Wednesday, 19 July 2023

محبت و مودتِ اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم حصّہ اوّل

محبت و مودتِ اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم حصّہ اوّل

محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : قُلْ لَّاۤ اَسۡئَـــلُـكُمۡ عَلَيۡهِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّةَ فِى الۡقُرۡبٰى‌ ۔ (سورہ شوریٰ آیت نمبر 23)
ترجمہ : تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت ۔


اے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، آپ فرما دیں کہ اے لوگو ، میں رسالت کی تبلیغ پر تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا ، (جیسے دوسرے کسی نبی نے تبلیغِ دین پر کوئی معاوضہ نہیں مانگا ۔ اس کے بعد جداگانہ طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کفار کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ظلم و ستم کرنے سے باز رکھنے کےلیے فرمایا کہ تمہیں کم از کم میرے ساتھ اپنی قرابَتداری یعنی رشتے داری کا خیال کرنا چاہیے ، یعنی چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قبیلہ قریش سے تعلق رکھتے ہیں اور کفارِ مکہ بھی اپنی مختلف شاخوں کے اعتبار سے قریش سے تعلق رکھتے تھے تو انہیں کہا گیا کہ اگر تم ایمان قبول نہیں بھی کرتے تو کم از کم رشتے داری کا لحاظ کرتے ہوئے ایذاء رسانی سے تو باز رہو ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مقدس زندگی کا ایک ہی مقصد تھا کہ اللہ تعالیٰ کے بندے جو طرح طرح کی گمراہیوں کے باعث اپنے رب سے بہت دور جا چکے ہیں پھر قریب ہو جائیں ۔ کفرو شرک کے اندھیروں سے نکل کر پھر نور ہدایت سے اپنے قلب ونظر کو روشن کر یں۔ اس مقصد کے حصول کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی لگن کا یہ عالم تھا کہ دن رات اسی میں مشغول رہتے ۔ ان کو سمجھاتے ، وہ غصہ ہوتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسکرا دیتے ، وہ گالیاں بکتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دعائیں دیتے ، وہ روشن معجزات دیکھ کر اور آیات الٰہی سن کر بھی کفر سے چمٹے رہنے پر اصرار کرتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شفیق دل پر غم واندوہ کے بادل گھر آتے اور آپ رات بھر اللہ تعالیٰ کی جناب میں ان کی مغفرت اور ہدایت کے لئے دعائیں مانگتے ۔ اخلاص ومحبت کے یہ بےمثل انداز کفار مکہ نے بھلا کب کہیں دیکھے تھے وہ دل ہی دل میں خیال کرتے کہ اس ساری جدو جہد اور شبانہ روز تک ودو کے پس منظر میں کوئی بڑا مقصد ہے جس کے حصول کے لئے یہ شخص جانگسل محنت اور مشقت برداشت کر رہا ہے اور ہمارے جو روجفا پر اتنے حوصلہ اور حلم کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ یہ دولت جمع کرنا چاہتا ہے یا اقتدار کی ہوس ہے یا ہمارا بادشاہ بننا چاہتا ہے ۔ آخر کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے جس کے باعث انہوں نے اپنا یہ حال بنا رکھا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ اعلان کرنے کا حکم دیتے ہیں کہ اے نادانو ! تم کس ادھیڑ بن میں ہو۔ سن لو میں اپنی ان جانکاہیوں کا ، ان دلسوزیوں کا تم سے کسی قسم کا کوئی معاوضہ طلب نہیں کرنا چاہتا نہ آج نہ کل اور نہ کبھی قیامت تک البتہ میری یہ خواہش ضرور ہے کہ تم نے آپس میں قتل وغارت کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اور ایک دوسرے کو ایذا پہنچانے میں اپنی قوتیں صرف کر رہے ہو اس سے باز آجاؤ اور آپس میں محبت اور پیار کرو۔ تمہاری باہمی رشتہ داریاں اور قرابتیں ہیں۔ تمہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ بھائی بھائی کا گلا کاٹے ، چھوٹا بڑے کی پگڑی اچھالے ، کسی کی جان، کسی کا مال محفوظ نہ ہو۔ مجھے تمہارے یہ انداز پسند نہیں۔ میں تم سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ ایک دوسرے سے محبت اور ایک دوسرے کا احترام کرنا سیکھو تاکہ تمہاری زندگی میں ایک خوشگوار تبدیلی نمودار ہو جائے ۔

الا حرف استثنا ہے ۔ یہاں مستثنیٰ منقطع ہے یعنی ’’ المودۃ فی القربی ‘‘ جو مستثنیٰ ہے ۔ یہ مستثنیٰ منہ میں داخل نہیں تاکہ آیت کا یہ مفہوم ہو کہ میں تم سے کوئی اجر ، کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا ، مگر یہ اجر طلب کرتا ہوں کہ تم آپس میں پیار اور محبت کرو۔ تقریبا یہی مفہوم ایک دوسری آیت میں بیان کیا گیا قل لا اسئلکم علیہ اجرا الامن شاء ان یتخذ الی ربہ سبیلا (الفرقان ) یعنی میں اس پر تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا ۔ میرا یہی اجر ہے کہ تم میں سے کون معرفت الٰہی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے ۔ اس آیت کا بھی یہی مقصد ہے کہ میں تم سے اپنے لیے کوئی اجر طلب نہیں کرتا سوائے اس کے کہ تم آپس میں محبت اور پیار کرنے لگو ۔ مجھے صرف تمہاری بھلائی اور خیر خواہی مطلوب ہے ۔ اگر تم سدھر جاؤ اور تمہارے طور اطوار درست ہو جائیں تو یہی میری کاوشوں کا بہترین معاوضہ ہے ۔ اظہار خلوص کےلیے اس سے زیادہ اثر انگیز اسلوب بیان اختیار نہیں کیا جا سکتا ۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر مختلف انبیا علیہم السلام کے یہ اعلانات مذکور ہیں ۔ لا اسئلکم علیہ اجرا ان اجری الا علی رب العالمین ۔ میں تم سے کسی اجر کا سوال نہیں کرتا ۔ میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے ۔ جب دیگر انبیاء علیہم السلام اپنی قوموں سے کسی اجر کا مطالبہ نہیں کر رہے ، کسی مالی یا ادبی منفعت کی خواہش نہیں کر رہے ، تو فخر الانبیا ، سید الرسل کے متعلق یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی قسم کی منفعت کی خواہش کی ہو ۔ دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی نعمت کسی قارون کے بھرے ہوئے خزانے ، ربع مسکون کی فرمانروائی ، ان دعا ہائے نیم شبی ، ان گریہ ہائے سحر گاہی کا صلہ نہیں ہو سکتی جن سے اس رحمت عالمیاں نے بنی نوع انسان کو مشرف فرمایا ۔ سچ تو یہ ہے کہ اس مرقع دلبری و زیبائی کی نوک مژگاں پر لرزتا ہوا ایک آنسو سارے عالم سے زیادہ قیمتی ہے ۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی ان دلسوزیوں ، ان اشکباروں کے معاوضہ کا تصور بھی کرتے تو شان رفیع سے بہت فروتر ہوتا ۔ دشمنوں کو انگشت نمائی کا موقع مل جاتا ۔ یہودی اور عیسائی ہمیں طعنہ دے سکتے کہ ہمارے راہنماؤں نے تو یہ اعلان کیا کہ لا اسئلکم علیہ اجرا ان اجری الا علی رب العالمین اور تمہارے رسول نے مودۃ قربیٰ کا مطالبہ کر کے اپنی محبت ومشقت کا معاوضہ طلب کیا ۔ (العیاذ باللہ)

ایک اعتراض : اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن مجید کو نازل کیا اور لوگوں کو ہدایت کےلیے اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی الوہیت اور توحید کے متعلق آیات نازل کیں ، اسی طرح نبوت اور رسالت کے متعلق آیات نازل کیوں اور دیگر عقائد کے متعلق آیات نازل کیں ، قیامت ، حشر و نشر ، حساب و کتاب اور جنت اور دوزخ کے متعلق آیات نازل کیں اور احکام شرعیہ کے متعلق آیات نازل کیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان تمام آیات کی تبلیغ کرنے کا حکم دیا ، ان آیات کی تبلیغ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بہت سختیاں اور صعوبتیں برداشت کیں، ہوسکتا تھا کہ کوئی بدعقیدہ جاہل یہ گمان کرتا کہ شاید آپ کسی مالی منفعت یا اقتدار کے حصول کےلیے اس قدر مشقت اٹھا رہے ہیں ، اس تہمت اور بدگمانی کا ازالہ کےلیے اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ آیت نازل فرمائی : آپ کہیے کہ میں اس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا سوا قرابت کی محبت کے ۔ اس آیت پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اس آیت میں بھی تبلیغ رسالت پر ایک نوع کی اجرت کا ذکر ہے اور وہ قرابت کی محبت ہے جب کہ دیگر انبیاء (علیہم السلام) نے مطلقاً اجرت طلب کرنے کی نفی کی ہے ، اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کا یہ قول ذکر فرمایا ہے ۔
وما اسئلکم علیہ من اجر ان اجری الا علی رب العٰلمین ۔ (سورہ الشعراء آیت 109) ۔ میں تم سے اس تبلیغ رسالت پر کوئی اجر طلب نہیں کرتا میرا اجر تو صرف رب العٰلمین (کے ذمہ کرم) پر ہے ۔ اسی طرح حضرت ہود علیہ السلام نے طلب اجر کی نفی کی ۔ (سورہ الشعراء آیت نمبر ١٢٧) ۔ اسی طرح حضرت صالح علیہ السلام نے طلب اجر کی نفی کی ۔ (سورہ الشعراء آیت ١٤٥) اور حضرت لوط (علیہ السلام) نے طلب اجر کی نفی کی۔ (الشعراء : ٢٦٤) ۔ اور حضرت شعیب (علیہ السلام) نے طلب اجر کی نفی کی ۔ (سورہ الشعراء آیت ١٨٠)
بلکہ قرآن مجید میں خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی یہ حکم دیا ہے کہ آپ طلب اجر کی نفی کریں : قل ما اسئلکم علیہ من اجر وما انا من المتکلفین ۔ (سورہ صفحہ آیت 86) ۔ آپ کہیے کہ میں اس تبلیغ رسالت پر تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں ۔ نیز رسالت کی تبلیغ کرنا آپ پر واجب تھا اور جو چیز آپ پر واجب ہو آپ اس سے کیسے اجر لے سکتے ہیں ، قرآن مجید میں ہے : بلغ ما انزل الیک من ربک ، وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ ۔ (سورہ المائدہ آیت 67)
آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے جو وحی نازل ہوئی اس کی تبلیغ کیجیے اور اگر آپ نے تبلیغ نہیں کی تو آپ اپنے کارِ رسالت کی تبلیغ نہیں کی ۔
نیز پیغامِ رسالت کو پہنچانے پر اجرت اور معاوضہ کو طلب کرنا آپ کے منصب نبوت میں تہمت کا موجب ہے اور یہ آپ کی شان لائق نہیں ہے ، ان وجوہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تبلیغ رسالت پر اجرت کو طلب کرنا آپ کےلیے جائز نہیں ہے اور الشوریٰ آیت ٢٣ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے تبلیغِ رسالت پر اجرت کا سوال کیا ہے ۔

اس اعتراض کے درج ذیل جوابات ہیں : ⬇

اس آیت میں قربیٰ سے مراد رحم کی قرابت ہے کیونکہ مکہ کے تمام قبائل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رحم کی قرابت تھی ، اس آیت کا منشاء یہ ہے کہ میں تم سے صرف یہ سوال کرتا ہوں کہ تم قرابت رحم کی وجہ سے مجھ سے محبت کرو اور مجھ پر جو تبلیغ رسالت کی ذمہ داری ہے اس سے عہد برآ ہونے میں میری مدد کرو ، حدیث میں ہے : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت : (الشوریٰ : ٢٣) کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ تمام قریش میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قرابت تھی ، جب قریش نے آپ کی رسالت کی تکذیب کی اور آپ کی اتباع کرنے سے انکار کردیا تو آپ نے فرمایا : اے میری قوم ! جب تم نے میری اتباع کرنے سے انکار کردیا ہے تو تمہارے اندر جو میری قرابت ہے اس کی حفاظت کرو (یعنی اس قرابت کی وجہ سے مجھے اذیت نہ دو اور مجھے نقصان نہ پہنچائو) اور تمہارے علاوہ دوسرے عرب قبائل میری حفاظت کرنے میں اور میری مدد کرنے میں زیادہ راجح نہیں ہیں ۔ (المعجم الکبیر ج ١٢ ص ١٩٧، رقم الحدیث : ١٣٠٢٦، داراحیاء التراث العربی، بیروت،چشتی)
ایک اور حدیث میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کی تفسیر یوں فرمائی ہے :
تم میری قرابت کی وجہ سے صلہ رحم کرو ، یعنی مجھ سے میل جول رکھو اور میری تکذیب نہ کرو ۔ (المعجم الکبیر ج ١٢ ص ٧٢، رقم الحدیث : ١٢٥٦٩، داراحیاء التراث العربی، بیروت، جامع المسانید والسنن مسند ابن عباس رقم الحدیث : ١٣٠٩)
نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا : قریش کے ہر قبیلہ میں آپ کی قرابت اور رشتہ داری تھی ، اس لیے آپ کہیے کہ میں تم سے اس کے سوا کوئی اجر طلب نہیں کرتا کہ تم میری حفاظت کرو اور مجھ سے ضرر کو دور کرو کیونکہ میری تم سے قرابت ہے ۔ (المعجم الکبیر ج ١١ ص ٣٤٥، رقم الحدیث : ١٢٢٣٨، داراحیاء التراث العربی، بیروت، جامع المسانید والسنن مسند ابن عباس رقم الحدیث : ٤٧٧)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ان سے اس آیت کے متعلق سوال کیا گیا ، سعید بن جبیر نے کہا : قربیٰ سے مراد آلِ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : تم نے جلدی کی ہے ، قریش کے رحم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قرابت تھی ، آپ نے فرمایا : میرے اور تمہارے درمیان جو قرابت ہے اس کی بناء پر تم میرے ساتھ ملاپ سے رہو ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨١٨، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٣٥١، مسند احمد رقم الحدیث : ٢٥٩٩، عالم الکتب، جامع المسانید والسنن مسند ابن عباس رقم الحدیث : ١١٣٠)

قرآن مجید کی دیگر آیات میں جو تبلیغ رسالت پر اجر لینے کی نفی ہے اس اجر سے مراد معروف اجر ہے ، جیسے مال و دولت ، سونا چاندی اور دیگر قیمتی چیزیں اور جس اجر کو آپ نے طلب فرمایا ہے وہ آپ کی ذات سے محبت کرنا ہے ، اس قرابت کی وجہ سے جو آپ کے قبائل عرب کے درمیان تھی اور ظاہر ہے کہ آپ کی ذات سے محبت کرنا شرعاً مطلوب ہے ، کیونکہ جب قبائل عرب آپ کی ذات سے محبت کریں گے اور آپ کی حفاظت کریں گے تو اس سے ان کے اسلام قبول کرنے میں آسانی ہوگی اور یہ معروف اجر نہیں ہے اور یہ وہ اجر نہیں ہے جس کو طلب کرنے کی دیگر آیات میں نفی کی گئی ہے ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت آیت نمبر 23 سورہ الشوریٰ نازل ہوئی تو مسلمانوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا : یارسول اللہ ! آپ کے وہ قرابت دار کون ہیں جن سے محبت کرنا ہم پر واجب ہے ؟ آپ نے فرمایا : علی اور فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے رضی اللہ عنہم ۔ (المعجم الکبیر ج ١١ ص ٣٥١، رقم الحدیث : ١٢٢٥٩، داراحیاء التراث العربی، بیروت،چشتی)(جامع المسانید والسنن مسند ابن عباس رقم الحدیث : ٣٠٦)

حضرت زر بن حبیش رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس نے دانہ کو چیرا اور روح کو پیدا کیا ، بیشک نبی امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے سے یہ عہد کیا ہے کہ مجھ سے صرف مومن محبت رکھے گا اور صرف منافق مجھ سے بغض رکھے گا ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٨، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٧٣٦، سنن نسائی رقم الحدیث : ٥٠٢٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١١٤)

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں جس کا محبوب ہوں علی اس کے محبوب ہیں ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٧١٣، مسند احمد ج ٤ ص ٣٦٨، المستدرک ج ٣ ص ١١٠۔ ١٠٩، الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٤٠٨٩)

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غدید خم کے مقام پر پہنچے تو آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : کیا تم کو معلوم نہیں کہ میں تمام مؤمنوں کی جانوں کی بہ نسبت ان سے زیادہ قریب ہوں ؟ مسلمانوں نے کہا : کیوں نہیں، آپ نے فرمایا : کیا تم کو معلوم نہیں کہ میں ہر مومن کی جان پر اس سے زیادہ تصرف کرنے والا ہوں ؟ مسلمانوں نے کہا : کیوں نہیں، آپ نے فرمایا : اے اللہ ! میں جس کا محبوب ہوں سو علی اس کے محبوب ہیں، اے اللہ ! اس سے محبت رکھ جو علی سے محبت رکھے اور اس سے عدوات رکھ جو علی سے عداوت رکھے، اس کے بعد حضرت عمر کی حضرت علی سے ملاقات ہوئی تو حضرت عمر نے فرمایا : اے علی ! تم کو مبارک ہو، تم اس حال میں صیح اور شام کرتے ہو کہ تم ہر مومن مرد اور ہر مومن عورت کے محبوب ہوتے ہو ۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١١٦، مسند احمد ١ ص ٢١٩،چشتی)(کنزالعمال رقم الحدیث : ٣٢٣٤٢ )

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فاطمہ رضی اللہ عنہا میرے جسم کا حصہ ہے جس نے اس کو غضب ناک کیا اس نے مجھ کو غضب ناک کیا ، ایک روایت میں ہے : جو چیز اس کو اذیت پہنچائے وہ مجھے اذیت پہنچاتی ہے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٢٣٠،صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٤٩)

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں ایک رات کو کسی کام سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر آئے، آپ کے پاس کوئی چیز تھی، نہ جانے وہ کیا تھی، جب میں اپنے کام سے فارغ ہوگیا تو میں نے پوچھا یہ کیا چیز ہے ؟ تو آپ نے اپنی چادر کھول کر دکھایا تو آپ کی گود میں حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما تھے ، آپ نے فرمایا : یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں، اے اللہ ! میں ان دنوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان دونوں سے محبت کر اور اس سے محبت کر جو ان دونوں سے محبت رکھے ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٧٦٩، المصف لابن ابی شیبہ ج ١٢ ص ٩٨۔ ٩٧،چشتی)(سنن النسائی رقم الحدیث : ١٣٩، المعجم الصغیر رقم الحدیث : ٥٥١، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٩٦٧)

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کے متعلق فرمایا : جو ان سے جنگ کرے گا میں اس سے جنگ کروں گا اور جو ان سے صلح رکھے گا میں اس سے صلح رکھوں گا ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٨٧٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٤٥، موارد الظلماء رقم الحدیث : ٢٢٤٤، المستدرک ج ٣ ص ١٤٩)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے حج میں عرفہ کے دن اپنی اونٹنی قصواء پر بیٹھ کر خطبہ دے رہے تھے، آپ فرما رہے تھے : اے لوگو ! میں تم میں ایسی چیز چھوڑ کر جارہا ہوں کہ اگر تم اس سے وابستہ رہے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے، کتاب اللہ اور میری عترت، میرے اہل بیت ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٧٨٦،چشتی)(المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٣٦٨٠، المسند الجامع رقم الحدیث : ٢٤٤٠، جامع المسانید والسنن مسند جابر رقم الحدیث : ٨٣٧)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سے محبت رکھو کیونکہ وہ اپنی نعمعتوں سے تم کو غذا دیتا ہے اور اللہ سے محبت کی وجہ سے مجھ سے محبت رکھو اور میری محبت کی وجہ سے میرے اہل بیت سے محبت رکھو ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٧٨٩، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٦٣٩، المستدرک ج ٣ ص ١٥٠، الحلیۃ الاولیاء ج ٣ ص ٢١١، جامع المسانید والسنن مسند ابن عباس رقم الحدیث : ٢٨٨٢)

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سنو ! تم میں میرے اہل بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوگیا وہ نجات پا گیا اور جس نے اس کو چھوڑ دیا وہ ہلاک ہوگیا ۔ (مسند البزار رقم الحدیث : ٢٦١٤، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٦٣٧،المعجم الصغیر رقم الحدیث : ٣٩١،مجمع الزوائد ج ٥ ص ١٦٨)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت رضی اللہ عنہم سے محبت کے وجوب کے ثبوت میں فقیر نے احادیثِ صحیحہ بیان کی ہیں اور اس تمہید کے بعد جواب کا حاصل یہ ہے کہ اس آیت (الشوریٰ : ٢٣) میں اس اجر کو طلب کرنے کا ذکر نہیں ہے جس کی قرآن مجید کی دوسری آیت میں نفی فرمائی ہے ، کیونکہ اس اجر سے مراد معروف اجر ہے یعنی مال و دولت وغیرہ اور اس آیت میں جس اجر کے سوال کرنے کا ذکر ہے اس سے مراد ہے : آپ کے قرابت داروں سے محبت کرنا، ان کی تعظیم کرنا اور ان کے ساتھ نیک سلوک کرنا، باقی رہا یہ کہ اپنے اقارب کے ساتھ محبت کرنے اور ان کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی تلقین کرنا اقرباء پروری ہے اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کے لائق نہیں ہے ، اس کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازخود یہ نہیں فرمایا بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے سو یہ آپ پر اعتراض نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ پر اعتراض ہے ۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شرف اور آپ کی فضیلت ہے ، جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو یہ عزت اور خصوصیت عطا کی کہ بعد کا کوئی مسلمان کتنی ہی عبادت کیوں نہ کرلے وہ اس صحابی رضی اللہ عنہ کا مرتبہ نہیں پاسکتا جس نے ایمان کے ساتھ آپ کو دیکھا ہو اور ایمان پر ہی اس کا خاتمہ ہوا ہو اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو یہ عزت اور خصوصیت دی کہ کوئی خاتون خواہ کتنی عابدہ زاہدہ ہو وہ آپ کی ازواج کے مرتبہ کو نہیں پاسکتی ، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کے اہل بیت رضی اللہ عنہم کو یہ عزت اور خصوصیت عطا کی ہے کہ ان کی محبت کو امت پر واجب کردیا ، ان پر صدقہ واجبہ کو حرام کردیا اور ہر نماز میں ان صلوٰۃ بھیجنے اور ان کے لیے برکت کی دعا کرنے کو مقرر کردیا ۔

اس اعتراض کا یہ جواب کہ قربیٰ سے مراد اللہ تعالیٰ کا قرب ہے : ⬇

اس آیت میں فرمایا ہے : میں تم سے اس کے سوا اور کوئی سوال نہیں کرتا کہ تم قربیٰ سے محبت رکھو “ اس آیت میں قربیٰ سے مراد اللہ کا قرب ہے اور اس کی تائید اس حدیث میں ہے : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے جو تمہارے لیے دلائل اور ہدایت کی تبلیغ کی ہے، میں اس پر تم سے اس کے سوا اور کوئی سوال نہیں کرتا کہ تم اللہ سے محبت رکھو اور اس کی اطاعت کرکے اس کا قرب حاصل کرو ۔ (مسند احمد ج ١ ص ٢٦٨ طبع قیدم، مسند احمد ج ٤ ص ٢٣٨، مؤسسۃ الرسالۃ، ١٤٢٠ ھ، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١١١٤٤، المستدرک ج ٢ ص ٤٤٤۔ ٤٤٣، حاکم نے کہا : اس حدیث کی سند صحیح ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے، جامع المسانیدہ والسنن ابن عباس رقم الحدیث : ٣٢٣٨)
الشوریٰ : ٢٣ کی اس تفسیر پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا ، نہ یہ اعتراض ہوتا ہے کہ دیگر آیات میں تبلیغ رسالت پر اجر طلب کرنے کی نفی ہے اور اس آیت میں اثبات ہے کیونکہ اللہ کے قرب کو امت سے طلب کرنا وہ اجر نہیں ہے جس کے طلب کی نفی کی گئی ہے اور نہ اس پر اقرباء پروری کا اعتراض ہوتا ہے اور اس آیت کی یہ سب سے عمدہ تفسیر ہے ۔ حاصل یہ ہے کہ میں نے جو تمہیں اللہ کا پیغام پہنچایا اور تبلیغ کی مشقت اٹھائی ہے اس پر میں تم سے اس کے سوا کوئی اجر طلب نہیں کرتا کہ تم اللہ کی توحید اور اس کی اطاعت سے محبت رکھو اور ہمیشہ اس کے احکام پر عمل کرتے رہو اور جن کاموں سے اس نے منع کیا ہے ان کے قریب نہ جائو اور جو شخص اللہ کی اطاعت کرکے اس کا قرب حاصل کرے اس سے محبت رکھو، انسان اس سے محبت کرتا ہے جو اس کے محبوب سے محبت رکھے کیونکہ دونوں کا محبوب واحد ہوتا ہے، سو جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والا ہوگا اور اس آیت کے عموم میں داخل ہوگا کہ میں تبلیغ رسالت کی مشقت پر صرف اس اجر کا طالب ہوں کہ تم اللہ کا قرب حاصل کرنے میں محبت رکھو ۔

محبت اہل بیت اور تعظیم صحابہ رضی اللہ عنہم کا عقیدہ صرف اہل سنت و جماعت کی خصوصیت ہے : ⬇

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والے، سب سے زیادہ اللہ کی اطاعت کرنے والے اور سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے حصول قرب میں محبت کرنے والے تھے اور قربیٰ کی یہ تیسری تفسیر جو ہم نے کی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ وابستہ رہا جائے اور قربیٰ کی جو دوسری تفسیر ہم نے ذکر کی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کے ساتھ رہا جائے ، خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ کرام اور اہل بیت عظام رضی اللہ عنہم دونوں کی تعظیم و تکریم کی جائے ، دونوں سے محبت رکھی جائے اور دونوں سے وابستہ رہا جائے اور یہ صرف اہل سنت و جماعت کی خصوصیت ہے کہ وہ صحابہ کرام اور اہل بیت عظام رضی اللہ عنہ دونوں سے عقیدت رکھتے ہیں ، اس کے برخلاف شیعہ رافضی اور نیم رافضی اہل بیت رضی اللہ عنہم سے تو محبت رکھتے ہیں لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تبرا کرتے ہیں اور ان سے بغض رکھتے ہیں اور ناصبی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعظیم و توقیر کرتے ہیں اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کی مذمت کرتے ہیں اور خارجی صحابہ اور اہل بیت رضی اللہ عنہم دونوں کی مذمت کرتے ہیں ۔

ہمارے ایک کنارے پر دنیا ہے اور دوسرے کنارے پر آخرت ہے اور درمیان میں تاریک سمندر ہے اور اندھیری رات میں جب انسان نے سلامتی کے ساتھ دوسرے کنارے پہنچنا ہو تو اس کے پاس صحیح وسالم کشتی بھی ہونی چاہیے اور اس کی نظر ستاروں پر ہونی چاہیے تاکہ اندھیرے میں اس کو ستاروں کی رہنمائی حاصل ہو ، دونوں میں سے ایک چیز بھی حاصل نہ ہو تو وہ سلامتی سے دوسرے کنارے تک نہیں پہنچ سکتا ، اس وقت ہم احکام شرعیہ کے سمندر میں سفر کررہے ہیں اور شیطان اور نفس امارہ کی موجیں ہم سے ٹکرارہی ہیں اور ان کی طوفانی لہروں کے تھپیڑے ہمیں سلامتی کے ساحل سے دور رکھنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں ، ایسے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے اخروی سفر کی سہولت اور آسانی کےلیے ہمیں اہل بیت رضی اللہ عنہم سے محبت اور وابستگی کی کشتی فراہم کی اور معصیت کے اندھیروں میں رہ نمائی کےلیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ستارے قرار دے کر ان کی ہدایت کی روشنی فراہم کی ۔

اہل بیت رضی اللہ عنہم سے محبت کو کشتی اس حدیث میں قرار دیا ہے : حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سنو ! تم میں میرے اہل بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے جو اس میں سوار ہوگیا وہ نجات پا گیا اور جس نے اس کو چھوڑ دیا وہ ہلاک ہوگیا ۔ (مسند البزار رقم الحدیث : ٢٦١٤، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٦٣٧،چشتی)(المعجم الصغیر رقم الحدیث : ٣٩١، جامع الاحادیث والسنن رقم الحدیث : ٣٢٣٨)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ستارے قرار دینے کا ذکر اس حدیث میں ہے : حضرت ابوبردہ اپنے والد رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی ، پھر ہم نے کہا : ہم یہاں بیٹھے ہیں تاکہ آپ کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھ لیں ، ہم بیٹھے رہے حتیٰ کہ آپ تشریف لے آئے ، آپ نے فرمایا : تم جب سے یہیں ہو ؟ ہم نے کہا : یارسول اللہ ! ہم نے آپ کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی، پھر ہم نے کہا : ہم یہاں ٹھہرجاتے ہیں حتیٰ کہ ہم آپ کے ساتھ عشاء کی نماز بھی پڑھ لیں، آپ نے فرمایا : تم نے اچھا کیا اور ٹھیک کیا، پھر آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور آپ اکثر آسمان کی طرف سر اٹھاتے تھے، پس آپ نے فرمایا : ستارے آسمان کی امان ہیں اور جب ستارے نہیں ہوں گے تو پھر آسمان پھٹ جائے گا اور میں اپنے اصحاب کےلیے امان ہوں اور جب میں چلا جائوں گا تو میرے اصحاب فتنوں میں مبتلا ہوجائیں گے اور میرے اصحاب میری امت کے لیے امان ہیں، جب میرے اصحاب چلے جائیں گے تو میری امت فتنوں اور بدعات میں مبتلا ہوجائے گی ۔ (صحیح مسلم کتاب السنن، رقم اتحدیث : ٢٠٧، رقم الحدیث بلاتکرار : ٢٥٣١، رقم المسلسل : ٦٣٤٨ )
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہ منزلہ ستارے اور امت کےلیے وجہ امان قرار دیا ہے ۔ اس کی تائید میں ایک اور حدیث یہ ہے :
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں میرے اصحاب کی مثال اس طرح ہے جیسے ستاروں کی مثال ہے ، لوگ ان سے ہدایت حاصل کرتے ہیں اور جب وہ غائب ہوجائے تہیں تو لوگ حیران ہوجاتے ہیں ۔ (المطالب العالیہ رقم الحدیث : ٤١٩٣، اتحاف السادۃ اطہرۃ رقم الحدیث : ٧٨٦٢، حافظ ابن حجر نے کہا : اس کی سند ضعیف ہے، مگر ہم کو مضر نہیں کیونکہ فقیر نے اس کو تائید کے طور پر ذکر کیا ہے)
امام فخرالدین رازی متوفی ٦٠٦ ھ، علامہ نظام الدین نیشاپوری متوفی ٧٢٨ ھ اور علامہ آلوسی متوفی ١٢٧٢ ھ علیہم الرحمہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ستارے قرار دینے کے متعلق یہ حدیث ذکر کی ہے : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں ، تم نے ان میں سے جس کی بھی اقتداء کی تم ہدایت پاجاٶ گے ۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٥٩٦، غرائب القرآن ج ٦ ص ٧٤، روح المعانی جز ٢٥ ص ٥٠) ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...