Monday 7 October 2019

سبز عمامہ اور سبز چادر اوڑھنے والے دجال کے پیروکار ہیں کا جواب اوّل

0 comments
سبز عمامہ اور سبز چادر اوڑھنے والے دجال کے پیروکار ہیں کا جواب اوّل

سبز عمامہ اور علمائے دیوبند : فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے فیس بک پر کچھ مفتیانِ دیوبند کے سبز عمامہ شریف کے خلاف گھٹیا توہین آمیز کمنٹس دیکھے اور مولوی ایوب و الیاس گھمن کی کتابوں میں جہالت بھری تحاریر پڑھیں فقیر کافی دنوں سے سوچ رہا تھا کہ ان کے جواب میں کچھ لکھوں آج فیس بک کے ایک دیوبندی مفتی کے انتہائی گھٹیا کمنٹس پڑھے بہت دکھ ہوا سو فقیر نے انہیں کے گھر و اکابرین سے جواب دینا مناسب سمجھا پڑھیئے اور فیصلہ کیجیئے :

حاجی امداد ﷲ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ مرشد اکابرینِ علماء دیوبند

دیوبندی اکابر کے پیرومرشد حاجی امداد ﷲ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خواب میں زیارت کے حصول کا طریقہ یوں بیان کیا ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد پوری پاکی سے نئے کپڑے پہن کر خوشبو لگا کر ادب سے مدینہ منورہ کی طرف منہ کرکے بیٹھے، اور خدا کی بارگاہ میں جمال مبارک آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زیارت حاصل ہونے کی دعا کرے اور دل کو تمام خیالات سے خالی کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صورت کا سفید شفاف کپڑے اور سبز پگڑی اور منور چہرہ کے ساتھ تصور کرے ۔ اور الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اﷲ کی داہنے اور الصلوٰۃ والسلام علیک یا نبی اﷲ کی بائیں اور الصلوٰۃ والسلام علیک یا حبیب ﷲ کی ضرب دل پر لگائے اور متواتر جس قدر ہوسکے درود شریف پڑھے… انشاء اﷲ مقصد حاصل ہوگا ۔
(ضیاء القلوب مشمولہ کلیات امدادیہ صفحہ نمبر ۶۱ مطبوعہ کراچی)

اس سے دو چیزیں واضح ہوئیں

(1) حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا سبز عمامہ باندھنا حق ہے ۔

(2) الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اﷲ بناوٹی درود نہیں ہے بلکہ اس کے ورد سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زیارت نصیب ہوتی ہے ۔

مدرسہ دیوبند میں سبز عمامہ سے دستار بندی

دیوبندی ترجمان ماہنامہ الرشید کے دارالعلوم دیوبند نمبر میں مرقوم ہے کہ ۱۲۹۰ھ / ۱۸۷۳ء سے انتظامیہ نے دستار بندی اور عطائے سندکا سلسلہ شروع کردیا ۔ دارالعلوم کے سرپرست فارغ التحصیل طلبہ کے سر پر اپنے ہاتھ سے سبز دستار باندھتے اور سند عطا فرماتے تھے ۔ (ماہنامہ الرشید دارالعلوم دیوبند نمبر صفحہ نمبر ۵۵۱،چشتی)

انورشاہ کشمیری محدث دیوبند کا سبز عمامہ باندھنا

دیوبندی محدث العصر انور شاہ کشمیری کے متعلق ان کی سوانح میں مرقوم ہے کہ اس حسین اور پرکشش جسم پر جب موسم سرما آتا، سبز عمامہ زیب سر اور سبز قبا زیب بدن کرتے تو ایک فرشتہ انسانوں کی اس دنیا میں چلتا پھرتا نظر آتا ۔ (حیات کشمیری (نقش دوام) صفحہ نمبر ۷۵ )

مہتمم مدرسہ دیوبند کا سبز عمامہ باندھنا

دیوبندی ابن الحسن عباسی رقم طراز ہیں : میں اٹھنے ہی والا تھا کہ ایک سبز رنگ کا پٹکا باندھے آئے اور سلام کرکے بیٹھ گئے ۔ میں نے پوچھا آپ کی تعریف ؟ بولے کہ میں مہتمم ہوں اور تین بڑے بڑے رجسٹر میرے سامنے رکھ دیئے اور بتلایا کہ یہ سال بھر کے آمدوصرف کا حساب ۔ (دینی مدارس صفحہ نمبر ۸۵)

یہ عبارت تاریخ دارالعلوم دیوبند از مولوی محبوب اور ماہنامہ الرشید دارالعلوم دیوبند نمبر میں بھی موجود ہے ۔ صرف فرق یہ ہے کہ ان میں ابتدا کی جملہ سبز پٹکا کی جگہ یوں ہے ’’ایک صاحب سبزہ رنگ آئے‘‘ تاریخ دارالعلوم دیوبند جلد نمبر ۱، صفحہ نمبر ۱۸۰، ماہنامہ الرشید دارالعلوم دیوبند نمبر۱۹۵)

خلیل احمد انبیٹھوی کا سبز عمامہ باندھنا : دیوبندی محدث خلیل احمدانبیٹھوی کے متعلق دیوبندی محقق و مورخ عاشق الٰہی میرٹھی لکھتے ہیں :عمامہ حضرت متوسط طول کا باندھتے تھے مگر نہایت خوبصورت شملہ دو سوا دو بالشت پیچھے چھوڑتے اور اکثر مشروع بھاگلپوری کا سبز یا کالا ہوتا تھا ۔ ہمیشہ آپ کھڑے ہوکر عمامہ باندھتے ۔ (تذکرۃ الخلیل صفحہ نمبر ۳۶۲ مطبوعہ کراچی،چشتی)

حسین احمد مدنی کی سبز عمامہ سے دستار بندی : دیوبندی مذہب کے شیخ الاسلام حسین احمد مدنی خود اپنے متعلق لکھتے ہیں کہ مجھ کو ایک عمامہ سبز حسب اصول مدرسہ (دیوبند) از دست حضرت شیخ الہند بندھوایا گیا (نقش حیات جلد نمبر ۱، صفحہ نمبر ۱۴۷، طبع کراچی)

دیوبندی سوانح نگار فرید الوحیدی اپنے دیوبندی شیخ الاسلام حسین احمد مدنی کے حلیہ میں رقم طراز ہیں کہ : سر پر سبز رنگ کا عربی انداز کا اونی رومال جسم پر کتھئی رنگ کا عربی مصلح (عبائ) ۔ (شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ایک تاریخی و سوانحی مطالعہ صفحہ نمبر ۷۹۵)

عبدالستار تونسوی کی سبز عمامہ سے دستار بندی

مولانا محمد حسین صاحب نے مناظر اعظم تنظیم اہل سنت علامہ (عبدالستار) تونسوی کے سر پر سبز رنگ کی دستار بندھوائی ۔ (بے نظیر و لاجواب مناظرہ صفحہ نمبر ۲۲۰)

دیوبندی شیخ الحدیث سلیم ﷲ خان لکھتے ہیں : رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو سبز رنگ سب سے زیادہ پسند تھا لہذا سبز رنگ کی پگڑی کو دوسرے رنگوں پر ترجیح دیئے بغیر اگر کوئی استعمال کرتا ہے تو جائز ہے ۔ (کشف الباری جلد نمبر ۱، صفحہ نمبر ۱۷۳، کتاب اللباس)

سبز عمامے والے کے پیچھے نماز جائز ہے ، دیوبند کا فتویٰ

سوال: اماموں کو سبز یا نارنجی عمامہ باندھنا جائز ہے یا نہیں ؟
جواب : سبز یا نارنجی رنگ کی شرعاً ممانعت نہیں ہے لہذا اس (سبز عمامے والے امام) کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے ۔ (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند جلد نمبر ۳ صفحہ نمبر ۷۔۱۹۶،چشتی)

دیوبندی محقق و شارح ترمذی محمد سعید پالن پوری کے افادات پر مرتب کتاب تحفۃ الائمعی شرح سنن ترمذی میں مرقوم ہے : پگڑی کسی بھی رنگ کی باندھنا جائز ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سیاہ پگڑی بھی باندھی ہے ۔ ہری (سبز) بھی اور سفید بھی ، پس لال پگڑی تو مناسب نہیں ، باقی جس رنگ کی چاہے باندھ سکتا ہے ۔ (تحفہ الالحمعی شرح سنن ترمذی جلد نمبر ۵، صفحہ نمبر ۷۰ مطبوعہ کراچی)

دیوبندی مذہب کے شیخ الاسلام جسٹس مفتی تقی عثمانی صاحب رقم طراز ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سفید عمامہ پہننا بھی ثابت ہے اور سیاہ عمامہ پہننا بھی ثابت ہے اور بعض روایات میں سبز عمامہ پہننا بھی ثابت ہے ۔ (اصلاحی جماعت جلد نمبر ۵ صفحہ نمبر ۳۰۷ مطبوعہ کراچی)

عادت کے مطابق اصلاحی خطبات کے جدید ایڈیشن میں سبز عمامہ کے اثبات کی عبارت کو دیوبندیوں نے نکال کر تحریف وبددیانتی کا ثبوت دیا ہے ۔ ہوشیار اے سنی مسلمان ہوشیار ۔

دیوبندی مبلغ طارق جمیل کہتے ہیں : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا رنگ سفید تھا ، جس میں سرخی ملی ہوئی تھی ، پگڑی کون سی باندھتے تھے ؟ سفید، سیاہ اور سبز تینوں پگڑیاں باندھتے تھے ۔ (خطبات جمیل جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۱۰۳، طبع گوجرانوالہ)

دیوبندی سخی داد خوستی سبز عمامہ شریف کے متعلق لکھتے ہیں کہ : عمامہ کا سیاہ سفید اور سبز رنگ تو مستحب ہے ۔ (الحجتہ التامہ فی لبس العمامہ یعنی پگڑی کا مکمل ومدلل بیان صفحہ نمبر 54 ‛‛مقالاتوخوستی جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 67)

مزید سخی داد خوستی نے صحابہ سے سبز عمامہ باندھنا ثابت کیا ہے چنانچہ لکھا ہے کہ : صحابہ سے سبز عمامہ باندھنا منقول ہے جیسا کہ ایک اثر میں آیا ہے : ترجمہ‛‛‛ مہاجرین اولین صحابہ کو سوت کے سیاہ سرخ اور سبز عمامے باندھتے پایا ۔ (مقالات خوستی جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 63)

دیوبندی شارح ترمذی محمد سعید پالن پوری کہتے ہیں کہ : نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّمنے سیاہ پگڑی بھی باندھی ہے ہری (سبز) بھی اور سفید بھی ۔ (تحفتہ اللامعی شرح سنن ترمذی جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 70)

دیوبندی مولوی علی شیر حیدری کہتے ہیں کہ : تم تو (سنی بویلوی)ہری (سبز)پگڑی کو ہاتھ ہی نہ لگاؤ یہ تو دارالعلوم دیوبند کی نشانی ہے اور میرے ہر فاضل دیوبند کے پاس ہری پگڑی رکھی ہوئ ھے جو اپنے اساتذہ نے اپنے ہاتھ سے انہیں بندھوائ تھی ۔ (حق نواز جھنگوی شہید سے علی شیر حیدری تک ص 420 ‛ مولوی ثناءاللہ سعد شجاع آبادی)

سبز عمامہ اور سبز چادر اوڑھنے والے دجال کے پیروکار ہیں کہنے والو فاضلانِ دارالعلوم دیوبند کو سبز عمامے پہنائے جاتے تھے اب اس گروہ دیوبند کے متعلق بھی ارشاد ہو جائے کہ یہ دجال کے پیروکار ہیں کہ نہیں ؟

اب سبز عمامے پر دیوبندی مولوی ابو ایوب اور الیاس گھمن کی بھی سن لیں

ابو ایوب دیوبندی اپنی کتاب میں سبز عمامے کے خلاف لکھتے ہیں : یہاں الفت محبت کا انداز ہی ہے کہ محبوب سفید پگڑی باندھیں اور سبز زندگی بھر نہ باندھیں یہ محب کہلوانے والے سفید سے احتراز کرکے سبز کو اختیار کریں ۔ (دست وگریباں جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 22،چشتی)

اسی طرح دیوبندیوں کے متکلم الاسلام مولوی الیاس گھمن دیوبندی کی زیر نگرانی شائع ہونے والا دیویندی مجلہ ‛‛‛ راہ سنت ‛‛‛ لاہور کے نائب مدیر فیاض طارق سبز عمامے کے خلاف لکھتے ہیں کہ : سبز پگڑی کی شریعت اور سنت میں کوئی اصل نہیں اور نہ ہی یہ زمانہ قدیم میں تھی بلکہ بعد میں گڑھ لی گئ ہے ۔ (دوماہی دیوبندی مجلہ ‛ راہ سنت‛‛ لاہور صفحہ نمبر 33 رمضان المبارک و شوال المکرم 1430 بحوالہ کلمہ حق شمارہ 13 صفحہ نمبر 38)

واضح ہوا کہ سبز عمامہ پہننا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ثابت نہیں یعنی اصول وہابیہ کے مطابق بدعت ہے ۔

سبز عمامہ پہننا محبت کے تقاضوں کے منافی ہے ۔

دیوبندیوں کے نزدیک سبز پگڑی کی شریعت وسنت میں کوئی اصل نہیں ۔

دیوبندیوں کے مطابق سبز پگڑی زمانہ قدیم میں نہ تھی بلکہ بعد میں گڑھ لی گئی ہے ۔

اب دیابنہ سے میرا سوال یہ ہے کہ : اکابرینِ دیوبند کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سبز عمامہ پہننا ثابت ابوایوب ، گھمن اور سبز عمامے کا مذاق اڑانے والے دیوبندیوں کے مطابق شریعت وسنت میں نہیں ہے دونوں میں صحیح کیا ہے ؟ ۔ علمی جواب کا منتظر طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔







0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔