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں بری
حیراں میں میرے شاه میں کیا کیا کہوں تجھے
جب اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی نظر حضورپاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے وصف پر پڑتی ہے ان کی عقل حیران ره جاتی ہے اگر کوئی ساری زندگی صرف آپ صلی الله علیہ وسلم کی وصف تحریر کرتا رہے تو وه مر جائے گا مگر آپ کے وصف کا ایک باب بھی پورا نہ ہوگا ۔ زندگیاں ختم ہوئیں قلم ٹوٹ گۓ مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے وصف کا اک باب بھی پورا نہ ہوا یہاں پر آکراعلی حضرت کا علم اور قلم جواب دے جاتا ہے اور آپ برجستہ فرماتے ہیں :
حیراں ہوں میرے شاه میں کیا کیا کہوں تجھے
پھر فرماتے ہیں
کہہ لے گی سب کچھ تیرا ثنا خوان کی خاموشی
چپ ہو رہا ہے کہہ کہہ کے میں کیا کیا کہوں تجھے
محترم قارئین : ذرا سوچیۓ کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کتنی بڑی ہستی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی تعریف کرتے کرتے ثناء خوان بھی خاموش ہوجاتے ہیں مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی تعریف مکمل نہیں ہوپاتی اور آخر پر اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کلام کا ختم سخن کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
لیکن رضا نے ختم سخن اس پہ کر دیا
خالق کا بنده خلق کا آقا کہوں تجھے
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم تو دور کی بات میں ان کے غلام کی تعریف کرنے کے بھی قابل نہیں اور نہ ہی میرے پاس ایسا علم ہے کہ میں اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو خراج تحسین پیش کرسکوں میں خود یہ سب لکھنے کیلۓ انہی کے کلام کا سہارا لے رہا ہوں میں کیا لکھ پاؤں گا اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مطلق کہ میرے اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کون تھے بس اتنا سمجھ لیجیئے وه میری جان ہیں میری دھڑکن ہیں میری روح میں ہلچل بیپا کردینے والے انسان ہیں مجھ جیسوں کو عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم بنا دینے والے عظیم انسان اور ثناء خوان مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم ہیں ۔ دنیا کا کوئی کونہ ایسا نہیں جہاں اعلی حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے کلام کی گونج نہ ہو ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment