Saturday 29 July 2023

یزیدیوں کے امیر یزید کی بد کرداریاں و کفرِ یزید

0 comments
یزیدیوں کے امیر یزید کی بد کرداریاں و کفرِ یزید
محترم قارئینِ کرام : یزید پلید کی شراب نوشی اور لہو و لعب کی زندگی پر قدیم و جدید تمام مورخین متفق ہیں ۔ یہ سب وہ نہیں جو یزید کی صرف برائیاں بیان کرتے ہیں ، اس کو ایک مکروہ شخصیت قرار دیتے ہیں ۔ بل کہ ان میں وہ بھی ہیں جو اس کی فصاحت و بلاغت اور شجاعت و فطانت کے مداح ہیں ۔ ان میں سب سے مشہور و معروف اور ثقہ و مستند محدث و مورخ امام ذہبی (متوفیٰ ۷۴۸ھ ) رحمة اللہ علیہ ہیں ۔ جن کی اسماء الرجال وتاریخ میں دسیوں تصانیف ہیں ان کی سب سے زیادہ مفصل کتاب سیر اعلام النبلاء ہے ۔ (طبعۃ مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت ،۲۵ مجلدات ، جلد اخیر فہارس الاعلام ) جو ان کی ایک انتہائی ضخیم تاریخ ’’تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر والاعلام ۸ مجلدات ،طبعۃ ۱۹۸۸ء و ما بعدھا ،بیروت) ۔ کے بعد لکھی گئی ہے اس میں یزید پلید کی سوانح حیات پانچ صفحات میں ہیں ۔ (سیر اعلام النبلاء جلد ۴ صفحہ ۳۵۔۴۰)

وَكَانَ نَاصِبِيّاً فَظّاً غَلِيْظاً,جلْفاً, يتناول المسكر, ويفعل المنكر ۔
ترجمہ : وہ ناصبی ، سخت گیر ، بد مزاج اور اکھڑ تھا ، شراب پیتا اور برے افعال کا ارتکاب کرتاتھا ۔ (سیراعلام النبلاء الذہبی جلد ۴ صفحہ ۳۷)
اوراس کے فوراً بعد دوسرے جملے میں وہ کہتے ہیں : افْتَتَحَ دَوْلَتَهُ بِمَقْتَلِ الشَّهِيْدِ الحُسَيْنِ, وَاخْتَتَمَهَا بِوَاقِعَةِ الحَرَّةِ فَمَقَتَهُ النَّاسُ وَلَمْ يُبَارَكْ فِي عُمُرِه ۔
ترجمہ : اس نے اپنی سلطنت کی ابتداء حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید کے قتل سے کی اور اختتام واقعہ (یعنی جنگ )حرہ پر کیا ، اس لیے لوگ اس سے نفرت کرتےتھے اوراس کی عمر میں برکت نہیں دی گئی ۔
یاد رہے کہ یزید واقعہ حرہ کے چالیس دن یا ڈھائی ماہ بعد دمشق سے دورحوّارین میں گھوڑے سے گر کر کے مرگیاتھا ۔ اس کی عمر اس وقت صرف ۳۸سال تھی ۔

حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کے سامنے کسی نے یزید کو امیر المومنین کہا ، آپ نے بیس کوڑ ے لگوائے ۔ (تاریخ الخلفاء ص209، 361)

یزید اپنی بد اعمالیوں میں اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ شاید ہی کوئی دوسرا ہو ۔ اور اس کے اس تجاوز کو اس کے استحقاق کے بغیر اس کے سپرد نہیں کیا جا سکتا ، کیوں کہ اس کی سزا کا کما حقہ عرفان انسان کے بس کی بات نہیں ۔ (تحریرالشہاتین شرحِ سرالشادتین از مولانا سلامت اللہ کشفی تلمیذ شاہ عبدالعزیز دہلوی علیہما الرّحمہ)

زید شرابی ، بدکردار اور تارک الصلوۃ تھا

یزید شرابی تھا ، فحاشی و عریانی کا دلدادہ تھا اور نشے میں رہنے کے باعث تارک الصلوٰۃ بھی تھا ۔ اُس کی انہی خصوصیات کی بناء پر اہل مدینہ نے اس کی بیعت توڑ دی تھی، جس کا ذکر امام ابن کثیر نے البدایہ والنھایہ میں یوں ملتا ہے : ذکروا عن يزيد ما کان يقع منه من القبائح في شربة الخمر وما يتبع ذلک من الفواحش التي من اکبرها ترک الصلوة عن وقتها بسبب السکر فاجتمعوا علي خلعه فخلعوه. عند المنبر النبوي (البدايہ و النہايہ 6 : 234،چشتی)
ترجمہ : یزید کے کردار میں جو برائیاں تھیں ان کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ شراب پیتا تھا، فواحش کی اتباع کرتا تھا اور نشے میں غرق ہونے کی وجہ سے وقت پر نماز نہ پڑھتا تھا۔ اسی وجہ سے اہل مدینہ نے اس کی بیعت سے انکار پر اتفاق کر لیا اور منبر نبوی کے قریب اس کی بیعت توڑ دی ۔

یزید ملعون کا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل کا حکم دینا

جب اس نے گورنرِ مدینہ کو سیدنا امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں سے بیعت لینے کا حکم دیا تو اس موقع پر ہونے والی شیطانی مشاورت میں کہا گیا کہ اگر وہ یزید کی بیعت پر راضی ہو جائیں تو درست ورنہ انہیں قتل کر دیا جائے ۔ ملاحظہ ہو امام ابن اثیر کی کتاب الکامل : تدعوهم الساعة وتامرهم بالبيعة فان فعلوا قبلت منهم وکففت عنهم وان ابوا ضربت اغناقهم قبل ان يعلموا بموت معاويه. (الکامل لابن اثیر، 3 : 377)
ترجمہ : انہیں اسی لمحے بلایا جائے اور انہیں حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) کی موت کی خبر ملنے سے پہلے (یزید کی) بیعت کرنے کا حکم دیا جائے ۔ پھر اگر وہ مان لیں تو اسے قبول کر لیا جائے اور انہیں چھوڑ دیا جائے اور اگر وہ انکار کریں تو ان کی گردنیں توڑ دی جائیں ۔

اگر واقعہ کربلا (نعوذ باللہ) اتفاقی حادثہ تھا یا معرکہ حق و باطل نہ تھا تو اہل مدینہ نے تو یزید کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے تھے ، انہوں نے تو اہل بیعت کے قتل اور یزید کے کردار کے باعث محض بیعت سے انکار کیا تھا ۔ ان سے قتال کیونکر جائز ہو گیا ؟

فلما بلغ ذالک بعث اليهم سرية يقدمها رجل مسلم بن عقبه . . . . . فلما ورد المدينة استباحها ثلاثة ايام فقتل في عضون هذه الايام بشراً کثيراً . . . . الف بکر ۔ (البدايہ و النہايہ لابن کثیر، 6 : 234،چشتی)
ترجمہ : جب اسے اس بات کی خبر ملی تو اس نے ان کی طرف لشکر بھیجا ، جس کی قیادت مسلم بن عقبہ نامی شخص کر رہا تھا ۔ پس جب وہ مدینہ منورہ پہنچا تو اس نے تین دن کے لئے مدینہ کو (قتل و غارت گری کے لئے) حلال کر دیا۔ ان دنوں میں کثیر تعداد میں لوگ قتل ہوئے ۔۔۔۔ (ایک روایت کے مطابق) وہ ایک ہزار (مقتول) تھے ۔

وقال عبدالله بن وهب عن الامام مالک قتل يوم الحره سبعمائة رجل من حملة القرآن (البدايہ و النہايہ لابن کثیر، 6 : 234)
ترجمہ : اور عبداللہ بن وھب امام مالک کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یوم الحرہ کو سات سو ایسے افراد قتل کئے گئے جو حافظ قرآن تھے ۔

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے جرم میں نہ سہی ، کیا 700 حفاظ قرآن کے قتل کے جرم سے بھی اسے بری قرار دلوانے کے لیے دشمنانِ اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم کے راویوں سے روایات نقل کریں گے ؟ کیا خدا کا خوف بالکل ہی ختم ہوگیا ؟

یزید نے مدینہ کی طرف لشکر روانہ کرتے ہوئے حکم دیا کہ اگر اہل مدینہ بیعت نہ کریں تو میں مدینہ کو تمہارے لئے حلال کر رہا ہوں ، اور پھر کیا ہوا ، امام ابن کثیر سے پوچھئے کہ ایک بدبخت نے اپنے کردار کو دیکھنے اور کفر سے توبہ کرنے کی بجائے ہزاروں مسلمانوں کو شہید کروایا ۔ ہزاروں مسلمانوں ، جن میں بیشتر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بھی تھے ، کو قتل کروانے والا جہنمی اگر لعنت کا مستحق نہ قرار پائے تو اور کیا اسے پھول مالا پیش کی جائے ؟

مسلمان عورتوں کی عصمت دری

بدبخت یزیدی لشکر نے صرف سینکڑوں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو شہید ہی نہیں کیا بلکہ بے شمار عصمت شعار خواتین کی عزتیں بھی لوٹیں : ووقعوا علي النساء في قيل انه حبلت الف امرة في تلک الايام من غير زوج . . . . . قال هشام بن حسان ولدت الف امرة من اهل المدينه بعد وقعة الحرة من غير زوج ۔ (البدايہ و النہايہ لابن کثیر، 8 : 221،چشتی)
ترجمہ : اس واقعہ کے دوران میں انہوں نے عورتوں کی عصمت دری بھی کی۔ ایک روایت ہے کہ ان دنوں میں ایک ہزار عورتیں حرامکاری کے نتیجے میں حاملہ ہوئیں ۔۔۔۔۔۔ ہشام بن حسان کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ کی ایک ہزار عورتوں نے جنگ حرہ کے بعد حرامی بچوں کو جنم دیا ۔

بدبختوں نے حرم نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گھوڑے باندھے ۔

مسلمان صحابہ و تابعین کو شھید کیا ۔

مسلمان خواتین کی عزتیں لوٹیں ۔

تین دن تک مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اذان اور نماز معطل رہی ۔

عن سعيد بن مسيب رايتني ليالي الحرة .... وما يتني وقت الصلاة الا سمعت الاذان من القبر.
ترجمہ : سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ میں نے حرہ کے شب و روز مسجد نبوی میں (چھپ کر) گزارے ۔۔۔۔۔ اس دوران میں مجھے صرف قبرِ انور میں سے آنے والی اذان کی آواز سے نماز کا وقت معلوم ہوتا ۔

اس ظلم و ستم کے باوجود آپ کے دل میں یزید کی محبت اس قدر گھر کر گئی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے قاتل کے دفاع میں حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں گستاخی قرار دینے پر تل گئے ؟ بجائے اس کے قاتلِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یزید لعین کو برا بھلا کہتے ۔ آپ الٹا اسے شہادتِ امام حسین رضی اللہ سے بری الذمہ قرار دے کر اس پر خاموشی اختیار فرمانے کو ترجیح دیتے ہیں ؟ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

ذرا سوچئیے کل قیامت کے روز نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان کے مطابق حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں کے مطابق آپ کا سامنا حضرت حسین یا نانائے حسین سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہو گیا تو یزید کے حواریو کیا جواب دو گے ؟

شہیدان کربلا سے بد سلوکی

کچھ دوست بڑے حوالہ جات سے یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ یزید نے تو حضرت حسین کی شہادت پر افسوس کیا تھا۔ یقیناً آپ لوگ درست کہہ رہے ہوں گے کہ یزید ملعون نے امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر افسوس کیا ہو گا کیونکہ آپ کے ہاں افسوس کرنے کا یہی طریقہ ہو سکتا ہے۔ ذرا تاریخ کھول کر دیکھیے ۔

ذکر ابن عساکر في تاريخه ، ان يزيد حين وضع راس الحسين بين يديه تمثل بشعر ابن الزبعري يعني قوله :

ليت اشياخي ببدر شهدوا
جزع الخزرج من وقع الاسل

ترجمہ : امام ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں بیان کیا ہے کہ جب یزید کے سامنے سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سر انور پیش کیا گیا تو اس نے اس موقع پر ابن زبعری کے اس شعر کا انطباق کیا :

کاش میرے غزوہ بدر میں مارے جانے والے آباء و اجداد دیکھیں کہ ہم نے کیسے ان کے قتل کا بدلہ لے لیا ہے ۔ (البدايہ و النہايہ لابن کثیر، 8 : 204،چشتی)

یہ کیسی شرمندگی ہے اور یہ کیسا افسوس ہے ۔ اگر آپ اب بھی اسی پر ڈٹے رہیں تو ایک بار پھر انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

بیت اللہ کی توہین

دلوں میں بغضِ اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم رکھنے والے دوستوں کو اظہار رائے کی یقیناً آزادی ہے ، آپ یقیناً ایسے شخص کے دفاع کا حق رکھتے ہیں جو اپنی بیعت کے منکروں کو قتل کروانے کے لئے حرم نبوی اور کعبۃ اللہ کی حرمت کا بھی حیاء نہیں کرتا ۔ اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کے لئے بیت اللہ کا محاصرہ کرواتا اور اس پر پتھر اور آگ کے گولے برساتا ہے ۔

ثم انبعث مسرف بن عقبه (مسلم بن عقبه) الي مکه قاصداً عبدالله بن الزبير ليقتله بها لانه فر من بيعة يزيد ۔ (البدايہ و النہايہ لابن کثیر، 6 : 234)
ترجمہ : پھر اس نے مسرف بن عقبہ (یعنی مسلم بن عقبہ) کو عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو قتل کرنے کے لئے مکہ مکرمہ بھیجا ، کیونکہ وہ یزید کی بیعت سے انکاری تھے ۔

یقیناً ان سب کا اس نے حکم نہیں دیا ہو گا یقیناً یہ سارے واقعات یزید کے علم میں ہی نہیں ہوں گے ۔ وہ تو دودھ پیتا بچہ تھا، جسے تاریخ دان خواہ مخواہ میں برا بھلا کہتے رہے ہیں ۔ ہزاروں مسلمان غلط فہمی میں قتل ہوتے رہے ہوں گے اور یزید بیچارہ ہر ہر قتل کے بعد افسوس بھی کرتا رہا ہوگا ۔ اس کی اصل معصومیت کی خبر تو پچھلے ڈیڑہ دوسوسال میں عبدالوھاب نجدی اور اس کے شاگردوں کو ہوئی ۔ وگرنہ اس سے پہلے امام ابن کثیر اور امام عساکر جیسے تاریخ دان تو مغالطے میں ہی رہے ۔

پوری امت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ یزید فاسق و فاجر ہے اور فاسق و فاجر کی یہی تعریف ہے کہ اعلانیہ گناہ کرے امت کا اگر اختلاف ہے تو وہ صرف یزید کو کافر کہنے میں ہے بعض فقہاء اسے کافر کہتے ہیں جیسے کے امام احمد بن حنبل اور ان کے اصحاب علیہم الرّحمہ اور بعض سکوت کرتے ہیں یعنی اسے کافر تو نہیں کہتے مگر اس کے خبث باطن کا بر ملا اظہار کرتے ہیں ۔

یزید کے حواریوں سے صرف ایک سوال آپ سب سے منطقی اعتبار سے پوچھوں گا کہ وہ ساری احادیث جو حسنین کریمین رضی اللہ عنھما کے فضائل پر وارد ہوئیں آپ ان سب کو چھوڑ کر صرف ایک روایت کے جس میں قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے پہلے لشکر کے لیے بشارت ہے کہ بل بوتے پر حمایت یزید میں لگ گئے ہیں حالانکہ حدیث میں توصرف یہی ہے نا کہ جو کوئی اس لشکر میں شامل ہو گا اس کے لیے جنت کی بشارت ہے حدیث میں یزید کا نام تو نہیں ہے نہ اب یہ تو تاریخی اعتبار سے ہی دیکھا جائے گا نہ کے آخر یزید اس لشکر میں شامل تھا کہ نہیں ؟ اب آپ لوگ خود انصاف سے کام لیں کے کہاں ایک ایسی روایت کہ جس کی فنی حیثیت بھی مشکوک اور جس کی بشارت کا مصداق ہونے کے لیے تاریخی اعتبار سے یزید کی اس میں شرکت بھی مشکوک اور پھر اوپر سے یزید جیسے فاسق و فاجر کے جس کے اعمال نامے میں صرف ایک قتل حسین رضی اللہ عنہ کا جرم ہی کافی چہ جائکہ اس نے پورا خانوادہ اہل بیت کو شہید کروادیا اوپر مکہ اور مدینہ پر چڑھائی کروائی مدینہ کی عورتوں کی عصمت دری کی کہ جس سے ایک ہزار سے زائد مسلم عورتیں حاملہ ہوئیں تین دن حرم نبوی میں وہ کیا کچھ نہیں ہوا کہ جس کا تصور تو کسی کافر سے بھی نہین کیا جاسکتا مگر افسوس کے ایک اسلام کے نام لیوا یہ سب کچھ کیا یہ سب وہ اعمال ہیں جو تاریخ کی تمام کتابوں میں تواتر کے ساتھ آئے ہیں لیکن ان سب کے باوجود یزید کی حمایت پر آپ لوگ اب بھی کمر بستہ ہیں ؟
سب سے بڑھ کر اس بدبخت کی گستاخی دیکھیے کہ اس نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو بھی پیغام نکاح بھیج دیا جبکہ حضرت عائشہ کی اس وقت عمر مبارک ساٹھ سال تھی یہ محض اس کا ملحدانہ اور مرتدانہ مزاج تھا کہ جس نے اس کو اس رویہ پر مجبور کیا اور ایسے کفریہ اقدام کی جراءت دلائی اس وقت کے جملہ اکابرین اسلام نے اس قرآن کی نص صریح ازواجکم امھٰتکم دکھا کر اس ملعون پر بڑی ملامت اور لعنت کی آخر کار حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھ کر اس کے خلاف اس سیلاب شورش کو روکنا پڑا اس واقعہ کو عہد متاخریں کے مشہور محدث شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف مدارج النبوت میں رقم کیا ہے اور ساتھ ہی میں اسے کی جواں مرگی کو دو وجہوں سے عذاب الٰہی کا مصداق ٹھرایا ہے ایک قتل حسین رضی اللہ عنہ اور دوسرا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کو پیغام نکاح بھیجنا اور یاد رہے کہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی وہ بزرگ ہیں کہ جن کو بر صغیر میں علم حدیث کا بانی تصور کیا جاتا ہے اور ہر مکتبہ فکر کے اکابر ان کو اپنا رہمنما تسلیم کرتے ہیں ۔

علاّمہ ابن کثیر اپنی مشھور زمانہ تصنیف البدایہ والنھایہ میں رقمطراز ہیں کہ : وقد روي أن يزيد كان قد اشتهر بالمعازف وشرب الخمر والغناء والصيد واتخاذ الغلمان والقيان والكلاب والنطاح بين الكباش والدباب والقرود ، وما من يوم إلا يصبح فيه مخمورا ، وكان يشد القرد على فرس مسرجة بحبال ويسوق به ، ويلبس القرد قلانس الذهب ، وكذلك الغلمان ، وكان يسابق بين الخيل ، وكان إذا مات القرد حزن عليه . وقيل : إن سبب موته أنه حمل قردة وجعل ينقزها فعضته . وذكروا عنه غير ذلك . والله أعلم بصحة ذلك .
ترجمہ : روایت ہے کہ یزید گانے بجانے کے آلات ،شراب نوشی کرنے ، راگ الاپنے ، شکار کرنے غلام اور لونڈیاں بنانے ، کتے پالنے ، مینڈھوں ، ریچھوں اور بندروں کے لڑانے میں مشھور تھا ہر صبح کو وہ مخمور ہوتا اور وہ زین دار گھوڑے پر بندر کو زین سے باندھ دیتا اور وہ اسے چلاتا اور بندر کو سونے کی ٹوپی پہناتا اور یہی حال غلاموں کا تھا اور وہ گھڑ دوڑ کراواتا اور جب کوئی بندر مرجاتا تو وہ اس پر غم کرتا اور بعض کا قول ہے کہ اسکی موت کا باعث یہ ہوا کہ اس نے ایک بندر اٹھایا اور اسے نچانے لگا تو اس نے اسے کاٹ لیا اور لوگوں نے اس کے علاوہ بھی اس کے بارے میں باتیں بیان کی ہیں اللہ پاک ہی اس کی صحت کو بہتر جانتا ہے ۔

امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ یزید ملعون ، خبیث

امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : ہمراہیان یزید یعنہ جو ان مظالم ملعونہ میں اس کے ممدوح و معاون تھے ضرور خبیث و مردود ہیں اور کافرو ملعون کہنے میں اختلاف ہے ہمارے امام کا مذہب سکوت ہے اور"جو کہے وہ بھی مورد الزام نہیں "کہ یہ بھی امام احمد وغیرہ بعض ائمہ اہلسنت کا مذہب ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد نمبر 24 ، صفحہ نمبر 509 جدید رضا فاؤنڈیشن لاہور)

یعنی ہمارے نزدیک یزید اور اس کے حامی خبیث و مردود تو پکے ہیں اور اگر کوئی اُن پر لعنت کرے تو کوئی حرج بھی نہیں سمجھتے یعنی لعنت کرنے والے کو بُرا نہیں کہیں گے کیونکہ بعض ائمہ اہلسنت سے یہ ثابت ہے ۔ کیا کہتے ہیں اب بعض دیابنہ اور وہابیہ یزید کے حواری ؟

حضرت قاضی ثناءاللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یزید کافر اور لعنتی

قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق یزید شرابی و کافر ہے اور اس پر لعنت کرنا جائز ہے ۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1225 ھ) جو کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے اورحضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے "اپنے دور کا بیہقی" ہونے کا لقب دیا، اپنی کتاب تفسیر مظہری میں لکھتے ہیں : یزید اور اس کے ساتھیوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی اور اہل ِبیت کی دشمنی کا جھنڈا انہوں نے بلند کیا اور حضرت حسین کو انہوں نے ظلماً شہید کردیا اور یزید نے دین ِمحمدی کا ہی انکار کردیا اور حضرت حسین کو شہید کرچکا تو چند اشعار پڑھے جن کا مضمون یہ تھا کہ آج میرے اسلاف ہوتے تو دیکھتے کہ میں نے آل ِمحمد اور بنی ہاشم سے ان کا کیسا بدلہ لیا ۔ یزید نے جو اشعار کہے تھی ان میں آخری شعر یہ تھا : احمد نے جو کچھ (ہمارے بزرگوں کے ساتھ بدر میں) کیا اگر اولاد سے میں نے اس کا انتقام نہ لیا تو میں بنی جندب سے نہیں ہوں ۔
یزید نے شراب کو بھی حلال قرار دے دیا تھا۔ شراب کی تعریف میں چند شعر کہنے کے بعد آخری شعر میں اس نے کہا تھا : اگر شراب دین ِاحمد میں حرام ہیں تو (ہونے دو) مسیح بن مریم کے دین (یعنی عیسایت) کے مطابق تم اس کو(حلال سمجھ کر) لے لو ۔ یزید اور اس کے ساتھیوں اور جانشینوں کے یہ مزے ایک ہزار مہینے تک رہے، اس کے بعد ان میں سے کوئی نہ بچا ۔ (تفسیر مظہری عربی ، ج 5 ص 271 سورہ 14 آیت 29)،(تفسیر مظہری جلد پنجم صفحہ نمبر 327،چشتی)

قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : یزید بد بخت نے امام حسین رضی اللہ عنہ شہید کروایا اور اسے بدر والے مقتول کفار کا بدلہ قرار دیا،یزید شرابی کو حلال جنات،حرمت کعبۃ اللہ و مدینۃ المنوّرہ پامال کی غرض کونسا جرم ہے جو اس نے نہ کیا ۔ (تفسیر مظری پنجم ص 645)

ہمیشہ کی طرح دیوبندیوں نے دارالاشاعت کراچی کے ترجمہ میں ڈنڈی مار ہے اور یزید کے اشعار جو قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیئے ہیں وہ مکمل طور پر نقل نہیں کئے ۔

سورہ نمبر 24 آیت 55 کی تفسیر میں بھی قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت "ومن كفر بعد ذلك" میں یزید بن معاویہ کی طرف اشارہ ہو۔ یزید نے رسول اللہ کے نواسے کو اور آپ کے ساتھیوں کو شہید کیا۔ یہ ساتھی خاندان ِنبوت کے ارکان تھے، عزت ِرسول کی بےعزتی کی اور اس پر فخر کیا اور کہنے لگا آج بدر کے دن کا انتقام ہوگیا، اسی نے مدینۃ الرسول پر لشکر کشی کی اوت حرہ کے واقع میں مدینہ کو غارت کیا اور وہ مسجد میں جس کی بناء تقویٰ پر قائم کی گئی تھی اور جس کے جنت کو باغوں میں سے ایک باغ کہا گیا ہے اس کی بے حرمتی کی، اس نے بیت اللہ پر سنگباری کے لئے منجیقیں نصب کرایئں اور اس نے اول خلیفہ رسول حضرت ابو بکر کے نواسے حضرت عبداللہ بن زبیر کو شہید کرایا اور ایسی ایسی نازیبا حرکتیں کیں کہ آخر اللہ کے دین کا منکر ہوگیا اور اللہ کی حرام کی ہوئی شراب کو حلال کردیا ۔ (تفسیر مظہری، ج 8 ص 268)

قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ السّیف المسلول میں فرماتے ہیں : یزید پر لعنت کرنا جائز ہے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن سے ثابت کیا ہے اور جو اللہ کو مانتا ہے وہ یزید سے دوستی نہیں کرے علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یزید پر لعنت ہے ، اور یزید کا کفرِ صریح یہ ہے کہ اس نے سرِ امام حسین رضی اللہ عنہ کی توہین کی اور کفریہ اشعار پڑھےایسوں پر اللہ ، تمام فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو ۔ (السیّف المسلول 488تا490)

قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک خط میں تحریر کیا : غرض یہ کہ یزید کافر معتبر روایت سے ثابت ہے۔ پس وہ مستحق ِلعنت ہے اگرچہ لعنت کرنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے لیکن الحب فی اللہ البغض فی اللہ اس کا متقاضی ہے ۔ (المکتوبات، ص 203)

یزید پلید کی موت

یزید پلید کا دل چُونکہ دنیائے ناپائیدار کی محبت سے سرشار تھا اس لیے وہ شہرت و اقتِدار کی ہَوَس میں گرِفتار ہو گیا ۔ اپنے انجام سے غافِل ہو کر اُس نے امامِ عالی مقام اور آپ کے رُفقاءعلیہم الرضوان کے خونِ ناحق سے اپنے ہاتھوں کو رنگ لیا ۔ جس اقتِدار کی خاطر اُس نے کربلا میں ظلم و ستم کی آندھیاں چلائیں وہ اِقتِدار اُس کے لیے کچھ زیادہ ہی ناپائیدار ثابت ہوا۔بد نصیب یزید صِرف تین برس چھ ماہ تختِ حُکومت پر شَیطَنَت (یعنی شرارت وخباثت) کر کے ربیعُ الاول 64 ھ کو مُلکِ شام کے شَہر” حَمص“ کے علاقے حُوّارین میں 39 سال کی عمر میں مر گیا ۔ (الکامل فی التاریخ ج۳ ص464 دارالکتب العلمیة بیروت)

یزیدِ پلید کی موت کا ایک سبب یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک رُومیُّ النَّسل لڑکی کے عشق میں گرِفتار ہو گیاتھا ، مگر وہ لڑکی اندرونی طور پر اُس سے نفرت کرتی تھی ۔ ایک دن رنگ رلیاں منانے کے بہانے اس نے یزید کو دُور ویرانے میں تنہا بلایا۔وہاں کی ٹھنڈی ہوائوں نے یزید کو بدمست کردیا ۔ اُس دوشیزہ نے یہ کہتے ہوئے کہ جو بے غیرت و نابکار اپنے نبی کے نواسے کا غدّار ہو وہ میرا کب وفادار ہو سکتا ہے، خنجرِ آبدار کے پے در پے وار کر کے چیر پھاڑکر اس کو وہیں پھینک دیا۔ چند روز تک اُس کی لاش چیل کوّوں کی دعوت میں رہی ۔ بالآخِر ڈھونڈتے ہوئے اُس کے اَہالی مَوالی وہاں پہنچے اور گڑھا کھود کر اُس کی سڑی ہوئی لاش کو وہیں داب آئے ۔ (اوراقِ غم صفحہ نمبر 550،چشتی)

ایک دن یزید اپنے بندر کو وحشی خچر کی پشت پر بٹھا کر اس کو دوڑایا اور خود بھی مستی اور مدہوشی کی حالت میں گھوڑے پر بیٹھہ کر اس خچر کے پیچھے دوڑنا شروع کر دیا ۔ اچانک زمین پر گرا جس وجہ سے اس کی گردن ٹوٹ گئی اور اس دن سے یزید ملعون کھڑا نہیں ہو سکا ۔ (البدایہ والنہاایہ بن کثیر، 436 /8)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقو ل ہے کہ انہوں نے کہا : یزید حوارین میں مستی کی حالت میں شکار کی غرض سے گھوڑے پر بیٹھا اور اس کے آگے وہ وحشی خچر دوڑ رہی تھی جس پر بندر بیٹھا ہوا تھا ، اس کے پیچھے یزید نے اپنے گھوڑے کو دوڑایا ، اور یہ شعر پڑھا :

ابا خلف! احتل لنفسک حیلہ
فلیس علیھا ان ھلکت ضمان

یہ شعر کہتے ہی یزید اپنے گھوڑے سے گرا اور اس کی گردن ٹوٹ گئی اور اس کے بعد وہ اٹھ نہ پایا ۔ (انساب الاشراف/4/ق2/1)

وہ تخت ہے کس قبر میں وہ تاج کہاں ہے ؟ اے خاک بتا زورِ یزید آج کہاں ہے ؟ ابنِ زیاد کا درد ناک انجام یزیدِ پلید کی وہ چَنڈال چوکڑی جس نے میدانِ کربلا میں گلشنِ رسالت کے مَدَنی پھولوں کو خاک و خون میں تڑپا یا تھا ۔اُن کا بھی عبرتناک انجام ہوا ۔ یزیدِ پلید کے بعد سب سے بڑا مجرِم کوفہ کا گورنرعُبیداللہ ابنِ زیاد تھا ۔ اِسی بدنِہاد کے حکم پر امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کے اہلبیتِ کرام علیہم الرضوان کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔ نیرنگی دنیا کا تماشہ دیکھئے کہ مختار ثقفی اور ابراھیم بن مالِک اشتر کی فوج کے ہاتھوں دریائے فُرات کے کَنارے صِرف 6 برس کے بعد یعنی 10 مُحرَّمُ الحرام 67 ھ کو ابنِ زیادِ بد نِہاد انتِہائی ذلّت کے ساتھ مارا گیا ! لشکریوں نے اس کا سر کاٹ کر ابراھیم کو پیش کر دیا اور ابراھیم نے مختار کے پاس کوفہ بِھجوادیا ۔ ( سوانِح کربلا صفحہ 123)

جب سرِ مَحشر وہ پوچھیں گے بُلا کے سامنے کیا جوابِ جُرم دو گے تم خدا کے سامنے

ابنِ زِیاد کی ناک میں سانپ دارُالاَمارات کُوفہ کو آراستہ کیا گیا اور اُسی جگہ ابنِ زِیادِ بد نِہاد کا سرِ ناپاک رکھا گیا جہاں 6 برس قَبل امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سرِ پاک رکھا گیا تھا ۔ اِس بد نصیب پر رونے والا کوئی نہیں تھا بلکہ اس کی موت پر جشن منایا جارہا تھا۔ (سوانِح کربلا صفحہ 123،چشتی)

صحیح حدیث میں عِمَارہ بن عُمَیر سے مروی ہے کہ جب عُبَیدُاللہ ابن زِیاد کا سَرمع اس کے ساتھیوں کے سروں کے لا کررکھا گیا۔تو میں ان کے پاس گیا ۔ اچانک غُل پڑ گیا آیا آیا ۔ میں نے دیکھا کہ ایک سانپ آرہا ہے ، سب سروں کے بیچ میں ہوتا ہوا ابنِ زِیاد کے( ناپاک) نَتھنوں میں داخل ہوگیا اور تھوڑی دیر ٹھہر کر چلا گیا حتی کہ غائب ہوگیا ۔ پھر غُل پڑا آیا آیا دو یاتین بار ایسا ہی ہوا ۔ (سُنَن تِرمذی ج۵ ص431 حدیث3805دارالفکر بیروت)

ابنِ زیاد ، ابنِ سَعد ،شمر ،قَیس ابن اَشعَث کندی، خولی ابنِ یزید ، سنان ابنِ انَس نَخعی ، عبدُاللہ ابن قَیس ، یزید بن مالِک اور باقی تمام اَشقِیاء جوحضرتِ سیِّدُنا امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل میں شریک تھے اور ساعی (یعنی کوشِش کرنے والے) تھے
طرح طرح کی عُقُوبتوں (یعنی اَذِیّتوں) سے قَتل کئے گئے اور ان کی لاشیں گھوڑوں کی ٹاپوں سے پا مال کرائی گئیں ۔ ( سوانِح کربلا صفحہ 158) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔