یوں کرتے ہیں بیاں سنی شانِ اہلبیت رضی اللہ عنہم
ترجَمہ : اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دُور فرما دے اور تمہیں پاک کر کے خوب ستھرا کر دے ۔
تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارک کی تفسیر میں ہے : اہلِ بیت رضی اللہ عنہم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن (یعنی پاک بیویاں) اور حضرت خاتونِ جنّت فاطمہ زہرا اور علیِ مرتضٰی اور حسنَینِ کریمین (یعنی امام حسن و امام حسین) رضی اللہ عنہم سب داخل ہیں ، آیات و احادیث کو جمع کرنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے ۔ (تفسیر خزائن العرفان صفحہ 780)
حضرت صدرُالآفاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یہ آیتِ کریمہ اہلِ بیت ِکرام رضی اللہ عنہم کے فضائل کا منبع (یعنی سرچشمہ) ہے ، اس سے ان کے اعزازِ مآثر (یعنی بلند مقام) اور علوشان (یعنی اونچی شان ) کا اظہار ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ تمام اخلاقِ دَنیہ (یعنی گھٹیا اخلاق) و احوالِ مذمومہ (یعنی ناپسندیدہ حالتوں) سے ان کی تطہیر فرمائی گئی ۔ بعض احادیث میں ہے کہ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم نار (جہنم) پر حرام ہیں اور یہی اس تطہیر کا فائدہ اور ثمرہ ہے اور جو چیز ان کے احوالِ شریفہ (شرافت والی حالتوں) کے لائق نہ ہو اس سے ان کا پروردگار عزوجل انہیں محفوظ رکھتا اور بچاتا ہے ۔ (سوانح کربلا صفحہ 82 )
اُن کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں
آیۂ تطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہلِ بیت
اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کے چند حقوق : ⬇
(1) اہلِ بیت رضی اللہ عنہم سے اچھا سلوک کیا جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا : جو میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا میں قیامت کے دن اس کا بدلہ اُسے عطا فرماؤں گا ۔ (تاریخ ابن عساكر جلد 45 صفحہ 303)
(2) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کے حقوق میں سے ہے کہ اپنی اولاد کو ان کی محبت سکھائی جائے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا : اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤ : اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی محبت ، ان کے اہلِ بیت کی محبت اور قراءتِ قرآن ۔ (جامع صغير صفحہ 25 حدیث نمبر 311،چشتی)
(3) اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کا حق پہچاننا ہمارے اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی محبت کو لازم پکڑلو کیونکہ جو اللہ پاک سے اس حال میں ملا کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے تو اللہ پاک اسے میری شفاعت کے سبب جنّت میں داخل فرمائے گا اور اُس کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ! کسی بندے کو اُس کا عمل اسی صورت میں فائدہ دے گا جب کہ وہ ہمارا (یعنی میرا اور میرے اہلِ بیت کا) حق پہچانے ۔ (معجم اوسط جلد 1 صفحہ 606 حدیث نمبر 2230 )
(4) اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کے حقوق میں سے ہے کہ ان سے محبت کی جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا : اس وقت تک کوئی (کامل) مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کی جان سے زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں اور میری اولاد اس کو اپنی اولاد سے زیادہ پیاری نہ ہو جائے ۔ (شعب الایمان جلد 2 صفحہ 189 حدیث نمبر 1505)
( 5 ) اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کے حقوق میں سے ہے کہ ان سے دشمنی نہ رکھی جائے کہ حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ جو شخص اہلِ بیت رضی اللہ عنہم سے دشمنی رکھتے ہوئے مرا وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہو گا : یہ آج اللہ پاک کی رحمت سے مایوس ہے ۔ (تفسیر قرطبی جلد 8 صفحہ 17،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : ستارے آسمان والوں کے لئے امان ہیں اور میرے اہلِ بیت میری اُمّت کے لئے امان و سلامتی ہیں۔ ( نوادر الاصول جلد 5 صفحہ 127 حدیث نمبر 1132 )
اہلِ اسلام کو چاہیے کہ دنیا و آخرت میں سُرخرو ہونے کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کے تمام حقوق احسن انداز سے ادا کریں اور اپنے درجات کی بلندی کا سامان کریں ۔ وقت ملا تو حقوقِ اہلبیت رضی اللہ عنہم پر تفصیل لکھوں گا ان شاء اللہ ۔
امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کے اندازِ تحریر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ عقیدے کی وضاحت نہایت عقیدت سے کرتے ہیں،آنے والی سُطُور میں دیکھئے کہ صَحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کا مقام و مرتبہ بیان کرنے کے ساتھ ساتھ شانِ اہلِ بیتِ اطہار کس خوب صورت انداز میں بیان فرمائی ہے، چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:ان (مقرب ترین فرشتوں اور مرسلین ملائکہ یعنی جبرائیل و میکائیل و اسرافیل و عزرائیل علیہمُ السَّلام اور عرشِ مُعلّٰی کو اُٹھانے والے فرشتوں) کے بعد اَصحابِ سیِّدالمرسَلین (رسولوں کے سردار کے صحابہ) صلَّی اللہ علیہ و علیہم اجمعین ہیں اور اُنہیں میں حضرت بَتُول، جگر پارۂ رسول، خاتونِ جہاں، بانویٔ جِناں، سیدۃُ النِّسَاء فا طِمہ زَہرا (شامل) اور اس دو جہاں کی آقا زادی کے دونوں شہزادے، عرش کی آنکھ کے دونوں تارے، چرخِ سِیادت کے مَہ پارے، باغِ تَطْہِیر کے پیارے پھول، دونوں قرۃُ عَیْنِ رسول، اِمامینِ کَرِیمَین سَعِیدَین شَہِیدَین تَقِیَّیْن نَقِیَّیْن (پاک دامن،پاک باطن) نَیِّرَین طاہِرَین (سورج اور چاند کی طرح چمکتے دمکتے چہرے والے) ابو محمد (حضرت امام) حسن و (حضرت امام) ابو عبد اللّٰہ حسین اور تمام مادَرانِ اُمّت، بانْوَانِ رِسالت (اُمَّہاتُ المؤمنین، ازواجِ مطہرات) علی المصطفٰی و علیہم کلہم الصَّلاۃ وَالتّحیۃ داخل کہ صَحابی ہر وہ مسلمان ہے جو حالتِ اسلام میں اس چہرۂ خدا نُما (اللّٰہ کے بارے میں بتانے والے کے چہرے) کی زیارت سے مُشَرَّف ہوا اور اسلام ہی پر دنیا سے گیا، ان کی قَدْر و منزِلت وہی خوب جانتا ہے جو سیِّدُ المُرسَلِین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عزت و رِفعت سے آگاہ ہے ۔(دس عقیدے صفحہ 180،چشتی)
ساداتِ کرام کی عظمت پر امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کا اندازِ استدلال ملاحظہ کیجیے : جب عام صالحین کی صلاح (نیکی) ان کی نسل و اولاد کو دین و دنیا و آخرت میں نفع دیتی ہے تو صدیق و فاروق و عثمان و علی و جعفر و عباس و انصار کرام رضی اللہ عنہم کی صلاح کا کیا کہنا ۔ جن کی اولاد میں شیخ ، صدیقی و فاروقی و عثمانی و علوی و جعفری و عباسی و انصاری ہیں ۔ یہ کیوں نہ اپنے نسبِ کریم سے دین و دنیا و آخرت میں نفع پائیں گے ! پھر اللہُ اکبر حضرات علیہ سادات کرام ۔ اولادِ امجاد حضرت خاتونِ جنّت بتول زہرا کہ حضور پُرنور سیّدالصَالحین ، سیّد العَاِلمین ، سیّدالمرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے ہیں کہ ان کی شان تو ارفع و اعلیٰ و بلند و بالا ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے : اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ ،، اللہ یہی چاہتا ہے تم سے ناپاکی دُور رکھے اے نبی کے گھر والو ، اور تمھیں سُتھرا کردے خوب پاک فرما کر ۔(سورہ الاحزاب آیت نمبر 33) ۔ (فتاویٰ رضویہ،ج 23،ص243، 244)
امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : پھر اُن (امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما) سے نسل چلی وہ بھی وہ پاک نونہال ہیں جنہیں آبشار وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ سے پانی ملا اور نسیمِ اَخْرَجَ مِنْکُمَا کَثِیْرًا طَیِّبًا (تم دونوں سے بہت سی طیب اولاد پیدا کرے) نے نشو و نُما دیا سبحانَ اللہ وہ برکت والی نسل جس کے منتہیٰ حُضور سیّد الانبیاء علیہ التحیۃ و الثناء اور وہ شجرہ طیبہ جس کی توقیع مدح اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِۙ ،، جس کی جڑ قائم اور شاخیں آسمان میں ۔ (سورہ ابراھیم آیت نمبر24) ۔ (مطلع القمرین صفحہ61)
دفاعِ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم سے متعلق دلائل سے بھر پور اپنے رسالے کے اختتام پر امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : خدمتِ گاریِ اہلِبیتِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلیے یہ بیان ایک رسالہ ہو گیا لہٰذا بلحاظِ تاریخ اس کا نام اِرَاءَۃُ الْاَدَبْ لِفَاضِلِ النَّسَبْ رکھنا اَنْسَب (زیادہ مناسب) ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 23 صفحہ 255)
امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کو ساداتِ کرام سے بے حد عقیدت ومحبت تھی اور یہ عقیدت و محبت صرف زبانی کلامی نہ تھی بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے ساداتِ کرام سے محبت فرماتے اور اگر کبھی لاشعوری میں کوئی تقصیر واقع ہو جاتی تو ایسے انوکھے طریقے سے اس کا اِزالہ فرماتےکہ دیکھنے سننے والے وَرْطَۂ حیرت میں ڈوب جاتے چنانچہ اِس ضمن میں ایک واقعہ پیشِ خدمت ہے:مدینۃُ المرشد بریلی شریف کے کسی محلہ میں میرے آقا اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن مَدْعُو تھے ۔ اِرادت مندوں نے اپنے یہاں لانے کےلیے پالکی کا اِہتمام کیا۔ چُنانچِہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سُوار ہو گئے اور چار مزدور پالکی کو اپنے کندھوں پر اُٹھا کر چل دیئے ۔ ابھی تھوڑی ہی دُور گئے تھے کہ یکایک امامِ اہلسنَّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے پالکی میں سے آواز دی: ”پالکی روک دو ۔“پالکی رُک گئی ۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فوراً باہر تشریف لائے اور بھرّائی ہوئی آواز میں مزدورو ں سے فرمایا: سچ سچ بتائیں آپ میں سیِّد زادہ کون ہے؟کیونکہ میرا ذَوقِ ایمان سرورِ دوجہاں صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کی خُوشبو محسوس کر رہا ہے۔ ایک مزدور نے آگے بڑھ کر عرض کی : حُضُور! مَیں سیِّد ہوں۔ ابھی اس کی بات مکمّل بھی نہ ہونے پائی تھی کہ عالمِ اِسلام کے مقتدر پیشوا اور اپنے وقت کے عظیم مجدِّد اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ رَبِّ الْعِزَّتنے اپنا عِمامہ شریف اس سیِّد زادے کے قدموں میں رکھ دیا ۔ امامِ اہلسنَّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کی آنکھوں سے ٹَپ ٹَپ آنسو گر رہے ہیں اور ہاتھ جوڑ کر اِلتِجا کر رہے ہیں ،معزز شہزادے ! میری گستاخی مُعاف کر دیجئے،بے خیالی میں مجھ سے بھول ہوگئی ، ہائے غضب ہو گیا ! جن کی نعلِ پاک میرے سر کا تاجِ عزّت ہے، اُن کے کاندھے پر میں نے سُواری کی،اگر بروزِقیامت تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پوچھ لیا کہ احمد رَضا ! کیا میرے فرزند کا دوشِ ناز نین اس لئے تھا کہ وہ تیر ی سُواری کا بوجھ اُٹھائے تو میں کیا جواب دو ں گا ! اُس وقت میدانِ مَحشرمیں میرے ناموسِ عشق کی کتنی زبردست رُسوائی ہوگی۔کئی بار زَبان سے مُعاف کر دینے کا اِقرار کروا لینے کے بعد امامِ اہلسنَّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے آخِری اِلتجائے شوق پیش کی،محترم شہزادے ! اس لاشُعوری میں ہونے والی خطا کا کفّارہ جبھی اَدا ہوگا کہ اب آپ پالکی میں سُوار ہوں گے اور میں پالکی کو کاندھا دوں گا۔ اِس اِلتجاپر لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور بعض کی تو چیخیں بھی بُلند ہوگئیں۔ہزار اِنکار کے بعد آخرِکا ر مزدو ر شہزادے کو پالکی میں سُوار ہونا ہی پڑا ۔ یہ منظر کس قدر دِل سوز ہے ، اہلسنّت کا جلیلُ الْقَدْر امام مزدوروں میں شامل ہو کر اپنی خداداد عِلمیّت اور عالمگیر شُہرت کا سارا اِعزاز خوشنودیٔ محبوب کی خاطر ایک گُمنام مزدور شہزادے کے قدموں پر نثار کر رہا ہے ۔ (اَنوارِ رضا صفحہ نمبر ٤١٥،چشتی)
اِمامِ اَہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں سوال ہوا کہ : سید کے لڑکے سے جب شاگر ہو یا ملازم ہو دینی یا دنیاوی خدمت لینا اور اس کو مارنا جائز ہے یانہیں ؟ تو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے جواباً ارشاد فرمایا : ذلیل خدمت اس سے لینا جائز نہیں ۔ نہ ایسی خدمت پر اسے ملازم رکھنا جائز اور جس خدمت میں ذِلَّت نہیں اس پر ملازم رکھ سکتاہے ۔ بحالِ شاگرد بھی جہاں تک عُرف اور معروف ہو(خدمت لینا) شرعاً جائز ہے لے سکتا ہے اور اسے (یعنی سید کو) مارنے سے مُطلَق اِحتراز (یعنی بالکل پرہیز) کرے ۔ (فتاویٰ رضویہ ،۲۲/۵۶۸،چشتی)
امامِ اہلسنَّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کی احتیاط اور عظمتِ سادات کرام ملاحظہ فرمائیے ، چنانچہ حیاتِ اعلیٰ حضرت میں ہے:جناب سیِّد ایُّوب علی صاحِب رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے:ایک کم عُمر صاحِبزادے خانہ داری کے کاموں میں اِمداد کےلیے (اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ رَبِّ الْعِزَّت کے) کاشانۂ اقدس میں ملازِم ہوئے ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سیِّد زادے ہیں لہٰذا (اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے) گھر والوں کو تاکید فرما دی کہ صاحِبزادے صاحب سے خبر دار کوئی کام نہ لیا جائے کہ مخدوم زادہ ہیں (یعنی پیارے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے فرزندِ ارجمند ہیں ان سے خدمت نہیں لینی بلکہ ان کی خدمت کرنی ہے لہٰذا) کھانا وغیرہ اور جس شے کی ضَرورت ہو (ان کی خدمت میں)حاضِر کی جائے ۔ جس تنخواہ کا وعدہ ہے وہ بطورِ نذرانہ پیش ہوتا رہے ، چُنانچِہ حسبُ الارشاد تعمیل ہوتی رہی ۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ صاحِبزادے خود ہی تشریف لے گئے ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت جلد ۱ صفحہ ۱۷۹)
تعظیم و توقیر اور احترام سادات کے تعلق سے آپ کے طرزِ عمل کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ساداتِ کرام جزو رسول ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ مستحق توقیر و تعظیم ہیں اور اس پر پورا عمل کرنے والا ہم نے اعلٰی حضرت قدس سرہ العزیز کو پایا ۔ اس لیے کہ وہ کسی سید صاحب کو اس کی ذاتی حیثیت و لیاقت سے نہیں دیکھتے بلکہ ا س حیثیت سے ملاحظہ فرماتے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جزو ہیں ۔ (حیاتِ اعلٰی حضرت جلد 1 صفحہ 165)
تعظیم کےلیے نہ یقین دَرْکارہے اور نہ ہی کسی خاص سند کی حاجت لہٰذا جو لوگ سادات کہلاتے ہیں ان کی تعظیم کرنی چاہیے،ان کے حَسَب و نَسَب کی تحقیق میں پڑنے کی حاجت نہیں اور نہ ہی ہمیں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے ساداتِ کرام سے سیِّد ہونے کی سند طلب کرنے اور نہ ملنے پر بُرا بھلا کہنے والے شخص کے بارے میں اِستفسار ہوا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواباً اِرشاد فرمایا : فقیر بارہا فتویٰ دے چکا ہے کہ کسی کو سید سمجھنے اور اس کی تعظیم کرنے کے لیے ہمیں اپنے ذاتی علم سے اسے سید جاننا ضروری نہیں، جو لوگ سید کہلائے جاتے ہیں ہم ان کی تعظیم کریں گے، ہمیں تحقیقات کی حاجت نہیں، نہ سیادت کی سند مانگنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اورخواہی نخواہی سند دِکھانے پر مجبور کرنا اور نہ دکھائیں تو بُرا کہنا،مَطْعُون کرنا ہر گز جائز نہیں ۔ اَلنَّاسُ اُمَنَاءُ عَلٰی اَنْسَابِھِم (لوگ اپنے نسب پر امین ہیں ) ۔ ہاں جس کی نسبت ہمیں خوب تحقیق معلوم ہو کہ یہ سید نہیں اور وہ سید بنے اس کی ہم تعظیم نہ کرینگے ، نہ اسے سید کہیں گے اور مناسب ہو گا کہ ناواقفوں کو اس کے فریب سے مُطَّلع کر دیا جائے۔ میرے خیال میں ایک حکایت ہے جس پرمیرا عمل ہے کہ ایک شخص کسی سیِّد سے اُلجھا،انہوں نے فرمایا:میں سید ہوں،کہا: کیا سند ہے تمہارے سید ہونے کی؟ رات کو زیارتِ اَقدس سے مشرف ہوا کہ معرکۂ حشر ہے ، یہ شفاعت خواہ ہوا، اِعراض فرمایا ۔ اس نے عرض کی: میں بھی حضور کا اُمتی ہوں ۔ فرمایا: کیا سند ہے تیرے اُمتی ہونے کی ؟ ۔ (فتاویٰ رضویہ،٢٩/٥٨٧-٥٨٨،چشتی)
تعظیمِ ساداتِ کرام
امامِ اہلسنَّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نےسید صاحب کے ہاتھ چوم لئے
جناب سید ایوب علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ : فقیر اور برادرم سید قناعت علی کے بیعت ہونے پر بموقع ِعید الفطر بعد ِنماز دست بوسی کے لیے عوام نے ہجوم کیا، مگر جس وقت سید قناعت علی رحمۃ اللہ علیہ دست بوس ہوئے سید ی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اُن کے ہاتھ چوم لئے ، یہ خائف ہوئے اور دیگر مقربان ِ خاص سے تذکرہ کیا تو معلوم ہوا کہ آپ کا یہی معمول ہے کہ بموقع عیدین دوران ِمصافحہ سب سے پہلے جو سید صاحب مصافحہ کرتے ہیں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ اس کی دست بوسی فرمایا کرتے ہیں ۔ غالباً آپ موجود سادات کرام میں سب سے پہلے دست بوس ہوئے ہوں گے ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفرالدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور ص 286)
سادات کو دوگنا حصّہ عطا فرماتے
جناب سید ایوب علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اعلیٰ حضر ت کی محبتِ سادات کا ایک اورواقعہ یوں بیان کرتے ہیں : اعلیٰ حضر ت رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں مجلس ِ میلاد مبارک میں سادات کرام کو بہ نسبت اور لوگوں کے دوگنا حصہ بروقت تقسیم شیرینی ملا کرتا تھا اور اسی کا اتباع اہلِ خاندا ن بھی کرتے ہیں ۔ ایک سال بموقع بارہویں شریف ماہ ربیع الاول ہجو م میں سید محمود جان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو خلاف ِمعمول اکہرا (ایک) حصہ یعنی دو تشتریاں شیر ینی کی بلا قصد پہنچ گئیں ۔موصوف خاموشی کے ساتھ حصہ لے کر سیدھے حضورِ اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضور کے یہاں سے آج مجھے عام حصہ ملا ۔ فرمایا : سید صاحب تشریف رکھئے !اور تقسیم کرنے والے کی فوراً طلبی ہوئی اور سخت اظہار ناراضی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا :ابھی ایک سینی (بڑی پلیٹ) میں جس قدر حصے آسکیں بھر کر لاؤ چنانچہ فوراً تعمیل ہوئی ۔ سید صاحب نے عرض بھی کیا کہ حضور میرا یہ مقصد نہ تھا ، ہاں دل کو ضرور تکلیف ہوئی جسے برداشت نہ کر سکا ۔ فرمایا سید صاحب ! یہ شیرینی تو آپ کو قبول کرنا ہوگی ورنہ مجھے سخت تکلیف رہے گی ۔ اور شیر ینی تقسیم کرنے والے سے کہا کہ ایک آدمی کو سید صاحب کے ساتھ کر دو جو اس خوان کو ان کے مکان پر پہنچا آئے انہوں نے فوراً تعمیل کی۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفرالدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور ص 288،چشتی)
سید صاحب کے گھر جا کر بچے کو دم کیا
قاری احمد صاحب پیلی بھیتی بیان کرتے ہیں کہ : اعلیٰ حضرت’’مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت‘‘میں قیام فرما ہیں،سید شوکت علی صاحب خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں کہ حضرت! میرا لڑکا سخت بیمار ہے ،تمام حکیموں نے جواب دے دیا ہے ، یہی ایک بچہ ہے صبح سے نزع کی حالت طاری ہے ،سخت تکلیف ہے ،میں بڑی اُمید کے ساتھ آپ کی خدمت میں آیا ہوں ۔
امامِ اہلسنَّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ سید صاحب کی پریشانی سے بہت متاثر ہوئے اور خود اُن کے ہمراہ مریض کو دیکھنے کے لیے گئے ، مریض کو ملاحظہ فرمایا پھر سر سے پیر تک ہاتھ پھیر پھیر کر کچھ دُعائیں پڑھتے رہے ، سید صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت کے ہاتھ رکھتے ہی مریض کو صحت ہونا شروع ہو گئی اور صبح تک وہ مرتا ہوا بچہ اعلیٰ حضرت کی دعا کی برکت سے بالکل تندرست ہو گیا ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور صٖحہ نمبر 978 ،چشتی)
غیرِ سیِّد ، سیِّد ہونے کا دعویٰ کرے تو اس کا شرعی حکم کیا ہے ؟
جو واقع میں سیِّد نہ ہو اور دِیدہ ودِانستہ (جان بوجھ کر ) سید بنتا ہو وہ ملعون (لعنت کیا گیا) ہے، نہ اس کا فرض قبول ہو نہ نفل۔رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں : جو کوئی اپنے باپ کے سِوا کسی دوسرے یا کسی غیر والی کی طرف منسوب ہونےکا دعویٰ کرے تو اس پر اللّٰہ تعالیٰ،فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے اللّٰہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا نہ کوئی فرض قبول فرمائے گا اور نہ ہی کوئی نفل ۔ (مُسلِم،کتاب الحج،باب فضل المدینة...الخ ،ص۷۱۲،حدیث:۱۳۷۰) مگر یہ اس کا مُعامَلہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے یہاں ہے ، ہم بِلادلیل تکذیب نہیں کر سکتے، اَلْبَتَّہ ہمارے علم (میں) تحقیق طور پر معلوم ہے کہ یہ سیِّد نہ تھا اور اب سیِّد بن بیٹھا تو اُسے ہم بھی فاسِق ومُرتکبِ کبیرہ ومستحق لعنت جانیں گے ۔ (فتاویٰ رضویہ ،٢٣/١٩٨)
بد مذ ہب سیِّد کا حکم
اگر کوئی بد مذہب سیِّد ہونے کا دعویٰ کرے اور اُس کی بدمذہبی حدِّ کفر تک پَہُنچ چکی ہو تو ہرگزاس کی تعظیم نہ کی جائے گی امامِ اہلسنَّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ساداتِ کرام کی تعظیم ہمیشہ (کی جائے گی )جب تک ان کی بدمذہبی حدِّ کفر کو نہ پَہُنچے کہ اس کے بعد وہ سیِّد ہی نہیں،نسب مُنْقَطَع ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآنِ پاک میں اِرشاد فرماتا ہے: )' قَالَ یٰنُوۡحُ اِنَّہٗ لَیۡسَ مِنْ اَہۡلِکَ ۚ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیۡرُ صَالِحٍ ۫٭ۖ) (پ۱۲، ھُود:۴۶) ترجَمۂ کنز الایمان:”فرمایا! اے نوح ! وہ(یعنی تیرابیٹا کنعان)تیرے گھر والوں میں نہیں بے شک اس کے کام بڑے نالائق ہیں۔“بدمذہب جن کی بد مذہبی حدِّ کفر کو پَہُنچ جائے اگرچہ سیِّد مشہور ہوں نہ سیِّد ہیں،نہ اِن کی تعظیم حلال بلکہ توہین و تکفیر فرض ۔ (فتاویٰ رضویہ،٢٢/٤٢١،چشتی)
صَدرُالْافاضِل حضرتِ علامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدِّین مُراد آبادی رَحمَۃُ اللّٰہ علیہ مذکورہ بالا آیتِ کریمہ کے تحت فرماتے ہیں:اس سے ثابت ہوا کہ نَسْبی قَرابت سے دِینی قَرابت زیادہ قوی ہے ۔ (خَزائنُ العِرفان،پ ۱۲،ھود،تحت الآیۃ:۴۶)
اہلِ بیتِ اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان بیان کرتے ہوئے امامِ اہلسنَّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ”نسلِ پاکِ مصطفی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا جو چمنستان ہے‘ خاتونِ جنت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی کلی سے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی صورت میں نورانی شگوفے نکلے ۔
کیا بات رضاؔ اس چمنستانِ کرم کی
زہرا ہے کلی جس میں‘ حسینؓ اور حسنؓ پھول
امامِ اہلسنَّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ جب سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کے آستانے پہ حاضر ہوئے تو کچھ عرض کرنے کا حوصلہ نہ تھا ‘ایسا لگا کہ فرشتوں نے کہا: اے آقائے دوجہاں کی شہزادی! آپ کے در پر رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کامنگتا حاضر ہے :
مجھ کو کیا منہ عرض کا‘لیکن فرشتوں نے کہا
شہزادی! در پہ حاضر ہے یہ منگتا نور کا
امامِ اہلسنَّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ اہلِ بیت اطہار کی شان میں سلام عرض کرتے ہوئے لکھتے ہیں : بارگاہِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے یہ پھول صحیفے کے پاروں کی طرح ہمارے لیے متبرک اور عقیدت کا مرکز ہیں ‘ آیۂ تطہیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : ان کی نُمُو آبِ تطہیر سے ہوئی ہے‘ اہلِ بیت نبوت کا سارا باغ ہی شرافت کے پھولوں سے آباد ہے :
پارہ ہائے صُحُف‘ غنچہ ہائے قدس
اہلِ بیتِ نبوت پہ لاکھوں سلام
آبِ تطہیر سے جس میں پودے جمے
اُس ریاضِ نجابت پہ لاکھوں سلام
خونِ خیرُالرُّسل سے ہے جن کا خمیر
اُن کی بے لوث طینت پہ لاکھوں سلام
اُس بتولِ جگر پارۂ مصطفی
حجلہ آرائے عِفّت پہ لاکھوں سلام
جس کا آنچل نہ دیکھا مہ و مہر نے
اُس رِدائے نَزاہت پہ لاکھوں سلام
سیّدہ زاہرہ طیّبہ طاہرہ
جانِ احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام
حضراتِ حسنین کریمین کو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے لعابِ دہن مبارک میں کھجور کی مٹھاس ملاکر گھٹی دی‘ان کے لیے اپنے سجدوں کو طویل کیا‘ انہیں اپنی گود میں بٹھاکر خطبہ ارشاد فرمایا ۔ امامِ عالی مقام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کودشتِ غربت میں انتہائی شقاوت وسنگدلی سے شہید کیا گیا‘امامِ حسنِ مجتبیٰؓ سخیوں کے سردار ‘راکبِ دوشِ نبوت اور آفتابِ ہدایت تھے ‘ اُن کی شان میں امامِ اہلسنَّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
شہد خوارِ لُعابِ زبانِ نبی
چاشنی گیرِ عصمت پہ لاکھوں سلام
اُس شہیدِ بَلا‘ شاہِ گلگوں قَبا
بے کسِ دشتِ غربت پہ لاکھوں سلام
حَسَنِ مجتبیٰ‘ سیّدُ الاسخیاء
راکبِ دوشِ عزت پہ لاکھوں سلام
اَوجِ مَہرِ ہُدیٰ‘ موجِ بحرِ نَدیٰ
رَوحِ رُوحِ سخاوت پہ لاکھوں سلام
سیدالمرسلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا سایہ نہ تھا ‘حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہما نورِ نبوت کا پرتو تھے اوراُن دونوں شہزادوں کی صورتوں کے ملاپ سے صورتِ مصطفی کی شبیہ بنتی تھی :
معدوم نہ تھا سایہ ٔشاہِ ثقلین
اُس نور کی جلوہ گاہ تھی ذاتِ حسنین
تمثیل نے اُس سایہ کے دو حصے کیے
آدھے سے حسن ؓبنے ہیں آدھے سے حسینؓ
ایک سینہ تک مشابہ اِک وہاں سے پاؤں تک
حُسنِ سبطین ان کے جاموں میں ہے نِیما نورکا
صاف شکلِ پاک ہے دونوں کے ملنے سے عیاں
خطِّ توام میں لکھا ہے یہ دو وَرقہ نور کا
سادات كا احترام
امامِ اہلسنَّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ سادات كرام كا بے پناه ادب و احترام كرتے ۔ مولوی محمد ابراهيم صاحب فريدی صدر مدرس مدرسہ شمس العلوم بدايوں كا بيان ہے كہ حضرت مهدی حسن سجاده نشين سركار كلاں مارهره شريف نے فرمايا كہ : ميں جب بريلی آتا تو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ خود كھانا لاتے اور ہاتھ دھلاتے ۔ حسبِ دستور ایک بار ہاتھ دھلاتے وقت فرمايا ۔ حضرت شهزاده صاحب انگوٹھی اور چھلے مجھے دے ديجيے ، ميں نے اتار كر دے ديے اور وہاں سے ممبئی چلا گيا ۔ ممبئی سے مارهره واپس آيا تو ميری لڑكی فاطمه نے كہا ابا بريلی كے مولانا صاحب كے يہاں سے پارسل آيا تھا جس ميں چھلے اور انگوٹھی تھے ، يہ دونوں طلائی تھے اور نامہ ميں مذكور تھا ، شهزادی يہ دونوں طلائی اشيا آپ كی ہيں ۔ (حيات اعلیٰ حضرت صفحہ نمبر 112 ، 111) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment