سیرت و تعلیماتِ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کبھی تو بیان کر اے واعظ حصّہ دوم
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ عصمت وطہارت ، اخلاق فاضلہ ، اور اوصافِ حمیدہ کے مجسمہ تھے ، آپ رضی اللہ عنہ کی عبادت و ریاضت ، زہد و ورع ، اور خشیت و للہیت ، کا ، دوست و دشمن سب قائل تھے ۔ عبادت گزاری کی یہ حالت تھی کہ : آپ رضی اللہ عنہ شب زندہ دار تھے ۔ ایامِ ممنوعہ کے علاوہ ہمشہ روزہ سے ہوتے تھے ، قرآن مجید کی کثرت سے تلاوت فرماتے تھے ۔ روایتوں میں آتا ہے کہ : آپ رضی اللہ عنہ کئی حج پیدل فرمائے ۔ صاحب اسد الغابہ لکھتے ہیں : کان الحسین رضی اللہ عنہ کثرالصوم والصلاۃ والحج والصدقۃو افعال الخیر جمیعا ۔ (اسدالغابہ جلد ٢ صفحہ ٢٧)
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ابتدائی عمر ہی سے اصلاح و تعلیم کی طرف رجحان رکھتے تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا علمی مقام و مرتبہ بہت بلند تھا ، اور کیوں نہ ہوں جس نے باب علم کی آغوش میں آنکھیں کھولی ہوں ۔ اس کےعلم و کمال کا کیا پوچھنا ۔ باب العلم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بہت سے علوم و فنون آپ رضی اللہ عنہ نے براہِ راست سیکھے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ چوں کہ قضا و افتا میں بڑی شان اور مقام و مرجعیت رکھتے تھے ، اس لیے امام حسین رضی اللہ عنہ کو بہت سے مورثی علم سے وافر حصہ عطا کیا گیا تھا ۔ (اسدالغابہ جلد ٢ صفحہ ٢٧)
حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے احیا ء العلوم میں حضراتِ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی سخاوت کا ایک عجیب واقعہ ذکر کیا ہے : ابوالحسن مدائنی کہتے ہیں کہ حضرت امام حسن ، امام حسین اور حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم حج کےلیے تشریف لے جارہے تھے ، راستے میں اُن کے سامان کے اُونٹ ان سے جدا ہو گئے ، یہ بھوکے پیاسے چل رہے تھے ایک خیمہ پر اُن کا گزر ہوا ۔ اس میں ایک بوڑھی عورت تھی ۔ ان حضرات نے اس سے پوچھا کہ ہمارے پینے کو کوئی چیز( پانی یا دُودھ لسی وغیرہ) تمھارے پاس موجود ہے ؟ اس نے کہا ، ہے ۔ یہ لوگ اپنی اونٹنیوں پر سے اُترے ۔ اس بڑھیا کے پا س ایک بہت معمولی سی بکری تھی اس کی طرف اشارہ کرکے اُس نے کہا کہ اس کا دودھ نکال لو اور اس کو تھوڑا تھوڑا پی لو ۔ ان حضرات نے اس کا دودھ نکالا اور پی لیا ۔ پھر اُنہوں نے پوچھا کہ کوئی کھانے کی چیز بھی ہے ؟ اُس بڑھیا نے کہا کہ یہی بکری ہے ۔اس کو تم میں سے کوئی ذبح کرلے تو میں پکا دوں گی ۔ اُنہوں نے اس کو ذبح کیا اس نے پکایا ۔ یہ حضرات کھا پی کرجب شام کو چلنے لگے تو انہوں نے اس بڑھیا سے کہا کہ ہم ہاشمی لوگ ہیں اس وقت حج کے ارادہ سے جا رہے ہیں ۔ اگر ہم زندہ سلامت واپس مدینہ پہنچ جائیں تو تو ہمارے پاس آنا ، تیرے اس احسان کا بدلہ دیں گے ۔ یہ حضرات تو فرماکر چلے گئے شام کو جب اس کا خاوند (کہیں جنگل وغیرہ سے) آیاتو اس بڑھیا نے ہاشمی لوگوں کو قصہ سُنایا ، وہ بہت خفا ہوا کہ تو نے اجنبی لوگوں کے واسطے بکری ذبح کر ڈالی۔ معلوم نہیں کون تھے کون نہیں تھے۔پھر کہتی ہے کہ ہاشمی تھے ۔غرض وہ خفا ہوکر چُپ ہو گیا ، کچھ زمانہ کے بعد ان دونوں میاں بیوی کو غربت نے جب بہت ستایا تو یہ محنت مزدوری کی نیت سے مدینہ منورہ گئے ۔ دن بھر مینگنیاں چُگا کرتے او ر ان کو بیچ کر گزر کیا کرتے ۔ ایک دن وہ بڑھیا مینگنیاں چُگ رہی تھی ۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اپنے دوازے کے آگے تشریف رکھتے تھے جب یہ وہاں کو گزری توا س کو دیکھ کر حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے اس کو پہچان لیا اور اپنے غلام کو بھیج کر اس کو اپنے پاس بلوایا اور فرمایا کہ اللہ کی بندی تو مجھے بھی پہچانتی ہے ؟ اس نے کہا میں نے تو نہیں پہچانا ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تیرا وہی مہمان ہوں دودھ او ربکری والا ۔ بڑھیا نے پھر بھی نہ پہچانا اور کہا کیا خدا کی قسم تم وہی ہو ، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں وہی ہوں اور یہ فرما کر آپ نے اپنے غلاموں کو حکم دیا کہ اس کےلیے ایک ہزار بکریاں خریدی جائیں ۔ چنانچہ فوراً خریدی گئیں اور ان بکریوں کے علاوہ ایک ہزار دینار (اشرفیاں) نقد بھی عطا فرمائے اور اپنے غلام کے ساتھ اس بڑھیا کو چھوٹے بھائی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا کہ بھائی نے کیا بدلہ عطا فرمایا ؟ اس نے کہا ایک ہزار بکریاں اور ایک ہزار دینار ۔ یہ سُن کر اتنی ہی مقدار دونوں چیزوں کی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے عطا فرمائی ۔ اس کے بعد اس کو حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کے پاس بھیج دیا اُنہوں نے فرمایا کہ ان دونوں حضرات رضی اللہ عنہما نے کیا کیا مرحمت فرمایا اور جب معلوم ہوا کہ یہ مقدار ہے تو اُنہوں نے دوہزار بکریاں اور دو ہزار ددینار عطا فرمائے اور یہ فرمایا کہ اگر تو پہلے مجھ سے پہلے مل لیتی تو میں اس سے بہت زیادہ دیتا ۔ یہ بڑھیا چار ہزار بکریاں اور چار ہزار دینار (اشرفیاں ) لے کر خاوند کے پاس پہنچی کہ یہ اُس ضعیف اور کمزور بکری کا بدلہ ہے ۔ (احیاء العلوم جلد ٣ صفحہ ٢٤٩،چشتی)
علامہ کردری رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقدس نواسوں (حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما) نے ایک مرتبہ دریائے فرات کے کنارے ایک بوڑھے دیہاتی کو دیکھا کہ اس نے بڑی جلدی جلدی وضو کیا اور اسی طرح جلدی جلدی نماز پڑھی ، اور جلدبازی میں وضو او رنماز کے مسنون طریقوں میں اس سے کوتاہی ہو گئی ۔ حضرت امام حسن و حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما نے اسے سمجھانا چاہا ۔اُنہیں یہ اندیشہ ہواکہ یہ بوڑھا آدمی ہے اپنی غلطی سُن کو کہیں مشتعل نہ ہو جائے ، چنانچہ ددنوں حضرات رضی اللہ عنہما اُس بوڑھے کے قریب آئے اور کہا : ہم دونوں جوان ہیں اور آپ تجربہ کار آدمی ہیں آپ وضو اور نماز کا طریقہ ہم سے بہتر جانتے ہوں گے ، ہم چاہتے ہیں کہ آپ کو وضو کرکے اور نماز پڑھ کے دکھائیں ۔ اگر ہمارے طریقہ میں کوئی غلطی یا کوتاہی ہو تو آپ ہماری رہنمائی فرمائیں اس کے بعد دونوں نے سنت کے مطابق وضو کرکے نماز پڑھی ، بڑے میا ں نے دیکھا تو اپنی کوتاہی سے توبہ کی اور آئندہ یہ طریقہ چھوڑ دیا ۔ (مناقب الامام الاعظم للعلامة الکردری)
ایک مرتبہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے پاس ایک شخص کی آواز سنی کہ وہ اللہ عزوجل سے دس ہزار دِرہم کا سوال کر رہا ہے ۔ تو آپ رضی اللہ عنہ یہ سُنتے ہی گھر تشریف لے گئے اور دس ہزار درہم ا س کے پاس بھجوادیے ۔ (تاریخ دمشق جلد ۱۳ صفحہ ۲۴۵)
ایک شخص آپ رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور تنگدستی کی شکایت کی تو آپ رضی اللہ عنہ نے اسے ایک لاکھ درہم عنایت فرما دیے ۔ (تاریخ دمشق جلد ۱۳صفحہ ۲۴۵)
ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک شخص نے اپنی تنگدستی ، ناداری ، فقر و فاقہ کا حال بیان کیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے عامل کو بلایا اور فرمایا پچاس ہزار اشرفیاں ان کو دے دیجیے ۔ (طبقاتِ کبریٰ) ۔ حضرت امام محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ اس کے بعد یہ بھی بیان فرماتےہیں کہ اس شخص سے پچاس ہزار اشرفیاں اٹھائی نہ گئیں تو اس نے مزدور بلایا ۔ وہ شخص جب دو مزدور لایا تو امام حسن رضی اللہ عنہ نے دونوں مزدوروں کی اجرت بھی دے دی ۔ غلاموں نے عرض کی کہ حضور اب تو ہمارے پاس ایک اشرفی بھی نہیں بچی ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ عزوجل کے ہاں اجر بھی ملے گا اور زیادہ ملے گا ۔ (احیاء العلوم جلد ۳ صفحہ ۳۰۶،چشتی)
حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور و معروف کتاب ’’کشف المحجوب‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ سے ایک آدمی نے سوال کیا ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بیٹھ جاؤ ! ہمارا وظیفہ آنے والا ہے ، جیسے ہی وظیفہ پہنچے گا آپ کو دے دیا جائے گا ۔ ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک ایک ہزار دینار کی پانچ تھیلیاں پہنچ گئیں ۔ تھیلیاں پہنچانے والوں نے عرض کیا کہ حضرت امیرِ مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے مَعْذرت کی ہے کہ یہ تھوڑی سی رَقْم ہے ، اسے قبول فرمالیں ، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے ساری رقم اس غریب آدمی کے حوالے کر دی اور اس سے مَعْذرت چاہی ۔ (کشف المحجوب صفحہ ۷۷،چشتی)
حضرت عمرو رضی اللہ عنہ اپنے والد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی اہلیہ رضی اللہ عنہا یہ پیغام لے کر گئیں کہ '' ہم نے آپ کےلیے لذیذ کھانا اور خوشبو تیار کی ہے ، آپ رضی اللہ عنہ اپنے ہم پلّہ دیکھیں اور انہیں ساتھ لے کر ہمارے پاس تشریف لائیں ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ مسجد میں گئے اور وہاں جو مساکین و سائلین تھے انہیں لے کر گھر تشریف لے گئے ۔ ہمسایہ خواتین بھی آپ کی اہلیہ رضی اللہ عنہا کے پاس آگئیں اوراُن سے کہنے لگیں ، اللہ کی قسم تمہارے گھر تو مَساکین جمع ہو گئے ۔ پھر حضرت اما م حُسین رضی اللہ عنہ اپنی اہلیہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا میں تمہیں اپنے اس حق کی قسم دیتاہوں جو میرا تجھ پر ہے کہ تم کھانا اور خُوشبو بچا کر نہیں رکھو گی ۔ پھر اُنہوں نے ایسے ہی کیا ۔ آپ نے مساکین کو کھانا کھلایا انہیں کپڑے پہنائے اورخوشبو لگائی ۔ (حسن اخلاق صفحہ 62)
آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اِنَّ خَیۡرَالۡمَالِ مَا وَقیٰ الۡعَرۡضَ ، بہترین مال وہی ہے کہ جو کسی کی عزت وآبرو کو محفوظ کرنے کا وسیلہ بن جاۓ ۔ (تاریخِ دمشق جلد ۱۴ صفحہ ۱۸۱)
حضرت امامِ حُسین رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ تشریف لے جا رہے تھے کہ راستے میں چند غریب لوگ کھانا کھا رہے تھےاُنہوں نے جب آپ کو دیکھا تو دوڑتے ہوۓ آپ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور عرض کیا کہ حُضُور آئیے اور ہمارے ساتھ کھانا تناول فرمائیے ۔ آپ رضی اللہ عنہ اُسی وقت اُن غُرَباء کے حَلۡقہ میں جا بیٹھے اور اُن کے ساتھ کھانا تَناوُل فرمایا ۔اور فرمایا کہ مجھے کھانے کی حاجت تونہیں تھی لیکن تمہاری خوشی کی خاطر چند لقُمۡے کھا لیتا ہوں ۔ (تاریخ دمشق جلد ۱۴ صفحہ ۱۸۱،چشتی)
ایک مرتبہ حضرت امام حَسَن رضی اللہ عنہ کا کچھ ایسے مَسَاکین پر سے گُزر ہوا جو راستے میں بیٹھے لوگوں سے سُوال کر رہے تھے اور زمین پر بِکھرے ہوئے روٹی کے بچے کھچے ٹُکڑے کھارہے تھے ، آپ نے اُنہیں سَلام کیا ، اُنہوں نے سلام کا جواب دینے کے بعد عرض کی : اے نواسۂ رسول! تشریف لائیے اور ہمارے ساتھ کھانا تَناوُل فرمائیے ! جب اُنہوں نےکھانے کی دعوت دی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ عزوجل بَڑَائی چاہنے والوں کو پسند نہیں فرماتا ۔ پھرآپ سُواری سے نیچے تشریف لائے اوراُن کے ساتھ کھانا تَنَاوُل فرمایا ۔ جاتے ہوئے اُنہیں سلام کیا اور فرمایا : میں نے تمہاری دَعوت قَبُول کی ، تم بھی میری دعوت قَبُول کرو ۔ اُنہوں نے عرض کی : حُضُور ! جیسے آپ فرمائیں ، آپ رضی اللہ عنہ نے اُن سے ایک مُعَیَّن وقت طَے کر لیا ، جب وہ آپ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو آپ نے اُنہیں عُمدہ کھانا کھلایا اور خود بھی اُن کے ساتھ کھانا تنَاَوُل فرمایا ۔ (احیاء العلوم جلد ۲ صفحہ ۲۳۲،چشتی)
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے والد ماجد حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : علم کا طلب کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے ۔ (معجم صغیر طبرانی جلد 1 صفحہ 58 حدیث نمبر 61)
علم بلا شبہ اللہ کا نور ہے اور اس نور سے پرودگار عالم اسی کو نوازتا ہے جسے اپنا محبوب و مقرب بناتا ہے ، ورنہ علم ہر کسی کا مقسوم کہاں! علم دراصل اعزاز بشریت ، شرف انسانیت اور افتخار آدم و بنی آدم ہے ۔ وہ علم ہی تھا جس کی وجہ سے حضرت آدم کو جملہ ملائکہ پر فضیلت و برتری بخشی گئی ، اور وہ علم ہی ہے جس کی وجہ سے علمائے ربانیین ، انبیاۓ کرام علیہم السلام کے وارثین قرار دیے گئے ۔ مختصر یہ کہ اسلام میں علم و حکمت کو غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے اور قرآن و حدیث میں جا بجا اس کی عظمت و فضیلت کے قصیدے پڑھے گئے ۔ علم کی فضیلت کے باب میں اس سے بڑی شہادت اور کیا ہو سکتی ہے کہ جب آخری آسمانی کتاب قرآن کریم کی آیتوں کے نزول کا وقت آیا تو دیکھیے کہ وحی الٰہی کا آغاز علم و تعلیم کی قدر و منزلت اجاگر کرتے ہوئے ہو رہا ہے ۔ سورہ اقرأ کی ان پانچ ابتدائی آیات میں صبح قیامت تک پیدا ہونے والے علوم و معارف کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔ مگر شرط یہ رکھی گئی ہے کہ اس کا آغاز اللہ کے نام سے ہونا چاہیے اور اس کی بنیاد اسم ربک کی اینٹوں پر قائم ہونی چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں روح علم سمجھنے اور اس کے فروغ میں کوشاں رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : تین خصلتیں جس کے اندر نہ ہوں اس کا اللہ و رسول سے کوئی تعلق نہیں ۔ پوچھا گیا وہ کیا ہیں ؟ تو فرمایا : (1) ایسا حلم و بردباری جس سے جاہل کی جہالت کا جواب دیا جا سکے ۔ (2) ایسا حسن اخلاق جس کے باعث وہ لوگوں میں (عزت و آبرو کے ساتھ) جی سکے ۔ (3) ایسا زہد و ورع جو اسے اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے روک سکے ۔ (معجم اوسط طبرانی جلد 5 صفحہ 120 حدیث نمبر 4848،چشتی)
امت مسلمہ کی مجموعی صورت حال پر نظر کرنے کے بعد یہ ناخوشگوار تاثر ملتا ہے کہ گویا ہمارے نزدیک کتاب و سنت کی تعلیمات و ہدایات صرف پڑھنے اور سننے کےلیے ہیں ، برتنے اور اپنانے کےلیے نہیں ، حالانکہ اللہ عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان رکھنے والے ایک سچے مسلمان کی شان یہ ہونی چاہیے کہ وہ خود بھی سچا ہو اور اس کے جملہ معاملات بھی درست ہوں ، نیز وہ اخلاقِ فاضلہ اور اوصافِ حمیدہ کا مالک ہو ۔ دنیا کا تو کیا ہے ، بس ایک پرایا گھر سمجھ کر ہمیں اس میں آبرو مندانہ طریقے پر آخرت کےلیے بھرپور تیاری کر لینی چاہیے ۔
کسی کو نصیحت کرنا یا اسے اچھی بات بتانا گویا کہ اس پر احسان کرنا ہے ، قراٰنِ حکیم میں کئی جگہ نصیحت کی گئی ہے جس سے نصیحت کی اہمیت و افادیت معلوم ہوتی ہے ، نصیحت کی ضرورت و اہمیت کے پیشِ نظر ہمارے بزرگانِ دین رحمۃ اللہ علیہم نے بھی لوگوں کو بہترین نصیحتیں فرمائی ہیں ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ بھی لوگوں میں وعظ و نصیحت فرمایا کرتے تھے ۔ حضرت امامِ حسین رضی اللہ عنہ نے میدانِ کربلا میں اور اپنی مبارک حیات کے دیگر مواقع پر جو خُطبات اور نصیحت آموز اَشعار ارشاد فرمائے ان میں سے چند منتخب نصیحتیں ملاحظہ کیجئے : ⬇
(1) اے لوگو! اچھے اَخلاق میں رغبت کرو ، نیک اعمال میں جلدی کرو ، جس نے کسی پر احسان کیا ہواور وہ اس کا شکر ادا نہ کرے تو احسان کرنے والے کو اللہ پاک عوض عطافرماتا ہے ۔ یقین کرو نیک کام میں تعریف ہوتی ہے اور ثواب ملتا ہے ، اگر تم نیکی کو کسی مرد کی صورت میں دیکھ سکتے تو اسے بہت حسین و جمیل دیکھتے جو دیکھنے والے کو بَھلا لگتا اور اگر تم مَلامت اور بَدی کو دیکھ سکتے تو بدترین منظر دیکھتے جس سے دل نفرت کرتے اور نظریں نیچی ہو جاتی ہیں ۔ اے لوگو ! جو سخاوت کرتا ہے وہ سردار ہوتا ہے اور جو بُخل کرتا ہے وہ ذلیل و رُسوا ہوتا ہے ۔ زیادہ سخی وہ شخص ہے جو اس شخص پر سخاوت کرے جسے اس کی اُمید نہ ہو ۔ زیادہ پاک دامن اور بہادُر وہ شخص ہے جو بدلہ لینے پر قادر ہونے کے باوجود مُعاف کر دے ، زیادہ صِلۂ رحمی کرنے والا شخص وہ ہے جو قَطْعِ تعلق کرنے والے رشتے داروں سے تعلق جوڑے ۔ جو شخص اپنے بھائی پر احسان کر کے اللہ کی رضا چاہے اللہ پاک مشکل وقت میں اس کا بدلہ دیتا ہے اور اس سے سخت مصیبت ٹال دیتا ہے ۔ جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی سے دنیوی مصیبت دور کی اللہ پاک اس سے اُخرَوی مصیبت دور کرتا ہے اور جو کسی پر احسان کرے اللہ کریم اس پر احسان فرماتا ہے اور احسان کرنے والے اللہ کے پیارے ہیں ۔
(2) اگرچہ دنیا اچھی اور نفیس سمجھی جاتی ہے مگر اللہ کا ثواب بہت زیادہ اور نفیس ہے ۔
(3) رزق تقدیر میں تقسیم ہوچکے ہیں لیکن کَسْب میں انسان کا حرص نہ کرنا اچھا ہے ۔
(4) مال دنیا میں چھوڑ کر ہی جانا ہے تو پھر انسان مال میں بُخل کیوں کرتا ہے ؟
(5) جب اذیت دینے کےلیے کوئی شخص کسی سے مدد چاہے تو اس کی مدد کرنے والے اور ذلیل و رُسوا لوگ سب برابر ہیں ۔ (نورالابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار صفحہ 152 ، 153،چشتی)
حضرت ابو سعد میثمی بیان کرتے ہیں کہ میں نے سبطِ پیمبر امام حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شہرت کا لباس پہنتا ہے اللہ اسے آگ کا لباس پہنائے گا ۔ (الذریۃ الطاہرۃ دولابی صفحہ 199 حدیث نمبر 164)
دنیاوی اعتبار سے مشہور و معروف ہونا تو ظاہر ہے کہ آفتوں اور فتنوں میں مبتلا ہو جانے اور ایمانی امن و سلامتی کی راہ سے دور جا پڑنے کا سبب ہے ہی ، لیکن اگر کوئی شخص اپنی زندگی کے اعتبار سے مشہور و معروف ہوتا ہے تو وہ بھی خطرے سے خالی نہیں ؛ کیونکہ اس صورت میں اس کے ریاکار ہونے کا گمان کیا جا سکتا ہے ، اور ہو سکتا ہے کہ وہ اس شہرت کی وجہ سے اپنی قیادت و پیشوائی کی طلب و جاہ میں مبتلا ہو جائے اور یہ تمنا کرنے کہ لوگ اس کو اپنا مقتدا اور اپنی عقیدت و احترام کا مرکز بنا لیں اور اس طرح وہ شیطان کے بہکانے اور نفس امارہ کے اکسانے کی وجہ سے ان نفسانی خواہشات کی اتباع میں مبتلا ہو سکتا ہے جو ایسے موقعوں کی تاک میں رہتی ہیں ۔ چنانچہ ایسے بندگانِ خدا کم ہی ہوتے ہیں جنہیں عوامی شہرت و ناموری حاصل ہوئی اور وہ اس کے نتیجہ میں پیدا ہو جانے والی برائیوں سے محفوظ و مامون رہے ۔ ہاں وہ خصوصی بندے جنہیں اللہ تعالیٰ اپنا مقرب و محبوب بنا لیتا ہے اور وہ صدیقیت کے مرتبے پر فائز ہوتے ہیں وہ تمام عالم کی شہرت و ناموری رکھنے کے باوجود اس کی برائیوں سے محفوظ رہتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اس بلند ترین مرتبہ پر فائز ہی اس وقت ہوتے ہیں جب کہ ان کے ظاہر و باطن سے تمام برائیاں مٹ چکی ہوتی ہیں اور ان کا نفس پوری طرح پاکیزہ و شفاف ہو جاتا ہے ۔
ایک حدیث پاک میں یہ بھی آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : انسان کی برائی کے لئے اتنا کافی ہے کہ دین یا دنیا کے اعتبار سے اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ کیاجائے ۔ الا یہ کہ کسی کو اللہ تعالیٰ ہی محفوظ رکھے ۔
اس حدیث کے آخری جملے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شہرت و ناموری کا نقصان دہ اور باعث برائی ہونا اس شخص کے حق میں ہے جس کے ظاہر و باطن پر جاہ و اقتدار اور شہرت و ناموری کی طلب و خواہش کا سکہ بیٹھ چکا ہو ، جب کہ اہل اللہ اس سے مستثنیٰ ہیں ؛ کیونکہ عوامی مقبولیت و شہرت اور جاہ و اقتدار بذات خود کوئی بری چیز نہیں ہیں بلکہ اللہ کی نعمت ہیں جو وہ اپنے پاک نفس بندوں کو عطا فرماتا ہے جو ان چیزوں کے اہل و مستحق ہوتے ہیں اور جن کے حق میں وہ چیزیں فتنہ و برائی کا باعث بننے کی بجائے بلندی درجات کا باعث بنتی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے بندگانِ خاص کی نسبت فرمایا : واجعلنا للمتقین اماما ۔
منقول ہے کہ حضرت امام حسن بصری رضی اللہ عنہ کی بے پناہ عوامی شہرت و مقبولیت دیکھ کر ایک شخص نے ان سے کہا کہ : آپ تو لوگوں میں اس قدر مشہور و نمایاں ہو گئے ہیں جب کہ فرمانِ رسالت مآب ہیں کہ "انسان کی برائی کےلیے ۔ حضرت امام حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشاد گرامی کا تعلق اس شخص سے ہے جو دین کے اعتبار سے بدعتی اور دنیا کے اعتبار سے فاسق ہو یعنی جو شخص دنیا میں مالداری و ثروت رکھتا ہے اور اس مالداری و ثروت کی وجہ سے مشہور و معروف ہو ، لیکن فسق و فجور میں مبتلا نہ ہو اور دین کے اعتبار سے کتاب و سنت کی اتباع و پیروی کرتا ہو تو وہ شخص اس حکم میں داخل نہیں ہے ۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے گویا پوری دنیا کی شجاعت کو اپنے اندرسمیٹ رکھا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ اس معمولی اور انگشت شمار دوست و احباب کے ساتھ یزید کے لاکھوں کی تعداد میں لشکر کے مقابلہ میں صف آرا ہو گئے اور جنگ کے یقینی ہونے کے بعد ذرہ برابر خوف و ہراس آپ رضی اللہ عنہ کے چہرے پر ظاہر نہیں ہوا ۔ اس کے باوجود کہ اپنی اور اپنے اصحاب کی شہادت پر یقین کامل رکھتے تھے پورے انتظام کے ساتھ اپنی مختصر سی فوج کو تیار کیا اور پورے اقتدار اور دلیری کے ساتھ جنگ کو قبول کر لیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی آنکھوں کے سامنے آپ کے اعزاء و اقرباء اور اصحاب و انصار رضی اللہ عنہم خون میں غلتیدہ ہو گئے لیکن ہرگز آپ رضی اللہ عنہ ۔ دشمن کے سامنے سرِ تسلیم نہیں کیا ۔ اور جب اپنی جنگ کی باری آئی ، تو شیر دلاور کی طرح دشمن پر ایسا حملہ کیا کہ ان کی صفوں کو چیرتے ہوئے لاشوں پر لاشے بچھا دیے ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حق کے سلسلہ میں استقامت و پائیداری حامل تھے ، آپ رضی اللہ عنہ نے حق کی خاطر اس مشکل راستہ کو طے کیا ، باطل کے قلعوں کو مسمار اور ظلم و جور کو نیست و نابود کر دیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے تمام مفاہیم میں حق کی بنیاد رکھی ، تیر برستے ہوئے میدان کو سر کیا ، تاکہ اسلامی وطن میں حق کا بول بالا ہو ، سخت دلی کے موج مارنے والے سمندر سے امت کو نجات دی جائے جس کے اطراف میں باطل قواعد و ضوابط معین کیے گئے تھے ، ظلم کا صفایا ہو ، سرکشی کے آشیانہ کی فضا میں باطل کے اڈّے ، ظلم کے ٹھکانے اور سرکشی کے آشیانے وجود میں آ گئے تھے ، امام رضی اللہ عنہ نے ان سب سے روگردانی کی ہے ۔ اللہ عزوجل ہمیں اُن کے نقشِ قدم پر چلنے اور اہلبیتِ اطہار ، ازواجِ مطہرات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت و ادب کی توفیق عطا فرماۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment