Sunday, 30 July 2023

یزید ملعون کو جنّتی کہنے والوں کے تابوت میں آخری کیل

 یزید پلید کو جنّتی کہنے والوں کو جواب

محترم قارئینِ کرام : بعض شرپسند یزیدیوں نے یزید پلید کو جنتی ثابت کرنے کا پروپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے اور اس کےلیے بخاری شریف کی حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے ۔ یزید کو امیرالمومنین اور رحمة ﷲ علیہ کہنے کی دلیل بنائی جاتی ہے ۔ لہٰذا قارئین کرام کے سامنے اس حدیث سے متعلق گزارشات پیش خدمت ہیں ۔


سب سے پہلے بخاری شریف کی حدیث ملاحظہ فرمایئے : قال النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اول جیش من امتی یعزون مدینۃ قیصر مغفور لہم ۔

ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : میری امت کا پہلا لشکر جو قیصر روم کے شہر پر حملہ کرے گا اس کی مغفرت فرمادی گئی ہے ۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد ما قیل فی قتال الروم رقم الحدیث ۲۹۲۴، صحیح بخاری مترجم ۲/۱۰۷ باب نمبر ۱۳۷، کتاب الجہاد والسیر رقم الحدیث ۱۸۴ طبع لاہور ترجمہ عبدالحکیم خان اختر شاہجہانپوری ، صحیح بخاری مترجم وحید الزماں ۲/۱۸۸ باب نمبر ۱۳۷ کتاب الجہاد والسیر پارہ نمبر ۱۱ رقم ۱۸۵ طبع لاہور، البدائیہ والنہایہ ص ۹۶۹ باب نمبر ۷۲ ما قیل فی قتال الروم مکتبہ بیت الافکار، المستدرک حاکم ۴/۵۹۹ رقم الحدیث ۸۶۶۸، سلسلۃ الحادیث الصحیحہ ۱/۷۶ رقم ۲۶۸، حلیۃ الاولیائ، ابو نعیم اصفہانی، مسند الشامین طبرانی)


بخاری شریف کی اس حدیث سے بھی استدلال کیا جاتا ہے : قال محمود بن الربیع فحدثنہا قوما فیہم ابو ایوب الانصاری صاحب رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فی غزوتہ التی توفی فیہا ویزید بن معاویۃ علیہم بارض الروم ۔ (صحیح بخاری ۱/۱۵۸ کتاب التہجدباب صلوٰۃ النوافل جماعۃ)

ترجمہ : حضرت محمود بن ربیع رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک قوم کو حدیث بیان کی جس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ بھی تھے جو ارض روم کے غزوات میں انتقال فرماگئے تھے اور یزید بن معاویہ اس غزوہ کا امیر تھا ۔


جوابا گزارش ہے کہ ان روایات سے یزید کے جنتی ہونے کا استدلال کرنا کئی وجوہ سے باطل ہے :


1 : مغفرت کی بشارت والی حدیث میں قسطنطنیہ کے الفاظ کسی کتاب میں نہیں ۔


2 : بشارت والی حدیث میں ہے کہ جو پہلا لشکر قیصر روم کے شہر پر حملہ کرے گا، وہ مغفور لہم ہوگا ۔


3 : یزید بن معاویہ اس لشکر میں شامل تھا جس میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ شامل تھے اور وہیں ان کی وفات ہوئی ۔


4 : یہ لشکر آخری غزوہ کا تھا جو ۵۲ ہجری کو ہوا ۔


5 : محدثین نے اس کی شرح کرتے ہوئے کیا یزید کو مغفور لہم میں شامل کیا ؟


قیصر روم پر پہلا غزوہ اور بشارت مغفور لہم


1 : حافظ ابن کثیر دمشقی لکھتے ہیں : 32 ہجری میں سیدنا معاویہ رضی ﷲ عنہ نے بلاد روم پر چڑھائی کی ۔ یہاں تک کہ قسطنطنیہ تک پہنچ گئے ۔ (البدایہ والنہایہ ۷/۱۵۹)

حافظ ابن کثیر دوسرے مقام پرلکھتے ہیں : خلیج قسطنطنیہ کی جنگ سیدنا امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کی امارت میں 32 ہجری میں ہوئی اور وہ خود اس سال لوگوں پر امیر تھے ۔

اسی طرح ان کتابوں میں بھی ہے کہ وہ غزوہ 32 ہجری میں ہوا ۔ (المنظم از ابن جوزی 19/5)(تاریخ طبری 304/4)(العبر از امام ذہبی 24/1)(تاریخ اسلام امام ذہبی (یزید کی اس وقت عمر تقریبا چھ سال تھی) (تقریب التہذیب ۲/۳۳۲)


امام ذہبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : فیہا کانت وقعۃ المضیق بالقرب من قسطنطنیۃ وامیرہا معاویۃ ۔

ترجمہ : اس سن میں مضیق کا واقعہ ہوا جو کہ قسطنطنیہ کے قریب ہے اور اس کے امیر ’’معاویہ‘‘ رضی ﷲ عنہ تھے ۔ (تاریخ اسلام: امام ذہبی، عہد خلفائے راشدین صفحہ ۳۷۱)

حضرت امیر معاویہ نے یہ حملہ دور عثمان غنی رضی ﷲ عنہ میں کیا ۔


2 : اس حدیث میں مدینۃ قیصر سے مراد ’’حمص‘‘ ہے نہ کہ قسطنطنیہ لہٰذا بشارت مغفرت کے امین حمص پر حملہ کرنے والے مجاہدین ہیں نہ کہ مجاہدین قسطنطنیہ اور حمص پر حملہ 15 ہجری میں ہوا جو کہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کا دور خلافت تھا ۔


حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : پندرہ ہجری میں حضرت عمر فاروق رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابو عبیدہ رضی ﷲ عنہ کی قیادت میں ایک لشکر حمص روانہ کیا اور بعد میں حضرت خالد بن ولید رضی ﷲ عنہ بھی اس کے ساتھ شامل ہوگئے ۔ سخت سردیوں کے موسم میں مسلمانوں نے حمص کا محاصرہ کیا ۔ سردیوں کے اختتام تک محاصرہ جاری رہا ۔ بالاخر حضرت ابو عبیدہ رضی ﷲ عنہ نے حمص فتح کر لیا ۔ حضرت بلال حبشی حضرت مقداد رضی ﷲ عنہم اور دیگر امراء کے ذریعے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کے پاس فتح کی خوشخبری اور حمس روانہ کیا ۔ (البدایہ والنہایہ ۷/۵۲،چشتی)


شیخ الاسلام محمد صدر الصدور علیہ الرّحمہ نے بھی ’’مدینۃ قیصر‘‘ سے مراد ’’حمص‘‘ لیا ہے ۔ فرماتے ہیں : بعضے تجویز کنندہ کہ مراد ’’بمدینۃ قیصر‘‘ مدینہ باشد کہ قیصر در آنجابود روزی کہ فرمود ایں حدیث را آنحضرت و آں حمص است کہ در آن وقت دار مملکت او بود وﷲ اعلم ۔

ترجمہ : بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ شہر قیصر سے مراد وہی شہر ہے کہ جہاں قیصر اس روز تھا جس روز حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ حدیث فرمائی اور یہ شہر حمص تھا جو اس وقت قیصر کا دارالسلطنت تھا ۔ وﷲ اعلم ۔ (شرح فارسی صحیح بخاری، برحاشیہ تیسر القاری ۴/۶۶۹،چشتی)


امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرّحمہ فرماتے ہیں : وجوز بعضہم ان المراد بمدینۃ قیصر المدینۃ التی کان بہا یوم قال النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تلک المقالۃ وہی حمص و کانت دار مملکتہ اذ ذاک ۔

ترجمہ : اور بعض علماء کے نزدیک مدینہ قیصر سے مراد وہ شہر جہاں قیصر اس دن تھا (یعنی جو اس کا دارالسلطنت تھا) جس دن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ فرمان فرمایا : وہ حمص ہے جو اس وقت انکار دارالسلطنت تھا ۔ (فتح الباری۱۲/۶۱)


اس وقت 15 ہجری میں یزید پیدا بھی نہیں ہوا تھا ۔ بعض مورخین محدثین نے یزید پلید کو اول جیش کا امیر لکھا ہے ۔ یہ سہواً ہوا ہے کہ کیونکہ وہ امیر یزید بن فضالہ بن عبید تھے یہاں یزید بن معاویہ کا نام راوی کی غلطی ہے ۔

حافظ ابن کثیر دمشقی فرماتے ہیں : عمران بن اسلم کہتے ہیں کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی ہمارے لشکر میں شامل تھے ۔ وکنا بالقسطنطنیہ وعلی اہل مصر عقبۃ بن عامر و علی اہل الشام رجل یزید ابن فضالۃ ابن عبید ، اور ہم قسطنطنیہ میں تھے۔ اہل مصر پر عقبہ بن عامر اور اہل شام پر یزید بن فضالہ بن عبید امیر تھے ۔ (تفسیر ابن کثیر ۱/۲۱۷)


سنن ابو داٶد کی یہ روایت بھی ملاحظہ ہو : حدثنا احمد بن عمرو بن السرح ناابن وہب نا حیوۃ بن شریح و ابن لہیہ عن یزید بن ابی حبیب عن اسلم ابی عمران قال غزونا من المدینۃ یزید القسطنطنیۃ وعلی الجماعۃ عبدالرحمن بن خالد بن ولید ۔

ترجمہ : ابو عمران کا بیان ہے کہ ہم جہاد کرنے کے لئے مدینہ منورہ سے قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوئے اور سپہ سالار عبدالرحمن بن خالد بن ولید تھے ۔ (سنن ابو داٶد مع احکام البانی ص ۴۴۱ باب فی قولہ عزوجل ولا تلقوا بایدیکم الی التہلکہْ کتاب الجہاد رقم ۲۵۱۲ (صحیح)، سنن ابو دائود مترجم ۲/۲۸۱ طبع لاہور، مستدرک حاکم ۲/۱۴۰ رقم ۴۸۹ طبع قاہرہ، جامع البیان فی تفسیر القرآن ۲/۱۱۸،۱۱۹، احکام القرآن از حصاص ۱/۳۲۶، تفسیر ابن ابی حاتم رازی ۱/۳۳۰،۳۳۱،چشتی)


اس کے علاوہ ایک اور روایت بھی یہ اشارہ کرتی ہے کہ عبدالرحمن بن خالد بن ولید لشکر کے امیر تھے ۔


حدثنا سعید بن منصور ثنا عبدﷲ بن وہب قال اخبرنی عمر بن الحارث عن بکیر بن الاشجع عن ابن الاشج عن ابن تفلی قال غزونا من عبدالرحمن بن خالد بن الولید فاتی باربعۃ اعلاج من العدود فامرہم فقتلوا صبرا قال ابو دائود قال لنا غیر سعید عن ابن وہب فی ہذا الحدیث قال بالنبل صبرا فبلغ ذالک ابا ایوب الانصاری قال سمعت رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ینہی عن قتل الصبر فوالذی نفسی بیدہ لو کانت دجاجۃ ماصبرتہا فبلغ ذالک عبدالرحمن ابن خالد بن الولید فاعتق اربع رقاب ۔

ترجمہ : بکیر بن اشجع نے ابن تفلی سے روایت کی ہے کہ ہم نے عبدالرحمن بن خالد بن ولید کی معیت میں جہاد کیا تو دشمن کے چار قیدی لائے گئے جن کے متعلق آپ نے حکم دیا تو انہیں باندھ کر قتل کیا گیا ۔ امام ابو دائود نے فرمایا کہ سعید کے علاوہ دوسروں نے ابن وہب کے واسطے سے یہ حدیث ہم سے بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ باندھ کر تیروں کے ساتھ۔ جب یہ بات ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ کو پہنچی تو انہوں نے فرمایا ۔ میں نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو باندھ کر قتل کرنے سے منع فرماتے ہوئے سنا ۔ پس قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ۔ اگر مرغی بھی ہو تو اسے نہ باندھوں گا ۔ جب یہ بات عبدالرحمن بن خالد بن ولید کو پہنچی تو انہوں نے چار غلام آزاد کیے ۔ (سنن ابو دائود مترجم ۲/۳۴۳ ، مصنف ابن ابی شیبہ ۵/۳۹۸، مسند احمد ۵/۴۲۳، برقم ۲۳۹۸۷، صحیح ابن حباب ۸/۴۵۰،چشتی،طبرانی ۴/۴۹، رقم ۴۰۰۲، الطحاوی ۳/۱۸۲، السنن الکبریٰ بیہقی ۹/۷۱، سنن دارمی ۲/۱۱۳، رقم ۱۹۷۴، سنن سعید بن منصور ص ۶۶۷)


بشارت والی حدیث اور محدثین


بشارت والی حدیث کی شرح کرتے ہوئے محدثین کرام علیہم الرّحمہ نے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں وضاحت فرمائی ہے کہ یزید قطعاً اس بشارت کا مصداق نہیں ہے اور مغفرت عموم سے بالکل خارج ہے ۔ مگر افسوس کہ اکثر غیر مقلدین اور دیوبندی مکتبہ فکر کے بعض علماء نے اس حدیث سے یہی باور کرایا ہے کہ یزید جنتی ہے اور اس پر مستقل کتابیں لکھی ہیں ۔ جیسے ’’رشید ابن رشید‘‘ نامی کتاب پر ان دونوں مکاتب فکر کے علماء کی تصدیقات ہیں ۔ اسی طرح دیگر کئی کتب جو یزید کو امیر المومنین اور رحمة ﷲ علیہ ثابت کرنے کےلیے لکھی گئی ہیں ۔ ان میں محدثین کی نامکمل عبارات لکھ کر لوگوں کو دھوکہ دیا گیا ہے ۔ محدثین کی تصریحات ملاحظہ فرماٸیے :


قولہ قد اوجبوا فعلوا وحبت لہم بہ الجنۃ قولہ مدینۃ قیصر ای ملک الروم قال قسطلانی کان اول من غزا مدینۃ قیصر یزید ابن معاویۃ وجماعۃ من سادات الصحابۃ کابن عمروابن عباس وابن الزبیر وابی ایوب انصاری وتوفی بہا ابو ایوب اثنتین وخمیسن من الہجرۃ انتہیٰ کذا قالہ فی الخیر الباری و فی الفتح قال المہلب فی ہذا الحدیث منقبۃ لمعاویۃ لانہ اول من غزا البحر ومنقبۃ لو لدہ لانہ من غزا مدینۃ قیصر وتعقبہ ابن التین وابن المنیر بما حاصلہ انہ لایلزم من دخولہ فی ذالک المعموم ان لا یخرج بدلیل خاص اذ لا یختلف اہل العلم ان قولہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مغفور لہم مشروط بان تکونوا من اہل المغفرۃ حتی لو ارند واحد ممن غزا ہا بعد ذالک لم یدخل فی ذالک العموم اتفاقاً فدل علی ان المراد مغفور لمن وجد شرط المغفرۃ فیہ منہم ۔

ترجمہ : قولہ قد اوجبوا‘‘ ان کےلیے جنت واجب ہے ۔ مدینہ قیصر یعنی ملک روم، قسطلانی فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے مدینہ قیصر پر یزید بن معاویہ نے جہاد کیا ۔ اس کے ساتھ سادات صحابہ کی ایک جماعت تھی۔ مثلا حضرت ابن عمر، ابن عباس، ابن زبیر اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہم ۔ اور آپ کا انتقال بھی 52 ہجری میں وہیں پر ہوا ۔ خیرالباری اور فتح الباری میں ہے کہ مہلب نے کہا کہ اس حدیث میں حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کی منقبت ہے کیونکہ انہوں نے سب سے پہلے بحری لڑائی کی اور آپ کے بیٹے (یزید) کی منقبت ہے کہ اس نے قسطنطنیہ میں جنگ کی ابن تین اور ابن منیر نے مہلب کا تعاقب کیا اور انہوں نے کہا کہ اس عموم میں داخل ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ کسی دلیل خاص سے اس بشارت سے خارج نہ ہوسکے کیونکہ اہل علم کا اس میں ہرگز کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ فرمان اہلیت مغفرت کے ساتھ مشروط ہے حتی کہ اگر ان (مجاہدین) میں سے کوئی مرتد ہوجائے تو وہ اس (بشارت) کے عموم سے ہرگز داخل نہیں ہوگا۔ پس ثابت ہوا کہ مغفور لہم کی بشارت انہی کے لئے ہے جن میں شرط مغفرت پائی جائے گی ۔ (بخاری شریف کی حدیث کا حاشیہ جلد اول ص ۴۰)


علامہ قسطلانی علیہ الرحمہ نے بھی یہی کچھ لکھا اور مزید فرمایا کہ (یزید) بنو امیہ کی حمیت کی وجہ سے اس غزوہ پر گیا تھا ۔ (ارشاد الساری شرح بخاری ۵/۱۲۵)


حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ نے بھی تقریبا یہی بات لکھی ہے ۔ (فتح الباری شرح بخاری ۱۲/۶۱)


علامہ بدرالدین عینی علیہ الرحمہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : وکان فی ذالک الجیش ابن عباس وابن عمرو ابن زبیر وابو ایوب الانصاری قلت الاظہروا ان ہؤلاء السادات من الصحابۃ کانوا مع سفیان ہذا فلم یکونوا مع یزید لانہ لم یکن اہلاً ان یکون ہولاء السادات فی خدمتہ قال المہلب فی ہذا الحدیث منقبۃ لمعاویۃ کان اول من غزا البحر ومنقبۃ لولدہ یزید لانہ اول من غزا مدینۃ قیصر قلت ای منقبۃ لیزید وحالہ مشہور فان قلت قال صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فی حق ہذا الجیش مغفور لہم قلت قیل لا یلزم من دخولہ فی ذالک العموم ان لا یخرج بدلیل خاص اذالا یختلف اہل العلم ان قولہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مغفور لہم مشروط بان یکوانو من اہل المغفرۃ حتی لو ارتد واحد ممن غزاہا بعد ذالک لم یدخل فی ذالک العموم فدل علی انا المراد مغفور لمن وجد شرط المغفرۃ منہم ۔

ترجمہ : اور اس لشکر میں ابن عباس، ابن عمر، ابن زبیر اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہم تھے ۔ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ سادات صحابہ حضرت سفیان بن عوف رضی ﷲ عنہ کی قیادت میں تھے ۔ نہ کہ یزید بن معاویہ کی سرکردگی میں کیونکہ یزید ہرگز اس قابل نہ تھا کہ سادات صحابہ اس کی سرکردگی میں ہوں۔ مہلب نے کہا اس حدیث میں حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کی منقبت ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے جنگ لڑی اور ان کے بیٹے یزید کی منقبت ہے جبکہ اس کا حال مشہور ہے۔ اگر تم کہو کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس لشکر کے لئے ’’مغفور لہم‘‘ فرمایا تو ہم کہتے ہیں کہ عموم میں داخل ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ دلیل خاص سے خارج نہ ہوسکے، کیونکہ اس میں اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد مغفور لہم مشروط ہے کہ وہ آدمی مغفرت کا اہل ہو ۔ حتی کہ اگر غازیوں میں کوئی مرتد ہوجائے تو وہ اس عموم میں داخل نہیں رہتا۔ پس ثابت ہوا کہ مغفرت اسی کےلیے ہے جو مغفرت کا اہل ہوگا ۔ (عمدۃ القاری شرح بخاری ۱۲/۱۰ مطبوعہ مصر،چشتی)


یزید پلید جس لشکر میں شامل تھا وہ 52 ہجری میں قسطنطنیہ پر حملہ آور ہوا تھا ۔ جبکہ پہلا حملہ اس سے بہت پہلے ہوچکا تھا ۔ جیسا کہ اوپر تفصیل ذکر کی گئی ۔ یزید والا لشکر 52 ہجری میں حملہ آور ہوا تھا ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس لشکر میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ بھی شامل تھے اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ کا انتقال 52 ہجری میں ہوا ۔


علامہ ابن کثیر دمشقی فرماتے ہیں ۔ وذالک سنۃ ۵۲ہ اثنتین وخمسین ومعہم ابو ایوب فمات ہناک ۔

ترجمہ : اسی سال 52 ہجری میں ان کے ساتھ ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ بھی تھے اور آپ کا انتقال بھی وہیں ہوا تھا ۔ (البدایہ والنہایہ ۸/۵۹،چشتی)


علامہ ذہبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ۔ وکان ابو ایوب سنۃ ۵۲ ہجری ۔

ترجمہ : حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ کا انتقال 52 ہجری میں ہوا ۔ (تذکرۃ الحفاظ ۱/۲۹)


علامہ ابن اثیر علیہ الرحمہ نے 52 ہجری کے حوادث میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ کی وفات کا ذکر کیا ہے ۔ (ابن اثیر ۳/۴۹۲)


یزید کے حامی محمود احمد عباسی نے بھی طبقات ابن سعد کے حوالے سے لکھا : وتوفی ابو ایوب انصاری عام غزا یزید ابن معاویۃ القسطنطنیۃ خلافۃ ابیہ سنۃ ۵۲ھ ۔ (خلافت معاویہ ویزید ص ۷۹)


علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : وکانت غزوۃ یزید المذکورۃ فی سنۃ اثنتین فی خمیس من الہجرۃ وفی تلک الغزوۃ مات ابو ایوب الاناصری فاوحی ان یدفن عند باب القسطنطنیۃ ۔

ترجمہ : اور یزید کا مذکورہ غزوہ 52 ھ میں ہوا ۔ اسی غزوہ میں ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ کا انتقال ہوا اور انہوں نے وصیت فرمائی کہ مجھے قسطنطنیہ کے دروازے کے پاس دفن کیا جائے ۔


ان تمام حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ یزید کے لشکر میں شامل تھے اور وہ لشکر 52 ھ میں قسطنطنیہ پر حملہ آور ہوا اور اسی حملہ میں صحابی رسول حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ کی وفات ہوئی اور یہ قسطنطنیہ پر آخری حملہ تھا ۔ جبکہ مغفرت کی بشارت والی حدیث میں صراحت ہے کہ ’’پہلا لشکر جو ہوگا اس کی مغفرت ہوگی‘‘ دوسری طرف دیکھئے کہ یزید اس غزوہ میں شوق یا جوش جہاد سے نہیں گیا بلکہ مجاہدین کو پہنچنے والی تکالیف پر خوشی کا اظہار کرنے کی وجہ سے حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے اسے جبراً بھیجا تھا ۔


علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں : 50 ہجری میں حصرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے ایک بہت بڑا لشکر حضرت سفیان بن عوف کی قیادت میں بلاد روم پر حملے کے لئے بھیجا اور اپنے بیٹے یزید کو بھی اس میں شریک ہونے کو کہا لیکن اس نے بڑی گرانی محسوس کی تو اسے آپ نے چھوڑ دیا ۔ پھر لوگوں کو یہ اطلاع ملی کہ اس لشکر کے مجاہدین سخت بھوک اور بیماری کا شکار ہوئے ۔ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو اطلاع ملی کہ یزید نے اس لشکر کا حال سن کر یہ اشعار پڑھے :


مان ابا لی بمالاقت جمود عہم بالفد قد البید من الحمیٰ ومن شوم اذا اتطات علی الانماط مرتفقا بدید مران عندی ام کلثوم وہی امراتہ بنت عبدﷲ ابن عامر فخلف لیخلفن بہم فسار فی جمع کثیر ۔

ترجمہ : مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ بخار اور بدقسمتی کی وجہ سے اس کھلے صحرا میں ان لشکروں پر کیا بیتی ۔ جبکہ میں نے دیر مران میں بلند ہوکر قالینوں پر تکیہ لگا لیا ۔ اور میرے پہلو میں ام کلثوم موجود ہے ۔ یہ عبدﷲ بن عامر کی بیٹی (اور یزید کی بیوی تھی) تو حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے قسم کھائی کہ یزید کو اس لشکر کے ساتھ بھیجیں گے چنانچہ جماعت کثیرہ کے ساتھ وہاں چلا گیا ۔ (تاریخ ابن خلدون ۳/۱۹،۲۰،چشتی) ، علامہ ابن اثیر نے بھی یہی بات لکھی ہے (ابن اثیر ۳/۴۵۸،چشتی)


اگر بالفرض یزید کو بشارت والی حدیث کا مصداق مان لیا جائے تو اس حدیث کا مفاد صرف یہ ہے کہ یزید کے اس وقت تک جتنے گناہ تھے ، وہ بخش دیئے گئے ۔ بعد میں یزید کے افعال قبیحہ نے اسے اس بشارت سے محروم کردیا کیونکہ جہاد ایک عمل خیر ہے جس سے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں ، لیکن بعد والے معاف نہیں ہوتے ۔ چنانچہ شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اس حدیث پاک ’’مغفور لہم‘‘ سے بعض لوگوں نے یزید کی نجات پر استدلال کیا ہے کیونکہ وہ اس دوسرے لشکر میں شریک تھا بلکہ اس کا افسر و سربراہ تھا ۔ جیسا کہ تاریخ گواہی دیتی ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ اس حدیث سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس غزوہ سے پہلے جو اس نے گناہ کئے وہ بخش دیئے گئے ، کیونکہ جہاد کفارات میں سے ہے اور کفارات کی شان یہ ہے کہ وہ سابقہ گناہوں کے اثر کو زائل کرتا ہے ۔ بعد میں ہونے والے گناہوں کے اثر کو نہیں۔ ہاں اگر اسی کے ساتھ یہ فرما دیا ہوتا کہ قیامت تک کےلیے اس کی بخشش کردی گئی ہے تو بے شک یہ حدیث اس کی نجات پر دلالت کرتی ۔ اور جب یہ صورت نہیں تو نجات بھی ثابت نہیں ، بلکہ اس صورت میں اس کا معاملہ ﷲ تعالیٰ کے سپرد ہے اور اس غزوہ کے بعد جن جن برائیوں کا وہ مرتکب ہوا ہے ، جیسے حضرت سیدنا امام حسین رضی ﷲ عنہ کو شہید کروانا ، مدینہ طیبہ کو تاخت و تاراج کرانا ، شراب نوشی پر اصرار کرنا ، ان سب گناہوں کا معاملہ ﷲ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے ۔ چاہے تو معاف کرے ، چاہے تو عذاب دے ۔ جیسا کہ تمام گناہ گاروں کے حق میں یہ ہی طریقہ رائج ہے ۔ (شرح تراجم ابواب البخاری ص ۳۱،۳۲)


یہی مفہوم علامہ قسطلانی علیہ الرحمہ نے ’’ارشاد الساری ۵/۱۲۵، اور علامہ بدرالدین عینی علیہ الرحمہ  نے ’’عمدۃ القاری ۱۲/۱۰‘‘ میں فرمائی ہے ۔


غیر مقلدین کے حافظ زبیر علی زئی نے ماہنامہ ’’الحدیث‘‘ شمارہ ۶ ص ۴ اور عبدﷲ دامانوی نے ماہنامہ ’’محدث‘‘ جنویر ۲۰۱۰ء ص ۴۸ میں اور مولانا ارشاد الحق نے بھی ماہنامہ ’’محدث‘‘ اگست ۱۹۹۹ء میں یہی موقف اپنایا ہے کہ یزید اس حدیث کا مصداق نہیں اور نہ اس حدیث سے اس کی نجات ثابت ہے ۔ ﷲ تعالیٰ کی ذات غفور الرحیم ہے ۔ وہ مالک یوم الدین ہے ۔ وہ اگر یزید کو بخشنا چاہے تو اس کی مرضی ، لیکن قواعدِ شرعیہ کی رو سے عترتِ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قاتل ، مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تاخت و تاراج کرنے والے اور حرمِ کعبہ پر سنگ بازی کے مجرم یزید کو جنتی کہنا بہت بڑی جہالت و سخت لادینیت ہے ۔


یزید ملعون کو جنّتی کہنے والوں کے تابوت میں آخری کیل


محترم قارئینِ کرام : کچھ عرصہ سے بعض لوگوں نے یزید پلید کو جنتی ثابت کرنے کا پروپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے اور اس کےلیے بخاری شریف کی حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے ۔ یوں یزید کو امیرالمومنین اور رحمتہ ﷲ علیہ کہنے کی دلیل بنائی جاتی ہے ۔ لہٰذا قارئین کرام کے سامنے اس حدیث سے متعلق گزارشات پیشِ خدمت ہیں ۔ سب سے پہلے بخاری شریف کی حدیث ملاحظہ فرمائیے : ⬇


قال النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اول جیش من امتی یعزون مدینۃ قیصر مغفور لہم ۔

ترجمہ : حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میری امت کا پہلا لشکر جو قیصر روم کے شہر پر حملہ کرے گا اس کی مغفرت فرمادی گئی ہے ۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد ما قیل فی قتال الروم رقم الحدیث ۲۹۲۴، صحیح بخاری مترجم ۲/۱۰۷ باب نمبر ۱۳۷، کتاب الجہاد والسیر رقم الحدیث ۱۸۴ طبع لاہور ترجمہ عبدالحکیم خان اختر شاہ جہانپوری)(صحیح بخاری مترجم وحید الزماں ۲/۱۸۸ باب نمبر ۱۳۷ کتاب الجہاد والسیر پارہ نمبر ۱۱ رقم ۱۸۵ طبع لاہور)(البدائیہ والنہایہ ص ۹۶۹ باب نمبر ۷۲ ما قیل فی قتال الروم مکتبہ بیت الافکار، المستدرک حاکم ۴/۵۹۹ رقم الحدیث ۸۶۶۸،چشتی)(سلسلۃ الحادیث الصحیحہ ۱/۷۶ رقم ۲۶۸، حلیۃ الاولیا ابو نعیم اصفہانی، مسند الشامین طبرانی)


بخاری شریف کی درج ذیل حدیث سے بھی استدلال کیا جاتا ہے :

قال محمود بن الربیع فحدثنہا قوما فیہم ابو ایوب الانصاری صاحب رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فی غزوتہ التی توفی فیہا ویزید بن معاویۃ علیہم بارض الروم ۔ (صحیح بخاری ۱/۱۵۸ کتاب التہجدباب صلوٰۃ النوافل جماعۃ)

ترجمہ : حضرت محمود بن ربیع رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک قوم کو حدیث بیان کی جس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ بھی تھے جو ارض روم کے غزوات میں انتقال فرما گئے تھے اور یزید بن معاویہ اس غزوہ کا امیر تھا ۔


جواباً گزارش ہے کہ ان روایات سے یزید کے جنتی ہونے کا استدلال کرنا کئی وجوہ سے باطل ہے : ⬇


1 : مغفرت کی بشارت والی حدیث میں قسطنطنیہ کے الفاظ کسی کتاب میں نہیں ۔


2 : بشارت والی حدیث میں ہے کہ جو پہلا لشکر قیصر روم کے شہر پر حملہ کرے گا ، وہ مغفور لہم ہوگا ۔

3 : یزید بن معاویہ اس لشکر میں شامل تھا جس میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ شامل تھے اور وہیں ان کی وفات ہوئی ۔


4 : یہ لشکر آخری غزوہ کا تھا جو ۵۲ ہجری کو ہوا ۔


5 : محدثین نے اس کی شرح کرتے ہوئے کیا یزید کو مغفور لہم میں شامل کیا ؟


قیصر روم پر پہلا غزوہ اور بشارت مغفور لہم


حافظ ابن کثیر دمشقی لکھتے ہیں : ۳۲ ہجری میں سیدنا معاویہ رضی ﷲ عنہ نے بلاد روم پر چڑھائی کی ۔ یہاں تک کہ قسطنطنیہ تک پہنچ گئے ۔ (البدایہ والنہایہ ۷/۱۵۹،چشتی)


حافظ ابن کثیر دوسرے مقام پر لکھتے ہیں : خلیج قسطنطنیہ کی جنگ سیدنا امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کی امارت میں ۳۲ ہجری میں ہوئی اور وہ خود اس سال لوگوں پر امیر تھے ۔باسی طرح ان کتابوں میں بھی ہے کہ وہ غزوہ ۳۲ ہجری میں ہوا ۔ (المنظم از ابن جوزی 19/5)(تاریخ طبری 304/4)(العبر از امام ذہبی 24/1،چشتی)(تاریخ اسلام امام ذہبی ۔ یزید کی اس وقت عمر تقریبا چھ سال تھی ۔ (تقریب التہذیب ۲/۳۳۲)


امام ذہبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : فیہا کانت وقعۃ المضیق بالقرب من قسطنطنیۃ وامیرہا معاویۃ ۔

اس سن میں مضیق کا واقعہ ہوا جو کہ قسطنطنیہ کے قریب ہے اور اس کے امیر ’’معاویہ‘‘ رضی ﷲ عنہ تھے ۔ (تاریخ اسلام امام ذہبی عہد خلفائے راشدین صفحہ ۳۷۱)


حضرت امیر معاویہ نے یہ حملہ دور عثمان غنی رضی ﷲ عنہ میں کیا ۔


اس حدیث میں مدینۃ قیصر سے مراد ’’حمص‘‘ ہے نہ کہ قسطنطنیہ لہذا بشارت مغفرت کے امین حمص پر حملہ کرنے والے مجاہدین ہیں نہ کہ مجاہدین قسطنطنیہ اور حمص پر حملہ ۱۵ ہجری میں ہوا جوکہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کا دور خلافت تھا ۔


حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : پندرہ ہجری میں حضرت عمر فاروق رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابو عبیدہ رضی ﷲ عنہ کی قیادت میں ایک لشکر حمص روانہ کیا اور بعد میں حضرت خالد بن ولید رضی ﷲ عنہ بھی اس کے ساتھ شامل ہو گئے ۔ سخت سردیوں کے موسم میں مسلمانوں نے حمص کا محاصرہ کیا ۔ سردیوں کے اختتام تک محاصرہ جاری رہا ۔ بالاخر حضرت ابو عبیدہ رضی ﷲ عنہ نے حمص فتح کر لیا ۔ حضرت بلال حبشی حضرت مقداد رضی ﷲ عنہم اور دیگر امراء کے ذریعے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کے پاس فتح کی خوشخبری اور حمس روانہ کیا ۔ (البدایہ والنہایہ ۷/۵۲،چشتی)


شیخ الاسلام محمد صدر الصدور نے بھی ’’مدینۃ قیصر‘‘ سے مراد ’’حمص‘‘ لیا ہے ۔ فرماتے ہیں : بعضے تجویز کنندہ کہ مراد ’’بمدینۃ قیصر‘‘ مدینہ باشد کہ قیصر در آنجابود روزی کہ فرمود ایں حدیث را آنحضرت و آں حمص است کہ در آن وقت دار مملکت او بود وﷲ اعلم ۔

تجمہ : بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ شہر قیصر سے مراد وہی شہر ہے کہ جہاں قیصر اس روز تھا جس روز حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ حدیث فرمائی اور یہ شہر حمص تھا جو اس وقت قیصر کا دارالسلطنت تھا ۔ وﷲ اعلم ۔ (شرح فارسی صحیح بخاری برحاشیہ تیسر القاری ۴/۶۶۹)


عامہ حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں : وجوز بعضہم ان المراد بمدینۃ قیصر المدینۃ التی کان بہا یوم قال النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تلک المقالۃ وہی حمص و کانت دار مملکتہ اذ ذاک ۔

ترجمہ : اور بعض علماء کے نزدیک مدینہ قیصر سے مراد وہ شہر جہاں قیصر اس دن تھا (یعنی جو اس کا دارالسلطنت تھا) جس دن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ فرمان فرمایا: وہ حمص ہے جو اس وقت انکار دارالسلطنت تھا ۔ (فتح الباری ۱۲/۶۱)


اس وقت ۱۵ ہجری میں یزید پیدا بھی نہیں ہوا تھا ۔ بعض مورخین محدثین نے یزید بن معاویہ کو اول جیش کا امیر لکھا ہے ۔ یہ سہواً ہوا ہے کہ کیونکہ وہ امیر یزید بن فضالہ بن عبید تھے یہاں یزید بن معاویہ کا نام راوی کی غلطی ہے ۔


حافظ ابن کثیر دمشقی لکھتے ہیں : عمران بن اسلم کہتے ہیں کہ حضرت ابو ایوب انصاری بھی ہمارے لشکر میں شامل تھے ۔ وکنا بالقسطنطنیہ وعلی اہل مصر عقبۃ بن عامر و علی اہل الشام رجل یزید ابن فضالۃ ابن عبید ۔ اور ہم قسطنطنیہ میں تھے ۔ اہل مصر پر عقبہ بن عامر اور اہل شام پر یزید بن فضالہ بن عبید امیر تھے ۔ (تفسیر ابن کثیر ۱/۲۱۷،چشتی)


سنن ابو داٶد کی یہ روایت بھی ملاحظہ ہو : حدثنا احمد بن عمرو بن السرح ناابن وہب نا حیوۃ بن شریح و ابن لہیہ عن یزید بن ابی حبیب عن اسلم ابی عمران قال غزونا من المدینۃ یزید القسطنطنیۃ وعلی الجماعۃ عبدالرحمن بن خالد بن ولید ۔

ترجمہ : ابو عمران کا بیان ہے کہ ہم جہاد کرنے کےلیے مدینہ منورہ سے قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوئے اور سپہ سالار عبدالرحمن بن خالد بن ولید تھے ۔ (سنن ابو دائود مع احکام البانی صفحہ ۴۴۱ باب فی قولہ عزوجل ولا تلقوا بایدیکم الی التہلکہْ کتاب الجہاد رقم ۲۵۱۲ (صحیح)،چشتی)(سنن ابو داٶد مترجم ۲/۲۸۱ طبع لاہور)(مستدرک حاکم ۲/۱۴۰ رقم ۴۸۹ طبع قاہرہ)(جامع البیان فی تفسیر القرآن ۲/۱۱۸،۱۱۹)(احکام القرآن جصاص ۱/۳۲۶)(تفسیر ابن ابی حاتم رازی ۱/۳۳۰،۳۳۱)


اس کے علاوہ ایک اور روایت بھی یہ اشارہ کرتی ہے کہ عبدالرحمن بن خالد بن ولید لشکر کے امیر تھے : حدثنا سعید بن منصور ثنا عبدﷲ بن وہب قال اخبرنی عمر بن الحارث عن بکیر بن الاشجع عن ابن الاشج عن ابن تفلی قال غزونا من عبدالرحمن بن خالد بن الولید فاتی باربعۃ اعلاج من العدود فامرہم فقتلوا صبرا قال ابو دائود قال لنا غیر سعید عن ابن وہب فی ہذا الحدیث قال بالنبل صبرا فبلغ ذالک ابا ایوب الانصاری قال سمعت رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ینہی عن قتل الصبر فوالذی نفسی بیدہ لو کانت دجاجۃ ماصبرتہا فبلغ ذالک عبدالرحمن ابن خالد بن الولید فاعتق اربع رقاب ۔

ترجمہ : بکیر بن اشجع نے ابن تفلی سے روایت کی ہے کہ ہم نے عبدالرحمن بن خالد بن ولید کی معیت میں جہاد کیا تو دشمن کے چار قیدی لائے گئے جن کے متعلق آپ نے حکم دیا تو انہیں باندھ کر قتل کیا گیا ۔ امام ابو داٶد نے فرمایا کہ سعید کے علاوہ دوسروں نے ابن وہب کے واسطے سے یہ حدیث ہم سے بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ باندھ کر تیروں کے ساتھ ۔ جب یہ بات ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ کو پہنچی تو انہوں نے فرمایا ۔ میں نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو باندھ کر قتل کرنے سے منع فرماتے ہوئے سنا ۔ پس قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ۔ اگر مرغی بھی ہو تو اسے نہ باندھوں گا ۔ جب یہ بات عبد الرحمن بن خالد بن ولید کو پہنچی تو انہوں نے چار غلام آزاد کیے ۔ (سنن ابو دائود مترجم ۲/۳۴۳)(مصنف ابن ابی شیبہ ۵/۳۹۸،چشتی)(مسند احمد ۵/۴۲۳، برقم ۲۳۹۸۷)(صحیح ابن حباب ۸/۴۵۰)(طبرانی ۴/۴۹، رقم ۴۰۰۲)(الطحاوی ۳/۱۸۲)(السنن الکبریٰ بیہقی ۹/۷۱)(سنن دارمی ۲/۱۱۳، رقم ۱۹۷۴)(سنن سعید بن منصور صفحہ ۶۶۷)


بشارت والی حدیث اور محدثین


بشارت والی حدیث کی شرح کرتے ہوئے محدثین کرام نے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں وضاحت فرمائی ہے کہ یزید قطعاً اس بشارت کا مصداق نہیں ہے اور مغفرت عموم سے بالکل خارج ہے ۔ مگر افسوس کہ اکثر غیر مقلدین اور دیوبندی مکتبہ فکر کے بعض علماء نے اس حدیث سے یہی باور کرایا ہے کہ یزید جنتی ہے اور اس پر مستقل کتابیں لکھی ہیں ۔ جیسے ’’رشید ابن رشید‘‘ نامی کتاب پر ان دونوں مکاتب فکر کے علماء کی تصدیقات ہیں ۔ اسی طرح دیگر کئی کتب جو یزید کو امیر المومنین اور رحمة ﷲ علیہ ثابت کرنے کےلیے لکھی گئی ہیں ۔ ان میں محدثین کی نامکمل عبارات لکھ کر لوگوں کو دھوکہ دیا گیا ہے ۔ محدثین کی تصریحات ملاحظہ فرمائیے : ⬇


قولہ قد اوجبوا فعلوا وحبت لہم بہ الجنۃ قولہ مدینۃ قیصر ای ملک الروم قال قسطلانی کان اول من غزا مدینۃ قیصر یزید ابن معاویۃ وجماعۃ من سادات الصحابۃ کابن عمروابن عباس وابن الزبیر وابی ایوب انصاری وتوفی بہا ابو ایوب اثنتین وخمیسن من الہجرۃ انتہیٰ کذا قالہ فی الخیر الباری و فی الفتح قال المہلب فی ہذا الحدیث منقبۃ لمعاویۃ لانہ اول من غزا البحر ومنقبۃ لو لدہ لانہ من غزا مدینۃ قیصر وتعقبہ ابن التین وابن المنیر بما حاصلہ انہ لایلزم من دخولہ فی ذالک المعموم ان لا یخرج بدلیل خاص اذ لا یختلف اہل العلم ان قولہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مغفور لہم مشروط بان تکونوا من اہل المغفرۃ حتی لو ارند واحد ممن غزا ہا بعد ذالک لم یدخل فی ذالک العموم اتفاقاً فدل علی ان المراد مغفور لمن وجد شرط المغفرۃ فیہ منہم ۔

ترجمہ : قولہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قد اوجبوا ‘‘ ان کےلیے جنت واجب ہے ۔ مدینہ قیصر یعنی ملک روم ، قسطلانی فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے مدینہ قیصر پر یزید بن معاویہ نے جہاد کیا ۔ اس کے ساتھ سادات صحابہ کی ایک جماعت تھی ۔ مثلا حضرت ابن عمر ، ابن عباس ، ابن زبیر اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہم ۔ اور آپ کا انتقال بھی ۵۲ ہجری میں وہیں پر ہوا ۔ خیرالباری اور فتح الباری میں ہے کہ مہلب نے کہا کہ اس حدیث میں حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ کی منقبت ہے کیونکہ انہوں نے سب سے پہلے بحری لڑائی کی اور آپ کے بیٹے (یزید) کی منقبت ہے کہ اس نے قسطنطنیہ میں جنگ کی ابن تین اور ابن منیر نے مہلب کا تعاقب کیا اور انہوں نے کہا کہ اس عموم میں داخل ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ کسی دلیل خاص سے اس بشارت سے خارج نہ ہو سکے کیونکہ اہلِ علم کا اس میں ہرگز کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمان اہلیت مغفرت کے ساتھ مشروط ہے حتی کہ اگر ان (مجاہدین) میں سے کوئی مرتد ہو جائے تو وہ اس (بشارت) کے عموم سے ہرگز داخل نہیں ہو گا ۔ پس ثابت ہوا کہ مغفور لہم کی بشارت انہی کےلیے ہے جن میں شرط مغفرت پائی جائے گی ۔ (بخاری شریف کی حدیث کا حاشیہ جلد اول صفحہ ۴۰)


علامہ قسطلانی نے بھی یہی کچھ لکھا اور مزید فرمایا کہ (یزید) بنو امیہ کی حمیت کی وجہ سے اس غزوہ پر گیا تھا ۔ (ارشاد الساری شرح بخاری ۵/۱۲۵،چشتی)


حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ نے بھی تقریبا یہی بات لکھی ہے ۔ (فتح الباری شرح بخاری ۱۲/۶۱)


علامہ بدرالدین عینی علیہ الرحمہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : وکان فی ذالک الجیش ابن عباس وابن عمرو ابن زبیر وابو ایوب الانصاری قلت الاظہروا ان ہؤلاء السادات من الصحابۃ کانوا مع سفیان ہذا فلم یکونوا مع یزید لانہ لم یکن اہلاً ان یکون ہولاء السادات فی خدمتہ قال المہلب فی ہذا الحدیث منقبۃ لمعاویۃ کان اول من غزا البحر ومنقبۃ لولدہ یزید لانہ اول من غزا مدینۃ قیصر قلت ای منقبۃ لیزید وحالہ مشہور فان قلت قال صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فی حق ہذا الجیش مغفور لہم قلت قیل لا یلزم من دخولہ فی ذالک العموم ان لا یخرج بدلیل خاص اذالا یختلف اہل العلم ان قولہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مغفور لہم مشروط بان یکوانو من اہل المغفرۃ حتی لو ارتد واحد ممن غزاہا بعد ذالک لم یدخل فی ذالک العموم فدل علی انا المراد مغفور لمن وجد شرط المغفرۃ منہم ۔

ترجمہ : اور اس لشکر میں ابن عباس ، ابن عمر ، ابن زبیر اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہم تھے ۔ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ سادات صحابہ حضرت سفیان بن عوف رضی ﷲ عنہ کی قیادت میں تھے ۔ نہ کہ یزید بن معاویہ کی سرکردگی میں کیونکہ یزید ہرگز اس قابل نہ تھا کہ سادات صحابہ اس کی سرکردگی میں ہوں ۔ مہلب نے کہا اس حدیث میں حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ کی منقبت ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے جنگ لڑی اور ان کے بیٹے یزید کی منقبت ہے جبکہ اس کا حال مشہور ہے ۔ اگر تم کہو کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس لشکر کےلیے ’’مغفور لہم‘‘ فرمایا تو ہم کہتے ہیں کہ عموم میں داخل ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ دلیل خاص سے خارج نہ ہو سکے ، کیونکہ اس میں اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد مغفور لہم مشروط ہے کہ وہ آدمی مغفرت کا اہل ہو ۔ حتیٰ کہ اگر غازیوں میں کوئی مرتد ہوجائے تو وہ اس عموم میں داخل نہیں رہتا ۔ پس ثابت ہوا کہ مغفرت اسی کےلیے ہے جو مغفرت کا اہل ہوگا ۔ (عمدۃ القاری شرح بخاری ۱۲/۱۰مطبوعہ مصر،چشتی)


یزید بن معاویہ جس لشکر میں شامل تھا وہ ۵۲ ہجری میں قسطنطنیہ پر حملہ آور ہوا تھا ۔ جبکہ پہلا حملہ اس سے بہت پہلے ہو چکا تھا ۔ جیسا کہ اوپر تفصیلاً ذکر کیا گیا ہے ۔ یزید والا لشکر ۵۲ ہجری میں حملہ آور ہوا تھا ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس لشکر میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ بھی شامل تھے اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ کا انتقال ۵۲ ہجری میں ہوا ۔


علامہ ابن کثیر دمشقی فرماتے ہیں : وذالک سنۃ ۵۲ہ اثنتین وخمسین ومعہم ابو ایوب فمات ہناک ۔ اسی سال ۵۲ ہجری میں ان کے ساتھ ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ بھی تھے اور آپ کا انتقال بھی وہیں ہوا تھا ۔ (البدایہ والنہایہ ۸/۵۹)


علامہ ذہبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : وکان ابو ایوب سنۃ ۵۲ ہجری

۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ کا انتقال ۵۲ ہجری میں ہوا ۔ (تذکرۃ الحفاظ ۱/۲۹)


علامہ ابن اثیر نے ۵۲ ہجری کے حوادث میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ کی وفات کا ذکر کیا ہے ۔ (ابن اثیر ۳/۴۹۲)


یزید کے حامی محمود احمد عباسی ناصبی خارجی نے بھی طبقات ابن سعد کے حوالے سے لکھا : وتوفی ابو ایوب انصاری عام غزا یزید ابن معاویۃ القسطنطنیۃ خلافۃ ابیہ سنۃ ۵۲ھ ۔ (خلافت معاویہ ویزید صفحہ ۷۹)


علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : وکانت غزوۃ یزید المذکورۃ فی سنۃ اثنتین فی خمیس من الہجرۃ وفی تلک الغزوۃ مات ابو ایوب الاناصری فاوحی ان یدفن عند باب القسطنطنیۃ ۔

ترجمہ : اور یزید کا مذکورہ غزوہ ۵۲ ھ میں ہوا ۔ اسی غزوہ میں ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ کا انتقال ہوا اور انہوں نے وصیت فرمائی کہ مجھے قسطنطنیہ کے دروازے کے پاس دفن کیا جائے ۔


ان تمام حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ یزید کے لشکر میں شامل تھے اور وہ لشکر ۵۲ھجری میں قسطنطنیہ پر حملہ آور ہوا اور اسی حملہ میں صحابی رسول حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ کی وفات ہوئی اور یہ قسطنطنیہ پر آخری حملہ تھا ۔ جبکہ مغفرت کی بشارت والی حدیث میں صراحت ہے کہ ’’پہلا لشکر جو ہو گا اس کی مغفرت ہوگی‘‘ دوسری طرف دیکھیے کہ یزید اس غزوہ میں شوق یا جوش جہاد سے نہیں گیا بلکہ مجاہدین کو پہنچنے والی تکالیف پر خوشی کا اظہار کرنے کی وجہ سے حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے اسے جبراً بھیجا تھا ۔


علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں : ۵۰ ہجری میں حصرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے ایک بہت بڑا لشکر حضرت سفیان بن عوف کی قیادت میں بلادِ روم پر حملے کےلیے بھیجا اور اپنے بیٹے یزید کو بھی اس میں شریک ہونے کو کہا لیکن اس نے بڑی گرانی محسوس کی تو اسے آپ نے چھوڑ دیا ۔ پھر لوگوں کو یہ اطلاع ملی کہ اس لشکر کے مجاہدین سخت بھوک اور بیماری کا شکار ہوئے ۔ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو اطلاع ملی کہ یزید نے اس لشکر کا حال سن کر یہ اشعار پڑھے : ⬇


مان ابا لی بمالاقت جمود عہم بالفد قد البید من الحمیٰ ومن شوم اذا اتطات علی الانماط مرتفقا بدید مران عندی ام کلثوم وہی امراتہ بنت عبدﷲ ابن عامر فخلف لیخلفن بہم فسار فی جمع کثیر

ترجمہ : مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ بخار اور بدقسمتی کی وجہ سے اس کھلے صحرا میں ان لشکروں پر کیا بیتی ۔ جبکہ میں نے دیر مران میں بلند ہو کر قالینوں پر تکیہ لگا لیا ۔ اور میرے پہلو میں ام کلثوم موجود ہے ۔ یہ عبدﷲ بن عامر کی بیٹی (اور یزید کی بیوی تھی) تو حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے قسم کھائی کہ یزید کو اس لشکر کے ساتھ بھیجیں گے چنانچہ جماعت کثیرہ کے ساتھ وہاں چلا گیا ۔ (تاریخ ابن خلدون ۳/۱۹،۲۰) 


علامہ ابن اثیر نے بھی یہی بات لکھی ہے ۔ (ابن اثیر ۳/۴۵۸)


اگر بالفرض یزید کو بشارت والی حدیث کا مصداق مان لیا جائے تو اس حدیث کا مفاد صرف یہ ہے کہ یزید کے اس وقت تک جتنے گناہ تھے ، وہ بخش دیے گئے ۔ بعد میں یزید کے افعالِ قبیحہ نے اسے اس بشارت سے محروم کر دیا کیونکہ جہاد ایک عمل خیر ہے جس سے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں ، لیکن بعد والے معاف نہیں ہوتے ۔


حضرت شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس حدیث پاک ’’مغفور لہم‘‘ سے بعض لوگوں نے یزید کی نجات پر استدلال کیا ہے کیونکہ وہ اس دوسرے لشکر میں شریک تھا بلکہ اس کا افسر و سربراہ تھا ۔ جیسا کہ تاریخ گواہی دیتی ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ اس حدیث سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس غزوہ سے پہلے جو اس نے گناہ کئے وہ بخش دیے گئے ، کیونکہ جہاد کفارات میں سے ہے اور کفارات کی شان یہ ہے کہ وہ سابقہ گناہوں کے اثر کو زائل کرتا ہے ۔ بعد میں ہونے والے گناہوں کے اثر کو نہیں ۔ ہاں اگر اسی کے ساتھ یہ فرما دیا ہوتا کہ قیامت تک کےلیے اس کی بخشش کر دی گئی ہے تو بے شک یہ حدیث اس کی نجات پر دلالت کرتی ۔ اور جب یہ صورت نہیں تو نجات بھی ثابت نہیں ، بلکہ اس صورت میں اس کا معاملہ ﷲ تعالیٰ کے سپرد ہے اور اس غزوہ کے بعد جن جن برائیوں کا وہ مرتکب ہوا ہے ، جیسے امام حسین رضی ﷲ عنہ کو شہید کروانا ، مدینہ طیبہ کو تاخت و تاراج کرانا ، شراب نوشی پر اصرار کرنا ، ان سب گناہوں کا معاملہ ﷲ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے ۔ چاہے تو معاف کرے ، چاہے تو عذاب دے ۔ جیسا کہ تمام گناہ گاروں کے حق میں یہ ہی طریقہ رائج ہے ۔ (شرح تراجم ابواب البخاری ص ۳۱،۳۲،چشتی)


یہی مفہوم علامہ قسطلانی نے ’’ارشاد الساری ۵/۱۲۵ ، اور علامہ بدرالدین عینی نے ’’عمدۃ القاری ۱۲/۱۰‘‘ میں فرمائی ہے ۔


غیر مقلدین کے محدث حافظ زبیر علی زئی نے ماہنامہ ’’الحدیث‘‘ شمارہ ۶ ص ۴ اور عبدﷲ دامانوی نے ماہنامہ ’’محدث‘‘ جنویر ۲۰۱۰ء صفحہ ۴۸ میں اور مولانا ارشاد الحق نے بھی ماہنامہ ’’محدث‘‘ اگست ۱۹۹۹ء میں یہی موقف اپنایا ہے کہ یزید اس حدیث کا مصداق نہیں اور نہ اس حدیث سے اس کی نجات ثابت ہے ۔


ﷲ تعالیٰ کی ذات غفور الرحیم ہے ۔ وہ مالک یوم الدین ہے ۔ وہ اگر یزید کو بخشنا چاہے تو اس کی مرضی ، لیکن قواعدِ شرعیہ کی رو سے عترتِ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قاتل ، مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تاخت و تاراج کرنے والے اور حرمِ کعبہ پر سنگ بازی کے مجرم یزید کو جنتی کہنا بہت بڑی جہالت ، سخت لادینیت ہے ۔


محترم قارٸینِ کرام : موجودہ دور نفسا نفسی اور فتنوں کا دور ہے ۔ روز بروز ایک نیا فتنہ اسلام کا نام لے کر کھڑا ہوتا نظر آرہا ہے ۔ موجودہ دور میں ماڈرن لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان ماڈرن لوگوں میں یہ بیماری ہے کہ وہ ماڈرن مذہبی اسکالرز کی بات کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج میڈیا پر خشخشی داڑھی والے غامدی‘ کوٹ پینٹ ٹائی والے ذاکر نائیک اور ہاتھوں میں بینڈ باجے لئے بابر چوہدری اور نجم شیراز جیسے لوگ جو نہ سند یافتہ عالم ہیں اور نہ ہی شکل اور حلیے سے مذہبی معلوم ہوتے ہیں۔ بھولے بھالے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ وہ روزانہ میڈیا پر ایک نیا شوشہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان لوگوں کو کوئی فسادی اور فرقہ پرست نہیں کہتا۔


آج کل انہی جیسے لوگوں نے یہ بات مشہور کردی ہے کہ یزید بے قصور آدمی تھا ۔ یزید کے لئے تو جنت کی بشارت دی گئی ہے وہ قتل حسین پر راضی نہ تھا۔ ان کے اس میٹھے زہر کا مقابلہ ہم آج اس مضمون میں کریں گے اور احادیث‘ جید تابعین اور علمائے امت کے اقوال کی روشنی میں یہ ثابت کریں گے جس یزید کو ناصبی اپنی آنکھ کا تارا تصور کرتے ہیں وہ دین اسلام کی اصل شکل کو مسخ کرنے کے ارادے سے حکمرانی کررہا تھا۔


یزید کا مختصر تعارف


حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ یزید بیٹا معاویہ بن ابی سفیان صخربن حرب بن امیہ بن عبد شمس ہے ‘کنیت اس کی ابو خالد ہے۔ یزید حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں پیدا ہوا (تہذیب التہذیب لابن حجر عسقلانی جلد 11 صفحہ 360)


یزید احادیث کی روشنی میں


حضرت ابوعبیدہ رضی  ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کا امر (حکومت) عدل کے ساتھ قائم رہے گا۔ یہاں تک کہ پہلا شخص جو اسے تباہ کرے گا وہ بنی امیہ میں سے ہوگا جس کو یزید کہا جائے گا ۔ (مسند ابو یعلیٰ حدیث نمبر 872ص 199،چشتی)(مجمع الزوائد جلد 5ص 241)(تاریخ الخلفاء ص 159‘ الصواعق المحرقہ ص 221)


محدث امام رٶیانی نے اپنی مسند میں حضرت ابو درداء رضی ﷲ عنہ سے روایت کیا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ پہلا وہ شخص جو میرے طریقے کو بدلے گا وہ بنی امیہ میں سے ہوگا جس کو یزید کہا جائے گا ۔ (جامع الصغیر جلد اول صفحہ 115)(تاریخ الخلفاء صفحہ 160‘چشتی)(ماثبت من السنہ صفحہ 12)


حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ‘ سن ساٹھ کے آغاز سے تم لوگ ﷲ تعالیٰ کی پناہ مانگنا اس وقت دنیا (حکومت) احمق اور بدعادت کےلیے ہوگی ۔ (خصائص کبریٰ جلد دوم صفحہ 139)


علامہ قاضی ثناء ﷲ پانی پتی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : چھوکروں اور احمقوں کی حکومت سے مراد یزید کی حکومت کی طرف اشارہ ہے ۔ (تفسیر مظہری جلد اول صفحہ 139)


یزید جید تابعین کی نظر میں


حضرت عبدﷲ بن حنظلہ رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ : خدا تعالیٰ کی قسم ! ہم یزید کے خلاف اس وقت اٹھ کھڑے ہوئے جبکہ ہمیں یہ خوف لاحق ہو گیا کہ اس کی بدکاریوں کی وجہ سے ہم پر آسمان سے پتھر نہ برس پڑیں کیونکہ یہ شخص (یزید) ماٶں ‘ بیٹیوں اور بہنوں کے ساتھ نکاح جائز قرار دیتا اور شراب پیتا اور نمازیں چھوڑ دیتا تھا ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 207)(الصواعق المحرقہ صفحہ 134)(طبقات ابن سعد جلد 5 صفحہ 66،چشتی)


حضرت منذر بن زبیر رضی ﷲ عنہ نے علی الاعلان لوگوں کے سامنے کہا ’’بے شک یزید نے مجھے ایک لاکھ درہم انعام دیا مگر اس کا یہ سلوک مجھے اس امر سے باز نہیں رکھ سکتا کہ میں تمہیں اس کا حال نہ سناٶں ۔ خدا کی قسم وہ شراب پیتا ہے اور اسے اس قدر نشہ ہو جاتا ہے کہ وہ نماز ترک کر دیتا ہے ۔ (ابن اثیر جلد چہارم صفحہ 42،چشتی)(وفاء الوفاء جلد اول صفحہ 189)


حضرت عبدﷲ بن زبیر رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں خدا کی قسم ! بلاشبہ انہوں نے ایسے شخص کو قتل کیا جو قائم اللیل اور صائم النہار تھے جو ان سے ان امور کے زیادہ حقدار تھے اور اپنے دین و فضیلت و بزرگی میں ان سے بہتر تھے۔ خدا کی قسم! وہ قرآن مجید کے بدلے گمراہی پھیلانے والے نہ تھے ۔ ﷲ تعالیٰ کے خوف سے ان کی مجلسوں میں ذکر الٰہی کے بجائے شکاری کتوں کا ذکر ہوتا تھا ۔ یہ باتیں انہوں نے یزید کے متعلق کہی تھیں ۔ پس عنقریب یہ لوگ جہنم کی وادی غیّ میں جائیں گے ۔ (ابن اثیر جلد چہارم صفحہ 40،چشتی)


نوفل بن ابو انضرت نے فرمایا : میں پہلی صدی کے مجدد حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی ﷲ عنہ کے پاس تھا ۔ پس ایک شخص نے آکر یزید کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کو یوں کہا ۔ امیرالمومنین یزید بن معاویہ‘‘ یہ سننا تھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی ﷲ عنہ غضبناک ہوئے ۔ آپ نے فرمایا تو یزید کو امیرالمومنین کہتا ہے ۔ پھر آپ کے حکم پر اس کو بیس کوڑے مارے گئے ۔ (الکامل جلد سوم صفحہ 277،چشتی)(تہذیب التہذیب جلد 11 صفحہ 361‘ تاریخ الخلفاء صفحہ 160)(ماثبت من السنہ صفحہ 13)


یزید علمائے اسلام اور محدثین کی نظر میں


حضرت امام احمد بن حنبل رضی ﷲ عنہ متوفی 241ھ نے اپنے فرزند کو فرمایا : کیوں لعنت نہ کی جائے اس یزید پر جس پر ﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں لعنت کی ہے ۔ آپ کے بیٹے نے عرض کیا ﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کہاں یزید پر لعنت کی ہے ؟ آپ نے فرمایا سورہ محمد کی ان آیات میں : ترجمہ : تو کیا تمہارے لچھن (کردار) نظرآتے ہیں اگر تمہیں حکومت ملے تو زمین میں فساد پھیلائو اور ایسے رشتے دار کاٹ دو۔ یہ ہیں وہ لوگ جن پر ﷲ نے لعنت کی اور انہیں حق سے بہرا کردیا اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں (سورہ محمد آیت 23-22)


اس آیت کی تفسیر میں مشہور مفسر امام سید محمود آلوسی حنفی متوفی 1270ھ فرماتے ہیں : یعنی سورہ محمد کی ان آیات سے استدلال کیا گیا ہے کہ یزید پر لعنت جائز ہے اور میں یزید جیسے فاسق ‘ فاجر پر لعنت شخص کی طرف جاتا ہوں کیونکہ یزید کی توبہ کا احتمال اس کے ایمان کے احتمال سے بھی زیادہ ضعیف ہے اور یزید کے ساتھ ابن زیاد‘ ابن سعد اور یزید کی ساری جماعت شریک ہے ۔ پس ﷲ کی لعنت ہو ‘ ان سب پر اور ان کے مددگاروں پر اور ان کے حامیوں پر اور ان کے حامیوں پر اور ان کے گروہ پر اور قیامت تک جو بھی ان کی طرف مائل ہو ‘ ان سب پر ﷲ کی لعنت ہو ۔ (تفسیر روح المعانی جلد 26 صفحہ 72،چشتی)


علامہ حافظ ابن کثیر دمشقی متوفی 774ھ نے لکھا ہے۔ یعنی یزید نے ابن زیاد کو حکم دیا تھا کہ جب تو کوفہ پہنچ جائے تو مسلم بن عقیل رضی ﷲ عنہ کو تلاش کرکے قتل کر دینا ۔ (البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 152)

ابن زیاد نے (یزید کے حکم کے مطابق) حضرت مسلم بن عقیل رضی ﷲ عنہ کو قتل کرایا ‘ ابن زیاد نے حضرت ہانی کو سوق الغنم میں شہید کرایا ۔ (البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 157)


یزید نے ان بزرگوں کو قتل کر دینے پر ابن زیاد کا شکریہ ادا کیا (شہید کربلا از مفتی شفیع دیوبندی)


گیارہویں صدی کے مجدد محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ متوفی 1052ھ فرماتے ہیں : ایک طبقہ کی رائے یہ ہے کہ قتل حسین دراصل گناہ کبیرہ ہے کیونکہ ناحق مومن کا قتل کرنا گناہ کبیرہ میں آتا ہے‘ کفر میں نہیں آتا مگر لعنت تو کافروں کے لئے مخصوص ہے ایسی رائے کا اظہار کرنے والوں پر افسوس ہے ۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کلام سے بھی بے خبر ہیں کیونکہ حضرت فاطمہ رضی ﷲ عنہا اور اس کی اولاد سے بغض و عداوت اور انہیں تکلیف دینا توہین کرنا باعث ایذا و عداوت نبی ہے ۔ اس حدیث کی روشنی میں یہ حضرات‘ یزید کے متعلق کیا فیصلہ کریں گے ؟ کیا اہانتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور عداوت رسول کفر اور لعنت کا سبب نہیں ہے ؟ اور یہ بات جہنم کی آگ میں پہنچانے کےلیے کافی نہیں ؟ ۔ (تکمیل الایمان صفحہ نمبر 178،چشتی)


امام جلال الدین سیوطی متوفی 911ھ فرماتے ہیں : ﷲ تعالیٰ کی لعنت ہو امام حسین رضی ﷲ عنہ کے قاتل ابن زیاد اور یزید پر امام حسین رضی ﷲ عنہ کربلا میں شہید ہوئے اور آپ کی شہادت کا قصہ طویل ہے ۔ دل اس ذکر کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 80)


امام ربانی مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ متوفی 1043ھ فرماتے ہیں : یزید بے دولت از اصحاب نیست در بد بختی اوکر اسخن کارے کہ آں بدبخت کردہ ہیچ کا فرفرنگ نہ کند ، یعنی یزید بے دولت صحابہ کرام میں سے نہیں ۔ اس کی بدبختی میں کس کو کلام ہے جو کام اس نے کئے ہیں کوئی کافر فرنگی بھی نہ کرے گا ۔ (مکتوبات امام ربانی جلد اول صفحہ 54،چشتی)


علامہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ متوفی 1239ھ فرماتے ہیں : پس انکار کیا امام حسین رضی ﷲ عنہ نے یزید کی بیعت سے کیونکہ وہ فاسق ‘ شرابی اور ظالم تھا اور امام حسین رضی ﷲ عنہ مکہ شریف تشریف لے گئے ۔ (سر الشہادتیں صفحہ 12)


امام طاہر بن احمد بن عبدالرشید بخاری متوفی 542ھ فرماتے ہیں : یزید پر لعنت کرنے کے بارے میں امام علامہ قوام الدین الصنعاری علیہ الرحمہ اپنے والد سے حکایت بیان کرتے ہیں کہ یزید پر لعنت کرناجائز ہے اور فرماتے ہیں یزید پلید پر لعنت کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ (خلاصتہ الفتاویٰ جلد چہارم صفحہ 390)


حضرت عبدالرحمن جامی علیہ الرحمہ متوفی 898ھ فرماتے ہیں : یعنی یزید پر سو لعنتیں ہوں اور بھی ۔ (تذکرہ مولانا عبدالرحمن جامی صفحہ 66)


چودھویں صدی کے مجدد امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : یزید کو اگر کوئی کافر کہے تو ہم منع نہیں کریں گے اور خود نہ کہیں گے ۔ (الملفوظ حصہ اول صفحہ 114)


دوسرے مقام پر فرماتے ہیں : یزید پلید کے بارے میں ائمہ اہلسنت کے تین اقوال ہیں ۔ امام احمد ابن حنبل علیہ الرحمہ وغیرہ اکابر اسے کافر جانتے ہیں تو ہرگز بخشش نہ ہوگی اور امام غزالی علیہ الرحمہ وغیرہ مسلمان کہتے ہیں تو اس پر کتنا ہی عذاب ہو ‘ بالاخر بخشش ضرور ہوگی اور ہمارے امام ‘ امام اعظم ابوحنیفہ رضی ﷲ عنہ سکوت (خاموشی) فرماتے ہیں کہ ہم نہ مسلمان کہیں نہ کافر (رحمة ﷲ علیہ) بھی نہ کہیں لہٰذا یہاں بھی سکوت کریں گے ۔ (احکام شریعت صفحہ 88)


محترم قارٸینِ کرام : فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی ادنیٰ خادمِ اہلبیتِ اطہار رضی الللہ عنہم نے آپ کے سامنے احادیث مباتکہ ‘ اقوال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور علمائے اسلام علیم الرحمہ کے اقوال کی روشنی میں یزید پلید کی شدید مذمت بیان کی ۔ اب فیصلہ ہر کلمہ پڑھنے والا مسلمان خود کرے ‘ ہم اکابر محدثین کی بات مانیں یا موجودہ دور کے نام نہاد مذہبی اسکالر اور وہ بھی کوٹ پتلون اور ٹائی میں ملبوس فیشن ایبل لوگوں کی ؟ ہرگز نہیں ۔ ہرگز نہیں ۔ ہم تو اکابرین اور محدثین علیہم الرحمہ کی بات مانیں گے ۔


یہ بات فقیر نے اس لیے کہی کہ 2008ء کے اوائل میں ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اپنے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’’کربلا کی جنگ سیاسی جنگ تھی‘‘ اس کے بعد یزید کو رحمة ﷲ علیہ کہا (اس کی ویڈیو یٹیوب پر موجود ہے) ۔ ذاکر نائیک کے ان الفاظ پر پوری دنیا کے علماء کرام اورمفتیان کرام نے ذاکر نائیک کو گمراہ اور بے دین قرار دیا ۔ پہلے تو ذاکر نائیک نے اس فتوے کو کوئی اہمیت نہ دی مگر جب پوری دنیا سے اس کے جواب کی مذمت کی گئی تو فورا اس نے یہ کہا کہ جو فتویٰ مجھ پر لگاتے ہو ‘ وہی فتویٰ حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ پر بھی لگاٶ ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ذاکر نائیک نے حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ کا فتویٰ یزید کے متعلق صحیح پڑھا اور سمجھا ہی نہیں ہے لہٰذا امام غزالی علیہ الرحمہ کا یزید کے متعلق فتویٰ ملاحظہ ہو : ⬇


حجتہ الاسلام امام غزالی علیہ الرحمہ کا فتویٰ


اگر کوئی پوچھے کہ امام حسین رضی ﷲ عنہ کے قاتل اور آپ کے قتل کا حکم دینے والے پر ﷲ تعالیٰ کی لعنت ہو ‘ کہنا جائز ہے ؟ ہم کہتے ہیں کہ حق بات یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ آپ رضی ﷲ عنہ کا قاتل اگر توبہ کر کے مرا ہے تو اس پر خدا کی لعنت نہ ہو کیونکہ یہ ایک احتمال ہے کہ شاید اس نے توبہ کرلی ہو ۔ (احیاء العلوم جلد 3 صفحہ 122 مطبوعہ مصر)


امام غزالی علیہ الرحمہ کے فتوے سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوئیں : ⬇


1 ۔ پہلی بات یہ ثابت ہوئی کہ حضرت امام حسین رضی ﷲ عنہ کا قتل ناحق تھا (لہٰذا ثابت ہوا کہ ناحق قتل کرنے والے یزید اور یزیدی ظالم اور قاتل تھے ورنہ قاتل پر خدا کی لعنت جائز نہ ہوتی ۔


 2 ۔ دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ توبہ کی قید لگانا امام غزالی علیہ الرحمہ کے کمال تقویٰ کی دلیل ہے ۔


3 ۔ تیسری بات یہ ہے کہ آپ نے پورے فتوے میں ذاکر نائیک کی طرح معرکہ کربلا کو سیاسی جنگ قرار نہیں دیا ۔


4 ۔ چوتھی بات یہ ہے کہ آپ نے پورے فتوے میں ذاکر نائیک کی طرح یزید کو ’’رحمة ﷲ علیہ‘‘ نہیں کہا ۔


5 ۔ پانچویں بات یہ ہے کہ یزید اور قاتلانِ حسین رضی ﷲ عنہ کی توبہ کہیں سے بھی ثابت نہیں لہذا امام غزالی کے فتوے کے مطابق امام حسین رضی ﷲ عنہ کے قاتل اور آپ کے قتل کا حکم دینے والے پر ﷲ تعالیٰ کی لعنت ہو۔


یزید کو نادم اور بے قصور کہنے والوں سے فقیر چشتی کے کچھ سوالا اب تک ہیں جواب کے منتظر ؟


سوال : یزید اگر ظالم نہ تھا تو اس نے صحابی رسول حضرت نعمان بن بشیر رضی ﷲ عنہ کو معزول کرکے ابن زیاد کو کوفے کا گورنر کیوں بنایا ؟


سوال : اگر اس کے کہنے پر سب کچھ نہیں ہوا تو اس نے معرکہ کربلا کے بعد ابن زیاد ‘ ابن سعد اور شمر کو سزائے موت کیوں نہیں دی ؟


سوال : معرکہ کربلا کے بعد اہلبیت کی خواتین کو قیدیوں کی طرح کیوں رکھا گیا ؟


سوال : حضرت سیدہ زینب رضی ﷲ عنہا کے سامنے اپنی فتح کا خطبہ کیوں پڑھا ؟


سوال : جب اس کے دربار میں امام حسین رضی ﷲ عنہ کا سر انور لایا گیا تو اس پر اس نے چھڑی کیوں ماری ؟


سوال : اگر یزید بے قصور تھا تو اس نے گھرانہ اہلبیت سے معافی کیوں نہیں مانگی ؟


سوال : معرکہ کربلا کے بعد مسجدِ نبوی کی بے حرمتی کیوں کی گئی ؟ اور امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے تاریخ الخلفاء میں لکھا کہ مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے گئے ۔


سوال : بیت ﷲ پر یزید نے سنگ باری کیوں کروائی ؟ امام سیوطی علیہ الرحمہ کے مطابق بیت ﷲ میں آگ لگی اور غلافِ کعبہ جل گیا ۔ (تاریخ الخلفا)


کیا یزید کےلیے جنت کی بشارت دی گئی تھی ؟


بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فاتح قسطنطنیہ کو جنت کی بشارت دی تھی اور یزید بھی اس لشکر میں شامل تھا لہذا وہ جنتی ہوا ۔


حدیث قسطنطنیہ ملاحظہ ہو : ⬇


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میری امت کا وہ لشکر بخش دیا جائے گا جو قیصر کے شہر پر سب سے پہلے حملہ کرے گا ۔ (صحیح بخاری‘ جلد اول کتاب الجہاد باب ماقیل فی قاتل الروم ص 410)


تفصیلی جواب ہم عرض کر چکے ہں مزید پڑھیں قیصر کے شہر سے مراد کون سا شہر ہے ؟


قیصر کے شہر سے مراد وہ شہر ہے جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشاد کے وقت قیصر کا دارالمملکت تھا اور وہ حمص تھا ۔ (فتح الباری جلد ششم صفحہ 128)


قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے پہلے لشکر میں کیا یزید شامل تھا ؟


البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 31 پر ہے کہ قسطنطنیہ پر پہلا حملہ 43 ھجری میں حضرت بسر بن ارطاہ رضی ﷲ عنہ کی قیادت میں ہوا تھا ۔ (البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 31)


قسطنطنیہ پر دوسرا حملہ 46 ھجری میں کیا گیا تھا۔ علامہ ابن اثیر متوفی 630 ھجری لکھتے ہیں : یعنی 49 ھجری اور کہا گیا 50 ھجری میں حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے ایک بڑا بلادِ روم کی جانب جنگ کےلیے بھیجا ۔ اس کا سپہ سالار سفیان بن عوف رضی ﷲ عنہ کو بنایا ۔ اپنے بیٹے یزید کو حکم دیا کہ ان کے ساتھ جائے تو وہ بیمار بن گیا اور عذر کر دیا ۔ اس پر اس کے باپ رہ گئے ۔ لوگوں کو بھوک اور سخت بیماری لاحق ہو گئی ۔ یہ سن کر یزید نے یہ اشعار پڑھے : ⬇


مقام فرقدونہ میں لشکر پر کیا بلا ترمہ اشعار : نازل ہوئی ‘ بخار آیا کہ سرسام میں مبتلا ہوئے ۔ مجھے کچھ پرواہ نہیں جبکہ میں اونچی قالین پر دیر سران میں بیٹھا ہوں اور ام کلثوم میرے بغل میں ہے ۔


ام کلثوم یزید کی بیوی تھی ۔ جب حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے یہ اشعار سنے تو یزید کو قسم دی کہ ارض روم جا کر سفیان کے ساتھ ہو جا تاکہ تو بھی ان مصائب سے دوچار ہو ‘ جن سے غازیان اسلام ہوئے ۔ اب مجبور ہو کر یزید گیا ۔ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ نے اس کے ساتھ ایک بڑی جماعت کردی ۔ (الکامل فی التاریخ جلد سوم صفحہ نمبر 131،چشتی)


نتیجہ : اب یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ یزید پہلے جیش میں نہیں بلکہ اس کے بعد والے جیش میں بطور ایک معمولی سپاہی اور بادلِ ناخواستہ شریک ہوا ۔


اگر بالفرض یہ بھی مان لیں کہ یزید اول جیش میں بھی شریک تھا تو اس حدیث کی وجہ سے کیا وہ جنتی ہے ؟


اُصولِ فقہ کی کتابوں میں یہ مسئلہ موجود ہے کہ ’’مامن عام الاخص منہ البعض‘‘ یعنی عموم ایسا نہیں جس میں سے بعض افراد مخصوص نہ ہوں ۔ معلوم ہوا کہ ہر عموم سے بعض افراد مخصوص ضرور ہوتے ہیں ۔ اس اُصول کی بناء پر حفاظ حدیث قسطنطنیہ والی حدیث کے ماتحت فرماتے ہیں : یزید کا اس عموم میں داخل ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ کسی دلیل خاص سے اس عموم سے خارج نہیں ہو سکتا کیونکہ اہل علم میں سے کسی نے اختلاف نہیں کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا قول مغفور لہم مشروط ہے مطلق نہیں ۔ وہ یہ کہ مغفور لہم وہ ہے جو بخشش کے اہل ہوں ۔ اگر کوئی فرد لشکر کا مرتد (بے ایمان) ہوجائے وہ اس بشارت مغفرت میں داخل نہیں ہو گا ۔ اس بات پر تمام علماء امت کا اتفاق ہے ۔ پس یہ اتفاق اس بات کی دلیل ہے کہ لشکرِ قسطنطنیہ کا وہ شخص مغفرت یافتہ ہے جس میں مغفرت کی شرائط مرتے وقت تک پائی جائیں ـ (فتح الباری جلد 11صفحہ 92 مطبوعہ نولکشور ہندوستان،چشتی)


محدثین اور حفاظ کے فیصلے کی مزید توفیق


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ : انسان زبان سے ’’لاالہ الا اﷲ‘‘ کہہ دے وہ جنتی ہے ۔ مرزا قادیانی کے ماننے والے بھی کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں وہ کافر کیوں ؟


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمانا کہ میری امت کے تہتر فرقے ہوں گے ۔ یہ فرمان اس بات کی دلیل ہے کہ وہ تمام فرقے ’’لاالہ الا اﷲ‘‘ کہنے والے ہوں گے لیکن پھر بہتر (72) جہنمی کیوں ؟

بات دراصل یہ ہے کہ جو شخص کلمہ طیبہ پڑھے اور مرتے دم تک مرتد (بے ایمان) نہ ہو‘ وہ جنتی ہے ۔ فقیر چشتی نے آپ کے سامنے تابعین اور علمائے امت علیہم الرحمہ کے یزید کے متعلق تاثرات پیش کر دیے ہیں ۔ اگر اب بھی کوئی زبردستی یزید کو رحمة ﷲ علیہ ‘ امیر المومنین اور جنتی کہے تو اسے چاہئے کہ وہ یہ دعا کرے کہ : ⬇


یا ﷲ  میرا حشر قیامت کے دن یزید کے ساتھ فرما ؟


یزید لعین کے متعلق اس کے سگے بیٹے کی رائے : ⬇


یزید کے بیٹے نے چند دن حکومت میں رہ کر حکومت سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے کہا کہ میرے باپ یزید نے حکومت سنبھالی حالانکہ وہ اس قابل نہ تھا ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے امام حسین رضی اللہ عنہ سے اس نے جنگ کی اور اس کی عمر کم ہوگئی ، اور وہ اپنے گناہوں کو لے کر قبر میں جا پھنسا ، پھر یزید کا بیٹا روپڑ ا، کہا ہمارے لیے بڑ ا صدمہ یزید کے بُرے انجام کا ہے اس نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عزت کو قتل کیا ، شراب کو حلال کیا ، کعبہ کو تباہ کیا ۔ (صواعق المحرقہ صفحہ 224)


نوٹ اب کیا کہتے ہیں یزید کے حواری اور اس کی ناجائز روحانی اولادیں جواب دلیل سے دیں ؟ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...