Monday 24 July 2023

دس محرم کو قبرستان جانا ، قبروں پر پانی چھڑکنا ، مٹی ڈالنا

0 comments
دس محرم کو قبرستان جانا ، قبروں پر پانی چھڑکنا ، مٹی ڈالنا
محترم قارئینِ کرام : مردہ کو دفن کرنے کے بعد  مٹی جمانے اور قبر کی حفاظت کی غرض سے پانی چھڑکنا مستحب ہے ، سر کی جانب سے پانی چھڑکنا شروع کرے اور پائنتی تک چھڑک دے ، اور اگر اس مقصد کےلیے بطورِ تبرک زم زم کا پانی بھی استعمال کر لے تو  یہ بھی جائز  ہے ، نیز اگر بعد میں بھی قبر کی مٹی منتشر ہو گئی ہو تو قبر کو ٹھیک کرکے پانی چھڑکنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔

وعن جعفربن محمد عن ابیه مرسلا ان النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم علی المیّت ثلٰث جثیات بیدیه جمیعا وّانّه رشَّ علی قبر ابنه ابراھیم و وضع علیه حصبآء ۔
ترجمہ : حضرت جعفر ابن محمد رضی اللہ عنہما اپنے والد سے مرسلاً روایت کرتے ہیں کہ : تحقیق نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قبر پر تین لپ دونوں ہاتھوں سے بھرکر ڈالے اور اپنے صاحبزادہ حضرت ابراھیم کی قبر پر پانی چھڑکا اور اس پر سنگریزے بھی رکھے ۔ (أخرجہ البغوی فی شرح السنہ جلد 5 صفحہ 401 رقم حدیث 1515)(سنن کبری حدیث نمبر 6740)

 و عن جابر قال رشَّ قبر النّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وکان الذّی رشّ المآء علٰی قبرهٖ بلال بن رباح بقربة بداء من قبل راسه حتّٰی انتهٰی الٰی رِجلیهٖ رواہ البیہقی فی دلائل النبوة ۔
ترجمہ : حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مبارک پر پانی چھڑکا گیا اور یہ کام حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ نے مشک سے انجام دیا ۔ سرھانے سے پانی چھڑکنا شروع کیا اور قدموں تک آئے ۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 148 ، 149)(مرقاۃ المفاتیح جلد 4 صفحہ 168 رقم حدیث 1710)

وعن ابی رافع قال سلّ رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سعدًا ورشّ علٰی قبرهٖ مآء رواه ابن ماجہ ۔
ترجمہ : حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جناب سعد کو قبر میں سر کی جانب سے لٹایا اور ان کی قبر پرپانی چھڑکا ۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 366،چشتی)(سُنن ابن ماجہ حدیث1551)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبر کے سرہانے بڑا پتھر رکھا اور فرمایا: یہ نشانی کے لیے ہے ۔ (سُنن ابوداؤد حدیث نمبر 3206)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر سال شھداء احد علیھم الرضوان کی قبروں پے جایا کرتے تھے ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 2 صفحہ 512)

قبر سے خیمہ (جو قبر والے کو سایہ کرنے کی غرض سے ہے اس) کو ہٹا دو ، قبر والے کو تو اس کے عمل سایہ دیتے ہیں ۔ (صحیح بخاری قبل الحدیث 1361)

در مختار میں ہے کہ : ولا بأس برش الماء عليه حفظا لترابه عن الاندراس ۔ (در مختار جلد 3 صفحہ 169 کتاب الصلاۃ مطلب فی دفن المیت)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے کہ : قوله : ولا بأس برش الماء " بل ينبغي أن يكون مندوباً لأن النبي صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فعله بقبر عيد وقبر ولده إبراهيم وأمر به في قبر عثمان بن مظعون ۔ (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح صفحہ 611،چشتی)
اور اسی میں ہے ،، فائدة : يجوز الوضوء والغسل بماء زمزم عندنا من غير كراهة بل ثوابه أكبر، وفصل صاحب " لباب المناسك " آخر الكتاب فقال : يجوز الاغتسال والتوضؤ بماء زمزم إن كان على طهارة للتبرك ۔ (حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح صفحہ 21 )

فتاوی رضویہ میں ہے کہ : بعد دفن قبر پر پانی چھڑکنا مسنون ہے اور نئی ڈال دی گئی یا منتشر ہو جانے کا احتمال ہو تو اب بھی پانی ڈالا جائے کہ نشانی باقی رہے اور قبر کی توہین نہ ہونے پائے " به علل فى الدر غيره أن لا يذهب الأثر فيمتهن ۔ یعنی در مختار وغیرہ میں علت بیان فرمائی ہے کہ نشان مٹ جانے کے سبب بے حرمتی نہ ہو " اس کےلیے کوئی دن معین نہیں ہو سکتا ہے جب حاجت ہو اور بے حاجت پانی کا ڈالنا ضائع کرنا ہے اور پانی ضائع کرنا جائز نہیں اور عاشورہ کی تخصیص محض بے اصل و بے معنی ہے ۔ ( فتاوی رضویہ جلد 9 صفحہ 372 رضا فاؤنڈیشن لاہور،چشتی)

حضرت صدر الشریعہ مفتی امجد علی قادری علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ : اس( قبر) پر پانی چھڑکنے میں حرج نہیں بلکہ بہتر ہے ۔ ( بہار شریعت جلد 1 صفحہ 846 قبر و دفن کا بیان)

اسی طرح قبر کے پودوں وغیرہ کےلیے پانی ڈالنا جائز ہے ۔ البتہ عاشورا (یعنی 10 محرمُ الحرام) یا کسی اور دن بےمقصد رسمی طور پر پانی ڈالنا اِسراف (یعنی فضول ضائع کرنا) ہے ، اور پانی یا کسی بھی ایسی چیز کو جس کی کچھ قیمت بنتی ہو خواہ مخواہ ضائع کرنا گناہ ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 9 صفحہ 373)

اگر کوئی یہ سمجھ کر پانی ڈالتا ہے کہ میّت کو ٹھنڈک پہنچے گی یا عذاب کی آگ بُجھ جائے گی تو یہ حماقت ہے ۔ بہر حال مذکورہ حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ سالانہ قبروں کی طرف جانا جائز ہے ، قبروں کی دیکھ بھال ، پانی چھڑکنا ، کنکریاں ڈالنا جائز ہے ، نشانی کےلیے نام کی تختی لگانا جائز ہے ، ایصال ثواب کرنا ، دعا استغفار کرنا جائز ہے ۔ یہ سب کام سال میں کسی بھی دن کیے جاسکتے ہیں ، آج کل بالخصوص دس محرم کو یہ کام کیے جاتے ہیں جوکہ جائز ہے مگر یاد رہے کہ دس محرم کو یہ سب ضروری سمجھنا غلط ہے ۔ دس محرم کو قبرستان جانے اور وہاں وقت گذارنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ لوگ ماتمی جلوسوں میں شرکت نہین کریں گے ۔ ماتم سوگ و غم منانے کے جلوس جائز نہین کیونکہ احادیث مین ان سے روکا گیا ہے ۔ اس پر ہم تفصیل سے لکھ چُکے ہیں الحَمْدُ ِلله ۔ باقی سورج نکلنے سے پہلے پہلے جانا ضروری سمجھنا ، اور سایے کےلیے کپڑا اوپر ڈالنا ٹھیک نہیں ۔ اگر کنکریوں مٹی پانی کی حاجت نہ ہو مثلا قبر بالکل نئی نئی ہے تو اب مٹی پانی مت ڈالیں بلا ضرورت مٹی پانی کنکریاں ڈالنا منع ہے اس حالت میں فقط زیارت قبور کیجیے دعا ایصال ثواب کیجیے ۔ قبر کے اوپر اگربتی جلانا ٹھیک نہیں ۔ ہاں قبرستان میں خوشبو کےلیے قبر کے قریب اگربتی جلا سکتے ہیں ۔

دس محرم الحرام میں نہ تو ماتم و غم کرنا ہے اور نہ ہی وفات پر خوشی منانی ہے بلکہ صحیح روایات کے ساتھ اہلبیت و صحابہ رضی اللہ عنہم و اسلاف علیہم الرحمہ کا تذکرہ کرنا چاہیے ، مستند معتبر دلائل سے ان کی سیرت کا مطالعہ کر کے خود کو ان کی سیرت پر ڈھالنا چاہیے ، تلاوت روزہ نوافل وغیرہ عبادات کرنی چاہیے ، ایصالِ ثواب کرنا چاہیے ۔ جو کچھ عام حالات میں انسان کرتا ہے وہی کرتا رہے ۔ بغیر خوشی مناتے ہوئے تمام جائز کام جائز ہیں ۔ اور غم یا سوگ مناتے ہوئے جائز کاموں کو ترک کرنا ٹھیک نہیں ۔ ہاں غم یا سوگ منائے بغیر جائز کاموں کو ترک کرنا جائز ہے ۔

امام ابنِ حجر مکی ہیتمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ولا يشتغل إلا نحوه من عظائم الطاعات كالصوم وإياه ثم إياه أن يشغله ببدع الرافضة من الندب والحزن والنياحة أو ببدع الناصبة أو الجهال من إظهار غاية الفرح والسرور واتخاذه عيدا وإظهار الزينة فيہ ۔
ترجمہ : محرم میں (بالخصوص نو دس محرم میں) روزہ وغیرہ عظیم نیک کاموں مین مشغول رہنا چاہیے ، روافض والی بدعتوں مثلا غم اور نوحے سے بچنا لازم ہے ، اور ناصبیوں اور جاہلوں والی بدعتوں مثلا خوشی کا اظھار کرنا ان دنوں کو عید بنا دینا اور (ناصبیوں کی طرح وفات پر خوشی کرتے ہوئے) زینت و آرائش کا خوب اظہار کرنا وغیرہ بدعتوں سے بھی دور رہنا لازم ہے ۔ (صواعق محرقہ جلد 2 صفحہ 534،چشتی) ۔ اسی طرح امام ملا علی قاری حنفی علیہ الرحمہ کی کتاب  اسرار مرفوعہ صفحہ341 میں بھی لکھی ہے)

عاشورہ (9 ، 10 محرم یا 10 ، 11محرم) کا روزہ رکھنا گذرے ہوئے ایک سال کے (صغیرہ)گناہوں کا کفارہ ہے ۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر 1162)(شیعہ کتاب وسائل الشیعہ جلد 10 صفحہ 457) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔