Monday 31 July 2023

شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کے وقت حضور ﷺ میدانِ کربلا

0 comments
شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کے وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میدانِ کربلا
 محترم قارئینِ کرام : غیرمقلد حفاظ زبیر علی زئی لکھتا ہے کہ شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کے وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میدانِ کربلا میں موجود تھے اور شہداءِ کربلا رضی اللہ عنہم کا خون ایک شیشی میں جمع کیا ہوا تھا ۔ (فتاویٰ علمیّہ جلد دوم صفحہ 269 یہ حدیث صحیح راوی ثقہ ہیں حفاظ زبیر علی زئی محدث و محقق غیر مقلد وہابی حضرات)

اہلحدیث حضرات کے محقق علماء لکھتے ہیں : شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کی خبر نبی کریم صلی الله عليه وآله وسلم نے دے دی تھی اور بوقت شہادت امام آپ صلی الله عليه وآله وسلم کربلا میں موجود تھے آپ صلی الله عليه وآله وسلم کو صدمہ ہوا ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 104 تحقیق حافظ زبیر علی زئی غیر مقلد اہلحدیث وہابی)

اس سے یہ ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میدانِ کربلا میں موجود تھے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حیات ہیں اور جہاں چاہیں تشریف لے جا سکتے ہیں ۔

اور یہ بھی ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو شہادتِ امامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صدمہ ، پریشانی اور تکلیف ہوئی ۔

یزید کے وکیلو ذرا سوچو کیا منہ دیکھاؤ گے آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ کہو گے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خاندان کو تکلیفیں پہچانے والے یزید پلید کی حمایت میں زندگی گزار دی ؟

عن ام سلمة قالت قال رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يقتل حسين بن علي علي رأس سيتن من المهاجري ۔ (مجمع، 9 : 190)۔(بحواله طبراني في الاوسط)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا حسین بن علی کو ساٹھ ہجری کے اختتام پر شہید کر دیا جائے گا ۔

غیب کی خبریں بتانے والے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کی نشاندہی کردی کہ یہ عراق کا میدان کربلا ہوگا بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ یہ عظیم سانحہ 61 ہجری کے اختتام پر رونما ہوگا ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اکثر دعا فرمایا کرتے : اللهم انی اعوذبک من رائس الستين وامارة الصبيان ۔
ترجمہ : اے اللہ میں ساٹھ ہجری کی ابتدا اور (گنوار) لڑکوں کی حکومت سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔ (الصواعق الحرقه : 221)

60 ہجری کی ابتدا میں ملوکیت کی طرف قدم بڑھایا جاچکا تھا اور یہی ملوکیت وجہ نزاع بنی۔ اور اصولوں کی پاسداری اور اسلامی امارت کے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خاطر نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو کربلا کے میدان میں حق کا پرچم بلند کرتے ہوئے اپنی اور اپنے جان نثاروں کی جانوں کی قربانی دینا پڑی۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ اہل حق کٹ تو سکتے ہیں کسی یزید کے دست پلید پر بیعت کرکے باطل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ وہ نیزے کی انی پر چڑھ کر بھی قرآن سناتے ہیں۔ ان کے بے گور و کفن لاشوں پر گھوڑے تو دوڑائے جاسکتے ہیں لیکن انہیں باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہیں کیا جاسکتا ، یہی لوگ تاریخ کے چہرے کی تابندگی کہلاتے ہیں اور محکوم و مظلوم اقوام کی جدوجہد آزادی انہی نابغان عصر کے عظیم کارناموں کی روشنی میں جاری رکھتے ہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ 60 ہجری کی ابتدا سے پناہ مانگتے تھے کہ خلفائے راشدین کے نقش قدم سے انحراف کی راہ نکالی جا رہی تھی، لڑکوں کے ہاتھ میں عنان اقتدار دے کر اسلامی ریاست کو تماشا بنایا جا رہا تھا ۔ کہ اب سنجیدگی کی جگہ لا ابالی پن نے لے لی تھی ۔

حضرت یحیٰ حضرمی کا ارشاد ہے کہ سفر صفین میں مجھے شیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا ۔ جب ہم نینوا کے قریب پہنچے تو داماد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابو عبد اللہ ! فرات کے کنارے صبر کرنا میں نے عرض کیا ’’یہ کیا ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے جبرئیل نے خبر دی ہے : ان الحسين يقتل بشط الفرات و اراني قبضة من تربته ۔
ترجمہ : حسین رضی اللہ عنہ فرات کے کنارے قتل ہوگا اور مجھے وہاں کی مٹی بھی دکھائی ۔ (الخصائص الکبریٰ 2 : 12،چشتی)

حضرمی روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت علی شیر خدا رک کر اس زمین کو دیکھنے لگے تو اچانک بلند آواز میں گویا ہوئے ۔ ابو عبد اللہ! حسین رضی اللہ عنہ بر کرنا ۔ ہم سہم گئے ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے ، آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ ورطہ حیرت میں ڈوب گئے کہ یا الہی یہ ماجرا کیا ہے ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ اس میدان کربلا میں میرا حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگا ۔

حضرت اصبغ بن بنانہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : اتينا مع علي موضع قبر الحسين فقال ههنا مناخ رکابهم و موضع رحالهم و مهراق دمائهم فئة من ال محمد صلي الله عليه وآله وسلم يقتلون بهذه العرصة تبکی عليهم السماء والارض ۔
ترجمہ : ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قبر حسین رضی اللہ عنہ کی جگہ پر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ ان کے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ اور یہ ان کے کجاوے رکھنے کی جگہ ہے اور یہ ان کے خون بہنے کا مقام ہے۔ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک گروہ اس میدان میں شہید ہوگا جس پر زمین و آسمان روئیں گے ۔ (الخصائص الکبری، 2 : 126) (سر الشهادتين : 13)

گویا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کا پورا نقشہ کھینچ دیا کہ یہاں پر وہ شہادت کے درجہ پر فائز ہوگا اور یہاں خاندان رسول ہاشمی کا خون بہے گا ۔

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا ذکر پہلے ہوچکا ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حسین کو عراق میں قتل کردیا جائے۔ اور یہ کہ جبرئیل نے کربلا کی مٹی لاکر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : يا ام سلمه اذا تحولت هذه الترته دما فاعلمي ان ابني قد قتل فجعلتها ام سلمة في قارورة ثم جعلت تنظر اليها کل يوم و تقول ان يوما تحولين دما ليوم عظيم ۔
ترجمہ : اے ام سلمہ رضی اللہ عنہاجب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا قتل ہوگیا ہے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے اس مٹی کو بوتل میں رکھ دیا تھا اور وہ ہرروز اس کو دیکھتیں اور فرماتیں اے مٹی! جس دن تو خون ہوجائے گی وہ دن عظیم ہوگا ۔ (الخصائص الکبری، 2 : 125،چشتی)۔(سر الشهادتين، 28)۔( المعجم الکبير للطبرانی، 3 : 108)

حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے رونے کا سبب پوچھا اور کہا : کس شے نے آپ کو گریہ و زاری میں مبتلا کر دیا ہے؟ آپ نے کہا : میں نے خواب میں نبی اکرم صلی الله عليه وآله وسلم کی زیارت کی ہے۔ آپ صلی الله عليه وآله وسلم کا سر انور اور ریش مبارک گرد آلود تھی۔ میں نے عرض کی، یا رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم ، آپ صلی الله عليه وآله وسلم کی کیسی حالت بنی ہوئی ہے ؟ آپ صلی الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا : میں نے ابھی ابھی حُسین (رضی اللہ عنہ) کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے ۔ یہ حدیث ان کتب میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہیں ۔ (جامع ترمذی صفحہ نمبر 1028 حدیث نمبر3771 باب مناقب حسن و حسین (رضی اللہ عنہما) طبع الاولیٰٰ 1426ھ، دار الکتب العربی بیروت)۔(مستدرک امام حاکم تلخیص :علامہ ذہبی جلد 4 صفحہ 387 حدیث نمبر 6895 باب ذکر ام المومنین ام سلمہ //طبع قدیمی کتب خانہ پاکستان ، جز :5 ،چشتی)(تہذیب التہذیب ابن حجر عسقلانی جلد 2 صفحہ 356 طبع الاولی ھند)(البدایہ والنھایہ ابن کثیر محقق:عبدالمحسن ترکی جلد 11 صفحہ 574 طبع الاولیٰٰ 1418 ھ، جز:21 الھجر بیروت)

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ صلی الله عليه وآله وسلم غبار آلود دوپہر کے وقت خون سے بھری ہوئی ایک شیشی لیے ہوئے ہیں۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم فداک ابی و امی، یہ کیا ہے ؟ آپ صلی الله عليه وآله وسلم نے فرمایا، یہ حسین (رضی اللہ عنہما) اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے جسے میں آج صبح سے اکٹھا کر رہاہوں ۔ عمار کہتے ہیں کہ ہم نے حساب لگایا تو ٹھیک وہی دن شہادت امام حسینؑ کا روز تھا ۔ علامہ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس روایت کو امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی اسناد قوی ہیں۔ (البدایۃ والنھایۃ)

ابن ابی الدنیا نے عبداللہ بن محمد بن ہانی ابو عبد الرحمن نحوی سے، انہوں نے مہدی بن سلیمان سے اور انہوں نے علی بن زید بن جدعان سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عباس سو کر اٹھے تو “انا للہ و انا الیہ راجعون ” کہا اور کہنے لگے اللہ کی قسم امام حسین شہید کر دیے گئے ہیں۔ ان کے اصحاب نے پوچھا کہ اے ابن عباس ! کیوں کر؟ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم کو خون کی ایک شیشی لیے ہوئے خواب میں دیکھا ہے ۔ آپ صلی الله عليه وآله وسلم نے فرمایا کہ اے ابن عباس ! کیا تم جانتے ہو کہ میرے بعد میری امت کے اشقیاء نے کیا کیا؟ انہوں نے امام حسینؑ نے شہید کر دیا ہے۔ اور یہ اس کا اور اس کے اصحاب کا خون ہے جسے میں اللہ تعالی کے حضور پیش کروں گا۔ چنانچہ وہ دن اور گھڑی لکھ لی گئی۔ اس کے بعد چوبیس دن بعد مدینہ شریف میں یہ خبر آئی کہ امام حسین کو اسی دن اور اسی وقت میں شہید کیا گیا ۔ حمزہ بن زیارت نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ دونوں پیغمبر امام حسینؑ کے روضہ پر نماز پڑھ رہے ہیں۔ شیخ ابو نصر نے بالاسناد حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالہ سے بیان کیا کہ حضرت جعفر بن محمد نے فرمایا کہ حضرت حسین ؑ کی شہادت کے بعد آپ کی قبر انور پر ستر ہزار فرشتے اترے اور قیامت تک آپ کے کے لیے اشکباری کرتے رہیں گے۔ (البدایۃ والنھایۃ،چشتی)

عن ام سلمه قالت قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أخبرني جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بأرض العراق فقلت لجبرئيل ارني تربة الارض التي يقتل فيها، فجاء فهذه تربتها ۔ (البدايه والنهايه، 8 : 196 - 200)۔(کنز العمال، 12 : 126، ح : 34313)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنھا روایت کرتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے جبرئیل امین نے (عالم بیداری میں) بتایا کہ میرا یہ بیٹا حسین عراق کی سرزمین میں قتل کر دیا جائیگا میں نے کہا جبرئیل مجھے اس زمین کی مٹی لا کر دکھا دو جہاں حسین کو قتل کر دیا جائے گا پس جبرئیل گئے اور مٹی لا کر دکھا دی کہ یہ اس کے مقتل کی مٹی ہے۔

عن عائشة عنه انه قال أخبرنی جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بعدي بأرض الطف ۔
ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل امین نے مجھے خبر دی کہ میرا یہ بیٹا حسین میرے بعد مقام طف میں قتل کر دیا جائے گا۔ (المعجم الکبير، 3 : 107، ح : 2814)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی روایت بھی کم و بیش وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے، یہ بھی قتل حسین رضی اللہ عنہ کی اطلاع ہے۔ یہ روح فرسا اطلاع پا کر قلب اطہر پر کیا گزری ہوگی اس کا تصور بھی روح کے در و بام کو ہلا دیتا ہے، پلکوں پر آنسوؤں کی کناری سجنے لگتی ہے اور گلشن فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تباہی کا دلخراش منظر دیکھ کر چشم تصور بھی اپنی پلکیں جھکا لیتی ہے ۔

ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام کے چشمان مقدس سے آنسو رواں تھے میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج کیا بات ہے چشمان مقدس سے آنسو رواں ہیں ؟ فرمایا کہ مجھے ابھی ابھی جبرئیل خبر دے گیا ہے کہ : ان امتک ستقتل هذا بأرض يقال لها کربلاء ۔ ترجمہ : آپ کی امت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس بیٹے حسین کو اس سر زمین پر قتل کر دے گی جس کو کربلا کہا جاتا ہے ۔ (المعجم الکبير، 3 : 109، ح : 2819،چشتی)

امام حسین رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ کس نے پڑھاٸی اور کہاں دفن ہوۓ

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے سر  انور  کے مدفن میں اختلاف ہے 
مندرجہ ذیل اقوال ہیں : ⬇

(1) مدینہ شریف میں ۔ (2) عسقلان میں ۔ (3) کربلا کے نزدیک کسی گاؤں میں ۔ (4) مصر میں ۔ (5) کربلا  معلیٰ  میں ۔

(1) علامہ قرطبی اور شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہما الرحمہ فرماتے ہیں کہ : یزید نے اسیرانِ کربلا اور سرانور کو مدینہ طیبہ روانہ کیا ۔ اور مدینہ طیبہ میں سرِ انور کی تجہیز و تکفین کے بعد حضرت سیدہ فاطمہ یا حضرت امام حسن رضی الله عنہما کے پہلو میں دفن کر دیا گیا ۔

(2) امامیہ شیعہ حضراتبکہتے ہیں کہ : اسیرانِ کربلا نے چالیس روز کے بعد  کربلا میں آ کر  جسد مبارک سے ملا کر دفن کیا ۔

(3) بعض کہتے ہیں کہ : یزید نے حکم دیا کہ حسین کے سر کو  شہروں میں پھراؤ ۔ پھرانے والے جب عسقلان پہونچے تو وہاں کے امیر نے ان سے لے کر دفن کر دیا ۔

(4) جب عسقلان پر فرنگیوں کا غلبہ ہوا تو طلائع بن زریک  جس کو صالح کہتے ہیں نائب مصر نے تیس ہزار دینار دے کر فرنگیوں سے  سر انور لینے کی اجازت حاصل کی اور ننگے پیر وہاں سے مع سپاہ و خدام کے مؤرخہ آٹھ (8) جمادی الآخر 548 ھجری بروز اتوار مصر لایا اس وقت بھی سر انور کا خون تازہ تھا اور اس سے مشک کی سی خوشبو آتی تھی پھر اس نے سبز حریر کی تھیلی میں آبنوس کی  کرسی پر رکھ کر اس کے ہم وزن مشک و عنبر اور خوشبو اس کے نیچے اور ارد گرد رکھوا کر اس پر مشہد حسینی بنوایا ۔ چنانچہ قریب خان خلیلی کے مشہد حسینی مشہور ہے  شیخ شہاب الدین بن اطلبی حنفی فرماتے ہیں کہ میں نے مشہد میں سر مبارک کی زیارت کی مگر میں اس میں متردد اور  متوقف تھا کہ سر مبارک اس مقام پر ہے یا نہیں ؟ اچانک مجھ کو نیند آگئی میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص بصورت نقیب سر مبارک کے پاس سے نکلا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے پاس حجرہ نبویہ میں گیا اور جا کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  احمد بن حلبی اور عبد الوہاب نے آپ کے بیٹے حسین کے سر مبارک کے مدفن کی زیارت کی ہے آپ نے فرمایا اللھم تقبل منھما واغفرلھما یعنی اے اللہ ان دونوں کی زیارت کو قبول فرما اور  ان دونوں کو بخش دے ۔ شیخ شہاب الدین فرماتے ہیں کہ اس دن سے میرا یقین ہو گیا کہ حضرت  امام حسین  رضی اللہ عنہ کا سر مبارک یہیں ہے پھر میں نے مرتے دم تک سر مکرم کی زیارت نہیں چھوڑی ۔

 (5) شیخ عبد الفتاح بن ابی بکر بن احمد شافعی خلوتی علیہ الرحمہ اپنے رسالہ نورالعین میں فرماتے ہیں کہ  نجم الدین غبطی نے شیخ الاسلام شمس الدین حقانی سے جو اپنے وقت کے شیخ الشیوخ مالکیہ سے  نقل فرمایا کہ : وہ ہمیشہ مشہد مبارک میں سرِ انور کی زیارت  کو حاِضر ہوتے اور  فرماتے کہ حضرت امام رضی اللہ عنہ کا سر  انور اسی مقام پر ہے ۔

(6) حضرت شیخ خلیل ابی الحسن تماری رحمۃ اللہ علیہ سرِ انور کی زیارت کو تشریف لایا کرتے تھے جب سر مبارک کے پاس آئے تو کہتے السلام عليكم يا ابن رسول اللہ اور جواب سنتے وعلیک السلام یا ابا الحسن ۔ ایک دن سلام کا جواب نہ پایا حیران ہو ئے اور زیارت کر کے واپس  آ گئے دوسرے روز پھر حاضر ہو کر سلام کیا تو جواب پایا عرض کی یا سیدی کل جواب سے مشرف نہ ہوا کیا وجہ تھی فرمایا اے ابو الحسن کل اس وقت میں اپنے جد امجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر تھا اور باتوں میں مشغول تھا ۔

(7) امام عبد الوہاب شعرانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اکابر صوفی اہل کشف اسی کے قائل ہیں کہ حضرت امام کا سر انور  اسی مقام پر ہے ۔

 (8) خیال رہے کہ علامہ محمد شفیع اکاڑوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ : سر انور مصر میں دفن ہے ۔ اس قول کو چار خواب بیان کر کے اس کو قوت دی پھر تحریر فرماتے ہیں کہ سرِ انور کے متعلق مختلف روایات ہیں اور مختلف مقامات پر مشاہد بنے ہوئے ہیں تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان روایات اور مشاہدہ کا تعلق چند سروں سے ہو کیونکہ یزید کے پاس سب شہدائے اہل بیت کے سر بھیجے گئے تھے تو کوئی سر  کہیں اور  کوئی سر کہیں دفن ہوا ہو اور نسبت حسن عقیدت کی بنا پر یا کسی اور وجہ سے صرف امام حسین کی طرف کردی گئی ہو (بحوالہ شام کربلا مصنف علامہ شفیع اکاڑوی رحمة اللہ علیہ صفحہ 259 ، 260)

فقیہ ملت مفتی جلال الدین رحمة اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ : سیدُالشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر انور کہاں دفن کیا گیا اس میں اختلاف ہے ۔ مشہور یہ ہے کہ اسیرانِ کربلا کے  ساتھ یزید نے آپ کے سر مبارک  کو مدینہ منورہ روانہ کیا جو سیدہ حضرت فاطمه زہراء یا حضرت امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہما کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔ (خطبات محرم صفحہ 440،چشتی)

حضرت علامہ مفتی عبد الواجد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : امام الشہداء نواسہ رسول ابن بتول سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا مزار شریف کربلا معلی میں ہے جو نجف اشرف سے اسی کلو میٹر کی دوری پر ہے امام حسین کے آستانہ مبارک  کی چہار دیواری ہے ۔ جس کا غالب رنگ سبز و نیلا ہے اس آستانہ کے اندر سیدنا علی اصغر سیدنا حبیب و مظایر رضی اللہ عنہم کے مزارات مقدسہ بھی ہیں جو نقرئی قفسوں میں مغلف ہیں  ایک سرخ پتھر بھی ہے جو گویا امام حسین کے خون سے رنگین ہے  حضرت نے اپنی کتاب میں مزار شریف کا نقشہ بھی لیا ہے اور زیادت بھی کی  ہے ۔ (کائنات آرزو صفحہ 315 مصنف مفتی عبد الماجد رحمۃ اللہ علیہ)
 
علامہ ابن حجر ہتیمی مکی علیہ الرحمہ روایت فرماتے ہیں کہ : سلیمان  بن عبد الملک نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب ، میں دیکھا کہ آپ اس کے ساتھ ملاطفت فرما رہے ہیں اور  اس کو بشارت دے رہے ہیں  صبح اس نے حضرت امام حسن بصری رضی اللہ عنہ سے اس کی تعبیر پوچھی انہوں ، نے فرمایا شاید تو نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل ، کے ساتھ کوئی بھلائی کی ہے ۔ قال نعم وجدت راس الحسین فی خزانۃ ہزید فکسوتہ خمسۃ اثواب وصلیت علیہ مع جماعۃ اصحابی و قبرتہ فقال لہ الحسن ھو ذلک سبب رضاہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔ یعنی اس نے کہا ہاں ! میں نے حسین کے سر مبارک کو خزانہ یزید میں دیکھا تو میں نے ان کو پانچ کپڑوں کا کفن پہنایا اور میں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان پر نماز جنازہ پڑھی اور انہیں قبر میں دفن کر دیا تو حسن بصری  نے اس سے فرمایا  یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تجھ سے اظہار رضا مندی فرمایا ہے یعنی یہی تیرا کام حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رضا مندی کا سبب ہوا ہے ۔ (الصواعق المحرقہ صفحہ 196)

 اس  واقعہ سے معلوم ہوا کہ سلیمان عبد الملک نے جنازہ  کی نماز اپنے دوستوں کے ساتھ پڑھائی اسی نیک عمل کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے  خوش ہوئے اور یہی عمل امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے نانا جان کی رضا کا سبب بنا ۔ آج بھی جو بھی اہل بیت سے محبت رکھے گا اس  سے رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رضا حاصل ہوگی  امام، حاکم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ  سے روایت کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے فرمایا  ہر اولاد اپنے عصبہ کی طرف منسوب، ہوتی ہے سوائے فاطمہ کے دونوں شہزادوں کے کہ میں ان دونوں کا ولی ہوں اور عصبہ ہوں
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا میری شفاعت میری امت کے ان افراد کےلیے  ہے جو میری اہل بیت سے محبت کرے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

قرآنِ پاک میں لفظی یا معنوی تحریف کرنا ریاض شاہ پنڈوی کی ہفوات کا جواب

0 comments
قرآنِ پاک میں لفظی یا معنوی تحریف کرنا ریاض شاہ پنڈوی کی ہفوات کا جواب
محترم قارئینِ کرام : ریاض شاہ پنڈوی نے قرآن کی آیت جو کہ حضرت ادریس علیہ السلام کے متعلق نازل ہوٸی جس کی تفصیل ہم اس سے پہلے مضمون میں لکھ چُکے ہیں ریاض شاہ پنڈوی کے ویڈیو کلپ کے ساتھ جس میں وہ کہتا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام کو دفن کےلیے وہ مکان ملا جو حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو ملا ۔ اس جواب ہم لکھ چُکے صرف ایک بات عرض کرنی ہے کہ اِس شخص کو اتنی عقل نہیں کہ حضرت ادریس علیہ السلام نبی ہیں اور غیر نبی نبی سے کیسے فضیلت والا ہو سکتا ہے ؟ ۔ دوسری بات حضرت ادریس علیہ السلام کا مزار کہاں ہے یہ کس دلیل سے کہہ رہا ہے کہ نجفِ اشرف میں ہے ؟ ۔ اور یہ بھی یاد رہے حضرت ادریس علیہ السلام کے صدیوں بعد مولا علی رضی اللہ عنہ کا وصال مبارک ہوا پنڈوی بتاۓ بقول اُس کے نجفِ اشرف میں پہلے کون مدفون ہوا اور بعد میں کسے وہاں مدفون ہونے کا شرف ملا ؟

تحریف دو طرح کی ہوتی ہے :  ایک لفظ میں تبدیلی کر دینا ۔ دوسرا : لفظ کو اسی حالت میں رہنے دینا ، لیکن اس کے معنی میں ہیر پھیر کردینا ۔ خلیل بن احمد الفراہیدی لکھتے  ہیں : والتحريف في القرآن تغيير الكلمة عن معناها ۔ (العين جلد 4 صفحہ 210)
ترجمہ : قرآنِ کریم میں تحریف کا مطلب یہ ہے کہ  کلمات کے معانی تبدیل کردینا ۔

شریعت میں تحریف جیسی خصلتِ بد اور جرمِ عظیم میں یہودی بہ کثرت مبتلا تھے ، جیسا کہ قرآنِ کریم میں اس کا بالخصوص ذکر ہے ۔ ارشادِ باری تعالی ہے : اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَ قَدْ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ ۔ (سورہ البقرة آیت نمبر 75)
ترجمہ :  تو اے مسلمانو کیا تمہیں یہ طمع ہے کہ یہ یہودی تمہارا یقین لائیں گے اور ان میں کا تو ایک گروہ وہ تھا کہ اللہ کا کلام سنتے پھر سمجھنے کے بعد اسے دانستہ بدل دیتے ۔

یہ آیت ان انصار کے متعلق نازل ہوئی ہے جو یہود کے حلیف تھے ‘ وہ ان کے پڑوسی بھی تھے اور ان کے درمیان رضاعت بھی تھی وہ یہ چاہتے تھے کہ یہ یہودی مسلمان ہوجائیں ۔ انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس بات کی بہت حرص تھی کہ یہودی اسلام قبول کر لیں کیونکہ وہ یہودیوں کے حلیف تھے اور ان کے پڑوسی بھی تھے ، اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے مسلمانو ! کیا تم یہ امید رکھتے ہو کہ یہ یہودی تمہارا یقین کریں گے یا تمہاری تبلیغ کی وجہ سے ایمان لے آئیں گے حالانکہ ان میں ایک گروہ وہ تھا جوصرف علماء پر مشتمل تھا ، وہ اللہ تعالیٰ کا کلام یعنی تورات سنتے تھے اور پھر اسے سمجھ لینے کے بعد جان بوجھ کر بدل دیتے تھے ، اسی طرح ان یہودیوں نے بھی تورات میں تحریف کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نعت بدل ڈالی ، تو ایسے لوگ کہاں ایمان لائیں گے ؟ لہٰذا تم ان کے ایمان کی امید نہ رکھو ۔ (تفسیر قرطبی جلد ۱ صفحہ ۳ - ۴ الجزء الثانی،چشتی)(تفسیر بیضاوی جلد ۱ صفحہ ۳۴۷ - ۳۴۸)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مسلمان یہ خواہش رکھتے تھے کہ ان کے زمانہ میں جو یہودی ہیں وہ مسلمان ہو جائیں کیونکہ وہ اہل کتاب تھے اور ان کے پاس شریعت تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے ساتھ نرمی کرتے تھے اور ان کی وجہ سے دوسروں پر سختی کرتے تھے تاکہ وہ یہودی مسلمان ہوجائیں ۔ (البحر المحیط جلد ١ صفحہ ٤٣٧ مطبوعہ دارالفکر بیروت ١٤١١ ھ)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : حالانکہ ان کا ایک فریق اللہ کا کلام سنتا تھا ، پھر اس کو سمجھنے کے باوجود اس میں دانستہ تبدیلی کردیتا تھا ۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر ٧٥) 
 
اس آیت میں جو یہ فرمایا ہے کہ ایک فریق اللہ کا کلام سنتا تھا اس کی تفسیر میں دو قول ہیں ‘ ایک قول یہ ہے کہ انہوں نے بِلا واسطہ اللہ تعالیٰ کا کلام سنا تھا اور پھر اس میں تبدیلی کی اور دوسرا قول یہ ہے کہ اس کلام اللہ سے مراد تورات ہے جس میں وہ تحریف کرتے تھے ۔ پہلے قول کے متعلق امام ابن جریر علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : امام محمد بن اسحاق علیہ الرحمہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے بعض اہل علم سے یہ حدیث پہنچی ہے کہ بنو اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا : اے موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے دیدار اور ہمارے درمیان کڑک حائل ہو گئی لیکن جب اللہ تعالیٰ آپ سے ہم کلام ہو تو آپ ہمیں اس کا کلام سنا دیں حضرت موسیٰ علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ‘ اللہ تعالیٰ نے اس کو قبول فرما لیا ‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ تم غسل کرو ‘ صاف کپڑے پہنو اور روزے رکھو ‘ پھر وہ ان کو لے کر کوہ طور پر آئے ‘ جب بادل نے ان کو ڈھانپ لیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان سے فرمایا : سجدہ میں گر جائیں ‘وہ سجدہ میں گر گئے‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب سے کلام کیا اور انہوں نے اس کلام کو سنا ‘ اللہ تعالیٰ نے بعض چیزوں کا امر کیا اور بعض چیزوں سے منع کیا ‘ انہوں نے اس کو سن کر سمجھ لیا ‘ جب بنواسرائیل کے پاس پہنچے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اس چیز کا حکم دیا ہے اور اس چیز سے منع کیا ہے ‘ تو ان لوگوں نے اس میں تحریف کر دی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام) کے بتائے ہوئے احکام کو بدل دیا ۔ (جامع البیان جلد ١ صفحہ ٢٩١ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ،چشتی)

امام ابن جوزی علیہ الرحمہ اس روایت پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں : بعض اہلِ علم نے اس روایت کا شدید انکار کیا ہے ‘ ان میں سے امام ترمذی علیہ الرحمہ صاحب ” نوادرالاصول “ بھی ہیں انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ کے کلام کو بِلا واسطہ سننا صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خصوصیت ہے ‘ ورنہ ان میں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام میں کیا فرق رہے گا ؟ اس قسم کی احادیث کو کلبی نے روایت کیا ہے اور وہ جھوٹا شخص ہے ۔ (زادالمیسر جلد ١ صفحہ ١٠٣ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت ‘ ١٤٠٧ ھ)

دوسرے قول کے متعلق امام ابن جریر علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : ابن زید نے کہا : اس کلام اللہ سے مراد تورات ہے ‘ بنو اسرائیل اس میں تحریف کرکے اس کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرتے تھے اور حق کو باطل اور باطل کو حق بیان کرتے تھے۔ جب ان کے پاس صاحب حق رشوت لے کر آتا تو کتاب سے اس کی منشاء کے مطابق مسئلہ بیان کرتے اور جب باطل پر قائم کوئی شخص ان کے پاس رشوت لے کر آتا تو کتاب سے اس کی مرضی کے مطابق حکم بیان کرتے ‘ اور جب کوئی شخص رشوت لے کر نہ آتا تو پھر کتاب سے صحیح حکم نکال کر بیان کردیتے ۔ (جامع البیان جلد ١ صفحہ ٢٩١ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ١٤٠٩ ھ)

امام ابن جریر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : زیادہ صحت کے قریب یہ ہے کہ : تورات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جو صفات مذکور تھیں ان میں دانستہ تحریف کرتے تھے اور آپ کی صفات کو تبدیل کر کے بیان کرتے تھے ۔ (جامع البیان جلد ١ صفحہ ٢٩٢ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ) ۔ جیسے ریاض شاہ پنڈوی نے حضرت ادریس علیہ السلام کے متعلق آیت میں معنوی تحریف کی ہے ۔

علامہ آلوسی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ تورات میں مذکور تھا کہ آپ کا گورا رنگ ہے اور متوسط قد ہے اور جب ان سے آخری نبی کی صفات پوچھی جاتیں تو یہ کہتے : ان کا سانولا رنگ ہے اور لمبا قد ہے ۔ (جامع البیان جلد ١ صفحہ ٢٩٨ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جب وہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں : ہم ایمان لے آئے ۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر ٧٦)

علامہ ابن جریر طبری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب منافقین یہود نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم سے ملتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے اور ابوالعالیہ اور قتادہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب یہ آپس میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ تمہاری کتاب میں جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صفات بیان کی گئی ہیں وہ تم مسلمانوں کے سامنے کیوں بیان کرتے ہو ‘ وہ اس بیان کو تمہارے خلاف بنالیں گے کہ جب یہ وہی آنے والے نبی ہیں تو تم ان پر ایمان کیوں نہیں لائے ؟ ۔ (جامع البیان جلد ١ صفحہ ٢٩٢ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ،چشتی)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ان میں سے بعض ان پڑھ ہیں جو زبانی پڑھنے کے سوا (اللہ کی) کتاب کا علم نہیں رکھتے ۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر ٧٨)

اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں کئی گمراہ فرقوں کا بیان فرمایا ہے ‘ پہلے اس فرقہ کا بیان کیا جو اللہ تعالیٰ کے کلام میں تحریف کرتا ہے ‘ پھر دوسرے فرقہ کا بیان کیا جو منافقین ہیں ‘ پھر تیسرے فرقہ کا بیان کیا جو مجادلین (بحث میں ضد سے کام لینے والے) تھے اور یہ کہتے تھے کہ مسلمانوں کے سامنے تورات کی ایسی آیات بیان کرو جو خود تمہارے خلاف حجت ہوں ‘ اس کے بعد اب چوتھے فرقہ کا بیان کیا جو عوام اور ناخواندہ لوگ ہیں ‘ ان کو اللہ تعالیٰ نے امیین فرمایا ‘ امی وہ شخص ہے جو لکھتا ہو نہ پڑھتا ہو یعنی جس طرح مان کے بطن سے ناخواندہ پیدا ہوا تھا اسی حالت پر ہو اور کسی سے علم حاصل نہ کیا ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وہ کتاب کا علم نہیں رکھتے ماسوا ”امانی“ کے ”امانی“ ”امنیہ“ کی جمع ہے ‘ ”امنیہ“ کا ایک معنی ہے : پڑھنا ‘ یعنی یہ عام ان پڑھ لوگ صرف زبانی تورات کو پڑھ لیتے ہیں اس کا معنی نہیں جانتے ‘ جیسے برِ صغیر پاک و ہند میں عام خواندہ لوگ قرآن مجید کی عبارت کو معنی سمجھے بغیر پڑھتے ہیں ‘ اور اس کا دوسرا معنی ہے : تمنا اور آرزو ‘ یعنی ان کی تمنائیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو معاف کر دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا اور ان گناہوں پر گرفت نہیں فرمائے گا ‘ اور ان کے آباء و اجداد میں جو انبیاء ہیں وہ ان کی شفاعت کریں گے ‘ یا ان کے علماء کی جو تمنائیں تھیں کہ دوزخ کی آگ ان کو صرف چند دن جلائے گی ‘ یا اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ سوائے ان جھوٹی اور من گھڑت باتوں کے کتاب کا علم نہیں رکھتے جو انہوں نے اپنے علماء سے سن لی ہیں اور ان کو بہ طور تقلید کے مانتے چلے آرہے ہیں ‘ لیکن یہاں ” امنیہ “ کو تمنا کے معنی پر محمول کرنا زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس کے بعد کی آیت میں ان کی اس تمنا کا ذکر آرہا ہے کہ ان کو صرف چند دن آگ جلائے گی ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : پس عذاب ہے ان لوگوں کےلیے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہیں ۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر ٧٩)

علامہ راغب اصفہانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :اصمعی نے کہا : ”ویل“ بری چیز ہے اور اس کا استعمال حسرت کے موقع پر ہوتا ہے اور ”ویح“ کا استعمال ترحم کے طور پر ہوتا ہے ۔ (المفردات صفحہ ٥٣٥ مطبوعہ المکتبۃ المرتضویہ ‘ ایران ‘ ١٣٤٢ ھ)

امام ابن جریر طبری علیہ الرحمہ اپنی اسانید کے ساتھ روایت کرتے ہیں : 
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : ”فویل لھم“ کا معنی ہے : ان پر عذاب ہوا ابوعیاض نے کہا : ویل اس پیپ کو کہتے ہیں جو جہنم کی جڑ میں گرتی ہے ‘ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کیا کہ ویل ‘ جہنم میں ایک پہاڑ ہے اور حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کیا کہ ویل جہنم میں ایک وادی ہے ‘ کافر اس کی گہرائی تک پہنچنے سے پہلے چالیس سال تک گرتا رہے گا۔ ان احادیت اور آثار کے اعتبار سے ویل کا معنی یہ ہے کہ جو یہودی اپنی طرف سے لکھ کر کتاب اللہ میں تحریف کرتے ہیں ان کو جہنم کی گہرائی میں اہل جہنم کی پیپ پینے کا عذاب ہوگا ۔ (جامع البیان ج ١ ص ٣٠٠۔ ٢٩٩‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

ابو العالیہ نے کہا کہ یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات میں تحریف کرتے تھے اور دنیاوی مال کی وجہ سے اس میں تبدیلی کرتے تھے ‘ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ یہود نے اپنی خواہش کے مطابق تورات میں احکام لکھ دیئے اور جو احکام ان کو ناپسند تھے ان کو انہوں نے تورات سے مٹا دیا ‘ نیز انہوں نے تورات سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام مٹا دیا ‘ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر غضب فرمایا ۔ (جامع البیان ج ١ ص ٣٠١۔ ٣٠٠ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ١٤٠٩ ھ)

مزید فرمایا : مِنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 46)
ترجمہ : کچھ یہودی کلاموں کو ان کی جگہ سے پھیرتے ہیں ۔

ایک اور آیت میں ہے : يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ ۔ (سورہ المائدة آیت نمبر 13)
ترجمہ : اللہ کی باتوں کو ان کے ٹھکانوں سے بدلتے ہیں ۔

اسی طرح فرمایا : يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِهِ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَذَا فَخُذُوهُ وَإِنْ لَمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا ۔ (سورہ المائدة آیت نمبر 41)
ترجمہ : اللہ کی باتوں کو ان کے ٹھکانوں کے بعد بدل دیتے ہیں کہتے ہیں یہ حکم تمہیں ملے تو مانو اور یہ نہ ملے تو بچو اور ۔

کسی عام شخص کے بیان میں تبدیلی کرنا ، بہت بڑا جرم ہے ، جبکہ اللہ کے کلام میں تبدیلی و تحریف تو کبائر میں سے ہے ۔ اور ایسے لوگوں کے متعلق اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ : لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ۔ (سورہ المائدة آیت نمبر 41)
ترجمہ : انہیں دنیا میں رسوائی ہے ، اور انہیں آخرت میں بڑا عذاب ۔

ایک اور جگہ پر اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وَ لٰـكِنْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 46)
ترجمہ : لیکن ان پر تو اللہ نے لعنت کی ان کے کفر کے سبب تو یقین نہیں رکھتے مگر تھوڑا ۔

مذکورہ حوالہ جات سے یہ بات واضح ہوئی کہ لفظ کو بدلنا تو تحریف ہے ہی ، اس کے معنی  اور ترجمہ میں تبدیلی بھی تحریف ہی کہلاتی ہے ، اور ایسا شخص دنیا و آخرت میں رسوائی اور عذاب کا مستحق ہے ، اور ایسے شخص کے دل سے حلاوتِ ایمان ختم ہو کر، اس کی جگہ کفر لےلیتا ہے ۔
تحریف شدہ تراجمِ قرآنِ کریم کو پرنٹ کرنے والے ، اور ان کی نشر و اشاعت کرنے والے بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں ۔

قرآنِ کریم کے ساتھ یوں کھلواڑ کرنے والوں کو روکنا اربابِ اقتدار کی ذمہ داری ہے ، مشہور قاضی ابو یعلی الفراء علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : وإن وجد فيمن يتصدى لعلم الشرع من ليس مِنْ أَهْلِهِ، مِنْ فَقِيهٍ أَوْ وَاعِظٍ، وَلَمْ يأمن اغترار النَّاسِ بِهِ فِي سُوءِ تَأْوِيلٍ، أَوْ تَحْرِيفِ جواب، أنكر عليه التصدي لما ليس مِنْ أَهْلِهِ، وَأَظْهَرَ أَمْرَهُ، لِئَلَّا يُغْتَرَّ بِهِ… وكذلك لَوْ ابْتَدَعَ بَعْضُ الْمُنْتَسِبِينَ إلَى الْعِلْمِ قَوْلًا خَرَقَ بِهِ الْإِجْمَاعَ وَخَالَفَ فِيهِ النَّصَّ وَرَدَّ قَوْلَهُ عُلَمَاءُ عَصْرِهِ أَنْكَرَهُ عَلَيْهِ وَزَجَرَهُ عَنْهُ، فَإِنْ أَقْلَعَ وَتَابَ وَإِلَّا فَالسُّلْطَانُ بِتَهْذِيبِ الدِّينِ أحق. وإذا انفرد بَعْضُ الْمُفَسِّرِينَ لِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى بِتَأْوِيلٍ عَدَلَ فِيهِ عَنْ ظَاهِرِ التَّنْزِيلِ إلَى بَاطِنِ بِدْعَةٍ، متكلف لَهُ غَمْضَ مَعَانِيهِ…كَانَ عَلَى الْمُحْتَسِبِ إنْكَارُ ذَلِكَ ۔ (الأحكام السلطانية صفحہ 293،چشتی)
ترجمہ : اگر شرعی علم میں نا اہل فقیہ ، واعظ وغیرہ کود پڑیں ، اور  ان کی تاویلات و تحریفات کی وجہ سے لوگوں کی گمراہی کا امکان ہو ، تو ایسے شخص کی نقاب کشائی کرنا ، اور اسے روکنا ضروری ہے ، تاکہ لوگ دھوکے سے محفوظ رہیں ۔ اسی طرح اگر کسی نے خلاف اجماع رائے بیان کی ، اور صریح نصوص کی تردید کی ، اور علمائے کرام نے اس کی تردید و مذمت کر دی ، تو حاکم وقت کو ایسے شخص کو روکنا اور ڈانٹ ڈپٹ کرنا ضروری ہے ، اگر وہ باز آجائے ، تو ٹھیک ، ورنہ حاکم کو اختیار ہے کہ وہ دین کی حمایت کےلیے مناسب اقدام کرے ۔ اسی طرح اگر کسی نے قرآن کی تفسیر کرتے ہوئے ، واضح معانی کو چھوڑ کر دور از کار تاویل و تحریف کی ، تو  اربابِ احتساب کی طرف سے اس کو روکنا ضروری ہے ۔

بلکہ اگر  غیر مسلموں کو بھی اسلامی ملک میں رہنے کی اجازت دینی ہے ، تو ان کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے انہیں یہ شرط منوانا ضروری ہے کہ وہ  کتاب اللہ پر کسی قسم کا طعن یا اس میں تحریف نہیں کریں گے ، اور اہلِ اسلام کو ان کے دین سے بھٹکانے سے گریز کریں گے ۔ (الأحكام السلطانية للماوردي صفحہ 225،چشتی)

اگر ہم تاریخ کا جائزہ لیں  تو خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور مسلمان حکمرانوں نے تمام دنیا میں قرآن پاک کو لفظی اور معنوی تحریف سے ہر دور میں محفوظ رکھنے میں اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے ادا کرتے ہوئے اسلام دشمن قوتوں ، نبوت کے جھوٹے  دعوے داروں اور دیگر فتنوں  کی سرکوبی کی۔  کیونکہ ، چاہے یہ نبوت کا جھوٹا دعوے دار مسیلمہ کذاب ہو یا دیگر کوئی اور ، ان تمام فتنوں نے  قرآن پاک کی معنوی تحریف کے ذریعے ہی اپنے باطل نظریات کو سہارا دینے کی سعی لا حاصل کی ہے ۔ بطور مثال چند ایک کا ذکر درج ذیل ہے : ⬇

مسلیمہ کذاب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں ہی نبوت کا دعوی کر دیا تھا ، اور ،،بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ،، وغیرہ آیات میں آنے والی اللہ تعالی کی صفت ’رحمان‘ میں معنوی تحریف کرتے ہوئے ، دعویٰ کیا کہ اس سے مراد میں ہوں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کا قلع قمع کرنے کےلیے لشکر روانہ فرمایا ، پھر بعد میں خلافت صدیقی میں ایک بڑی جنگ کے بعد اس فتنے کا خاتمہ ہوا ۔

مغیرہ بن سعید عجلی نامی ایک مدعی نبوت تھا ، اس نے ،،سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى،، ۔ (سورہ الأعلى آیت نمبر 1) جیسی کچھ آیات کی معنوی تحریف کی ، تو اس وقت کے گورنر خالد بن عبد اللہ قسری نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو قتل کردیا ۔  (تاریخ طبری:7/128، تاریخ ابن کثیر:9/323)

اسی طرح ایک اور بدبخت بیان بن سمعان تمیمی تھا ، اس نے قرآن کریم کی بعض وہ آیات جن میں اللہ تعالی کی الوہیت کا ذکر ہے ، ان میں تحریف معنوی کرتے ہوئے کہا کہ اس سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اسے بھی اس جرم کی پاداش میں قتل کیا گیا ۔ ( تاریخ  الاسلام للذہبی:3/214، الفرق بین الفرق:228)

مندرجہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ عالم کا بگڑنا عوام کے بگڑنے سے زیادہ تباہ کن ہے کیونکہ عوام علماء کو اپنا ہادی اور رہنما سمجھتے ہیں ، وہ علماء کے اقوال پر عمل کرتے اور ان کے افعال کو دلیل بناتے ہیں اور جب علماء ہی کے عقائد و اعمال میں بگاڑ پیدا ہو جائے تو عوام راہ ہدایت پر کس طرح چل سکتی ہے ، اور کئی جگہ پر شایدیہ عالم کہلانے والوں کی بد عملی کا نتیجہ ہے کہ آج لوگ دیندار طبقے سے متنفر ہو رہے ہیں اور ان کے خلاف اپنی زبان طعن دراز کر رہے ہیں ۔ امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : ائمہ دین فرماتے ہیں : اے گروہ علماء ! اگرتم مستحبات چھوڑ کر مباحات کی طرف جھکو گے ( تو) عوام مکروہات پرگریں گے ، اگرتم مکروہ کرو گے (تو) عوام حرام میں پڑیں گے ، اگرتم حرام کے مرتکب ہو گے (تو) عوام کفر میں مبتلا ہوں گے ۔ یہ ارشاد نقل کرنے کے بعد فرمایا ’’ بھائیو !  لِلّٰہِ اپنے اوپر رحم کرو ، اپنے اوپر رحم نہ کرو ( تو) اُمتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  پر رحم کرو ، چرواہے کہلاتے ہو بھیڑئیے نہ بنو ۔ (فتاوی رضویہ جلد ۲۴ صفحہ ۱۳۲ - ۱۳۳) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی) ۔ پہلا جوابی مضمون اور ہم نے ادریس علیہ السلام کو بلند مکان پر اٹھا لیا ۔ مکمل مضمون اس لنک میں پڑھیں : https://faizahmadchishti.blogspot.com/2023/07/blog-post_85.html

اور ہم نے ادریس علیہ السلام کو بلند مکان پر اٹھا لیا

0 comments

 اور ہم نے ادریس علیہ السلام کو بلند مکان پر اٹھا لیا

محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَّرَفَعۡنٰهُ مَكَانًا عَلِيًّا ۔ (سورہ مريم آیت نمبر 57)

ترجمہ : اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا ۔


نوٹ : یہ مضمون بہت سے احباب نے ریاض شاہ پنڈوی کا کلپ بھیجا جس میں صراحتاً قرآنِ کریم کی معنوی تحریف کی گٸی ہے ۔اُن احباب نے اصرار فرمایا کہ اِس پر لکھیں ۔ فقیر نے اُن احباب کے حکم پر تمام معتبر کُتبِ تفاسیر و شروح احادیث کو دیکھا کسی نے آج تک یہ معنیٰ یا تفسیر مراد نہیں لی جو ریاض شاہ پنڈوی نے اپنی طرف سے تفسیر بالراۓ کر کے قرآنِ کی معنوی تحریف کر ڈالی حیرت اس بات پر ہے سننے والے اندھے بن کر واہ واہ کرتے نظر آۓ گویا سننے والے اس تحریف معنوی میں شامل ہیں ویڈیو کلپ ساتھ دیا جا رہا ہے ۔ مزید تفصیل درج ذیل ہے : ⬇


حضرت ادریس علیہ السلام کو بلند مکان پر اٹھا لینے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے آپ علیہ السلام کے مرتبے کی بلندی مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کوآسمان پر اٹھا لیا گیا ہے اور زیادہ صحیح یہی قول ہے کہ آپ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا گیا ہے ۔ (تفسیر خازن سورہ مریم آیت نمبر ۵۷ جلد ۳ صفح ۲۳۸)


حضرت ادریس علیہ السلام کا نام اخنوخ ہے ، حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں یہ پہلے شخص ہیں جن کو حضرت آدم اور شیث علیہما السلام کے بعد نبوت ملی ۔ امام ابن اسحاق نے ذکر کیا ہے کہ یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے قلم سے خط کھینچا ، انہوں نے حضرت آدم علیہ السلام کی حیات سے تین سو اٹھارہ سال پائے ۔ آپ علیہ السلام کا نام اخنوخ ہے اور آپ علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے والد کے دادا ہیں ۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد آپ ہی پہلے رسول ہیں ۔ آپ علیہ السلام کے والد حضرت شیث بن آدم علیہما السلام ہیں ۔ سب سے پہلے جس شخص نے قلم سے لکھا وہ آپ ہی ہیں ۔ کپڑوں  کو سینے اور سلے ہوئے کپڑے پہننے کی ابتدا بھی آپ ہی سے ہوئی ، آپ سے پہلے لوگ کھالیں  پہنتے تھے ۔ سب سے پہلے ہتھیار بنانے والے ، ترازو اور پیمانے قائم کرنے والے اور علمِ نُجوم اور علمِ حساب میں  نظر فرمانے والے بھی آپ ہی ہیں  اور یہ سب کام آپ ہی سے شروع ہوئے ۔  اللہ تعالیٰ نے آپ پر تیس صحیفے نازِل کیے اور  اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے صحیفوں  کا کثرت سے درس دینے کی وجہ سے آپ کا نام ادریس ہوا ۔ (تفسیر خازن جلد ۳ صفحہ ۲۳۸،چشتی)(تفسیر مدارکالتنزیل صفحہ ۶۷۷)(تفسیر روح البیان جلد ۵ صفحہ ۳۴۱)


حضرت ادریس علیہ السلام کے نام ، نسب اور زمانہ کے متعلق مورخین کو سخت اختلاف ہے اور تمام اختلافی وجوہ کو سامنے رکھنے کے بعد بھی کوئی فیصلہ کن یا کم ازکم راجح رائے نہیں قائم کی جا سکتی ، وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے تو اپنے مقصدِ رشد وہدایت کے پیش نظر تاریخی بحث سے جدا ہوکر صرف انکی نبوت ، رفعت مرتبت اور ان کی صفات عالیہ کا ذکر کیا ہے ۔ اسی طرح حدیثی روایات بھی اس سے آگے نہیں جاتیں ، اس لیے اس سلسلہ میں جو کچھ بھی ہے وہ اسرائیلی روایات ہیں اور وہ بھی تضاد و اختلاف سے معمور ، ایک جماعت کہتی ہے کہ وہ نوح علیہ السلام کے جدِ امجد ہیں ، اور ان کا نام اخنوخ ہے اور ادریس لقب ہے یا عربی زبان میں ادریس اور عبرانی یا سیریانی زبان میں ان کا نام اخنوخ ہے اور ان کا نسب نامہ یہ ہے : ⬇


خنوخ یا اخنوخ (ادریس) بن یارد بن مہلائیل بن قینان بن انوش بن شیث بن آدم علیہ السلام ، ابن اسحاق رحمة اللہ علیہ ، کا رجحان اسی جانب ہے اوردوسری جماعت کا خیال ہے کہ وہ انبیاۓ بنی اسرائیل میں سے ہیں اور الیاس و ادریس سب ایک ہی ہستی کے نام اور لقب ہیں ۔ ان دونوں روایتوں کے پیش نظر بعض علما نے یہ تطبیق دینے کی سعی کی ہے کہ جدِ نوح علیہ السلام کا نام اخنوخ ہے اور ادریس لقب اور بنی اسرائیل کے پیغمبر کا نام ادریس ہے اور الیاس لقب ، مگر یہ رائے بے سند اور بے دلیل ہے ، بلکہ قرآن کا الیاس اور ادریس کو جدا جدا بیان کرنا شاید اس کو متحمل نہ ہو سکے ۔

اس سلسلے میں نوٹس آپ کو اس مبحث کے بارے میں فتح الباری جلد ۶ صفحہ ۲۸۸ اور البدایۃ والنہایۃ ابن کثیر کی تاریخ میں ۳۷ ، ۳۶ پر دیکھے جا سکتے ہیں ۔


حافظ عماد الدین ابن کثیر ان روایات کے ساتھ یہ بھی نقل فرماتے ہیں کہ : بہت سے علمائے تفسیر و احکام کا یہ خیال ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام ہی پہلے شخص ہیں جنہوں نے رمل کے کلمات ادا کیے ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد ۱ صفحہ ۹۹) ۔ اور وہ ان کو (ہرمس) (الہراسہ) کا لقب دیتے ہیں اور ان کی جانب بہت سی غلط باتیں منسوب کرتے ہیں جس طرح ان کے علاوہ بہت سے انبیا علما حکما اور اولیا اللہ کے متعلق منسوب کی گئی ہیں ۔ ہرمن علم نجوم کے ماہر عالم کو کہتے ہیں اسلیئے ہرمس الہرامسہ کے معنی یہ ہیں کہ ماہرین علم نجوم کا استاذ اول، ہرمیس یونان کا ایک مشہور منجم بھی گزرا ہے ۔


معراج کی صحیحین والی حدیث (بخاری باب الاسرا ، مسلم جلد ۱ باب الاسرا) میں صرف اسی قدر ذکر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ادریس علیہ السلام سے چوتھے آسمان پر ملاقات کی ۔ مگر مشہور مفسر ابن جریر طبری علیہ الرحمہ نے اپنی تفسیر میں ہلال بن یساف کی سند سے ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کعب احبار سے دریافت کیا کہ حضرت ادریس علیہ السلام سے متعلق اس آیت ۔ (ورفعنٰہ مکاناً علیاً) کا کیا مطلب ہے ؟ تو کعب نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس علیہ السلام پر ایک مرتبہ یہ وحی نازل فرمائی ۔ اے ادریس علیہ السلام تمام اہل دنیا جس قدر روزانہ نیک عمل کریں گے ان سب کے برابر میں تجھ کو ہردن اجر عطا کروں گا ۔ حضرت ادریس علیہ السلام نے یہ سنا تو ان کی یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میرے اعمال میں روز افزوں اضافہ ہو اس لیے عمر کا حصہ طویل ہو جائے تو اچھا ہے ، انہوں نے وحی الٰہی اور اپنے اس خیال کو ایک رفیق فرشتہ پر ظاہر کر کے کہا کہ اس معاملہ میں فرشتہ موت سے گفتگو کرو تاکہ مجھ کو نیک اعمال کے اضافہ کا زیادہ سے زیادہ موقع ملے ، اس فرشتہ نے جب یہ سنا تو حضرت ادریس علیہ السلام کو اپنے بازوں میں بٹھا کر لے اڑا، جب یہ چوتھے آسمان سے گزر رہے تھے تو فرشتہ موت زمین کےلیے اتر رہا تھا وہیں دونوں کی ملاقات ہوئی ، دوست فرشتہ نے فرشتہ موت سے حضرت ادریس علیہ السلام کے معاملہ کے متعلق گفتگو کی ، فرشتہ موت نے دریافت کیا ۔ ادریس ہیں کہاں ؟ اس نے کہا میری پشت پر سوار ہیں ، فرشتہ موت کہنے لگا درگاہ الٰہی سے یہ حکم ہوا ہے کہ ادریس علیہ السلام کی روح چوتھے آسمان پر قبض کروں ، اس لیے میں سخت حیرت و تعجب میں تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے جبکہ ادریس علیہ السلام زمین میں ہیں ، اسی وقت فرشتہ موت نے ان کی روح قبض کرلی ۔ یہ واقعہ نقل کرکے کعب احبار نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد (ورفعنٰہ مکاناً علیاً) کی یہی تفسیر ہے ، ابن جریر کی طرح ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں اسی طرح کی روایت نقل کی ہے ۔ ان ہردو نقول کو روایت کرنے کے بعد حافظ عماد الدین ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ سب اسرائیلی خرافات ہیں اور ان میں روایتی اعتبار سے بھی (نکارت) یعنی ناقابل اعتباریت ہے ، اس لیے صحیح تفسیر وہی ہے جو آیت کے ترجمہ میں بیان کی گئی ۔


امام بخاری علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ منقول ہے کہ الیاس علیہ السلام کا نام ہی ادریس علیہ السلام ہے اور ان کے اس قول کی وجہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی وہ روایت ہے جو زہری رحمة اللہ علیہ نے معراج کے سلسلے میں بیان کی ہے اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور انبیا علیہم السلام کی آسمان پر ملاقات کا جو ذکر ہے اس میں کہا گیا ہے کہ جب آپ کی ملاقات حضرت ادریس علیہ السلام سے ہوئی تو انہوں نے فرمایا : مرحبا بالاخ الصالح (برادر نیک تمہارا آنا مبارک) پس اگر حضرت ادریس اخنوخ ہوتے تو حضرت آدم علیہ السلام و حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح (بالابن الصالح) کہتے یعنی نیک بھائی کی جگہ ۔ نیک بیٹے ۔ کے ساتھ خطاب کرتے ۔ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ دلیل کمزور ہے اس لیے کہ اول تو یہ امکان ہے کہ اس طویل حدیث میں راوی الفاظ کی پوری حفاظت نہ کر سکا ہو ، دوم ہو سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جلالت قدر اور رفعت مرتبت کے پیش نظر انہوں نے پدری انتساب کو نمایاں نہ کیا ہو اور ازراہ تواضع برادرانہ حیثیت کو ہی طاہر کرنا مناسب سمجھا ہو ۔


رہا حضرت آدم علیہ السلام و ابراہیم علیہ السلام کا معاملہ سو ایک ابوالبشر ہیں اور دوسرے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ جلیل القدر اور رفیع الشان پیغمبر جن کے متعلق قرآن نے کہا ہے : فاتبعوا ملۃ ابرٰھیم حنیفاً ۔۔ آل عمران ۹۵؛ لہٰذا ان کا (ابن) کے ساتھ خطاب کرنا ہرطرح موزوں اور برمحل ہے ۔


ابن کثیر نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ بعض کہتے ہیں کہ حضرت ادریس علیہ السلام ، حضرت نوح علیہ السلام سے قبل کے نبی نہیں ہیں بلکہ انبیا بنی اسرائیل میں سے ایک نبی ہیں اور الیاس ہی ادریس علیہ السلام ہیں ۔

تورات میں ان مقدس نبی کے متعلق صرف اسی قدر لکھا ہے ۔


اور حنوک (اخنوخ) پینسٹھ برس کا ہوا کہ اس سے متوشلح پیدا ہوا اور متوشلح کی پیدائش کے بعد حنوک تین سو برس ۳۰۰ خدا کے ساتھ چلتا تھا، اور اس سے بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئیں اور حنوک کی ساری عمر تین سو پینسٹھ برس کی ہوئی اور حنوک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا تھا، اور غائب ہوگیا ، اسلیئے کہ خدا نے اسے لے لیا ۔ (باب پیدائش ؛ آیت ۲۱، ۲۲ بائیبل)


علامہ جمال الدین قطفی نے تاریخ الحکما میں حضرت ادریس علیہ السلام کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے ، حضرت ادریس علیہ السلام کے متعلق علما تفسیر اور اربابِ تاریخ و قصص نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ بہت مشہور ہے ، اسلیئے اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں، البتہ حکما اور فلاسفہ نے خصوصیت کے ساتھ ان کے متعلق جو کچھ کہا ہے وہ پیش ِ خدمت ہے ۔

حضرت ادریس علیہ السلام کا مولد و منشا (جائے ولادت و پرورش) کہا ہے ، اور انہوں نے نبوت سے پہلے کس سے علم حاصل کیا؟ حکما اور فلاسفہ کے اقوال ان مسائل میں مختلف ہیں ۔

ایک فرقہ کی رائے ہے کہ ان کا نام ہرمس الہرامسہ ہے اور مصر کے قریہ منف میں پیدا ہوئے ، یونانی ہرمس کو ارمیس کہتے ہیں، ارمیس کے معنی عطارد ہیں ۔ اور دوسری جماعت کا خیال ہے کہ ان کا نام یونانی میں طرمیس ، عبرانی میں اخنوخ ہے ، اور قرآن مجید میں ان کو اللہ تعالیٰ نے ادریس کہا ہے یہی جماعت کہتی ہے کہ ان کے استاد کا نام غوثاذیمون یا اؑغوثا ذیمون (مصری) ہے ، وہ غوثا ذیمون کے متعلق اس سے زیادہ اور کچھ نہیں بتاتے کہ وہ یونان یا مصر کے انبیا علیہم السلام میں سے ایک نبی ہیں ، اور یہ جماعت ان کو ادرین دوم اور حضرت ادریس کو ادرین سوم کا لقب دیتی ہے، اور غوثا ذیمون کے معنی (سعد اور بہت نیک بخت) ہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہرمس نے مصر سے نکل کر اقطاع عالم کی سیر کی اور تمام دنیا کو چھان ڈالا اور جب مصر واپس ہوئے تواللہ تعالیٰ نے ان کو بیاسی سال کی عمر میں اپنی جانب اٹھا لیا ۔ ایک تیسری جماعت یہ کہتی ہے کہ ادریس علیہ السلام بابل میں پیدا ہوئے اور وہیں نشونما پائی اور اوائل عمر میں انہوں نے حضرت شیث بن آدم علیہ السلام سے علم حاصل کیا، علم کلام کے مشہور عالم علامہ شہرستانی کہتے ہیں کہ اغثاذیمون حضرت شیث علیہ السلام ہی کا نام ہے ۔


بہرحال حضرت ادریس علیہ السلام سن شعور کو پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت سے سرفراز فرمایا ۔ تب انہوں نے شریر اور مفسدوں کو راہِ ہدایت کی تبلیغ شروع کی مگر مفسدوں نے ان کی ایک نہ سنی اور حضرت آدم و شیث علیہما السلام کے مخالف ہی رہے ، البتہ ایک چھوٹی سی جماعت مشرف بہ اسلام ہو گئی ۔


حضرت ادریس علیہ السلام نے جب یہ رنگ دیکھا تو وہاں سے ہجرت کا ارادہ کیا اور اپنے پیرووں کو بھی ہجرت کی تلقین کی ، پیروانِ ادریس نے جب یہ سنا تو ان کو ترک وطن بہت شاق گزرا اور کہنے لگے کہ بابل جیسا وطن ہم کو کہاں نصیب ہو سکتا ہے ۔ حضرت ادریس علیہ السلام نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم یہ تکلیف اللہ کی راہ میں اٹھاتے ہو تو اس کی رحمت وسیع ہے وہ اس کا نعم البدل ضرور عطا کرے گی ، پس ہمت نہ ہارو اور خدا کے احکام کے سامنے سرنیازِجھکا دو ۔ مسلمانوں کی رضامندی کے بعد حضرت ادریس علیہ السلام اور ان کی جماعت مصر کی جانب ہجرت کرگئی، جماعت نے جب نیل کی روانی اور اسکی سرزمین کی شادابی دیکھی تو بہت خوش ہوئی ، اور حضرت ادریس علیہ السلام نے یہ دیکھ کر اپنی جماعت سے فرمایا ، بابلیون (تمہارے بابل کی طرح شاداب مقام) اور ایک بہترین جگہ منتخب کرکے نیل کے کنارے بس گئے حضرت ادریس علیہ السلام کے اس جملہ (بابلیون) نے ایسی شہرت پائی کہ عرب کے علاوہ قدیم اقوام بھی اس سرزمین کو بابیلون ہی کہنے لگیں ، البتہ عرب نے اس کا نام مصر بتایا اور اس کی وجہ تسمیہ یہ سنائی کہ طوفان نوح علیہ السلام کے بعد یہ مصر بن حام کی نسل کا مسکن و موطن بنا ہے ۔


ارمیس یا ہرمیس یونان کا ایک مشہور منجم اور ماہر فلکیات حکیم تھا اسی لیے اس کو ارمیس (عطارد کہتے تھے ، یونانی غلطی سے ادریس اور ارمیس کو ایک ہی شخص تسلیم کرتے ہیں حالانکہ ایسی فاش غلطی ہے جس کےلیے کوئی دلیل نہیں) ۔ بابل کے معنی نہر کے ہیں اور چونکہ بابل دجلہ وفرات کی نہروں سے سرسبز وشاداب تھا اس لیے اس نام سے موسوم ہو گیا ، یہ عراق کا مشہور شہر تھا جو فنا ہوگیا۔ عراق کہ جس کو قدیم میں میسوپوٹیمیا کہتے تھے ۔ جبکہ بابی لون کے معنی میں مختلف اقوال ہیں، مثلاً تمہاری طرح کی نہر ، مبارک نہر ، مگر سب سے بہتر قول یہ ہے کہ (یون) سریانی میں تفضیل کی علامت ہے اور معنی ہیں (بڑی نہر) ۔


حضرت ادریس علیہ السلام اور ان کے پیرو جماعت نے جب مصر میں سکونت اختیار کرلی تو یہاں بھی انہوں نے پیغامِ الٰہی اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض انجام دینا شروع کر دیا کہا جاتا ہے کہ ان کے زمانہ میں بہتر (۷۲) زبانین بولی جاتی تھیں ، اور اللہ تعالیٰ کی عطا و بخشش سے یہ وقت کی تمام زبانوں کے زبان دان تھے ، اور ہر ایک جماعت کو اسی کی زبان میں تبلیغ فرمایا کرتے تھے ۔


حضرت ادریس علیہ السلام نے دین الٰہی کے پیغام کے علاوہ سیاست ، مدن شہری زندگی اور بود و ماند کے متمدن طریقوں کی بھی تعلیم و تلقین کی اور اس کےلیے انہوں نے ہرایک فرقہ جماعت سے طلبہ جمع کیے اور ان کی مدنی سیاست اور اس کے اصول و قواعد سکھائے ، جب یہ طلبہ کامل و ماہرین بن کر اپنے قبائل کی طرف لوٹے تو انہوں نے شہر اور بستیاں آباد کیں جن کو مدنی اصول پر بسایا ، ان شہروں کی تعداد کم و بیش ۲۰۰ کے قریب تھی جن میں سے سب سے چھوٹا شہر (ربا یا رہا) تھا ، حضرت ادریس علیہ السلام نے ان طلبہ کو دوسرے علوم کی بھی تعلیم دی جس میں علم حکمت اور علم نجوم جیسے علوم بھی شامل ہیں ۔


حضرت ادریس علیہ السلام وہ پہلی ہستی ہیں جنہوں نے علم وحکمت اور نجوم کی ابتدا کی ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو افلاک اور ان کی ترکیب ، کواکب اور ان کے اجتماع وافتراق کے نقاط اور ان کے باہم کشش کے رموز و اسرار کی تعلیم دی ، اور ان کو علم عدد و حساب کا عالم بنایا ، اور اگر اس پیغمبرِ خدا کے ذریعہ ان علوم کا اکتشاف نہ ہوتا تو انسانی طبائع کی وہاں تک رسائی مشکل تھی ، انہوں نے مختلف گروہوں اور امتوں کےلیے ان کے مناسب حال قوانین و قواعد مقرر فرمائے اور اقطاعِ عالم کو چار حصوں میں منقسم کر کے ہر ربع کے لیئے ایک حاکم مقرر کیا جو اس حصہ زمین کی سیاست و ملوکیت کا ذمہ دار قرار پایا ، اور ان چاروں کےلیے ضروری قرار دیا کہ تمام قوانین سے مقدم شریعت کا وہ قانون رہے گا جس کی تعلیم وحی الٰہی کے ذریعے میں نے تم کو دی ہے ، اس سلسلہ کے سب سے پہلے چار بادشاہوں کے نام درج ذیل ہیں : ⬇


1 ۔ ایلاوس (بمعنی رحیم)

2 ۔ زوس

3 ۔ اسقلیبوس

4 ۔ زوسامون یا ایلاوس امون یا بسیلوس ۔


حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی ادریس ، سفید رنگ کے طویل القامت تھے اس کا سینہ چوڑا تھا اور جسم پر بال کم تھے اور سر پر بڑے بڑے بال تھے ، جب اللہ تعالیٰ نے زمین پر الہ زمین کا ظلم اور اللہ تعالیٰ کے احکام سے سرکشی دیکھی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو چھٹی آسمان کی طرف اٹھا لیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے و رفعنا مکانا علیا (مریم :57)۔(المستدرک جلد ٢ صفحہ 549 مطبوعہ دارالباز مکہ مکرمہ،چشتی)


علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی 1270 ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : حضرت ادریس، حضرت نوح سے پہلے نبی بنائے گئے تھے ، المستدرک میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کے درمیان ایک ہزار سال کا عرصہ تھا ، ان کا نام اخنوخ بن یرد بن مھلاییل بن انوش بن قینان بن شیث بن آدم (علیہم السلام) ہے۔ وھب بن منبہ سے روایت ہے کہ یہ حضرت نوح علیہ السلام کے دادا ہیں اور مشہور یہ ہے کہ یہ ان کے باپ کے دادا ہیں کیونکہ حضرت نوح لمک بن متوشلخ بن اخنوخ کے بیٹے ہیں ۔ حضرت ادریس وہ پہلے شخص ہیں جس نے ساتروں اور حساب میں غور و فکر کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو ان کے معجزات میں رکھا ، جیسا کہ البحر المحیط میں مذکور ہے اور وہ پہلے نبی ہیں جنہوں نے قلم کے ساتھ خط کھینچا ۔ کپڑے سیئے اور سلے ہوئے کپڑے پہنے اور وہ درزی تھے اور آپ سے پہلے لوگ جانوروں کی کھالوں سے جسم پوشی کرتے تھے اور حضرت آدم کے بعد ان کو سب سے پہلے نبی بنا کر بھیجا گیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر تیس صحیفے نازل کئے تھے اور وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اپنے اور تولنے کے آلات اور ہتھیار بنئاے اور بنو قابیل سے قتال کیا ، حضرت ابن مسعود سے ایک روایت ہے کہ وہ حضرت الیاس ہیں اور اعتماد پہلے قول پر ہے اور ادریس کا لفظ سریانی ہے اور یہ درس سے مشتق نہیں ہے کیونکہ غیر عربی کو عربی سے مشتق کرنے کا کسی نے قول نہیں کیا اور اگر یہ عربی سے مشتق ہوتا تو پھر غیر منصرف نہ ہوتا حالانکہ یہ غیر منصرف ہے، البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ سریانی زبان میں اس کا معنی عربی کے قریب ہوا اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ ان کا نام ادریس اس لئے ہے کہ یہ درس تدریس بہت کرتے تھے ۔ (تفسیر روح المعانی جز 16 صفحہ 153 - 154 مطبوعہ دارالفکر بیروت 1417 ھ،چشتی)


معاویہ بن الحکم سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے رمل کے خط کھینچنے کے متعلق سوال کیا آپ نے فرمایا : ایک نبی خط کھینچتے تھے پس جس کا خط ان کے خط کے موافق ہو جائے سو وہ درست ہے ۔ (مسند احمد رقم الحدیث :23823، دارالفکر، 24164، عالم الکتب،چشتی)(صحیح مسلم رقم الحدیث :537)(سنن ابودائود رقم الحدیث 930)(سنن النسائی رقم الحدیث 1218)(سنن الدارمی رقم الحدیث :1502) 


رمل ایک علم ہے جس میں ہندسوں اور خطوط وغیرہ کے ذریعہ غیب کی بات دریافتک رتے ہیں۔ نجوم، جوتش (فیروز اللغات صفحہ 718) زائچہ بنانے کو بھی رمل کہتے ہیں : زائچہ اس کا غذ کو کہتے ہیں جس کو نجومی بچے کی پیدائش کے وقت تیار کرتے ہیں ، اس میں ولادت کی تاریخ ، وقت ، ماہ و وسال وغیرہ درج ہوتا ہے اور وقت پیدائش کے مطابق اس کی ساری عمر کے نیک و بد کا حال بتلایا جاتا ہے ، کنڈلی ، جنم پتر ، رمل کی شکلیں جو مال قرعہ ڈال کر بناتے ہیں ، لگن کنڈلی کھینچنا ، جنم پتری بنانا ۔ (قائد اللغات صفحہ 551) 


قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی متوفی 544 ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : یہ وہ خطوط ہیں جن کو نجومی کھینچتے تھے اور اب لوگوں نے ان کو ترک کردیا ہے ، نجوم نرم زمین پر جلدی جلدی خطوط کھینچتا تاکہ ان کو گنا نہ جاسکے پھر واپس آ کردو دو خط مٹاتا اگر دو خط باقی رہ جاتے تو یہ کامیابی کی علامت تھی اور اگر ایک خط باقی رہ جاتا تو یہ ناکامی کی علامت تھی۔ مکی نے اس کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ وہ نبی اپنی انگشت شہادت اور انگشت وسطی سے ریت پر خط کھینچتے تھے، اب ان کی نبوت منقطع ہوچکی ہے اس لیے اب یہ جائز نہیں ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ظاہر قول کا معنی بھی یہ ہے کہ ہماری شریعت میں یہ منسوخ ہے ۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم جلد ٢ صفحہ 464 مطبوعہ دارالوفاء بیروت 1419 ھ،چشتی)


علامہ ابوسلیمان خطابی متوفی 388 ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ابن الاعربای نے اس کی یہ تفسیر کی ہے کہ ایک شخص نجومی کے پاس جاتا اس کے سامنے ایک لڑکا ہوتا وہ اس کو کہتا کہ ریت میں بہت سے خطوط کھینچو، پھر کچھ کلمات پڑھ کر اس سے کہتا کہ ان خطوط میں سے دو دو خط مٹائو، پھر دیکھتا اگر آخر میں دو خط بچ گئے تو وہ کامیابی کی علامت ہوتی اور اگر آخر میں ایک خط بچتا تو وہ ناکامی کی علامت ہوتی ۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو فرمایا ہے جس کا خط اس نبی کے خط کے موافق ہو گیا اس میں اس سے منع کرنے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اس نبی کی نبوت منقطع ہو چکی ہے اور ان کے خط کھینچنے کے طریقہ کو جاننے کا اب کوئی ذریعہ نہیں ہے ۔ (معالم السنن جلد ١ صفحہ 437 مع مختصر سنن ابو دائود جلد ١ صفحہ 437 دارالمعرفتہ بیروت)


علامہ یحییٰ بن شرف نووی شافعی متوفی 676 ھ علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ : آپ کا مقصود یہ ہے کہ رمل حرام ہے کیونکہ موافقفت کے یقین کے بغیر یہ جائز نہیں ہے اور ہمارے پاس اس یقین کے حصول کا کوئی ذریعہ نہیں ہے ۔ (صحیح مسلم بشرح النوادی صفحہ 1807 مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ 1417 ھ) 


ملا علی بن سلطان محمد القاری المتوفی 1014 ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس نبی کا ذکر کیا ہے وہ حضرت ادریس یا دانیال علیہما السلام تھے ۔ (المرقات جلد ٣ صفحہ ٤ مطبوعہ مکتبہ امداد یہ ملتان، 1390 ھ)


علامہ ابوالسعادات المبارک بن محمد ابن الاثیر الجزرری المتوفی 606 ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : میں کہتا ہوں جس خط کی طرف حدیث میں اشارہ کیا گیا ہے وہ مشہور و معروف علم ہے اور لوگوں کی اس میں بہت تصافیف ہیں اور اس علم پر اب بھی عمل کیا جاتا ہے ۔ ان کی اس میں بہت سی اصطلاحات اور بہت سے نام ہیں اس علم سے وہ دل کے حلا ات وغیرہ معلوم کر لیتے ہیں اور بعض اوقات وہ صحیح بات معلوم کرلیتے ہیں ۔ (النہایہ جلد ٢ صفحہ 45 - 46 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1418 ھ)


اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس علیہ السلام کے متعلق فرمایا : ہم نے ان کو بلند جگہ پر اٹھا لیا (سورہ مریم آیت نمبر 57) صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چوتھے آسمان کے پاس سے گزرے تو وہاں حضرت ادریس علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ۔ 


امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : ھلال بن یساف بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے میرے سامنے کعب سے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے جو حضرت ادریس علیہ السلام کے متعلق فرمایا ہے ورفعناہ مکانا علیا ہم نے ان کو بلند جگہ پر اٹھا لیا اس کا کیا مطلب ہے ؟ کعب نے کہا حضرت ادریس کی طرف اللہ نے یہ وحی کی کہ میں ہر روز تمہارے اتنے عمل بلند کروں گا جتنے تمام بنو آدم کے اعمال ہیں تو تم زیادہ عمل کرنے سے محبت رکھو ، پھر فرشتوں میں سے حضرت ادریس کے ایک دوست ان کے پاس آئے تو حضرت ادریس نے ان کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف اس طرح وحی کی ہے تو تم ملک الموت سے کہو کہ وہ میری روح قبض کرنے کو مئوخر کر دے تاکہ میں اور زیادہ عمل کروں ، وہ فرشتہ حضرت ادریس کو اپنے پروں پر بٹھا کر آسمان پر چڑھ گیا جب وہ چوتھے آسمان پر پہنچا تو ملک الموت نیچے اتر رہے تھے تو اس فرشتہ نے ملک الموت سے وہ بات کہی جو حضرت ادریس نے اس سے کہی تھی ملک الموت نے کہا ادریس کہاں ہیں ؟ اس فرشتہ نے کہا وہ میری پیٹھ پر ہیں ۔ ملک الموت نے کہا حیرت کی بات ہے مجھے ادریس کی روح قبض کرنے کے لئے چوتھے آسمان پر بھیجا گیا ہے اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ میں ان کی روح چوتھے آسمان پر کیسے قبض کروں گا وہ تو زمین پر ہیں، پھر انہوں نے چوتھے آسمان پر حضرت ادریس کی روح قبض کرلی ۔ (جامع البیان رقم الحدیث :17917، مطبوعہ بیروت 1415 ھ)


حافظ ابن کثیر نے اس حدیث کو ذکر کر کے لکھا ہے کہ : یہ حدیث اسرائیلیات سے ہے اور اس کی بعض عبارت میں نکارت ہے (یعنی ناقابل یقین باتیں ہیں) مجاہد سے اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو انہوں نے کہا حضرت ادریس کو آسمان پر اٹھا لیا گیا اور ان کو موت نہیں آئی جیسے حضرت عیسیٰ کو اٹھا لیا گیا۔ اگر ان کی مراد یہ ہے کہ ان کو ابھی تک موت نہیں آئی تو یہ محل نظر ہے اور اگر اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ ان کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا اور پھر وہاں ان کی روح قبض کرلی گئی تو پھر یہ کعب کی روایت کے منافی نہیں ہے ۔ عوفی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ حضرت ادیرس کو چھٹے آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا اور وہیں ان کی روح قبض کرلی گی اور جو حدیث متفق علیہ ہے وہ یہ ہے کہ وہ چوتھے آسمان میں ہیں، حسن بصری نے کہا وہ جنت میں ہیں ۔ امام بخای نے حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ الیاس ہی ادریس ہیں اور معراج کی حدیث میں بیان کیا ہے کہ جب آپ حضرت ادریس علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو انہوں نے کہا نیک بھائی اور نیک نبی کو مرحبا ہو، اور جس طرح حضرت آدم اور حضرت ابراہیم نے کہا تھا نیک بیٹے کو مرحبا ہو اس طرح نہیں کہا اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ادریس آپ کے اجداد میں سے نہیں ہیں، لیکن یہ کوئی قطعی دلیل نہیں ہے ہوسکتا ہے انہوں نے تواضعاً آپ کو بھائی کہا ہو اور بیٹا نہ کہا ہو ۔ (البدایہ والنہایہ جلد 3 صفحہ 158, 160، مطبوعہ دارالفکر بیروت 1418 ھ)


امام ابن جریر نے مجاہد علیہما الرحمہ نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت ادریس چوتھے آسمان میں ہیں ۔ حضرت انس اور قتادہ سے بھی یہی روایت ہے اور صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی اسی طرح ہے ۔ (جامع البیان جز 16 صفحہ 121-122 مطبوعہ دارالفکر بیروت)


امام عبدالرحمٰن بن علی بن محمد جوزی متوفی 597 ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : زید بن اسلم رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کیا ہے آپ نے فرمایا : جیسے اور بنو آدم کے اعمال اوپر چڑھائے جاتے ہیں اسی طرح حضرت کے اعمال بھی اور چڑھائے جاتے تھے ۔ ملک الموت کو ان سے محبت ہوگئی۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے ان کی دوستی کی اجازت لی اور آدمی کی صورت میں زمین پر آگئی اور ان کے ساتھ رہنے لگے، جب حضرت ادریس کو معلوم ہوگیا کہ یہ عزرائیل ہیں تو ایک دن ان سے کہا مجھے آپ سے ایک کام ہے، پوچھا کیا کام ہے، کہا مجھے موت کا ذائقہ چکھائیں، میں چاہتا ہوں کہ مجھے اس کی شدت کا پتا چلے تاکہ میں اس کی تیاری کروں، اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ ان کی روح ایک ساعت کے لئے قبض کرلو، پھر چھوڑ دینا۔ ملک الموت نے اسی طرح کیا، پھر ملک الموت نے پوچھا آپ نے موت کو کیسا پایا۔ تو انہوں نے کہا میں نے موت کے متعلق جتنا سنا تھا اس سے زیادہ سخت پایا۔ پھر ان سے کہا میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے دوزخ دکھائیں، ملک الموت ان کو لے کر گئے اور ان کو دوزخ دکھا دی، پھر کہا میں چاتہا ہوں کہ آپ مجھے جنت دکھائیں، انہوں نے جنت دکھا دی، حضرت ادریس جنت میں داخل ہو کر گھومنے لگے، پھر ملک الموت نے کہا اب آپ باہر نکلیں، حضرت ادریس نے کہا اللہ کی قسم ! میں باہر نہیں نکلوں گا حتی کہ اللہ تعالیٰ مجھے باہر نکلنے کا حکم دے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے ایک فرشتہ بھیجا اس نے ملک الموت سے پوچھا آپ کیا کہتے ہیں تو انہوں نے پورا قصہ بیان کیا۔ پھر حضرت ادریس نے کہا آپ کیا کہتے ہیں تو انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کل نفس ذائقۃ الموت (آل عمران :185) ، ہر نفس موت کو چکھنے والا ہے اور میں نے موت کو چکھ لیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وان منکم الاواردھا (مریم :171) ” تم میں سے ہر شخص جہنم پر وارد ہوگا “ اور میں دوزخ پر وارد ہوچکا ہوں، اور اللہ تعالیٰ نے اہل جنت سے فرمایا : وما ھم منھا بمخرجین (الحجر :48) ’ دوہ جنت سے نکالے نہیں جائیں گے “ پس اللہ کی قسم میں جنت سے باہر نہیں نکلوں گا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت سے باہر نکلنے کا حکم دے۔ پھر اوپر سے ایک ہاتف کی آواز آئی یہ میرے اذن سے داخل ہوا ہے اور اس نے جو کچھ کیا ہے وہ میرے حکم سے کیا ہے اس کا راستہ چھوڑ دو ۔ امام ابن جوزی فرماتے ہیں اگر یہ اعتراض ہو کہ حضرت ادریس کو ان آیات کا کیسے علم ہوا یہ تو و ہماری کتاب میں ہیں تو ابن الانباری نے بعض علماء سے اس کا یہ جواب ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس کو ان باتوں کا علم دے دیا تھا جو قرآن میں ہیں کہ ہر شخص نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور ہر شخص کا دوزخ سے گزر ہوگا اور اہل جنت کو جنت سے نکالا نہیں جائے گا ۔ (زاد المسیر ج ٥ ص 241-242،معالم المتنزیل ج و ص 167،الجامع لاحکام القرآن جز ١ ۃ ص 43-44،الدرا المنثورج ٥ ص 519-521،روح المعانی جز ١١ ص 155-156 تفسیر ابوالسعود ج ٤ ص 246)


قرآن مجید میں ہے ورفعناہ مکانا علیا (مریم :57) ” ہم نے ادریس کو بلند جگہ پر اٹھا لیا “ بعض علماء نے کہا اس سے کسی جگہ پر اٹھانا مراد نہیں ہے حتیٰ کہ حضرت ادیرس کا آسمان پر ہونا لازم آئے بلکہ اس سے مراتب کی بلندی مراد ہے یعنی ان کے درجات کو بلند کیا ۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے یہی معنی کیا ہے لیکن اس پر یہ اعتراض ہے کہ قرآن مجید میں ہے ہم نے ان کو بلند جگہ پر اٹھا لیا اور یہ درجات کی بلندی کے منافی ہے ۔


کعب کی روایت میں ہے کہ حضرت ادریس کی روح چھٹے آسمان پر قبض کرلی گئی۔ حضرت ابن عباس کا بھی یہی قول بنے مجاہد اور حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ وہ چوتھے آسمان پر ہیں اور زید بن اسلم نے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ حضرت ادریس جنت میں زندہ ہیں ۔


امام الحسین بن مسعود بغوی متوفی 516 ھ علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : اس میں اختلاف ہے کہ حضرت ادریس آسمان پر ندہ ہیں یا فوت شدہ ہیں، بعض نے کہا وہ فوت شدہ ہیں اور بعض نے کہا وہ زندہ ہیں۔ انہوں نے کہا چار نبی زندہ ہیں دو زمین پر ہیں خضر اور الیاس اور دو آسمان میں ہیں ادریس اور عیسیٰ علیہم السلام ۔ (معالم التنزیل ج ٣ ص 167، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1414 ھ،چشتی)


امام رازی متوفی 606 ھ اور علامہ ابوالحیان اندلسی متوفی 754 ھ علیہما الرحمہ نے لکھا ہے کہ : ایک فرشتہ ان کا دوست تھا وہ ان کو چوتھے آسمان پر لے گیا وہاں ان کی روح قبض کرلی گئی ۔ (تفسیر کبیرج ج ٧ ص 550،البحر المحیط ج ٧ ص 276)


قاضی بیضاوی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ مکاناً علیا سے مراد ہے ان کو شرفِ نبوت اور مقامِ قرب عطا کیا گیا ، ایک قول یہ ہے کہ وہ جنت میں ہیں ایک قول یہ ہے کہ وہ چھٹے آسمان میں ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ وہ چوتھے آسمان میں ہیں ۔ (تفسیر البیضاوی مع عنایتہ القاضی جلد ٦ صفحہ 285 - 286 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1417 ھ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Sunday 30 July 2023

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت و بغض مومن و منافق کی پہچان

0 comments
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت و بغض مومن و منافق کی پہچان
 محترم قارئینِ کرام : حضرت مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت و تکریم سے عاری دل ، سوائے منافقت خانے کے اور کچھ نہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ وعنھم تو منافقین کی پہچان ہی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا نام لے کر کرتے تھے ۔ جس کے چہرے پر مولا علی رضی اللہ عنہ کا نام سن کر خوشی آجاتی ، سمجھ جاتے وہ مومن ہے ۔ اور جس کے چہرے پر تنگی ، کڑواہٹ ، بغض و عداوت ، تکلیف و پریشانی کے آثار نمایاں ہوجاتے ہیں (جیسے آج بھی بعض حضرات کے چہروں پر ذکرِ و فضائلِ مولا علی رضی اللہ عنہ سے تکلیف کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور ان کی توانائیاں اس موضوع سے توجہ ہٹانے کے لیے فوراً حرکت میں آجاتی ہیں) صحابہ کرام رضوان اللہ علھم اجمعین سمجھ جاتے تھے کہ یہ منافق ہے ۔

علی ہیں‌ اہل بیت مصطفی میں‌ یہ روایت ہے
وہی ہے مومن کامل جسے اُن سے محبت ہے

(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، رضی اللہ تعالیٰ عنہم)

عَنْ زِرٍّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : وَالَّذِيْ فَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَأَ النَّسْمَةَ إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَيَّ أَنْ لَا يُحِبَّنِيْ إِلاَّ مُؤْمِنٌ وَّ لَا يُبْغِضَنِيْ إِلَّا مُنَافِقٌ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ ۔
ترجمہ : حضرت زر بن حبیش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو پھاڑا (اور اس سے اناج اور نباتات اگائے) اور جس نے جانداروں کو پیدا کیا ، حضور نبی امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مجھ سے عہد ہے کہ مجھ سے صرف مومن ہی محبت کرے گا اور صرف منافق ہی مجھ سے بغض رکھے گا ۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الدليل علي أن حب الأنصار و علي من الإيمان، 1 / 86، الحديث رقم : 78،چشتی، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 367، الحديث رقم : 6924، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 47، الحديث رقم : 8153، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 365، الحديث رقم : 32064،چشتی،وأبويعلي في المسند، 1 / 250، الحديث رقم : 291، و البزار في المسند، 2 / 182، الحديث رقم : 560، و ابن ابي عاصم في السنة، 2 / 598، الحديث رقم : 1325)

عَنْ عَلِيٍّ : قَالَ لَقَدْ عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ صلي الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ لَا يُحِبُّکَ إِلاَّ مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُکَ إِلاَّ مُنَافِقٌ . قَالَ عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ أَنَا مِنَ الْقَرْنِ الَّذِيْنَ دَعَالَهُمُ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ . وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ ۔
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے عہد فرمایا کہ مومن ہی تجھ سے محبت کرے گا اور کوئی منافق ہی تجھ سے بغض رکھے گا ۔ عدی بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس زمانے کے لوگوں میں سے ہوں جن کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی ہے ۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ (أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب 5 / 643، الحديث رقم : 3736، چشتی)

عَنْ بُرَيْدَةَ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إنَّ ﷲ أَمَرَنِيْ بِحُبِّ أَرْبَعَةٍ، وَأخْبَرَنِيْ أنَّهُ يُحِبُّهُمْ. قِيْلَ : يَا رَسُوْلَ ﷲِ سَمِّهُمْ لَنَا، قَالَ : عَلِيٌّ مِنْهُمْ، يَقُوْلُ ذَلِکَ ثَلَاثاً وَ أَبُوْذَرٍّ، وَالْمِقْدَادُ، وَ سَلْمَانُ وَ أَمًرَنِيْ بِحُبِّهِمْ، وَ أَخْبَرَنِيْ أَنَّّهُ يُحِبُّهُمْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ ابْنُ مَاجَةَ ۔ وَ قَالَ التِّرْمِذِيُّ. هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ ۔
ترجمہ : حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ﷲ تعالیٰ نے مجھے چار آدمیوں سے محبت کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ﷲ بھی ان سے محبت کرتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا یا رسول ﷲ ! ہمیں ان کے نام بتا دیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا کہ علی بھی انہی میں سے ہے ، اور باقی تین ابو ذر ، مقداد اور سلمان ہیں ۔ راوی کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ان سے محبت کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں بھی ان سے محبت کرتا ہوں ۔ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن ہے ۔ (أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، 5 / 636، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، الحديث رقم : 3718، وابن ماجة في السنن، مقدمه، فضل سلمان وأبي ذرومقداد، الحديث رقم : 149، وأبونعيم في حلية الاولياء، 1 / 172)

عَنْ أَبِيْ سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ إِنَّا کُنَّا لَنَعْرِفُ الْمُنَافِقِيْنَ نَحْنُ مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ بِبُغْضِهِمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِيْ طَالِبٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم انصار لوگ ، منافقین کو ان کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بغض کی وجہ سے پہچانتے تھے ۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 635، الحديث رقم : 3717، و أبو نعيم في حلية الاولياء، 6 / 295، چشتی)

عَنِ أُمِّ سَلَمَةَ تَقُوْلُ : کَانَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : لَا يُحِبُّ عَلِيًّا مُنَافِقٌ وَلَا يُبْغِضُهُ مُؤْمِنٌ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.وَقَالَ. هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ ۔
ترجمہ : حضرت ام سلمہ رضی ﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ کوئی منافق حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت نہیں کرسکتا اور کوئی مومن اس سے بغض نہیں رکھ سکتا ۔ اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے ۔ (أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 635، الحديث رقم : 3717، و أبويعلي في المسند، 12 / 362، الحديث رقم : 6931 و الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 375، الحديث رقم : 886، چشتی)

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ ﷲِ قَالَ : وَاللّٰهِ مَاکُنَّا نَعْرِفُ مُنَافِقِيْنَا عَلٰي عَهْدِ رَسُوْلِ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَّا بِبُغْضِهِمْ عَلِيًّا . رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ ۔
ترجمہ : حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اپنے اندر منافقین کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض کی وجہ سے ہی پہچانتے تھے ۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں بیان کیا ہے ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 264، الحديث رقم : 4151، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 132، چشتی)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : إِنَّمَا دَفَعَ ﷲُ الْقُطْرَ عَنْ بَنِيْ إِسْرَئِيْلَ بِسُوْءِ رَأْيِهِمْ فِي أَنْبِيَائِهِمْ وَ إِنَّ ﷲَ يَدْفَعُ الْقُطْرَ عَنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ بِبُغْضِهِمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِيْ طَالِبٍ. رَوَاهُ الدَّيْلِمِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ﷲ تعالی نے بنی اسرائیل سے ان کی بادشاہت انبیاء کرام علیھم السلام کے ساتھ ان کے برے سلوک کی وجہ سے چھین لی اور بے شک ﷲ تبارک و تعالیٰ اس امت سے اس کی بادشاہت کو علی کے ساتھ بغض کی وجہ سے چھین لے گا ۔ اس حدیث کو دیلمی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 1 / 344، الحديث رقم : 1384، والذهبي في ميزان الاعتدال في نقد الرجال، 2 / 251)

حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما میں ہونے والے اختلاف اور معافی ، کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے دے دی تھی ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مولا علی رضی عنہ سے محبت کرتے تھے ۔ (تفسیر در منثور جلد 1 صفحہ 831 مترجم اردو)

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی بر حق ہے ۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ امت کے دو گروہوں میں صلح کروائیں گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر دی حق ہے ۔ اسی طرح دیگر صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کے متعلق خبریں بر حق ہیں ۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ہونے والی رنجش و اختلاف اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی کی خبر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی اس فرمان کے بعد اس پر کیچڑ اچھالنے والے ، توہین کرنے والے اور اعتراضات کرنے والے کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان اقدس کی توہین نہیں کر رہے ؟ اے اہل ایمان سوچیے اور فیصلہ کیجیے اللہ ہمیں اہلبیت اطہار اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ادب کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور بے ادبی سے بچائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

ذکرِ شھادتِ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ پر رونا

0 comments
ذکرِ شھادتِ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ پر رونا
محترم قارئینِ کرام : شہادتِ حضرت سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ تاریخ انسانی کا ایک غیر معمولی واقعہ ہے کہ پیغمبر کے پیروکاروں نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے کو بیدردی سے شہید کر کے اس کا سرِ اقدس نیزے پر سجایا ۔ یہی نہیں خاندانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شہزادوں اور اصحاب حسین رضی اللہ عنہم کو بھی اپنے انتقام کا نشانہ بنا کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ ان کا جرم یہ تھا کہ وہ ایک فاسق اور فاجر کی بیعت کر کے دین میں تحریف کے مرتکب نہیں ہوئے تھے ، انہوں نے اصولوں پر باطل کے ساتھ سمجھوتے سے صاف انکار کردیا تھا ۔ انہوں نے آمریت اور ملوکیت کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے سے انکار کر دیا تھا ، انہوں نے انسان کے بنیادی حقوق کے غاصبوں کی حکومت کی توثیق کرنے کی بزدلی نہیں دکھائی تھی ۔ حسین ابن علی رضی اللہ عنہ اور ان کے 72 جان نثاروں کے خون سے کربلا کی ریت ہی سرخ نہیں ہوئی ، بلکہ اس سرخی نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ واقعۂ کربلا کا غم ہر مسلمان کے دل میں ہونا چاہیے اور یہ اہل بیت رضی اللہ عنہم سے محبت کی علامت ہے۔ مگر شریعت محمدی ہمیں صبر کا درس دیتی ہے ۔ لہٰذا اس غم کا اظہار مرثیہ و ماتم اور چیخیں مار کر رونے کی صورت وغیرہ میں نہیں ہونا چاہیے ۔ جسے اس واقعۂ کربلا کا غم نہیں اس کی محبت اہل بیت رضی اللہ عنہم سے ناقص اور جس کی محبت اہل بیت رضی اللہ عنہم سے ناقص ہے اس کا ایمان ناقص ہے ۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : کون سا سنی ہوگا جسے واقِعۂ ہائلۂ کربلا (یعنی کربلا کے خوف ناک قصّے) کاغم نہیں یا اُس کی یاد سے اس کا دل محزون (یعنی رنجیدہ) اور آنکھ پُرنم (یعنی اشک بار) نہیں ، ہاں مصائب (یعنی مصیبتوں)میں ہم کو صبر کاحکم فرمایا ہے ، جزع فزع (یعنی رونے پیٹنے) کو شریعت منع فرماتی ہے ، اور جسے واقعی دل میں غم نہ ہو اُسے جھوٹا اظہارِغم رِیا ہے اور قصداً غم آوری وغم پروری (یعنی جان بوجھ کر غم کی کیفیت پیدا کرنا اور غم پالے رہنا) خلاف رِضاہے جسے اس کاغم نہ ہو اسے بے غم نہ رہناچاہئے بلکہ اس غم نہ ہونے کا غم چاہیے کہ اس کی محبت ناقص ہے اور جس کی محبت ناقص اس کاایمان ناقص ہے ۔ اعلیٰ حضرت سے سوال ہوا کہ میلاد شریف میں شہادت کا بیان اور نوحہ اشعاروں کے پڑھتے ہی میلاد خواں خود روتے ہیں اور دوسروں کو بھی رلاتے ہیں مثال کی زینب کلثوم صغریٰ وغیرہ وغیرہ اس طرح سے پڑھتی تھیں اور روتی تھیں یعنی اس طرح پڑھنا جائز ہے یا نہیں ۔ تو اس جواب میں امام اہلسنت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : نوحہ ماتم حرام ہے ، بیان شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ ناجائز طور پر جاہلوں میں رائج ہے خود ہی ممنوع اور مجلس میلاد مبارک میں کہ مجلس سرور عالم کے ساتھ اسکا ملانا اور حماقت ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ۲۴ صفحہ ۴۸۹ ، ۴۸۸) رضا فاؤنڈیشن لاہور)

 لہٰذا ذکرِ شھادتِ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سن کر دل میں غم رکھے ۔ زور سے چیخیں مار کر رونا چلانا منع ہے ۔

محدثین علیہم الرحمہ بیان کرتے ہیں کہ امام عالی مقام کی شہادت پر نہ صرف دنیا روئی ، زمین و آسمان نے بھی آنسو بہائے ، شہادت حسین پر آسمان بھی نوحہ کناں تھا انسان تو انسان جنات نے بھی مظلوم کربلا کی نوحہ خوانی کی ۔ محدثین بیان کرتے ہیں کہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شہادت کے وقت بیت المقدس میں جو پتھر اٹھایا گیا اس کے نیچے سے خون نکلا ، شہادت حسین کے بعد ملک شام میں بھی جس پتھر کو ہٹایا گیا اس کے نیچے سے خون کا چشمہ ابل پڑا ۔ محدثین علیہم الرحمہ کا کہنا ہے کہ شہادت حسین پر پہلے آسمان سرخ ہوگیا ۔ پھر سیاہ ہو گیا ۔ ستارے ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے یوں لگتا تھا جیسے کائنات ٹکرا کر ختم ہوجائے گی یوں لگا جیسے قیامت قائم ہوگئی ہو دنیا پر اندھیرا چھا گیا ۔

امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ روایت نقل فرماتے ہیں : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْرَائِيلَ قَالَ: رَأَيْتُ فِي كِتَابِ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ بِخَطِّ يَدِهِ : نا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ قثنا الرَّبِيعُ بْنُ مُنْذِرٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ : كَانَ حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ يَقُولُ : مَنْ دَمَعَتَا عَيْنَاهُ فِينَا دَمْعَةً ، أَوْ قَطَرَتْ عَيْنَاهُ فِينَا قَطْرَةً ، أَثْوَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْجَنَّةَ ۔
ترجمہ : منذر بیان کرتے ہیں امام حسین رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے : جس کی آنکھ سے ایک قطرہ آنسو ہمارے غم میں ٹپک پڑا اللہ عزوجل اسے جنت میں جگہ دے گا ۔ (فضائل صحابہ رضی اللہ عنہم حدیث نمبر 1154)

امام طبرانی علیہ الرحمہ نے ابوقبیل سے سند حسن کے ساتھ روایت کیا ہے کہ : لما قتل الحسين بن علي انکسفت الشمس کسفة حتي بدت الکواکب نصف النهار حتي ظننا أنهاهي ۔
ترجمہ : جب سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا تو سورج کو شدید گہن لگ گیا حتی کہ دوپہر کے وقت تارے نمودار ہو گئے یہاں تک کہ انہیں اطمینان ہونے لگا کہ یہ رات ہے ۔ (مجمع الزوائد، 9 : 197)(معجم الکبير حدیث نمبر 2838)

امام طبرانی علیہ الرحمہ نے معجم الکبیر میں جمیل بن زید سے روایت کی ہے انہوں نے کہا : لما قتل الحسين احمرت السماء ۔
ترجمہ : جب حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا تو آسماں سرخ ہو گیا ۔ (معجم الکبير، ح : 2837،چشتی)(مجمع الزوائد، 9 : 197)

عیسی بن حارث الکندی علیہ الرحمہ سے مروی ہے کہ : لما قتل الحسين مکثنا سبعة أيام اذا صلينا العصر نظرنا الي الشمس علي أطراف الحيطان کأنها الملاحف المعصفرة و نظرنا إلي الکواکب يضرب بعضها بعضاً ۔
ترجمہ : جب امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا گیا تو ہم سات دن تک ٹھہرے رہے جب ہم عصر کی نماز پڑھتے تو ہم دیواروں کے کناروں سے سورج کی طرف دیکھتے تو گویا وہ زرد رنگ کی چادریں محسوس ہوتا اور ہم ستاروں کی طرف دیکھتے ان میں سے بعض، بعض سے ٹکراتے ۔ (معجم الکبير حدیث نمبر 2839)

امام طبرانی علیہ الرحمہ نے معجم الکبیر میں محمد بن سیرین سے روایت کی ہے ۔ فرماتے ہیں : لم يکن في السماء حمرة حتي قتل الحسين ۔
ترجمہ : حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت آسمان پر سرخی چھائی رہی ۔ (معجم الکبير، ح : 2840)(مجمع الزوائد، 9 : 197)

امام طبرانی علیہ الرحمہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کرتے ہیں ۔ سیدہ فرماتی ہیں : سمعت الجن تنوح علی الحسين بن علی رضی اللہ عنهما ۔
ترجمہ : میں نے جنوں کو سنا کہ وہ حسین بن علی کے قتل پر نوحہ کر رہے ہیں ۔ (معجم الکبير، ح : 2862، 2867،چشتی)(مجمع الزوائد 9 : 199)

امام طبرانی نے زھری علیہما الرحمہ سے روایت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : لما قتل الحسين بن علی رضی اللہ عنہما لم يرفع حجر بيت المقدس الا وجد تحته دم عبيط ۔
ترجمہ : جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا تو بیت المقدس کا جو پتھر بھی اٹھایا جاتا اس کے نیچے تازہ خون پایا گیا ۔ (معجم الکبير، 3، ح : 2834)

امام طبرانی نے امام زہری علیہما الرحمہ سے اس قسم کی ایک اور روایت بھی نقل کی ہے ۔ انہوں نے کہا : مارفع حجر بالشام يوم قتل الحسين بن علی الاعن دم ۔
ترجمہ : شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ کے دن شام میں جو بھی پتھر اٹھایا جاتا تو وہ خون آلود ہوتا ۔ (معجم الکبير، ح : 2835)(مجمع الزوائد، 9 : 194)

عن أبی أمامة قال قال رسول الله صلی الله علیه و آلہ وسلم لنسائه لا تبکوا هذا الصبی یعنی حسینا قال وکان یوم أم سلمة فنزل جبریل فدخل رسول الله صلی الله علیه و آلہ وسلم الداخل وقال لام سلمة لا تدعی أحدا أن یدخل علی فجاء الحسین فلما نظر إلی النبی صلی الله علیه وسلم فی البیت أراد أن یدخل فأخذته أم سلمة فاحتضنته وجعلت تناغیه وتسکنه فلما اشتد فی البکاء خلت عنه فدخل حتی جلس فی حجر النبی صلی الله علیه وسلم فقال جبریل للنبی صلی الله علیه وسلم إن أمتک ستقتل ابنک هذا فقال النبی صلی الله علیه وسلم یقتلونه وهم مؤمنون بی قال نعم یقتلونه فتناول جبریل تربة فقال بمکان کذا وکذا فخرج رسول الله صلی الله علیه وسلم قد احتضن حسینا کاسف البال مغموما فظنت أم سلمة أنه غضب من دخول الصبی علیه فقالت یا نبی الله جعلت لک الفداء انک قلت لنا لا تبکوا هذا الصبی وأمرتنی ان لا أدع أحدا یدخل علیک فجاء فخلیت عنه فلم یرد علیها فخرج إلی أصحابه وهم جلوس فقال إن أمتی یقتلون هذا ۔
ترجمہ : حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن سے فرمایا : اس بچے (حسین رضی اللہ عنہ) کو نہ رلایا کرو ۔ اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تھے کہ جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوۓ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اے ام سلمہ رضی اللہ عنہ کسی کو میرے کمرے میں آنے کی اجازت نہ دینا ۔ حسین رضی اللہ عنہ آئے جونہی اپنے نانا کو دیکھا تو چاہا کہ کمرے میں داخل ہوں ۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے سینے سے لگایا تو حسین رضی اللہ عنہ نے رونا شروع کر دیا ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بہت کوشش کی لیکن حسین رضی اللہ عنہ کا گریہ بڑھتا گیا اور اسی گریے کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کمرے میں چلے گئے اور جا کر اپنے نانا کی گود میں بیٹھ گئے ۔ (مجمع الزوائد، الهیثمی، ج 9، ص 189،چشتی)(المعجم الکبیر، الطبرانی، ج 8، ص 285 – 286)(تاریخ مدینة دمشق، ابن عساکر، ج 14، ص 190 – 191)(ابن عساکر، ص 245 – 246)

واقعۂ کربلا کا غم ہر مسلمان کے دل میں ہونا چاہیے اور یہ اہل بیت سے محبت کی علامت ہے ۔ مگر شریعت محمدی ہمیں صبر کا درس دیتی ہے لہذا اس غم کا اظہار مرثیہ وماتم اور چیخیں مار کر رونے کی صورت وغیرہ میں نہیں ہونا چاہیے ۔ جسے اس واقعۂ کربلا کا غم نہیں اس کی محبت اہل بیت رضی اللہ عنہم سے ناقص اور جس کی محبت اہل بیت رضی اللہ عنہم سے ناقص ہے اس کا ایمان ناقص ہے ۔

مصیبت پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اپنی مصیبت یا مصائب اہل بیت رضی اللہ عنہم کو یاد کرکے ماتم کرنا یعنی ہائے ہائے ، واویلا کرنا ، چہرے یا سینے پر طمانچے مارنا ، کپڑے پھاڑنا ، بدن کو زخمی کرنا ، نوحہ و جزع فزع کرنا ، یہ باتیں خلاف صبر اور ناجائز و حرام ہیں ۔ جب خود بخود دل پر رقت طاری ہو کر آنکھوں سے آنسو بہہ نکلیں اور گریہ آجائے تو یہ رونا نہ صرف جائز بلکہ موجب رحمت و ثواب ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ولاتقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء ولٰکن لاتشعرون ۔
ترجمہ : اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں ، انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں ۔ (سورۃ البقرہ آیت 154)

ماتم تو ہے ہی حرام ، تین دن سے زیادہ سوگ کی بھی اجازت نہیں ہے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا ۔ جو عورت اللہ عزوجل اور آخرت پر ایمان لائی ہو ، اس کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ سوگ کرے ۔ البتہ اپنے خاوند کی (موت پر) چار ماہ دس دن سوگ کرے ۔ (بخاری حدیث 299، الکتاب الجنائز، مسلم، حدیث 935، مشکوٰۃ حدیث 3471 کتاب الجنائز،چشتی)

حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : لیس لاحد ان یعداً اکثر من ثلاثۃ ایام الا المراۃ علی زوجہا حتی تنقضی عدتہا ۔
ترجمہ : کسی مسلمان کو کسی کی موت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنا سوائے عورت کے کہ وہ عدت کے ختم ہونے تک اپنے خاوند کی موت پر سوگ کرسکتی ہے ۔ (من لایحضرہ الفقیہ ج 1)

اس حدیث سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو ہر سال حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا سوگ مناتے ہیں اور دس دن سینہ کوبی کرتی ہیں۔ چارپائی پر نہیں سوتے، اچھا لباس نہیں پہنتے اور کالے کپڑے پہنتے ہیں۔ ہاں ایصال ثواب کرنا ان کی یاد منانا اور ذکر اذکار جائز ہے، یہ سوگ نہیں ہے ۔

امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : کون سا سنی ہوگا جسے واقعہ ہائلہ کربلا کا غم نہیں یا اس کی یاد سے اس کا دل محزون اور آنکھ پرنم نہیں ، ہاں مصائب میں ہم کو صبر کاحکم فرمایا ہے ، جزع فزع کو شریعت منع فرماتی ہے ، اور جسے واقعی دل میں غم نہ ہو اسے جھوٹا اظہارِغم ریاء ہے اور قصداً غم آوری وغم پروری خلافِ رضاہے ۔ جسے اس کاغم نہ ہو اسے بیغم نہ رہنا چاہئے بلکہ اس غم نہ ہونے کا غم چاہئے کہ اس کی محبت ناقص ہے اور جس کی محبت ناقص اس کاایمان ناقص ۔ (فتاوى رضویہ جلد 24 صفحہ 500 ، 501 رضا فاؤنڈیشن لاہور،چشتی)

امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : تعزیہ آتا دیکھ کر اعراض و روگردانی کریں۔ اس کی طرف دیکھنا ہی نہیں چاہیے ۔ (عرفان شریعت ، حصہ اول صفحہ 15)

امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : غرض عشرۂ محرم الحرام کہ اگلی شریعتوں سے اس شریعت پاک تک نہایت بابرکت محل عبادت ٹھہرا تھا، ان بے ہودہ رسوم نے جاہلانہ اور فاسقانہ میلوں کا زمانہ کر دیا ۔ یہ کچھ اور اس کے ساتھ خیال وہ کچھ کہ گویا خودساختہ تصویریں بعینہٖ حضرات شہداء رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جنازے ہیں ۔
کچھ اتارا باقی توڑا اور دفن کر دیے ۔ یہ ہر سال اضاعت مال کے جرم دو وبال جداگانہ ہیں۔ اب تعزیہ داری اس طریقۂ نامرضیہ کا نام ہے ۔ قطعاً بدعت و ناجائز حرام ہے ۔ تعزیہ پر چڑھایا ہوا کھانا نہ کھانا چاہیے ۔ اگر نیاز دے کر چڑھائیں ، یا چڑھا کر نیاز دیں تو بھی اس کے کھانے سے احتراز کریں ۔ (رسالہ تعزیہ داری) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

یزید ملعون کو جنّتی کہنے والوں کے تابوت میں آخری کیل

0 comments

 یزید پلید کو جنّتی کہنے والوں کو جواب

محترم قارئینِ کرام : بعض شرپسند یزیدیوں نے یزید پلید کو جنتی ثابت کرنے کا پروپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے اور اس کےلیے بخاری شریف کی حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے ۔ یزید کو امیرالمومنین اور رحمة ﷲ علیہ کہنے کی دلیل بنائی جاتی ہے ۔ لہٰذا قارئین کرام کے سامنے اس حدیث سے متعلق گزارشات پیش خدمت ہیں ۔


سب سے پہلے بخاری شریف کی حدیث ملاحظہ فرمایئے : قال النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اول جیش من امتی یعزون مدینۃ قیصر مغفور لہم ۔

ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : میری امت کا پہلا لشکر جو قیصر روم کے شہر پر حملہ کرے گا اس کی مغفرت فرمادی گئی ہے ۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد ما قیل فی قتال الروم رقم الحدیث ۲۹۲۴، صحیح بخاری مترجم ۲/۱۰۷ باب نمبر ۱۳۷، کتاب الجہاد والسیر رقم الحدیث ۱۸۴ طبع لاہور ترجمہ عبدالحکیم خان اختر شاہجہانپوری ، صحیح بخاری مترجم وحید الزماں ۲/۱۸۸ باب نمبر ۱۳۷ کتاب الجہاد والسیر پارہ نمبر ۱۱ رقم ۱۸۵ طبع لاہور، البدائیہ والنہایہ ص ۹۶۹ باب نمبر ۷۲ ما قیل فی قتال الروم مکتبہ بیت الافکار، المستدرک حاکم ۴/۵۹۹ رقم الحدیث ۸۶۶۸، سلسلۃ الحادیث الصحیحہ ۱/۷۶ رقم ۲۶۸، حلیۃ الاولیائ، ابو نعیم اصفہانی، مسند الشامین طبرانی)


بخاری شریف کی اس حدیث سے بھی استدلال کیا جاتا ہے : قال محمود بن الربیع فحدثنہا قوما فیہم ابو ایوب الانصاری صاحب رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فی غزوتہ التی توفی فیہا ویزید بن معاویۃ علیہم بارض الروم ۔ (صحیح بخاری ۱/۱۵۸ کتاب التہجدباب صلوٰۃ النوافل جماعۃ)

ترجمہ : حضرت محمود بن ربیع رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک قوم کو حدیث بیان کی جس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ بھی تھے جو ارض روم کے غزوات میں انتقال فرماگئے تھے اور یزید بن معاویہ اس غزوہ کا امیر تھا ۔


جوابا گزارش ہے کہ ان روایات سے یزید کے جنتی ہونے کا استدلال کرنا کئی وجوہ سے باطل ہے :


1 : مغفرت کی بشارت والی حدیث میں قسطنطنیہ کے الفاظ کسی کتاب میں نہیں ۔


2 : بشارت والی حدیث میں ہے کہ جو پہلا لشکر قیصر روم کے شہر پر حملہ کرے گا، وہ مغفور لہم ہوگا ۔


3 : یزید بن معاویہ اس لشکر میں شامل تھا جس میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ شامل تھے اور وہیں ان کی وفات ہوئی ۔


4 : یہ لشکر آخری غزوہ کا تھا جو ۵۲ ہجری کو ہوا ۔


5 : محدثین نے اس کی شرح کرتے ہوئے کیا یزید کو مغفور لہم میں شامل کیا ؟


قیصر روم پر پہلا غزوہ اور بشارت مغفور لہم


1 : حافظ ابن کثیر دمشقی لکھتے ہیں : 32 ہجری میں سیدنا معاویہ رضی ﷲ عنہ نے بلاد روم پر چڑھائی کی ۔ یہاں تک کہ قسطنطنیہ تک پہنچ گئے ۔ (البدایہ والنہایہ ۷/۱۵۹)

حافظ ابن کثیر دوسرے مقام پرلکھتے ہیں : خلیج قسطنطنیہ کی جنگ سیدنا امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کی امارت میں 32 ہجری میں ہوئی اور وہ خود اس سال لوگوں پر امیر تھے ۔

اسی طرح ان کتابوں میں بھی ہے کہ وہ غزوہ 32 ہجری میں ہوا ۔ (المنظم از ابن جوزی 19/5)(تاریخ طبری 304/4)(العبر از امام ذہبی 24/1)(تاریخ اسلام امام ذہبی (یزید کی اس وقت عمر تقریبا چھ سال تھی) (تقریب التہذیب ۲/۳۳۲)


امام ذہبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : فیہا کانت وقعۃ المضیق بالقرب من قسطنطنیۃ وامیرہا معاویۃ ۔

ترجمہ : اس سن میں مضیق کا واقعہ ہوا جو کہ قسطنطنیہ کے قریب ہے اور اس کے امیر ’’معاویہ‘‘ رضی ﷲ عنہ تھے ۔ (تاریخ اسلام: امام ذہبی، عہد خلفائے راشدین صفحہ ۳۷۱)

حضرت امیر معاویہ نے یہ حملہ دور عثمان غنی رضی ﷲ عنہ میں کیا ۔


2 : اس حدیث میں مدینۃ قیصر سے مراد ’’حمص‘‘ ہے نہ کہ قسطنطنیہ لہٰذا بشارت مغفرت کے امین حمص پر حملہ کرنے والے مجاہدین ہیں نہ کہ مجاہدین قسطنطنیہ اور حمص پر حملہ 15 ہجری میں ہوا جو کہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کا دور خلافت تھا ۔


حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : پندرہ ہجری میں حضرت عمر فاروق رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابو عبیدہ رضی ﷲ عنہ کی قیادت میں ایک لشکر حمص روانہ کیا اور بعد میں حضرت خالد بن ولید رضی ﷲ عنہ بھی اس کے ساتھ شامل ہوگئے ۔ سخت سردیوں کے موسم میں مسلمانوں نے حمص کا محاصرہ کیا ۔ سردیوں کے اختتام تک محاصرہ جاری رہا ۔ بالاخر حضرت ابو عبیدہ رضی ﷲ عنہ نے حمص فتح کر لیا ۔ حضرت بلال حبشی حضرت مقداد رضی ﷲ عنہم اور دیگر امراء کے ذریعے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کے پاس فتح کی خوشخبری اور حمس روانہ کیا ۔ (البدایہ والنہایہ ۷/۵۲،چشتی)


شیخ الاسلام محمد صدر الصدور علیہ الرّحمہ نے بھی ’’مدینۃ قیصر‘‘ سے مراد ’’حمص‘‘ لیا ہے ۔ فرماتے ہیں : بعضے تجویز کنندہ کہ مراد ’’بمدینۃ قیصر‘‘ مدینہ باشد کہ قیصر در آنجابود روزی کہ فرمود ایں حدیث را آنحضرت و آں حمص است کہ در آن وقت دار مملکت او بود وﷲ اعلم ۔

ترجمہ : بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ شہر قیصر سے مراد وہی شہر ہے کہ جہاں قیصر اس روز تھا جس روز حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ حدیث فرمائی اور یہ شہر حمص تھا جو اس وقت قیصر کا دارالسلطنت تھا ۔ وﷲ اعلم ۔ (شرح فارسی صحیح بخاری، برحاشیہ تیسر القاری ۴/۶۶۹،چشتی)


امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرّحمہ فرماتے ہیں : وجوز بعضہم ان المراد بمدینۃ قیصر المدینۃ التی کان بہا یوم قال النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تلک المقالۃ وہی حمص و کانت دار مملکتہ اذ ذاک ۔

ترجمہ : اور بعض علماء کے نزدیک مدینہ قیصر سے مراد وہ شہر جہاں قیصر اس دن تھا (یعنی جو اس کا دارالسلطنت تھا) جس دن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ فرمان فرمایا : وہ حمص ہے جو اس وقت انکار دارالسلطنت تھا ۔ (فتح الباری۱۲/۶۱)


اس وقت 15 ہجری میں یزید پیدا بھی نہیں ہوا تھا ۔ بعض مورخین محدثین نے یزید پلید کو اول جیش کا امیر لکھا ہے ۔ یہ سہواً ہوا ہے کہ کیونکہ وہ امیر یزید بن فضالہ بن عبید تھے یہاں یزید بن معاویہ کا نام راوی کی غلطی ہے ۔

حافظ ابن کثیر دمشقی فرماتے ہیں : عمران بن اسلم کہتے ہیں کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی ہمارے لشکر میں شامل تھے ۔ وکنا بالقسطنطنیہ وعلی اہل مصر عقبۃ بن عامر و علی اہل الشام رجل یزید ابن فضالۃ ابن عبید ، اور ہم قسطنطنیہ میں تھے۔ اہل مصر پر عقبہ بن عامر اور اہل شام پر یزید بن فضالہ بن عبید امیر تھے ۔ (تفسیر ابن کثیر ۱/۲۱۷)


سنن ابو داٶد کی یہ روایت بھی ملاحظہ ہو : حدثنا احمد بن عمرو بن السرح ناابن وہب نا حیوۃ بن شریح و ابن لہیہ عن یزید بن ابی حبیب عن اسلم ابی عمران قال غزونا من المدینۃ یزید القسطنطنیۃ وعلی الجماعۃ عبدالرحمن بن خالد بن ولید ۔

ترجمہ : ابو عمران کا بیان ہے کہ ہم جہاد کرنے کے لئے مدینہ منورہ سے قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوئے اور سپہ سالار عبدالرحمن بن خالد بن ولید تھے ۔ (سنن ابو داٶد مع احکام البانی ص ۴۴۱ باب فی قولہ عزوجل ولا تلقوا بایدیکم الی التہلکہْ کتاب الجہاد رقم ۲۵۱۲ (صحیح)، سنن ابو دائود مترجم ۲/۲۸۱ طبع لاہور، مستدرک حاکم ۲/۱۴۰ رقم ۴۸۹ طبع قاہرہ، جامع البیان فی تفسیر القرآن ۲/۱۱۸،۱۱۹، احکام القرآن از حصاص ۱/۳۲۶، تفسیر ابن ابی حاتم رازی ۱/۳۳۰،۳۳۱،چشتی)


اس کے علاوہ ایک اور روایت بھی یہ اشارہ کرتی ہے کہ عبدالرحمن بن خالد بن ولید لشکر کے امیر تھے ۔


حدثنا سعید بن منصور ثنا عبدﷲ بن وہب قال اخبرنی عمر بن الحارث عن بکیر بن الاشجع عن ابن الاشج عن ابن تفلی قال غزونا من عبدالرحمن بن خالد بن الولید فاتی باربعۃ اعلاج من العدود فامرہم فقتلوا صبرا قال ابو دائود قال لنا غیر سعید عن ابن وہب فی ہذا الحدیث قال بالنبل صبرا فبلغ ذالک ابا ایوب الانصاری قال سمعت رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ینہی عن قتل الصبر فوالذی نفسی بیدہ لو کانت دجاجۃ ماصبرتہا فبلغ ذالک عبدالرحمن ابن خالد بن الولید فاعتق اربع رقاب ۔

ترجمہ : بکیر بن اشجع نے ابن تفلی سے روایت کی ہے کہ ہم نے عبدالرحمن بن خالد بن ولید کی معیت میں جہاد کیا تو دشمن کے چار قیدی لائے گئے جن کے متعلق آپ نے حکم دیا تو انہیں باندھ کر قتل کیا گیا ۔ امام ابو دائود نے فرمایا کہ سعید کے علاوہ دوسروں نے ابن وہب کے واسطے سے یہ حدیث ہم سے بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ باندھ کر تیروں کے ساتھ۔ جب یہ بات ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ کو پہنچی تو انہوں نے فرمایا ۔ میں نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو باندھ کر قتل کرنے سے منع فرماتے ہوئے سنا ۔ پس قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ۔ اگر مرغی بھی ہو تو اسے نہ باندھوں گا ۔ جب یہ بات عبدالرحمن بن خالد بن ولید کو پہنچی تو انہوں نے چار غلام آزاد کیے ۔ (سنن ابو دائود مترجم ۲/۳۴۳ ، مصنف ابن ابی شیبہ ۵/۳۹۸، مسند احمد ۵/۴۲۳، برقم ۲۳۹۸۷، صحیح ابن حباب ۸/۴۵۰،چشتی،طبرانی ۴/۴۹، رقم ۴۰۰۲، الطحاوی ۳/۱۸۲، السنن الکبریٰ بیہقی ۹/۷۱، سنن دارمی ۲/۱۱۳، رقم ۱۹۷۴، سنن سعید بن منصور ص ۶۶۷)


بشارت والی حدیث اور محدثین


بشارت والی حدیث کی شرح کرتے ہوئے محدثین کرام علیہم الرّحمہ نے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں وضاحت فرمائی ہے کہ یزید قطعاً اس بشارت کا مصداق نہیں ہے اور مغفرت عموم سے بالکل خارج ہے ۔ مگر افسوس کہ اکثر غیر مقلدین اور دیوبندی مکتبہ فکر کے بعض علماء نے اس حدیث سے یہی باور کرایا ہے کہ یزید جنتی ہے اور اس پر مستقل کتابیں لکھی ہیں ۔ جیسے ’’رشید ابن رشید‘‘ نامی کتاب پر ان دونوں مکاتب فکر کے علماء کی تصدیقات ہیں ۔ اسی طرح دیگر کئی کتب جو یزید کو امیر المومنین اور رحمة ﷲ علیہ ثابت کرنے کےلیے لکھی گئی ہیں ۔ ان میں محدثین کی نامکمل عبارات لکھ کر لوگوں کو دھوکہ دیا گیا ہے ۔ محدثین کی تصریحات ملاحظہ فرماٸیے :


قولہ قد اوجبوا فعلوا وحبت لہم بہ الجنۃ قولہ مدینۃ قیصر ای ملک الروم قال قسطلانی کان اول من غزا مدینۃ قیصر یزید ابن معاویۃ وجماعۃ من سادات الصحابۃ کابن عمروابن عباس وابن الزبیر وابی ایوب انصاری وتوفی بہا ابو ایوب اثنتین وخمیسن من الہجرۃ انتہیٰ کذا قالہ فی الخیر الباری و فی الفتح قال المہلب فی ہذا الحدیث منقبۃ لمعاویۃ لانہ اول من غزا البحر ومنقبۃ لو لدہ لانہ من غزا مدینۃ قیصر وتعقبہ ابن التین وابن المنیر بما حاصلہ انہ لایلزم من دخولہ فی ذالک المعموم ان لا یخرج بدلیل خاص اذ لا یختلف اہل العلم ان قولہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مغفور لہم مشروط بان تکونوا من اہل المغفرۃ حتی لو ارند واحد ممن غزا ہا بعد ذالک لم یدخل فی ذالک العموم اتفاقاً فدل علی ان المراد مغفور لمن وجد شرط المغفرۃ فیہ منہم ۔

ترجمہ : قولہ قد اوجبوا‘‘ ان کےلیے جنت واجب ہے ۔ مدینہ قیصر یعنی ملک روم، قسطلانی فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے مدینہ قیصر پر یزید بن معاویہ نے جہاد کیا ۔ اس کے ساتھ سادات صحابہ کی ایک جماعت تھی۔ مثلا حضرت ابن عمر، ابن عباس، ابن زبیر اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہم ۔ اور آپ کا انتقال بھی 52 ہجری میں وہیں پر ہوا ۔ خیرالباری اور فتح الباری میں ہے کہ مہلب نے کہا کہ اس حدیث میں حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کی منقبت ہے کیونکہ انہوں نے سب سے پہلے بحری لڑائی کی اور آپ کے بیٹے (یزید) کی منقبت ہے کہ اس نے قسطنطنیہ میں جنگ کی ابن تین اور ابن منیر نے مہلب کا تعاقب کیا اور انہوں نے کہا کہ اس عموم میں داخل ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ کسی دلیل خاص سے اس بشارت سے خارج نہ ہوسکے کیونکہ اہل علم کا اس میں ہرگز کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ فرمان اہلیت مغفرت کے ساتھ مشروط ہے حتی کہ اگر ان (مجاہدین) میں سے کوئی مرتد ہوجائے تو وہ اس (بشارت) کے عموم سے ہرگز داخل نہیں ہوگا۔ پس ثابت ہوا کہ مغفور لہم کی بشارت انہی کے لئے ہے جن میں شرط مغفرت پائی جائے گی ۔ (بخاری شریف کی حدیث کا حاشیہ جلد اول ص ۴۰)


علامہ قسطلانی علیہ الرحمہ نے بھی یہی کچھ لکھا اور مزید فرمایا کہ (یزید) بنو امیہ کی حمیت کی وجہ سے اس غزوہ پر گیا تھا ۔ (ارشاد الساری شرح بخاری ۵/۱۲۵)


حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ نے بھی تقریبا یہی بات لکھی ہے ۔ (فتح الباری شرح بخاری ۱۲/۶۱)


علامہ بدرالدین عینی علیہ الرحمہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : وکان فی ذالک الجیش ابن عباس وابن عمرو ابن زبیر وابو ایوب الانصاری قلت الاظہروا ان ہؤلاء السادات من الصحابۃ کانوا مع سفیان ہذا فلم یکونوا مع یزید لانہ لم یکن اہلاً ان یکون ہولاء السادات فی خدمتہ قال المہلب فی ہذا الحدیث منقبۃ لمعاویۃ کان اول من غزا البحر ومنقبۃ لولدہ یزید لانہ اول من غزا مدینۃ قیصر قلت ای منقبۃ لیزید وحالہ مشہور فان قلت قال صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فی حق ہذا الجیش مغفور لہم قلت قیل لا یلزم من دخولہ فی ذالک العموم ان لا یخرج بدلیل خاص اذالا یختلف اہل العلم ان قولہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مغفور لہم مشروط بان یکوانو من اہل المغفرۃ حتی لو ارتد واحد ممن غزاہا بعد ذالک لم یدخل فی ذالک العموم فدل علی انا المراد مغفور لمن وجد شرط المغفرۃ منہم ۔

ترجمہ : اور اس لشکر میں ابن عباس، ابن عمر، ابن زبیر اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہم تھے ۔ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ سادات صحابہ حضرت سفیان بن عوف رضی ﷲ عنہ کی قیادت میں تھے ۔ نہ کہ یزید بن معاویہ کی سرکردگی میں کیونکہ یزید ہرگز اس قابل نہ تھا کہ سادات صحابہ اس کی سرکردگی میں ہوں۔ مہلب نے کہا اس حدیث میں حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کی منقبت ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے جنگ لڑی اور ان کے بیٹے یزید کی منقبت ہے جبکہ اس کا حال مشہور ہے۔ اگر تم کہو کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس لشکر کے لئے ’’مغفور لہم‘‘ فرمایا تو ہم کہتے ہیں کہ عموم میں داخل ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ دلیل خاص سے خارج نہ ہوسکے، کیونکہ اس میں اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد مغفور لہم مشروط ہے کہ وہ آدمی مغفرت کا اہل ہو ۔ حتی کہ اگر غازیوں میں کوئی مرتد ہوجائے تو وہ اس عموم میں داخل نہیں رہتا۔ پس ثابت ہوا کہ مغفرت اسی کےلیے ہے جو مغفرت کا اہل ہوگا ۔ (عمدۃ القاری شرح بخاری ۱۲/۱۰ مطبوعہ مصر،چشتی)


یزید پلید جس لشکر میں شامل تھا وہ 52 ہجری میں قسطنطنیہ پر حملہ آور ہوا تھا ۔ جبکہ پہلا حملہ اس سے بہت پہلے ہوچکا تھا ۔ جیسا کہ اوپر تفصیل ذکر کی گئی ۔ یزید والا لشکر 52 ہجری میں حملہ آور ہوا تھا ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس لشکر میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ بھی شامل تھے اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ کا انتقال 52 ہجری میں ہوا ۔


علامہ ابن کثیر دمشقی فرماتے ہیں ۔ وذالک سنۃ ۵۲ہ اثنتین وخمسین ومعہم ابو ایوب فمات ہناک ۔

ترجمہ : اسی سال 52 ہجری میں ان کے ساتھ ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ بھی تھے اور آپ کا انتقال بھی وہیں ہوا تھا ۔ (البدایہ والنہایہ ۸/۵۹،چشتی)


علامہ ذہبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ۔ وکان ابو ایوب سنۃ ۵۲ ہجری ۔

ترجمہ : حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ کا انتقال 52 ہجری میں ہوا ۔ (تذکرۃ الحفاظ ۱/۲۹)


علامہ ابن اثیر علیہ الرحمہ نے 52 ہجری کے حوادث میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ کی وفات کا ذکر کیا ہے ۔ (ابن اثیر ۳/۴۹۲)


یزید کے حامی محمود احمد عباسی نے بھی طبقات ابن سعد کے حوالے سے لکھا : وتوفی ابو ایوب انصاری عام غزا یزید ابن معاویۃ القسطنطنیۃ خلافۃ ابیہ سنۃ ۵۲ھ ۔ (خلافت معاویہ ویزید ص ۷۹)


علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : وکانت غزوۃ یزید المذکورۃ فی سنۃ اثنتین فی خمیس من الہجرۃ وفی تلک الغزوۃ مات ابو ایوب الاناصری فاوحی ان یدفن عند باب القسطنطنیۃ ۔

ترجمہ : اور یزید کا مذکورہ غزوہ 52 ھ میں ہوا ۔ اسی غزوہ میں ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ کا انتقال ہوا اور انہوں نے وصیت فرمائی کہ مجھے قسطنطنیہ کے دروازے کے پاس دفن کیا جائے ۔


ان تمام حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ یزید کے لشکر میں شامل تھے اور وہ لشکر 52 ھ میں قسطنطنیہ پر حملہ آور ہوا اور اسی حملہ میں صحابی رسول حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ کی وفات ہوئی اور یہ قسطنطنیہ پر آخری حملہ تھا ۔ جبکہ مغفرت کی بشارت والی حدیث میں صراحت ہے کہ ’’پہلا لشکر جو ہوگا اس کی مغفرت ہوگی‘‘ دوسری طرف دیکھئے کہ یزید اس غزوہ میں شوق یا جوش جہاد سے نہیں گیا بلکہ مجاہدین کو پہنچنے والی تکالیف پر خوشی کا اظہار کرنے کی وجہ سے حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے اسے جبراً بھیجا تھا ۔


علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں : 50 ہجری میں حصرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے ایک بہت بڑا لشکر حضرت سفیان بن عوف کی قیادت میں بلاد روم پر حملے کے لئے بھیجا اور اپنے بیٹے یزید کو بھی اس میں شریک ہونے کو کہا لیکن اس نے بڑی گرانی محسوس کی تو اسے آپ نے چھوڑ دیا ۔ پھر لوگوں کو یہ اطلاع ملی کہ اس لشکر کے مجاہدین سخت بھوک اور بیماری کا شکار ہوئے ۔ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو اطلاع ملی کہ یزید نے اس لشکر کا حال سن کر یہ اشعار پڑھے :


مان ابا لی بمالاقت جمود عہم بالفد قد البید من الحمیٰ ومن شوم اذا اتطات علی الانماط مرتفقا بدید مران عندی ام کلثوم وہی امراتہ بنت عبدﷲ ابن عامر فخلف لیخلفن بہم فسار فی جمع کثیر ۔

ترجمہ : مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ بخار اور بدقسمتی کی وجہ سے اس کھلے صحرا میں ان لشکروں پر کیا بیتی ۔ جبکہ میں نے دیر مران میں بلند ہوکر قالینوں پر تکیہ لگا لیا ۔ اور میرے پہلو میں ام کلثوم موجود ہے ۔ یہ عبدﷲ بن عامر کی بیٹی (اور یزید کی بیوی تھی) تو حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے قسم کھائی کہ یزید کو اس لشکر کے ساتھ بھیجیں گے چنانچہ جماعت کثیرہ کے ساتھ وہاں چلا گیا ۔ (تاریخ ابن خلدون ۳/۱۹،۲۰،چشتی) ، علامہ ابن اثیر نے بھی یہی بات لکھی ہے (ابن اثیر ۳/۴۵۸،چشتی)


اگر بالفرض یزید کو بشارت والی حدیث کا مصداق مان لیا جائے تو اس حدیث کا مفاد صرف یہ ہے کہ یزید کے اس وقت تک جتنے گناہ تھے ، وہ بخش دیئے گئے ۔ بعد میں یزید کے افعال قبیحہ نے اسے اس بشارت سے محروم کردیا کیونکہ جہاد ایک عمل خیر ہے جس سے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں ، لیکن بعد والے معاف نہیں ہوتے ۔ چنانچہ شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اس حدیث پاک ’’مغفور لہم‘‘ سے بعض لوگوں نے یزید کی نجات پر استدلال کیا ہے کیونکہ وہ اس دوسرے لشکر میں شریک تھا بلکہ اس کا افسر و سربراہ تھا ۔ جیسا کہ تاریخ گواہی دیتی ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ اس حدیث سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس غزوہ سے پہلے جو اس نے گناہ کئے وہ بخش دیئے گئے ، کیونکہ جہاد کفارات میں سے ہے اور کفارات کی شان یہ ہے کہ وہ سابقہ گناہوں کے اثر کو زائل کرتا ہے ۔ بعد میں ہونے والے گناہوں کے اثر کو نہیں۔ ہاں اگر اسی کے ساتھ یہ فرما دیا ہوتا کہ قیامت تک کےلیے اس کی بخشش کردی گئی ہے تو بے شک یہ حدیث اس کی نجات پر دلالت کرتی ۔ اور جب یہ صورت نہیں تو نجات بھی ثابت نہیں ، بلکہ اس صورت میں اس کا معاملہ ﷲ تعالیٰ کے سپرد ہے اور اس غزوہ کے بعد جن جن برائیوں کا وہ مرتکب ہوا ہے ، جیسے حضرت سیدنا امام حسین رضی ﷲ عنہ کو شہید کروانا ، مدینہ طیبہ کو تاخت و تاراج کرانا ، شراب نوشی پر اصرار کرنا ، ان سب گناہوں کا معاملہ ﷲ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے ۔ چاہے تو معاف کرے ، چاہے تو عذاب دے ۔ جیسا کہ تمام گناہ گاروں کے حق میں یہ ہی طریقہ رائج ہے ۔ (شرح تراجم ابواب البخاری ص ۳۱،۳۲)


یہی مفہوم علامہ قسطلانی علیہ الرحمہ نے ’’ارشاد الساری ۵/۱۲۵، اور علامہ بدرالدین عینی علیہ الرحمہ  نے ’’عمدۃ القاری ۱۲/۱۰‘‘ میں فرمائی ہے ۔


غیر مقلدین کے حافظ زبیر علی زئی نے ماہنامہ ’’الحدیث‘‘ شمارہ ۶ ص ۴ اور عبدﷲ دامانوی نے ماہنامہ ’’محدث‘‘ جنویر ۲۰۱۰ء ص ۴۸ میں اور مولانا ارشاد الحق نے بھی ماہنامہ ’’محدث‘‘ اگست ۱۹۹۹ء میں یہی موقف اپنایا ہے کہ یزید اس حدیث کا مصداق نہیں اور نہ اس حدیث سے اس کی نجات ثابت ہے ۔ ﷲ تعالیٰ کی ذات غفور الرحیم ہے ۔ وہ مالک یوم الدین ہے ۔ وہ اگر یزید کو بخشنا چاہے تو اس کی مرضی ، لیکن قواعدِ شرعیہ کی رو سے عترتِ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قاتل ، مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تاخت و تاراج کرنے والے اور حرمِ کعبہ پر سنگ بازی کے مجرم یزید کو جنتی کہنا بہت بڑی جہالت و سخت لادینیت ہے ۔


یزید ملعون کو جنّتی کہنے والوں کے تابوت میں آخری کیل


محترم قارئینِ کرام : کچھ عرصہ سے بعض لوگوں نے یزید پلید کو جنتی ثابت کرنے کا پروپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے اور اس کےلیے بخاری شریف کی حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے ۔ یوں یزید کو امیرالمومنین اور رحمتہ ﷲ علیہ کہنے کی دلیل بنائی جاتی ہے ۔ لہٰذا قارئین کرام کے سامنے اس حدیث سے متعلق گزارشات پیشِ خدمت ہیں ۔ سب سے پہلے بخاری شریف کی حدیث ملاحظہ فرمائیے : ⬇


قال النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اول جیش من امتی یعزون مدینۃ قیصر مغفور لہم ۔

ترجمہ : حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میری امت کا پہلا لشکر جو قیصر روم کے شہر پر حملہ کرے گا اس کی مغفرت فرمادی گئی ہے ۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد ما قیل فی قتال الروم رقم الحدیث ۲۹۲۴، صحیح بخاری مترجم ۲/۱۰۷ باب نمبر ۱۳۷، کتاب الجہاد والسیر رقم الحدیث ۱۸۴ طبع لاہور ترجمہ عبدالحکیم خان اختر شاہ جہانپوری)(صحیح بخاری مترجم وحید الزماں ۲/۱۸۸ باب نمبر ۱۳۷ کتاب الجہاد والسیر پارہ نمبر ۱۱ رقم ۱۸۵ طبع لاہور)(البدائیہ والنہایہ ص ۹۶۹ باب نمبر ۷۲ ما قیل فی قتال الروم مکتبہ بیت الافکار، المستدرک حاکم ۴/۵۹۹ رقم الحدیث ۸۶۶۸،چشتی)(سلسلۃ الحادیث الصحیحہ ۱/۷۶ رقم ۲۶۸، حلیۃ الاولیا ابو نعیم اصفہانی، مسند الشامین طبرانی)


بخاری شریف کی درج ذیل حدیث سے بھی استدلال کیا جاتا ہے :

قال محمود بن الربیع فحدثنہا قوما فیہم ابو ایوب الانصاری صاحب رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فی غزوتہ التی توفی فیہا ویزید بن معاویۃ علیہم بارض الروم ۔ (صحیح بخاری ۱/۱۵۸ کتاب التہجدباب صلوٰۃ النوافل جماعۃ)

ترجمہ : حضرت محمود بن ربیع رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک قوم کو حدیث بیان کی جس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ بھی تھے جو ارض روم کے غزوات میں انتقال فرما گئے تھے اور یزید بن معاویہ اس غزوہ کا امیر تھا ۔


جواباً گزارش ہے کہ ان روایات سے یزید کے جنتی ہونے کا استدلال کرنا کئی وجوہ سے باطل ہے : ⬇


1 : مغفرت کی بشارت والی حدیث میں قسطنطنیہ کے الفاظ کسی کتاب میں نہیں ۔


2 : بشارت والی حدیث میں ہے کہ جو پہلا لشکر قیصر روم کے شہر پر حملہ کرے گا ، وہ مغفور لہم ہوگا ۔

3 : یزید بن معاویہ اس لشکر میں شامل تھا جس میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ شامل تھے اور وہیں ان کی وفات ہوئی ۔


4 : یہ لشکر آخری غزوہ کا تھا جو ۵۲ ہجری کو ہوا ۔


5 : محدثین نے اس کی شرح کرتے ہوئے کیا یزید کو مغفور لہم میں شامل کیا ؟


قیصر روم پر پہلا غزوہ اور بشارت مغفور لہم


حافظ ابن کثیر دمشقی لکھتے ہیں : ۳۲ ہجری میں سیدنا معاویہ رضی ﷲ عنہ نے بلاد روم پر چڑھائی کی ۔ یہاں تک کہ قسطنطنیہ تک پہنچ گئے ۔ (البدایہ والنہایہ ۷/۱۵۹،چشتی)


حافظ ابن کثیر دوسرے مقام پر لکھتے ہیں : خلیج قسطنطنیہ کی جنگ سیدنا امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کی امارت میں ۳۲ ہجری میں ہوئی اور وہ خود اس سال لوگوں پر امیر تھے ۔باسی طرح ان کتابوں میں بھی ہے کہ وہ غزوہ ۳۲ ہجری میں ہوا ۔ (المنظم از ابن جوزی 19/5)(تاریخ طبری 304/4)(العبر از امام ذہبی 24/1،چشتی)(تاریخ اسلام امام ذہبی ۔ یزید کی اس وقت عمر تقریبا چھ سال تھی ۔ (تقریب التہذیب ۲/۳۳۲)


امام ذہبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : فیہا کانت وقعۃ المضیق بالقرب من قسطنطنیۃ وامیرہا معاویۃ ۔

اس سن میں مضیق کا واقعہ ہوا جو کہ قسطنطنیہ کے قریب ہے اور اس کے امیر ’’معاویہ‘‘ رضی ﷲ عنہ تھے ۔ (تاریخ اسلام امام ذہبی عہد خلفائے راشدین صفحہ ۳۷۱)


حضرت امیر معاویہ نے یہ حملہ دور عثمان غنی رضی ﷲ عنہ میں کیا ۔


اس حدیث میں مدینۃ قیصر سے مراد ’’حمص‘‘ ہے نہ کہ قسطنطنیہ لہذا بشارت مغفرت کے امین حمص پر حملہ کرنے والے مجاہدین ہیں نہ کہ مجاہدین قسطنطنیہ اور حمص پر حملہ ۱۵ ہجری میں ہوا جوکہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کا دور خلافت تھا ۔


حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : پندرہ ہجری میں حضرت عمر فاروق رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابو عبیدہ رضی ﷲ عنہ کی قیادت میں ایک لشکر حمص روانہ کیا اور بعد میں حضرت خالد بن ولید رضی ﷲ عنہ بھی اس کے ساتھ شامل ہو گئے ۔ سخت سردیوں کے موسم میں مسلمانوں نے حمص کا محاصرہ کیا ۔ سردیوں کے اختتام تک محاصرہ جاری رہا ۔ بالاخر حضرت ابو عبیدہ رضی ﷲ عنہ نے حمص فتح کر لیا ۔ حضرت بلال حبشی حضرت مقداد رضی ﷲ عنہم اور دیگر امراء کے ذریعے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کے پاس فتح کی خوشخبری اور حمس روانہ کیا ۔ (البدایہ والنہایہ ۷/۵۲،چشتی)


شیخ الاسلام محمد صدر الصدور نے بھی ’’مدینۃ قیصر‘‘ سے مراد ’’حمص‘‘ لیا ہے ۔ فرماتے ہیں : بعضے تجویز کنندہ کہ مراد ’’بمدینۃ قیصر‘‘ مدینہ باشد کہ قیصر در آنجابود روزی کہ فرمود ایں حدیث را آنحضرت و آں حمص است کہ در آن وقت دار مملکت او بود وﷲ اعلم ۔

تجمہ : بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ شہر قیصر سے مراد وہی شہر ہے کہ جہاں قیصر اس روز تھا جس روز حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ حدیث فرمائی اور یہ شہر حمص تھا جو اس وقت قیصر کا دارالسلطنت تھا ۔ وﷲ اعلم ۔ (شرح فارسی صحیح بخاری برحاشیہ تیسر القاری ۴/۶۶۹)


عامہ حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں : وجوز بعضہم ان المراد بمدینۃ قیصر المدینۃ التی کان بہا یوم قال النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تلک المقالۃ وہی حمص و کانت دار مملکتہ اذ ذاک ۔

ترجمہ : اور بعض علماء کے نزدیک مدینہ قیصر سے مراد وہ شہر جہاں قیصر اس دن تھا (یعنی جو اس کا دارالسلطنت تھا) جس دن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ فرمان فرمایا: وہ حمص ہے جو اس وقت انکار دارالسلطنت تھا ۔ (فتح الباری ۱۲/۶۱)


اس وقت ۱۵ ہجری میں یزید پیدا بھی نہیں ہوا تھا ۔ بعض مورخین محدثین نے یزید بن معاویہ کو اول جیش کا امیر لکھا ہے ۔ یہ سہواً ہوا ہے کہ کیونکہ وہ امیر یزید بن فضالہ بن عبید تھے یہاں یزید بن معاویہ کا نام راوی کی غلطی ہے ۔


حافظ ابن کثیر دمشقی لکھتے ہیں : عمران بن اسلم کہتے ہیں کہ حضرت ابو ایوب انصاری بھی ہمارے لشکر میں شامل تھے ۔ وکنا بالقسطنطنیہ وعلی اہل مصر عقبۃ بن عامر و علی اہل الشام رجل یزید ابن فضالۃ ابن عبید ۔ اور ہم قسطنطنیہ میں تھے ۔ اہل مصر پر عقبہ بن عامر اور اہل شام پر یزید بن فضالہ بن عبید امیر تھے ۔ (تفسیر ابن کثیر ۱/۲۱۷،چشتی)


سنن ابو داٶد کی یہ روایت بھی ملاحظہ ہو : حدثنا احمد بن عمرو بن السرح ناابن وہب نا حیوۃ بن شریح و ابن لہیہ عن یزید بن ابی حبیب عن اسلم ابی عمران قال غزونا من المدینۃ یزید القسطنطنیۃ وعلی الجماعۃ عبدالرحمن بن خالد بن ولید ۔

ترجمہ : ابو عمران کا بیان ہے کہ ہم جہاد کرنے کےلیے مدینہ منورہ سے قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوئے اور سپہ سالار عبدالرحمن بن خالد بن ولید تھے ۔ (سنن ابو دائود مع احکام البانی صفحہ ۴۴۱ باب فی قولہ عزوجل ولا تلقوا بایدیکم الی التہلکہْ کتاب الجہاد رقم ۲۵۱۲ (صحیح)،چشتی)(سنن ابو داٶد مترجم ۲/۲۸۱ طبع لاہور)(مستدرک حاکم ۲/۱۴۰ رقم ۴۸۹ طبع قاہرہ)(جامع البیان فی تفسیر القرآن ۲/۱۱۸،۱۱۹)(احکام القرآن جصاص ۱/۳۲۶)(تفسیر ابن ابی حاتم رازی ۱/۳۳۰،۳۳۱)


اس کے علاوہ ایک اور روایت بھی یہ اشارہ کرتی ہے کہ عبدالرحمن بن خالد بن ولید لشکر کے امیر تھے : حدثنا سعید بن منصور ثنا عبدﷲ بن وہب قال اخبرنی عمر بن الحارث عن بکیر بن الاشجع عن ابن الاشج عن ابن تفلی قال غزونا من عبدالرحمن بن خالد بن الولید فاتی باربعۃ اعلاج من العدود فامرہم فقتلوا صبرا قال ابو دائود قال لنا غیر سعید عن ابن وہب فی ہذا الحدیث قال بالنبل صبرا فبلغ ذالک ابا ایوب الانصاری قال سمعت رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ینہی عن قتل الصبر فوالذی نفسی بیدہ لو کانت دجاجۃ ماصبرتہا فبلغ ذالک عبدالرحمن ابن خالد بن الولید فاعتق اربع رقاب ۔

ترجمہ : بکیر بن اشجع نے ابن تفلی سے روایت کی ہے کہ ہم نے عبدالرحمن بن خالد بن ولید کی معیت میں جہاد کیا تو دشمن کے چار قیدی لائے گئے جن کے متعلق آپ نے حکم دیا تو انہیں باندھ کر قتل کیا گیا ۔ امام ابو داٶد نے فرمایا کہ سعید کے علاوہ دوسروں نے ابن وہب کے واسطے سے یہ حدیث ہم سے بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ باندھ کر تیروں کے ساتھ ۔ جب یہ بات ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ کو پہنچی تو انہوں نے فرمایا ۔ میں نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو باندھ کر قتل کرنے سے منع فرماتے ہوئے سنا ۔ پس قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ۔ اگر مرغی بھی ہو تو اسے نہ باندھوں گا ۔ جب یہ بات عبد الرحمن بن خالد بن ولید کو پہنچی تو انہوں نے چار غلام آزاد کیے ۔ (سنن ابو دائود مترجم ۲/۳۴۳)(مصنف ابن ابی شیبہ ۵/۳۹۸،چشتی)(مسند احمد ۵/۴۲۳، برقم ۲۳۹۸۷)(صحیح ابن حباب ۸/۴۵۰)(طبرانی ۴/۴۹، رقم ۴۰۰۲)(الطحاوی ۳/۱۸۲)(السنن الکبریٰ بیہقی ۹/۷۱)(سنن دارمی ۲/۱۱۳، رقم ۱۹۷۴)(سنن سعید بن منصور صفحہ ۶۶۷)


بشارت والی حدیث اور محدثین


بشارت والی حدیث کی شرح کرتے ہوئے محدثین کرام نے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں وضاحت فرمائی ہے کہ یزید قطعاً اس بشارت کا مصداق نہیں ہے اور مغفرت عموم سے بالکل خارج ہے ۔ مگر افسوس کہ اکثر غیر مقلدین اور دیوبندی مکتبہ فکر کے بعض علماء نے اس حدیث سے یہی باور کرایا ہے کہ یزید جنتی ہے اور اس پر مستقل کتابیں لکھی ہیں ۔ جیسے ’’رشید ابن رشید‘‘ نامی کتاب پر ان دونوں مکاتب فکر کے علماء کی تصدیقات ہیں ۔ اسی طرح دیگر کئی کتب جو یزید کو امیر المومنین اور رحمة ﷲ علیہ ثابت کرنے کےلیے لکھی گئی ہیں ۔ ان میں محدثین کی نامکمل عبارات لکھ کر لوگوں کو دھوکہ دیا گیا ہے ۔ محدثین کی تصریحات ملاحظہ فرمائیے : ⬇


قولہ قد اوجبوا فعلوا وحبت لہم بہ الجنۃ قولہ مدینۃ قیصر ای ملک الروم قال قسطلانی کان اول من غزا مدینۃ قیصر یزید ابن معاویۃ وجماعۃ من سادات الصحابۃ کابن عمروابن عباس وابن الزبیر وابی ایوب انصاری وتوفی بہا ابو ایوب اثنتین وخمیسن من الہجرۃ انتہیٰ کذا قالہ فی الخیر الباری و فی الفتح قال المہلب فی ہذا الحدیث منقبۃ لمعاویۃ لانہ اول من غزا البحر ومنقبۃ لو لدہ لانہ من غزا مدینۃ قیصر وتعقبہ ابن التین وابن المنیر بما حاصلہ انہ لایلزم من دخولہ فی ذالک المعموم ان لا یخرج بدلیل خاص اذ لا یختلف اہل العلم ان قولہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مغفور لہم مشروط بان تکونوا من اہل المغفرۃ حتی لو ارند واحد ممن غزا ہا بعد ذالک لم یدخل فی ذالک العموم اتفاقاً فدل علی ان المراد مغفور لمن وجد شرط المغفرۃ فیہ منہم ۔

ترجمہ : قولہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قد اوجبوا ‘‘ ان کےلیے جنت واجب ہے ۔ مدینہ قیصر یعنی ملک روم ، قسطلانی فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے مدینہ قیصر پر یزید بن معاویہ نے جہاد کیا ۔ اس کے ساتھ سادات صحابہ کی ایک جماعت تھی ۔ مثلا حضرت ابن عمر ، ابن عباس ، ابن زبیر اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہم ۔ اور آپ کا انتقال بھی ۵۲ ہجری میں وہیں پر ہوا ۔ خیرالباری اور فتح الباری میں ہے کہ مہلب نے کہا کہ اس حدیث میں حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ کی منقبت ہے کیونکہ انہوں نے سب سے پہلے بحری لڑائی کی اور آپ کے بیٹے (یزید) کی منقبت ہے کہ اس نے قسطنطنیہ میں جنگ کی ابن تین اور ابن منیر نے مہلب کا تعاقب کیا اور انہوں نے کہا کہ اس عموم میں داخل ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ کسی دلیل خاص سے اس بشارت سے خارج نہ ہو سکے کیونکہ اہلِ علم کا اس میں ہرگز کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمان اہلیت مغفرت کے ساتھ مشروط ہے حتی کہ اگر ان (مجاہدین) میں سے کوئی مرتد ہو جائے تو وہ اس (بشارت) کے عموم سے ہرگز داخل نہیں ہو گا ۔ پس ثابت ہوا کہ مغفور لہم کی بشارت انہی کےلیے ہے جن میں شرط مغفرت پائی جائے گی ۔ (بخاری شریف کی حدیث کا حاشیہ جلد اول صفحہ ۴۰)


علامہ قسطلانی نے بھی یہی کچھ لکھا اور مزید فرمایا کہ (یزید) بنو امیہ کی حمیت کی وجہ سے اس غزوہ پر گیا تھا ۔ (ارشاد الساری شرح بخاری ۵/۱۲۵،چشتی)


حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ نے بھی تقریبا یہی بات لکھی ہے ۔ (فتح الباری شرح بخاری ۱۲/۶۱)


علامہ بدرالدین عینی علیہ الرحمہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : وکان فی ذالک الجیش ابن عباس وابن عمرو ابن زبیر وابو ایوب الانصاری قلت الاظہروا ان ہؤلاء السادات من الصحابۃ کانوا مع سفیان ہذا فلم یکونوا مع یزید لانہ لم یکن اہلاً ان یکون ہولاء السادات فی خدمتہ قال المہلب فی ہذا الحدیث منقبۃ لمعاویۃ کان اول من غزا البحر ومنقبۃ لولدہ یزید لانہ اول من غزا مدینۃ قیصر قلت ای منقبۃ لیزید وحالہ مشہور فان قلت قال صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فی حق ہذا الجیش مغفور لہم قلت قیل لا یلزم من دخولہ فی ذالک العموم ان لا یخرج بدلیل خاص اذالا یختلف اہل العلم ان قولہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مغفور لہم مشروط بان یکوانو من اہل المغفرۃ حتی لو ارتد واحد ممن غزاہا بعد ذالک لم یدخل فی ذالک العموم فدل علی انا المراد مغفور لمن وجد شرط المغفرۃ منہم ۔

ترجمہ : اور اس لشکر میں ابن عباس ، ابن عمر ، ابن زبیر اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہم تھے ۔ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ سادات صحابہ حضرت سفیان بن عوف رضی ﷲ عنہ کی قیادت میں تھے ۔ نہ کہ یزید بن معاویہ کی سرکردگی میں کیونکہ یزید ہرگز اس قابل نہ تھا کہ سادات صحابہ اس کی سرکردگی میں ہوں ۔ مہلب نے کہا اس حدیث میں حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ کی منقبت ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے جنگ لڑی اور ان کے بیٹے یزید کی منقبت ہے جبکہ اس کا حال مشہور ہے ۔ اگر تم کہو کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس لشکر کےلیے ’’مغفور لہم‘‘ فرمایا تو ہم کہتے ہیں کہ عموم میں داخل ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ دلیل خاص سے خارج نہ ہو سکے ، کیونکہ اس میں اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد مغفور لہم مشروط ہے کہ وہ آدمی مغفرت کا اہل ہو ۔ حتیٰ کہ اگر غازیوں میں کوئی مرتد ہوجائے تو وہ اس عموم میں داخل نہیں رہتا ۔ پس ثابت ہوا کہ مغفرت اسی کےلیے ہے جو مغفرت کا اہل ہوگا ۔ (عمدۃ القاری شرح بخاری ۱۲/۱۰مطبوعہ مصر،چشتی)


یزید بن معاویہ جس لشکر میں شامل تھا وہ ۵۲ ہجری میں قسطنطنیہ پر حملہ آور ہوا تھا ۔ جبکہ پہلا حملہ اس سے بہت پہلے ہو چکا تھا ۔ جیسا کہ اوپر تفصیلاً ذکر کیا گیا ہے ۔ یزید والا لشکر ۵۲ ہجری میں حملہ آور ہوا تھا ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس لشکر میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ بھی شامل تھے اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ کا انتقال ۵۲ ہجری میں ہوا ۔


علامہ ابن کثیر دمشقی فرماتے ہیں : وذالک سنۃ ۵۲ہ اثنتین وخمسین ومعہم ابو ایوب فمات ہناک ۔ اسی سال ۵۲ ہجری میں ان کے ساتھ ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ بھی تھے اور آپ کا انتقال بھی وہیں ہوا تھا ۔ (البدایہ والنہایہ ۸/۵۹)


علامہ ذہبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : وکان ابو ایوب سنۃ ۵۲ ہجری

۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ کا انتقال ۵۲ ہجری میں ہوا ۔ (تذکرۃ الحفاظ ۱/۲۹)


علامہ ابن اثیر نے ۵۲ ہجری کے حوادث میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ کی وفات کا ذکر کیا ہے ۔ (ابن اثیر ۳/۴۹۲)


یزید کے حامی محمود احمد عباسی ناصبی خارجی نے بھی طبقات ابن سعد کے حوالے سے لکھا : وتوفی ابو ایوب انصاری عام غزا یزید ابن معاویۃ القسطنطنیۃ خلافۃ ابیہ سنۃ ۵۲ھ ۔ (خلافت معاویہ ویزید صفحہ ۷۹)


علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : وکانت غزوۃ یزید المذکورۃ فی سنۃ اثنتین فی خمیس من الہجرۃ وفی تلک الغزوۃ مات ابو ایوب الاناصری فاوحی ان یدفن عند باب القسطنطنیۃ ۔

ترجمہ : اور یزید کا مذکورہ غزوہ ۵۲ ھ میں ہوا ۔ اسی غزوہ میں ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ کا انتقال ہوا اور انہوں نے وصیت فرمائی کہ مجھے قسطنطنیہ کے دروازے کے پاس دفن کیا جائے ۔


ان تمام حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ یزید کے لشکر میں شامل تھے اور وہ لشکر ۵۲ھجری میں قسطنطنیہ پر حملہ آور ہوا اور اسی حملہ میں صحابی رسول حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ کی وفات ہوئی اور یہ قسطنطنیہ پر آخری حملہ تھا ۔ جبکہ مغفرت کی بشارت والی حدیث میں صراحت ہے کہ ’’پہلا لشکر جو ہو گا اس کی مغفرت ہوگی‘‘ دوسری طرف دیکھیے کہ یزید اس غزوہ میں شوق یا جوش جہاد سے نہیں گیا بلکہ مجاہدین کو پہنچنے والی تکالیف پر خوشی کا اظہار کرنے کی وجہ سے حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے اسے جبراً بھیجا تھا ۔


علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں : ۵۰ ہجری میں حصرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے ایک بہت بڑا لشکر حضرت سفیان بن عوف کی قیادت میں بلادِ روم پر حملے کےلیے بھیجا اور اپنے بیٹے یزید کو بھی اس میں شریک ہونے کو کہا لیکن اس نے بڑی گرانی محسوس کی تو اسے آپ نے چھوڑ دیا ۔ پھر لوگوں کو یہ اطلاع ملی کہ اس لشکر کے مجاہدین سخت بھوک اور بیماری کا شکار ہوئے ۔ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو اطلاع ملی کہ یزید نے اس لشکر کا حال سن کر یہ اشعار پڑھے : ⬇


مان ابا لی بمالاقت جمود عہم بالفد قد البید من الحمیٰ ومن شوم اذا اتطات علی الانماط مرتفقا بدید مران عندی ام کلثوم وہی امراتہ بنت عبدﷲ ابن عامر فخلف لیخلفن بہم فسار فی جمع کثیر

ترجمہ : مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ بخار اور بدقسمتی کی وجہ سے اس کھلے صحرا میں ان لشکروں پر کیا بیتی ۔ جبکہ میں نے دیر مران میں بلند ہو کر قالینوں پر تکیہ لگا لیا ۔ اور میرے پہلو میں ام کلثوم موجود ہے ۔ یہ عبدﷲ بن عامر کی بیٹی (اور یزید کی بیوی تھی) تو حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے قسم کھائی کہ یزید کو اس لشکر کے ساتھ بھیجیں گے چنانچہ جماعت کثیرہ کے ساتھ وہاں چلا گیا ۔ (تاریخ ابن خلدون ۳/۱۹،۲۰) 


علامہ ابن اثیر نے بھی یہی بات لکھی ہے ۔ (ابن اثیر ۳/۴۵۸)


اگر بالفرض یزید کو بشارت والی حدیث کا مصداق مان لیا جائے تو اس حدیث کا مفاد صرف یہ ہے کہ یزید کے اس وقت تک جتنے گناہ تھے ، وہ بخش دیے گئے ۔ بعد میں یزید کے افعالِ قبیحہ نے اسے اس بشارت سے محروم کر دیا کیونکہ جہاد ایک عمل خیر ہے جس سے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں ، لیکن بعد والے معاف نہیں ہوتے ۔


حضرت شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس حدیث پاک ’’مغفور لہم‘‘ سے بعض لوگوں نے یزید کی نجات پر استدلال کیا ہے کیونکہ وہ اس دوسرے لشکر میں شریک تھا بلکہ اس کا افسر و سربراہ تھا ۔ جیسا کہ تاریخ گواہی دیتی ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ اس حدیث سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس غزوہ سے پہلے جو اس نے گناہ کئے وہ بخش دیے گئے ، کیونکہ جہاد کفارات میں سے ہے اور کفارات کی شان یہ ہے کہ وہ سابقہ گناہوں کے اثر کو زائل کرتا ہے ۔ بعد میں ہونے والے گناہوں کے اثر کو نہیں ۔ ہاں اگر اسی کے ساتھ یہ فرما دیا ہوتا کہ قیامت تک کےلیے اس کی بخشش کر دی گئی ہے تو بے شک یہ حدیث اس کی نجات پر دلالت کرتی ۔ اور جب یہ صورت نہیں تو نجات بھی ثابت نہیں ، بلکہ اس صورت میں اس کا معاملہ ﷲ تعالیٰ کے سپرد ہے اور اس غزوہ کے بعد جن جن برائیوں کا وہ مرتکب ہوا ہے ، جیسے امام حسین رضی ﷲ عنہ کو شہید کروانا ، مدینہ طیبہ کو تاخت و تاراج کرانا ، شراب نوشی پر اصرار کرنا ، ان سب گناہوں کا معاملہ ﷲ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے ۔ چاہے تو معاف کرے ، چاہے تو عذاب دے ۔ جیسا کہ تمام گناہ گاروں کے حق میں یہ ہی طریقہ رائج ہے ۔ (شرح تراجم ابواب البخاری ص ۳۱،۳۲،چشتی)


یہی مفہوم علامہ قسطلانی نے ’’ارشاد الساری ۵/۱۲۵ ، اور علامہ بدرالدین عینی نے ’’عمدۃ القاری ۱۲/۱۰‘‘ میں فرمائی ہے ۔


غیر مقلدین کے محدث حافظ زبیر علی زئی نے ماہنامہ ’’الحدیث‘‘ شمارہ ۶ ص ۴ اور عبدﷲ دامانوی نے ماہنامہ ’’محدث‘‘ جنویر ۲۰۱۰ء صفحہ ۴۸ میں اور مولانا ارشاد الحق نے بھی ماہنامہ ’’محدث‘‘ اگست ۱۹۹۹ء میں یہی موقف اپنایا ہے کہ یزید اس حدیث کا مصداق نہیں اور نہ اس حدیث سے اس کی نجات ثابت ہے ۔


ﷲ تعالیٰ کی ذات غفور الرحیم ہے ۔ وہ مالک یوم الدین ہے ۔ وہ اگر یزید کو بخشنا چاہے تو اس کی مرضی ، لیکن قواعدِ شرعیہ کی رو سے عترتِ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قاتل ، مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تاخت و تاراج کرنے والے اور حرمِ کعبہ پر سنگ بازی کے مجرم یزید کو جنتی کہنا بہت بڑی جہالت ، سخت لادینیت ہے ۔


محترم قارٸینِ کرام : موجودہ دور نفسا نفسی اور فتنوں کا دور ہے ۔ روز بروز ایک نیا فتنہ اسلام کا نام لے کر کھڑا ہوتا نظر آرہا ہے ۔ موجودہ دور میں ماڈرن لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان ماڈرن لوگوں میں یہ بیماری ہے کہ وہ ماڈرن مذہبی اسکالرز کی بات کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج میڈیا پر خشخشی داڑھی والے غامدی‘ کوٹ پینٹ ٹائی والے ذاکر نائیک اور ہاتھوں میں بینڈ باجے لئے بابر چوہدری اور نجم شیراز جیسے لوگ جو نہ سند یافتہ عالم ہیں اور نہ ہی شکل اور حلیے سے مذہبی معلوم ہوتے ہیں۔ بھولے بھالے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ وہ روزانہ میڈیا پر ایک نیا شوشہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان لوگوں کو کوئی فسادی اور فرقہ پرست نہیں کہتا۔


آج کل انہی جیسے لوگوں نے یہ بات مشہور کردی ہے کہ یزید بے قصور آدمی تھا ۔ یزید کے لئے تو جنت کی بشارت دی گئی ہے وہ قتل حسین پر راضی نہ تھا۔ ان کے اس میٹھے زہر کا مقابلہ ہم آج اس مضمون میں کریں گے اور احادیث‘ جید تابعین اور علمائے امت کے اقوال کی روشنی میں یہ ثابت کریں گے جس یزید کو ناصبی اپنی آنکھ کا تارا تصور کرتے ہیں وہ دین اسلام کی اصل شکل کو مسخ کرنے کے ارادے سے حکمرانی کررہا تھا۔


یزید کا مختصر تعارف


حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ یزید بیٹا معاویہ بن ابی سفیان صخربن حرب بن امیہ بن عبد شمس ہے ‘کنیت اس کی ابو خالد ہے۔ یزید حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں پیدا ہوا (تہذیب التہذیب لابن حجر عسقلانی جلد 11 صفحہ 360)


یزید احادیث کی روشنی میں


حضرت ابوعبیدہ رضی  ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کا امر (حکومت) عدل کے ساتھ قائم رہے گا۔ یہاں تک کہ پہلا شخص جو اسے تباہ کرے گا وہ بنی امیہ میں سے ہوگا جس کو یزید کہا جائے گا ۔ (مسند ابو یعلیٰ حدیث نمبر 872ص 199،چشتی)(مجمع الزوائد جلد 5ص 241)(تاریخ الخلفاء ص 159‘ الصواعق المحرقہ ص 221)


محدث امام رٶیانی نے اپنی مسند میں حضرت ابو درداء رضی ﷲ عنہ سے روایت کیا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ پہلا وہ شخص جو میرے طریقے کو بدلے گا وہ بنی امیہ میں سے ہوگا جس کو یزید کہا جائے گا ۔ (جامع الصغیر جلد اول صفحہ 115)(تاریخ الخلفاء صفحہ 160‘چشتی)(ماثبت من السنہ صفحہ 12)


حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ‘ سن ساٹھ کے آغاز سے تم لوگ ﷲ تعالیٰ کی پناہ مانگنا اس وقت دنیا (حکومت) احمق اور بدعادت کےلیے ہوگی ۔ (خصائص کبریٰ جلد دوم صفحہ 139)


علامہ قاضی ثناء ﷲ پانی پتی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : چھوکروں اور احمقوں کی حکومت سے مراد یزید کی حکومت کی طرف اشارہ ہے ۔ (تفسیر مظہری جلد اول صفحہ 139)


یزید جید تابعین کی نظر میں


حضرت عبدﷲ بن حنظلہ رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ : خدا تعالیٰ کی قسم ! ہم یزید کے خلاف اس وقت اٹھ کھڑے ہوئے جبکہ ہمیں یہ خوف لاحق ہو گیا کہ اس کی بدکاریوں کی وجہ سے ہم پر آسمان سے پتھر نہ برس پڑیں کیونکہ یہ شخص (یزید) ماٶں ‘ بیٹیوں اور بہنوں کے ساتھ نکاح جائز قرار دیتا اور شراب پیتا اور نمازیں چھوڑ دیتا تھا ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 207)(الصواعق المحرقہ صفحہ 134)(طبقات ابن سعد جلد 5 صفحہ 66،چشتی)


حضرت منذر بن زبیر رضی ﷲ عنہ نے علی الاعلان لوگوں کے سامنے کہا ’’بے شک یزید نے مجھے ایک لاکھ درہم انعام دیا مگر اس کا یہ سلوک مجھے اس امر سے باز نہیں رکھ سکتا کہ میں تمہیں اس کا حال نہ سناٶں ۔ خدا کی قسم وہ شراب پیتا ہے اور اسے اس قدر نشہ ہو جاتا ہے کہ وہ نماز ترک کر دیتا ہے ۔ (ابن اثیر جلد چہارم صفحہ 42،چشتی)(وفاء الوفاء جلد اول صفحہ 189)


حضرت عبدﷲ بن زبیر رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں خدا کی قسم ! بلاشبہ انہوں نے ایسے شخص کو قتل کیا جو قائم اللیل اور صائم النہار تھے جو ان سے ان امور کے زیادہ حقدار تھے اور اپنے دین و فضیلت و بزرگی میں ان سے بہتر تھے۔ خدا کی قسم! وہ قرآن مجید کے بدلے گمراہی پھیلانے والے نہ تھے ۔ ﷲ تعالیٰ کے خوف سے ان کی مجلسوں میں ذکر الٰہی کے بجائے شکاری کتوں کا ذکر ہوتا تھا ۔ یہ باتیں انہوں نے یزید کے متعلق کہی تھیں ۔ پس عنقریب یہ لوگ جہنم کی وادی غیّ میں جائیں گے ۔ (ابن اثیر جلد چہارم صفحہ 40،چشتی)


نوفل بن ابو انضرت نے فرمایا : میں پہلی صدی کے مجدد حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی ﷲ عنہ کے پاس تھا ۔ پس ایک شخص نے آکر یزید کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کو یوں کہا ۔ امیرالمومنین یزید بن معاویہ‘‘ یہ سننا تھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی ﷲ عنہ غضبناک ہوئے ۔ آپ نے فرمایا تو یزید کو امیرالمومنین کہتا ہے ۔ پھر آپ کے حکم پر اس کو بیس کوڑے مارے گئے ۔ (الکامل جلد سوم صفحہ 277،چشتی)(تہذیب التہذیب جلد 11 صفحہ 361‘ تاریخ الخلفاء صفحہ 160)(ماثبت من السنہ صفحہ 13)


یزید علمائے اسلام اور محدثین کی نظر میں


حضرت امام احمد بن حنبل رضی ﷲ عنہ متوفی 241ھ نے اپنے فرزند کو فرمایا : کیوں لعنت نہ کی جائے اس یزید پر جس پر ﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں لعنت کی ہے ۔ آپ کے بیٹے نے عرض کیا ﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کہاں یزید پر لعنت کی ہے ؟ آپ نے فرمایا سورہ محمد کی ان آیات میں : ترجمہ : تو کیا تمہارے لچھن (کردار) نظرآتے ہیں اگر تمہیں حکومت ملے تو زمین میں فساد پھیلائو اور ایسے رشتے دار کاٹ دو۔ یہ ہیں وہ لوگ جن پر ﷲ نے لعنت کی اور انہیں حق سے بہرا کردیا اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں (سورہ محمد آیت 23-22)


اس آیت کی تفسیر میں مشہور مفسر امام سید محمود آلوسی حنفی متوفی 1270ھ فرماتے ہیں : یعنی سورہ محمد کی ان آیات سے استدلال کیا گیا ہے کہ یزید پر لعنت جائز ہے اور میں یزید جیسے فاسق ‘ فاجر پر لعنت شخص کی طرف جاتا ہوں کیونکہ یزید کی توبہ کا احتمال اس کے ایمان کے احتمال سے بھی زیادہ ضعیف ہے اور یزید کے ساتھ ابن زیاد‘ ابن سعد اور یزید کی ساری جماعت شریک ہے ۔ پس ﷲ کی لعنت ہو ‘ ان سب پر اور ان کے مددگاروں پر اور ان کے حامیوں پر اور ان کے حامیوں پر اور ان کے گروہ پر اور قیامت تک جو بھی ان کی طرف مائل ہو ‘ ان سب پر ﷲ کی لعنت ہو ۔ (تفسیر روح المعانی جلد 26 صفحہ 72،چشتی)


علامہ حافظ ابن کثیر دمشقی متوفی 774ھ نے لکھا ہے۔ یعنی یزید نے ابن زیاد کو حکم دیا تھا کہ جب تو کوفہ پہنچ جائے تو مسلم بن عقیل رضی ﷲ عنہ کو تلاش کرکے قتل کر دینا ۔ (البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 152)

ابن زیاد نے (یزید کے حکم کے مطابق) حضرت مسلم بن عقیل رضی ﷲ عنہ کو قتل کرایا ‘ ابن زیاد نے حضرت ہانی کو سوق الغنم میں شہید کرایا ۔ (البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 157)


یزید نے ان بزرگوں کو قتل کر دینے پر ابن زیاد کا شکریہ ادا کیا (شہید کربلا از مفتی شفیع دیوبندی)


گیارہویں صدی کے مجدد محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ متوفی 1052ھ فرماتے ہیں : ایک طبقہ کی رائے یہ ہے کہ قتل حسین دراصل گناہ کبیرہ ہے کیونکہ ناحق مومن کا قتل کرنا گناہ کبیرہ میں آتا ہے‘ کفر میں نہیں آتا مگر لعنت تو کافروں کے لئے مخصوص ہے ایسی رائے کا اظہار کرنے والوں پر افسوس ہے ۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کلام سے بھی بے خبر ہیں کیونکہ حضرت فاطمہ رضی ﷲ عنہا اور اس کی اولاد سے بغض و عداوت اور انہیں تکلیف دینا توہین کرنا باعث ایذا و عداوت نبی ہے ۔ اس حدیث کی روشنی میں یہ حضرات‘ یزید کے متعلق کیا فیصلہ کریں گے ؟ کیا اہانتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور عداوت رسول کفر اور لعنت کا سبب نہیں ہے ؟ اور یہ بات جہنم کی آگ میں پہنچانے کےلیے کافی نہیں ؟ ۔ (تکمیل الایمان صفحہ نمبر 178،چشتی)


امام جلال الدین سیوطی متوفی 911ھ فرماتے ہیں : ﷲ تعالیٰ کی لعنت ہو امام حسین رضی ﷲ عنہ کے قاتل ابن زیاد اور یزید پر امام حسین رضی ﷲ عنہ کربلا میں شہید ہوئے اور آپ کی شہادت کا قصہ طویل ہے ۔ دل اس ذکر کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 80)


امام ربانی مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ متوفی 1043ھ فرماتے ہیں : یزید بے دولت از اصحاب نیست در بد بختی اوکر اسخن کارے کہ آں بدبخت کردہ ہیچ کا فرفرنگ نہ کند ، یعنی یزید بے دولت صحابہ کرام میں سے نہیں ۔ اس کی بدبختی میں کس کو کلام ہے جو کام اس نے کئے ہیں کوئی کافر فرنگی بھی نہ کرے گا ۔ (مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ 54،چشتی)


علامہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ متوفی 1239ھ فرماتے ہیں : پس انکار کیا امام حسین رضی ﷲ عنہ نے یزید کی بیعت سے کیونکہ وہ فاسق ‘ شرابی اور ظالم تھا اور امام حسین رضی ﷲ عنہ مکہ شریف تشریف لے گئے ۔ (سر الشہادتیں صفحہ 12)


امام طاہر بن احمد بن عبدالرشید بخاری متوفی 542ھ فرماتے ہیں : یزید پر لعنت کرنے کے بارے میں امام علامہ قوام الدین الصنعاری علیہ الرحمہ اپنے والد سے حکایت بیان کرتے ہیں کہ یزید پر لعنت کرناجائز ہے اور فرماتے ہیں یزید پلید پر لعنت کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ (خلاصتہ الفتاویٰ جلد چہارم صفحہ 390)


حضرت عبدالرحمن جامی علیہ الرحمہ متوفی 898ھ فرماتے ہیں : یعنی یزید پر سو لعنتیں ہوں اور بھی ۔ (تذکرہ مولانا عبدالرحمن جامی صفحہ 66)


چودھویں صدی کے مجدد امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : یزید کو اگر کوئی کافر کہے تو ہم منع نہیں کریں گے اور خود نہ کہیں گے ۔ (الملفوظ حصہ اول صفحہ 114)


دوسرے مقام پر فرماتے ہیں : یزید پلید کے بارے میں ائمہ اہلسنت کے تین اقوال ہیں ۔ امام احمد ابن حنبل علیہ الرحمہ وغیرہ اکابر اسے کافر جانتے ہیں تو ہرگز بخشش نہ ہوگی اور امام غزالی علیہ الرحمہ وغیرہ مسلمان کہتے ہیں تو اس پر کتنا ہی عذاب ہو ‘ بالاخر بخشش ضرور ہوگی اور ہمارے امام ‘ امام اعظم ابوحنیفہ رضی ﷲ عنہ سکوت (خاموشی) فرماتے ہیں کہ ہم نہ مسلمان کہیں نہ کافر (رحمة ﷲ علیہ) بھی نہ کہیں لہٰذا یہاں بھی سکوت کریں گے ۔ (احکام شریعت صفحہ 88)


محترم قارٸینِ کرام : فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی ادنیٰ خادمِ اہلبیتِ اطہار رضی الللہ عنہم نے آپ کے سامنے احادیث مباتکہ ‘ اقوال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور علمائے اسلام علیم الرحمہ کے اقوال کی روشنی میں یزید پلید کی شدید مذمت بیان کی ۔ اب فیصلہ ہر کلمہ پڑھنے والا مسلمان خود کرے ‘ ہم اکابر محدثین کی بات مانیں یا موجودہ دور کے نام نہاد مذہبی اسکالر اور وہ بھی کوٹ پتلون اور ٹائی میں ملبوس فیشن ایبل لوگوں کی ؟ ہرگز نہیں ۔ ہرگز نہیں ۔ ہم تو اکابرین اور محدثین علیہم الرحمہ کی بات مانیں گے ۔


یہ بات فقیر نے اس لیے کہی کہ 2008ء کے اوائل میں ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اپنے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’’کربلا کی جنگ سیاسی جنگ تھی‘‘ اس کے بعد یزید کو رحمة ﷲ علیہ کہا (اس کی ویڈیو یٹیوب پر موجود ہے) ۔ ذاکر نائیک کے ان الفاظ پر پوری دنیا کے علماء کرام اورمفتیان کرام نے ذاکر نائیک کو گمراہ اور بے دین قرار دیا ۔ پہلے تو ذاکر نائیک نے اس فتوے کو کوئی اہمیت نہ دی مگر جب پوری دنیا سے اس کے جواب کی مذمت کی گئی تو فورا اس نے یہ کہا کہ جو فتویٰ مجھ پر لگاتے ہو ‘ وہی فتویٰ حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ پر بھی لگاٶ ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ذاکر نائیک نے حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ کا فتویٰ یزید کے متعلق صحیح پڑھا اور سمجھا ہی نہیں ہے لہٰذا امام غزالی علیہ الرحمہ کا یزید کے متعلق فتویٰ ملاحظہ ہو : ⬇


حجتہ الاسلام امام غزالی علیہ الرحمہ کا فتویٰ


اگر کوئی پوچھے کہ امام حسین رضی ﷲ عنہ کے قاتل اور آپ کے قتل کا حکم دینے والے پر ﷲ تعالیٰ کی لعنت ہو ‘ کہنا جائز ہے ؟ ہم کہتے ہیں کہ حق بات یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ آپ رضی ﷲ عنہ کا قاتل اگر توبہ کر کے مرا ہے تو اس پر خدا کی لعنت نہ ہو کیونکہ یہ ایک احتمال ہے کہ شاید اس نے توبہ کرلی ہو ۔ (احیاء العلوم جلد 3 صفحہ 122 مطبوعہ مصر)


امام غزالی علیہ الرحمہ کے فتوے سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوئیں : ⬇


1 ۔ پہلی بات یہ ثابت ہوئی کہ حضرت امام حسین رضی ﷲ عنہ کا قتل ناحق تھا (لہٰذا ثابت ہوا کہ ناحق قتل کرنے والے یزید اور یزیدی ظالم اور قاتل تھے ورنہ قاتل پر خدا کی لعنت جائز نہ ہوتی ۔


 2 ۔ دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ توبہ کی قید لگانا امام غزالی علیہ الرحمہ کے کمال تقویٰ کی دلیل ہے ۔


3 ۔ تیسری بات یہ ہے کہ آپ نے پورے فتوے میں ذاکر نائیک کی طرح معرکہ کربلا کو سیاسی جنگ قرار نہیں دیا ۔


4 ۔ چوتھی بات یہ ہے کہ آپ نے پورے فتوے میں ذاکر نائیک کی طرح یزید کو ’’رحمة ﷲ علیہ‘‘ نہیں کہا ۔


5 ۔ پانچویں بات یہ ہے کہ یزید اور قاتلانِ حسین رضی ﷲ عنہ کی توبہ کہیں سے بھی ثابت نہیں لہذا امام غزالی کے فتوے کے مطابق امام حسین رضی ﷲ عنہ کے قاتل اور آپ کے قتل کا حکم دینے والے پر ﷲ تعالیٰ کی لعنت ہو۔


یزید کو نادم اور بے قصور کہنے والوں سے فقیر چشتی کے کچھ سوالا اب تک ہیں جواب کے منتظر ؟


سوال : یزید اگر ظالم نہ تھا تو اس نے صحابی رسول حضرت نعمان بن بشیر رضی ﷲ عنہ کو معزول کرکے ابن زیاد کو کوفے کا گورنر کیوں بنایا ؟


سوال : اگر اس کے کہنے پر سب کچھ نہیں ہوا تو اس نے معرکہ کربلا کے بعد ابن زیاد ‘ ابن سعد اور شمر کو سزائے موت کیوں نہیں دی ؟


سوال : معرکہ کربلا کے بعد اہلبیت کی خواتین کو قیدیوں کی طرح کیوں رکھا گیا ؟


سوال : حضرت سیدہ زینب رضی ﷲ عنہا کے سامنے اپنی فتح کا خطبہ کیوں پڑھا ؟


سوال : جب اس کے دربار میں امام حسین رضی ﷲ عنہ کا سر انور لایا گیا تو اس پر اس نے چھڑی کیوں ماری ؟


سوال : اگر یزید بے قصور تھا تو اس نے گھرانہ اہلبیت سے معافی کیوں نہیں مانگی ؟


سوال : معرکہ کربلا کے بعد مسجدِ نبوی کی بے حرمتی کیوں کی گئی ؟ اور امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے تاریخ الخلفاء میں لکھا کہ مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے گئے ۔


سوال : بیت ﷲ پر یزید نے سنگ باری کیوں کروائی ؟ امام سیوطی علیہ الرحمہ کے مطابق بیت ﷲ میں آگ لگی اور غلافِ کعبہ جل گیا ۔ (تاریخ الخلفا)


کیا یزید کےلیے جنت کی بشارت دی گئی تھی ؟


بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فاتح قسطنطنیہ کو جنت کی بشارت دی تھی اور یزید بھی اس لشکر میں شامل تھا لہذا وہ جنتی ہوا ۔


حدیث قسطنطنیہ ملاحظہ ہو : ⬇


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میری امت کا وہ لشکر بخش دیا جائے گا جو قیصر کے شہر پر سب سے پہلے حملہ کرے گا ۔ (صحیح بخاری‘ جلد اول کتاب الجہاد باب ماقیل فی قاتل الروم ص 410)


تفصیلی جواب ہم عرض کر چکے ہں مزید پڑھیں قیصر کے شہر سے مراد کون سا شہر ہے ؟


قیصر کے شہر سے مراد وہ شہر ہے جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشاد کے وقت قیصر کا دارالمملکت تھا اور وہ حمص تھا ۔ (فتح الباری جلد ششم صفحہ 128)


قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے پہلے لشکر میں کیا یزید شامل تھا ؟


البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 31 پر ہے کہ قسطنطنیہ پر پہلا حملہ 43 ھجری میں حضرت بسر بن ارطاہ رضی ﷲ عنہ کی قیادت میں ہوا تھا ۔ (البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 31)


قسطنطنیہ پر دوسرا حملہ 46 ھجری میں کیا گیا تھا۔ علامہ ابن اثیر متوفی 630 ھجری لکھتے ہیں : یعنی 49 ھجری اور کہا گیا 50 ھجری میں حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے ایک بڑا بلادِ روم کی جانب جنگ کےلیے بھیجا ۔ اس کا سپہ سالار سفیان بن عوف رضی ﷲ عنہ کو بنایا ۔ اپنے بیٹے یزید کو حکم دیا کہ ان کے ساتھ جائے تو وہ بیمار بن گیا اور عذر کر دیا ۔ اس پر اس کے باپ رہ گئے ۔ لوگوں کو بھوک اور سخت بیماری لاحق ہو گئی ۔ یہ سن کر یزید نے یہ اشعار پڑھے : ⬇


مقام فرقدونہ میں لشکر پر کیا بلا ترمہ اشعار : نازل ہوئی ‘ بخار آیا کہ سرسام میں مبتلا ہوئے ۔ مجھے کچھ پرواہ نہیں جبکہ میں اونچی قالین پر دیر سران میں بیٹھا ہوں اور ام کلثوم میرے بغل میں ہے ۔


ام کلثوم یزید کی بیوی تھی ۔ جب حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے یہ اشعار سنے تو یزید کو قسم دی کہ ارض روم جا کر سفیان کے ساتھ ہو جا تاکہ تو بھی ان مصائب سے دوچار ہو ‘ جن سے غازیان اسلام ہوئے ۔ اب مجبور ہو کر یزید گیا ۔ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے اس کے ساتھ ایک بڑی جماعت کردی ۔ (الکامل فی التاریخ جلد سوم صفحہ نمبر 131،چشتی)


نتیجہ : اب یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ یزید پہلے جیش میں نہیں بلکہ اس کے بعد والے جیش میں بطور ایک معمولی سپاہی اور بادلِ ناخواستہ شریک ہوا ۔


اگر بالفرض یہ بھی مان لیں کہ یزید اول جیش میں بھی شریک تھا تو اس حدیث کی وجہ سے کیا وہ جنتی ہے ؟


اُصولِ فقہ کی کتابوں میں یہ مسئلہ موجود ہے کہ ’’مامن عام الاخص منہ البعض‘‘ یعنی عموم ایسا نہیں جس میں سے بعض افراد مخصوص نہ ہوں ۔ معلوم ہوا کہ ہر عموم سے بعض افراد مخصوص ضرور ہوتے ہیں ۔ اس اُصول کی بناء پر حفاظ حدیث قسطنطنیہ والی حدیث کے ماتحت فرماتے ہیں : یزید کا اس عموم میں داخل ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ کسی دلیل خاص سے اس عموم سے خارج نہیں ہو سکتا کیونکہ اہل علم میں سے کسی نے اختلاف نہیں کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا قول مغفور لہم مشروط ہے مطلق نہیں ۔ وہ یہ کہ مغفور لہم وہ ہے جو بخشش کے اہل ہوں ۔ اگر کوئی فرد لشکر کا مرتد (بے ایمان) ہوجائے وہ اس بشارت مغفرت میں داخل نہیں ہو گا ۔ اس بات پر تمام علماء امت کا اتفاق ہے ۔ پس یہ اتفاق اس بات کی دلیل ہے کہ لشکرِ قسطنطنیہ کا وہ شخص مغفرت یافتہ ہے جس میں مغفرت کی شرائط مرتے وقت تک پائی جائیں ـ (فتح الباری جلد 11صفحہ 92 مطبوعہ نولکشور ہندوستان،چشتی)


محدثین اور حفاظ کے فیصلے کی مزید توفیق


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ : انسان زبان سے ’’لاالہ الا اﷲ‘‘ کہہ دے وہ جنتی ہے ۔ مرزا قادیانی کے ماننے والے بھی کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں وہ کافر کیوں ؟


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمانا کہ میری امت کے تہتر فرقے ہوں گے ۔ یہ فرمان اس بات کی دلیل ہے کہ وہ تمام فرقے ’’لاالہ الا اﷲ‘‘ کہنے والے ہوں گے لیکن پھر بہتر (72) جہنمی کیوں ؟

بات دراصل یہ ہے کہ جو شخص کلمہ طیبہ پڑھے اور مرتے دم تک مرتد (بے ایمان) نہ ہو‘ وہ جنتی ہے ۔ فقیر چشتی نے آپ کے سامنے تابعین اور علمائے امت علیہم الرحمہ کے یزید کے متعلق تاثرات پیش کر دیے ہیں ۔ اگر اب بھی کوئی زبردستی یزید کو رحمة ﷲ علیہ ‘ امیر المومنین اور جنتی کہے تو اسے چاہئے کہ وہ یہ دعا کرے کہ : ⬇


یا ﷲ  میرا حشر قیامت کے دن یزید کے ساتھ فرما ؟


یزید لعین کے متعلق اس کے سگے بیٹے کی رائے : ⬇


یزید کے بیٹے نے چند دن حکومت میں رہ کر حکومت سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے کہا کہ میرے باپ یزید نے حکومت سنبھالی حالانکہ وہ اس قابل نہ تھا ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے امام حسین رضی اللہ عنہ سے اس نے جنگ کی اور اس کی عمر کم ہوگئی ، اور وہ اپنے گناہوں کو لے کر قبر میں جا پھنسا ، پھر یزید کا بیٹا روپڑ ا، کہا ہمارے لیے بڑ ا صدمہ یزید کے بُرے انجام کا ہے اس نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عزت کو قتل کیا ، شراب کو حلال کیا ، کعبہ کو تباہ کیا ۔ (صواعق المحرقہ صفحہ 224)


نوٹ اب کیا کہتے ہیں یزید کے حواری اور اس کی ناجائز روحانی اولادیں جواب دلیل سے دیں ؟ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)