حضراتِ امام حسن و حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کی صلح و شرائط صلح
محترم قارئین : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صحبت بابرکت نصیب ہوئی ہے اور آپ کی فضیلت وشرافت احادیث شریفہ میں مذکور ہے ، زبان رسالت سے آپ رضی اللہ عنہ کےلئے ھادی ومھدی ہونے کی دعاء جاری ہوئی چنانچہ جامع ترمذی شریف میں ہے ؛ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال لمعاویة اللہم اجعلہ ھادیا مھدیا واھدبہ ۔
ترجمہ : اے اللہ معاویہ کو ہدایت دینے والا ، ہدایت یافتہ بنا اور آپ سے لوگوں کو ہدایت عطا فرما۔ ﴿جامع ترمذی شریف ، باب مناقب معاویة رضی اللہ عنہ ، حدیث نمبر؛ 4213﴾
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان الفت ومحبت بڑی گہری تھی ، فرمان نبوی کے مطابق خلافتِ نبوت کے 30 سال حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی چھ ماہی خلافت پر تکمیل کو پہنچے ، مسلمانوں کی خون خرابے سے بچانے کیلئے آپ نے دستبرداری حاصل کی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرلی جس کے نتیجہ میں بہت بڑی جنگ ٹل گئی ، جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں حدیث پاک ہے :
عن الحسن سمع أبا بكرة : سمعت النبي صلى الله عليه و سلم على المنبر والحسن إلى جنبه ينظر إلى الناس مرة وإليه مرة ويقول " ابني هذا سيد ولعل الله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين ۔
ترجمہ : حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکرة رضی اللہ عنہ سے سنا ، وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منبر شریف پر جلوہ افروز تھے اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ آپ کے پہلو میں تھے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کبھی آپ کی طرف دیکھتے اور کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے کہ میرا یہ بچہ سردار ہے اور اللہ تعالی ان کے ذریعہ مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا ۔ (صحیح بخاری شریف ،کتاب فضائل الصحابة ، باب مناقب الحسن والحسين رضي الله عنهما، حدیث نمبر؛ 3536،چشتی)
تاجِ صحابیت نے بڑھائی ہے اُن کی شان
سونپی حَسَن نے اُن کو خلافت کی آن بان
ہوگا نہ کم کسی سے وقارِ معاویہ (رضی اللہ عنہما)
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو اہل مدینہ نے خلیفہ بنایا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے سبائیوں اور فسادیوں کے دباؤ کے باوجود جنگ و جدل سے گریز کیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے 6 ماہ بعد آپ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبرداری کا اعلان کر دیا ۔ اللہ کے فضل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ سچ ثابت ھو گئے ،، ابني هذا سيد ولعل الله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين ۔
اس طرح حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ملت اسلامیہ کے متفقہ خلیفہ بن گئے ۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ کی ایک حدیث ہے : عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم انہ قال لمعاویة اللہم اجعلہ ھادیا مھدیا واھدبہ ۔ ترجمہ : اے اللہ معاویہ (رضی اللہ عنہ) کو ہدایت دینے والا ، ہدایت یافتہ بنا اور آپ سے لوگوں کو ہدایت عطا فرما ۔ ﴿جامع ترمذی شریف ، باب مناقب معاویة رضی اللہ عنہ ، حدیث نمبر؛ 4213،چشتی﴾
اس صلح کی برکت سے مسلم امہ میں خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا اور جہاد اور فتوحات کا جو سفررک گیا تھا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسے دوبارہ سے شروع کیا ۔ اور برق رفتاری سے جاری رکھا ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دو رخلافت میں قلات ، قندھار ، قیقان ، مکران ، سیسان ، سمر قند ، ترمذ ، شمالی افریقہ ، جزیرہ روڈس ، جزیرہ اروڈ ، کابل ، صقلیہ (سسلی) سمیت 22 لاکھ مربع میل سے زائد علاقہ اسلام کے زیر نگیں آگیا ۔
اس صلح میں کئی معاہدے طئے کئے گئے ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد خلافت امام حسن رضی اللہ عنہ کی طرف لوٹے گی ۔ لیکن آپ کا وصال حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے پہلے ہوگیا ۔ جیسا کہ ابو الحسن علی بن اثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : فارسل الی معاویة یبذل لی تسلیم الامر الیہ علی ان تکون لہ الخلافة بعدہ وعلی ان لایطلب احدا من اہل المدینة والحجاز والعراق بشیٴ مما کان ایام ابیہ وغیرذلک من القواعد فاجابہ معاویة الی ما طلب ۔ ﴿اسد الغابہ، الحسن بن علی﴾
امام حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت اور اس سے دست برداری
حضرت علی کرم ﷲ وجہہ الکریم کی شہادت کے بعد حضرت امام حسن رضی ﷲ عنہ مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوئے ۔ چالیس ہزار اہالیان کوفہ نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی ۔ آپ چھ ماہ تک منصب خلافت پر فائز رہے اس کے بعد جب حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ آپ کے پاس کوفہ آئے تو مندرجہ ذیل تین شرطوں کے ساتھ آپ نے خلافت ان کے سپرد کرنا منظور فرمایا ۔
(1) بر وقت امیر معاویہ خلیفہ بنائے جاتے ہیں لیکن ان کے انتقال کے بعد امام حسن رضی اللہ عنہ خلیفۃ المسلمین ہوں گے ۔
(2) مدینہ شریف اور حجاز و عراق وغیرہ کے لوگوں سے حضرت علی کرم ﷲ وجہہ الکریم کے زمانہ کے متعلق کوئی مواخذہ اور مطالبہ نہیں کیا جائے گا ۔
(3) حضرت امام حسن رضی ﷲ عنہ کے ذمہ جو ہے ان سب کی ادائیگی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کریں گے ۔
ان تمام شرطوں کو حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے قبول کیا تو آپ میں صلح ہو گئی اور ﷲ کے محبوب دانائے خفایا و غیوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا وہ معجزہ ظاہر ہوا جو آپ نے فرمایا تھا کہ میر ایہ فرزند ارجمند مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرائے گا ۔
حضرت امام حسن رضی ﷲ عنہ نے اس صلح کے بعد تخت خلافت حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کے لئے خالی کر دیا ۔ دستبرداری کا یہ واقعہ ربیع الاول ۔ 41ھ میں ہوا ۔ (تاریخ الخلفاء)
خلافت سے دستبردار ہونا آپ کے بہت سے ہم نواؤں کو ناگوار ہوا انہوں نے طر ح طرح سے آپ پر ناراضگی کا اظہار کیا یہانتک کہ بعض لوگ آپ کو ’’عار المسلمین ‘‘ کہہ کر پکارتے تو آپ ان سے فرماتے ۔ العار خیر من النار ۔ عارنا ر سے بہتر ہے ۔
امر خلافت حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو سپرد کرنے کے بعد آپ کوفہ سے مدینہ طیبہ چلے گئے اور وہیں قیام پذیر رہے ۔ جبیر بن نفیر کہتے ہیں کہ ایک روز میں نے حضرت امام حسن رضی ﷲ عنہ سے عرض کیا کہ لوگ کہتے ہیں آپ پھر خلافت کے خواستگار ہیں آپ نے ارشاد فرمایا کہ جس وقت عربوں کے سر میرے ہاتھوں میں تھے یعنی اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے وہ مجھ سے بیعت کر چکے تھے اس زمانہ میں ہم جس سے چاہتے ان کو لڑا دیتے لیکن میں اس وقت محض ﷲ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے خلافت سے دستبردار ہو گیا اور امت محمدیہ کا خون نہیں بہنے دیا ۔ تو جس خلافت سے میں صرف ﷲ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے دست بردار ہو گیا ہوں اب لوگوں کی خوشی کے لئے میں اسے دوبارہ نہیں حاصل کرسکتا ۔ (تاریخ الخلفاء،چشتی)
کیا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے شرائطِ صلح سے انحراف کیا تھا ؟
محترم قارئینِ کرام : شیعہ رافضی اور سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضی اکثر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو ولی عہد بنا کر اس معاہدے کی مخالفت کی جوان کے اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے درمیان ہوا تھا ، جس کی ایک شق یہ تھی کہ : حضرت امیرمعاویہ اپنے بعد کسی کو خلافت نہیں سونپیں گے ، بلکہ امت مسلمہ کی طرف یہ معاملہ پھیریں گے ۔
اس بات سے قطع نظر کہ کیا حضرت امیر معاویہ حضرت حسن رضی اللہ عنہما جیسی شخصیت کے ساتھ سر عام ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں ، جنہوں نے رومیوں کے ساتھ عین جہاد کے موقع پر حضرت عمرو بن عبسہ کی زبانی ایک معاہدے کی یاد دہانی پر نہ صرف جنگ روک دی بلکہ مفتوحہ علاقہ بھی دشمن کے حوالے کیا ،نیز اس با ت سے بھی قطع نظر کہ اس وقت کی غالب اکثریت جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے سے متفق ہوگئی ، تو امت کی اکثریت کا اس رائے میں شامل ہونا خلافت کے معاملے کو امت کی طرف پھیرنا نہیں کہلائے گا ، نیز اس بات سے بھی قطع نظر کہ جن چار بنیادی صحابہ نے اس فیصلے پر اپنی اختلافی رائے دی ، انہوں نے کسی بھی موقع پر حتی کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے بھی یہ اعتراض نہیں اٹھایا کہ یزید کو ولی عہد بنانا اس معاہدے کی خلاف ورزی ہے ۔
ان سب باتوں سے قطع نظر معاہدے کی جس شق کو معترض اعتراض کی بنیاد بنا رہے ہیں ، یہ شق تاریخ کی بنیادی مصادر تاریخ میں ہی نہیں ہے ، حالانکہ اس میں معاہدے کی دیگر شقوں کا تذکرہ ہے ، خواہ مسعودی کی مروج الذہب ہو ، امام طبری کی تاریخ طبری ، ابن کثیر کی البدایہ ہو یا ابن اثیر کی الکامل ، ابن خلدون کی تاریخ ابن خلدون ہو یا ابن جوزی کی المنتظم ، ان میں سے کسی میں بھی یہ شق نہیں ہے ۔
یہ شق بلاذری کی انساب الاشراف میں بلا سند ذکر ہے ، اور وہاں سے مصنف الصواعق نے لیا ہے ۔
طرفہ تماشا یہ کہ اس شق کو کچھ معترضین نے متواتر کہا ، جبکہ اس کی ایک بھی صحیح سند نہیں ہے ، بلکہ اساسی مصادر میں سے ایک دو کتب میں نقل ہوئی ہے ۔ یا للعجب ۔
اس پر مستزاد یہ کہ شیعہ مصادر اور ابن عبد البر کی استیعاب نے ایک اور شق کا ذکر کیا ہے جو معترضین کی ذکر کردہ شق سے صراحتا معارض ہے ، جس میں یہ ذکر ہے کہ اگر جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو خلافت حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے پاس لوٹ آئے گی ۔
طرفہ تماشا یہ کہ یہ شق بھی اسی شق کی طرح اوپر ذکر کردہ کسی اساسی مصدر میں شروط صلح کے ضمن میں مذکور نہیں ہے ۔ جس کا ذکر اور مختصر جواب ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں ۔
تحقیقی بات یہ ہے کہ یہ دونوں متعارض شقیں سنی و شیعہ غالین کی وضع کردہ ہیں ۔ پہلی شق سے اہلسنت مناظرین اہل تشیع کو الزام دیتے ہیں کہ اگر امامت منصوص ہے تو حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد خلافت میں شوری کی شرط کیوں لگائی ؟
اگر امامت اہل بیت رضی اللہ عنہم کا حق نہیں ہے اور شوری پر مبنی ہے تو حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے جناب امیر رضی اللہ عنہ کے بعد اپنے لئے خلافت کو مختص کیوں کیا ؟
اس لئے غالین کی وضع کردہ بلا سند شروط سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاک دامن کو داغدار نہ کیا جائے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قدیم شیعی مورخ ابوحنیفہ الدینوری کی کتاب ” الاخبار الطوال” میں بھی مذکورہ شرائط ندارد ۔
بلکہ انہیں کے بقول سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے ساتھ جو شرائط طے کی تھیں ان میں کوئی کمی نہ کی ۔
کیا معاویہ رضی اللہ عنہ موروثی نظام حکومت کے بانی تھے اور کیا یزید کا استخلاف غیر شورائی تھا ؟
ڈاکٹر حامد محمد الخلیفہ اس ضمن میں لکھتے ہیں : رہے وہ نام نہاد اہل سنت جو اس بات کا پروپیگنڈا کرتے نہیں تھکتے کہ اسلام میں ’’موروثی نظام حکومت‘‘ کے موسئسِ اول سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنھما تھے تو دراصل ان لوگوں نے حالات و واقعات کا صرف ایک زاویہ نگاہ سے جائزہ لیا ہے ، اسی یک طرفہ جائزے نے انہیں ایک ایسے صحابی رسول پر یہ تہمت لگانے پر ابھارا جن کی سیاست نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ روئے زمین کے سب سے ذہین ترین آدمی تھے اور حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم کے بعد سیاسی تدبر وشعور میں سب سے زیادہ قوت ومہارت اور دسترس رکھتے تھے ۔ اگر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت کو امر وراثت گمان کیا ہوتا تو انہیں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ ، سیدنا عبد اللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما اور دوسرے لوگوں کو اپنی رائے میں شریک کرنے کی کیا ضرورت تھی اور انہوں نے ان اکابر کے غصہ اور سختی کو کیوں برداشت کیا اور آخر یہ سب سہنے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟
پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اکیلے ہی یزید کی نامزدگی کو کیوں کافی نہ سمجھا ؟ اور کیا یہی نظامِ وراثت نہیں ہوتا ؟ کہ والی کسی سے مشورہ یا رائے لیے بغیر اکیلے ہی اپنے ورثاء میں سے کسی کو اپنے بعد کے امر کا وارث قرار دے دیتا ہے ۔
پھر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اس بات کے شدید متمنی کیوں تھے کہ عام قبائل عرب اور امت کے اکابر کو بھی یزید کی بیعت میں شریک کریں ؟
اور انہوں نے ہر خاص وعام ، قریب اور دُور کے آدمی سے اس بارے میں مشاورت کیوں کی ؟
کیا اس بات کو ہوا دیکر دراصل امت مسلمہ کے اکابر کی بابت بدگمانی کے زہر کو عام کرکے اعدائے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہاتھوں کومضبوط کرنا مقصود ہے ؟
یوں اس شوروغوغا کا بدترین نتیجہ یہ نکلا کہ ہر بے اوقات ، جاہل ، عقل سے عاری اٹھ کر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف محاکمہ کرنے اور ان کے خلاف عدالت قائم کرنے بیٹھ گیا اور اس کی جرأت بیجا اس حد تک جا پہنچی کہ وہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنے تئیں صحیح بات کی فہمائش کرنے لگا ، حالانکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ تو ان عظیم ترین ہستیوں میں سے ہیں جن کے اقوال وافعال کو آج تک مشعل راہ بنایا جاتا ہے اور تاقیامت بنایا جاتا رہے گا ۔
پھر ان لوگوں کے لہجوں کی رعونت دیکھ کر یوں گمان ہونے لگتا ہے کہ غزوہ قسطنطینہ کے اصل بہادر اور شہ سوار یہی لوگ ہیں جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے مبارک دور خلافت میں لڑی گئی تھی ۔۔۔۔۔۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے اونچے جلیل القدر کردار پر انگلیاں اٹھانے والے اور شوریٰ شوریٰ کا نام لیکر ٹسوے بہانے والے اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف یہ غل مچانے والے کہ انہوں نے شوریٰ کو عضو معطل بنا کر رکھ دیا تھا ، خود کو یوں ظاہر اور پیش کرتے ہیں جیسے امت کی شیرازہ بندی کا سہرا انہی کے سر ہے اور جیسے روم کی سرکشی اور خودسری کو کچل کر خاک میں ملانے والے اور خون آشام جنگوں کے شہسوار یہی جغادری ہیں ۔۔۔
افسوس یہ حضرات یہ بات یکسر بھول جاتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ تو سب سے زیادہ شوریٰ پر عمل کرنے والے تھے اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت شوریٰ سے ہی تعبیر تھا لیکن کوئی سچ بولنا اور انصاف کا دامن تھامنا بھی چاہے تو تب نا !! کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کے انتخاب کی بابت کس کس سے مشورہ نہ کیا ؟ کس کس کے دروازے پر دستک نہ دی ؟ کیا ہر قبیلہ کی طرف وفود نہ بھیجے ؟ کیا لوگوں سے رائے نہ لی گئی اور انہوں نے اپنی آراء پیش نہ کیں ؟ کیا اقالیم و قبائل کے وفود نے آ آ کر اس مسئلہ میں شرکت نہ کی اور اپنی رضا کا اظہار کرکے برکت کی دعائیں نہ دی تھیں ؟ تاریخ کی کتابیں ان کے ذکر سے معمور ہیں ۔ ان واقعات کے تناظر میں برملا کہا جا سکتا ہے کہ یزید کا استخلاف شوریٰ سے تھا جس میں اغلبیت کی رائے ثابت ہے گو اجماعِ تام نہیں ملتا ۔۔۔ـ (سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے (مترجِم) تالیف : ڈاکٹر محمد الصلابی ڈاکٹرحامد محمد الخلیفہ ، مترجَم پروفیسر جار اللہ ضیاء صفحہ نمبرز 300 ، 301 ، 312 ، 313 مکتبہ الفرقان خان گڑھ)
نوٹ : اس موضوع پر ہم الگ سے لکھ چکے ہیں جسے اس لنک میں احباب تفصیل سے پڑھ سکتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور یزید پلید کی ولی عہدی
محترم قارئینِ کرام : ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو ولی عہد کیوں مقرر کردیا تھا ۔
جواب : ہاں بے شک انہوں نے یزید کو ولی عہد مقرر کیا تھا اس لئے نہیں کہ خلافت ، مملکت اور حکومت کو اپنے خاندان میں بند کردیں ۔ یہ بدگمانی ہم نہیں کرسکتے کیوں ؟ اس لئے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابی ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابہ کے حق میں مومن کو حسن ظن سے کام لینا چاہئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا حکم ہے کہ : مومن کے حق میں خیر کا گمان کرو ۔ (مشکوۃ المصابیح)
معاذ اللہ یا تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو تم کافر کہو اور اگر مومن کہتے ہو تو قرآن کریم کہتا ہے کہ مومن کے حق میں بدگمانی مت کرو میں کہتا ہوں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مومن ہیں لہٰذا ہم ان کے حق میں بدگمانی نہیں کریں گے اور جب بدگمانی نہیں کریں گے تو لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ انہوں نے اپنے خیال میں وہ بہتر سمجھ کرکیا اگرچہ اس کا نتیجہ بہتر نہیں نکلا ۔
بعض حضرات یزید کی ولی عہدی کے معاملے کو لے کر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی آڑ میں یزید کی ایسی حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں گویا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا قتل کوئی ظلم تھا ہی نہیں ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اگر یزید ایسا ہی برا تھا تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس کی برائیاں کیوں نہ دکھائی دیں ، پس ماننا پڑے گا کہ یزید بہت اچھا ہوگا اور اس نے کوئی ظلم نہ کیا ہوگا ۔
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ یزید کی ولی عہدی کے بعد واقعہ کربلا و حرا وغیرہ رونما ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔ ان کا انکار کرنا ایسا ہی ہے کہ کوئی کہے کہ امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرایا ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان پر یزید اور اس کی حکومت کو ڈسکاؤنٹ دینا بھی جائز نہیں کہ ان معاملات کو طاقت کے یوں اندھا دھن استعمال کے بغیر بھی حل کرنا ممکن تھا ۔ مزید تفصیل اس لنک میں دیئے گئے مکمل مضمون میں پڑھیں : https://faizahmadchishti.blogspot.com/2019/09/blog-post_20.html
آج نام نہاد محبّانِ اہلبیت علیہم السّلام کو حضرت امام حسن علیہ السّلام کی یہ صلح و فضیلت پسند نہیں ہے یہ نام نہاد محبّانِ اہلبیت علیہم السّلام خود کو حضرت امام حسن علیہ السّلام سے بڑا محقق و مفتی و عالم سمجھتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں ہدایت و عقلِ سلیم عطاء فرمائے اور ہمیں صحابہ کرام و اہلبیت اطہار رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی بے ادبی سے بچائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment