شاہ است حسین بادشاہ است حسین رباعی کی تحقیق
محترم قارئینِ کرام : اس رباعی کو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمة اللہ علیہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے تحقیق کے مطابق یہ رباعی حضرت معین الدین چشتی کی نہیں ہے ۔ یہ کس شاعر کی ہے ؟ اس بارے میں کئی اقوال ہیں ۔ البتہ مفہوم کے اعتبار سے یہ بالکل درست ہے ۔ جو لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں وہ غلط فہمی کا شکار ہیں ۔
فقیہ اعظم ہند شارح بخاری حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی رحمة اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ کیا یہ رباعی حضور غریب نواز رحمة اللہ علیہ کی ہے ؟ تو آپ نے اس کے جواب میں فرمایا : کہ باوجود تتبع تام استقراء حتی الامکان کے تاہنوز حضرت سلطان الہند خواجہ غریب نواز رحمة اللہ علیہ یا ان کے سلسلے کے بزرگوں یا ہندوستان کے معتمد مصنفین کے تصنیفات میں کہیں اس رباعی کا تذکرہ نہیں ، قصاص قسم کے واعظین بڑے طمطراق سے اسے حضرت خواجہ غریب نواز رحمة اللہ علیہ کی طرف منسوب کرتے ہیں میں نے ان قصاصین سے پوچھا کہ اس کی کیا سند ہے تو اب تک کوئی بھی اس کی سند نہیں پیش کر سکا کسی نے بازاری رسالوں کا نام لیا کسی نے اور واعظ کا حوالہ دیا غرض کہ اب تک یہ ثابت نہیں کہ حضرت سلطان ہند رحمة اللہ علیہ کی رباعی ہے ۔ (فتاویٰ شارح بخاری جلد ۲ صفحہ ۲۵۹،چشتی)
البتہ اس کا ترجمہ ملاحظہ ہو :
شاہ است حسین بادشاہ است حسین ۔
ترجمہ : شاہ بھی حسین ہیں بادشاہ بھی حسین ہیں ۔
دین است حسین دین پناہ است حسین
ترجمہ : دین بھی حسین ہیں دین کو پناہ دینے والے بھی حسین ہیں ۔
سرداد نہ داد دست در دست یزید ۔
ترجمہ : سر دے دیا مگر نہیں دیا اپنا ہاتھ یزید کے ہاتھ میں ۔
حقا کہ بنائے لا الہ ہست حسین ۔
ترجمہ : حقیقت تو یہ ہے کہ لاالہ کی بنیاد ہی حسین ہیں ۔
اور رہی بات پڑھنے کی تو اس کا پڑھنا بالکل درست ہے ۔ اس کا مفہوم حسب ذیل ہے : ⬇
امام حسین رضی اللہ عنہ قلوب امت کے سردار و بادشاہ ہیں ۔
دین میں ایسے مستغرق ہیں کہ سرتاپا خود دین ہیں، دین نے اپنے تحفظ کے لیے آپ ہی کے دامن میں پناہ لی ۔
سر تو دے دیا مگر یزید کے ہاتھوں میں ہاتھ نہیں دیا ۔
حق تو یہ ہے کہ آپ لا الہ الا اللہ کی بنیاد ٹھہرے ۔
یہاں بناء بمعنی عمارت ہو تو مطلب یہ ہو گا کہ یزید کے ہاتھوں اسلام کی منہدم ہوتی عمارت کو اپنا خون دے کر دوبارہ تعمیر کر دیا ۔ اور اگر بناء بمعنی بنیاد ہو تو مطلب یہ ہو گا کہ : اپنا سب کچھ لٹا کر اسے بنیاد فراہم کر دی ۔
دراصل موروثی جانشینی اور فسق و فجور کی حکومت کا آغاز تاریخ اسلام میں پہلی بار ہو رہا تھا ، اب اس موقع پر اہل اسلام کا رد عمل کیا ہو، یہ کسی صاحب عزیمت کا اپنے عمل سے ثابت کرنا ضروری تھا، تاکہ رہتی دنیا تک کے لیے مثال بن جائے کہ غلط نظام حکومت کے سامنے کس قسم کا کردار پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔
یہی کام سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے کر دکھایا اور اپنے جدِ اعلیٰ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی طرح باطل کے بت کدے میں جرات رندانہ کے ساتھ گھس کر اسے تہس نہس کر کے بتا دیا کہ جب بھی یزیدی نظام حکومت دیکھو تو اس کے خلاف حسینی انداز کی جد و جہد کا آغاز کرو ۔
اگرچہ فسق و فجور کی حکومتوں کا سلسلہ یزید کے بعد بھی جاری رہا مگر حسینی طرز عمل کا فائدہ یہ ہوا کہ فکر و نظر ہمیشہ اس کو خلافِ اسلام سمجھتی چلی آ رہی ہے ۔ یقیناً یہ فکر و نظر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی عظیم قربانی کا ثمر ہے ۔
اگر اس وقت آپ یزید کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر موروثی اور فسق وفجور کی حکومت پر مہر تصدیق ثبت کر دیتے تو پھر اس اسلام کش عمل کو قیامت تک کے لیے سند جواز فراہم ہو جاتی ، جو کہ اب کسی بھی طور پر کسی بھی باطل حکومت کے پاس نہیں ہے ۔
آج کوئی بھی شخص سر بازار کھڑے ہو کر یہ کہنے کی جرات نہیں کر سکتا کہ "میں یزیدی ہوں" مگر سینہ تان کر فخر کے ساتھ یہ بات بے جھجھک کہہ سکتا ہے کہ "میں حسینی ہوں"
یہ ہے دین کی وہ بنیاد جو ہمیں امام حسین رضی اللہ عنہ نے فراہم کی ہے ۔ یقیناً سیدنا امام حسین ضی اللہ عنہ کی اس عظیم ترین خدمت پر امت ہمیشہ کےلیے آپ کے زیر بار ہے بقول پیر سید نصیر الدین نصیر گولڑوی رحمة اللہ علیہ : ⬇
حجت تمام کر گیا ہے شبیر
آفاق میں نام کر گیا ہے شبیر
تا حشر نہیں جواب جس کا ممکن
سر دے کے وہ کام کر گیا ہے شبیر
حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمة اللہ علیہ اپنی تصنیف '' تُحفہ اثناء عشریہ '' صفحہ نمبر 106 پر یہ لکھتے ہیں کہ " شاہ اَست حُسین بادشاہ اَست حُسین '' یہ خواجہ غریب نواز رحمة اللہ علیہ کا کلام نہیں ہے ۔
فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے اک جگہ پڑھا کہ : یہ اشعار دراصل ایک ایرانی شاعر معین الدین حسن سنجری کے ہیں جو شیعہ تھا ، اب اہلِ سنت نادانستہ طور پر اور شیعہ دانستہ طور پر خواجہ اجمیری (رحمة اللہ علیہ) کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ جیسا کہ شہرت کی وجہ سے کٸی بار اس فقیر نے بھی ان اشعار کو خواجہ اجمیری رحمة اللہ علیہ کی طرف منسوب کیا تھا سابقہ بیانات و مضامین میں مگر بعد تحقیق فقیر نے بھی بیان کیا اور لکھا تھا کہ ان اشعار کی نسبت خواجہ اجمیری رحمة اللہ علیہ کی طرف غلط کی گٸی ہے ۔
سلطانُ الہند خواجہ غریب نواز رحمة اللہ علیہ کے جو ملفوظات ہیں ہشت بہشت وہ خواجہ بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ نے قلمبند کر دیے ہیں اُن میں یہ شعر کہیں نہیں ہے خواجہ غریب نواز رحمة اللہ علیہ نے خود کوئی کتاب لکھی ہی نہیں ہے ۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوۓ حضرت علامہ مفتی محمد نظام الدین رضوی صاحب قبلہ تحریر فرماتے ہیں : جاہل کی جہالت عذر نہیں سائل نے یہاں جاہل اور عالم میں فرق دکھا کر بلا وجہ قابلیت جتائی ہے وہ شعر جس کا بھی ہو اس میں ضرورت شعری کی وجہ سے پورا کلمہ طیبہ مذکور نہیں ہے مگر جاہل کے سامنے کیا ضرورت تھی جس کے باعث اس نے لاالہ پر اقتصار کیا اس کا بلا ضرورت لاالہ پر اقتصار کرنا جہالت ہے کیونکہ صرف اتنے کلمہ کا معنی یقیناً قبیح بلکہ اس کی حقیقت پر نظر کی جائے تو کفر ہے مگر جاہل کی مراد ہرگز وہ معنی نہیں قبیح و کفر نہیں ہوتا اس لیے اس پر حکم کفر نہ ہوگا ۔
فتاوی بزازیہ النوع الحادی عشر فیما یکون خطا میں ہے : من قال لاالہ واردان یقول الااللہ ولم یتکلم بہ لا یکفر لانہ معتقد للایمان اما اذالم یخطر ببالہ الاثبات وارد النفی فقط فھو کافر، اھ ۔ (فتاوی بزازیہ النوع الحادی عشر جلد ٦ صفحہ ۳٤۷،چشتی)
شعر مذکورہ خواجہ صاحب رحمة اللہ علیہ کا ہے یہ ہمیں نہیں معلوم لیکن اس کا مفہوم درست ہے شعری کی وجہ سے اگر اس میں لاالہ پر اقتصار درست ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بلا ضرورت بھی یہ اقتصار درست ہو ضرورت شعری اس پر دال ہے کہ قائل کی مراد یقیناً پورا کلمہ ہے سیاق کلام سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کیونکہ معاذ اللہ اگر نفی محض مراد ہوتو دین اور دین پناہ ہونے کے بجائے اس کا عکس ہو جائے گا - اور جب نفی محض مراد نہیں تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نفی محض کی بنیاد کہاں ہوئے کہ توہین کا سوال پیدا ہو ۔
مصرع کا مطلب یہ ہے کہ کلمہ طیبہ کے حق کی بنیاد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ہیں کلمہ طیبہ کا ایک حق یہ بھی ہے کہ فاسق و فاجر کے ہاتھ پر بیعت نہ کی جائے اور اسے سید الانبیاء صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کا جانشین نہ تسلیم کیا جائے یقیناً اس حق کو حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے کامل طور سے پورا کیا اور یزید پلید کی مٹی پلید کرکے حق کلمہ طیبہ کی لاج رکھ لی اور معنی کے لحاظ سے آپ کو دیں پناہ کہا گیا حدیث شریف میں ہے : من قال لاالہ الااللہ دخل الجنۃ ۔
اس کی تصریح میں علماء فرماتے ہیں کہ جس نے یہ کلمہ پڑھا اور ساتھ ہی اس کا حق بھی ادا کیا مثلاً ارکان اسلام کی بجاآوری کی نواہی سے بچا وہ اس بشارت کا حقدار ہے یونہی مذکورہ مصرعہ میں کلمہ طیبہ سے مراد کلمہ طیبہ کا حق ہے پھر یہ بات دور یزید کو سامنے رکھ کر کہی گئی ہے جیسا کہ اس طرح کے کلام عموماً ایک مخصوص دور کے لئے ہی کہے جاتے ہیں اس لیے السبقون الاولون اس میں شامل نہیں ۔ اسی وجہ سے کہ الااللہ اس کے ذہن میں ہو سکتا ہے بلکہ ایک مسلمان سے یہی متصور ہے حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمۃ نے محض قبیح فرمایا کافر نہیں کہا کسی قول کا کفر ہونا الگ چیز ہے اور اس کے قائل کا کافر ہونا الگ چیز ۔ کیوں کہ معاذ اللہ اگر الااللہ اس کے ذہن و دل میں نہ ہو تو وہ کافر ہو جائے گا جیسا کہ فتاوی بزازیہ کے درج بالا جزیہ سے ظاہر ہے ۔ (فتاوی مرکز تربیت افتاء جلد دوم صفحہ ٦۲۳، ٦۲٤)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment