مشاجراتِ صحابہِ کرام کے بارے میں تاجدار سلسلہ چشتیہ کا پیغام چشتیوں کے نام
تاجدار سلسلہ چشتیہ حضرت خواجہ محمد فخر الدین چشتی نظامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہر ایک کو خیر سے یاد کرتے ہیں اُن سے حُسنِ ظن کے سبب اگرچہ بعض سے اُن کے وہ چیزیں جو شر کی صورت میں ہے ہوگئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کا فرمان ہے میرے صحابہ جب ذکر کیئے جاویں تو خاموش رہو اس لیئے مشاجراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں خاموش رہو افراط و تفریط سے یعنی کمی و زیادتی کرنے سے بچو ۔ (نظامُ العقائد صفحہ نمبر 37 مطبوعہ زاویہ پبلشرز لاہور)
مشاجراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق اہلسنّت کا مؤقف
محترم قارئین : اس موضوع پر سب سے پہلے ہم ادارہ منہاج القرآن کے مفتی منہاج القرآن جناب مفتی محمد عبد القیوم خان خان صاحب ہزاروی کا فتویٰ مِن و عَن پیش کر رہے ہیں اور اس فتویٰ کے بعد امامِ اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کے ارشادات پیش کر رہے پڑھیئے اور فتنوں و گستاخیوں سے بچیئے :
مفتی منہاج القرآن کا فتویٰ
مشاجرات صحابہ میں اہلِ سنت کا کیا مؤقف ہے ؟
موضوع: فضائل و مناقب
سوال پوچھنے والے کا نام: حافظ شاہ فيروز وارثی مقام : سمبھل، اتر پردیش، انڈیا
سوال نمبر 3815 : السلام عليکم! حدیث پاک ہے کے علی حق کے ساتھ اور حق علی کے ساتھ ہے۔ اب جو بھی دنيا ميں علی کے مقابلے پر آئے وہ اس حدیث پاک کی روشنی ميں ناحق پر ہے۔ اس بارے ميں حضرت معاویہ اور کے متعلق کيا سمجھا جائے ؟ حضرت عائشہ رضی عنہا اور حضرت معاویہ نے حضرت علی سے جنگ کی اب حق پر کون ہے ؟ اس کا مدلل اور مفصل جواب دیں ۔
جواب : صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان جو باہمی نزاعات اور مشاجرات ہوئے ہیں ان پر لب کشائی ہم مناسب نہیں سمجھتے۔ تمام صحابہ کرام اسلام کے لیے مخلص، اور حق گوئی و حق طلبی کے لیے کوشاں تھے۔ مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم میں بحث و تکرار سے گریز کرنا ضروری ہے، کیونکہ اس کا نتیجہ سوائے خود کو شیطان کے حوالے کرنے کے اور کچھ نہیں ہے، علمائے امت نے بتکرار اس سے خبردار کیا ہے۔ ہم صحبتِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشّرف اور قابلِ صد احترام ہستیوں کو حق اور ناحق کے پلڑوں میں رکھنے کی جرات نہیں کرسکتے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ میرے تمام صحابہ عادل ہیں۔ عدالتِ صحابہ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان سے بشری غلطیاں بالکل سرزد نہیں ہوئیں یا ان سے خطاؤں کا قطعاً وقوع نہیں ہوا، یہ خاصہ ومنصب تو انبیا علیہم السلام کا ہے، صحابہ کرام کا نہیں۔ بلکہ حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ ان سے بشری غلطیوں کا صدور ہوا ہے، مگر جب ان کومتنبہ کیا گیا تو فوراً وہ اس سے تائب ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی کی ضمانت لی ہے۔ جہاں تک اجتہادی خطاؤں کے صدور کا سوال ہے تو اس کے وقوع سے بھی کسی کو انکار نہیں۔ امام محی الدین ابو زکریا یحییٰ بن شرف النووی (المتوفی 676ھ) شرح صحیح مسلم میں رقم طراز ہیں : و مذهب أهل السنة و الحق إحسان الظن بهم و الإمساک عما شجر بينهم و تاويل قتالهم، و إنهم مجتهدون متأولون لم يقصد و امعصية ولا محض الدنيا، بل اعتقد و اکل فريق أنه المحق و مخلافه باغ فوجب قتاله لير جع الی أمر الله، وکان بعضهم مصيباً و بعضهم مخطئاً معذوراً في الخطأ لأنه بإجتهاد و لمجتهد إذاأ خطألا إثم عليه وکان علی رضی الله عنه هو المحق المصيب في ذلک الحروب هذا مذهب أهل السنة و کانت القضايا مشتبة حتی أن جماعة من الصحابة تحيرو ا فيها فاعتزلو االطائفتين ولم يقاتلو اولو تيقنو االصواب لم يتأ خرواعن مساعدته.
ترجمہ : اہلِ سنت اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے۔ ان کے آپس کے اختلافات میں خاموشی اور ان کی لڑائیوں کی تاویل کی جائے۔ وہ بلا شبہ سب مجتہد اور صاحب رائے تھے معصیت اور نافرمانی ان کا مقصد نہ تھا اور نہ ہی محض دنیا طلبی پیش نظر تھی، بلکہ ہر فریق یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ وہی حق پر ہے اور دوسرا باغی ہے اور باغی کے ساتھ لڑائی ضروری ہے تاکہ وہ امر الٰہی کی طرف لوٹ آئے، اس اجتہاد میں بعض راہ صواب پر تھے اور بعض خطا پر تھے، مگر خطا کے باوجود وہ معذور تھے کیونکہ اس کا سبب اجتہاد تھا اور مجتہد خطا پر بھی گنہگار نہیں ہوتا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان جنگوں میں حق پر تھے اہلِ سنت کا یہی موقف ہے، یہ معاملات بڑے مشتبہ تھے یہاں تک کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جامعت اس پر حیران و پریشان تھی جس کی بنا پر وہ فریقین سے علیحدہ رہی اور قتال میں انہوں نے حصہ نہیں لیا، اگر انہیں صحیح بات کا یقین ہو جاتا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی معاونت سے پیچھے نہ رہتے ۔ (نووی، شرح صحيح مسلم، 2: 390، کتاب الفتن،چشتی)
حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی فرماتے ہیں : اور ان لڑائی جھگڑوں کو جو ان کے درمیان واقع ہوئے ہیں، نیک محمل پر محمول کرنا چاہیے اور ہوا وتعصب سے دور سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ وہ مخالفتیں تاویل واجتہاد پر مبنی تھیں، نہ کہ ہوا و ہوس پر۔ یہی اہل سنت کا مذہب ہے ۔ (مکتوباتِ امام ربانی، مکتوب: 251، دفترِ اول)
مزید فرماتے ہیں : یہ اکابر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کی تاثیر سے ہوا و ہوس، کینہ و حرص سے پاک صاف ہوگئے تھے۔ ان حضرات کے اختلافات کو دوسروں کی مصالحت سے بہتر سمجھنا چاہیے ۔ (مکتوب: 67 دفتر دوم)
اس کے برخلاف بدگوئی وفضول گوئی پھوٹ پیدا کرتی ہے، جو شیطان کا کام ہے، وہ اس کے ذریعہ سے لوگوں میں غصہ، نفرت، عداوت، کینہ، حسد، نفاق کے بیج بوتا ہے ۔ واللہ و رسولہ اعلم بالصواب ۔ مفتی : محمد شبیر قادری (تاریخ اشاعت: 2016-03-30)۔(مفتی منہاج القرآن کا فتویٰ یہاں ختم ہوا)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے جنہوں نے مشاجرات ومنازعات کیئے ، ہم اہلسنت ان میں حق ، مولیٰ علی رضی اللہ عنہ کی جانب مانتے ہیں اور ان سب کو (موردِ لغزش) برغلط وخطا ۔ اور حضرت علی اسدُ اللہ رضی اللہ عنہ کو ان سب سے اکمل واعلیٰ جانتے ہیں ۔ چونکہ ان حضرات کے مناقب وفضائل میں احادیث مروی ہیں اس لیئے ان کے حق میں زبانِ طعن وتشنیع نہیں کھولتے ، اور انہیں ان کے مراتب پر رکھتے ہیں جو انکے لیئے شرع میں ثابت ہیں ۔ ان میں کسی کو کسی پر ہوائے نفس سے فضیلت نہیں دیتے اور ان کے مشاجرات میں دخل اندازی کو حرام جانتے ہیں اور ان کے اختلاف کو امام ابوحنیفہ وامام شافعی رضی اللہ عنہما جیسا اختلاف سمجھتے ہیں ۔ ہم اہلسنت کے نزدیک ان میں سے کسی صحابی پر بھی طعن جائز نہیں چہ جائیکہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بارگاہِ رفیع میں طعن کریں ۔ خدا کی قسم ! یہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی جناب میں گستاخی ہے ۔ (اعتقاد الاحباب:۶۳)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : اہلسنت وجماعت سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نیک ومتقی جانتے ہیں اور ان کے باہمی اختلافات کی تفاصیل پر نظر کرنا حرام سمجھتے ہیں کیونکہ اس طرح شیطان ان متقی بندوں کے متعلق بدگمان کر کے گمراہی کی طرف لے جاتا ہے ۔ چنانچہ آپ رقمطراز ہیں ،’’جو فعل کسی (صحابی) کا اگر ایسا منقول بھی ہوا جو نظرِ قاصر (ونگاہِ کوتاہ بیں) میں اُن کی شان سے قدرے گرا ہوا ٹھہرے (اور کسی کوتاہ نظر کو اس میں حرف زنی کی گنجائش ملے ، تواہلسنت) اسے محملِ حسن پر اتارتے ہیں (اور اسے ان کے خلوصِ قلب و حسنِ نیت پر محمول کرتے ہیں) اور اللہ کا سچا قول رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ سن کر آئینۂ دل میں زنگِ تفتیش کو جگہ نہیں دیتے (اور تحقیقِ احوال واقعی کے نام کا میل کچیل ، دل کے آبگینہ پر چڑھنے نہیں دیتے) ، رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حکم فرما چکے ، اِذَا ذُکِرَ اَصْحَابِیْ فَامْسِکُوْا۔ ’’جب میرے اصحاب کا ذکر آئے تو باز رہو‘‘ (سوئِ عقیدت اور بدگمانی کو قریب نہ پھٹکنے دو، تحقیقِ حال و تفتیشِ مآل میں نہ پڑو) ۔
اپنے آقا اکا فرمانِ عالی شان اور یہ سخت وعیدیں، ہولناک تہدیدیں (ڈراوے اور دھمکیاں) سن کر زبان بند کر لی اور دل کو سب کی طرف سے صاف کر لیا۔ اور جان لیا کہ ان کے رُتبے ہماری عقل سے وراء ہیں پھر ہم ان کے معاملات میں کیا دخل دیں۔
ان میں جو مشاجرات (صورۃًنزاعات و اختلافات) واقع ہوئے ، ہم ان کا فیصلہ کرنے والے کون ؟ کہ ایک کی طرف داری میں دوسرے کو برا کہنے لگیں ، یا ان نزاعوں میں ایک فریق کو دنیا طلب ٹھہرائیں بلکہ بالیقیں جانتے ہیں کہ وہ سب مصالح دین کے خواستگار تھے ۔
(اسلام ومسلمین کی سربلندی ان کا نصب العین تھی پھر وہ مجتہد بھی تھے تو) جس کے اجتہاد میں جو بات دینِ الہٰی و شرع رسالت پناہی جل جلالہٗ و ا کے لیے اصلح وانسب (زیادہ مصلحت آمیز اور احوال مسلمین سے مناسب تر) معلوم ہوئی ، اختیار کی۔ گو اجتہاد میں خطا ہوئی اور ٹھیک بات ذہن میں نہ آئی لیکن وہ سب حق پر ہیں (اور سب واجب الاحترام) ۔ ان کا حال بعینہٖ ایسا ہے جیسا فروعِ مذہب میں (خود علمائے اہلسنت بلکہ ان کے مجتہدین مثلاً امام اعظم ) ابوحنیفہ و (امام)شافعی (علیہم الرّحمہ) کے اختلافات ، نہ ہرگز ان منازعات کے سبب ایک دوسرے کو گمراہ فاسق جاننا نہ ان کا دشمن ہو جانا ۔
(جس کی تائید حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کے اس قول سے ہوتی ہے کہ اخواننا بغوا علینا۔یہ سب ہمارے مسلمان بھائی ہیں جو ہمارے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ مسلمانوں کو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ سب حضرات آقائے دوعالم ا کے جاں نثار اور سچے غلام ہیں۔ خدا ورسول ا کی بارگاہ میں معظم ومعزز اور آسمانِ ہدایت کے روشن ستارے ہیں، اصحابی کالنجوم) ، اللہ عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ارشادات سے (اہلسنت وجماعت نے اپنا عقیدہ اور) اتنا یقین کر لیا کہ سب (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) اچھے اور عادل وثقہ، تقی ، نقی ابرار (خاصانِ پروردگار) ہیں ، اور ان (مشاجرات ونزاعات کی) تفاصیل پر نظر ، گمراہ کرنے والی ہے ۔ (اعتقادُ الاحباب:۳۸ـ-۴۰،چشتی)
رب تعالیٰ نے فرمایا، وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی۔’’ ان سب (صحابہ رضی اللہ عنہم) سے اللہ تعالیٰ نے بھلائی کا وعدہ فرمایا‘‘۔کہ اپنے اپنے مرتبے کے لحاظ سے اجر ملے گا سب ہی کو ، محروم کوئی نہ رہے گا۔اور جن سے بھلائی کا وعدہ کیا، ان کے حق میں فرماتا ہے،
اُولٰئِکَ عَنْہَا مُبْعَدُوْن ’’وہ جہنم سے دور رکھے گئے ہیں‘‘۔
لاَ یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَہَا’’وہ جہنم کی بھنک تک نہ سنیں گے‘‘۔
وَہُمْ فِیْ مَااشْتَہَتْ اَنْفُسُہُمْ خٰلِدُوْنَ ۔’’وہ ہمیشہ اپنی من مانتی جی بھاتی مرادوں میں رہیں گے‘‘۔
لاَ یَحْزُنُہُمُ الْفَزَعُ الْاَکْبَرُ ۔’’قیامت کی سب سے بڑی گھبراہٹ انہیں غمگین نہ کرے گی‘‘۔ تَتَلَقّٰہُمُ الْمَلٰئِکَۃُ ۔’’فرشتے ان کا ستقبال کریں گے‘‘۔
ھٰذَا یَوْمُکُمُ الَّذِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ۔ یہ کہتے ہوئے کہ’’ یہ ہے تمہارا وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا‘‘۔(سورۃ الانبیائ)
رسول ُ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ہر صحابی رضی اللہ عنہ کی یہ شان اللہ عزوجل بتاتا ہے تو جو کسی صحابی پر طعن کرے وہ اللہ واحد قہار کو جھٹلاتا ہے ۔ اور ان کے بعض معاملات جن میں اکثر حکایاتِ کاذبہ ہیں، ارشادِ الہٰی کے مقابل پیش کرنا اہلِ اسلام کا کام نہیں ۔ (اعتقاد الاحباب:۴۳)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انبیاء علیہم السّلام نہ تھے ، فرشتے نہ تھے کہ معصوم ہوں ، ان میں بعض کے لیئے لغزشیں ہوئیں مگر ان کی کسی بات پر گرفت اللہ عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خلاف ہے ۔ اللہ عزوجل نے سورۃ الحدید میں جہاں صحابہ کی دو قسمیں فرمائیں، مومنین قبل فتحِ مکہ اور بعد فتحِ مکہ۔ اور اِن کو اُن پر فضیلت دی اور فرما دیا، وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی ’’سب سے اللہ نے بھلائی کا وعدہ فرما لیا‘‘ ساتھ ہی ارشاد فرمادیا، وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْر’‘ ’’اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرو گے‘‘۔ (الحدید:۱۰)
تو جب اس نے اُن کے تمام اعمال جان کر حکم فرما دیا کہ ان سب سے ہم جنت بے عذاب و کرامت وثواب کا وعدہ فرما چکے توکسی دوسرے کو کیا حق رہا کہ وہ ان کی کسی بات پر طعن کرے ۔ کیا طعن کرنے والا اللہ تعالیٰ سے جدا اپنی مستقل حکومت قائم کرنا چاہتا ہے ؟ (بہارشریعت حصہ۱:۷۷)
حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کے باہمی قتال پر جو دکھ اور صدمہ ہوا ، اس کا اندازہ اس روایت سے کیجیے : حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگِ جمل کے دن حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، کاش میں اس واقعہ سے بیس سال پہلے مر جاتا ۔ (ازالۃ الخفاء ج ۴:۵۳۶،حاکم)
باوجود اختلاف ونزاع کے باہم محبت کا یہ حال تھا کہ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ سے اہلِ جَمَل کے متعلق پوچھا گیا ، کیا یہ لوگ مشرک ہیں ؟ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، نہیں ! یہ لوگ شرک سے دور بھاگتے ہیں ۔ پھر پوچھا گیا ، کیا یہ منافقین ہیں ؟ فرمایا ، نہیں ! منافقین تو اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت قلیل کرتے ہیں ۔ پوچھا گیا ، پھر یہ لوگ کون ہیں ؟ فرمایا ، یہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں ، جو ہمارے خلاف کھڑے ہوئے ۔ مگر مجھے امید ہے کہ ہم اُن لوگوں کی مثل ہو جائیں گے جن کے متعلق رب تعالیٰ کا ارشاد ہے، وَ نَزَ عْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِ ھِمْ مِنْ غِلٍّ ۔ (الاعراف ۴۳)’’اور ہم نے ان کے سینوں میں سے کینے کھینچ لیئے ، (جنت میں) اُن کے نیچے نہریں بہیں گی۔ اور کہیں گے ،سب خوبیا ںاللہ کو جس نے ہمیں اس کی راہ دکھائی ‘‘۔ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، مجھے امید ہے کہ میں ، عثمان ، طلحہ اور زبیر اُن میں سے ہیں جن کے حق میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ (تفسیر خازن ، تفسیرمظہری ،ازالۃ الخفاء ج ۴:۵۲۲،چشتی)
اعلیٰ حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ یہی روایت نقل کر کے فرماتے ہیں ، ضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد کے بعد بھی ، ان (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) پر الزام دینا عقل وخرد سے جنگ ہے ، حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ سے جنگ ہے اور خدا و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے جنگ ہے ۔ العیاذ باللہ ۔ جب کہ تاریخ کے اوراق شاہدِعادل ہیں کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو جونہی اپنی غلطی کا احساس ہوا ، انہوں نے فوراً جنگ سے کنارہ کشی کر لی ۔ اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی روایات میں آتا ہے کہ انہوں نے اپنے ایک مددگار کے ذریعے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے بیعت کرلی تھی ۔ اور تاریخ سے ان واقعات کو کون چھیل سکتا ہے کہ جنگِ جمل ختم ہونے کے بعد مولا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے برادرِ معظم محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ وہ جائیں اور دیکھیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو خدانخواستہ کوئی زخم وغیرہ تو نہیں پہنچا ۔ بلکہ بعجلت تمام خود بھی تشریف لے گئے اور پوچھا ، آپ کا مزاج کیسا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا ، الحمدللہ! اچھی ہوں ۔ مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ آپ کی بخشش فرمائے ۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا ، اور تمہاری بھی ۔ پھر مقتولین کی تجہیز وتکفین سے فارغ ہو کر ، حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کی واپسی کا انتظام کیا اور پورے اعزاز و اکرام کے ساتھ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی نگرانی میں چالیس معزز عورتوں کے جھرمٹ میں ان کو حجاز کی جانب رخصت کیا ، خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دور تک مشایعت کی ، ہمراہ رہے ۔ امام حسن رضی اللہ عنہ میلوں تک ساتھ گئے ۔ چلتے وقت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے مجمع میں اقرار فرمایاکہ ، ’’مجھ کو علی رضی اللہ عنہ سے نہ کسی قسم کی کدورت پہلے تھی اور نہ اب ہے ۔ ہاں ساس داماد میں کبھی کبھی جو بات ہو جایا کرتی ہے اس سے مجھے انکار نہیں‘‘۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا ، ’’لوگو! عائشہ رضی اللہ عنہا سچ کہہ رہی ہیں ۔ خدا کی قسم ! مجھ میں اور ان میں ، اس سے زیادہ اختلاف نہیں ہے ۔ بہرحال خواہ کچھ ہو ، یہ دنیا و آخرت میں تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجہ مطہرہ ہیں‘‘۔ اللہ اللہ ! ان یارانِ پیکرِ صدق وصفا میں باہمی یہ رِفق ومؤدت اور عزت واکرام ، اور ایک دوسرے کے ساتھ تعظیم واحترام کا یہ معاملہ ۔ اوران عقل سے بیگانوں اور نادان دوستوں کی حمایتِ علی رضی اللہ عنہ کا یہ عالم کہ اُن پر لعن طعن کو اپنا مذہب اور شعار بنائیں اور اُن سے کدورت ودشمنی کو مولیٰ علی رضی اللہ عنہ سے محبت وعقیدت ٹھہرائیں ! ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ۔ (اعتقاد الاحباب:۷۰)
مشاجراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے متعلق فقیر تفصیل سے لکھ چکا ہے چاروں مضامین ان لنکس میں پڑھیں :
مشاجرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اہلسنت و جماعت کا مؤقف حصّہ اوّل
https://www.facebook.com/DrFaizChishti/posts/1724774120946672
مشاجرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اہلسنت و جماعت کا مؤقف حصّہ دوم
https://www.facebook.com/DrFaizChishti/posts/1724876730936411
مشاجرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اہلسنت و جماعت کا مؤقف حصّہ سوم
https://www.facebook.com/DrFaizChishti/posts/1724897820934302
مشاجرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اہلسنت و جماعت کا مؤقف حصّہ چہارم
https://www.facebook.com/DrFaizChishti/posts/1724963137594437
(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment