Tuesday 1 October 2019

ایسے لوگ پلید و خبیث اور جاہل ہیں جو یزید کے اعمال کو لے کر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر بک بک کرتے ہیں

0 comments
ایسے لوگ پلید و خبیث اور جاہل ہیں جو یزید کے اعمال کو لے کر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر بک بک کرتے ہیں اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو جنتی نہیں مانتے ، آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل کے منکر ہوتے ہیں ، آپ رضی اللہ عنہ کیلئے لعن طعن ، گالی گلوچ کرتے ہیں ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحابی ہیں ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی عیب جوئی کیلئے سوالات کرنا سوائے پلیدی ، فتنہ ، شر اورخباثت ذہنی کے ، اور کچھ حقیقت نہیں رکھتے ۔ یہ ذہنی خبث ہے ، اس کو خبثِ باطن کہتے ہیں ۔

شیخ الاسلام منہاج القرآن جناب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ویڈیو بیان کا خلاصہ

کسی نے یہ سوال کیا ہے کہ دس محرم کے موقع پر سوال ہے کہ یزید کس کا بیٹا تھا ، اس کا باپ کون تھا ؟

شیخ الاسلام منہاج القرآن جناب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جواب دیتے ہیں : اگر تو آپ میں سے کسی نے سوال کیا اور یہ خیال لکھنے والے کے خود اپنے ذہن میں آیا ہے تو اپنی اصلاح کر لے ، اور اگر کسی آدمی نے اس کو یہ سوال کیا ہےاور یہ بات اس کے ذہن میں ڈالی ہے تو اس کو جواب دے کہ ایسے سوالات کرنا سوائے پلیدی ، فتنہ ، شر اورخباثت ذہنی کے ، اور کچھ حقیقت نہیں رکھتے ۔ یہ ذہنی خبث ہے ، اس کو خبثِ باطن کہتے ہیں ۔ پوچھنے والے کو یا جس نے بھی آپ کو کہا ہوگا کیا نہیں پتا کہ یزید کس کا بیٹا ہے کس کو معلوم نہیں ؟ اس کے والد کا نام کیا تھا یہ معلوم نہیں ہے ؟ دراصل سوال کے ذریعے یہ باور کروانا چاہتا ہے کہ معاذاللہ ، استغفراللہ کہ جو کردار کا ہے وہی اس کے استغفراللہ باپ کا ہے ۔ یعنی یزید کے عمل اور کرتوت وہ اس کے والد کے کھاتے میں ڈالنا چاہتا ہے ۔ یہ جان کر کے معاذاللہ جیسے جاہل لوگ کہتے ہیں کہ جیسا بیٹا ویسا باپ ، یا جیسا باپ ویسا بیٹا معاذاللہ ۔ یہ پلیدی ہے اور خبثِ باطن ہے اپنے ذہن کو اس سے پاک کر نا چاہئیے ۔ یزید حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا بیٹا تھا ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابی تھے اور ان صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے تھے جن سب کیلئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جنت اور اور حسن آخرت کی ضمانت دی ۔ اور ان کو گالی گلوچ دینا اور لعنت و ملامت کرنا ، برا بھلا کہنا حرام ہے ۔ خود کو جہنم کا ایندھن بنانے کے مترادف ہے ۔ رہ گیا یزید ، وہ صحابی نہیں تھا وہ اپنے عمل بد کا اور اپنے کردار کا اور اپنے برے کرتوتوں کا خود ذمہ دار تھا ۔ وہ فاسق و فاجر تھا ۔ وہ دین کی بعض حدود کا منکر ہوا ، اور اس نے سیدنا اما حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھم کی اہانت اور مکہ و مدینہ کی ، حرمین شریفین کی اہانت کر کے کفر کا ارتکاب کیا اور وہ کافر ہوگیا ۔ بے ایمان ، بدبخت اور جہنم کا ایندھن جا بنا ۔
باپ کے عمل کا ذمہ دار بیٹا نہیں ہو گا آخرت میں اور بیٹے کے عمل کا ذمہ دار باپ نہیں ہوگا ۔ یہ ناجائز ہے کہ اس کے کرتوتوں کی بنیاد پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ یعنی اس کے والد کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے ۔ اگر یوں سوچیں تو حضرت نوح علیہ السلام کا بھی ایک بیٹا تھا اور وہ کافر تھا ، وہ ایمان ہی نہیں لایا قرآن نے ذکر کیا ہے ۔ تو بیٹے کا عمل معاذاللہ ٓپ کس بنیاد پر باپ کے کھاتے میں ڈالتے ہیں ، باپ پیغمبر ہے اور بیٹا کافر ہے ۔ ان چکروں میں مت پڑا کریں ۔ اپنے دل و دماغ کو پاک و صاف رکھیں۔ اللہ پاک نے فرمایا :م وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ایک کا بوجھ دوسری جان نہیں اٹھائی گی۔ ان رضی اللہ عنہ کا عمل ان کیساتھ اور اس کا عمل اس کے ساتھ ۔ ہاں یہ بات ضرور ہےکہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے درجہ ، مرتبہ اور فضلیت میں نہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنھم کے برابر ہیں اور نہ سیدنا علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہ کے برابر ہیں،نہ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے برابر ہیں ۔ اہل بیت اطہار، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے شہزادگان ، سیدنا علی شیر خدا رضی اللہ عنہم کسی کے برابر بھی درجہ و فضلیت میں نہیں ہیں ۔ نہ وہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم میں سے ہیں ، نہ عشرہ مبشرہ میں سے ، نہ پہلے چالیس میں سے اور نہ بدری تین سو تیرہ صحابہ میں سے ہیں ۔ وہ وہ حتیٰ کہ پہلے دس ہزار جو فتح مکہ سے قبل السابقون الاوالون میں سے ہیں (رضی اللہ عنھم اجمعین) ۔ وہ بعد میں ایمان لانے والے صحابہ میں ہیں ۔ ان کے والد حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ اور پھر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی ۔ مگر اس میں شک نہیں وہ صحابی ہوئے ۔ اور صحابی ہونے کے ناطے ، بحیثیت صحابی جو فضلیتیں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے لئے بالعموم مقدر ہیں وہ ان رضی اللہ عنہ کو میسر ہوئیں ۔ اور جنت کا اور حسن آخرت کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کیلئے وعدہ کیا ، سب صحابہ کیلئے ، یہ بھی اس وعدہ میں شریک ہیں ۔ لہٰذا ان کو تنقید کرنا یا گالی گلوچ کرنا یا ملامت کرنا مطلقاً حرام ہے اور اپنی آخرت تباہ کرنے کے مترادف ہے ۔ (طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔