شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کے وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میدانِ کربلا
محترم قارئینِ کرام : غیرمقلد حفاظ زبیر علی زئی لکھتا ہے کہ شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کے وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میدانِ کربلا میں موجود تھے اور شہداءِ کربلا رضی اللہ عنہم کا خون ایک شیشی میں جمع کیا ہوا تھا ۔ (فتاویٰ علمیّہ جلد دوم صفحہ 269 یہ حدیث صحیح راوی ثقہ ہیں حفاظ زبیر علی زئی محدث و محقق غیر مقلد وہابی حضرات)
اہلحدیث حضرات کے محقق علماء لکھتے ہیں : شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کی خبر نبی کریم صلی الله عليه وآله وسلم نے دے دی تھی اور بوقت شہادت امام آپ صلی الله عليه وآله وسلم کربلا میں موجود تھے آپ صلی الله عليه وآله وسلم کو صدمہ ہوا ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 104 تحقیق حافظ زبیر علی زئی غیر مقلد اہلحدیث وہابی)
اس سے یہ ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میدانِ کربلا میں موجود تھے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حیات ہیں اور جہاں چاہیں تشریف لے جا سکتے ہیں ۔
اور یہ بھی ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو شہادتِ امامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صدمہ ، پریشانی اور تکلیف ہوئی ۔
یزید کے وکیلو ذرا سوچو کیا منہ دیکھاؤ گے آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ کہو گے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خاندان کو تکلیفیں پہچانے والے یزید پلید کی حمایت میں زندگی گزار دی ؟
عن ام سلمة قالت قال رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يقتل حسين بن علي علي رأس سيتن من المهاجري ۔ (مجمع، 9 : 190)۔(بحواله طبراني في الاوسط)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا حسین بن علی کو ساٹھ ہجری کے اختتام پر شہید کر دیا جائے گا ۔
غیب کی خبریں بتانے والے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کی نشاندہی کردی کہ یہ عراق کا میدان کربلا ہوگا بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ یہ عظیم سانحہ 61 ہجری کے اختتام پر رونما ہوگا ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اکثر دعا فرمایا کرتے : اللهم انی اعوذبک من رائس الستين وامارة الصبيان ۔
ترجمہ : اے اللہ میں ساٹھ ہجری کی ابتدا اور (گنوار) لڑکوں کی حکومت سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔ (الصواعق الحرقه : 221)
60 ہجری کی ابتدا میں ملوکیت کی طرف قدم بڑھایا جاچکا تھا اور یہی ملوکیت وجہ نزاع بنی۔ اور اصولوں کی پاسداری اور اسلامی امارت کے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خاطر نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو کربلا کے میدان میں حق کا پرچم بلند کرتے ہوئے اپنی اور اپنے جان نثاروں کی جانوں کی قربانی دینا پڑی۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ اہل حق کٹ تو سکتے ہیں کسی یزید کے دست پلید پر بیعت کرکے باطل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ وہ نیزے کی انی پر چڑھ کر بھی قرآن سناتے ہیں۔ ان کے بے گور و کفن لاشوں پر گھوڑے تو دوڑائے جاسکتے ہیں لیکن انہیں باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہیں کیا جاسکتا ، یہی لوگ تاریخ کے چہرے کی تابندگی کہلاتے ہیں اور محکوم و مظلوم اقوام کی جدوجہد آزادی انہی نابغان عصر کے عظیم کارناموں کی روشنی میں جاری رکھتے ہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ 60 ہجری کی ابتدا سے پناہ مانگتے تھے کہ خلفائے راشدین کے نقش قدم سے انحراف کی راہ نکالی جا رہی تھی، لڑکوں کے ہاتھ میں عنان اقتدار دے کر اسلامی ریاست کو تماشا بنایا جا رہا تھا ۔ کہ اب سنجیدگی کی جگہ لا ابالی پن نے لے لی تھی ۔
حضرت یحیٰ حضرمی کا ارشاد ہے کہ سفر صفین میں مجھے شیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا ۔ جب ہم نینوا کے قریب پہنچے تو داماد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابو عبد اللہ ! فرات کے کنارے صبر کرنا میں نے عرض کیا ’’یہ کیا ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے جبرئیل نے خبر دی ہے : ان الحسين يقتل بشط الفرات و اراني قبضة من تربته ۔
ترجمہ : حسین رضی اللہ عنہ فرات کے کنارے قتل ہوگا اور مجھے وہاں کی مٹی بھی دکھائی ۔ (الخصائص الکبریٰ 2 : 12،چشتی)
حضرمی روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت علی شیر خدا رک کر اس زمین کو دیکھنے لگے تو اچانک بلند آواز میں گویا ہوئے ۔ ابو عبد اللہ! حسین رضی اللہ عنہ بر کرنا ۔ ہم سہم گئے ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے ، آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ ورطہ حیرت میں ڈوب گئے کہ یا الہی یہ ماجرا کیا ہے ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ اس میدان کربلا میں میرا حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگا ۔
حضرت اصبغ بن بنانہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : اتينا مع علي موضع قبر الحسين فقال ههنا مناخ رکابهم و موضع رحالهم و مهراق دمائهم فئة من ال محمد صلي الله عليه وآله وسلم يقتلون بهذه العرصة تبکی عليهم السماء والارض ۔
ترجمہ : ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قبر حسین رضی اللہ عنہ کی جگہ پر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ ان کے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ اور یہ ان کے کجاوے رکھنے کی جگہ ہے اور یہ ان کے خون بہنے کا مقام ہے۔ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک گروہ اس میدان میں شہید ہوگا جس پر زمین و آسمان روئیں گے ۔ (الخصائص الکبری، 2 : 126) (سر الشهادتين : 13)
گویا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کا پورا نقشہ کھینچ دیا کہ یہاں پر وہ شہادت کے درجہ پر فائز ہوگا اور یہاں خاندان رسول ہاشمی کا خون بہے گا ۔
ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا ذکر پہلے ہوچکا ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حسین کو عراق میں قتل کردیا جائے۔ اور یہ کہ جبرئیل نے کربلا کی مٹی لاکر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : يا ام سلمه اذا تحولت هذه الترته دما فاعلمي ان ابني قد قتل فجعلتها ام سلمة في قارورة ثم جعلت تنظر اليها کل يوم و تقول ان يوما تحولين دما ليوم عظيم ۔
ترجمہ : اے ام سلمہ رضی اللہ عنہاجب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا قتل ہوگیا ہے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے اس مٹی کو بوتل میں رکھ دیا تھا اور وہ ہرروز اس کو دیکھتیں اور فرماتیں اے مٹی! جس دن تو خون ہوجائے گی وہ دن عظیم ہوگا ۔ (الخصائص الکبری، 2 : 125،چشتی)۔(سر الشهادتين، 28)۔( المعجم الکبير للطبرانی، 3 : 108)
حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے رونے کا سبب پوچھا اور کہا : کس شے نے آپ کو گریہ و زاری میں مبتلا کر دیا ہے؟ آپ نے کہا : میں نے خواب میں نبی اکرم صلی الله عليه وآله وسلم کی زیارت کی ہے۔ آپ صلی الله عليه وآله وسلم کا سر انور اور ریش مبارک گرد آلود تھی۔ میں نے عرض کی، یا رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم ، آپ صلی الله عليه وآله وسلم کی کیسی حالت بنی ہوئی ہے ؟ آپ صلی الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا : میں نے ابھی ابھی حُسین (رضی اللہ عنہ) کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے ۔ یہ حدیث ان کتب میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہیں ۔ (جامع ترمذی صفحہ نمبر 1028 حدیث نمبر3771 باب مناقب حسن و حسین (رضی اللہ عنہما) طبع الاولیٰٰ 1426ھ، دار الکتب العربی بیروت)۔(مستدرک امام حاکم تلخیص :علامہ ذہبی جلد 4 صفحہ 387 حدیث نمبر 6895 باب ذکر ام المومنین ام سلمہ //طبع قدیمی کتب خانہ پاکستان ، جز :5 ،چشتی)(تہذیب التہذیب ابن حجر عسقلانی جلد 2 صفحہ 356 طبع الاولی ھند)(البدایہ والنھایہ ابن کثیر محقق:عبدالمحسن ترکی جلد 11 صفحہ 574 طبع الاولیٰٰ 1418 ھ، جز:21 الھجر بیروت)
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ صلی الله عليه وآله وسلم غبار آلود دوپہر کے وقت خون سے بھری ہوئی ایک شیشی لیے ہوئے ہیں۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم فداک ابی و امی، یہ کیا ہے ؟ آپ صلی الله عليه وآله وسلم نے فرمایا، یہ حسین (رضی اللہ عنہما) اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے جسے میں آج صبح سے اکٹھا کر رہاہوں ۔ عمار کہتے ہیں کہ ہم نے حساب لگایا تو ٹھیک وہی دن شہادت امام حسینؑ کا روز تھا ۔ علامہ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس روایت کو امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی اسناد قوی ہیں۔ (البدایۃ والنھایۃ)
ابن ابی الدنیا نے عبداللہ بن محمد بن ہانی ابو عبد الرحمن نحوی سے، انہوں نے مہدی بن سلیمان سے اور انہوں نے علی بن زید بن جدعان سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عباس سو کر اٹھے تو “انا للہ و انا الیہ راجعون ” کہا اور کہنے لگے اللہ کی قسم امام حسین شہید کر دیے گئے ہیں۔ ان کے اصحاب نے پوچھا کہ اے ابن عباس ! کیوں کر؟ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم کو خون کی ایک شیشی لیے ہوئے خواب میں دیکھا ہے ۔ آپ صلی الله عليه وآله وسلم نے فرمایا کہ اے ابن عباس ! کیا تم جانتے ہو کہ میرے بعد میری امت کے اشقیاء نے کیا کیا؟ انہوں نے امام حسینؑ نے شہید کر دیا ہے۔ اور یہ اس کا اور اس کے اصحاب کا خون ہے جسے میں اللہ تعالی کے حضور پیش کروں گا۔ چنانچہ وہ دن اور گھڑی لکھ لی گئی۔ اس کے بعد چوبیس دن بعد مدینہ شریف میں یہ خبر آئی کہ امام حسین کو اسی دن اور اسی وقت میں شہید کیا گیا ۔ حمزہ بن زیارت نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ دونوں پیغمبر امام حسینؑ کے روضہ پر نماز پڑھ رہے ہیں۔ شیخ ابو نصر نے بالاسناد حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالہ سے بیان کیا کہ حضرت جعفر بن محمد نے فرمایا کہ حضرت حسین ؑ کی شہادت کے بعد آپ کی قبر انور پر ستر ہزار فرشتے اترے اور قیامت تک آپ کے کے لیے اشکباری کرتے رہیں گے۔ (البدایۃ والنھایۃ،چشتی)
عن ام سلمه قالت قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أخبرني جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بأرض العراق فقلت لجبرئيل ارني تربة الارض التي يقتل فيها، فجاء فهذه تربتها ۔ (البدايه والنهايه، 8 : 196 - 200)۔(کنز العمال، 12 : 126، ح : 34313)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنھا روایت کرتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے جبرئیل امین نے (عالم بیداری میں) بتایا کہ میرا یہ بیٹا حسین عراق کی سرزمین میں قتل کر دیا جائیگا میں نے کہا جبرئیل مجھے اس زمین کی مٹی لا کر دکھا دو جہاں حسین کو قتل کر دیا جائے گا پس جبرئیل گئے اور مٹی لا کر دکھا دی کہ یہ اس کے مقتل کی مٹی ہے۔
عن عائشة عنه انه قال أخبرنی جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بعدي بأرض الطف ۔
ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل امین نے مجھے خبر دی کہ میرا یہ بیٹا حسین میرے بعد مقام طف میں قتل کر دیا جائے گا۔ (المعجم الکبير، 3 : 107، ح : 2814)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی روایت بھی کم و بیش وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے، یہ بھی قتل حسین رضی اللہ عنہ کی اطلاع ہے۔ یہ روح فرسا اطلاع پا کر قلب اطہر پر کیا گزری ہوگی اس کا تصور بھی روح کے در و بام کو ہلا دیتا ہے، پلکوں پر آنسوؤں کی کناری سجنے لگتی ہے اور گلشن فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تباہی کا دلخراش منظر دیکھ کر چشم تصور بھی اپنی پلکیں جھکا لیتی ہے ۔
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام کے چشمان مقدس سے آنسو رواں تھے میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج کیا بات ہے چشمان مقدس سے آنسو رواں ہیں ؟ فرمایا کہ مجھے ابھی ابھی جبرئیل خبر دے گیا ہے کہ : ان امتک ستقتل هذا بأرض يقال لها کربلاء ۔ ترجمہ : آپ کی امت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس بیٹے حسین کو اس سر زمین پر قتل کر دے گی جس کو کربلا کہا جاتا ہے ۔ (المعجم الکبير، 3 : 109، ح : 2819،چشتی)
امام حسین رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ کس نے پڑھاٸی اور کہاں دفن ہوۓ
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے سر انور کے مدفن میں اختلاف ہے
مندرجہ ذیل اقوال ہیں : ⬇
(1) مدینہ شریف میں ۔ (2) عسقلان میں ۔ (3) کربلا کے نزدیک کسی گاؤں میں ۔ (4) مصر میں ۔ (5) کربلا معلیٰ میں ۔
(1) علامہ قرطبی اور شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہما الرحمہ فرماتے ہیں کہ : یزید نے اسیرانِ کربلا اور سرانور کو مدینہ طیبہ روانہ کیا ۔ اور مدینہ طیبہ میں سرِ انور کی تجہیز و تکفین کے بعد حضرت سیدہ فاطمہ یا حضرت امام حسن رضی الله عنہما کے پہلو میں دفن کر دیا گیا ۔
(2) امامیہ شیعہ حضراتبکہتے ہیں کہ : اسیرانِ کربلا نے چالیس روز کے بعد کربلا میں آ کر جسد مبارک سے ملا کر دفن کیا ۔
(3) بعض کہتے ہیں کہ : یزید نے حکم دیا کہ حسین کے سر کو شہروں میں پھراؤ ۔ پھرانے والے جب عسقلان پہونچے تو وہاں کے امیر نے ان سے لے کر دفن کر دیا ۔
(4) جب عسقلان پر فرنگیوں کا غلبہ ہوا تو طلائع بن زریک جس کو صالح کہتے ہیں نائب مصر نے تیس ہزار دینار دے کر فرنگیوں سے سر انور لینے کی اجازت حاصل کی اور ننگے پیر وہاں سے مع سپاہ و خدام کے مؤرخہ آٹھ (8) جمادی الآخر 548 ھجری بروز اتوار مصر لایا اس وقت بھی سر انور کا خون تازہ تھا اور اس سے مشک کی سی خوشبو آتی تھی پھر اس نے سبز حریر کی تھیلی میں آبنوس کی کرسی پر رکھ کر اس کے ہم وزن مشک و عنبر اور خوشبو اس کے نیچے اور ارد گرد رکھوا کر اس پر مشہد حسینی بنوایا ۔ چنانچہ قریب خان خلیلی کے مشہد حسینی مشہور ہے شیخ شہاب الدین بن اطلبی حنفی فرماتے ہیں کہ میں نے مشہد میں سر مبارک کی زیارت کی مگر میں اس میں متردد اور متوقف تھا کہ سر مبارک اس مقام پر ہے یا نہیں ؟ اچانک مجھ کو نیند آگئی میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص بصورت نقیب سر مبارک کے پاس سے نکلا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس حجرہ نبویہ میں گیا اور جا کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم احمد بن حلبی اور عبد الوہاب نے آپ کے بیٹے حسین کے سر مبارک کے مدفن کی زیارت کی ہے آپ نے فرمایا اللھم تقبل منھما واغفرلھما یعنی اے اللہ ان دونوں کی زیارت کو قبول فرما اور ان دونوں کو بخش دے ۔ شیخ شہاب الدین فرماتے ہیں کہ اس دن سے میرا یقین ہو گیا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک یہیں ہے پھر میں نے مرتے دم تک سر مکرم کی زیارت نہیں چھوڑی ۔
(5) شیخ عبد الفتاح بن ابی بکر بن احمد شافعی خلوتی علیہ الرحمہ اپنے رسالہ نورالعین میں فرماتے ہیں کہ نجم الدین غبطی نے شیخ الاسلام شمس الدین حقانی سے جو اپنے وقت کے شیخ الشیوخ مالکیہ سے نقل فرمایا کہ : وہ ہمیشہ مشہد مبارک میں سرِ انور کی زیارت کو حاِضر ہوتے اور فرماتے کہ حضرت امام رضی اللہ عنہ کا سر انور اسی مقام پر ہے ۔
(6) حضرت شیخ خلیل ابی الحسن تماری رحمۃ اللہ علیہ سرِ انور کی زیارت کو تشریف لایا کرتے تھے جب سر مبارک کے پاس آئے تو کہتے السلام عليكم يا ابن رسول اللہ اور جواب سنتے وعلیک السلام یا ابا الحسن ۔ ایک دن سلام کا جواب نہ پایا حیران ہو ئے اور زیارت کر کے واپس آ گئے دوسرے روز پھر حاضر ہو کر سلام کیا تو جواب پایا عرض کی یا سیدی کل جواب سے مشرف نہ ہوا کیا وجہ تھی فرمایا اے ابو الحسن کل اس وقت میں اپنے جد امجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر تھا اور باتوں میں مشغول تھا ۔
(7) امام عبد الوہاب شعرانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اکابر صوفی اہل کشف اسی کے قائل ہیں کہ حضرت امام کا سر انور اسی مقام پر ہے ۔
(8) خیال رہے کہ علامہ محمد شفیع اکاڑوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ : سر انور مصر میں دفن ہے ۔ اس قول کو چار خواب بیان کر کے اس کو قوت دی پھر تحریر فرماتے ہیں کہ سرِ انور کے متعلق مختلف روایات ہیں اور مختلف مقامات پر مشاہد بنے ہوئے ہیں تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان روایات اور مشاہدہ کا تعلق چند سروں سے ہو کیونکہ یزید کے پاس سب شہدائے اہل بیت کے سر بھیجے گئے تھے تو کوئی سر کہیں اور کوئی سر کہیں دفن ہوا ہو اور نسبت حسن عقیدت کی بنا پر یا کسی اور وجہ سے صرف امام حسین کی طرف کردی گئی ہو (بحوالہ شام کربلا مصنف علامہ شفیع اکاڑوی رحمة اللہ علیہ صفحہ 259 ، 260)
فقیہ ملت مفتی جلال الدین رحمة اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ : سیدُالشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر انور کہاں دفن کیا گیا اس میں اختلاف ہے ۔ مشہور یہ ہے کہ اسیرانِ کربلا کے ساتھ یزید نے آپ کے سر مبارک کو مدینہ منورہ روانہ کیا جو سیدہ حضرت فاطمه زہراء یا حضرت امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہما کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔ (خطبات محرم صفحہ 440،چشتی)
حضرت علامہ مفتی عبد الواجد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : امام الشہداء نواسہ رسول ابن بتول سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا مزار شریف کربلا معلی میں ہے جو نجف اشرف سے اسی کلو میٹر کی دوری پر ہے امام حسین کے آستانہ مبارک کی چہار دیواری ہے ۔ جس کا غالب رنگ سبز و نیلا ہے اس آستانہ کے اندر سیدنا علی اصغر سیدنا حبیب و مظایر رضی اللہ عنہم کے مزارات مقدسہ بھی ہیں جو نقرئی قفسوں میں مغلف ہیں ایک سرخ پتھر بھی ہے جو گویا امام حسین کے خون سے رنگین ہے حضرت نے اپنی کتاب میں مزار شریف کا نقشہ بھی لیا ہے اور زیادت بھی کی ہے ۔ (کائنات آرزو صفحہ 315 مصنف مفتی عبد الماجد رحمۃ اللہ علیہ)
علامہ ابن حجر ہتیمی مکی علیہ الرحمہ روایت فرماتے ہیں کہ : سلیمان بن عبد الملک نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب ، میں دیکھا کہ آپ اس کے ساتھ ملاطفت فرما رہے ہیں اور اس کو بشارت دے رہے ہیں صبح اس نے حضرت امام حسن بصری رضی اللہ عنہ سے اس کی تعبیر پوچھی انہوں ، نے فرمایا شاید تو نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل ، کے ساتھ کوئی بھلائی کی ہے ۔ قال نعم وجدت راس الحسین فی خزانۃ ہزید فکسوتہ خمسۃ اثواب وصلیت علیہ مع جماعۃ اصحابی و قبرتہ فقال لہ الحسن ھو ذلک سبب رضاہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔ یعنی اس نے کہا ہاں ! میں نے حسین کے سر مبارک کو خزانہ یزید میں دیکھا تو میں نے ان کو پانچ کپڑوں کا کفن پہنایا اور میں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان پر نماز جنازہ پڑھی اور انہیں قبر میں دفن کر دیا تو حسن بصری نے اس سے فرمایا یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تجھ سے اظہار رضا مندی فرمایا ہے یعنی یہی تیرا کام حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رضا مندی کا سبب ہوا ہے ۔ (الصواعق المحرقہ صفحہ 196)
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ سلیمان عبد الملک نے جنازہ کی نماز اپنے دوستوں کے ساتھ پڑھائی اسی نیک عمل کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے خوش ہوئے اور یہی عمل امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نانا جان کی رضا کا سبب بنا ۔ آج بھی جو بھی اہل بیت سے محبت رکھے گا اس سے رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رضا حاصل ہوگی امام، حاکم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہر اولاد اپنے عصبہ کی طرف منسوب، ہوتی ہے سوائے فاطمہ کے دونوں شہزادوں کے کہ میں ان دونوں کا ولی ہوں اور عصبہ ہوں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا میری شفاعت میری امت کے ان افراد کےلیے ہے جو میری اہل بیت سے محبت کرے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment