آلِ رسول اور سید کون کون ہیں حصہ اول
محترم قارئینِ کرام : سید کے مصداق وہ لوگ ہیں جو حضرت علی، حضرت جعفر ، حضرت عباس اورحضرت عقیل اور حضرت حارث رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اولاد میں سے ہیں ، ان سب پر صدقہ حرام ہے ۔ اور اہلِ بیت سے مراد ازواجِ مطہرات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل و اولاد اور داماد یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ عنہم شامل ہیں ۔ اور آلِ رسول کے مصداق میں متعدد اقوال ہیں ، بعض محقیقن نے اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد مراد لی ہے ، اور اکثر نے قرابت دار مراد لیے ہیں جن پر صدقہ حرام ہے، اور بعض نے مجازاً اسے تمام امتِ مسلمہ مراد لی ہے ۔ آل محمد سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متبعین اور آل ابراہیم سے مراد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متبعین ہیں ۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے صحیح سند سے مروی ہے کہ آل محمد سے مراد ان کی امت ہے : آل محمد أمته ۔ (السنن الکبری للبیھقی جلد ۲ صفحہ نمبر ۱۵۲)
شریف کا لفظ جو عرب میں سید کے معنی میں بولا جاتا ہے پہلے زمانہ میں علوی ، جعفری اور عباسی وغیرہ پر بھی بولا جاتا تھا مگر جب مصر پر فاطمی حکومت کا قبضہ ہوا تو یہ لفظ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما کی اولاد کے ساتھ خاص ہو گیا اور یہی عرف اب تک چلا آرہا ہے اسی لیے ہندوستان میں بھی سید سے اولاد حسنین ہی مراد لیتے ہیں ۔
فتاوی حدیثیہ میں ہے "واعلم ان اسم الشریف کان یطلق علی من کان اھل البیت ولو عباسیا او عقیلیا ومنہ قول المؤرخین الشریف العباسی الشریف الزینبی فلما ولی الفاطمیون بمصر قصروا الشریف علی ذریۃ الحسن والحسین فقط واستمر ذالک الی الآن اھ ۔ (فتاوی فیض الرسول جلد دوم صفحہ ۵۸۴،چشتی)
فتاوی رضویہ میں ہے کہ : حضرت امام حسن اور امام حسین رضی اللہ تعالی عنہما کی اولاد کو سید کہتے ہیں " عام اہل سنت کا طریقہ بھی یہی ہے کہ وہ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی اولاد کو سید کہتے ہیں مگر بعض لغات مثلا لغات سعیدی وغیرہ میں ہے کہ علویان گروہ سادات سے ہیں ۔ اور اہل ہند تخصیص عرفی کی بنیاد پر سید بول کر اولاد حسنین رضی اللہ عنما مراد لیتے ہیں لہٰذا اس کی وجہ سے علوی وغیرہ حضرات سید ہونے سے خارج نہ ہوں گے ۔
آل کے تین معنی ہیں اول فرزند دوم اہل خانہ سوم متبعین جیساکہ غیاث اللغات میں ہے "آل در عربی بمعنی فرزندان واہل خانہ وپیروں آمدہ است "
پس اس طرح آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تین قسمیں ہوتی ہیں اور حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما قسم اول سے ہیں ۔ (فتاوی فیض الرسول جلد دوم صفحہ نمبر ۶۵۲،چشتی)
آل کا اطلاق کبھی متبعین پر ہوتا ہے (جیساکہ اوپر بتایا گیا) اوراسی معنی کے اعتبار سے قوم فرعون کو آل فرعون کہا جاتا ہے مگر اس سے یہ لازم نہیں کہ سادات کرام کو آل رسول نہ کہا جائے وہ یقینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل میں ہیں بخاری و مسلم میں کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالی عنہ مروی انہوں نے فرمایا : سألنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم فقلنا یا رسول اللہ کیف الصلوۃ علیکم اھل البیت فان اللہ قد علمنا کیف علیک ؟ قال قولوا الھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی آل ابراھیم انک حمید مجید الھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراھیم وعلی آل ابراھیم انک حمید مجید ۔ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپ پر یعنی آپ کی اھل بیت پر کس طرح درود بھیجیں ؟ ارشاد فرمایا کہ یوں کہو "الھم صل علی محمد وعلی آل محمد " اس سے معلوم ہوا کہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اھل بیت کو آل کہا جائے گا ۔
دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا : انما الصدقات اوساخ الناس لا تحل لمحمد ولآل محمد" یعنی صدقہ آل محمد کے لیے حلال نہیں ۔
ظاہر ہے کہ آل سے صرف وہی لوگ مراد ہیں جن پر صدقہ حرام ہے نہ کہ تمام امت کیوں کہ امت پر صدقہ جائز ہے جب کہ وہ شخص فقیر ہو ۔ اور اگر آل بمعنی متبع ہو جب بھی سادات کو شامل ۔ جیسا کہ علامہ طیبی علیہ الرحمہ نے شرح مشکوۃ میں فرمایا : اختلفوا فی الآل من ھم قیل من حرمت علیہ الزکوۃ کبنی ھاشم وبنی المطلب والفاطمۃ والحسن والحسین وعلی اخویہ جعفر وعقیل واعمامہ صلی اللہ علیہ وسلم العباس والحارث وحمزہ واولادھم وقیل کل تقی آلہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
حضرت شیخ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے فرمایا ان ازواجہ صلی اللہ علیہ وسلم داخلۃ فی ھذا الخطاب والآل ایضا یجئ بمعنی الاتباع وبھذا المعنی ورد الی کل مومن ۔
جو کچھ یہاں کہا جا سکتا ہے صرف اتنا کہ کبھی امت اور متبعین پر بھی لفظ آل کا اطلاق ہوتا ہے نہ یہ کہ اولاد پر اطلاق نہیں ہوتا ۔ (فتاوی امجدیہ جلد چہارم ص ۵۲۵، ۵۲۶)
معنوی اعتبار سے سید اور آل رسول میں عموم و خصوص مطلق کی نسبت ہے آل رسول عام ہے اور سید خاص ہےیعنی ہر سید آل رسول ہے مگر ہر آل رسول کا ہر فرد سید نہیں ۔
پس اس معنیٰ کے اعتبار سے سید کو آل رسول پر فضیلت حاصل ہوگی اس لیے کہ ہر سید تو آل رسول ہے مگر ہر آل رسول سید نہیں کہ علی الاطلاق متبعین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی آل رسول کہا جاتا ہے جیسا کہ اوپرگزرا ۔
نیز سید کا فضل ذاتی ہے جو فسق بلکہ بد مذہبی سے بھی نہیں جاتا جب تک کہ معاذ اللہ حدِ کفر تک نہ پہنچے اور متبع رسول کا فضل عملی و وصفی ہے لہٰذا آل رسول بمعنی متبع معاذ اللہ اگر بد مذہب ہو اس کی تعظیم و توقیر حرام ۔ اور سید کی تعظیم سبب جزئیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور جزئیت تا بقائے اسلام باقی ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد ۱۱ ،صفحہ ۲۳،چشتی)
البتہ دور موجودہ کے عرف کا خیال رکھتے ہوئے اس بارے میں فقیر چشتی کی راۓ یہ ہے کہ برِ صغیر پاک و ہند میں سید اور آل رسول میں نہ کوئی فرق ہوگا اور نہ سید کو آل رسول پر کوئی فضیلت حاصل ہوگی ۔ اس لیے کہ برِ صغیر پاک و ہند میں جس طرح سید کا لفظ اولاد حسنین رضی اللہ عنہما کے لیے خاص ہو گیا ہے ٹھیک اسی طرح آج ہند میں آل رسول کا لفظ بھی حضرات حسنین رضی اللہ عنہما ہی کی اولاد کے لیےعرفا خاص ہو گیا ہے ۔ لہٰذا ان دونوں میں اب کوئی فرق قرار نہ دیا جائے گا اور نہ ایک دوسرے پر کوئی فضیلت قرار دی جائے گی ۔
سیادت کی بنیاد کسی سند پر نہیں ہوتی بلکہ ہر وہ شخص جس کے آبا و اجداد میں ہر ہر فرد صحیح النسل سید ہوں وہ شرعا مصدقہ سید قرار دیا جائے گا خواہ اس کے پاس کوئی سند یا شجرہ ہو یا نہ ہو ، ورنہ صدہا سادات کرام ایسے ہیں جن کے پاس نہ کوئی سند ہے اور نہ ہی کوئی نسبی شجرہ وہ سبھی حضرات خارج از سیادت قرار پائیں گے ۔ اب اگر کچھ لوگ واقعی سید نہیں ہیں مگر اپنے آپ کو سید کہتے اور لکھتے ہیں تو ایسے لوگوں پر اللہ و رسول تمام فرشتوں اور سارے انسانوں کی لعنت ہے اللہ تعالی ان لوگوں کا نہ کوئی فرض قبول فرمائے گا نہ نفل ۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے : من ادعی الی غیر ابیہ فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین لا یقبل اللہ منہ یوم القیامۃ صرفا ولا عدلا ۔ یعنی جو اپنے باپ کے علاوہ دوسرے کی طرف اپنی نسبت کرے اس پر اللہ تعالی کی سب فرشتوں اور آدمیوں کی لعنت ہے اللہ قیامت کے دن اس کا نہ فرض قبول فرمائے گا نہ نفل ۔ (بخاری و مسلم)
لہٰذا جو لوگ سید نہیں ہیں اور اپنے آپ کو سید کہتے اور لکھتے ہیں وہ لوگ سخت گنہگار اور مستحق عذاب نار ہیں ۔ اسی طرح وہ لوگ بھی گنہگار اور وعید کے مستحق ہیں جو ایسے افراد کو سید مانتے ہیں جو فی الواقع سید نہیں اس لیے کہ جب اپنے باپ کے سوا دوسرے کی طرف اپنی نسبت کرنے والے پر یہ وعید ہے تو جو شخص کسی کو اس کے باپ کے سوا دوسرے کی طرف منسوب کرے وہ بدرجہ اولی اس وعید کا مستحق ہے ۔
اب رہی بات یہ کہ جو لوگ اپنے آپ کو سید کہتے اور لکھتے ہیں مگر اس کے بارے کسی کو تحقیق کے ساتھ یہ معلوم نہیں کہ یہ لوگ واقعی سید ہیں یا نہیں تو ایسے لوگوں کو سید ماننا اور بولنا چاہیے کہ نہیں ؟ تو اس بارے امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خاں قادری رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : اور یہ فقیر بار ہا فتوی دے چکا ہے کہ کسی کو سید سمجھنے اور اس کی تعظیم کرنے کے لیے ہمیں اپنی ذاتی علم سے اسے سید جاننا ضروری نہیں جو لوگ سید کہلائے جاتے ہیں ہم ان کی تعظیم کریں گے ہمیں تحقیقات کی حاجت نہیں ۔ نہ سیادت کی سند مانگنے کا ہم کو حکم دیا گیا ہے ۔ اور خواہی نخواہی سند دکھانے پر مجبور کرنا اور نہ دکھا ئیں تو برا کہنا ، مطعون کرنا ہرگز جائز نہیں "الناس امنا علی انسابھم" (لوگ اپنے نسب پر امین ہیں) ہاں جس کی نسبت ہمیں خوب تحقیق معلوم ہو کہ یہ سید نہیں اور وہ سید بنے اس کی ہم تعظیم نہ کریں گے نہ اسے سید کہیں گے ۔ اور مناسب ہو گا کہ نا واقفوں کو اس سے مطلع کر دیا جائے ۔ میرے خیال میں ایک حکایت ہے جس پر میرا عمل ہے کہ ایک شخص کسی سید سے الجھا ، انہوں نے فرمایا میں سید ہوں ۔ کہا کیا سند ہے تمہارے سید ہونے کی ۔ رات کو زیارتِ اقدس سے مشرف ہوا کہ معرکہ حشر ہے یہ شفاعت خواہ ہوا ۔ اعراض فرمایا ۔ اس نے عرض کی میں بھی حضور کا امتی ہوں فرمایا کیا سند ہے تیرے امتی ہونے کی ۔ (فتاوی رضویہ جلد نمبر ۱۱،چشتی)
آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے اگر کوئی شخص سواد اعظم یا عقیدہ صحیحہ سے باہر ہو جائے یا کسی بھی باطل عقائد رکھنے والی جماعت کے ساتھ شامل ہو جائے تو اس صورت میں وہ آل رسول نہیں کہلائے گا ۔
آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مراد جس کا عقیدہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماتحت ہو ، جو نبی کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرنے والا ہو ۔ لہٰذا جس کا عقیدہ خراب ہو وہ آل رسول نہیں ہو سکتا ۔ آل سے مراد اولاد نہیں ہے بلکہ پیروی کرنے والا ہے ۔ لہٰذا ہر وہ مسلمان جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتا ہے ، اطاعت کرتا ہے ۔ اس کا عقیدہ درست ہے وہ آل رسول ہے ۔ آل سے مراد پیروی واتباع کرنے والا ہونا قرآن مجید سے ثابت ہے ۔ اللہ تعالی نے بے شمار مقامات پر فرمایا : (آل فرعون) لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو فرعون کی کوئی اولاد ہی نہ تھی اس سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جو فرعون کی پیروی کرتے ہیں ۔ اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کی مثال دی کہ وہ آپ کی آل میں سے نہیں ہے وہ ابن رسول تو تھا لیکن آل رسول نہ تھا کیونکہ اس نے حضرت نوح علیہ السلام کی پیروی نہ کی ۔ ان کے عقیدہ کو چھوڑ دیا ۔ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۔ (سورہ هُوْد ، 11 : 46)
ترجمہ : اے نوح علیہ السلام بے شک تیرا گھر والوں میں شامل نہیں کیونکہ اس کے عمل اچھے نہ تھے ۔
لہذا آل رسول وہی ہو گا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلے گا ۔ جس کا عقیدہ درست ہو گا ۔ جس نے عقیدہ صحیحہ چھوڑ دیا اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھوڑ دی وہ آل رسول میں سے نہیں ہو گا ۔
آلِ رسول ، آل محمد ، اہل بیت رسول ، عترت رسول ، آل کساء ، آل عباء پنج تن پاک اور سادات کی اصطلاحات کثیر الاستعمال ہیں ۔ ان ترکیبات نے اسلامی معاشرے میں ایک خاص مفہوم اختیار کر لیا ہے جس سے بالعموم حضرت علی ، حضرت سیدہ فاطمہ اور ان کے دو بیٹے حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم مراد لیے جاتے ہیں ۔ بعد میں اسی مفہوم میں وسعت پیدا کر کے حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی تمام اولاد پر ان اصطلاحات کا استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس مفہوم سے حضرت سیدہ فاطمہ کی بیٹیاں حضر سیدہ ام کلثوم اور حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہن جن کے نکاح بالترتیب حضرت سیدنا عمر اور حضرت سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم کے ساتھ ہوئے تھے ۔ کی اولاد اور ان تمام سیدات جن کے نکاح غیر سادات کے ساتھ ہوئے کی اولاد کو خارج کردیا گیا ۔ دشمنانِ اسلام کی ریشہ دوانیوں ، سازشوں اور مسلسل پروپیگنڈے کے زور سے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو بھی اہل بیت رسول ، آل رسول اورعترت رسول رضی اللہ عنہم کے مفہوم سے خارج کر دیا گیا ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اہل سنت کی عظیم اکثریت نے بھی لاشعوری طور پر اس زہریلے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر مذکورہ اصطلاحات کو صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فاطمی اولاد کےلیے مختص کر دیا ۔ جبکہ قرآن حدیث اور لغت کی رو سے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو کسی طور پر بھی خارج قرار نہیں دیا جا سکتا اور وہ ان اصطلاحات کی اولین مصداق ہیں ۔ اس تمہید کے بعد ’’آل‘‘ کی لغوی تشریح ملاحظہ فرمائیں :
آل کا لفظ اصل میں اھل تھا ۔ ھا ہمزہ سے بدل کر دو ہمزے ہوئے اور دوسرے ہمزہ کو الف سے بدل کر آل بنایا گیا ۔ علامہ ابن منظور افریقی مصری علیہالرحمہ آل کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : واٰل الرَّجُلِ اَھْلُہٗ واٰلُ اللّٰہِ وَاٰلُ رَسُوْلِہٖ اَوْلِیَائُہٗ اَصْلُھَا اَھْلُُُٗ ثُمَّ اُبْدِلَتِ الْھَائُ ھَمْزَۃً فَصَارَتْ فِی التَّقْدِیْرِأَ أْلُٗ فَلَمَّا تَوَالَتِ الْھَمْزَ تانِ اَبْدَلُوْاالثَّانِیَۃَ اَلِفًا کَمَا قَالُوْااٰدَمُ وَاٰخَرُ ۔ (لسان العرب ۔جلد ۱۱۔ص۳۰، طبع بیروت،چشتی)
ترجمہ : آدمی کی آل اس کے اہل و عیال ہوتے ہیں ۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل ان کے دوستوں کو کہا جاتا ہے ۔ یہ لفظ در اصل اہل تھا پھر ھا کو ہمزہ سے تبدیل کیا گیا تو أأل ہو گیا ۔ جب لگاتار دو ہمزے آئے تو انہوں (اہل عرب) نے دوسرے ہمزے کو الف میں تبدیل کر دیا جیسا کہ آدم اور آخر میں کیا گیا ۔
’اٰلُ کُلِّ شَیًٔ شَخْصُہ‘ یعنی کسی چیز کی آل کے معنی اس چیز کی اپنی شخصیت ہے ۔ قرآن پاک اسی مفہوم کے لیے فرماتا ہے ۔ ’’اَنْ یَّاْتِیْکُمُ التَّابُوْتُ فِیْہِ سَکِیْنَۃُٗ مِّن رَّبِّکُمْ وَبَقِیَّۃُٗ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوْسیٰ وَاٰلُ ھٰرُوْنَ‘‘ ۔ (البقرہ ۲۴۸)
اس صندوق میں تمہارے رب کی طرف سے سامان تسکین اور موسیٰ و ہارون کے بقیہ متروکات ہیں ۔
یہاں اولاد موسیٰ و اولاد ہارون علیہما السلام کے متروکات ثابت نہیں کیے جا سکتے ۔ لہذا آیت میں آل موسیٰ وآل ہارون سے مراد خود ان دونوں پیغمبروں کی اپنی شخصیت ہے ۔
اٰلُ الرَّجُلِ: اَھْلُہٗ وَعَیَالُہٗ وَاَتْبَاعُہٗ وَاَنْصَارُہٗ ۔
یعنی کسی آدمی کی آل کے معنی ہیں ،اس کے بال بچے ،اس کے پیروکار اور اس کے مددگار ۔
امام راغب اصفہانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : اَلْاٰ لُ : بعض کہتے ہیں کہ آل اصل میں اَھْلُٗ ہے ۔کیونکہ اس کی تصغیر اَھَیْلُٗ آتی ہے ۔ مگر یہ لفظ انسانوں سے کسی عَلَمْ کی طرف مضاف ہوتا ہے ۔ لہٰذا اسم نکرہ یا زمان و مکان کی طرف اس کی اضافت جائز نہیں۔اس بنیاد پرآلُ فُلَانٍ کا محاورہ تو استعمال ہوتا ہے لیکن اٰلُ زَمَانٍ یا اٰلُ مَوْضَعٍ نہیں بولا جاتا۔ اور نہ ہی اٰ لُ الْخَیَّاطِ (درزی کا خاندان) بلکہ یہ ہمیشہ صاحب شرف اور افضل ہستی کی طرف مضاف ہوتا ہے جیسے اٰلُ اللّٰہ وَاٰلُ السُّلْطَانِ ۔
مگر اہل کا لفظ ہرایک کی طرف مضاف ہوتا ہے۔ چنانچہ جس طرح اَھْلُ زَمَنِ کَذَا وَ بَلَدِ کَذَا اسی طرح اَھْلُ اللّٰہِ وَاَھْلُ الْخَیاَّطِ بھی کہہ دیتے ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ اٰلُ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ کے رشتہ دار مراد ہیں۔ اور بعض کے نزدیک اس سے وہ لوگ مراد ہیں جنہیں علم و معرفت کے لحاظ سے آپؐ کے ساتھ خصوصی تعلق ہو ۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اہل دین دو قسم پر ہیں۔ایک وہ جو علم وعمل کے لحاظ سے راسخ القدم ہوتے ہیں ۔ ان پر اٰلُ النَّبِیِّ وَاُمَّتَہٗ دونوں لفظ بولے جاسکتے ہیں ۔ دوسرے وہ لوگ جن کا علم سراسر تقلیدی ہوتا ہے ۔ انہیں اُمت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو کہا جاتا ہے لیکن آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں کہہ سکتے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ امۃ النبی واٰلہ میں عمو م وخصوص کی نسبت ہے ؛ یعنی' کُلُّ اٰلٍ لِّلْنَّبِیِّ اُمَّتُہٗ وَلَیْسَ کُلُّ اُمَّۃٍ اٰلُ لَّہٗ ۔ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے کسی نے دریافت کیا کہ لوگ تمام مسلمانوں کو آل النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں داخل سمجھتے ہیں تو انہوں نے فرمایا یہ صحیح بھی ہے اور غلط بھی ۔ سائل نے عرض کی یہ کیسے ؟ فرمانے لگے غلط تو اس لیے کہ تمام امت آل النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں داخل نہیں ہے ۔ اور صحیح اس لیے کہ اگر وہ شریعت کے کماحقہ پابند ہو جائیں تو آلِ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہا جا سکتاہے ۔ (مفردات القرآن اردو۔ص ۷۵ طبع لاہور،چشتی)
آل : آل النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہاشم اور المطلب کی اولاد شامل ہے ۔ لیکن ادھر تو شیعوں نے اس لفظ کا مفہوم اتنا محدود کر دیا ہے کہ اس سے صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے قریبی اعزہ اور اخلاف مراد لیے اور ادھر اہل سنت نے اس قدر سیع کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام امت کو اس میں شامل کر دیا ۔ بعد میں یہ لفظ حکمران خاندانوں کےلیے استعمال ہونے لگا ۔ مثلاً آل عثمان یعنی خاندان عثمان ، آل بوسعید یعنی عمان اور زنجبار کے حکمرانوں کا خاندان ، آل فیصل آل سعود ۔ جو عرب کے سعودی خاندان کا سرکاری لقب ہے ۔ (اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد اول ص۱۹۵)
اسی کتاب کی تیسری جلد صفحہ ۵۷۷ پر تحریر ہے کہ : ابن خالویہ نے اپنی تصنیف ’’کتاب الآل‘‘ میں آل کے مفہوم میں پچیس اصناف کو شامل کیا ہے ۔
سید قاسم محمود لکھتے ہیں کہ : آل رسول : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب سے تعلق رکھنے والے لوگ۔آل ایک وسیع المعنی لفظ ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس لفظ کے آجانے سے اس کے معنی قوم ، اولاد ، خاندان اور وارث کے مشہور ہیں ۔ جیسا کہ آل ابراہیم ، آل یعقوب ، آل عمران ، آل لوط ، آل ہارون اور آل فرعون وغیرہا قرآنی ترکیب سے ظاہرہے ۔ ایک گروہ کے نزدیک آل رسول کے معنی پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لخت جگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے داماد حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونواسے حضرات حسنین رضی اللہ عنہما ہیں ۔ پھر اس کے ساتھ ہی اس نقطہ نظر کا ایک اور گروہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محترم چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ ، آپ کی اولاد اور حضرت علی کے دنوں بڑے بھائیوں حضرت جعفر طیارؓ اور حضرت عقیل رضی اللہ عنہم کی اولاد کوبھی آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرار دیتا ہے ۔
اب رہے وہ لوگ جو اس لفظ کے روحانی پہلو کو مدنظر رکھتے ہیں ، ان کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام امت یعنی فرزندان توحید ، ملت اسلامیہ پر آل رسولؐ کا اطلاق ہوتا ہے ۔ اور ان کی دلیل یہ ہے کہ نبوت و رسالت وہبی چیز ہے کسبی نہیں ، جس سے خون اور جسم کی وراثت چل سکے ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوئی تواس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صلبی اولاد میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان میں عم محترم حضرت عباس رضی اللہعنہ ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے داماد حضرت ابوالعاص ، حضرت عثمان ، حضرت علی) ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیگر قریب ترین رشتہ دار بقید حیات تھے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ روحانی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کے روحانی باپ اور جسمانی طور پرکسی مرد کے باپ نہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن امت کی مائیں کہلاتی ہیں ۔ مختصر یہ کہ چاہے وہ اللہ کے نبی حضرت نوح علیہ السلام کا حقیقی بیٹا کنعان ہو یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا (ابولہب و ابوطالب) ایمان لانے کی سعادت سے جو بھی محروم رہا وہ آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خارج ہے ۔ بخلاف اس کے جو صاحب ایمان ہے اسلام کی نسبت سے وہ آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں داخل ہے ۔ علماء اسلام کی وہ کثیر جماعت جس کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام امت پر آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اطلاق ہوتا ہے اپنے دعوے کے ثبوت میں یہ دلیل بھی پیش کرتی ہے کہ اسلام نے دنیا کی تمام قوموں اور نسلوں کو ایک باپ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد بیان کیا ہے اور وہ لوگ جو اسلام کے دائرے میں داخل ہیں ، ایک اللہ کے بندے ، اور ایک باپ حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے ہونا ان کی حقیقی قومیت قرار دی ہے ۔ وہ چاہے کسی نسل اورکسی ملک سے تعلق رکھتے ہیں ۔پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اپنی تمام امت مسلمہ کے روحانی باپ ہیں تو ملت اسلامیہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل ہے ۔ آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق یہ خیالات کہ اللہ کے رسول ، پیغمبر اسلام حضرت محمد عربی قریشی الہاشمی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت ، فرزندان توحید ، ملت اسلامیہ ہی آل رسول کہلاتی ہے اہل سنت کے ہیں ۔ اہل تشیع نے اس لفظ کے معنی اتنے محدود کر دیے ہیں کہ ان میں صرف اہل بیت آتے ہیں ...... ہر چند کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی بیٹے سے جو صلبی ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل نہیں چلی تاہم لغت العرب کے مطابق چچا کے بیٹے بھی تمام قرابتوں پر قیاس کرتے ہوئے اولاد ہیں۔اس لیے یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ تمام بنی ہاشم جو ایمان لائے آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شامل ہیں ۔جیسا کہ صحیح مسلم میں زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی روایت سے ظاہر ہے اور یہی سبب ہے کہ تمام مومنین بنی ہاشم پر صدقہ حرام ہے ۔ تاریخ سے یوں تو عبدالمطلب بن ہاشم کی نسل کا ان کے چار بیٹوں حارث ، زبیر ، ابوطالب اور حضرت عباس کی اولاد سے قائم ہونا ثابت ہے تاہم عبدالمطلب کے جن بیٹوں سے کثرت کے ساتھ اولاد بڑھی یہاں تک کہ افریقہ سے لے کر تمام وسط ایشیا تک دنیائے اسلام کے گوشے گوشے میں اولاد عبدالمطلب (بنی ہاشم) یعنی آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھیل گئی وہ ابوطالب اور حضرت عباسؓ ہیں۔سچ تو یہ ہے روحانی اور جسمانی دونوں اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے آل رسولؐ کو جو حقیقت میں آل ابراہیم ہے ۔ دنیا کے ہر خطے اور ملک میں پھیلاکر اپنا وعدہ پورا کر دیا کہ اے ابراہیمؑ ! میں تیری آل کو وسعت اور ترقی دوں گا۔ (شاہکار اسلامی انسائیلوپیڈیا صفحہ ۳۲۔۳۰)
علامہ شبیر احمد عثمانی دیوبندی لکھتے ہیں کہ : (اٰل) قرابتہ الذین حرمت علیھم الصدقہ ’’علی الاختلاف فیھم‘‘ وقیل جمیع امۃ الاجابۃ۔والیہ ذھب نشوان الحمیری امام الغۃ ومن شعرہ فی ذلک :
آل النبی ھم اتباع ملتہ من الاعاجم و السودن و العرب
لو لم یکن اٰلہ الّاقر ابتہ صلّ المصلّی علی الطاغی ابی لھب
و یدل علیٰ ذلک ایضاً قول عبدالمطلب من ابیات
وانصر علیٰ ال الصلیب وعا بد یہ الیوم اٰلک
والمراد بٰال الصلیب اتباعہ ۔ (فتح الملھم شرح صحیح المسلم صفحہ ۴۷،چشتی)
ترجمہ : آل سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ اہل قرابت مراد ہیں جن پر صدقہ حرام ہے ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ امت مسلمہ مراد ہے ۔ اور امام لغت نشوان حمیری نے بھی یہی مراد لی ہے ۔ اس بارے میں ان کا ایک شعر ہے ، عجم ، سوڈان اور عرب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متبعین پر مشتمل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل ہے ۔ اگر یہ (غلط) بات مان لی جائے کہ آل سے مراد صرف رشتہ دار ہوتے ہیں تب تو درود شریف پڑھنے والے کا درود بے ایمان اور طاغوت ابولہب پر بھی پہنچے گا ۔ جناب عبدالمطلب کا قو ل بھی اس پر دلالت کر تا ہے ۔ آل صلیب سے مراد اس کے پیرو ہیں ۔
شیعہ مفسر ابوعلی فضل بن حسن طبرسی لکھتا ہے : قِیْلَ اٰلُ الرَّجُلِ قَرَابَتُہٗ وَاَھْلُ بَیْتِہٖ ۔ وَقَالَ اِبْنُ دُرَیْدٍ اٰلُ کُلِّ شَیْئٍ شَخْصُہٗ وَاٰلُ الرَّجُلِ اَھْلُہٗ وَقَرَابَتُہٗ ۔ (تفسیر مجمع البیان جلد اول ص ۱۰۴ تحت اٰیت وَاِذْ نَجَّیْنٰکُم مِنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ)
ترجمہ : کہا گیا ہے کہ آل الرجل سے مراد اس کے رشتہ دار اوراس کے گھر والے ہیں۔ابن درید نے کہا ہر شی کی آل اس کی ذات ہے اور آدمی کی آل اس کے اہل وعیال اوراس کے رشتہ دارہیں ۔
مذکورہ تصریحات سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ لفظ آل ایک کثیر المعانی لفظ ہے اور اس سے صرف اولاد مراد لے کر ازواج مطہرات رضی الل عنہن کو خارج قرار دینا جہالت و حماقت اور لغت عرب سے ناواقفی کی علامت ہے ۔ صحیح نسب سادات اور جعلی سید کا ایک جائزہ سب سے پہلے احادیث مبارکہ سے ہم جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ نسب بدلنے کی کیا وعیدیں آئی ہے ، چنانچہ جس شخص نے اپنے باپ کے علاوہ خود کوکسی اور طرف منسوب کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے نفل قبول فرمائے گا نہ فرض ۔ (مزید حصہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment