نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کی خبر دے دی تھی اور اس حدیث پر اعتراض کا جواب
محترم قارئینِ کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کی خبر دے دی تھی اور آپ کی شہادت پر صدمہ ہوا اور بوقت شہادت کربلا میں موجود تھے ۔
اہلحدیث حضرات کے محقق علماء لکھتے ہیں : شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دے دی تھی اور بوقت شہادت امام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کربلا میں موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صدمہ ہوا ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 104 تحقیق حافظ زبیر علی زئی غیر مقلد اہلحدیث وہابی)
عن ام سلمة قالت قال رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يقتل حسين بن علي علي رأس سيتن من المهاجري ۔ (مجمع، 9 : 190)۔(بحواله طبراني في الاوسط)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسین بن علی کو ساٹھ ہجری کے اختتام پر شہید کر دیا جائے گا ۔
غیب کی خبریں بتانے والے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کی نشاندہی کردی کہ یہ عراق کا میدان کربلا ہوگا بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ یہ عظیم سانحہ 61 ہجری کے اختتام پر رونما ہوگا ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اکثر دعا فرمایا کرتے : اللهم انی اعوذبک من رائس الستين وامارة الصبيان ۔
ترجمہ : اے اللہ میں ساٹھ ہجری کی ابتدا اور (گنوار) لڑکوں کی حکومت سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔ (الصواعق الحرقه : 221)
60 ہجری کی ابتدا میں ملوکیت کی طرف قدم بڑھایا جاچکا تھا اور یہی ملوکیت وجہ نزاع بنی ۔ اور اصولوں کی پاسداری اور اسلامی امارت کے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خاطر نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو کربلا کے میدان میں حق کا پرچم بلند کرتے ہوئے اپنی اور اپنے جان نثاروں کی جانوں کی قربانی دینا پڑی۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ اہل حق کٹ تو سکتے ہیں کسی یزید کے دست پلید پر بیعت کرکے باطل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ وہ نیزے کی انی پر چڑھ کر بھی قرآن سناتے ہیں۔ ان کے بے گور و کفن لاشوں پر گھوڑے تو دوڑائے جاسکتے ہیں لیکن انہیں باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہیں کیا جاسکتا، یہی لوگ تاریخ کے چہرے کی تابندگی کہلاتے ہیں اور محکوم و مظلوم اقوام کی جدوجہد آزادی انہی نابغان عصر کے عظیم کارناموں کی روشنی میں جاری رکھتے ہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ 60 ہجری کی ابتدا سے پناہ مانگتے تھے کہ خلفائے راشدین کے نقش قدم سے انحراف کی راہ نکالی جا رہی تھی، لڑکوں کے ہاتھ میں عنان اقتدار دے کر اسلامی ریاست کو تماشا بنایا جا رہا تھا۔ کہ اب سنجیدگی کی جگہ لا ابالی پن نے لے لی تھی ۔
حضرت یحیٰ حضرمی کا ارشاد ہے کہ سفر صفین میں مجھے شیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا۔ جب ہم نینوا کے قریب پہنچے تو داماد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابو عبداللہ! فرات کے کنارے صبر کرنا میں نے عرض کیا ’’یہ کیا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے جبرئیل نے خبر دی ہے : ان الحسين يقتل بشط الفرات و اراني قبضة من تربته ۔
ترجمہ : حسین رضی اللہ عنہ فرات کے کنارے قتل ہوگا اور مجھے وہاں کی مٹی بھی دکھائی ۔ (الخصائص الکبریٰ 2 : 12،چشتی)
حضرمی روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت علی شیر خدا رک کر اس زمین کو دیکھنے لگے تو اچانک بلند آواز میں گویا ہوئے۔ ابو عبداللہ! حسین رضی اللہ عنہ بر کرنا۔ ہم سہم گئے ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے، آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ورطہ حیرت میں ڈوب گئے کہ یا الہی یہ ماجرا کیا ہے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ اس میدان کربلا میں میرا حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگا ۔
حضرت اصبغ بن بنانہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : اتينا مع علي موضع قبر الحسين فقال ههنا مناخ رکابهم و موضع رحالهم و مهراق دمائهم فئة من ال محمد صلي الله عليه وآله وسلم يقتلون بهذه العرصة تبکی عليهم السماء والارض ۔
ترجمہ : ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قبر حسین رضی اللہ عنہ کی جگہ پر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ ان کے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ اور یہ ان کے کجاوے رکھنے کی جگہ ہے اور یہ ان کے خون بہنے کا مقام ہے۔ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک گروہ اس میدان میں شہید ہوگا جس پر زمین و آسمان روئیں گے ۔ (الخصائص الکبری، 2 : 126،چشتی)(سر الشهادتين : 13)
گویا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل کا پورا نقشہ کھینچ دیا کہ یہاں پر وہ شہادت کے درجہ پر فائز ہوگا اور یہاں خاندان رسول ہاشمی کا خون بہے گا ۔
ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا ذکر پہلے ہوچکا ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حسین کو عراق میں قتل کردیا جائے۔ اور یہ کہ جبرئیل نے کربلا کی مٹی لاکر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : يا ام سلمه اذا تحولت هذه الترته دما فاعلمي ان ابني قد قتل فجعلتها ام سلمة في قارورة ثم جعلت تنظر اليها کل يوم و تقول ان يوما تحولين دما ليوم عظيم ۔
ترجمہ : اے ام سلمہ رضی اللہ عنہاجب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا قتل ہوگیا ہے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے اس مٹی کو بوتل میں رکھ دیا تھا اور وہ ہرروز اس کو دیکھتیں اور فرماتیں اے مٹی! جس دن تو خون ہوجائے گی وہ دن عظیم ہوگا ۔ (الخصائص الکبری، 2 : 125،چشتی)۔(سر الشهادتين، 28)۔( المعجم الکبير للطبرانی، 3 : 108)
حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے رونے کا سبب پوچھا اور کہا : کس شے نے آپ کو گریہ و زاری میں مبتلا کر دیا ہے؟ آپ نے کہا : میں نے خواب میں نبی اکرم صلی الله عليه وآله وسلم کی زیارت کی ہے۔ آپ صلی الله عليه وآله وسلم کا سر انور اور ریش مبارک گرد آلود تھی۔ میں نے عرض کی، یا رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم ، آپ صلی الله عليه وآله وسلم کی کیسی حالت بنی ہوئی ہے ؟ آپ صلی الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا : میں نے ابھی ابھی حُسین (رضی اللہ عنہ) کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے ۔ یہ حدیث ان کتب میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہیں ۔ (جامع ترمذی صفحہ نمبر 1028 حدیث نمبر3771 باب مناقب حسن و حسین (رضی اللہ عنہما) طبع الاولیٰٰ 1426ھ، دار الکتب العربی بیروت)۔(مستدرک امام حاکم تلخیص :علامہ ذہبی جلد 4 صفحہ 387 حدیث نمبر 6895 باب ذکر ام المومنین ام سلمہ //طبع قدیمی کتب خانہ پاکستان ، جز :5 ،چشتی)(تہذیب التہذیب ابن حجر عسقلانی جلد 2 صفحہ 356 طبع الاولی ھند)(البدایہ والنھایہ ابن کثیر محقق:عبدالمحسن ترکی جلد 11 صفحہ 574 طبع الاولیٰٰ 1418 ھ، جز:21 الھجر بیروت)
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ صلی الله عليه وآله وسلم غبار آلود دوپہر کے وقت خون سے بھری ہوئی ایک شیشی لیے ہوئے ہیں۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم فداک ابی و امی، یہ کیا ہے ؟ آپ صلی الله عليه وآله وسلم نے فرمایا، یہ حسین (رضی اللہ عنہما) اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے جسے میں آج صبح سے اکٹھا کر رہاہوں ۔ عمار کہتے ہیں کہ ہم نے حساب لگایا تو ٹھیک وہی دن شہادت امام حسینؑ کا روز تھا ۔ علامہ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس روایت کو امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی اسناد قوی ہیں۔ (البدایۃ والنھایۃ)
ابن ابی الدنیا نے عبداللہ بن محمد بن ہانی ابو عبد الرحمن نحوی سے، انہوں نے مہدی بن سلیمان سے اور انہوں نے علی بن زید بن جدعان سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عباس سو کر اٹھے تو “انا للہ و انا الیہ راجعون ” کہا اور کہنے لگے اللہ کی قسم امام حسین شہید کر دیے گئے ہیں۔ ان کے اصحاب نے پوچھا کہ اے ابن عباس ! کیوں کر؟ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم کو خون کی ایک شیشی لیے ہوئے خواب میں دیکھا ہے ۔ آپ صلی الله عليه وآله وسلم نے فرمایا کہ اے ابن عباس ! کیا تم جانتے ہو کہ میرے بعد میری امت کے اشقیاء نے کیا کیا؟ انہوں نے امام حسینؑ نے شہید کر دیا ہے۔ اور یہ اس کا اور اس کے اصحاب کا خون ہے جسے میں اللہ تعالی کے حضور پیش کروں گا۔ چنانچہ وہ دن اور گھڑی لکھ لی گئی۔ اس کے بعد چوبیس دن بعد مدینہ شریف میں یہ خبر آئی کہ امام حسین کو اسی دن اور اسی وقت میں شہید کیا گیا ۔ حمزہ بن زیارت نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ دونوں پیغمبر امام حسینؑ کے روضہ پر نماز پڑھ رہے ہیں۔ شیخ ابو نصر نے بالاسناد حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالہ سے بیان کیا کہ حضرت جعفر بن محمد نے فرمایا کہ حضرت حسین ؑ کی شہادت کے بعد آپ کی قبر انور پر ستر ہزار فرشتے اترے اور قیامت تک آپ کے کے لیے اشکباری کرتے رہیں گے۔ (البدایۃ والنھایۃ،چشتی)
عن ام سلمه قالت قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أخبرني جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بأرض العراق فقلت لجبرئيل ارني تربة الارض التي يقتل فيها، فجاء فهذه تربتها ۔ (البدايه والنهايه، 8 : 196 - 200)۔(کنز العمال، 12 : 126، ح : 34313)
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی ﷲ عنھا روایت کرتی ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے جبرئیل امین نے (عالم بیداری میں) بتایا کہ میرا یہ بیٹا حسین عراق کی سرزمین میں قتل کر دیا جائیگا میں نے کہا جبرئیل مجھے اس زمین کی مٹی لا کر دکھا دو جہاں حسین کو قتل کر دیا جائے گا پس جبرئیل گئے اور مٹی لا کر دکھا دی کہ یہ اس کے مقتل کی مٹی ہے۔
عن عائشة عنه انه قال أخبرنی جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بعدي بأرض الطف ۔
ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل امین نے مجھے خبر دی کہ میرا یہ بیٹا حسین میرے بعد مقام طف میں قتل کر دیا جائے گا ۔ (المعجم الکبير، 3 : 107، حدیث نمبر 2814)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی روایت بھی کم و بیش وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے، یہ بھی قتل حسین رضی اللہ عنہ کی اطلاع ہے۔ یہ روح فرسا اطلاع پا کر قلب اطہر پر کیا گزری ہوگی اس کا تصور بھی روح کے در و بام کو ہلا دیتا ہے، پلکوں پر آنسوؤں کی کناری سجنے لگتی ہے اور گلشن فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تباہی کا دلخراش منظر دیکھ کر چشم تصور بھی اپنی پلکیں جھکا لیتی ہے ۔
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام کے چشمان مقدس سے آنسو رواں تھے میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج کیا بات ہے چشمان مقدس سے آنسو رواں ہیں ؟ فرمایا کہ مجھے ابھی ابھی جبرئیل خبر دے گیا ہے کہ : ان امتک ستقتل هذا بأرض يقال لها کربلاء ۔ ترجمہ : آپ کی امت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس بیٹے حسین کو اس سر زمین پر قتل کر دے گی جس کو کربلا کہا جاتا ہے ۔ (المعجم الکبير، 3 : 109، ح : 2819)
شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کی خبر والی حدیث پر اعتراض کا جواب
محترم قارٸینِ کرام : تاریخ دمشق ابن عساکر کی روایت ہے : أخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنا أبو محمد الحسن بن علي إملاء ح ۔ وأخبرنا أبو نصر بن رضوان وأبو غالب أحمد بن الحسن وأبو محمد عبد الله بن محمد قالوا أنا أبو محمد الحسن بن علي أنا أبو بكر بن مالك أنا إبراهيم بن عبد الله نا حجاج نا حماد عن أبان عن شهر بن حوشب عن أم سلمة قالت كان جبريل عند النبي (صلى الله عليه وسلم) والحسين معي فبكى فتركته فدنا من النبي (صلى الله عليه وسلم) فقال جبريل أتحبه يا محمد فقال نعم قال جبرائيل إن أمتك ستقتله وإن شئت أريتك من تربة الأرض التي يقتل بها فأراه إياه فإذا الأرض يقال لها كربلا ۔
ترجمہ : شہر بن حوشب کہتا ہے کہ ام سلمة رضی الله عنہا نے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور حسین ان کے ساتھ تھے پس وہ روئے…جبریل نے بتایا کہ اپ کی امت اس بچے کو قتل کرے گی اور اپ چاہیں تو میں وہ مٹی بھی دکھا دوں جس پر قتل ہونگے پس اپ صلی الله علیہ وسلم کو زمین دکھائی اور اپ نے اس کو كربلا کہا ۔
ان دونوں روایات میں کی سند میں شہر بن حوشب ہے
النَّسَائِيُّ کہتے ہیں : لَيْسَ بِالقَوِيِّ، قوی نہیں .
ابْنُ عَدِيٍّ کہتے ہیں : لاَ يُحْتَجُّ بِهِ، وَلاَ يُتَدَيَّنُ بِحَدِيْثِهِ اس کی حدیث ناقابل دلیل ہے.
أَبُو حَاتِمٍ الرَّازِيُّ کہتے ہیں: وَلاَ يُحْتَجُّ بِهِ، اس کی حدیث نا قابل دلیل ہے . يَحْيَى بنِ مَعِيْنٍ: ثِقَةٌ کہتے ہیں . عَبْدِ اللهِ بنِ عَوْنٍ، قَالَ: إِنَّ شَهْراً تَرَكُوْهُ اس کو متروک کہتے ہیں ، الذھبی کہتے ہیں اس کی حدیث حسن ہے اگر متن صحیح ہو اور اگر متن صحیح نہ ہو تو اس سے دور رہا جائے کیونکہ یہ ایک احمق مغرور تھا ۔
پہلے ہم روایت پر بات کر لیں ۔ روایت یوں ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السّلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بتایا کہ آپ کی امت امام حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرے گی ، اور پھر وہ کربلا سے مٹی لے کر آئے ۔
بڑی مزے کی بات یہ کہ محقق الوہابیہ جناب شیخ ناصر الدین البانی نے اپنی کتاب ، سلسلہ احادیث صحیحیہ کے جلد 2، صفحہ 464 پر یہ حدیث باب کے طور پر لکھی
821 - " أتاني جبريل عليه الصلاة والسلام، فأخبرني أن أمتي ستقتل ابني هذا (يعني
الحسين) ، فقلت: هذا؟ فقال: نعم، وأتاني بتربة من تربته حمراء ".
ترجمہ : جبریل میرے پاس آئے اور خبر دی کہ میری امت میرے اس بیٹے یعنی حسین کو قتل کرے گ ے۔ اور پھر میرے لیے سرخ مٹی لے کر آئے ۔
اگلا باب محقق الوہابیہ جناب شیخ ناصر الدین البانی نے اس حدیث کے ساتھ باندھا
822 - " لقد دخل علي البيت ملك لم يدخل علي قبلها، فقال لي: إن ابنك هذا: حسين
مقتول وإن شئت أريتك من تربتة الأرض التي يقتل بها ".
ترجمہ : ایک فرشتہ گھر میں داخل ہوا، جب پہلے کبھی داخل نہیں ہوا تھا۔ اور اس نے کہا کہ آپ کا یہ بیٹا حسین قتل ہو گا۔ اگر آپ چاہیں، تو میں آپ کو وہاں کی مٹی لا کر دکھا سکتا ہوں ۔
اسی طرح کی ایک روایت مسند احمد، ج 44، ص 144 پر ہے ۔ شیخ شعیب نے اسے حسن حدیث قرار دیا ۔ نیز فضائل الصحابہ ، از امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ، ج 2، ص 965، روایت 1357 پر بھی ہے ۔ اور کتاب کے محقق وصی اللہ بن محمد عباس نے سند کو صحیح قرار دیا ۔
جلد 3، صفحہ 159 پر محقق الوہابیہ جناب شیخ ناصر الدین البانی اس حدیث سے باب قائم کرتے ہیں : 1171 - " قام من عندي جبريل قبل، فحدثني أن الحسين يقتل بشط الفرات ".
ترجمہ : جبریل میرے پاس کھڑے ہوئے اور کہا کہ امام حسین کو فرات کے کنارے قتل کیا جائے گا ۔
محترم قارئین : یاد رہے کہ ان ساری احادیث پر محقق الوہابیہ جناب شیخ ناصر الدین البانی نے بحث کر کے ثابت کیا ہے کہ یہ مستند ہے ۔
میں تو صرف آپ کو اس کا لب لباب دے رہا ہوں تاکہ نواصب اور یزید پلید کے حواریوں کی حقیقت آشکارہ ہو ۔
ایک روایت امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع الزوائد، ج 9، ص 120 پر تحریر فرمائی ہے : 15116 - عن أم سلمة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم جالسا ذات يوم في بيتي قال: “لا يدخل علي أحد”. فانتظرت فدخل الحسين، فسمعت نشيج رسول الله صلى الله عليه وسلم يبكي، فاطلعت فإذا حسين في حجره والنبي صلى الله عليه وسلم يمسح جبينه وهو يبكي، فقلت: والله ما علمت حين دخل، فقال: “إن جبريل عليه السلام كان معنا في البيت فقال: أفتحبه؟ قلت: أما في الدنيا فنعم، قال: إن أمتك ستقتل هذا بأرض يقال لها: كربلاء، فتناول جبريل من تربتها”. فأراها النبي صلى الله عليه وسلم فلما أحيط بحسين حين قتل ۔ صفحہ نمبر . 303 ، قال : ما اسم هذه الأرض؟ قالوا: كربلاء، فقال: صدق الله ورسوله، كرب وبلاء.،چشتی)
15117- وفي رواية: صدق رسول الله صلى الله عليه وسلم أرض كرب وبلاء.
رواه الطبراني بأسانيد ورجال أحدها ثقات.
ترجمہ : حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میرے گھر میں بیٹھے تھے ۔ مجھ سے فرمایا کہ کسی کو میرے پاس نہ آنے دو ۔ پھر امام حسین رضی اللہ عنہ اندر چلے گئے ۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے رونے کی آواز سنی ۔ میں داخل ہوئی ، اور کہا کہ مجھے علم نہیں کہ یہ کب داخل ہوئے ۔ انہوں نے کہا کہ جبریل میرے پاس اس گھر میں تھے ۔ اور مجھ سے پوچھا کہ آپ ان سے محبت کرتے ہیں ؟ میں نے کہا کہ اس دنیا میں ہاں ۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی امت ان کق کربلا نامی زمین میں قتل کر دے گی۔ پھر جبریل وہاں سے مٹی لائے۔ پھر جب امام حسین رضی اللہ عنہ قتل ہونے لگے تو انہوں نے پوچھا کہ اس زمین کا کیا نام ہے ؟ بتایا گیا : کربلا ۔ انہوں نے کہا اللہ و رسول نے سچ کہا ، کرب و بلا ، اور دوسری روایت میں ہے کہ رسول نے سچ کہا کرب و بلا ، طبرانی نے اسے مختلف سندوں کے ساتھ لکھا ، اور ایک کے راوی ثقہ ہیں ۔
تو جناب من : یہ ہے آئمہ محدثین علیہم الرّحمہ کے ارشادات ہیں اور دوسری طرف یہ یزید کے وکیل ناصبی و خارجی ہیں کہ کسی ہر صورت دھوکہ دینے کے چکرمیں ہیں ۔
جہاں تک سوال ہے شہر ابن حوشب کا ، تو بڑے بڑے علماء نے انہیں ثقہ کہا
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اپنی تہذیب التہذیب میں لکھتے ہیں کہ یہ مسلم ، اور 4 کتب یعنی ابن ماجہ، ابی داؤد ، نسائی ، اور ترمذی کے راوی ہیں ۔ نیز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کیا کہ وہ کہتے ہیں کہ شہر ابن حوشب حسن الحدیث ہیں ، اور اپنے امر میں قائم ہیں ۔ یحیی ابن معین نے کہا کہ وہ ثقہ ہیں ۔ عجلی نے کہا کہ وہ ثقہ ہیں ۔ یعقوب ابن شیبہ نے کہا کہ وہ ثقہ ہیں ۔ یعقوب بن سفیان نے کہا کہ وہ ثقہ ہیں ۔ ابو زرعہ نے کہا ان میں کوئی برائی نہیں ۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ کوئی برائی نہیں ، اسی طرح انہوں نے خود امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کا قول لکھا کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ لیس بالقوی تھے ۔یاد رہے کہ لیس بالقوی اور لیس بقوی میں فرق ہے ۔ لیس بالقوی کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ راوی ضعیف ہے ۔
مشہور عالم ، معلمی اپنی کتاب التنكيل لما في تأنيب الكوثري من أباطيل، ج 1، ص 442 پر لکھتے ہیں : أقول : عبارة النسائي: «ليس بالقوي» وبين العبارتين فرق لا أراه يخفي على الأستاذ ولا على عارف بالعربية، فكلمة «ليس بقوي» تنفي القوة مطلقاً وأن لم تثبت الضعف مطلقاً، وكلمة «ليس بالقوي» إنما تنفي الدرجة الكاملة من القوة، والنسائي يراعي هذا الفرق فقد قال هذه الكلمة في جماعة أقوياء منهم عبد ربه بن نافع وعبد الرحمن بن سليمان بن الغسيل فبين ابن حجر في ترجمتيها من (مقدمة الفتح) أن المقصود بذلك أنهما ليسا في درجة الأكابر من أقراهما، وقال في ترجمة الحسن بن الصباح : «وثقه أحمد وأبو حاتم، وقال النسائي: صالح، وقال في الكنى: ليس بالقوي. قلت: هذا تليين هين، وقد روى عنه البخاري وأصحاب (السنن) إلا ابن ماجة ولم يكثر عنه البخاري» .،چشتی)
ترجمہ : میں کہتا ہوں کہ نسائی کے لیس بالقوی کہنے، اور لیس بقوی کہنے میں فرق ہے---لیس بقوی راوی کی قوت کی مکمل نفی کرتا ہے، مگر اس میں قطعی ضعف ثابت نہیں کرتا، جبکہ لیس بالقوی کامل قوت کے درجے سے راوی کی نفی کرتا ہے۔ نسائی ان دونوں لفظوں میں فرق کرتے تھے، اور اس وجہ سے اس جماعت کے لیے بھی استعمال کیا جو کہ کافی قوی تھے جیسے کہ عبد ربہ، عبدالرحمن ۔
آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ جب آپ کسی کے بارے میں کہیں لیس بالقوی ، اس سے یہ سامنے آتا ہے کہ وہ اس قدر بھی قوی نہیں ، اگرچہ ثقہ ہے ، مگر اس درجے تک قوت کے نہیں پہنچاتا لیس بقوی قوت کی مکمل نفی کر دیتا ہے ۔
امام ذھبی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک کتاب لکھی ، ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق ، یعنی وہ لوگ کہ جن کے بارے میں کلام کیا گیا ، مگر وہ ثقہ ہیں ۔ اس کے صفحہ 100، راوی نمبر 161 پر انہوں نے شہر بن حوشب کا نام درج کیا ۔ نیز، ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں اپنی تقریب التہذیب، ج 1، ص 269 پر صدوق مگر وہمی کہا ۔ خیر ، جہاں تک اس روایت کا تعلق ہے ، آپ البانی کی کتاب پڑھ لیں ، اس میں کئی سندیں درج ہیں کہ جن میں شہر ابن حوشب نہیں ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment