Tuesday 15 October 2019

ولایت حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ

0 comments
ولایت حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ

ولایت حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں

محترم قارئینِ کرام : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی وہ ذات گرامی ہیں جو بہت سے کمال وخوبیوں کے جامع ہے ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ شیر خدا ہیں ، داماد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں ، صاحب ذوالفقار ہیں ، حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ میں سخاوت ، شجاعت ، عبادت ، ریاضت ، فصاحت ، بلاغت ، اور میدان خطابت کے شہسوار ہیں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ میں جہاں یہ تمام خوبیاں ہیں وہیں آپ ہر ایک میں ممتاز ویگانۂ روزگا ہیں شیر خدا مشکل رضی اللہ تعالی عنہ ۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان خان قادری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : مقال (۳۸ تا ۴۵) : یہی قاضی صاحب سیف المسلول میں مرتبہ قطبیت ارشاد کو یوں بیان کرکے کہ : فیوض وبرکات کا رخانہ ولایت کہ از جناب الٰہی براولیاء اللہ نازل مے شود اول بریک شخص نازل مے شود وازاں شخص قسمت شہد بہریک ازاوالیائے عصر موافق مرتبہ وبحسب استعداد می رسد وبہ ہیچ کس از اولیاء اللہ بے توسط اوفیضی نمی رسد وکسے از مردانِ خدا بے وسیلہ اور درجہ ولایت نمی یابد اقطاب جزئی و اوتاد وابدال و نجیاء ونقباء وجمیع اقسام ازاولیائے خدا بوے محتاج می باشند صاحب این منصب عالی راامام و قطب الارشاد بالاصالۃ نیز خوانند وایں منصب عالی از وقت ظہور آدم علیہ السلام بروحِ پاک علی مرتضٰی کرم اللہ وجہہ مقرر بود ۔ (سیف المسلول مترجم اردو خاتمہ کتاب فاروقی کتب خانہ ملتان ص۵۲۷ تا ۵۲۹) ۔ کارخانہ ولایت کے فیوض وبرکات جو خدا کی بارگاہ سے اولیاء اللہ پر نازل ہوتے ہیں پہلے ایک شخص پر اترتے ہیں اور اس شخص سے تقسیم ہو کر اولیائے وقت میں سے ہر ایک کو اس کے مرتبہ واستعداد کے مطابق پہنچتے ہیں اور کسی ولی کو بھی اس کی وساطت کے بغیر کوئی فیض نہیں پہنچتا۔ْ اور اہل اللہ میں سے کوئی بھی اس کے وسیلہ کے بغیر درجہ ولایت نہیں پاتا ۔ جزئی اقطاب اوتادہ ابدال، نجبا، نقباا ور تمام اقسام کے اولیاء اللہ اس کے محتاج ہوتے ہیں، اس منصب بلند والے کو امام اور قطب الارشاد بالاصالۃ بھی کہتے ہیں __ اور یہ منصب عالی ظہور آدم علیہ السلام کے زمانے سے حضرت علی مرتضٰی کرم اللہ وجہہ کی روح پاک کے لیے مقرر تھا ۔ (ت)

پھر ائمہ اطہار رضوان اللہ تعالٰی علیہم کو بترتیب اس منصب عظیم کا عطا ہونا لکھ کر کہتے ہیں: بعد وفات عسکری علیہ السلام تاوقت ظہور سید الشرفا غوث الثقلین محی الدین عبدالقادرالجیلی ایں منصب بروح حسن عسکری علیہ السلام متعلق بود ۔ (سیف المسلول مترجم اردو خاتمہ کتاب فاروقی کتب خانہ ملتان ص۵۲۷ تا ۵۲۹) ۔ حضرت عسکری کی وفات کے بعد سید الشرفا غوث الثقلین محی الدین عبدالقادر جیلانی کے زمانہ ظہور تک یہ منصب حضرت حسن عسکری کی روح سے متعلق رہے گا ۔ (ت)

پھر کہا : چوں حضرت غوث الثقلین پیدا شد ایں منصب مبارک بوے متعلق شدوتا ظہور محمد مہدی این منصب بروح مبارک غوث الثقلین متعلق باشد ۔ (سیف المسلول مترجم اردو خاتمہ کتاب فاروقی کتب خانہ ملتان ص ۵۲۷ تا ۵۲۹،چشتی) ۔ جب حضرت غوث الثقلین پیدا ہوئے یہ منصب مبارک ان سے متعلق ہوا اور امام محمد مہدی کے ظہو رتک یہ منصب حضرت غوث الثقلین کی روح سے متعلق رہے گا ۔ (ت)

اصل ان سب اقوال ثلٰثہ کی جناب شیخ مجد الف ثانی سے ہے ، جیسا کہ جلد سوم مکتوب نمبر ۴۳ صفحہ۱۲۳ میں مفصلاً مذکور، ان کے کلام میں اس قدر امرا اور زائد ہے کہ: بعدا ز ایشان (یعنی حضرت مرتضٰی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الاسنی) بہریکے از ائمہ اثنا عشر علے الترتیب والتفصیل قرار گوفت ودراعصا رایں بزرگواران و ہمچنیں بعداز ارتحال ایشاں ہر کس را فیض وہدایت می رسد بتوسط این بزرگوار ان بودہ ملاذ ملجائے ہمہ ایشاں بودہی اند تا آنکہ نوبت بحضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رسید قدس سرہ ، ط الخ اھ ملخصاً ۔ (سیف المسلول مترجم اردو فاروقی کتب خانہ ملتان ص۵۶۹) ۔حضرت مرتضٰی کرم اللہ تعالٰی وجہہ کے بعد بارہ اماموں میں سے ہر ایک کے لیے ترتیب وتفصیل کے ساتھ قرارپذیر ہوا ۔ ان بزگوں کے زمانے میں اسی طرح ان کی رحلت کے بعد جسے بھی فیض وہدایت پہنچتی انہی بزرگوں کے توسط سے تھی اور سب کا ملجا یہی حضرات تھے یہاں تک کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ ، تک نوبت پہنچی الخ (ت) ۔ (فتاوی رضویہ جلد 9 صفحہ نمبر 810 تا 812،چشتی)

مرتضٰی شیرِ حق اشجع الاشجعین
بابِ فضل و ولایت پہ لاکھوں سلام

شیرِ شمشیر زن شاہِ خیبر شکن
پَر توِ دستِ قدرت پہ لاکھوں سلام

حضرت امامِ ربّانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ مکتوبات شریف فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والے راستوں میں سے ایک راستہ قربِ ولایت سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس کے پیشوا سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی جسمانی پیدائش سے پہلے اس مقام کے ملجاء و ماویٰ تھے ۔ جیسا کہ آپ جسمانی پیدائش کے بعد ہیں ۔ ۔ ۔ اور جس کو بھی فیض و ہدایت پہنچی اس راہ سے پہنچی اور ان ہی کے ذریعے سے پہنچی کیونکہ وہ اس راہ کے آخری نکتہ کے قریب ہیں ۔ (مکتوب 123، دفتر سوم ، حصہ دوم صفحہ 1425،چشتی)

ہو چشتی قادری یا نقشبندی سہروردی ہو
ملا سب کو ولایت کا انہی کے ہاتھ سے ٹکڑا

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ مکتوب دفتر اول میں فرماتے ہیں : حضرت امیر (سیدنا علی رضی اللہ عنہ ) فرماتے ہیں کہ ’’میں اس لئے آیا ہوں کہ تمہیں آسمانوں کا علم سکھاؤں‘‘۔ جب میں اچھی طرح متوجہ ہوا تو تمام خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان اس مقام کو حضرت امیر (سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ مخصوص پایا ۔

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ مکتوب 251 دفتر اول میں فرماتے ہیں : چونکہ امیر (سیدنا علی رضی اللہ عنہ ) ولایت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بوجھ اٹھانے والے ہیں اس لئے اقطاب ، ابدال، اوتاد جو اولیائے عزلت میں سے ہیں ۔ قطب مدار کا سر حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے قدم کے نیچے ہے ۔ قطب مدار ان ہی کی حمایت و رعایت (نگرانی) سے اپنے ضروری امور کو سرانجام دیتا ہے اور مداریت سے عہدہ برآ ہوتا ہے ۔ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہ اور امامین بھی اس مقام میں حضرت امیر (سیدنا علی رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ شریک ہیں ۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ برصغیر کے ان اکابر جید علماء ربانیین اور صاحب کمال ہستیوں میں سے ہیں جن کی تمام مسالک (اہل سنت ، اہل حدیث اور دیوبندی) عزت و تکریم کرتے ہیں اور ان کے علم و فضل کے معترف ہیں ۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ایک روز مقام قرب میں غور کی نگاہ کی گئی تو ہر چند نظر دور دور تک گئی لیکن جہت خاص جو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ میں تھی اس سے زائد کسی میں نہ دیکھی گئی اور اس جہت میں کسی دوسرے کی ان پر فضیلت نہیں دکھائی دی۔ آپ اس جہت یعنی مقام قرب کے اعلیٰ مرکز کے اوپر ہیں اور اسی لئے آپ ہی مبداء عرفان ہوئے ہیں ۔ (القول الجلی فی ذکر آثار ولی صفحہ نمبر 522،چشتی)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب الفاس العارفین میں اپنے چچا حضرت ابو الرضا محمد کی روایت درج کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری بار بچشم حقیقت زیارت ہوئی، میں نے عرض کی : یاسیدی میری خواہش ہے کہ آپ کے طریقہ عالیہ کے فیض یافتہ کسی مردِ حق سے بیعت کروں تاکہ ان سے حقائق کی تفصیل پوچھ سکوں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل ہوئے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تیری بیعت امیرالمومنین علی کرم اللہ وجہہ سے ہوگی ۔ کچھ دنوں بعد دیکھا کہ گویا کسی راستے پر جارہا ہوں ۔ آس پاس کوئی شخص نظر نہیں آرہا۔ لیکن راستے پر گذرنے والوں کے نقوش موجود ہیں۔ تھوڑی دور راستے کے درمیان ایک شخص کو بیٹھا ہوا دیکھا۔ میں نے اس سے راستہ پوچھا، اس نے ہاتھ کے اشارہ سے کہا ادھر آؤ۔ اس سے مجھے انشراحِ قلب حاصل ہوا ۔
انہوں نے فرمایا : اے سست رفتار، میں علی ہوں اور مجھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں ان کی بارگاہ میں لے چلوں۔ میں ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا یہاں تک کہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں دے کر کہا : يا رسول الله هذا يدی الرضا محمد یہ سن کر حضور نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیعت لی ۔ اس موقع پر میرے دل میں ایک بات کھٹکی ، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس پر مطلع ہو کر فرمایا کہ میں اسی طرح اولیاء اللہ کے حق میں وسیلہ بیعت رہتا ہوں ورنہ اصل میں تمام سلاسل کی بیعتوں کا مرکز اور مرجع حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دست مبارک ہوتا ہے۔ اس کے بعد آپ نے مجھے اشغال اور اذکار کی تلقین فرمائی اور علوم و اسرار سے نوازا ۔ حقیقت یہ ہے کہ سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی ذات اقدس تمام علوم ظاہری و باطنی کا محزن ہے۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ آپ کی اس شان سے آگاہ اور معترف تھے اور شیخین کریمین مختلف مواقع پر سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے تبحر علمی اور اصابت رائے سے استفادہ بھی کرتے رہتے تھے۔ اس سلسلے میں کتب مناقب میں بڑے دلچسپ اور ایمان افروز واقعات منقول ہیں ۔ (طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔