آلِ رسول اور سید کون کون ہیں حصہ دوم
شریف کا لفظ جو عرب میں سید کے معنی میں بولا جاتا ہے پہلے زمانہ میں علوی،جعفری اور عباسی وغیرہ پر بھی بولا جاتا تھا مگر جب مصر پر فاطمی حکومت کا قبضہ ہوا تو یہ لفظ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما کی اولاد کے ساتھ خاص ہو گیا اور یہی عرف اب تک چلا آرہا ہے اسی لیے ہندوستان میں بھی سید سے اولاد حسنین ہی مراد لیتے ہیں ۔
فتاوی حدیثیہ میں ہے "واعلم ان اسم الشریف کان یطلق علی من کان اھل البیت ولو عباسیا او عقیلیا ومنہ قول المؤرخین الشریف العباسی الشریف الزینبی فلما ولی الفاطمیون بمصر قصروا الشریف علی ذریۃ الحسن والحسین فقط واستمر ذالک الی الآن اھ ۔ (فتاوی فیض الرسول جلد دوم صفحہ ۵۸۴)
فتاوی رضویہ میں ہے کہ "حضرت امام حسن اور امام حسین رضی اللہ تعالی عنہما کی اولاد کو سید کہتے ہیں " عام اہل سنت کا طریقہ بھی یہی ہے کہ وہ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی اولاد کو سید کہتے ہیں مگر بعض لغات مثلاً لغات سعیدی وغیرہ میں ہے کہ علویان گروہ سادات سے ہیں ۔ اور اہلِ ہند تخصیص عرفی کی بنیاد پر سید بول کر اولادِ حسنین رضی اللہ عنہما مراد لیتے ہیں لہٰذا اس کی وجہ سے علوی وغیرہ حضرات سید ہونے سے خارج نہ ہوں گے ۔ اور آل کے تین معنی ہیں اول فرزند دوم اہل خانہ سوم متبعین جیساکہ غیاث اللغات میں ہے "آل در عربی بمعنی فرزندان واہل خانہ وپیروں آمدہ است " ۔ پس اس طرح آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تین قسمیں ہوتی ہیں اور حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما قسم اول سے ہیں ۔ (فتاوی فیض الرسول جلد دوم صفحہ ۶۵۲)
آل کا اطلاق کبھی متبعین پر ہوتا ہے (جیساکہ اوپر بتایا گیا ) اور اسی معنی کے اعتبار سے قوم فرعون کو آل فرعون کہا جاتا ہے مگر اس سے یہ لازم نہیں کہ ساداتِ کرام کو آل رسول نہ کہا جائے وہ یقیناً نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آل میں ہیں بخاری و مسلم میں کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالی عنہ مروی انہوں نے فرمایا : سألنا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فقلنا یا رسول اللہ کیف الصلوۃ علیکم اھل البیت فان اللہ قد علمنا کیف علیک ؟قال قولوا الھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی آل ابراھیم انک حمید مجید الھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراھیم وعلی آل ابراھیم انک حمید مجید ۔
ترجمہ : ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپ پر یعنی آپ کی اہلِ بیت پر کس طرح درود بھیجیں ؟ ارشاد فرمایا کہ یوں کہو "الھم صل علی محمد وعلی آل محمد "اھ اس سے معلوم ہوا کہ کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے اھل بیت کو آل کہا جائے گا ۔
دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا "انما الصدقات اوساخ الناس لا تحل لمحمد ولآل محمد " یعنی صدقہ آل محمد کے لیے حلال نہیں ۔
ظاہر ہے کہ آل سے صرف وہی لوگ مراد ہیں جن پر صدقہ حرام ہے نہ کہ تمام امت کیوں کہ امت پر صدقہ جائز ہے جب کہ وہ شخص فقیر ہو ۔ اور اگر آل بمعنی متبع ہو جب بھی سادات کو شامل ۔ جیسا کہ علامہ طیبی نے شرح مشکوۃ میں فرمایا : اختلفوا فی الآل من ھم قیل من حرمت علیہ الزکوۃ کبنی ھاشم وبنی المطلب والفاطمۃ والحسن والحسین وعلی اخویہ جعفر وعقیل واعمامہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم العباس والحارث وحمزہ واولادھم وقیل کل تقی آلہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔
اور حضرت شیخ محدث دہلوی نے فرمایا ان ازواجہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم داخلۃ فی ھذا الخطاب والآل ایضا یجئ بمعنی الاتباع وبھذا المعنی ورد الی کل مومن ۔
جو کچھ یہاں کہا جا سکتا ہے صرف اتنا کہ کبھی امت اور متبعین پر بھی لفظ آل کا اطلاق ہوتا ہے نہ یہ کہ اولاد پر اطلاق نہیں ہوتا ۔ (فتاوی امجدیہ جلد چہارم صفحہ ۵۲۵ ، ۵۲۶)
معنوی اعتبار سے سید اور آلِ رسول میں عموم و خصوص مطلق کی نسبت ہے آلِ رسول عام ہے اور سید خاص ہےیعنی ہر سید آلِ رسول ہے مگر ہر آلِ رسول کا ہر فرد سید نہیں ۔ پس اس معنی کے اعتبار سے سید کو آلِ رسول پر فضیلت حاصل ہوگی اس لیے کہ ہر سید تو آلِ رسول ہے مگر ہر آلِ رسول سید نہیں کہ علی الاطلاق متبعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بھی آلِ رسول کہا جاتا ہے جیسا کہ اُوپر گذر چُکا ہے ۔ نیز سید کا فضل ذاتی ہے جو فسق بلکہ بد مذہبی سے بھی نہیں جاتا جب تک کہ معاذ اللہ حدِ کفر تک نہ پہنچے اور متبعِ رسول کا فضل عملی ووصفی ہے لہٰذا آلِ رسول بمعنی متبع معاذ اللہ اگر بد مذہب ہو اس کی تعظیم و توقیر حرام ۔ اور سید کی تعظیم سبب جزئیت حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے اور جزئیت تا بقائے اسلام باقی ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد ۱۱ صفحہ ۲۳)
البتہ موجودہ دور کے عرف کا خیال رکھتے ہوئے اس بارے میں فقیر چشتی کی راۓ یہ ہے کہ پاک و ہند میں سید اور آلِ رسول میں نہ کوئی فرق ہو گا اور نہ سید کو آلِ رسول پر کوئی فضیلت حاصل ہو گی ۔ اس لیے کہ پاک و ہند میں جس طرح سید کا لفظ اولادِ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کےلیے خاص ہو گیا ہے ٹھیک اسی طرح آج پاک و ہند میں آلِ رسول کا لفظ بھی حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما ہی کی اولاد کےلیےعرفاً خاص ہو گیا ہے ۔ لہٰذا ان دونوں میں اب کوئی فرق قرار نہ دیا جائے گا اور نہ ایک دوسرے پر کوئی فضیلت قرار دی جائے گی ۔
سیادت کی بنیاد کسی سند پر نہیں ہوتی بلکہ ہر وہ شخص جس کے آبا و اجداد میں ہر ہر فرد صحیح النسل سید ہوں وہ شرعاً مصدقہ سید قرار دیا جائےگا خواہ اس کے پاس کوئی سند یا شجرہ ہو یا نہ ہو ، ورنہ صدہا ساداتِ کرام ایسے ہیں جن کے پاس نہ کوئی سند ہے اور نہ ہی کوئی نسبی شجرہ وہ سبھی حضرات خارج از سیادت قرار پائیں گے ۔ اب اگر کچھ لوگ واقعی سید نہیں ہیں مگر اپنے آپ کو سید کہتے اور لکھتے ہیں تو ایسے لوگوں پر اللہ عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام فرشتوں علیہم السلام اور سارے انسانوں کی لعنت ہے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا نہ کوئی فرض قبول فرمائے گا نہ نفل ۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے : من ادعی الی غیر ابیہ فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین لا یقبل اللہ منہ یوم القیامۃ صرفا ولا عدلا ۔
ترجمہ : جو اپنے باپ کے علاوہ دوسرے کی طرف اپنی نسبت کرے اس پر اللہ تعالی کی سب فرشتوں اور آدمیوں کی لعنت ہے اللہ قیامت کے دن اس کا نہ فرض قبول فرمائے گا نہ نفل ۔ اھ (بخاری و مسلم ) لہٰذا جو لوگ سید نہیں ہیں اور اپنے آپ کو سید کہتے اور لکھتے ہیں وہ لوگ سخت گنہگار اور مستحق عذاب نار ہیں ۔ اسی طرح وہ لوگ بھی گنہگار اور وعید کے مستحق ہیں جو ایسے افراد کو سید مانتے ہیں جوفی الواقع سید نہیں اس لیے کہ جب اپنے باپ کے سوا دوسرے کی طرف اپنی نسبت کرنے والے پر یہ وعید ہے تو جو شخص کسی کو اس کے باپ کے سوا دوسرے کی طرف منسوب کرے وہ بدرجہ اولیٰ اس وعید کا مستحق ہے ۔
اب رہی بات یہ کہ جو لوگ اپنے آپ کو سید کہتے اور لکھتے ہیں مگر اس کے بارے کسی کو تحقیق کے ساتھ یہ معلوم نہیں کہ یہ لوگ واقعی سید ہیں یا نہیں تو ایسے لوگوں کو سید ماننا اور بولنا چاہیے کہ نہیں ؟ تو اس بارے امام احمد رضا خاں خان قادری رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : اور یہ فقیر بارہا فتویٰ دے چکا ہے کہ کسی کو سید سمجھنے اور اس کی تعظیم کرنے کےلیے ہمیں اپنی ذاتی علم سے اسے سید جاننا ضروری نہیں جو لوگ سید کہلائے جاتے ہیں ہم ان کی تعظیم کریں گے ہمیں تحقیقات کی حاجت نہیں ۔نہ سیادت کی سند مانگنے کا ہم کو حکم دیا گیا ہے ۔ اور خواہی نخواہی سند دکھانے پر مجبور کرنا اور نہ دکھا ئیں تو برا کہنا ، مطعون کرنا ہرگز جائز نہیں "الناس امنا علی انسابھم" (لوگ اپنے نسب پر امین ہیں) ہاں جس کی نسبت ہمیں خوب تحقیق معلوم ہو کہ یہ سید نہیں اور وہ سید بنے اس کی ہم تعظیم نہ کریں گے نہ اسے سید کہیں گے ۔ اور مناسب ہوگا کہ نا واقفوں کو اس سے مطلع کر دیا جائے ۔ میرے خیال میں ایک حکایت ہے جس پر میرا عمل ہے کہ ایک شخص کسی سید سے الجھا ، انہوں نے فرمایا میں سید ہوں ۔ کہا کیا سند ہے تمہارے سید ہونے کی ۔ رات کو زیارتِ اقدس سے مشرف ہوا کہ معرکہ حشر ہے یہ شفاعت خواہ ہوا ۔ اعراض فرمایا ۔ اس نے عرض کی میں بھی حضور (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا امتی ہوں فرمایا کیا سند ہے تیرے امتی ہونے کی ۔ (فتاوی رضویہ جلد ۱۱)
مسٹر ہمفرے نے اپنی یاد داشتیں لکھیں ۔ اور آج بھی کیلیفورنیا کی یونی ور سٹی میں وہ تھیسس موجود ہے ؛ پڑی ہوئی ہے ۔ اس کا کچھ ترجمہ بھی ہمارے یہاں پاک و ہند میں دستیاب ہے ۔ کچھ اس کے Chapter کا ترجمہ یہاں ملتا ہے ۔ اس کا عنوان غالباً رکھا ہے ’’مسٹر ہمفرے کی یاد داشتیں ‘‘ (ہمفرے کے اعترافات) اس طرح ترجمہ دستیاب ہے ۔ آپ کی مارکیٹ سے مل جاتا ہے ۔ اس میں وہ کہتا ہے کہ مجھے سولہ (16) چیزوں پہ کام کرنے کی ذمہ داری لگائی گئی تھی ۔ ان میں سے ایک کام یہ تھا کہ ’’جعلی سادات‘‘ پیدا کیے جائیں ۔
صحیح نسب سادات اور جعلی سید کا ایک جائزہ سب سے پہلے احادیث مبارکہ سے ہم جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ نسب بدلنے کی کیا وعیدیں آئی ہے ، چنانچہ جس شخص نے اپنے باپ کے علاوہ خود کوکسی اور طرف منسوب کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو ۔
اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے نفل قبول فرمائے گا نہ فرض ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے : اپنے باپوں سے منہ نہ پھیرو ، جس نے اپنے باپ سے منہ پھیرا اس نے کفر کیا ۔ (صحیح مسلم ، کتاب الایمان)
حضرت عمرو بن شعیب علیہ الرحمہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے برات کا اظہار کیا اس نے انکار کیا یا جس نے اپنے نسب یا غلامی سے بے تعلقی ظاہر کی یا ایسے نسب کا دعویٰ کیا ۔ جس سے وہ معروف نہیں اس نے اللہ تعالیٰ کا انکار کیا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی غیر معروف نسب کا دعویٰ کیا اس نے اللہ تعالیٰ کا انکار کیا یا جو اپنے نسب سے الگ ہوا ۔ اگرچہ تھوڑی ہی دیر کےلیے تو اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا ۔ (صحیح مسلم ، کتاب العتق)
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص بھی اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف نسب کا دعوٰی کرے (یا کسی اور نسب کی طرف خود کو منسوب کرے) حالانکہ وہ جانتا ہے کہ یہ نسبت غیر کی طرف ہے وہ کافر ہوجائے گا اور جس نے کسی ایسے قوم کی طرف خود کو منسوب کیا جس میں اس کا نسب نہیں وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لیا ۔ (صحیح بخاری، کتاب المناقب)
وہ خاندان جو صدیقی ، فاروقی ، عثمانی ، چودھری ، پیٹھان ، جٹ ، ملک ، کمہار ، مراثی وغیرہ ہیں جن کے پاس نسب موجود ہے ، اس کے باوجود خود کو سید لکھتے ، یا ان کے مریدین ، محبین بھی بغیر تحقیق کے خوش فہمی میں انہیں سید لکھتے اور بولتے ہیں تو ایسے میں دونوں پر لعنت اللہ علی الکاذبین کا حکم جاری ہوگا ، اور قرآن و حدیث کی رو سے دھوکہ دینے والے میں شمار کئے جائیں گے ۔ آج کل کچھ حضرات عوام میں مقبولیت بنانے کےلیے سید بن رہے ہیں اور سادات خاندان میں شادیاں کر کے خود کو سید منوانے کی کوشش کر رہے ہیں ، اس دھوکہ دہی میں کامیاب بھی ہو جارہے ہیں ، لہٰذا صحیح نسب سادات کو بھی چاہیے کہ تحقیق کر کے ہی رشتہ بنائیں ، خواہ وہ شخص کسی بھی منصب پر فائز ہو جائے ۔ یاد رہے کہ غیر سادات سے ہٹ کر اشراف میں شادی کر سکتے ہیں لیکن کچھ حضرات اس کا غلط فائدہ اٹھا کر جھوٹے سید بن جاتے ہیں اور جب کوئی اہل علم ان سے سوال کرتے ہیں ان کے سادات ہونے پر تو بجائے اس کے اپنا نسب پیش کرتے ، بلکہ اپنی رشتہ داری چوڑانے لگتے ہیں ، ایسے معاملات ہند و پاک میں خوب پائے جاتے ہیں ۔
نسب سازی کرنے والے کون ؟
سن 1950ء کے بعد ہی سب سے زیادہ جھوٹے سید بننے شروع ہوئے ہیں ، ہم دیکھتے ہیں کہ جو شخص تاریخ انساب کی کچھ کتابیں پڑھ کر بغیر خوف الہٰی کے اپنا نسب کسی بھی غیر معروف بزرگ سے ملا لیتے ہیں ، جب کہ اس کا ایسا کر نا اہل علم نسب داں کو خوب معلوم رہتا ہے، کیونکہ جس کسی بھی بزرگ کی اولاد میں نسب ملاتے ہیں اس کی پوری تاریخ اس خاندان کے کسی نہ کسی شخص کے پاس ضرور ہوتا ہے، یا نہیں تو کسی نسب کی مسنتد کتابوں میں یہ ذکر ہوتا ہے کہ کون بزرگ کی اولاد کہاں گئ ، کس علاقے میں بسے، ان نام کیا تھا، زمانہ کیا ہے ، قدیم دور میں شادیاں کسی سادات خاندان میں ہوئی وغیرہ وغیرہ ، علاوہ ، کرسی نامہ،قدیم دستاویزات میں بھی لکھا ہوتا ہے ۔ جس سے اہل علم اور ماہر نساب حضرات اندازہ لگا لیتے ہیں کہ کون سادات اصلی ہے کون جعلی ۔
دور جدید کے پیر کچھ جعلی سید ہیں
افسوس اس بات ہے کہ آج جو اپنے کچھ خانقاہ کے پیر بنے ہوئے ہیں ان کے جدِ امجد (دادا) اپنے کو کبھی نہ سید لکھا ، اور نہ ہی کبھی سید کہلوائے اور نہ ہی سید تھے ۔ مثال کے طور آج سے پچاس سال قبل کے بزرگ برادری میں فقیر ، چودھری ، خان ملک شیخ ہوں ، جیسے جناب فلاں صاحب اپنے مریدین کو یہ نہیں بتایا کہ میں سید ہوں ، اور نہ ہی کبھی اپنے نام میں سید کا اضافہ کیا ، لیکن آج انہیں کی اولاد اپنے کو سید لکھتے ، بولتے ، اور اگر اسٹیج کی دنیا کے آدمی ہوں تو بھر اولاد غوث اعظم بھی بن جاتے ہیں ۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ ۔
اب وہ خاندان جو سید نہیں تھے ، اور ان کے گھر والے کچھ عرصے سے سید گھرانے میں شادی کرنے کی وجہ سے سید بنے ہوئے ہیں ، لیکن جب تحقیق ہونے پر سید نہیں نکلتے تو علماۓ اہلسنت پر بھڑک اٹھتے ہیں ، اور کہنے لگتے ہیں کہ ارے میرے فلاں سید لکھتے تھے ، ہم سید ہیں ، ہماری رشتداری وہاں سے بھی ہے ، اور تم کون ہوتے ہو سند دینے والے وغیرہ وغیرہ ، بھر آگ بگولہ ہوکر دنیا کی ساری برائی صحیح نسب سیدوں اور علماۓ اہلسنت میں تلاش کرنے لگتے ہیں ۔ جب انہیں معلوم ہے کہ ہمارے دادا نے نانیہال کی وجہ سے شاہ اور پھر لکھتے تھے تو بھر شرمندہ ہوتے ہیں ۔ آج کل بہت سی جگہوں پر زیر صدارت سے لیکر مقررین کے نام کے آگے سید لگا ہوا ہوتا ہے ، تحقیق یہ ہے کہ ان میں ایک بھی نسبی طور پر سید نہیں ہے ، بعض تو مشکوک ہیں یعنی برادری کا معلوم نہیں تو سید ہی بن گئے اور کسی خانقاہ کی خلافت مل گئی تو مضبوط سید السادات ہوگئے اگر چہ تاریخ و حقیقت اس کے مخالف ہو ۔ یاد رہے کے نانیہالی رشتہ سے ہرگز سید نہیں بن سکتے ، نسب سادات صرف پدری یعنی باپ کی طرف سے ہی مانا جاتا ہے ۔
آج جو بھی جھوٹ بول کر سادات میں شادیاں کر رہے ہیں ، یا جو حضرات جھوٹے سید بنے ہوئے ہیں ان سے گزارش ہے کہ آپ نیک اور شریف خاندان سے تعلق رکھتے ہیں تو یہی آپ کی بہترین شناخت ہے ، ورنہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عوام الناس کو دھوکہ دیکر دنیا تو سنوار سکتے ہیں لیکن آخرت میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
ان شاءاللہ جلد ہند و پاک کے جعلی سیدوں کے نام سامنے آجاٸیں گے ۔
صحیح نسب سادات خاندان کی شناخت
جیسا کہ ہم نے پہلے سطور میں لکھا کہ جو بھی سادات خاندان ہیں اور سید بزرگ ہوتے ہیں ان کی مکمل یا مختصر تاریخی حالات ان کی اولاد کے پاس ضرور لکھا ہوتا ہے چاہے خاندانی بیاض ، یا کرسی نامہ یا قدیم کاغذات و دستاویزات سے ثابت ہو کہ اس خاندان کا نسب پدری حضرت مولی علی رضی اللہ عنہ سے جا ملا ہے ۔ اس کے علاوہ اس سادات خاندان کے بارے میں سو سال قبل کی مستند انساب کی کتابوں میں ذکر ہو جس سے معلوم جائے کہ اس سادات خاندان کے مورث اعلیٰ کون ہیں ، کہاں سے آئے تھے ، نسب کیا ہے ، ان کی اولاد کتنی ہیں ۔ اس سید خاندان کی شاخیں کہا آباد ہیں ، یا اس سید خاندان کو اگر جاگیر ملی ہوئی تھی تو صوبہ کی قدیم جاگیرداری تاریخ کا تجزیہ کئے جانے سے معلوم ہوتا کہ کس بزرگ کے کون اولاد ہیں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔
سید خاندان ۔ فطری طور پر دلیر اور سخی ، دل کا غنی ، غیرت مند ، وفادار ، قابل اعتماد اور اپنے احسان کرنے والے کو دھوکہ نہیں دیتا ، زبان میں سادگی ، اپنے اجداد کے بزرگوں کے نام یاد رکھنا یعنی نسب یاد رکھنا ، صدیوں سے شادی زیادہ سے زیادہ سید گھرانوں میں ہی ہوتی رہی ہوں یہ سب سیدوں کی خصوصیات میں شامل ہیں ۔
تنبیہ : بعض سید میں وہ حضرات بھی ہیں جن کے دادا ، پر دادا نے نسب کو محفوظ نہیں کیا ، لیکن وہ لوگ صحیح نسب سید ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ غیر معروف سادات تحقیق اور تفتیش کر کے اپنے قدیم خاندان کے بارے جاننے کی کوشش کریں ۔ آج کل بہت سے دوسرے حضرات نسب گم ہونے کا بہانہ لگا کر خود کو سید ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں لیکن نسب داں اور ماہرین حضرات مشاہرت سے ہی اندازہ لگا لے تے ہیں کہ کون حقیقی سید ہے اور کون اس دور کے نئے جعلی سید ۔
نوٹ : کسی خانقاہ کے سجادہ نشیں ، یا خطیب ، پیر ، عالم دین ہونے کی یہ ہرگز دلیل نہیں ہے کہ وہ سید صحیح نسب ہوں ۔ 75% ایسے ہی شخصیات سید بنے ہوئے ہیں ، لہٰذا آپ عوام الناس کا حق بنتا ہے کہ شک ہونے پر سید لکھنے والے خاندانوں سے اصلاح اور علم کی نیت سے شجرہ نسب طلب کریں ، کیونکہ اپنے نام میں سید لگانے والے موٹی موٹی اور ضخیم کتابیں لکھنے والے اکثر حضرات جان بوجھ کر خاندانی احوال اور شجرہ نسب رقم نہیں کرتے تاکہ سیدھی سادھی عوام سمجھ ہی نہیں پائے اور اپنا کام بنتا رہے ۔ یادرہے کہ کتاب کے ٹائٹل پیج پر سید لکھنے سے سید ثابت نہیں ہوتے ، اور ہماری نگاہ سے ایسے بہت سے خانوادے اور خانقاہ کی کتابیں گزری جس میں نئے سید (جعلی سید) دو ، چار افراد کا نام لکھ کر کہیں گے یہ ہمارا نسب ہے ، لیکن کن بزرگ سے ملتا ہے ، کن امام کے واسطے سے ہے ، حسینی ہیں یا حسنی ۔ ان سب چیزوں کا ذکر تک نہیں کرتے ، تاکہ لوگ بے وقوف بنتے رہیں اور اپنا کام چلتا رہے، اس بات کا خوف تک نہیں رہتا کہ کل بروز قیامت ہمیں اللہ کے سامنے پیش ہونا ۔ یاد رہے کہ آج کے تحقیقاتی دور میں قدیم صحیح سادات خاندان اور جعلی سید میں امتیاز کرنا بہت مشکل نہیں ہے ۔
جعلی سادات پیدا کیے جائیں
مسٹر ہمفرے ؛ جس نے عرب میں کام کیا ہے اور سلطنت عثمانیہ کو توڑنے کی ذمہ داری جس کو سونپی گئی تھی۔ چار ہزار جاسوسوں کے ساتھ لارینس آف عربیہ عرب میں داخل ہوا تھا۔ اور جب ان کو عرب میں بھیجا گیا تو ان کو جو کام دیا گیا کرنے کا اْس کو ذرا غور کیجیے کہ ان کی چالیں کتنی باریک ہوتی ہیں ۔
مسٹر ہمفرے نے اپنی یاد داشتیں مرتب کیں ؛ لکھیں ۔ اور آج بھی کیلیفورنیا کی یونی ور سٹی میں وہ تھیسس موجود ہے؛ پڑی ہوئی ہے ۔ اس کا کچھ ترجمہ بھی ہمارے یہاں ہند و پاک میں دستیاب ہے ۔ کچھ اس کے Chapter کا ترجمہ یہاں ملتا ہے۔اس کا عنوان غالباً رکھا ہے ’’مسٹر ہمفرے کی یاد داشتیں‘‘ (ہمفرے کے اعترافات) اس طرح ترجمہ دستیاب ہے ۔ آپ کی مارکیٹ سے مل جاتا ہے۔ اس میں وہ کہتا ہے کہ مجھے سولہ 16چیزوں پہ کام کرنے کی ذمہ داری لگائی گئی تھی ۔ ان میں سے ایک کام یہ تھا کہ ’’جعلی سادات‘‘ پیدا کیے جائیں ۔
اب عام بندہ سوچے گا کہ اس سے کیا ان کو فائدہ تھا؟کہ جعلی سادات پیدا کیے جائیں۔ تو جعلی سادات پیدا کرنے سے کیا فائدہ ہوگا؟ … فائدہ یہ ہوگا کہ یہ وہ زمانہ تھا کہ لوگ سادات سے، علما سے جْڑے ہوئے ہوتے تھے۔ اور زیادہ تر علما سادات ہوتے تھے۔ اور لوگ سادات سے، پیرانِ عظام سے، علما سے جڑے ہوئے ہوتے تھے۔ اور ان سے جڑنے کی وجہ سے ان کا دین محفوظ ہوتا تھا ۔ آج کل تو لوگ علما کو، پیرانِ عظام کو گالیاں دیتے ہیں اور اس کا بہت بڑا سبب ان کے اپنی کرتوتے ہیں۔ چوں کہ لوگ ان کے ساتھ وابستہ ہیں اور ان کی وابستگی کی وجہ سے دین میں رسوخ اور پختگی ہے۔ تو اب جعلی سادات پیدا ہوں گے تو لوگ ان کے قریب بھی سید سمجھ کے جائیں گے؛ لیکن وہ ہوگا تو سید نہیں۔ تو ظاہر ہے کہ جب لوگوں کی محبتیں ملے گی، پیسہ ملے گا ، عقیدتیں ملے گی، لوگوں کے گھروں میں آنا جانا ہوجائے گا۔ تو چوں کہ اس کا خون تو خونِ رسول نہیں ہوگا۔ تو ایسی حرکتیں کرے گا کہ پھر لوگ بدظن ہوجائیں گے۔ اور جب لوگ ان جعلی سادات سے بدظن ہوجائیں گے؛ تو پھر دین سے بدظن ہوجائیں گے۔ اور ایک سے بدظن ہوجائیں گے تو پھر باقیوں سے بھی ہوجائیں گے۔ … ہمفرے کہتا ہے کہ میرے ذمہ جو سولہ سترہ کام کرنے کے لیے لگائے ؛ ان میں سے ایک کام یہ تھا کہ جعلی سادات پیدا کیے جائیں۔
یہاں برصغیر میں جب انگریز آیا؛ اس نے دیکھا کہ یہاں کے علما پگڑی باندھتے ہیں ان پر شملہ ہوتا تھا یا مختلف اسٹائل جو پگڑی کے ہیں۔ اور یہاں کے جو سردارانِ قوم تھے وہ بھی باندھتے تھے۔ یہاں پنجاب کا کلچر بھی تھی۔ اب وہ آکے حکم نامہ دے دیں کہ پگڑیاں اتاروں۔ تو دینی، مسلکی اور مذہبی Issue ہوجائے گا۔ اس کے لیے مشکلات کھڑی ہوں گی۔ اس نے بالکل کسی سے نہیں کہا کہ پگڑیاں اتارو۔ اس نے کیا کیا؟ کہ یہ جو سنتری تھے ان کو کْلاہ بندھوادیا۔ جو باجے بجانے والے تھے ان کو کْلاہ بندھوا دیا۔ جو ڈھول بجانے والے تھے ان کو پگڑی پہنادی۔ شادی کا موقع آیا تو جو بیرے تھے؛ کھانا تقسیم کرتے تھے؛ ان کو پگڑیاں بندھوادی۔ اب مجھے بتاؤ! ایک شادی میں بیروں نے پگڑیاں باندھی ہوئی ہیں، باہر جو سنتری کھڑا ہے اس نے پگڑیاں باندھی ہیں ، اب کوئی مہمان یا عالم یا کوئی سردار پگڑی باندھ کے آتا ہے تو پھر ان کا شمار تو ان کے ساتھ ہوگا۔ تو وہ محسوس کرے گا کہ یہ میری ہتک ہے؛ تو دوبارہ ایسی تقریب میں آئے گا تو پگڑی اتار کے آئے گا۔
یہ ایک منصوبہ تھا ؛ اسلامی شعار چھیننے کےلیے ۔ اس طرح کے کتنے کام کیے ہیں ۔ آپ دیکھیں ان نوے سالوں کے اندر وہ ہمارے ساتھ کیا کر گئے ۔ ہمارا کلچر برباد کر گئے ۔ ہماری تہذیب لوٹ گئے ۔ اور سینے حبِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے خالی کرنے کی سازش کرتے گئے ۔ اور کیا کچھ انہوں نے کیا۔ یہ تو اللہ کا کرم ہوا کہ اللہ نے کچھ لوگوں کے دل میں ڈال دیا کہ ان سے جلدی جان چھڑائی جائے ۔ اور وہ نوے سال کے اندر اندریہاں سے چلے گئے ۔ اگر اور کچھ سال ہوتے تو کچھ باقی ہی نہ ہوتا ۔ بلکہ ایک وفد آیا تھا انگلستان سے ؛ عیسائی مشنریوں کا ۔ اور ان کو یہاں ہندستان میں Task دیا گیا کہ یہاں تم لوگوں کو عیسائی بناو ۔ یہاں انہوں نے کچھ دن کام کیا ۔ اور اس زمانے میں ان پر لاکھوں روپے خرچ ہوئے ۔ واپس جا کے جب ان سے رپورٹ لی گئی کہ تم نے کتنے لوگوں کو عیسائی بنایا ؟ تو انہوں نے کہا ایک کو بھی نہیں بنا سکے ۔ تو ان سے کہا گیا کہ ہم نے اتنا پیسہ تم پر لگایا ہے ، تم اتنے سال وہاں رہے بھی ہو ۔ اور تم کسی ایک شخص کو بھی عیسائی نہیں بنا سکے کیا فائدہ تمہارا ؟ انہوں نے کہا مالک پوری رپورٹ سن لو نا ہم کسی ایک شخص کو بھی عیسائی نہیں بنا سکے لیکن کئیوں کو ہم نے مسلمان بھی نہیں رہنے دیا ۔ یعنی ہم یہ تو نہیں کر سکے کہ کسی کو عیسائی بنادیں لیکن ہم نے ان کو مسلمان بھی نہیں رہنے دیا ۔ اب کتنے لوگ ہیں جو درمیان میں معلق ہو گئے ۔ مذہب میں رہتے ہوئے بھی مذہب بیزار ۔ دین میں رہتے ہوئے بھی دین بیزار ۔ اب وہی کام ہمارے میڈیا کے ذریعے سے کیا جارہا ہے ۔ علما کو ادا کار بنایا جارہا ہے ؛ اداکاروں کو علما بناکر پیش کیا جارہا ہے ۔ فقیر کو بتاٶ اس کا کیا مطلب ہے ؟ جو جعلی سادات پیدا کر کے کام حاصل کرنا تھا ؛ اب وہی کام اس طرح کیا جارہا ہے کہ جن کو دین کی ابجد بھی معلوم نہیں ہے وہ وہاں میڈیا پر مسئلے بتارہے ہیں۔ طلاق کے، خلع کے اور دیگر امور پر۔اور پھر علما کو ان لوگوں کے ساتھ بٹھایا جارہا ہے۔ یہ ساری سازشیں ہیں۔ بڑی باریک چالیں ہوتی ہیں۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment